نا ممکن کی طبیعیات "Physics of Impossible" از میچو کاکو

مجالس:

یہ کتاب مشہور زمانہ نظریاتی طبیعیات دان میچو کاکو کی کتاب"Physics of the Impossible" کا ترجمہ کرنے کی کوشش ہے ۔ کسی بھی کتاب کو ترجمہ کرنے کا یہ میرا پہلا تجربہ ہے لہٰذا اس میں کافی زیادہ غلطیوں کا احتمال ہوگا ۔ ہرچند یہ ایک طویل کتاب ہے لیکن اس میں دلچسپی لینے والے لوگوں کی رائے میری حوصلہ افزائی کرتی رہی تو انشاء الله اس کو جلد مکمل کرکے یہاں پر شایع کرتا رہوں گا ۔

 

پیش لفظ

اگر کوئی خیال شروع میں ہی فضول نہ لگے تو پھر اس سے کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی ہے۔

  • البرٹ آئن سٹائن

 

کیا ایک دن یہ بات ممکن ہو سکے گی  کہ ہم دیوار میں سے آر پار ہو کر آسانی کے  گزر سکیں ؟ کیا  ہم ایسے بین النجم خلائی جہاز(Starships) جو سریع از نور (Faster Than Light)رفتار سے چلتے ہوں بنا سکیں گے ؟کیا ہم حاضر ہوتے ہوئے بھی لوگوں کی نظروں کے سامنے سے غائب ہو کر غیر مرئی(Invisible) ہو  سکیں  گے؟ کیا مستقبل میں ہم اس قابل ہو سکیں گے کہ  اشیاء کو صرف  اپنی دماغی طاقت سے ہلا سکیں ؟کیا ہم اپنے جسموں کو فی الفور خلاء کے دور دراز کے مقام میں منتقل کر سکیں گے ؟

 

میں اپنے بچپن سے ہی مذکورہ  بالا تمام سوالوں میں دلچسپی لیتا تھا۔دوسرے کئی طبیعیات دانوں کی طرح جب میں نے بھی شعور کی منزل میں قدم رکھا  تو مجھ پر،  وقت میں ممکنہ سفر (Time Travel)، اشعاعی بندوق (Ray Guns)، غیر مرئی حفاظتی ڈھال (فورس فیلڈForce Filed -  )، متوازی کائناتوں (Parallel Universes)اور اسی طرح کے دوسرے خیالات کی یلغار ہوتی رہتی تھی۔ جادو ،  انوکھے خیال ، سائنسی قصّے یہ سب کے سب میرے تخیل کے کھیل کے میدان ہوتے تھے۔انہوں نے میرے پوری زندگی پر مشتمل ناممکنات(Impossibilities) کے ساتھ عشق کی ابتداء کی۔

 

مجھے وہ وقت  یاد ہے جب پرانا فلیش گورڈن (Flash Gordon)  ٹیلی ویژن پر نشر مکرر کیا گیا تھا ۔ ہر ہفتے کو میں ٹیلی ویژن سیٹ کے سامنے چپک کر بیٹھ جاتا تھا  اور فلیش، ڈاکٹرزرکوف  (Dr. Zarkov) اور ڈیل آرڈین (Dale Arden)  کے جوکھموں  اور ان کی آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی مستقبل کی ٹیکنالوجی(Technology): خلائی جہاز ، غیر مرئی حفاظتی ڈھال ، شعاعی بندوق اور آسمانوں میں قائم شہروں کو دیکھ کر  عش عش کر اٹھتا تھا۔ کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرتا تھا  کہ جس میں اس سلسلے کی قسط نشر ہو اور میں اس کونہ دیکھوں ۔اس پروگرام نے میرے سامنے پوری ایک نئی دنیا کھول کر رکھ دی تھی ۔ یہ بات سوچ کر ہی مجھے تھر تھری آ جاتی تھی کہ میں کسی ایک دن کسی خلائی سیارے پر جا کر اس کے عجیب  اجنبی میدانوں کی چھان بین کر رہا ہوں گا۔ ان  تمام زبردست دریافتوں کی کشش نے یہ بات مجھ پر عیاں کردی تھی کہ میری منزل کسی طرح سے اس پروگرام میں دکھائی جانے والی سائنس کے عجوبوں میں لپٹی ہوئی ہے۔

 

 پھر بعد میں مجھ پر یہ عقدہ کھلا کہ اس دشت کی سیاحی میں صرف  میں ہی اکیلا نہیں تھا۔ کافی سارے اعلیٰ پائے کے سائنس دانوں نے سائنس میں دلچسپی ان سائنسی قصّوں کے ذریعہ ہی لی تھی ۔ عظیم فلکیات دان ایڈوِن ہبل(Edwin Hubble) جولیس ورن(Jules Verne) کے کام سے مسحور تھا۔ ورن کے کام کو پڑھ کر ہبل نے قانون میں امید افزا مقام کو چھوڑ کر اپنے والد کی نافرمانی کرتے ہوئے ان کی خواہش کے برخلاف  اپنا مستقبل سائنس کی دنیا میں شروع کیا۔ آخر کار وہ بیسویں صدی کا سب سے عظیم فلکیات دان بنا۔ کارل ساگاں (Carl Sagan)  جو ایک ممتاز فلکیات دان اور کئی ہاتھوں ہاتھ بکنے والی کتابوں کا مصنف  تھا اس نے اپنے تخیل کی بنیاد ایڈگر رائس بروس (Edgar Rice Burroughs) کے ناول جان کارٹر آف مارس (John Carter of Mars)سے ڈالی۔ جان کارٹر کی طرح اس نے ایک دن مریخ کی مٹی کو کھوجنے کا خواب دیکھا تھا۔

