3۔ فیزرس اور غارت گر ستارے (Phasers and Death Stars)

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
3۔ فیزرس اور غارت گر ستارے (Phasers and Death Stars) - پہلا حصّہ 
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ریڈیو کا مستقبل تاریک ہے۔ ہوا سے بھاری اڑنے والی مشینیں بنانا ممکن نہیں ہیں۔ ایکس ریز ایک ڈھکوسلہ ثابت ہوگی۔

- طبیعات دان لارڈ کیلون(Physicist Lord Kelvin) ، ١٨٩٩ء

ایٹم بم کبھی نہیں پھٹے گا۔ یہ بات میں ایک آتش گیر ماہر کی حیثیت سے کہہ رہا ہوں۔

- ایڈمرل ولیم لیہے (Admiral William Leahy) 

١ ،٢ ، ٣ ، ٤ فائر !

"اسٹار وارز" میں دکھایا جانے والا غارت گر ستارہ (ڈیتھ اسٹار) ایک جسیم ہتھیار ہوتا ہے ، جس کا حجم چاند جتنا ہوتا ہے۔ فلم میں وہ شہزادی "لیا" (Lea) کے مستقر ایک بےبس سیارے، "ایلڈی ران "(Alderaan) کی طرف نشانہ باندھ کر فائر کرتا ہے نتیجتاً وہ سیارہ جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔ سیارے کے جلنے سے ایک عظیم دھماکہ رونما ہوتا ہے جو ستارے کا ملبہ پورے نظام شمسی میں دھکیل دیتا ہے ۔ ایک ارب روحوں کی تکلیف دہ چیخوں سے" فورس " میں کھلبلی مچ جاتی ہے اور اس بربریت کی داستان کی بازگشت پوری کہکشاں میں سنائی دیتی ہے۔

کیا "اسٹار وارز" میں دکھایا جانے والا ہتھیار حقیقت حال میں بنانا ممکن ہے؟ کیا ایسا ہتھیار لیزر کے گولے برسا کر پورے سیارے کو تحلیل کر سکتا ہے؟ ان مشہور زمانہ "روشنی کی تلواروں"(Light Sabers) کے بارے میں کیا خیال ہے جو "لیوک ا سکائی والکر"(Luke Skywalker) اور ڈارتھ ویڈر (Darth Vader)نے بنائی تھی۔ یہ تلواریں جو روشنی کی کرنوں سے بننے کے باوجود مضبوط اسٹیل کو کاٹ کر رکھ دیتی تھیں۔ کیا اسٹار ٹریک میں دکھائی جانے والی فیزرس جیسی شعاعی گن مستقبل کی نسل انسانی کے قانون نافذ کرنے والے افسران اور فوجیوں کے لئے ایک کارآمد ہتھیار کے طور پر استعمال ہو سکے گی؟

اسٹار وارز کی فلمیں دیکھنے والے لاکھوں لوگ اس فلم میں دکھائے گئے اصلی خصوصی اثرات کی چمک دمک سے متاثر ہوتے ہیں ، مگر ناقدین کے آگے اسٹار وارز والوں کی بولتی بند ہو جاتی ہے، جو ان میں عیب جوئی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں دکھائی جانے والی چیزیں بطور تفریح تو ٹھیک ہے لیکن ان کا حقیقت کی دنیا سے کوسوں دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ ناقدین کے خیال میں چاند کے حجم جتنا، سیاروں کو ختم کرنے والا شعاعی ہتھیار انتہائی خیالی اور بے ڈھنگا ہے۔ اسی طرح سے ٹھوس روشنی کی کرنوں والی تلوار دور دراز کی کہکشاؤں میں بھی اتنی ہی انوکھی چیز ہوگی جتنی کہ ہماری حقیقی دنیا میں یہ ہیں۔ "جارج لوکاس"(George Locas) ، جو خصوصی اثرات کے ماہر ہیں ، اس کام کو کرتے ہوئے شاید بہت زیادہ بہک گئے ہیں اور انہوں نے تخیل کی سرحدوں کو پار کرنے کی کوشش کی ہے۔

اگرچہ اس بات کا یقین کرنا مشکل ہے ، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ایسی کوئی طبیعی حد موجود نہیں ہے جو خالص توانائی کو روشنی کی کرن میں ٹھونسنے سے روکے۔ طبیعیات کا کوئی ایسا قانون موجود نہیں ہے جو غارت گر ستارے یا پھر روشنی کی ٹھوس تلوار بنانے سے روک سکے۔ درحقیقت سیارے کو تباہ کرنے والی گیما شعاعیں کائنات میں موجود ہیں۔ کائنات کے دور دراز گوشوں میں ہوتے ہوئے گیما اشعاع کے عظیم انفجار خلائے بسیط میں وہ دھماکے پیدا کرتے ہیں جن کا نمبر بگ بینگ کے بعد آتا ہے۔ کوئی بھی بدقسمت سیارہ جو گیما شعاعوں کی لپیٹ میں آ جائے اس کا بھننا یا ٹکڑوں میں بٹنا لازمی ہے۔

شعاعی ہتھیار تاریخ کے آئینے میں 

شعاعی ہتھیار بنانے کا خواب کوئی نیا نہیں ہے بلکہ اس کی جڑیں قدیم دیو مالائی کہانیوں اور داستانوں میں موجود ہیں۔ یونانی دیوتا" زیوس"(Zeus) انسانوں پر بجلی کی کڑک سے اپنا قہر ڈھالنے کے لئے بدنام تھا۔" نورس"(Norse) دیوتا "تھور"(Thor) کے پاس ایک جادوئی ہتھوڑا "میالنیر" (Mjolnir)تھا ، جو بجلی کی کڑکیں پھینک سکتا تھا ، جبکہ ہندوؤں کا دیوتا "اندرا"(Indra) اپنے جادوئی نیزے سے توانائی کی کرنیں پھینکنے کے لئے مشہور تھا۔

شعاعوں کے استعمال کا نظریہ بطور عملی ہتھیار شاید عظیم یونانی ریاضی دان "ارشمیدس"(Archimedes) کے کام سے شروع ، ارشمیدس شاید عہد عتیق کا سب سے عظیم سائنس دان تھا ، جس نے ادھورا علم الاحصاء دو ہزار برس قبل نیوٹن اور "لئبنیز "(Leibniz)سے پہلے دریافت کیا تھا۔ ایک افسانوی جنگ جو رومی جنرل" مارسیلس"(Marcellus) کی فوجوں کے خلاف دوسری پیو نک جنگ(رو میوں ا ور کار تھیجوں کے دو میان ہونے والی تین جنگوں کو پیونک جنگیں کہتے ہیں )٢١٤ قبل مسیح میں ہوئی، ارشمیدس نے ریاست "سیراکیوز "(Syracuse) کے دفاع میں مدد کی اور یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے کافی بڑے شمسی عاکس بنائے جو سورج کی شعاعوں کو دشمنوں کے جہاز پر مرتکز کرتے تھے نتیجتاً ان میں آگ لگ جاتی تھی۔(سائنس دانوں کے درمیان یہ بحث اب بھی جاری ہے کہ آیا ایسا کام کرنے والا شعاعی ہتھیار عملی طور پر بنا نا ممکن ہے۔ سائنس دانوں کی کئی ٹیموں نے اس کی نقل کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے مختلف نکلے۔)

شعاعی بندوق کا سائنس فکشن میں نظر آنا ١٨٨٩ء میں ایچ جی ویلز کے کلاسک ناول "وار آف دا وورلڈز" سے شروع ہوا ، جس میں مریخ کی خلائی مخلوق پورے کے پورے شہروں کو تپائی میں نصب ہتھیاروں سے نکلتی ہوئی حرارتی شعاعوں سے تباہ کر دیتی ہے۔ دوسرے جنگ عظیم کے دوران نازی ہمیشہ سے نئی اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ دنیا کو فتح کرنے کے دیوانے رہے ہیں ، انہوں نے کئی قسم کی شعاعی بندوقوں کے تجربے کیے۔ اس میں شامل ایک صوتی آلہ ایسا تھا جو مکافی آئینوں پر مشتمل تھا اور شدید آواز کی شعاعوں کو مرتکز کر سکتا تھا۔ مرتکز روشنی کی شعاعوں سے بنائے گئے ہتھیار عوام کے تصوّر میں جیمز بانڈ کی فلم" گولڈ فنگر" سے آنے شروع ہوئے، جو ہالی ووڈ کی وہ پہلی فلم تھی جس میں لیزر دکھائی گئی تھی۔(فلم میں دکھایا گیا ہے کہ افسانوی برطانوی جاسوس دھاتی میز پر بندھا ہو ا ہے اور زبردست طاقت والی لیزر کی کرنیں آہستہ آہستہ بتدریج میز کو پگھلاتی ہوئی اس کی ٹانگوں کی طرف بڑھتی ہوئی اس کو دو حصّوں میں تقسیم کرنے کی دھمکی دے رہی ہوتی ہے۔)

طبیعیات دانوں نے ویلز کے ناول میں متعارف ہوئی شعاعی بندوق کا مذاق اڑنا شروع کر دیا تھا کیونکہ ان کے خیال میں وہ طبیعیات کے مروجہ قوانین کی خلاف ورزی کر رہی تھی۔ میکسویل کی مساوات کے مطابق ، جس روشنی کو ہم اپنے آس پاس دیکھتے ہیں وہ تیزی سے پھیلتی ہے اور بے ربط ہوتی ہے۔(یعنی یہ گڈمڈ موجوں والی مختلف تعدد ارتعاش اور مرحلوں والی ہوتی ہیں) ایک زمانے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ مربوط ، مرتکز اور ایک جیسی روشنی کی کرنیں ، جس طرح سے لیزر میں موجود ہوتی ہیں ، بنانی نا ممکن ہوتی ہے۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔

