آجینوموتو یا چائنیز نمک: ذائقے دار مصالحہ یا زہر قاتل؟

مجالس:

جنوری 2018ء میں پنجاب فوڈ اتھارٹی نے ”چائنیز نمک“ (آجینوموتو) پر پابندی لگا دی۔ یہ فیصلہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کے سائنٹفک پینل کی اس حوالے سے تحقیق کے نتیجے میں کیا گیا۔ پینل کا کہنا تھا کہ اس نمک میں پایا جانے والا مونوسوڈیم گلوٹامیٹ (Monosodium glutamate) جسے مختصراً MSG بھی کہا جاتا ہے، صحت کے بہت سے مسائل کا سبب بنتا ہے جن میں سر درد، تھکن، متلی، قے کا آنا، پسینے آنا اور چہرے کا سرخ اور سن ہونا شامل ہیں۔ پینل کا مزید کہنا تھا کہ یہ ہائپرٹینشن کا بھی سبب بنتا ہے اور حاملہ خواتین کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی کی دیکھا دیکھی خیبر پختونخواہ اور سندھ کی حکومتوں نے بھی چائنیز نمک پر پابندی لگا دی جس کے بعد مارچ میں ایک ازخود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے اس پر ملک بھر میں مکمل پابندی عائد کر دی۔
صحت عامہ کا خیال کرتے ہوئے مضر اجزاء پر پابندی لگانا یقیناً ایک قابل ستائش عمل ہے، لیکن یہاں پر ہمیں اس ہدف تک پہنچنے کے اپنے طریقہ کار کو بھی دیکھنا پڑے گا کہ آیا کہیں ہمارے سائنسی تحقیق کے ذمہ دار ادارے ہی غیر سائنسی طرز عمل کے مرتکب تو نہیں ہو رہے۔
آجینوموتو یا ”چائنیز نمک“ کی کہانی شروع ہوتی ہے 1907ء میں جب ایک جاپانی کیمیا دان کیکونائے اکیدا (Kikunae Ikeda) نے اپنے گھر والوں کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے ایک دلچسپ ذائقے کی موجودگی محسوس کی جو اس وقت معلوم چار بنیادی ذائقوں (میٹھا، نمکین، کھٹا اور کڑوا) سے یکسر مختلف تھا۔ اس ذائقے کے ماخذ کی تلاش اسے ایک نئے کیمیائی مرکب، مونوسوڈیم گلوٹامیٹ، کی طرف لے گئی جسے وہ 1908ء تک کامیابی کے ساتھ الگ کر چکا تھا۔ اس نئے بنیادی ذائقے کو اس نے امامی (umami) کا نام دیا جو کہ بعد کی تحقیقات کے مطابق زبان پر موجود گلوٹامیٹ مرکبات کے ریسیپٹرز کے ذریعے محسوس ہوتا ہے۔ مونوسوڈیم گلوٹامیٹ کی صنعتی پیمانے پر پیداوار کے لیے اس نے 1909ء میں ایک طریقہ وضع کیا اور اپنی کمپنی ”آجینوموتو انکارپوریٹڈ“ کی شروعات کی۔ یہ نیا نمک جسے آجینوموتو، ایم ایس جی اور چائنیز نمک جیسے ناموں سے پکارا جانے لگا، کچھ ہی عرصے میں پوری دنیا میں پھیل گیا اور طرح طرح کے کھانوں میں ذائقہ بڑھانے کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔
پھر 1960ء کے عشرے میں اس کے برے دن آئے۔ لوگ خوراک میں موجود کیمیکلز کے حوالے سے حساس ہونے لگے۔ ہر ایسی شے جس کا ماخذ کوئی صنعتی پراسیس تھا، خطرناک اور مہلک تصور کیا جانے لگا۔ 1968ء میں نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن نے ایک طبیب کا خط شائع کیا جس میں اس نے چینی ریستورانوں میں کھانا کھانے کے بعد کمزوری اور دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی جیسی علامات کی شکایت کی۔ اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کھانے میں موجود تین اجزاء میں سے کوئی ایک ان کا سبب ہو سکتا تھا: زیادہ نمک، ایم ایس جی، یا کھانا پکانے میں استعمال کی گئی شراب۔ اس کے ساتھ ہی قارئین کے جوابات کا تانتا بندھ گیا جنہوں نے چینی کھانے کھانے کے بعد ملتی جلتی علامات کی شکایت کی۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے سائنسی کمیونٹی نے اس کی چھان بین کا فیصلہ کیا اور یوں ”چائینیز ریسٹورنٹ سنڈروم“ یا ”چینی ریستوران کے مرض“ پر باقاعدہ تحقیق کا آغاز ہوا۔
جلد ہی کئی محققین نے ان علامات کا ایم ایس جی کے ساتھ ربط بھی ڈھونڈ نکالا۔ یکدم وہ کراماتی مصالحہ جو کسی بھی کھانے کی لذت کو دوچند کر سکتا تھا، ایک انتہائی مضر صحت مرکب کے طور پر مشہور ہونے لگا۔ اخبارات ”مضر صحت چینی کھانوں“ کے ”قاتل ذائقے“ کے تذکرے سے بھر گئے۔ صحت پر اس کے مضر اثرات زبان زد عام ہو گئے جن کو وجہ بناتے ہوئے پاکستان میں 2018ء میں اس پر پابندی لگائی گئی جس کا مضمون کی تمہید میں ذکر ہے۔
----------
اب آتے ہیں بیسویں صدی کے اختتام کی طرف۔
1988ء میں عالمی ادارہ صحت اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کی ماہرین غذائی اضافیات کی مشترکہ کمیٹی (JECFA) نے گلوٹامک ایسڈ اور اس کے کئی نمکیات پر ایک مفصل تحقیق کی۔ انہوں نے پایا کہ مونوسوڈیم گلوٹامیٹ کے انسانی جسم پر کسی طرح کے بھی مضر اثرات ظاہر نہیں ہوئے، یہاں تک کہ شیرخوار بچوں میں بھی کوئی مضر اثرات نہیں پائے گئے۔ اسی طرح 1991ء میں یورپین کمیشن کی سائنسی کمیٹی برائے خوراک (SCF) بھی انہی نتائج پر پہنچی۔ اس کے بعد فیڈریشن آف امریکن سوسائٹیز فار ایکسپیریمنٹل بایولوجی (FASEB) اور امریکا کی فیڈرل ڈرگ ایڈمنسٹریشن (FDA) نے بھی اس پر تحقیقات کیں جن میں انہوں نے اگرچہ اس امکان کو رد نہیں کیا کہ آبادی کا کچھ حصہ اس حوالے سے حساس ہو سکتا ہے لیکن یہ تحقیقات بھی عمومی طور پر اس کے محفوظ ہونے پر ہی منتج ہوئیں۔ یونیورسٹی آف سرے گلڈفورڈ کے محققین رونلڈ واکر اور جان آر لوپین نے سال 2000ء کے اپنے مقالے ”مونوسوڈیم گلوٹامیٹ کا حفاظتی تجزیہ“ (The Safety Evaluation of Monosodium Glutamate) میں ان تمام تحقیقات کا بمع کئی دیگر کے ذکر کیا ہے۔ یہ مقالہ جرنل آف نیوٹریشن کے شمارہ 130 میں شائع ہوا۔
----------
ہماری کہانی کچھ پیچیدہ ہو چلی ہے۔ اگر مونوسوڈیم گلوٹامیٹ محفوظ ہے تو وہ سب تحقیقات کیا ہوئیں جن میں یہ صحت کے لیے مضر ثابت ہوا تھا؟ اگر وہ سچ تھا تو یہ کیا ہے اور اگر یہ سچ ہے تو وہ کیا تھا؟
یہاں پر کچھ بنیادی نوعیت کے سوالات پوچھنے ہوں گے۔ 60ء کے عشرے اور اس کے بعد ہونے والی ان تحقیقات کا طریقہ کار کیا تھا جنہوں نے ایم ایس جی اور ان علامات کے بیچ ربط پایا؟ اور اس سے بھی پہلے، آخر لوگوں کو چینی کھانے، خصوصاً ایم ایس جی کا استعمال کرنے والے کھانے، کھانے کے بعد اپنی صحت پر یہ برے اثرات کیوں محسوس ہوتے تھے؟
