تجسس سائنس فورم پر خوش آمدید! یہ ویب سائٹ اردو زبان میں سائنسی موضوعات پر گفتگو کے لیے وقف ہے۔
کوئی بھی نیا موضوع شروع کرنے کے لیے یا پہلے سے چل رہی کسی گفتگو کا حصہ بننے کے لیے مجلس میں جا کر متعلقہ زمرے کا چکر لگائیں۔
ہمارے کتب خانے میں موجود کتابیں دیکھنے کے لیے کتب خانہ کے ربط پر کلک کریں۔
اردو اور انگریزی میں پائی جانے والی مختلف سائنسی اصطلاحات کے معنی اور تشریح جاننے کے لیے فرہنگ سائنسی اصطلاحات کی طرف تشریف لے جائیں۔
ایف ایم ریڈیو یا ایف ایم رسیورایساالیکٹرونک آلہ ہے جو ریڈیائی لہروں کو وصول کرتا ہے اور ان کے ذریعہ کی جانے والی معلومات کو قابل استعمال شکل میں تبدیل کرتا ہے۔ مطلوبہ فریکوئنسی کی ریڈیائی لہروں کو وصول کرنے کے لئے این ٹینا استعمال کیا جاتا ہے۔ این ٹینا سے متعدد ریڈیائی سگنل ٹکراتے ہیں۔ ان سگنلز میں سے مطلوبہ فریکوئنسی کے سگنلز کو الگ کرنے کے لئے الیکٹرونک فلٹرز استعمال کیے جاتے ہیں ۔ موصول شدہ سگنلز کی طاقت میں اضافہ کرنے کے لئے ایمپلی فائر استعمال کیا جاتا ہے۔ ریڈیو رسیور ان تمام مرحلوں سے گزرنے کے بعد آخر کار ڈی ماڈولیشن کے عمل سےمطلوبہ معلومات کو بازیافت کرتا ہے۔
فریکوینسئ ماڈولیشن طری
جنوری 2018ء میں پنجاب فوڈ اتھارٹی نے ”چائنیز نمک“ (آجینوموتو) پر پابندی لگا دی۔ یہ فیصلہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کے سائنٹفک پینل کی اس حوالے سے تحقیق کے نتیجے میں کیا گیا۔ پینل کا کہنا تھا کہ اس نمک میں پایا جانے والا مونوسوڈیم گلوٹامیٹ (Monosodium glutamate) جسے مختصراً MSG بھی کہا جاتا ہے، صحت کے بہت سے مسائل کا سبب بنتا ہے جن میں سر درد، تھکن، متلی، قے کا آنا، پسینے آنا اور چہرے کا سرخ اور سن ہونا شامل ہیں۔ پینل کا مزید کہنا تھا کہ یہ ہائپرٹینشن کا بھی سبب بنتا ہے اور حاملہ خواتین کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
یہ سرکٹ ایسے ریموٹ کنٹرول کے لئے ہے جو پنکھے کو کنٹرول کرتا ہے۔ یہ نہ صرف پنکھے کو آن یا آف کرتا ہے بلکہ اس کی رفتار بھی کنٹرول کر سکتا ہے۔ پنکھے کے لئے تالی سے چلنے والے ریموٹ کنٹرول کا بنیادی فائدہ یہ ہے کہ یہ پنکھے کی رفتار کی دس مختلف حدوں تک کو کنٹرول کر سکتا ہے ۔ جبکہ عام دستیاب پنکھوں میں تین سے پانچ مرحلوں میں رفتار کنٹرول ہوتی ہے۔
جن دنوں ٹیوبوں والے ریڈیو اور ٹی وی عام تھے ان ہی دنوں الیکٹرونک ٹیکنیشئن حضرات کو ان کی مرمت کے سلسلے میں بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے تھے۔ پاکستان میں روایتی مکینک حضرات گلی محلوں میں اپنی اپنی ورکشاپیں کھول کر ریڈیو ٹی وی کی خرابیوں کو دور کرتے تھے لیکن پیچیدہ خرابیوں کی صورت میں ان کو بے حد مشکلات کا سامنا تھا۔
عبّاس زہیر نے بدھ, 07/08/2015 - 15:32 پر ارسال کیا
تمہید
حیات کا بھید