تبصرے

----------------------------------------------------------------------------------
3۔ فیزرس اور غارت گر ستارے (Phasers and Death Stars) - دوسرا حصّہ 
----------------------------------------------------------------------------------
کوانٹم کا انقلاب

کوانٹم کے نظریئے کے آتے ہی بہت سے بت مسمار ہو گئے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں ہی یہ بات عیاں ہو گئی تھی کہ اگرچہ نیوٹن کے قوانین اور میکسویل کی مساوات نہایت شاندار اور کامیابی کے ساتھ سیاروں کی حرکت اور روشنی کا برتاؤ بیان کرتی ہیں ،لیکن وہ تمام مظاہر قدرت کو صحیح طرح سے بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ کچھ باتوں کو بیان کرنے سے بری طرح ناکام ہو جاتی ہیں مثلاً کچھ مادّے برق کے موصل کیوں ہوتے ہیں، دھاتیں کیوں ایک مخصوص درجہ حرارت پر پگھل جاتی ہیں، گرم ہوتی گیسیں روشنی کیوں چھوڑتی ہیں ، کیوں کچھ مادّے نچلے درجہ حرارت پر فوقی موصل بن جاتے ہیں ، ان تمام باتوں کو جاننے کے لئے ایٹم کے اندرون کی حرکیات کا جاننا نہایت ضروری تھا۔ انقلاب رونما ہونے کے لئے وقت بالکل مناسب تھا۔ لوہا بالکل گرم تھا بس ایک چوٹ مارنے کی دیر تھی۔٢٥٠ سال کی نیوٹن کی طبیعیات شکست کھانے کو تھی اور درد زہ نئی طبیعیات کا پیامبر بن کر آیا تھا۔

١٩٠٠ء میں" میکس پلانک"(Max Planck) نے جرمنی میں اس بات کا نظریہ پیش کیا کہ توانائی مسلسل نہیں ہوتی جیسا کہ نیوٹن نے سوچا تھا بلکہ یہ چھوٹے اور مجلد بنڈلوں کی صورت میں ہوتی ہے جن کو "کوانٹا" کہتے ہیں۔ اس کے بعد ١٩٠٥ء میں آئن سٹائن نے یہ مفروضہ پیش کیا کہ روشنی چھوٹے مجلد بنڈلوں پر مشتمل ہوتی ہے اس کو بعد میں "ضیائیہ"( فوٹون) کہا گیا۔ اس سادے مگر زوردار مفروضے کی بدولت آئن سٹائن اس قابل ہوا کہ وہ "ضیائی برقی اثر"(Photo Electric Effect) کو بیان کر سکے۔ ضیائی برقی اثر بتاتا ہے کہ جب کسی دھات پر روشنی پڑتی ہے تو وہ کیوں اس وقت الیکٹران خارج کرتے ہیں۔ آج کے دور میں ضیائی برقی اثر اور فوٹون کی بنیاد پر ہی ٹیلی ویژن ، لیزر، شمسی سیل اور بہت سارے دوسرے جدید آلات بنے ہیں۔(آئن سٹائن کا فوٹون کا نظریہ بہت زیادہ انقلابی تھا۔ میکس پلانک جو عام طور سے آئن سٹائن کا پرجوش حامی رہا تھا اس کو بھی پہلی بار میں اس نظریئے پر یقین نہیں آیا تھا۔ آئن سٹائن کے بارے میں لکھتے ہوئے پلانک کہتا ہے " وہ کبھی اپنے ہدف سے ہٹ جاتا ہے۔۔۔ مثال کے طور پر ، روشنی کے کوانٹاکے مفروضے کو لے لیجئے ، بہرحال اس مفروضے کو اس کے خلاف استعمال نہیں کیا جا سکتا۔)

پھر ١٩١٣ء میں ڈنمارک کے طبیعیات داں" نیلز بوہر"(Niels Bohr) نے ایٹم کی بالکل ایک نئی تصویر پیش کی جس میں وہ ایک چھوٹے سے نظام شمسی کی طرح نظر آتے ہیں۔ لیکن خلاء میں موجود نظام شمسی کے برخلاف ، الیکٹران صرف علیحدہ مداروں یا خولوں میں مرکزے کے اطراف میں چکر لگاتے ہیں۔ جب الیکٹران ایک خول سے دوسرے چھوٹے خول کی طرف چھلانگ لگاتے ہیں تو اس وقت وہ توانائی کا ایک فوٹون خارج کرتے ہیں۔ جب الیکٹران ایک فوٹون جذب کرتے ہیں تو وہ بڑے خول کی طرف زیادہ توانائی کے ساتھ چھلانگ لگاتے ہیں۔

ایٹم کا نظریہ ١٩٢٥ء میں نمودار ہوا۔ جس کے ساتھ کوانٹم میکینکس اور"ایرون شروڈنگر" (Erwin Schrodinger)،" ورنر ہائیزن برگ" (Werner Heisenberg)اور دوسروں کے انقلابی کام بھی منظر عام پر آئے۔ کوانٹم کے نظریئے کے مطابق ، الیکٹران ایک ذرّہ تھا، لیکن اس کے ساتھ ایک موج بھی ہمنشیں ہوتی تھی۔ اس طرح سے اس میں دونوں ذرّے اور موج کی خصوصیات موجود ہیں۔ موج ایک مساوات کے تابع ہے جس کو "شروڈنگر موجی مساوات "کہتے ہیں ، اس مساوات سے ایٹم کی خاصیت کو ناپنے میں مدد ملتی ہے جس میں وہ تمام مفروضی چھلانگیں شامل ہیں جو بوہر نے بیان کی تھیں۔

١٩٢٥ء سے پہلے ایٹم پراسرار اجسام سمجھے جاتے تھے اور فلسفیوں کی اکثریت مثلاً " ارنسٹ ماک"(Ernst Mach) تو ان کے وجود کے ہی قائل نہیں تھے۔ ١٩٢٥ء کے بعد لوگ نا صرف ایٹم کے اندر جھانکنے کے قابل ہو گئے تھے بلکہ اس کے خصائص کو بھی بیان کر سکتے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اگر آپ کے پاس کافی بڑا اور طاقتور کمپیوٹر موجود ہو تو آپ کیمیائی عناصر کی صفتیں بھی کوانٹم کے قوانین کی بدولت اخذ کر سکتے ہیں۔ جس طرح سے نیوٹن کی طبیعیات ایک بڑے اور طاقتور کمپیوٹر کی مدد سے کائنات میں موجود تمام فلکی اجسام کی حرکت کا حساب کتاب لگا سکتی ہے بعینہ ایسے ہی کوانٹم طبیعیات کا دعویٰ ہے کہ وہ بنیادی اصول کے مطابق کائنات میں موجود تمام کیمیائی عناصر کے خصائص کا پتا لگا سکتی ہے۔ اگر ہمارے پاس کافی بڑا کمپیوٹر موجود ہو تو وہ پورے انسان کی موجی خاصیت کو لکھ سکتا ہے۔

میزرز (Masers) اور لیزر ز 

١٩٥٣ء میں برکلے میں واقع یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں پروفیسر" چارلس ٹاؤنز "(Charles Townes)اور ان کے رفقائے کاروں نے پہلی "مربوط"(Coherent)شعاع خرد موجوں کی شکل میں بنائی۔ جس کو میزر (یعنی "برائے خرد موج توسیع بذریعہ تحریکی شعاعی اخراج"[For Microwave Amplification through Stimulated Emission of Radiation]) کا نام دیا گیا۔ اس نے روسی طبیعیات دان - "نکولائی باسوف"(Nicolai Basov) اور "الیگزینڈر پروخورف" (Alexander Prokhorov) کے ساتھ آخر کار طبیعیات کا نوبل انعام ١٩٦٤ء میں حاصل کیا۔ جلد ہی ان کے کام کا دائرہ کار بصری روشنی تک پھیل گیا ، جس کے نتیجے میں لیزر کی پیدائش ہوئی۔( فیزر بہرحال ایک خیالی آ لہ ہے جو اسٹار ٹریک فلم میں بہت زیادہ مشہور ہے۔)

لیزر میں شروعات ایک ایسے خاص ذریعہ سے کی جاتی ہے جو لیزر کی شعاع کو بعد میں نشر کرتا ہے مثلاً خصوصی گیس، قلم یہ پھر ڈائیوڈ۔ اس کے بعد اس میں باہر سے توانائی کو بھرا جاتا ہے، جو برق ، ریڈیائی، روشنی یا کیمیائی تعامل کی صورت میں ہو سکتی ہے۔ اچانک تیزی سے آتی ہوئی یہ توانائی اس ذریعہ کے ایٹموں میں جذب ہو جا تی ہے، اس طرح سے الیکٹران اس توانائی کو جذب کرکے باہر ی خول میں چھلانگ لگاتے ہیں۔

اس ہیجان زدہ توانائی سے بھری ہوئی حالت میں وہ ذریعہ غیر پائیدار ہو جاتا ہے ، اگر اس دوران کوئی روشنی اس ذریعہ میں سے گزرے گی ، تو فوٹون ہر ایٹم سے ٹکرائے گا ، جس سے وہ یک دم اپنے نچلے خول میں چلا جائے گا اس عمل سے مزید فوٹون خارج ہوں گے ، جس سے ایک کے اوپر ایک منہدم ہوتے ہوئے ایٹم، کھرب ہا کھرب فوٹون ایک کرن کی صورت میں اچانک خارج کر دیں گے۔ اس عمل کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ کچھ مادّوں سے فوٹون کا یہ طوفان جب نکلتا ہے تو نکلتے ہوئے فوٹون ایک ہم آہنگی کے ساتھ مربوط اور تھر تھرا تھے ہوئے نکلتے ہیں ۔

