جن دنوں ٹیوبوں والے ریڈیو اور ٹی وی عام تھے ان ہی دنوں الیکٹرونک ٹیکنیشئن حضرات کو ان کی مرمت کے سلسلے میں بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے تھے۔ پاکستان میں روایتی مکینک حضرات گلی محلوں میں اپنی اپنی ورکشاپیں کھول کر ریڈیو ٹی وی کی خرابیوں کو دور کرتے تھے لیکن پیچیدہ خرابیوں کی صورت میں ان کو بے حد مشکلات کا سامنا تھا۔
اس دور میں ایک صاحب حریت اخبار میں کام کرتے تھے اور ان کی دوستی چند اچھے، پڑھے لکھے اور معیاری ٹیکنیشئن حضرات سے تھی۔ وہ ان دوستوں سے اکثر ان مشکلات کا ذکر سنتے رہتے۔ انہوں سے سوچا کہ ایسی مشکلات پاکستان کے ہر شہر میں پیش آتی ہوں گی جس کی وجہ سے اکثر ٹی وی اور اسی نوعیت کے دیگر آلات بے کار ہورہے ہوں گے۔ انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ اس مشکل کا کوئی حل نکالا جائے۔ وہ اپنے دوستوں سے سنتے تھے کہ اگر ٹی وی وغیرہ کا سرکٹ ڈایا گرام دستیاب ہو جائے تو ان کی مشکلات آسان ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے ٹی وی اور دیگر آلات بنانے والے اداروں سے خط و کتا بت کی اور انہیں اپنی مشکلات سے آگاہ کرتے ہوئے ان سے ان کے تیار کردہ ٹی وی، ریڈیو، ٹیپ ریکارڈر وغیرہ کے سرکٹ ڈایا گرامز بھیجنے کے لئے کہا۔ ان کی کوششیں رنگ لائیں اور ان کے پاس کافی سارے ماڈلز کے سرکٹ ڈایا گرام اکٹھے ہو گئے۔ انہوں نے یہ ڈایا گرام ترتیب دیئے اور ایک کتاب چھاپ دی۔ ان کی کتاب ہاتھوں ہاتھ لی گئی۔ سرکٹ ڈایا گرامز کی اس کتاب کے ناشر احمد خان اعوان تھے۔
اس پہلی کامیابی کے بعد اعوان صاحب نے یہ سلسلہ جاری رکھا اور کئی دہائیوں تک ان کی شائع کردہ کتب بے حد مقبول رہیں۔ اس کے بعد انہوں نے بنیادی الیکٹرونکس، ٹی وی، ریڈیو اور ان جیسے دیگر موضوعات پر بیسیوں کتب شائع کیں۔ انہوں نے ایک ماہانہ سیریز ہابی الیکٹرونکس کے نام سے بھی شائع کی جو سالوں تک الیکٹرونکس کے شائقین میں مقبول رہی۔
الیکٹرونکس کے شائقین میں سے شاید ہی کوئی ہو جو احمد خان اعوان کے نام سے ناآشنا ہو۔ اعوان صاحب بے حد سادہ، حافظ قرآن، پابند صوم و صلات، وقت کے پابند، ہر کسی کے کام آنے والے، ہر دلعزیز، مقبول، بے لوث اور بہت عمدہ شخصیت کے مالک تھے۔
حیر ت ہوتی ہے کہ یہ شخص جوبیسیوں کتب کا ناشر،ایک ماہانہ سیریز کا خالق، کئی فلاحی کاموں میں شریک اور ایک آواز پر مشکل میں پہنچ جانے والا،جو اپنی ذات میں ایک انجمن تھا، اپنی اخباری ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ ساتھ دیگر تمام کام بغیر کسی کی مدد کے کیسے سرانجام دیتا رہا۔ انہوں نے کبھی اپنا دفتر نہیں بنایا نہ ہی کبھی کسی کو ملازم رکھا، بلکہ سارے کام خود، پیدل یا مقامی ٹرانسپورٹ پر سرانجام دیتا رہا۔
چند سال پہلے عوام کی کتابوں سے بے رغبتی، وسائل کے کمیابی اور کچھ نامساعد گھریلومعاملات کی وجہ سے وہ اپنے آبائی علاقے نمل، میانوالی میں منتقل ہو گئے تھے۔ نمل وہی علاقہ ہے جہاں ایک بین الاقوامی معیار کی یونیورسٹی (عمران خان کی کوششوں سے) قائم ہے جو جھیل نمل کے کنارے پر واقع ہے۔ جھیل نمل کی دوسری جانب، یونیورسٹی کے مقابل واقع گاؤں بھی نمل کہلاتا ہے جہاں احمد خان اعوان نے اپنے آخری دن گزارے۔
ان کے ایک دوست شاہد بخاری نے فیس بک پر لکھا کہ
"میری آخری ملاقات رمضان میں ہوئی تھی اور پورا دن ساتھ گزارا تھا۔ کچھ دن پہلے ہی فون پر بات ھوئی تھی- ان کا جملہ "میرے عزیز" کبھی نہیں بھولے گا"۔
احمد خان اعوان کی یہاں موجود تینوں تصاویر جناب حنیف شاہ کی عنایت کردہ ہیں جو اعوان صاحب کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے ہیں۔حنیف شاہ صاحب نے فیس بک پر ان الفاظ میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا:
رسالہ ہابی الیکٹرونکس اورکئی الیکٹرونکس کتابوں اور ڈائیگرام بکس کے ناشر اور اعوان بک کارپوریشن کے روح رواں اور میرے بزرگ دوست احمد خان اعوان صاحب 27نومبر2017کی رات میانوالی میں اس جہان فانی سے کوچ کرگئے۔ اللہ ان کو اپنی رحمت کے سائے میں جگہ دے-
احمد خان اعوان جیسی بے لوث، مخلص اور ہر دلعزیز شخصیت بھی ہم سے جدا ہو گئی، اللہ تعالی انہیں جوار رحمت میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ جو اس دنیا میں آیا ہے اسے لوٹ کر ضرور جانا ہے، یہ نظام قدرت ہے اور ہم سب اس کے آگے بے بس ہیں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی اعوان صاحب کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور ان کے تمام عزیزوں اور اہل خانہ کے ساتھ ساتھ ہم سب کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
امیر سیف اللہ سیف