راکٹس کی تاریخ (پہلی قسط)

راکٹس کی تاریخ (پہلی قسط) راکٹس کی دریافت سے پیشتر چشمِ انسانی وسعتِ افلاک سے بے بہرہ تھی۔ انسان زمین کے طول و عرض کو ایک نئی جہت تک پہنچانے اور صدیوں پرانے رازوں سے پرہ اٹھانے میں مصروف تھا مگر اس کرۂ خاکی اور فضائے بے بسیط سے پرے کیا ہے، یہ اُس وقت انسانی عقل سے ماورا بات تھی۔ جنگوں میں روایتی توپیں، بندوقیں اور دیگر آتشی اسلحہ استعمال کیا جاتا تھا۔ گو کہ اس اسلحے کا استعمال حد سے زیادہ تھا مگر اس روایتی اسلحے کا سب سے بڑا نقصان اس کی انتہائی بے سمتی تھی۔ ہوا کی رفتار یا بلندی سمیت دیگر ضروری عوامل کی ذرا سی تبدیلی بعض اوقات بڑے نقصانات کا سبب بنتی تھی۔ اس مسئلے پہ قابو پانے کے لئے اپنے اپنے وقت کے بڑے بڑے ناموں نے ایک ایسی دریافت کی کھوج شروع کر دی کہ جو روایتی اسلحہ سے زیادہ راست ہو اور آخر کار قرعۂ فال نکلا چینی سائنسدانوں کے نام۔

دنیا کا سب سے پہلا راکٹ، آج سے تقریباً ایک ہزار سال پہلے، چینی سائنسدانوں نے ایجاد کیا۔ یہ ایک سادہ مگر مہلک ترین ایجاد تھی۔ اولین راکٹ چارکول، سلفر اور پوٹاشیم نائٹریٹ کا مکسچر تھا، جسے نہایت احتیاط سے مکس کیا گیا تھا۔ مدتوں یہی مرکب راکٹ سمیت دیگر توپوں، بندوقوں اور دیگر آتشی اسلحہ میں استعمال ہوتا رہا۔ اس مرکب کو گن پاؤڈر، بلیک پاؤڈر یا بارود کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے جلنے سے گرم گیس کا اخراج ہوتا ہے جو کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ، پانی اور نائٹروجن پر مشتمل ہوتی ہے۔ آج بھی گن پاؤڈر اُسی طریقے سے بنایا جاتا کہ جیسے ہزار سال پیشتر اسے چینی سائنسدانوں نے بنایا تھا۔ اور یقیناً یہ چینی سائنسدانوں کی بہت بڑی کامیابی اور اُن کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

تقریباً 1200 بعد از مسیح، چینی سائنسدانوں نے بلیک پاؤڈر بنانے کا طریقہ دریافت کیا، جس نے اولین راکٹ کی تیاری میں بنیادی کردار ادا کیا۔ چینی سائنسدانوں نے تجربات سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر اگر کارڈ بورڈ کی لمبی لمبی ٹیوبز میں گن پاؤڈر بھر کے اسے بہت زیادہ درجہ حرارت مہیا کیا جائے تو راکٹ کو فضا میں پہنچانے کے لئے کافی زیادہ زیادہ دباؤ کی قوت پیدا کی جا سکتی ہے اور اگر کمبسچن چیمبر کے آخر میں ایک نوزل لگا دی جائے تو اس دباؤ کی قوت کو مزید بڑھایا جا سکتا ہے۔ ان راکٹس کو ابتدائی زمانے میں آتشی تیروں کا نام دیا گیا اور کم افرادی قوت کے ہوتے ہوئے بھی ان آتشی تیروں نے دشمن کی صفوں میں بے پناہ ہلچل پیدا کی اور دشمن کو بے پناہ خوفزدہ کیا۔ اپنے سادہ ڈیزائن اور آسان استعمال کی وجہ سے انہیں بہت زیادہ مقدار میں پیدا کیا جا سکتا تھا اور ایک تسلسل کے ساتھ دشمن کے خلاف استعمال کیا جا سکتا تھا۔ 1200 سے 1600 بعد از مسیح تک راکٹ سائنس میں کوئی خاص پیشرفت نہ ہو سکی اور قدیم طریقے ہی استعمال کئے جاتے رہے۔ لیکن 17ویں صدی عیسوی کے وسط میں راکٹ سائنس نے ایک نئی کروٹ لی۔ راکٹ سائنس کے افق پہ ایک پالش توپچی Kazimierz Siemienowicz کا نام ابھرا۔