(ذرا ڈومینوز کے ایک خط کا تصوّر کریں۔[ڈومینو ایک کھیل ہوتا ہے جس کے ۲۸پانسہ نُما لمبوترے مہروں یا ٹکلیوں میں صِفر تا ۶کے نِشان ہوتے ہیں۔] ڈومینوز اپنی ادنیٰ ترین توانائی کی حالت میں ایک میز پر رکھے ہوئے ہیں۔ ڈومینوز بلند توانائی کی حالت میں ، توانائی سے بھرپور حالت میں عمودی کھڑی ہوتی ہے ، بالکل ایسے جیسے توانائی سے بھرپور ایٹم ذریعہ میں موجود ہوتے ہیں۔ اگر آپ ایک ڈومینو کو دھکا دیں گے تو اس میں موجود تمام منہدم ہوتی توانائی اچانک ایک ساتھ نکلے گی ، جیسے لیزر کی شعاع نکلتی ہے۔)

کچھ ہی مادّے لیزر میں استعمال ہو سکتے ہیں ، یعنی کچھ خاص مادّوں میں جب فوٹون توانائی سے بھرپور ایٹموں سے ٹکراتے ہیں تو فوٹون کا اخراج ہوتا ہے جو اصل فوٹون سے مکمل مربوط ہوتا ہے۔ نکلنے والے مربوط فوٹون کے سیلاب میں تمام فوٹون ہم آہنگی کے ساتھ تھر تھرا تھے ہیں جس کے نتیجے میں ایک پنسل جتنی پتلی لیزر کی شعاع بنتی ہے۔(تصور کے برعکس ، لیزر کی شعاع ہمیشہ کے لئے پنسل جیسی پتلی نہیں رہتی۔ مثال کے طور پر چاند پر پھینکی جانے والی لیزر کی شعاع بتدریج پھیلتی جائے گی تاوقتیکہ وہ چند میل جتنا نشان چاند پر بنا دے۔

ایک سادہ گیسی لیزر ہیلیئم اور نیون گیس کی نلکی پر مشتمل ہوتی ہے۔ جب برق نلکی کے ذریعہ بھیجی جاتی ہے تو وہ ایٹموں کو توانا کر دیتی ہے۔ اب اگر توانائی اچانک سے چھوڑی جائے تو روشنی کی ایک مربوط شعاع اس سے نکلے گی۔ اس شعاع کو دو آئینوں کے ذریعہ افزوں کیا جاتا ہے ، جو اس کے نکڑ پر لگے ہوتے ہیں ، لہٰذا شعاع ان کے درمیان آگے پیچھے ٹپے کھاتی ہے۔ ایک آئینہ مکمل طور پر غیر شفاف ہوتا ہے جبکہ دوسرا تھوڑی سی روشنی کو ہر مرتبہ اپنے پاس سے گزرتے ہوئے فرار ہونے کا موقع دیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں شعاع ایک حصّے سے باہر نکل جاتی ہے۔

دور حاضر میں پرچون کی دکانوں کے چیک آ وٹ اسٹینڈ سے لے کر انٹرنیٹ میں استعمال ہونے والی فائبر آپٹک تاروں تک ، اور لیزر پرنٹر اور سی ڈی سے لے کر جدید کمپیوٹر تک لیزر زندگی کے ہر میدان میں نظر آتی ہیں۔ لیزر کا استعمال آنکھوں کی سرجری میں، ٹیٹو کو ہٹانے میں یہاں تک کہ بیوٹی سیلون تک میں اس کا استعمال ہو رہا ہے۔ ٢٠٠٤ء میں ٥۔٤ ارب ڈالر سے زیادہ کی لیزر مصنوعات پوری دنیا میں فروخت ہوئی ہیں۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔

 
---------------------------------------------------------------------------------
3۔ فیزرس اور غارت گر ستارے (Phasers and Death Stars) - حصّہ سوم
---------------------------------------------------------------------------------

لیزر اور گداخت (Fusion)کی قسمیں

لیزر میں استعمال ہونے والے نئے نئے مادّوں کی دریافت کے ساتھ تقریباً روزانہ ہی نئی قسم کی لیزر اور ان میں توانائی بھرنے کے نئے طریقے بھی دریافت ہو رہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ان میں سے کوئی بھی ٹیکنالوجی شعاعی بندوق یا روشنی کی تلوار بنانے میں استعمال ہو سکتی ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ اس قدر طاقتور لیزر بنائی جا سکے جو غارت گر ستارے جیسے کسی ہتھیار کو توانا کر دے؟ دور حاضر میں لیزر کی اتنی قسمیں موجود ہیں کہ انسان پریشان ہو جائے۔ ان مختلف اقسام کی لیزر کی طاقت کا انحصار دو چیزوں پر ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ انھیں کس مادّے سے بنایا گیا ہے اور دوسرے ان میں کونسی توانائی (مثال کے طور پر برق، شدید روشنی کی شعاع یا پھر کیمیائی دھماکا ) ڈالی جا رہی ہے۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں:

گیس لیزر۔ اس قسم کی لیزر میں ہیلیئم – نیون پر مشتمل لیزر شامل ہیں۔ یہ بہت ہی زیادہ عام ہیں، جو شناسا سرخ شعاع بناتی ہیں۔ ان کو توانا کرنے کے لئے ریڈیائی موجیں یا پھر بجلی استعمال کی جاتی ہے۔ ہیلیئم - نیون لیزر کافی کمزور ہوتی ہے۔ مگر کاربن ڈائی آکسائڈ گیس کی لیزر دھماکہ کرنے ، چیزوں کو کاٹنے، اور بھاری صنعتوں میں ہونے والی ویلڈنگ میں استعمال ہوتی ہے۔ یہ زبردست طاقت کی مکمل غیر مرئی شعاع بھی بنا سکتی ہے۔

· کیمیائی لیزر۔ یہ طاقتور لیزر کیمیائی عمل کے نتیجے میں توانا ہوتی ہیں، مثلاً اس توانائی کو ایتھائلین اور نائٹروجن ٹرائے فلورائیڈ کی پھواروں کو جلا کر حاصل کیا جائے۔ ایسی لیزر اس قدر طاقتور ہوتی ہیں کہ ان کا حربی استعمال ہو سکتا ہے۔ کیمیائی لیزر یو ایس افواج کے لڑاکا طیاروں اور زمینی فوجی ٹھکانوں کے استعمال میں ہیں جو دسیوں لاکھوں واٹ کی توانائی پیدا کر سکتی ہیں۔ ان کو بنانے کا مقصد چھوٹے فاصلوں تک مار کرنے والے میزائل کو گرانا ہے۔

ایکسائیمر(Excimer) لیزر۔ یہ لیزر بھی کیمیائی عمل کے نتیجے میں کام کرتی ہیں ، اس میں اکثر وہ گیسیں استعمال ہوتی ہیں جو انتہائی سست ہوتی ہیں (مثال کے طور پر آر گون ، کرپٹون اور زینون ) ان کے ساتھ فلورین اور کلورین بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ بالائے بنفشی شعاعیں پیدا کرتی ہیں۔ ان کا استعمال چھوٹے ٹرانسسٹر ز کو سیمی کنڈکٹر صنعت میں چپس پر نقش کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ یا پھر ان کا استعمال نازک "لیزیک"(Lasik) جراحی میں بھی ہوتا ہے۔

ٹھوس حالت والی لیزر۔ سب سے پہلی کام کرنے والی لیزر جو بنی تھی وہ کرومیم – نیلم یاقوت کی قلموں سے بنائی گئی تھی۔ انواع و اقسام کی کافی تعداد میں مختلف قلمیں- ایٹریم ، ہولمیم، تھیلیئم اور دوسرے کیمیائی مادّوں کے ساتھ مل کر اس لیزر کی شعاع کو بنانے میں استعمال ہو سکتی ہیں۔ یہ بلند توانائی کی نہایت ہی چھوٹی نبضی لیزر کی شعاعیں پیدا کرتی ہیں۔ 

سیمی کنڈکٹر لیزر۔ ڈائیوڈ ، جو سیمی کنڈکٹر صنعت میں عام استعمال میں ہیں ، وہ زبردست طاقت والی شعاعیں پیدا کر سکتے ہیں جن کا استعمال صنعتوں میں کاٹنے اور ویلڈ کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ یہ اکثر پرچون کی دکان میں چیک آ وٹ پائنٹ پر اسٹینڈ کی صورت میں لگی ہوتی ہیں جن کا کام جنس کی چیزوں پر موجود بار کوڈ پڑھنا ہوتا ہے۔

· رنگی لیزر۔ یہ لیزر نامیاتی رنگ اپنے آلے میں استعمال کرتی ہیں۔ یہ بہت ہی چھوٹی روشنی کی نبضوں کو بنانے کے لئے انتہائی کارآمد ہوتی ہیں جو ایک سیکنڈ کے دس کھربویں حصّہ میں بن کر ختم ہو جاتی ہیں۔

لیزر اور شعاعی بندوق 

اس قدر انواع و اقسام کی تجارتی لیزر اور طاقتور حربی لیزر کے باوجود اب تک ہمارے پاس لڑائیوں اور جنگوں میں استعمال کرنے کے لئے شعاعی بندوق کیوں نہیں ہے؟ کسی بھی قسم کی شعاعی بندوق سائنس فکشن فلموں میں دکھایا جانے والا ایک معیاری ہتھیار ہوتا ہے۔ ہم ان کو بنانے کے لئے کام کیوں نہیں کر رہے ہیں؟