 

جب البرٹ آئن سٹائن کی موت ہوئی تو اس وقت میں اپنے لڑکپن کے عہد سے گزر رہا تھا ، مگر مجھے یہ بات اچھی طرح سے یاد ہے کہ لوگ اس کی زندگی اور موت کے بارے میں سرگوشیاں  کرتے تھے۔ آئن سٹائن کی موت کے اگلے دن میں نے اخبار میں اس کی میز کی تصویر کو دیکھا ، جس پر اس کا سب سے عظیم اور نامکمل کام کا مسودہ رکھا ہوا تھا۔ میں نے اپنے آپ سے سوال کیا  ایسی کونسی اہم چیز تھی جو اپنے دور کے مشاق سائنس دان سے مکمل نہیں ہو سکی ؟ اس مضمون میں یہ دعوی کیا گیا  تھا کہ آئن سٹائن نے ایک ناممکن چیز کا خواب دیکھا تھا ، ایک مسئلہ جو اس قدر گھمبیر تھا کہ اس کا حل  کسی فانی انسان کے بس کی بات نہیں تھی۔ مجھے یہ بات جاننے کے لئے برسوں لگ گئے کہ وہ مسودہ کس چیز کے بارے میں تھا ؟ وہ ایک عظیم وحدتی "ہر شئےکے نظریئے  " (Theory of Everything)کے بارے میں تھا۔ اس خواب نے اس کے زندگی کے آخری تین عشروں کو پی لیا تھا ، اور اسی چیز  نے مجھے اپنے تخیل پر مرتکز ہونے کے لئے مدد کی۔ میں چاہتا تھا کہ کسی بھی طرح سے میں بھی اپنا تھوڑا حصّہ آئن سٹائن کی ان کوششوں میں ڈالوں جس میں طبیعیات کے تمام مروجہ قوانین کو یکجا کرکے ایک نظریئے  میں پرویا جا سکے۔

 

 جب میں نے  شعور کی کچھ منازل کو طے کر لیا اس وقت مجھے احساس ہوا کہ اگرچہ فلیش گورڈن ایک جانباز تھا اور ٹیلی ویژن ڈرامے میں ہمیشہ اپنی محبوبہ کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا تھا ، اصل ہیرو تو سائنس دان تھے جنہوں نے ٹیلی ویژن کے اس سلسلے کو اس قابل بنایا تھا کہ اس کو نشر کیا  جا سکے۔ ڈاکٹر زرکوف   کے بغیر کوئی بھی خلائی جہاز نہیں بن سکتا تھا  ، نہ ہی مانگو کا سفر (Trip to Mongo) کیا جا سکتا تھا  اور نہ ہی زمین کو بچایا جا سکتا تھا۔ جانبازی کو چھوڑ دیجئے ، سائنس کے بغیر تو سائنسی قصوں  کا  بھی وجود نہیں ہوتا۔

            

بعد میں مجھے اس بات کا اندازہ ہوا کہ یہ کہانیاں تو سائنس کی رو سے تقریباً ناممکن تھیں  یہ تو صرف انسانی تخیل کی پرواز ہی تھیں۔ شعور کی منازل کو حاصل کرنے کا مطلب تھا کہ ایسی طلسمی کہانیوں کو اپنے ذہن سے دور کر دیا جائے۔ حقیقی دنیا میں مجھے بتایا گیا کہ ناممکنات کو چھوڑ کر قابل عمل چیزوں کو  گلے لگانا ہوتا ہے۔

 

بہرحال میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر مجھے اپنے  ناممکنات کی سحر انگیزی سے الگ نہیں ہونا تو یہ صرف اس وقت ہی ممکن ہے جب میں طبیعیات کی رو سے ان  کو جاننے کی کوشش کروں۔ جدید طبیعیات کی ٹھوس معلومات کے بغیر میں صرف مستقبل کی ٹیکنالوجی  کے بارے میں اندازے قائم کرتا رہوں گا  اس بات کو سمجھے بغیر کہ آیا وہ ممکن بھی ہیں یا نہیں۔ میں نے اس بات کو سمجھ لیا تھا کہ مجھے جدید ریاضی میں اپنے آپ کو غرق کرنا پڑے گا اور طبیعیات کو سیکھنا ہوگا۔ اور پھر میں نے یہ ہی کیا۔

 