یہاں پر تذکرہ مناسب ہو گا پلاسیبو اور نوسیبو اثرات کا۔
پلاسیبو اثر یہ ہے کہ کسی مریض کو کوئی ایسی شے کھلائی جائے کہ جس سے اسے اپنے درست ہونے کا پورا یقین ہو، خواہ اس کا حقیقی اثر کچھ نہ ہو، تو کئی صورتوں میں مریض صرف اس یقین کی وجہ سے ہی بہتر محسوس کرتا ہے۔ اس اثر کے پہلے باقاعدہ مظاہرے کا کریڈٹ اٹھارہویں صدی کے آخر میں انگلستانی طبیب جان ہیگارتھ کو دیا جاتا ہے۔ نوسیبو اثر اس کا الٹ ہے کہ جس میں کسی کو یقین ہو کہ کوئی شے اسے نقصان پہنچائے گی تو وہ واقعی اس کے استعمال کے بعد برے اثرات محسوس کرتا اور بیمار پڑ سکتا ہے۔ آج پلاسیبو اور نوسیبو اثر ایک جانی مانی حقیقت ہیں جن سے بچنے کے لیے بلائنڈ اور ڈبل بلائنڈ سٹڈیز کی جاتی ہیں۔ بلائنڈ سٹڈی میں تجربے کے شرکاء کو تجربے کی مکمل معلومات نہیں ہوتیں جبکہ ڈبل بلائنڈ سٹڈی میں تجربہ کرنے والے عملے کو بھی یہ معلومات میسر نہیں ہوتیں۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ تجربے کو کسی قسم کے تعصبات سے پاک رکھا جا سکے۔
ساٹھ اور ستر کی دہائی میں جہاں کئی تجربات ایم ایس جی کے مضر اثرات ثابت کر رہے تھے، وہیں کئی تحقیقات اس کے کسی قسم کے مضر اثرات ڈھونڈنے میں ناکام بھی رہیں۔ ان تحقیقات پر اکثر اعتراض کیا گیا کہ ان کی ایک بڑی تعداد کو خوراک کی صنعت فنڈ کر رہی ہے اور ان میں استعمال ہونے والی علامات کی فہرست ”بہت محدود“ ہے۔ لیکن اول الذکر کا طریقہ کار بھی خامیوں سے خالی نہیں تھا۔ ان پر اعتراضات تھے کہ ان کی اکثریت بلائنڈ سٹڈیز نہیں ہے اور اکثر کسی بھی قسم کی منفی علامات کو سیدھا ایم ایس جی سے منسوب کیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں بعد کی کئی ریپلکیشن سٹڈیز بھی ان مضر اثرات کو دوبارہ پیدا کرنے میں ناکام رہیں۔ یہاں پر دو مختلف گروپس کی تحقیقات کا موازنہ کرنا مفید رہے گا۔ 1976ء اور 1977ء میں ھارورڈ میڈیکل سکول کے حیاتیات دان لیان ریف-لہرر (Liane Reif-Lehrer) نے سوالناموں پر مبنی سروے شائع کیے جن میں شرکاء سے پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے کبھی چینی کھانے کھائے ہیں اور اس کے بعد ان مختلف علامات کے بارے میں پوچھا گیا جو اس وقت تک چائنیز ریسٹورنٹ سنڈروم کی علامات کے طور پر مشہور ہو چکی تھیں۔ انہوں نے پایا کہ امریکی آبادی کا 25 سے 30 فیصد حصہ ایسی علامات سے متاثر ہوتا ہے۔ اس بنیاد پر انہوں نے اخذ کیا کہ علامات کا براہ راست ایم ایس جی سے تعلق تو نہیں لیکن چینی ریستورانوں میں اس کا زیادہ استعمال ان علامات کے پیدا کرنے میں معاون بن سکتا ہے۔ ھارورڈ سکول آف پبلک ہیلتھ کے ڈیپارٹمنٹ آف نیوٹریشن کے محقق جارج آر کیر (George R. Kerr) کے زیر نگرانی ایک اور ٹیم نے نشاندہی کی کہ ریف-لہرر کے سوالنامے کی ابتداء ہی میں موجود سولات، جیسے کہ ”کیا آپ نے کبھی چائنیز ریسٹورنٹ سنڈروم کے متعلق سنا ہے؟“ شرکاء کو پہلے ہی سے نفسیاتی طور پر ایک خاص نتیجے کی طرف مائل کر رہے تھے۔ 