اس بات کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ بآسانی توانائی کا ذخیرہ کرنے والے کسی ذریعہ کی عدم دستیابی اس کی تیاری میں اہم رکاوٹ ہے۔ توانائی کو ذخیرہ کرنے والی بہت چھوٹے ذریعہ کی ضرورت ہے جو ہماری ہتھیلی سے بھی چھوٹی ہو اور بہت بڑے برقی پاور اسٹیشن کی توانائی کو اپنے اندر سما لے۔ سردست تو صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ اس طرح کے بڑے تجارتی پاور اسٹیشن کی توانائی کو قابو کرنے کے لئے اس کو بنا لیا جائے۔ فی الوقت سب سے چھوٹا حربی آلہ جو وسیع توانائی کا ذخیرہ اپنے اندر رکھتا ہے وہ چھوٹا ہائیڈروجن بم ہے جو ہدف کے ساتھ ساتھ اس کے چلانے والے کو بھی ختم کر دے گا۔

دوسرا مسئلہ جو اس سے جڑا ہوا ہے وہ اس میں استعمال ہونے والے مادّے کی پائیداری کا ہے۔ اصولی طور پر لیزر کی شعاع میں توانائی مرتکز کرنے کی کوئی حد نہیں ہے۔ مسئلہ ہاتھ سے چلنے والی لیزر کی بندوق میں موجود مادّے کا ہے جو پائیدار نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اگر قلمی لیزر میں بہت زیادہ توانائی مرتکز کی جائے گی تو وہ چٹخ جائے گی۔ لہٰذا ایک طاقتور لیزر، جو کسی شئے کو تحلیل کردے یا دشمن کا خاتمہ کردے، کو بنانے کے لئے دھماکے کی طاقت کو استعمال کرنا پڑے گا۔ اس طرح سے لیزر میں استعمال ہونے والے مادّے کی پائیداری کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ہوگی کیونکہ اس قسم کی لیزر صرف ایک ہی مرتبہ استعمال کی جا سکے گی۔ 

آسانی سے استعمال میں آنے والے توانائی کے ذخیرے کو بنانے کی مشکلات اور مادّے کی غیر پائیداری کو مد نظر رکھتے ہوئے ہاتھ کے استعمال والی شعاعی گن آج کی ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر بنانا ممکن نہیں ہے۔ شعاعی بندوق کا بنانا صرف اس وقت ممکن ہے جب اس کو تار کے ذریعہ پاور کی رسد گاہ سے جوڑ دیا جائے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم نینو بیٹریز کی مدد سے صغاری بیٹریاں بنا سکیں جو اتنی توانائی کو ذخیرہ کر سکیں یا پھر وہ اتنی توانائی پیدا کر سکے جو شدید توانائی کی بوچھاڑ اس ہاتھ سے چلانے والے ہتھیار کو درکار ہو۔ فی الوقت ہمیں معلوم ہے کہ نینو طرزیات ابھی اپنے ابتدائی دور میں ہے۔ ایٹمی پیمانے پر سائنس دان ایسے ایٹمی آلے بنا چکے ہیں جو کافی اچھے تو ہیں مگر عملی زندگی میں قابل استعمال نہیں ہیں جیسے کہ ابا کس اور ایٹمی گٹار۔ لیکن اس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ اس صدی یا آنے والی صدی میں ، نینو طرزیات کی بدولت ہم صغاری بیٹریاں بنا سکیں گے جو توانائی کی بے انتہاء مقدار اپنے میں ذخیرہ کر سکیں گی۔

روشنی کی ٹھوس تلواریں کو بھی انہیں مسائل کا سامنا ہے۔ پہلی دفع جب اسٹار وارز ١٩٧٠ء میں آئی تو اس وقت روشنی کی تلواریں پچوں کے سب سے زیادہ بکنے والے کھلونے تھے۔ کئی ناقدین نے اس بات کی پیشگوئی کر دی تھی کہ ایسا کوئی آلہ بنانا کبھی بھی ممکن نہیں ہوگا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ روشنی کو ٹھوس کرنا ممکن نہیں ہے۔ روشنی ہمیشہ نور کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ اس کو ٹھوس نہیں بنایا جا سکتا۔ دوسرے، روشنی کی کرن کو ہوا میں ختم نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ ٹھوس روشنی کی تلواریں اسٹار وارز میں کرتی ہیں۔ روشنی کی شعاعیں ہمیشہ محو سفر رہیں گی۔ اصل روشنی کی تلوار تو آسمان تک کھنچ جائے گی۔

اصل میں ایک ایسا طریقہ ہے جس کے ذریعہ روشنی کی تلوار کو پلازما یا انتہائی گرم برق پارہ گیسوں کے ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔ پلازما اتنا گرم کیا جا سکتا ہے جس سے وہ اندھیرے میں روشن ہو سکتا ہے ، وہ سٹیل کو بھی کاٹتا ہوا اس میں سے نکل سکتا ہے۔ پلازما سے بنی ہوئی روشنی کی تلوار باریک، خالی راڈ پر مشتمل ہو سکتی ہے جو اس کے ہتھے سے اس طرح سے باہر نکل سکے جس طرح سے دوربین نکلتی ہے۔ اس نلکی کے اندر گرم پلازما چھوڑا جا سکتا ہے جو بعد میں راڈ میں لگے ہوئے چھوٹے چھوٹے سوراخوں میں سے مسلسل باقائدگی کے ساتھ نکل سکتا ہے۔ اوپر نکلی ہوئی راڈ میں سے پلازما ہتھے سے نکلتا ہوا چلا جائے گا جہاں سے اس نلکی کے سوراخوں سے باہر نکل کر وہ ایک لمبی ، چمکدار گرم گیس کی شکل لیتے ہوئے اتنا طاقتور ہوگا کہ اسٹیل کو بھی پگھلا سکے۔ اس قسم کے آلے کو کبھی کبھار "پلازما مشعل" سے بھی پکارا جاتا ہے۔

لہٰذا اونچی توانائی والی روشنی کی تلوار جیسے آلے کو بنانا ممکن ہے۔ لیکن شعاعی بندوق کی طرح یہاں پر بھی اونچی توانائی کا ذخیرہ کرنے والی ، استعمال میں آسان بیٹری درکار ہوگی۔ یا پھر ہمیں لمبی تاریں درکار ہوں گی جو تلوار سے جڑ کر اس کو مسلسل توانائی فراہم کرتی رہیں ، یا پھر نینو طرزیات کا استعمال کرتے ہوئے ننھے بجلی گھر درکار ہوں گے جن میں زبردست توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت ہو۔

لہٰذا شعاعی بندوق اور روشنی کی تلوار آج بھی کسی شکل میں بنانا ممکن ہیں ، مگر ہاتھ کے استعمال والے اس قسم کے حربی ہتھیار جیسا کہ سائنسی فلموں میں دکھایا جاتا ہے ہماری موجودہ طرزیات کے بس سے باہر ہیں۔ لیکن اس صدی کے اواخر میں یا نئی صدی میں ، سائنس کی دنیا میں نئے مادّے اور نینو طرزیات میں پیش رفت کے ساتھ شعاعی بندوق کی کسی قسم کو بنانا ممکن ہو گا۔ ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں اس کو جماعت "I" کی ناممکنات میں رکھ رہا ہوں۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔

 
------------------------------------------------------------------------------------------------------------
3۔ فیزرس اور غارت گر ستارے (Phasers and Death Stars) - حصّہ چہارم 
------------------------------------------------------------------------------------------------------------

توانائی برائے غارت گر ستارہ 

اسٹاروارز میں دکھائی جانے والی غارت گر ستارہ نما لیزر توپ بنانے کے لئے اب تک کی بنائی گئی سب سے طاقتور لیزر سے بھی زیادہ طاقتور لیزر بنانی ہوگی۔ فلم میں دکھائی جانے والی غارت گر ستارہ نما توپ کسی بھی سیارے کو مکمل طور پر تباہ و برباد کرکے اس کا نام و نشان مٹا کر پوری کہکشاں میں دہشت پھیلا دیتی ہے۔ فی الوقت زمین پر موجود سب سے زیادہ طاقتور لیزر جو استعمال میں ہے وہ کسی ستارے کے قلب میں موجود حرارت کے جتنا درجہ حرارت پیدا کر سکتی ہے۔ گداختی ری ایکٹر کی شکل میں ایک دن یہ ستاروں کے قلب میں موجود جتنی توانائی کو زمین پر حاصل کر سکیں گی۔

گداختی مشین فضائے بسیط میں پیدا ہونے والے ستارے کے ماحول کو نقل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ستارہ ایک عظیم ہائیڈروجن کی بے شکل گیند کی صورت میں اس وقت بننا شروع ہوتا ہے جب قوّت ثقل گیس کو دبا اور گرما کر درجہ حرارت کو فلکیاتی پیمانے پر لے جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ستارے کے قلب کی گہرائی میں درجہ حرارت ٥ سے ١٠ کروڑ ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچتا ہے ، جو ہائیڈروجن کے ایٹموں کے مرکزے کو ایک دوسرے میں ضم کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے نتیجتاً ہیلیئم کے ایٹمی مرکزے اور توانائی کے جھکڑ پیدا ہوتے ہیں۔ ہائیڈروجن کی ہیلیئم کے گداختی عمل کے دوران معمولی سی کمیت دھماکہ خیز توانائی میں بدلتی ہے۔ یہ وہی عمل ہے جس کو آئن سٹائن کی شہرہ آفاق مساوات E=mc2 کے ذریعہ بیان کیا جا سکتا ہے۔ ستاروں کو توانائی حاصل کرنے کا ذریعہ یہ ہی گداختی عمل ہے۔