میں نے کالج کے سائنس فیئر کے پروجیکٹ میں ، اپنے گھر کے گیراج میں ایک جوہری تصادم گر(Atom Smasher) بنایا۔ میں ویسٹنگ  ہاؤس کمپنی گیا جہاں سے ٤٠٠ پونڈ ٹرانسفارمر کا بچا کچا  سریا  حاصل کیا۔ کرسمس کے دنوں میں٢٢ میل کے تانبے کی تاروں کو کالج کے فٹبال کے میدان میں لپیٹا۔ آخر کار میں نے ٢٣ لاکھ الیکٹران وولٹ  برقی مسرع (اِنتہائی تیز رفتار الیکٹرون تیار کرنے کا آلہ جو ایک ٹرانسفارمر کی طرح کام کرتا ہے جس کو  انگریزی میں بیٹا ٹرون – Betatron کہتے ہیں ) کا ذرّاتی اسراع گر(Particle Accelerator) بنا لیا جو ٦ کلو واٹ پاور استعمال کرتا تھا (یہ  میرے گھر کی پوری بجلی کے برابر تھا ) اور زمین کے مقناطیسی میدان کے مقابلے میں ٢٠ ہزار گنا زیادہ  مقناطیسی میدان پیدا کرتا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ ایک گیما  شعاعوں کی کرن کو پیدا کیا جا سکے جو اس قدر طاقتور ہو جس سے ضد مادّہ (Anti Matter)پیدا ہو جائے۔

 

میرے سائنس فیئر کے اس پروجیکٹ نے مجھے نیشنل سائنس  فیئر میں جگہ دلوا دی  اور ہار ورڈ کا وظیفہ حاصل کر کے آخرکار میرا خواب پورا ہوا  جہاں میں اپنے مقصد یعنی کہ طبیعیات دان بننے کے لئے جدوجہد کر سکتا تھا  اور اپنے مثالی سائنس دان البرٹ آئن سٹائن کے نقش قدم پر چل سکتا تھا۔

 

آج مجھے سائنسی کہانیوں کے مصنفین  اور فلم نگاروں کے برقی خطوط ( ای میلز ) موصول ہوتی رہتی ہیں جس میں وہ مجھ سے  اپنی کہانیوں میں سچائی کا رنگ بھرنے کے لئے مدد مانگتے ہیں اور اس بات کو جاننا چاہتے ہیں کہ آخر ناممکنات کی آخری حد کیا ہے۔

 

"ناممکن" ایک  نسبتی چیز ہے

 

بطور طبیعیات دان ، اکثر میں نے یہ دیکھا ہے کہ ناممکن ایک نسبتی اصطلاح  (Relative Term) ہے۔ شعور کی منازل طے کرتے ہوئے مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میری استانی نے دیوار پر زمین کے نقشے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے جنوبی امریکہ اور افریقہ کی ساحل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ کیا یہ ایک عجیب اتفاق نہیں ہے کہ دونوں ساحل ایک دوسرے سے ایسے ملے ہوئے ہیں جیسے کہ  آڑا کٹا معمہ (Jigsaw Puzzle) ؟  کچھ سائنس دان بہرحال اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ شاید یہ کبھی ایک ہی بڑے وسیع بر اعظم کا حصّہ تھے۔ مگر مجھے ان کی  یہ بات کافی بیوقوفانہ  لگتی ہے   کوئی بھی طاقت اتنی توانا نہیں ہو سکتی کہ ان  دو عظیم بر اعظموں کو ایک دوسرے سے  دھکیل کر دور کر سکے۔ ایسا سوچنا ہی ناممکن ہے۔ انہوں نے نتیجہ بھی  اخذ کر لیا تھا۔

 

اگلے سال ہم نے ڈائنو سارس کا مطالعہ کیا۔ میرے استاد نے کہا ،کیا یہ بات بہت عجیب نہیں ہے کہ ڈائنو سارس زمین پر کروڑوں سال حکمرانی کرتے رہے اور ایک دن سب کے سب غائب ہو گئے ؟ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کیوں مر گئے۔ کچھ ماہر رکازیات (Paleontologist) سمجھتے ہیں کہ شاید خلاء میں سے آتے ہوئے کسی شہابیے نے ان سب کی جان لے لی  مگر یہ بات ناممکن ہے ایسا تو سائنسی قصّوں میں ہی ہوتا ہے۔

 

آج ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ ارضی سختائے ہوئے حصّوں (Plate Tectonics)کے ذریعہ بر اعظم حرکت کرتے ہیں  اور غالب گمان یہ ہی ہے کہ ٦۔٥ کروڑ سال پہلے ایک دیو قامت شہابیہ (Meteor)  جس کا حجم چھ میل کا تھا  اس نے زمین سے ٹکرا کر  اس کی سطح پر رہنے والے  ڈائنو سارس اور دوسری  پائی جانے والی حیات کا خاتمہ کر دیا تھا۔ میں نے اپنی  اس کوتاہ عرصہ حیات میں ناممکن نظر آنے والی چیزوں کو بار بار سائنسی حقیقت بنتے ہوئے دیکھا ہے۔ لہٰذا کیا  یہ سوچنا  ممکن ہے کہ ہم  مستقبل میں کسی ایک  دن اپنے آپ کو ایک جگہ سے  دور دراز  دوسری جگہ فی الفور منتقل (Teleport)کر سکیں  ، یا کوئی ایسا خلائی جہاز بنا سکیں  جو ایک دن ہمیں نوری برس (Light Year)کے فاصلوں پر موجود ستاروں پر کمند ڈالنے میں مدد کر سکے ؟

 

عام طور پر کوئی بھی ایسا کارنامہ آج کے طبیعیات دانوں کی نظر میں ناممکن ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ آنے والی چند صدیوں میں ممکن ہو سکے؟ یا آنے والی دس ہزار برسوں میں جب ٹیکنالوجی اور زیادہ جدید ہو جائے ؟ یا پھر دسیوں لاکھ سال گزرنے کے بعد ؟ اس کو ذرا دوسری طرح سے سوچیں ، اگر ہمارا سامنا کسی طرح سے ایک ایسی تہذیب  (Civilization) سے ہوتا ہے جو ہم سے دس لاکھ سال آگے ہو  تو کیا ان کی روزمرہ کی ٹیکنالوجی ہمیں جادو لگیں گی ؟ اس کتاب کی گہرائی میں ایک سوال ہر جگہ نظر آئے گا ،  کیا صرف اس لئے کوئی چیز آنے والی صدیوں یا لاکھوں برس کے مستقبل میں  ناممکن رہے گی کیونکہ ہم اس کو دور حاضر میں ناممکن سمجھتے ہیں ؟

 

پچھلی صدی میں سائنس کی ترقی کو دیکھتے ہوئے  بالعموم اور کوانٹم نظریئے (Quantum Theory)  اور عمومی اضافیت (General Relativity)   کی پیدائش کے بعد بالخصوص یہ بات ممکن ہو گئی ہے کہ  اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے کہ اگر ان ٹیکنالوجی کا ہونا ممکن ہے تو کب تک  بھلا ایسا ہو سکے گا۔ مزید جدید نظریوں کے پیش کئیے جانے کے بعد جیسا کہ اسٹرنگ کے نظریئے نے سائنسی کہانیوں میں موجود کئی چیزوں مثلاً  وقت میں سفر اور متوازی کائناتوں کے بارے میں  بھی ماہرین طبیعیات کو دوبارہ سے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ذرا آج سے ١٥٠ برس پہلے کے دور میں اُن ٹیکنالوجیز کا تصوّر کیجئے جن کو اس وقت کے سائنس دانوں نے ناممکن قرار دے دیا تھا  مگر آج وہ ہماری زندگی کا لازمی حصّہ بن چکی ہیں۔ جولیس ورن نے ایک ناول  ١٨٦٣ءمیں لکھا تھا  جس کا نام پیرس ان دی ٹوینٹتھ  سنچری تھا۔ یہ  ناول  لکھے جانے  کے بعد ایک صدی تک تالے میں بند رہا  اور اس وقت تک گمنامی کے اندھیروں  میں ڈوبا  رہا جب تک اس کو حادثاتی طور پر ورن کے پڑ پوتے نے دریافت نہیں کر لیا اور پہلی دفعہ یہ  ١٩٩٤ء میں شایع  ہوا۔ اس ناول  میں ورن نے اس بات کی پیش گوئی کی تھی کہ پیرس ١٩٦٠ء میں کیسا دکھائی دے گا۔ اس کے ناول میں ان ٹیکنالوجی کی بھر مار ہے جو انیسویں صدی میں ناممکن سمجھی جاتی تھیں ، جس میں فیکس مشین ، عالمگیر مواصلاتی نظام ، شیشے کی بلند و بالا عمارتیں ، تیل سے چلنے والی خود کار گاڑیاں اور تیز رفتار بالائی گزرگاہ والی ریل گاڑیاں وغیرہ شامل ہیں۔

 

اس بات میں کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ ورن نے اس قدر صحت کے ساتھ پیشگوئی کیسے کر لیں تھیں۔ اس کی وجہ تھی  وہ سائنس کی دنیا میں غرق رہتا تھا  اور اپنے ارد گرد موجود سائنس دانوں کے افکار  سے فائدہ اٹھانا جانتا  تھا۔ سائنس کی بنیادی باتوں کی گہرائی میں غور و فکر کرنے سے ہی اس نے ایسی چونکا دینے والی پیش گوئیاں کی تھیں۔

 

نہایت ہی افسوس سے یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ انیسویں صدی کے کچھ عظیم سائنس دانوں نے اس کے برخلاف سوچا اور بہت ساری ٹیکنالوجی کو ناامیدی کی حد تک ناممکن قرار دے ڈالا۔ لارڈ کیلون  (Lord Kelvin)، جو شاید وکٹورین دور کے سب سے ممتاز طبیعیات دان تھے (ان کو آئزک نیوٹن کے پہلو میں ویسٹ منسٹر ، ایبی میں دفن کیا ہوا ہے ) نے اس بات کا اعلان کردی تھا کہ "ہوا سے بھاری" کوئی بھی چیز جیسا کہ ہوائی جہاز   کو بنانا ممکن نہیں ہوگا۔ ان کا خیال تھا کہ ایکس ریز(X-rays) ایک افوہ ہے اور ریڈیو کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔ لارڈ ردرفورڈ  (Lord Rutherford) جس نے جوہر کا مرکزہ دریافت کیا تھا  اس نے جوہری بم کو چاند کی روشنی کے مماثل دے کر اس کے بنانے کے امکان کو ہی مسترد کر دیا تھا۔ انیسویں صدی کے کیمیا دانوں نے پارس پتھر یا سنگ جادو (جس کو فلاسفر اسٹون بھی کہتے ہیں ) – ایک ایسی چیز جو سیسے کو سونے میں بدل دے - کی تلاش  کے کسی بھی امکان کو مسترد کر دیا تھا۔ انیسویں صدی کی کیمیا ان عناصر مثلاً  سیسہ کے غیر متبدلانہ یا عدم تغیری کی  اساس پر کھڑی تھی۔ لیکن آج کے جوہری تصادم گروں کی مدد سے ہم  نظری اعتبار سے سیسے کے جوہروں کو سونے میں بدل سکتے ہیں۔ ذرا آج کے ٹیلی ویژن ، کمپیوٹر  اور انٹرنیٹ پر نظر ڈالیں اور سوچیں کہ وہ بیسویں صدی میں کیسے شاندار ہو گئے ہیں۔