1977ء میں جارج کیر کی ٹیم نے دو حصوں پر مشتمل سوالنامہ تیار کیا جس میں سے پہلے میں ”چائنیز ریسٹورنٹ سنڈروم“ کا نام لیے بغیر مختلف کھانوں کے ناخوشگوار اثرات کے متعلق پوچھا گیا۔ پہلا حصہ پر کرنے کے بعد شرکاء کو دوسرا حصہ دیا جاتا جس میں نام لے کر مختلف علامات کے متعلق پوچھا جاتا۔ انہوں نے پایا کہ تجربے کے 530 شرکاء میں سے 3 سے 7 فیصد شرکاء نے پہلے سوالنامے میں ان علامات کے ظاہر ہونے کا دعویٰ کیا جبکہ 31 فیصد نے دوسرے سوالنامے میں نام لے کر پوچھے جانے کے بعد علامات ظاہر ہونے کا دعویٰ کیا۔ 1979ء میں یہی تجربہ 3,222 شرکاء کے ساتھ دہرایا گیا اور اس بار گزشتہ بار سے بھی کم شرح میں شرکاء نے پہلے سوالنامے پر علامات ظاہر ہونے کا دعویٰ کیا۔ پہلے سوالنامے میں ایک اور دلچسپ بات بھی سامنے آئی کہ ناخوشگوار علامات کے ظاہر ہونے کا دعوی صرف چینی کھانوں کے ساتھ مخصوص نہیں تھا بلکہ کسی بھی انجان کلچر کے کھانوں، جیسے میکسیکن، اطالوی یا جرمن کھانوں کے متعلق یہی صورت حال تھی۔ کسی بھی کلچر کے کھانوں کے ساتھ منسوب کی جانے والی علامات کسی طرح سے منفرد پیٹرن میں بھی نہیں تھیں۔
یہاں پر ہم اس کہانی کے دوسرے اہم جز کی طرف آتے ہیں: نسلی تعصب۔
یارک یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے ایان موسبی (Ian Mosby)، جریدہ “سوشل ہسٹری آف میڈیسن” کے شمارہ 22 میں شائع ہونے والے اپنے 2009ء کے مقالے میں ایم ایس جی کے حوالے سے بالخصوص اور چینی کھانوں کے حوالے سے بالعموم امریکی معاشرے میں پائے جانے والے تعصب کا ذکر کرتے ہیں۔ ان کے مطابق امریکا میں مشرق سے آنے والے کھانوں کے متعلق یہ تاثر عام رہا ہے کہ ان کو بنانے میں نہایت غیر صحت مند اطوار اپنائے جاتے ہیں۔ جہاں ایک جانب چینی کھانوں میں ایم ایس جی کے استعمال کو اتنا بڑا مسئلہ بنایا گیا، وہیں دوسری جانب امریکا میں ہی بننے والے بہت سے تیار کھانوں کے حوالے سے، جن میں اتنا ہی ایم ایس جی استعمال ہوتا تھا، نہ کوئی قابل ذکر رپورٹس آئیں کہ ان کو کھانے سے یہ علامات ظاہر ہوئی ہوں اور نہ ہی کسی نے ان کو تحقیق کا موضوع بنانے کی کوئی خاص زحمت کی۔ چینی کھانوں کے متعلق گندے اور غیر محفوظ ہونے کا تاثر صرف عوام تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ بہت سے محققین بھی اپنی تحقیق کے دوران اس تعصب سے متاثر ہوئے۔ اپنے مقالے میں موسبی کئی ایسی مثالوں کا ذکر کرتے ہیں جن میں سے ایک کا تذکرہ گزشتہ سطور میں ریف-لہرر اور جان کیر کے سرویز کے حوالے سے ہو چکا ہے۔ وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے اس نسلی تعصب نے بھی نوسیبو اثر اور تحقیقات کے پہلے سے ایک خاص نتیجے کی طرف مائل ہونے کے مسائل کو دوچند کیا۔
----------
واپس آتے ہیں حال کی جانب۔