دو طریقے ایسے ہیں جن کے ذریعہ سائنس دان اس گداختی عمل کو زمین پر دہرانے کے کوشش کر رہے ہیں۔ مگر دونوں ہی طریقے ان کی امید سے بڑھ کر کہیں زیادہ مشکل ثابت ہوئے ہیں۔

جمودی پابندی(Inertial Confinement) برائے گداخت 

پہلا طریقہ جمودی پابندی کا کہلاتا ہے۔ تجربہ گاہ میں سورج کا ایک چھوٹا سا حصّہ بنانے کے لئے یہ طریقہ سب سے زیادہ طاقتور لیزر کو استعمال کرتا ہے۔ ایک نیوڈیمیئم شیشہ کی ٹھوس حالت والی لیزر، سورج کے قلب میں موجود جھلسا دینے والے درجہ حرارت کی نقل کرنے کے لئے مثالی طور پر موزوں ہے۔ یہ لیزر کے نظام بہت بڑے کارخانے کے جتنے ہوتے ہیں جس میں لیزر کی بیٹریاں موجود ہوتی ہیں جو متوازی لیزر شعاعوں کے سلسلے کو ایک لمبی سرنگ میں پھینکتی ہیں۔ یہ اونچی طاقت والی لیزر کی شعاعیں اس کے بعد چھوٹے شیشوں کے سلسلے سے ٹکراتی ہیں جن کو ایک کرۂ کی ترتیب میں لگایا ہوا ہوتا ہے ، وہ شیشے انتہائی احتیاط سے لیزر کی شعاعوں کو مرتکز کرکے یکساں طور پر ہائیڈروجن سے بھرپور ایک چھوٹی سی گیند (جو کسی ایسے مادّے سے بنی ہوتی ہے جیسا کہ لیتھیم ڈیو ٹیرائیڈ جو ہائیڈروجن بم کا سب سے اہم جز ہے ) پر مارتے ہیں۔ اس چھوٹی سی گولی کا حجم کسی سوئی کی نوک کے جتنا صرف ١٠ ملی گرام ہوتا ہے۔

لیزر کی روشنی کا دھماکہ اس چھوٹی سی گیند کی سطح کو خاکستر کر دیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں سطح تحلیل ہو جاتی ہے اور اس ننھی گیند کو اور دبا دیتی ہے۔ جیسے ہی وہ چھوٹی سی گیند منہدم ہوتی ہے ایک صدماتی موج اس چھوٹی سی گیند کے قلب کی طرف روانہ ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں درجہ حرارت کروڑوں ڈگری تک جا پہنچتا ہے ۔ یہ درجہ حرارت اتنا ہوتا ہے جس میں ہائیڈروجن کے ایٹم ایک دوسرے میں ضم ہو کر ہیلیئم بنا سکتے ہیں۔ درجہ حرارت اور دباؤ اتنا فلکیاتی پیمانے کا ہوتا ہے کہ "لاء سن کا معیار" پورا ہو جاتا ہے ، یہ وہ ہی معیار ہے جو ہائیڈروجن بم کے بنانے میں اور ستاروں کے قلب میں درکار ہوتا ہے۔(لاء سن کا معیار کہتا ہے مخصوص درجہ حرارت ، کثافت، اور وقت کی قید ہائیڈروجن بم میں گداختی عمل کو شروع کرنے کے لئے نہایت ضروری ہیں چاہئے یہ گداختی عمل ستاروں کے قلب میں ہو یا گداختی مشین میں۔)

اس جمودی قید کے عمل میں توانائی کی وسیع مقدار نکلتی ہے جس میں نیوٹران بھی شامل ہیں۔(لیتھیم ڈیو ٹیرائیڈکا درجہ حرارت ١٠ کروڑ ڈگری تک بھی جا سکتا ہے اور اس کی کثافت سیسے کی کثافت سے ٢٠ گنا زیادہ تک ہو سکتی ہے۔) نیوٹران کا انفجار اس چھوٹی سی گیند سے نکلتا ہے ، پھر نیوٹران کروی مادّے کے کمبل سے ٹکراتے ہیں جو خانے کے گرد لپیٹا ہوا ہوتا ہے ، نتیجتاً وہ مادّے کا کمبل گرم ہو جاتا ہے ، یہ گرم کمبل پھر پانی کو گرم کرتا ہے جس کے نتیجے میں بننے والی بھاپ سے ٹربائن چلا کر بجلی بنائی جا سکتی ہے۔ مسئلہ ابھی تک اس بات میں اٹکا ہوا ہے کہ اتنی شدید قوّت کو اتنی چھوٹی سی کروی گیند کے اوپر مرتکز کیسا کیا جائے۔ اس سلسلے کی ابتدائی کوششیں" شیوا"(Shiva) لیزر سے کی گئیں جس میں لیزر کے ذریعہ گداختی عمل شروع کیا گیا۔ شیوا لیزر ایک ٢٠ شعاعی لیزر کا نظام ہے جو لارنس لیورمور نیشنل لیبارٹری ، کیلی فورنیا میں واقع ہے اس نے ١٩٧٨ء سے کام کرنا شروع کر دیا تھا۔(شیوا ایک ہندو دیوی کا نام ہے جس کے کافی سارے بازو ہیں ، لیزر کا یہ نظام ایک طرح سے اسی کی نقل ہے۔) شیوا لیزر نظام کی کارکردگی نہایت مایوس کن رہی ، بہرحال اس نے یہ بات تو ثابت کردی کہ لیزر سے گداختی عمل فنی اعتبار سے قابل عمل ہے۔ شیوا لیزر نظام بعد میں" نوا"(Nova) لیزر سے بدل گیا جس کی توانائی شیوا سے ١٠ گنا زیادہ تھی۔ مگر نوا لیزر بھی چھوٹی گیند میں گداخت کا عمل شروع کرنے میں ناکام رہی تھی۔ اس بات سے قطع نظر اس نے نیشنل اگنیشن فیسلٹی میں ہونے والی حالیہ تحقیق کے لئے راہ ہموار کردی۔ یہ جو ١٩٩٧ء میں لارنس لیورمور نیشنل لیبارٹری میں بننا شروع ہوئی تھی۔

نیشنل اگنیشن فیسلٹی نے ٢٠٠٩ء سے کام کرنے کی شروعات کرنی ہے۔ یہ ایک دیو ہیکل مشین ہے ، جس میں ١٩٢ لیزر کی شعاعوں کی بیٹریاں لگی ہوئی ہیں ، اس کی بجلی پیدا کرنے کی طاقت ٧ ہزار کھرب واٹ ہے (توانائی کی ایک بوچھاڑ میں ٧ لاکھ بڑے نیوکلیائی بجلی گھروں کے برابر کی طاقت مرتکز ہے۔) یہ فن کے درجہ کمال کو پہنچا ہوا لیزر کا نظام ہے جس کو خاص اس طور پر بنایا گیا ہے کہ یہ ہائیڈروجن سے بھرپور گیند کو مکمل خاکستر کر سکے۔(ناقدین نے اس کے عیاں حربی استعمال پر نکتہ چینی کی ہے ، کیونکہ یہ ہائیڈروجن بم کی نقل کر سکتا ہے اور شاید اس کے ذریعہ نیوکلیائی بم بھی بنانا بھی ممکن ہو سکے، جو خالصگداختی بم ہوگا ، جس میں گداختی عمل کو شروع کرنے کے لئے یورینیم یا پلوٹونیم کے ایٹمی بم کی ضرورت نہیں ہوگی۔)

مگر نیشنل اگنیشن فیسلٹی کی لیزر گداختی مشین ، جو کرۂ ارض پر موجود تمام لیزر مشینوں سے طاقتور ہے ، وہ بھی" اسٹار وارز" کے غارت گر ستارے کی تباہ کن طاقت کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ اس قسم کے ہتھیار کو بنانے کے لئے ہمیں دوسرے توانائی کے ذرائع ڈھونڈنے ہوں گے۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔

--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
3۔ فیزرس اور غارت گر ستارے (Phasers and Death Stars) - حصّہ پنجم 
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
"مقناطیسی قید"(Magnetic Confinement) برائے گداخت 

غارت گر ستارے کو بنانے کے لئے دوسرا طریقہ جو سائنس دان ممکنہ طور پر استعمال کر سکتے ہیں وہ "مقناطیسی قید" کہلاتا ہے، یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں ہائیڈروجن گیس کا گرم پلازما مقناطیسی میدان میں موجود ہوتا ہے. درحقیقت یہ طریقہ اصل میں پہلے پروٹو ٹائپ تجارتی گداختی ری ایکٹر کو بنا سکتا ہے. دور حاضر کے اس قسم کے سب سے جدید گداختی پروجیکٹ کا نام انٹرنیشنل تھرمو نیوکلیئر ایکسپیریمینٹل ری ایکٹر ہے. ٢٠٠٦ء میں مختلف اقوام کے اتحاد (جس میں یوروپی یونین، ریاست ہائے متحدہ ، چین، جاپان، کوریا، روس اور ہندوستان شامل تھے ) نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ انٹرنیشنل تھرمو نیوکلیئر ایکسپیریمینٹل ری ایکٹر کو جنوبی فرانس میں واقع" کداراکی"(Cadarache) میں بنایا جائے. یہاں پر ہائیڈروجن گیس کو ١٠ کروڑ ڈگری درجہ حرارت تک گرم کیا جا سکے گا . یہ وہ پہلا گداختی ری ایکٹر بننے کا اعزاز اپنے نام کر سکتا ہے جو اپنے سے زیادہ صرف شدہ توانائی پیدا کرے گا. اس کو ٥٠٠ میگا واٹ طاقت کو ٥٠٠ سیکنڈ تک بنانے کے لئے وضع کیا گیا ہے.(فی الوقت کا ریکارڈ ١٦ میگا واٹ ایک سیکنڈ تک کا ہے .). انٹرنیشنل تھرمو نیوکلیئر ایکسپیریمینٹل ری ایکٹر اپنا پہلا پلازما ٢٠١٦ء تک پیدا کر پائے گا. جب کہ یہ مکمل طور پر کام کرنا ٢٠٢٢ء سے شروع کرے گا. مین ہٹن پروجیکٹ اور انٹرنیشنل ا سپیس ا سٹیشن کے بعد ١٢ ارب ڈالر کے ساتھ یہ سائنس کی تاریخ کا سب سے مہنگا پروجیکٹ ہے .