 

کچھ عرصہ پہلے ہی کی بات ہے جب سیاہ شگافوں (بلیک ہولز) کو سائنسی قصّوں سے زیادہ کچھ اور سمجھا نہیں جاتا تھا۔ خود آئن سٹائن نے ١٩٣٩ءمیں ایک مضمون لکھا تھا جس میں اس نے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ بلیک ہولز کبھی بھی نہیں بن سکتے۔ اس کے باوجود ہبل خلائی دوربین(Hubble Space Telescope) اور چاندرا ایکس رے دوربین (Chandra X-ray Telescope)نے خلاء میں موجود  ہزاروں بلیک ہولز کی نشاندہی کی ہے۔

 

یہ ٹیکنالوجی اس وجہ سے ناممکن سمجھی جاتی تھیں کہ اس وقت بنیادی طبیعیاتی قوانین اور سائنس  کا انیسویں صدی  کے دوران  اور بیسویں صدی کے اوائلی حصّے  میں دریافت نہیں ہوئے تھے۔ اس وقت سائنس کی معلومات خاص طور پر جوہری پیمانے پر خاصی  کم تھیں لہٰذا اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں تعجب نہیں کرنا  چاہئے کہ ان ٹیکنالوجی  کو اس وقت ناممکن سمجھا گیا تھا۔  

 

ناممکنات پر غور و فکر

 

تعجب انگیز بات تو یہ ہے کہ ناممکنات پر سنجیدگی کے ساتھ  غور و فکر  کرنے سے کلی طور ناقابل توقع اور  گہرے  سائنسی میدان کے دروازے وا ہو گئے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک صدی تک دائمی حرکی مشین (Perpetual Motion Machine)  کی مایوس کن اور بے ثمر تلاش نے طبیعیات دانوں کو اس نتیجے پر پہنچایا کہ ایسی کوئی بھی مشین بنانا ناممکن ہے۔ لیکن اس فضول سی کوشش میں وقت برباد کرنے کے نتیجے میں انہوں نے بقائے توانائی (Conservation of Energy) اور حر حرکیات  (Thermodynamics) کے تین قوانین کو حاصل کیا ۔ اس طرح سے ایک فضول دائمی حرکی مشین کی تلاش نے ایک بالکل نیا میدان حر حرکیات کا کھول دیا  جو  ایک طرح سے بھاپ کے انجن، مشینی دور اور جدید صنعتی سماج  کی بنیادوں  کا حصّہ بنا۔

 

انیسویں صدی کے اختتام  تک سائنس دانوں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ زمین کی عمر  ارب ہا سال کی نہیں ہو سکتی۔ لارڈ کیلون نے اس بات کا اعلان قطعیت کے ساتھ کر دیا کہ پگھلی ہوئی زمین ٢ سے ٤ کروڑ برس میں ہی ٹھنڈی ہو سکتی ہے  جو براہ راست ارضیاتی اور ڈارونی  حیات دانوں کے ان دعووں کے خلاف تھا جس میں زمین  کی عمر کو ارب ہا سال کا سمجھا گیا تھا۔ مادام کیوری اور دوسروں کی نیوکلیائی دریافت کے بعد  ناممکن آخر کار ممکن میں بدل گیا۔ اس دریافت سے یہ معلوم ہوا کہ زمین کا مرکز کس طرح سے تابکاری تنزلی یا انحطاط (Radioactive Decay)کے نتیجے میں گرم ہوتا ہے  جو حقیقت میں زمین کو ارب ہا سال تک پگھلی ہوئی حالت میں رکھ سکتا ہے۔

    