2006ء میں یونیورسٹی آف ہوہنہائم (University of Hohenheim) جرمنی میں مونوسوڈیم گلوٹامیٹ کے حوالے سے ایک میٹنگ کا انعقاد ہوا جس میں اسی سلسلے کی گزشتہ 1997ء کی میٹنگ اور نئے ڈیٹا کی روشنی میں مونوسوڈیم گلوٹامیٹ کے محفوظ ہونے یا نہ ہونے کا خاص طور پر جائزہ لیا گیا۔ تمام ماہرین اس نتیجے پر متفق ہوئے کہ ایم ایس جی کے جز ایل-گلوٹامیٹ (L-Glutamate) یا GLU کی 16 ملی گرام فی کلوگرام جسمانی وزن تک کی خوراک بالکل محفوظ ہے۔ اس سے زیادہ مقدار میں بھی یہ حمل کی صورت میں بچے کے خون میں شامل نہیں ہوتا۔ چنانچہ گلوٹامیٹ کے نمکیات بشمول مونوسوڈیم گلوٹامیٹ کا کھانوں میں ذائقہ بڑھانے کے لیے استعمال عام طور پر محفوظ ہے۔ اس میٹنگ کی روداد یورپین جرنل آف کلینیکل نیوٹریشن کے شمارہ 61 (2007) میں شائع ہوئی۔
----------
سائنس، دنیا کے نظام کو سمجھنے کا ایک طریقہ کار ہے۔ اس طریقہ کار میں غلطی سے بچنے کے لیے بہت سی احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھ کر چلنا پڑتا ہے کہ انسان بہرحال تعصب، خوف اور دیگر نفسیاتی کمزوریوں کے ہاتھوں دھوکہ کھا جاتا ہے، چنانچہ ان کمزوریوں کا سدباب کرنا اور تعصب کے ذرائع کو دور کرنا ضروری ہے۔ ایم ایس جی کی اس مثال میں ہم نے دیکھا کہ کیسے نوسیبو اثر، نسلی تعصب اور مصنوعی اجزاء کے خوف نے مل کر ایک سادہ آزمائش کو اتنا گھمبیر بنا دیا۔ آج تحقیق میں اس جیسے مسائل سے بچنے کے لیے مختلف تدابیر اختیار کی جاتی ہیں جیسے سامپل سائز کو بڑھانا، ڈبل بلائنڈ سٹڈیز، اور تجربات کو پلاسیبو/نوسیبو اثر کے حوالے سے کنٹرول کرنا۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جب ہم سائنس کی بنیاد پر فیصلے کرنے چلیں تو اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ فیصلے واقعی سائنس کی بنیاد پر ہی ہوں، کسی تعصب یا خوف کی بنیاد پر نہیں۔

----------
(یہ تحریر ماہنامہ گلوبل سائنس کے ستمبر 2019ء کے شمارے میں شائع ہوئی۔)
----------

حوالہ جات:

• Mosby, I. (2009). ‘That Won-Ton Soup Headache’: The Chinese Restaurant Syndrome, MSG and the Making of American Food, 1968–1980. Social History of Medicine, 22(1), 133–151. https://doi.org/10.1093/shm/hkn098
• Sand, Jordan. (2005). A Short History of MSG: Good Science, Bad Science, and Taste Cultures. Gastronomica, 5(4), 38–49. https://doi.org/10.1525/gfc.2005.5.4.38
• Walker, R., & Lupien, J. R. (2000). The Safety Evaluation of Monosodium Glutamate. The Journal of Nutrition, 130(4), 1049S–1052S. https://doi.org/10.1093/jn/130.4.1049s
• Beyreuther, K., Biesalski, H. K., Fernstrom, J. D., Grimm, P., Hammes, W. P., Heinemann, U., … Walker, R. (2006). Consensus meeting: monosodium glutamate – an update. European Journal Of Clinical Nutrition, 61, 304.
• Anna Maria Barry-Jester. (2016, January 8). How MSG Got A Bad Rap: Flawed Science And Xenophobia. FiveThirtyEight. Retrieved from https://fivethirtyeight.com/features/how-msg-got-a-bad-rap-flawed-scienc...