انٹرنیشنل تھرمو نیوکلیئر ایکسپیریمینٹل ری ایکٹر ایک بڑے سے ڈونَٹ کی طرح دکھائی دے گا، جس کے اندر ہائیڈروجن گیس گشت کر رہی ہوگی اور بہت بڑے تاروں کے لچھے سطح کے چاروں طرف لپٹے ہوں گے. لچھوں کو اس وقت تک ٹھنڈا کیا جائے گا جب تک وہ فوقی موصل نہیں بن جاتے اور اس کے بعد بہت بڑی مقدار میں برقی رو ان میں دوڑائی جائے گی جس سے مقناطیسی میدان بنیں گے جو ڈونَٹ میں موجود پلازما کو قید رکھیں گے. اب برقی رو ڈونَٹ کے اندر داخل کی جائے گی ، تو اس سے گیس نجمی درجہ حرارت پر گرم ہوگی .

اس سے حاصل ہونے والی سستی توانائی کے حصول کی وجہ سے سائنس دان اس انٹرنیشنل تھرمو نیوکلیئر ایکسپیریمینٹل ری ایکٹر کے بارے میں اتنے زیادہ ہیجان میں مبتلا ہیں. گداختی ری ایکٹر کا ایندھن عام سمندری پانی ہوگا. جو ہائیڈروجن سے بھرپور ہوتا ہے. کم از کم کاغذوں کی حد تک تو شاید یہ ہمیں نہ ختم ہونے والی سستی توانائی فراہم کر سکتا ہے.

اب سوال یہاں یہ اٹھتا ہے کہ ہمارے پاس ابھی یہ گداختی ری ایکٹر کیوں نہیں ہے؟ اس نے بننے میں اتنا لمبا عرصہ کیوں لیا جبکہ ہم نے گداختی عمل کو ١٩٥٠ء میں ہی جان لیا تھا؟ مسئلہ اس شیطان صفت مشکل کا تھا جس میں دبا کر یکساں ہائیڈروجنی ایندھن کو حاصل کرنا تھا. ستاروں میں یہ کام قوّت ثقل کرتی ہے وہ ہائیڈروجن گیس کو مکمل کرۂ کی شکل میں بھینچتی ہے جس سے گیس یکساں اور صفائی سے گرم ہوتی ہے.

انٹرنیشنل تھرمو نیوکلیئر ایکسپیریمینٹل ری ایکٹر میں واقع گداختی لیزر میں ، لیزر روشنی کی ہم مرکز شعاعیں جس چھرے کی سطح کو خاکستر کریں گی اس کی سطح کو بے عیب طور پر یکساں ہونا چاہیے ، اور یہ یکسانیت حاصل کرنا ناممکن کی حد تک مشکل ہے. اس مقناطیسی قیدی مشین ، میں مقناطیسی میدانوں کے شمالی قطب اور جنوبی قطب دونوں موجود ہوتے ہیں جس کی وجہ سے گیس کو کرۂ میں یکساں دبانا نہایت مشکل ہوتا ہے . اس مسئلہ سے جان چھڑانے کے لئے سب سے بہتر حل یہ ہے کہ ایک ڈونَٹ کی شکل کا مقناطیسی میدان بنایا جائے. گیس کو دبانا ایسا ہے جیسے کہ کسی غبارے کو دبانا. ہر دفع جب آپ غبارے کو ایک طرف سے دباتے ہیں تو ہوا دوسری طرف غبارے کے گومڑ سا بنا دیتی ہے . غبارے کو یکساں ہر طرف سے ایک ساتھ دبانا بہت مشکل کام ہے. گرم گیس عام طور سے مقناطیسی بوتل سے رس جاتی ہے، جس سے وہ ری ایکٹر کی دیواروں تک جا پہنچتی ہے اور اس کے نتیجے میں گداختی عمل کو بند کرنا پڑتا ہے. یہ ہی وجہ ہے کہ ہائیڈروجن کی گیس کو ایک سیکنڈ سے بھی زیادہ دبانا نہایت مشکل ہے.

دور حاضر کی نسل کے انشقاقی نیوکلیئر پاور پلانٹ کے مقابلے میں گداختی ری ایکٹر میں بڑی مقدار میں نیوکلیئر فضلہ نہیں نکلتا .(ہر روایتی انشقاقی پلانٹ سال میں ٣٠ ٹن زبردست اونچے درجے کی سطح کا نیوکلیئر فضلہ پیدا کرتا ہے. اس کے برخلاف گداختی مشین میں پیدا ہونے والا نیوکلیئر فضلہ زیادہ تر ریڈیائی تابکار اسٹیل پر مشتمل ہوتا ہے جو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ری ایکٹر کو آخر میں ختم کیا جاتا ہے.)

گداختی عمل مستقبل قریب میں مکمل طور پر زمین سے توانائی کا بحران ختم نہیں کر سکےگا، پیئرجول ڈی ژن(Pierre-Gilles de Gennes) جو فرانسیسی نوبل یافتہ طبیعیات دان ہیں فرماتے ہیں " ہم کہتے ہیں کہ ہم نے سورج کو ایک ڈبے میں رکھ دیا ہے. خیال تو بہت اچھا ہے . مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں نہیں معلوم کہ اس ڈبے کو کیسے بنایا جائے." لیکن سب کچھ ٹھیک رہا تو محققین پر امید ہیں کہ اگلے ٤٠ برسوں کے دوران انٹرنیشنل تھرمو نیوکلیئر ایکسپیریمینٹل ری ایکٹر تجارتی استعمال کے لئے گداختی توانائی کے لئے راہ ہموار کر دے گا اور اس سے حاصل کردہ توانائی بجلی کی صورت میں ہمارے گھروں میں آ سکے گی. ایک دن گداختی ری ایکٹر شاید ہماری توانائی کے بحران کو نمٹانے میں مدد کرکے محفوظ طریقے سے سورج کی قوّت کو زمین پر منتقل کر سکیں گے .

مگر یہ مقناطیسی قیدی گداختی عمل بھی اتنی توانائی مہیا نہیں کر سکتا کہ غارت گر ستارے جیسے کسی ہتھیار کو فعال کر سکے. اس کے لئے ہمیں بالکل ایک نیا نمونہ بنانا پڑے گا.

نیوکلیائی فائر ڈ ایکس رے لیزر 

دور حاضر میں صرف ایک طرزیات ایسی ہے جس کے ذریعہ غارت گر ستارے کی لیزر توپ کی نقل کی جا سکتی ہے اور وہ ہے ہائیڈروجن بم. ایک ایسی بیٹری جو ایکس رے کو پیدا کرکے نیوکلیائی ہتھیار کی قوّت کو ایک نقطے پر مرتکز کر سکے اصولی طور پر اتنی توانائی پیدا کر سکتی ہے جس سے ایک ایسا آلہ بنایا جا سکتا ہے جو پورے سیارے کو جلا کر خاکستر کر دے.

نیوکلیائی توانائی کا مقابلہ کیمیائی توانائی سے کیا جائے تو ایک پونڈ نیوکلیائی توانائی ایک پونڈ کیمیائی توانائی کے مقابلے میں ١٠ کروڑ گنا زیادہ توانائی پیدا کرے گی. افزودہ یورینیم کا ایک بیس بال کی حجم کا ٹکڑا کسی بھی شہر کو مکمل جلا کر خاکستر کر دینے کے لئے کافی ہوگا .اس تمام تر بربادی کے باوجود اس کی کمیت کا صرف ایک فیصد ہی توانائی میں تبدیل ہوگا. جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بیان کیا ہے کہ لیزر میں توانائی کو بھرنے کے کافی طریقے ہیں. مگر سب سے زیادہ طاقتور طریقہ اس قوّت کو استعمال کرنے کا ہے جو کسی نیوکلیائی بم کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے.

ایکس رے لیزر ز کی سائنسی اور حربی دنیا میں بہت ہی زیادہ اہمیت ہے. نہایت مختصر طول موج ہونے کی وجہ سے ان کو ایٹمی فاصلے پر بطور کھوجی استعمال کیا جا سکتا ہے اور پیچیدہ سالموں کی ایٹمی ساخت کی رمز کشائی کی جا سکتی ہے ، اگر ایسا ممکن ہو گیا تو یہ ایک ایسا کارنامہ ہوگا جو عام طریقوں سے حاصل کرنا ناممکن کی حد تک مشکل ہے. کیمیائی تعاملات کا ایک پورا نیا جہاں کھل جائے گا. ہم ایٹموں کو خود سے حرکت کرتے ہوئے دیکھ سکیں گے اور سالموں کے اندر ان کی درست ترتیب بھی دیکھنے کے قابل ہو سکیں گے.

کیونکہ ہائیڈروجن بم بڑی مقدار میں توانائی ایکس رے کی شعاعوں کی صورت میں خارج کرتا ہے ، اس لئے ایکس رے نیوکلیائی ہتھیاروں کو فعال بنا سکتی ہے . وہ انسان جو ایکس رے کو سب سے قریب سے جانتا ہے وہ ماہر طبیعیات بابائے ہائیڈروجن بم - "ایڈورڈ ٹیلر"(Edward Teller) ہیں.