١٩٢٠ء اور ١٩٣٠ء کے عشروں میں جدید راکٹ کے بانی  رابرٹ گوڈارڈ (Robert Goddard)  کو ان لوگوں نے  زبردست تنقید کا نشانہ بنایا  جو یہ سمجھتے تھے کہ راکٹ کبھی بھی خلاء میں سفر نہیں کر سکے گا۔ وہ طنز ا ً اس کی جدوجہد کو" گوڈارڈ کی حماقت" کہتے تھے۔ ١٩٢١ء میں  نیو یارک ٹائمز کے مدیر ڈاکٹر گوڈارڈ کے کام پر کچھ یوں برسے: "پروفیسر گوڈارڈ عمل اور رد عمل کے باہمی رشتے سے  بالکل بے خبر ہیں اور ان کو خالی خلاء کے بجائے کسی ایسی چیز کی اشد  ضرورت ہے جو رد عمل ظاہر کر سکے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے پاس وہ  بنیادی علم بھی موجود  نہیں ہے جو روزانہ  کالج میں  طالبعلموں کو بچوں کی طرح دیا جاتا ہے۔"  راکٹ بنانا ممکن نہیں  ہے ، مدیر نے خفگی سے کہا ،کیونکہ وہاں خلاء میں  ہوا موجود نہیں ہے جو اس کو اپنے خلاف دھکا دے سکے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ایک ریاست کے سربراہ  -  ایڈ لف ہٹلر  (Adolf Hitler)نے گوڈارڈ کے نا ممکنہ  راکٹ   کے مضمرات کا اندازہ لگا لیا ۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران ناممکن سمجھے جانے والے راکٹوں وی – ٢ نے موت و تباہی کی صورت پر لندن میں بارش کردی ، جس کے نتیجے میں انگلستان نے  تقریباً نے گھٹنے ٹیک ہی دیئے تھے۔  

 

ناممکنات پر غور و فکر نے شاید دنیا کی تاریخ کو ہی بدل دیا۔ ١٩٥٠ء کے عشرے میں یہاں تک کہ آئن سٹائن بھی  اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ جوہری بم(Atom Bomb) بنانا ناممکن ہے۔ طبیعیات دان جانتے تھے کہ آئن سٹائن کی مساوات کے مطابق  زبردست توانائی جوہر کے مرکزے میں موجود ہوتی ہے مگر ایک مرکزے سے نکلنے والی توانائی بہت ہی معمولی ہوتی ہے۔ مگر جوہری طبیعیات دان لیو زیلارڈ(Leo Szilard) نے ١٩١٤ءکے  ایچ جی ویلز(H.G. Wells)کے ناول ، "دا ورلڈ سیٹ فری" کو یاد رکھا ہوا تھا جس میں ویلز نے جوہری بم  کے بننے کی پیش گوئی کی تھی ۔ اس کتاب میں ویلز نے لکھا تھا کہ جوہری بم کا راز ایک طبیعیات دان نے ١٩٣٣ء میں پا لیا تھا۔ اتفاق کی بات تھی کہ زیلارڈ کے ہاتھ یہ ناول ١٩٣٢ءمیں لگا تھا۔ ناول کو پڑھ کر اس کو حوصلہ ملا ،اتفاق کی بات ہے کہ  جیسا کہ ویلز نے دو دہائی قبل جوہری بم بنانے  کی پیشن گوئی کی تھی ،زیلارڈ  پر یہ بات منکشف ہو گئی تھی  کہ کس طرح  سے انفرادی جوہر کی توانائی کو زنجیری تعامل(Chain Reaction) کے ذریعہ بڑھایا جاتا ہے  اس طرح سے ایک یورینیم کے مرکزے  کو توڑ کر حاصل کرنے والی توانائی کو دسیوں کھرب تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ زیلارڈ نے اس کے بعد تجربات کا ایک سلسلہ شروع کیا اور آئن سٹائن اور صدر فرینکلن روز ویلٹ  سے خفیہ گفت و شنید جاری رکھی جس کے نتیجے میں مین ہٹن پروجیکٹ وجود میں آیا  جہاں پہلا جوہری بم بنا۔

    

بار ہا  ہم نے دیکھا ہے کہ ناممکنات میں غور و فکر نے ہمارے لئے بالکل نئے دریچوں کو وا کیا ہے جس نے طبیعیات و کیمیا کی حدود کونہ صرف  وسیع  کر دیا بلکہ سائنس دانوں کو بھی  ناممکن کے مطلب کو تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔ جیسا کہ سر ولیم اوسائر(Sir William Osier) نے ایک دفعہ کہا تھا ،"ایک نسل کا فلسفہ دوسری نسل کے لئے  خرافات بن جاتی ہے ، اور گزرے ہوئے  کل کی بیوقوفی آنے والے کل کی دانائی  بن جاتی ہے۔"

 

کافی طبیعیات دان ایسے ہیں جو ٹی ایچ وائٹ  (T.H.White) کے اس  مشہور و معروف قول کو دہراتے ہیں جو انہوں نے دی ونس اینڈ دی فیوچر کنگ میں لکھا تھا ، "کوئی بھی چیز جو ممنوع نہیں ہے وہ لازمی ہوتی ہے !" طبیعیات میں ہم نے اس کا ثبوت ہر دور میں پایا ہے۔ تاوقتیکہ ہم کوئی ایسا طبیعیات کا قانون پا لیں  جو  واشگاف طور پر کسی نئے مظاہر کی مخالفت کرے۔(ایسا  کافی دفعہ نئے ذیلی جوہری ذرّات کو تلاش کرتے ہوئے  ہو چکا ہے۔) ایک منطقی نتیجہ ٹی ایچ وائٹ کے بیان کا شاید یہ ہو سکتا ہے "کوئی بھی چیز جو ناممکن نہیں ہے ، وہ لازمی ہے !"