صرف چند ہی ایسے عظیم سوالات ہیں جو اس سوال کا مقابلہ کر سکتے ہیں مثلاً حیات کیا ہے اور اس کی شروعات کیسے ہوئی ؟ یہ ہمیشہ سے صرف اکیلی سائنس کے لئے ہی نہیں بلکہ عمومی طور پر بھی ایک عظیم سوال رہا ہے ۔ اس کے جواب میں ہمیشہ سے کئی نمونے ، منظر نامے ، قیاس آرائیاں اور مفروضات پیش کئے گئے جس میں سے افسوس کہ زیادہ تر ناکام ہی ہوئے ۔ انیسویں صدی کا وسطی حصّہ بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں تھا ۔ لیکن شمالی بحر اوقیانوس کی گہرائی میں ٹیلی گراف کے تاروں کے پہلو سے نکلی ہوئی چکنی کیچڑ شاید کچھ تبدیلی کا عندیہ دے سکتی تھی۔
یہ صفحات الیکٹرونکس کے لیے وقف کیے گئے ہیں۔ تاہم چند تکنیکی دشواریوں کی بنا پر ان صفحات کو “کتاب“ کی ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس میں الیکٹرونکس سے متعلق تمام تدریسی مواد شامل ہے۔ مسلسل افادے اور قارئین کی ضروریات کے پیش نظر مندرجات میں ترمیم و اضافے کا سلسلہ جاری رہے گا۔
یہ کتاب مشہور زمانہ نظریاتی طبیعیات دان میچو کاکو کی کتاب"Physics of the Impossible" کا ترجمہ کرنے کی کوشش ہے ۔ کسی بھی کتاب کو ترجمہ کرنے کا یہ میرا پہلا تجربہ ہے لہٰذا اس میں کافی زیادہ غلطیوں کا احتمال ہوگا ۔ ہرچند یہ ایک طویل کتاب ہے لیکن اس میں دلچسپی لینے والے لوگوں کی رائے میری حوصلہ افزائی کرتی رہی تو انشاء الله اس کو جلد مکمل کرکے یہاں پر شایع کرتا رہوں گا ۔
پیش لفظ
اگر کوئی خیال شروع میں ہی فضول نہ لگے تو پھر اس سے کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی ہے۔
سٹار وارز (Star Wars) میں میلینئم فالکن صحرائی سیارے Tatooine کو تباہ کر دیتا ہے اور پھر ہمارے ہیروز لیوک سکائی واکر اور ہان سولو کو لے کے سیارے کے گرد چکر لگاتے خوفناک امپیریل جنگی جہازوں کے بیڑے سے ٹکرا جاتا ہے۔ ایمپائر کے جنگی جہاز ہمارے ہیروز کے جہاز پہ لیزر حملہ کرتے ہیں، جو میلینئم فالکن کے ریڈیائی لہروں کے حصار میں شگاف ڈال دیتی ہے۔ میلینئم فالکن کا فوجی حصار ختم ہو جاتا ہے۔ اسی دوران ہان سولو چیخ اٹھتا ہے کہ اب اُن کی واحد امید یہی ہے کہ وہ ہائپر سپیس میں چھلانگ لگا دیں۔ عین آخری لمحات میں، ہائپر ڈرائیو کے انجن میں زندگی کی لہر دوڑتی ہے اور ان کے آس پاس موجود تمام ستاروں کی در انفجاری (implode) مرکز کی طرف بڑھ جانے سے ایک سوراخ نمودار ہوتاہے اور میلینئم فالکن اس سوراخ سے گزر کر ہائپر سپیس میں داخل ہو جاتا ہے، جہاں آزادی اُس کی منتظر ہے۔
کیا یہ سائنسی کہانی ہے؟ بلاشبہ۔ لیکن کیا اِس کی بنیاد سائنسی حقائق پہ ہے؟ ہو سکتا ہے۔ روشنی سے زیادہ رفتار سے سفر کرنا ہمیشہ سے سائنسی کہانیوں کا مرکز و محور رہا ہے لیکن حال میں طبیعات دانوں نے اس کے ممکنات پہ سنجیدگی سے سوچنا شروع کیا ہے۔
راکٹس کی دریافت سے پیشتر چشمِ انسانی وسعتِ افلاک سے بے بہرہ تھی۔ انسان زمین کے طول و عرض کو ایک نئی جہت تک پہنچانے اور صدیوں پرانے رازوں سے پرہ اٹھانے میں مصروف تھا مگر اس کرۂ خاکی اور فضائے بے بسیط سے پرے کیا ہے، یہ اُس وقت انسانی عقل سے ماورا بات تھی۔