ٹیلر وہ طبیعیات دان ہیں جن کو کانگریس نے اپنے سامنے ١٩٥٠ میں گواہی کے لئے طلب کیا تھا .انہوں نے کانگریس کے آگے گواہی دی کہ مین ہٹن پروجیکٹ کے اس وقت کے سربراہ " رابرٹ اپن ہائیمر "(Robert Oppenheimer) کی سیاست کی وجہ سے ان پر ہائیڈروجن بم بنانے کے کام پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا تھا. ٹیلر کی گواہی نے اپن ہائیمر کو رسوا کرکے اس کا ضمانتی پروانہ منسوخ کروا دیا گیا تھا ، کئی ممتاز و نامور طبیعیات دان ٹیلر کی اس حرکت پر اس کو کبھی معاف نہیں کریں گے.

(میرا ٹیلر سے رابطہ اس وقت سے ہے جب سے میں ہائی ا سکول میں تھا . اسکول کے دوران میں نے تجربات کا ایک سلسلہ "ضد مادّہ"(Antimatter) کی نوعیت کو سمجھنے کے لئے کیا تھا اور سان فرانسسکو کا سائنس فیئر ایوارڈ اور ایک تفریحی سفر نیشنل سائنس فیئر ان البقرقی ، نیو میکسیکو کا جیتا تھا . میں ایک مقامی ٹیلی ویژن کے پروگرام پر ٹیلر کے ساتھ آیا تھا جو اس وقت ابھرتے ہوئے طبیعیات دانوں میں دلچسپی رکھتا تھا. آخر کار مجھے ٹیلر کی ہرٹز انجینئرنگ کا وظیفہ ملا ، جس نے میرے کالج کی پڑھائی اور ہارورڈ کے اخراجات ادا کیے. میں اس کے گھرانے کو کافی اچھی طرح جاننے لگ گیا تھا کیونکہ میرا ان کے گھر جو برکلے میں واقع تھا سال میں کافی دفعہ آنا جانا ہوتا تھا . )

اصل میں ٹیلر کی ایکس رے ایک چھوٹا نیوکلیائی بم تھا جو تانبے کی راڈوں میں گھرا ہوا تھا. نیوکلیائی ہتھیار کے احتراق کے نتیجے میں ایکس ریز کی شدید کروی صدماتی موجیں نکلتی تھیں. یہ توانائی سے بھرپور شعاعیں تانبے کی راڈوں سے گزرتی تھیں جو ایک طرح سے لیزر کے مادّہ کا کام انجام دیتے تھے ، اور ایکس ریز کی قوّت کو شدید شعاعوں میں مرتکز کر دیتے تھے. یہ ایکس ریز کی شعاعیں دشمن کے بم کی طرف کی جا سکتی تھیں. ظاہر سی بات ہے کہ یہ آلہ ایک ہی دفع استعمال ہو سکتا تھا ، کیونکہ نیوکلیائی دھماکہ ایکس ریز کو خود سے تباہ کر دے گا.

ابتداء میں نیوکلیائی قوّت سے چلنے والی ایکس ریز کی جانچ " کیبرا جانچ"(Cabra Test) کہلائی جو ایک زیر زمین کان میں ١٩٨٣ء میں کی گئی تھی. ایک ہائیڈروجن بم کو پھاڑا گیا تاکہ اس سے نکلتی ہوئی غیر مربوط ایکس ریز کو ایک مربوط ایکس ریز شعاع میں مرتکز کر دے . شروع میں اس جانچ کو کامیاب قرار دیا. درحقیقت ١٩٨٣ء میں اس جانچ سے صدر رونالڈ ریگن اس حد تک متاثر ہوئے کہ انہوں نے ایک تاریخی تقریر میں اپنی اس اسٹار وارز جیسی کوئی حفاظتی ڈھال بنانے کی چاہت کا اعلان کر دیا. اس تقریر نے کئی ارب ڈالر کی ان کوششوں کا آغاز کیا جو آج تک جاری ہیں. ان کوششوں میں ایسے آلات کو ترتیب وار بنانا تھا جیسا کہ نیوکلیائی طاقت سے چلنے والی ایکس رے لیزر جو اس صلاحیت کی حامل ہو کہ دشمن کے بین البر اعظمی میزائل کو تباہ کر سکیں.(بعد کی تحقیقات نے یہ بات ثابت کردی کہ کیبرا جانچ میں استعمال ہونے والے سراغ رساں (ڈیٹیکٹر) کو تباہ کر دیا گیا . ان سراغ رساں آلات کو اس جانچ کی ریڈنگ کو ناپنے کے لئے استعمال کیا گیا تھا . لہٰذا ان ریڈنگ پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا.)

عملی دنیا میں کیا آج ایسا متنازع آلہ بین البر اعظمی میزائلوں کو گرانے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے؟ شاید ایسا کیا جا سکتا ہے ، لیکن دشمن کے پاس اس کے توڑ کے کافی سارے سادہ اور کم خرچ طریقے موجود ہیں جن سے ایسے کسی بھی ہتھیار کو بیکار کیا جا سکتا ہے(مثال کے طور پر دشمن سستی دھوکا دینے والی لاکھوں کی تعداد میں کسی بھی شئے کو چھوڑ سکتا ہے تاکہ ریڈار کو دھوکا دیا جا سکے، یا اپنے بم کو گھما دے تاکہ ایکس ریز پھیل جائیں ، یا کوئی ایسی کیمیائی کھرنڈ خارج کرے جو ایکس ریز سے اس کی حفاظت کر سکے.) یا شاید دشمن کافی تعداد میں بم بنا کر اسٹار وار ز کی حفاظتی ڈھال میں داخل ہو جائے.

لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج نیوکلیائی قوّت سے چلنے والی لیزر ، میزائل کو مار گرانے والے، نظام عملی طور پر ناقابل عمل ہیں . مگر کیا یہ ممکن ہے کہ ایسے غارت گر سیارے کو بنایا جا سکے جس کو ہم اپنی طرف آتے ہوئی سیارچے کے خلاف استعمال کر سکیں یا اس سے پورے سیارے کو فنا کر دیں؟

جاری ہے۔۔۔۔۔

--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
3۔ فیزرس اور غارت گر ستارے (Phasers and Death Stars) - حصّہ ششم (آخری حصّہ) 
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
سیارہ غارت گر کی طبیعیات 

کیا اسٹار وارز میں دکھائے جانے والے ہتھیار کو بنانا ممکن ہے ؟ جو پورے سیارے کو تباہ کر دیتا ہے. مفروضے کے اعتبار سے اس کا جواب ہاں میں ہے. کئی ایسے طریقے موجود ہیں جس سے سیارہ غارت گر کو بنایا جا سکتا ہے .

سب سے پہلے ، ہائیڈروجن بم سے نکلنے والی توانائی کی کوئی طبیعیاتی حد نہیں ہے. آگے ہم اس کے کام کرنے کے طریقہ کار کو دیکھیں گے. (ہائیڈروجن بم بنانے کا ہوبہو خاکہ امریکی حکومت کی طرف سے آج بھی ٹاپ سیکرٹ اور زمرہ بند ہے مگر واضح خاکہ سب کو معلوم ہے .) ہائیڈروجن بم کافی مرحلوں میں بنتا ہے . ان مرحلوں کو ٹھیک سے یکے بعد دیگرے پار کرتے ہوئے کسی بھی مقدار کا نیوکلیائی بم بنایا جا سکتا ہے.

ہائیڈروجن بم بنانے کا پہلا مرحلہ تو معیاری "انشقاقی بم"(Fission Bomb) کو بنا کر مکمل کیا جاتا ہے، یورینیم - ٢٣٥ کا استعمال کرتے ہوئے ایکس ریز کا ایک دھماکہ چھوڑا جاتا ہے ، جس طرح سے ہیروشیما پر گرائے گئے بم میں ہوا تھا. ایک سیکنڈ کے کچھ ہی حصّے میں اس سے پہلے کہ جوہری بم پھٹ کر ہر چیز کو تہس نہس کر دے ،پھیلتی ہوئی ایکس ریز کا کرۂ دھماکے کی طرف سے نکلتا ہوا دوڑے گا (ایکس ریز روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہیں) اور پھر لیتھیم ڈیو ٹیرائیڈ کے خانے پر مرتکز ہوگا ، جو ہائیڈروجن بم کا ایک عامل جز ہے .(ہوبہو یہ کیسے ہوگا یہ بات آج بھی رمزہ بند ہے .) ایکس ریز لیتھیم ڈیو ٹیرائیڈسے ٹکرا کر اس کو منہدم کر دیں گی جس سے درجہ حرارت کروڑوں ڈگری تک جا پہنچے گا نتیجتاً ایک اور دھماکا ہوگا جو پہلے سے کہیں بڑا ہوگا . اس دھماکے سے حاصل ہونے والی ایکس ریز کو دوبارہ دوسرے لیتھیم ڈیو ٹیرائیڈ کے ٹکڑے پر مرتکز کیا جا سکتا ہے. جس کے نتیجے میں ایک تیسرا دھماکا ہوگا . اس طرح سے لیتھیم ڈیو ٹیرائیڈ کو یکے بعد دیگرے ایک قطار میں رکھ کر ایک ایسا ہائیڈروجن بم بنایا جا سکتا ہے جس کا حجم ناقابل تصوّر حد تک کا ہو سکتا ہے. در حقیقت اب تک کا بنائے جانے والا سب سے بڑا ہائیڈروجن بم بھی دو مرحلوں والا تھا جو روس نے ١٩٦١ میں پھاڑا تھا. اس بم سے ٥ کروڑ ٹن ٹی این ٹی کے برابر توانائی خارج ہوئی تھی ، اگرچہ اصولی طور پر وہ اس قابل تھا کہ ١٠ کروڑ ٹن ٹی این ٹی (یا لگ بھگ ٥ ہزار گنا ہیروشیما پر گرائے جانے والے بم جتنا طاقتور)سے بھی زیادہ توانائی کا اخراج کر سکے.