 

 مثال کے طور پر ماہر کائنات ا سٹیفن ہاکنگ (Stephen Hawking)نے ایک نئے قانون طبیعیات کو دریافت کرنے کے بعد وقت میں سفر کو ناممکن ثابت کرنے کی کوشش کی۔ جس کو اس نے "قانون تحفظ تقویم"(Chronology Protection Conjecture)  کا نام دیا۔ بدقسمتی سے کافی برسوں کی سخت محنت کے بعد بھی وہ اپنے اس اصول کو ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ اس کے برخلاف درحقیقت طبیعیات دانوں نے اس بات کا عملی مظاہرہ کیا ہے کہ کوئی بھی قانون جو ہمیں وقت میں سفر کرنے سے روکے آج کے مروجہ ریاضی کے قوانین کی رو سے بہت دور ہے۔ کیونکہ آج کوئی بھی ایسا قانون موجود نہیں ہے جو ٹائم مشین بنانے سے روکے۔ لہٰذا طبیعیات دانوں کو نہایت سنجیدگی سے وقت میں سفر کے امکان کو لینا پڑا۔

 

اس کتاب کا مقصد ہے کہ ان ٹیکنالوجی کا جائزہ لیا جائے جن کو آج تو  ناممکن سمجھا جاتا ہے لیکن  ہو سکتا ہے وہ آنے والی عشروں سے لے کر صدیوں تک ہماری روزمرہ کی زندگی کا لازمی حصّہ بن جائیں۔

 

پہلے ہی ایک اور "ناممکن " سمجھی جانے والی ٹیکنالوجی کا" ممکن" ہونا ثابت ہو چکا ہے :دور دراز  منتقلی  (دور دراز اجسام کی بغیر کسی ذریعہ کے منتقلی  یعنی Teleportation - )  کا کامیاب تجربہ کم از کم جوہری پیمانے پر تو کیا جا چکا ہے۔ کچھ برسوں پہلے ہی طبیعیات دان یہ کہتے ہوئے پائے جاتے تھے کہ کسی بھی شے کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بغیر کسی واسطے کے بھیجنا کوانٹم طبیعیات کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اصل اسٹار ٹریک کا  مصنف طبیعیات دانوں کی تنقید سے اس  قدر ڈسا گیا کہ بالآخر اس کو ہائیزن برگ کا  آلہ تثویب(Heisenberg Compensators) کو اس میں شامل کرنا پڑا تاکہ وہ دور دراز منتقلی  میں موجود ایک نقص کو درست کر سکے۔ آج حالیہ دریافتوں کی بدولت ، طبیعیات دان جوہروں کو ایک کمرے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ  یا فوٹون کوآسٹریا کے دریائے  ڈینیوبی کے پار  منتقل کر سکتے ہیں۔

 

مستقبل کا اندازہ لگانا  

 

مستقبل کا اندازہ لگانا  ہمیشہ سے ہی مشکل رہا ہے خاص طور پر ایک صدی سے لے کر اگلے ہزار برسوں تک۔ طبیعیات دان نیلز بوہر (Neils Bohr)اس بات کی کافی تکرار کرتا تھا ،" اندازہ لگانا  بہت ہی مشکل کام ہے۔ خاص طور پر مستقبل کے بارے میں۔" مگر جولیس ورن  کے دور اور حالیہ عہد میں کافی بنیادی فرق ہے۔ آج طبیعیات کے بنیادی قوانین کو سمجھا جا چکا ہے۔ ششدر کر دینے والے تینتالیس درجے کے بنیادی قوانین  جو پروٹون کی اندرونی ساخت سے لے کر کائنات تک کا احاطہ کرتے ہیں آج طبیعیات دان ان کو اچھی طرح سے سمجھ چکے ہیں۔ نتیجتاً طبیعیات دان معقولیت کے ساتھ پر اعتماد طور پر  اندازہ لگا سکتے ہیں  کہ مستقبل میں ٹیکنالوجی  کس  طرح کی ہو سکتی ہیں  اور ساتھ ساتھ وہ ان ٹیکنالوجی کو بھی الگ کر سکتے ہیں  جن کا ممکن ہونا بعید از امکان ہے اور وہ بھی جو واقعی میں ناممکن ہیں۔

 

 اسی  لئے اس کتاب  میں ناممکن  چیزوں کو میں نے  تین حصّوں میں تقسیم کیا ہے۔

 

پہلی جماعت I کی ناممکنات ہے۔ یہ وہ ٹیکنالوجی ہیں جو آج تو ناممکن ہیں لیکن  یہ ہمارے جانے پہچانے قوانین طبیعیات سے رو گردانی کرتی ہوئی نظر نہیں آتی ہیں۔ لہٰذا ہو سکتا ہے کہ یہ اس صدی میں ہی ممکن ہو جائیں  یا شاید اگلی صدی میں کچھ بدلی ہوئی حالت میں ہمیں نظر آئیں ۔ اس جماعت میں جو ناممکنات  شامل ہیں وہ یہ ہیں : دور رہیّت (دور دراز فوری منتقلی )، ضد مادّہ سے چلنے والے انجن ، خیال خوانی(Telepathy) کی مختلف اقسام، دماغی طاقت سے چیزوں کو حرکت دینا(Psychokinesis) اور   غیر مرئیت (Invisibility)۔

