10۔ ضد مادّہ اور ضد کائنات

ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

10۔ ضد مادّہ اور ضد کائنات (حصّہ اوّل)

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

 

سائنس کی دنیا میں ہے  کسی دریافت کا ڈھنڈورا پیٹنے کا سب سے ہیجان انگیز فقرہ  "یوریکا"  (میں نے پا لیا !)  نہیں  بلکہ  "یہ مضحکہ خیز ہے "  ہے۔

 

-  آئزک ایسی موف

 

اگر کوئی آدمی اس چیز پر یقین نہ رکھے جس پر ہم رکھتے ہیں تو ہم اسے  پاگل کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں  میرا مطلب ہے کہ آج کل ایسا ہوتا ہے کیونکہ ہم اسے جلا نہیں سکتے۔

 

-  مارک ٹوئن

 

آپ رہبر کو اس  کی پیٹھ میں گھسے تیر سے پہچان سکتے ہیں۔

 

-  بیورلی روبک

 

ڈین براؤن کی شہرہ آفاق  کتاب  "اینجلز  اینڈ ڈیمنس"  جو ہاتھوں ہاتھ بکنے والی کتاب " دی ڈاونچی کوڈ" کی پیش رو تھی۔ اس ناول  میں ایک بنیاد پرستوں کا ایک ٹولہ ،  دی ایلومنیٹی (روشن ضمیر والے ) ویٹی کن کو ایک ضد مادّہ کے بم سے اڑانے کی  ایک سازش تیار کرتے ہیں۔ اس بم  کو جنیوا سے باہر نیوکلیائی تجربہ گاہ سرن سے چرایا ہوتا ہے۔ سازشی جانتا تھا کہ جب مادّہ اور ضد مادّہ آپس میں ملیں گے  تو اس کے نتیجے میں ایک  عظیم الشان دھماکا ہوگا  جو ہائیڈروجن کے بم سے کہیں زیادہ طاقتور ہوگا۔ اگرچہ ایک ضد مادّہ کا بم خالص خیالی ہے مگر ضد مادّہ کا وجود  بالکل حقیقی ہے۔

 

ایک جوہری بم اپنی تمام تر تباہ کاریوں کے باوجود صرف ایک فیصد کارکردگی کا حامل ہوتا ہے۔ یورینیم کا انتہائی معمولی حصّہ ہی توانائی میں بدلتا ہے۔ لیکن اگر کوئی ضد مادّہ کا بم بنا لیا گیا تو وہ اس کی کمیت کو سو فیصد توانائی میں بدل دے گا  جس کے نتیجے میں وہ نیوکلیائی بم کے مقابلے میں کافی زیادہ کارگر ہوگا۔ (زیادہ درست طور پر ضد مادّہ کے بم میں پچاس فیصد مادّہ قابل استعمال توانائی میں تبدیل ہوگا ؛ جبکہ باقی نظر نہ آنے والے نیوٹرینوں کی شکل میں بدل جائے گی۔)

 

ضد مادّہ کافی عرصے سے  قیاس آرائیوں کا مرکز رہا ہے۔ ہرچند ابھی تک کسی بھی قسم کا کوئی بھی ضد مادّہ بم وجود نہیں رکھتا لیکن  طبیعیات دانوں نے اپنے طاقتور جوہری  ذرّاتی اسراع گروں کا استعمال کرتے ہوئے انتہائی قلیل مقدار  میں ضد مادّہ کو اپنے تحقیقی مقصد کے لئے استعمال کے لئے پیدا  کر لیا  ہے۔

 

 

ضد مادّہ کی پیداوار اور اس کی کیمیا

 