آپ نے 1650 میں ایک کثیر المنزلہ راکٹ کی تصاویر اور ابتدائی ڈھانچہ بنانے سمیت دیگر ضروری جزئیات کو قلمبند کیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ راکٹ کے متعلق کسی چیز کو قلمبند کر کے باقاعدہ شائع کیا گیا ہو۔

اور اس کے بعد سائنسی افق پہ ڈاکٹر رابرٹ کے نام کا ستارہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ابھرا اور جس نے ایک عرصے تک دنیائے طبیعات کو اپنی روشنی سے خیرہ کئے رکھا۔ بلا شک و بے گماں، راکٹ سائنس میں Dr. Robert Goddard کا زمانہ تاریخِ انسانی کا بہترین دور تھا۔ راکٹ سائنس کو جدید خطوط پہ ڈاکٹر رابرٹ کے دور میں ہی استوار کیا گیا۔Goddard نے اپنی توجہ زیادہ تر لیکوئیڈ فیول (مائع ایندھن) پہ مرکوز کی اور لیکوئیڈ فیول کے استعمال نے دنیائے سائنس میں کئی بند در وا کئے۔

اپنے کیرئیر کے ابتدائی زمانے میں، Goddard نے ایک ایسے راکٹ کے بارے میں اپنے مشاہدات پیش کئے کہ جو زیادہ بلندی پہ اور خلا میں بھی قابلِ استعمال ہو۔ 1912 میں Goddard نے ایک کثیر المنزلہ راکٹ کا تصور پیش کیا، جو چاند تک سفر کرنے کے قابل تھا، مگر بہت جلد اسے نامنظور کر دیا گیا کیونکہ ایک تو اس زمانے میں خلا میں سفر کرنا نا ممکن تھا اور پھر Goddard کے بنائے گئے ڈیزائن میں کئی بنیادی خامیاں موجود تھیں۔ لیکن Goddard نے ہمت نہیں ہاری بلکہ اپنا سفر جاری رکھا۔ Goddard پہ یہ ثابت کرنے کا جنون سوار تھا کہ ایک راکٹ خلا میں بھی بالکل اسی طرح کام کر سکتا ہے، جس طرح وہ زمین پہ کام کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی سوچ تھی کہ جو مستقبل میں خلائی سفر کے سلسلے میں بہت اہمیت کی حامل ثابت ہونے جا رہی تھی۔آخر کار 16 مارچ 1926 میں Goddard ایک ایسا راکٹ بنانے میں کامیاب ہو گیا، جو لیکوئیڈ فیول سے چلتا تھا۔ راکٹ نے گوڈرڈ کے اندازوں کے عین مطابق درست طریقے سے اڑان بھری۔ یہ راکٹ سائنس میں ایک انقلابی دور کا نقطۂ آغاز تھا۔

گوڈرڑ اور اس کی ٹیم نے 1926 سے 1941 کے دوران 34 راکٹس تیار کئے اور فضا میں بھیجے۔ ان راکٹس نے 2.6 کلومیٹر تک اڑان بھری اور ان کی زیادہ ترین رفتار 885 کلومیٹر فی گھنٹا رہی۔گوڈرڑ نے تقریباً 214 ایجادات کو اپنے نام سے رجسٹر کروایا اور ان میں سے دو ایجادات ایسی کہ وہ رہتی دنیا تک دنیائے طبیعات میں گوڈرڈ کا نام زندہ رکھنے کے لئے کافی ہیں۔ملٹی سٹیج (کثیر المنزلہ)راکٹ اور لیکوئیڈ فیول راکٹ۔ بعد کے سائنسدانوں نے Goddard کی تخلیقی سوچ اور اس کے کام کرنے کے طریقے نہایت خوش اسلوبی سے اپنایا اور بالآخر دنیا نے 1960 میں اپنے خلائی سفر کا آغاز کر دیا۔ اگر خلائی سفر میں ہوئی اب تک کی تحقیق اور کامیابیوں کو Goddard سے موسوم کیا جائے تو قطعی بے جا نہ ہو گا۔ (جاری ہے)

سیف's picture

بلال صاحب 1941 سے آگے بھی بڑھیں، شدت سے اگلے مراحل کا انتظار ہے