 

دوسری جماعت وہ ہے جس کو میں نے جماعت II کی ناممکنات کہا ہے۔ یہ وہ ٹیکنالوجی ہیں جہاں طبیعیاتی دنیا کی ہماری سمجھ بوجھ ابھی شروع ہوئی ہے۔ اگر وہ کسی طرح سے ممکن ہو سکتی ہیں تو بھی  ان چیزوں کو پورا ہونے میں  ایک ہزار سال سے لے کر دسیوں لاکھ سال  تک لگ سکتے ہیں۔ اس میں ٹائم مشین ، اضافی خلاء میں سفر(Hyper Space Travel) کا امکان اور ثقف کرم(وارم ہول یعنی Wormhole -  ) کے ذریعہ وقت میں سفر شامل ہیں۔

 

آخری قسم کو میں نے جماعت III کی ناممکنات کا نام دیا ہے۔ یہ وہ ٹیکنالوجی ہیں جو مروجہ قوانین طبیعیات سے رو گردانی کرتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ایسی بہت ہی کم ٹیکنالوجی ہیں۔ اگر ان کا وقوع ہونا ممکن ہوا تو یہ ہماری طبیعیات کی سمجھ بوجھ میں بنیادی تبدیلی ہوگی۔

   

درجہ بندی اہم ہے ، میں یہ بات محسوس کرتا ہوں کہ سائنسی قصّوں میں بہت ساری ٹیکنالوجی کو سائنس دانوں نے اس لئے  رد کر دیا تھا کہ ان کا پورا ہونا ناممکن تھا  ، جب سائنس دان  کوئی ایسی بات کرتے ہیں تو ان کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ ٹیکنالوجی ہماری جیسی نوزائیدہ تہذیب کے لئے ناممکن ہیں۔ مثال کے طور پر خلائی مخلوق کا زمین پر چکر لگانا عام طور پر  ناممکن سمجھا جاتا ہے  کیونکہ ستاروں کے درمیان فاصلہ بہت وسیع ہے۔ واضح طور پر  بین النجم سفر(Interstellar Travel) ہمارے جیسی کسی بھی تہذیب کے لئے ناممکن ہے ، مگر  کوئی تہذیب ہم سے جو صدیوں یا ہزاروں سال آگے ہوگی اس کے لئے ایسا سفر ممکن ہو گا۔ لہٰذا ایسی کسی چیز کو "ناممکن" کا درجہ دینا  اہم ہے۔ وہ ٹیکنالوجی جو ہماری دور حاضر کی  تہذیب کے لئے ناممکن ہیں ،ضروری نہیں ہیں کہ وہ دوسری جدید قسم کی تہذیبوں کے لئے ناممکن ہوں۔ کسی بھی چیز کو ممکن اور ناممکن کی گروہ بندی کرنے  سے پہلے اس بات کو دھیان میں رکھنا ضروری ہے کہ ٹیکنالوجی  ایک ہزار برس سے لے کر دسیوں لاکھ سال  مستقبل میں ہم سے کس قدر جدید ہو سکتی ہیں۔

 

کارل ساگاں نے ایک دفعہ ہمیں دعوت فکر دیتے ہوئے  لکھا تھا،" کسی بھی تہذیب کے لئے دس لاکھ برس پرانے  ہونے کا کیا مطلب ہے ؟ ہمارے استعمال میں  ریڈیائی دوربینیں اور خلائی جہاز صرف چند عشروں سے ہی آنے شروع ہوئے ہیں ؛ ہماری فنی تہذیب صرف چند سو سال پرانی ہے۔۔۔ کوئی بھی جدید تہذیب جس کی عمر  دسیوں لاکھ سال کی ہو وہ ہم سے اتنا ہی آگے ہوگی جتنا کہ  آج ہم کسی بچے   یا لنگور سے آگے ہیں۔"

 

میں نے اپنی تحقیق میں پیشہ ورانہ طور پر اس بات پر اپنی توجہ کو مرکوز رکھا کہ کسی طرح سے آئن سٹائن کے خواب "ہر شئے کے نظریہ " کو مکمل کر سکوں۔ ذاتی طور پر میں اس بات میں کافی سرور محسوس کرتا ہوں کہ "آخری نظریہ "پر کام کروں جو حتمی طور پر دور حاضر کے سائنس کے  سب سے مشکل ناممکن سوالوں کا جواب دے سکے، جیسا کہ وقت میں سفر ممکن ہے یا نہیں ، بلیک ہول کے قلب میں کیا ہے ، یا بگ بینگ سے پہلے کیا ہوا تھا۔ میں اب بھی اپنے زندگی بھر کے ہمسفر "ناممکن" کے بارے میں خیالی پلاؤ پکا رہا ہوتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ وہ وقت کب آئے گا جب ان میں سے کچھ ناممکنات، "ممکن"  بن کر ہماری روزمرہ کی زندگی میں داخل ہو سکیں گی۔ 

میچو کاکو