پورے سیارے کو خاکستر کرنے کے لئے بہرحال ایک الگ حجم کا بم درکار ہوگا. اس کام کے لئے غارت گر ستارے کو ہزار ہا لیزر خلاء سے پھینکنی پڑیں گی اور سب کی سب کو بیک وقت داغنا بھی ہوگا.(موازنے کے لئے اس بات کو یاد رکھیں کہ سرد جنگ کے عروج پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور سوویت یونین ہر ایک نے ٣٠ ہزار نیوکلیائی بم جمع کر رکھے تھے.) اس زبردست قسم کے ایکس ریز سے نکلنے والی اجتماعی توانائی اس قابل ہوگی کہ پورے سیارے کی سطح کو جلا ڈالے. لہٰذا ایسا یقیناً ممکن ہے کہ کوئی نجمی ریاست مستقبل میں سینکڑوں ہزاروں سال میں کوئی اس طرح کا ہتھیار بنا لے.

کسی بھی جدید تہذیب کے لئے ایک دوسرا انتخاب موجود ہے :غارت گر ستارے کو گیما شعاعوں کی توانائی استعمال کرکے بنا لیا جائے. ایسا کوئی بھی غارت گر ستارہ ان شعاعوں کی بوچھاڑ کو نشانے پر مار سکے گا جن کا نمبر طاقت و توانائی میں بگ بینگ کے بعد آتا ہے. گیما شعاعوں کے انفجار قدرتی طور پر خلاء میں ہوتے رہتے ہیں، لیکن کسی بھی جدید تہذیب کا اس طرح کی وسیع قوّت پیدا کرنا قابل فہم ہے. کسی بھی ستارے کے منہدم ہو کر ہائپر نووا بننے سے پہلے اس کے گھماؤ کو منضبط کرکے گیما شعاعوں کے انفجار کو خلاء میں کسی بھی نقطے کی طرف پھینکا جا سکتا ہے. 

گیما شعاعوں کا انفجار 

گیما شعاعوں کا انفجار پہلی مرتبہ ١٩٧٠ء میں دیکھا گیا، جب یو ایس فوج نے "ویلا" مصنوعی سیارچہ خلاء میں ایٹمی دھماکے کی چمک(غیر قانونی ایٹمی دھماکے کے ثبوت ) کا سراغ لگا نے کے لئے چھوڑا . غیر قانونی جوہری دھماکوں کے بجائے ویلا نے خلاء میں بہت بڑے اشعاع کے انفجار درج کیے . شروع میں اس دریافت نے پینٹاگون میں کھلبلی مچا دی : کیا سوویت یونین خلاء میں جا کر ایٹمی دھماکے کر رہا تھا؟ بعد میں یہ پتا چلا کہ یہ اشعاع خلاء میں آسمان پر ہر جگہ سے یکساں طور پر آ رہی تھیں . اس کا مطلب تھا کہ یہ کہکشاں سے بھی دور سے آ رہی تھیں. اگر وہ بین النجم اشعاع تھیں تو انھیں بہت ہی عظیم الشان فلکیاتی قدروں کی قوّت کو پیدا کرنا ہوگا ، ان کو اتنا روشن ہونا تھا کہ تمام قابل مشاہدہ کائنات کو منور کر سکیں.

جب سوویت یونین ١٩٩٠ء میں ٹوٹ کر بکھر گیا تو عظیم فلکیاتی ڈیٹا پینٹاگون نے غیر مخفی کیا. پینٹاگون کے فراہم کئے گئے مواد نے فلکیات دانوں کو مبہوت کر دیا تھا. یکدم سے فلکیات دانوں کے سامنے ایک نیا پراسرار مظاہر قدرت نمودار ہو کر کھڑا ہو گیا ہے. اس نے ہمیں اپنی سائنس کی نصابی کتابوں کو دوبارہ سے لکھنے پر مجبور کر دیا تھا .

گیما شعاعوں کا دورانیہ چند سیکنڈوں سے کچھ منٹوں تک کا ہوتا ہے جس کے بعد وہ غائب ہو جاتی ہیں . لہٰذا حساس آلات کا ایک مفصل نظام ان کی تلاش اور تجزیہ کرنے کے لئے درکار ہوگا. پہلے تو سیارچے کو ابتدائی اشعاع کے دھماکے کو پکڑنا ہوگا اور پھر دھماکے کے ایک دم صحیح متناسق (کورڈ ینیٹ) ہندسے زمین پر بھیجنے ہوں گے جہاں سے ان کو بصری یا ریڈیائی دوربینوں کو بھیجا جائے گا جو اپنا رخ ہدف یعنی گیما اشعاع کے پھٹنے کی بالکل صحیح جگہ پرکریں گی .

اگرچہ ابھی بھی بہت کچھ واضح نہیں ہے لیکن گیما شعاعوں کے پھٹنے کا ایک نظریہ بتاتا ہے کہ یہ زبردست قوّت والے ہائپر نووا ہوتے ہیں جو اپنے پیچھے بلیک ہول کو بنتے ہوئے چھوڑ دیتے ہیں. ایسا لگتا ہے کہ جیسے گیما شعاعوں کے یہ دھماکے پیدا ہوتے ہوئے بلیک ہول عفریتوں کے ہوتے ہیں. مگر بلیک ہول گھومتے ہوئے لٹو کی طرح سے دو شعاعوں کے فوارے ایک شمالی قطب سے اور دوسرا جنوبی قطب سے چھوڑتے ہیں . زمین سے نظر آنے والی اشعاع دور دراز کی گیما شعاعوں کا وہ فوارہ ہوتا ہے جس کا رخ عین زمین کی طرف ہوتا ہے. اگر خدانخواستہ کسی گیما شعاع کا انفجار سیدھا زمین کی طرف رخ کرکے ہمارے پڑوس میں کسی کہکشاں میں واقع ہو (جو ہم سے صرف چند نوری برس دور ہو ) تو اس انفجار کی قوّت اتنی ہوگی کہ وہ ہمارے سیارے پر موجود تمام زی حیات کو معدوم کر سکتی ہے . 

شروع میں گیما شعاعوں کے انفجار سے نکلنے والی ایکس ریز ایک برقی مقناطیسی ارتعاش پیدا کرے گی جو تمام برقی آلات کو زمین پر سے صفحہ ہستی سے مٹا دے گی. اس کی زبردست ایکس ریز اور گیما ریز کی شعاعیں زمین کے کرۂ فضائی کو ختم کرنے کے لئے کافی ہوں گی ، جس کے نتیجے میں ہماری حفاظت کرنے والی اوزون کی تہ تباہ ہو جائے گی . گیما شعاعوں کے انفجار سے نکلنے والے فوارے زمین کی سطح پر درجہ حرارت کو بڑھا دیں گے جس کے نتیجے میں آگ کا بے قابو عفریت پورے سیارے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا. ہو سکتا ہے کہ گیما شعاعوں کا انفجار پورے سیارے کو پھاڑ کر ریزہ ریزہ نہیں کرے جس طرح سے اسٹار وارز کی فلم میں دکھایا تھا ، مگر یہ یقینی طور پر زمین پر موجود تمام حیات کو تباہ کر دے گا اور اپنے پیچھے صرف ایک سلگتا ہوا بنجر سیارہ ہی چھوڑے گا. 

اندازاً ، آج سے کچھ ہزاروں سے لاکھوں سال کے بعد ہم سے زیادہ کوئی ترقی یافتہ تہذیب ہو سکتا ہے کہ اس قابل ہو جائے کہ کسی بلیک ہول کو اپنی مرضی سے کسی بھی سمت میں حرکت دے کر ہدف کا نشانے لے سکے . یہ کسی سیارے کا راستہ موڑ کر اور نیوٹرون ستارے کا راستہ خم کرکے اس کو مرتے ہوئے ستارے کی طرف منہدم ہونے سے پہلے درست زاویے کی طرف موڑ سکتی ہے . یہ خمیدگی اتنی ہو سکتی ہے کہ ستارے کی محوری گردش کو اس طرح سے تبدیل کیا جا سکے کہ اس کا نشانہ کسی بھی سمت میں موڑا جا سکے. ایک مرتے ہوئے ستارے سے ہمارے گمان سے بھی زیادہ بڑی شعاعی بندوق بنائی جا سکتی ہے.

مختصراً طور پر ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ طاقتور لیزر آسانی سے استعمال میں آنے والی یا ہاتھ کے استعمال والی شعاعی بندوق اور روشنی کی ٹھوس تلوار کو ہم جماعت "I" کی ناممکنات کے زمرہ میں ڈال سکتے ہیں یعنی کہ کوئی ایسی چیز جو مستقبل بعید میں یا آنے والی اگلی ایک صدی میں ممکن ہو. لیکن کسی ستارے کو بلیک ہول سے بننے سے پہلے اس کو غارت گر ستارہ بنا کر اپنی مرضی سے اس سے ہدف کو نشانہ بنا نے میں زبردست قسم کی مشکلات موجود ہیں اس لئے سے اسے ہم جماعت "II" کی ناممکنات کے زمرے میں ڈالتے ہیں یعنی کوئی ایسی چیز جو طبیعیات کے معلوم قوانین کی خلاف ورزی نہیں کرتی ہو (جیسا کہ گیما شعاعوں کے انفجار موجود ہیں ) لیکن یہ چیز آج سے ہزار ہا سال یا لاکھوں سال کے بعد مستقبل میں ممکن ہو سکتی ہے.