بیسویں صدی کے نقطہ آغاز سے ہی ، طبیعیات دانوں نے یہ بات سمجھ لی تھی کہ ایٹم بار دار ذیلی جوہری ذرّات پر مشتمل ہوتا ہے ، جس کے مرکزے (جس میں مثبت بار ہوتا ہے )  کے گرد الیکٹران (منفی بار کے ساتھ ) چکر لگا رہا ہوتا ہے۔  مرکزے میں پروٹون (جن کے اوپر پر مثبت بار ہوتا ہے ) اور نیوٹرون (جو برقی طور پر معتدل ہوتے ہیں )موجود ہوتے ہیں۔١٩٥٠ء میں طبیعیات دانوں کو اس وقت جھٹکا لگا جب انھیں پتا چلا کہ ہر ذرّے کا ایک جڑواں مخالف بار والا ضد ذرّہ بھی موجود ہے۔ سب سے پہلا دریافت ہونے والا ضد ذرّہ  ایک  مثبت بار والا ضد الیکٹران  (جس کو پوزیٹرون کہتے ہیں)  تھا۔  پوزیٹرون ہر لحاظ سے الیکٹران کے مثل ہی ہے بجز اس کے کہ اس پر مخالف بار ہوتا ہے۔ سب سے پہلے اس کی دریافت ایک کائناتی  شعاعوں کی تصاویر ایک بادلوں والے خانے میں لیتے ہوئے ہوئی تھی۔(پوزیٹرون کا سراغ ایک بادلوں کے خانے میں لگانا بہت ہی آسان تھا۔ جب انھیں ایک طاقتور مقناطیسی میدان میں رکھا جاتا ہے تو وہ عام الیکٹران کی مخالف سمت میں  مڑ  جاتے ہیں۔ حقیقت میں  ان ضد مادّہ کی تصویر  میں نے بھی اپنے کالج کے زمانے میں لی تھی۔)

 

١٩٥٥ء میں برکلے میں واقع یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں موجود ذرّاتی اسراع گر - بیواٹرن میں  پہلا ضد پروٹون بنایا۔ امیدوں کے عین مطابق وہ بالکل پروٹون کے مشابہ تھا سوائے اس کے کہ اس پر منفی بار تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ نظری طور پر ہم ضد مادّہ کو بھی بنا سکتے ہیں۔ (جس میں پوزیٹرون ایک ضد پروٹون کے گرد چکر لگا رہا ہوگا  )۔  حقیقت میں ضد عناصر ، ضد کیمیا ، ضد لوگ ،ضد زمین اور یہاں تک کہ ضد کائنات کا  نظری طور پر موجود ہونا ممکن ہے۔

 

فی الحال تو سرن میں موجود ایک دیو ہیکل ذرّاتی اسراع گر  اور شکاگو سے باہر فرمی لیب  نے انتہائی معمولی سی ضد ہائیڈروجن کی مقداریں بنائی ہیں۔(اس کو پروٹون کی بلند توانائی والی کرنوں کو ہدف پر ذرّاتی  اسراع گر کو استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا۔ جس کے سبب  ایک ذیلی جوہری ذرّات کی پھوار سی بن گئی تھی۔ طاقتور مقناطیس  کے ذریعہ  ضد پروٹون کو علیحدہ کر لیا تھا  جو بہت زیادہ دھیمے  ہو کر انتہائی پست سمتی رفتار والے ہو گئے تھے اور پھر  وہ ان  ضد الیکٹران کے سامنے ظاہر ہو گئے تھے جو قدرتی طور پر سوڈیم  - ٢٢ سے خارج ہوتے ہیں۔ جب ضد الیکٹران ضد پروٹون کے گرد چکر لگاتے ہیں تو وہ ضد ہائیڈروجن بناتے ہیں کیونکہ ہائیڈروجن ایک پروٹون اور ایک الیکٹران سے مل کر بنتا ہے۔) خالص خالی جگہ میں یہ ضد جوہر ہمیشہ کے لئے باقی رہ سکتے ہیں۔ لیکن  آلودگی اور دیواروں کے درمیان ٹکرانے کی وجہ سے ضد جوہر عام مادے سے ٹکرا ہی جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں توانائی میں بدلتے ہوئے  فنا ہو جاتے ہیں۔

 

١٩٩٥ء میں سرن نے اس اعلان کے ساتھ ہی تاریخ رقم کردی تھی کہ اس نے نو ضد ہائیڈروجن کے جوہر بنائے تھے۔ فرمی لیب نے اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جلد ہی ایک سو ضد ہائیڈروجن کے جوہر بنا لئے۔ نظریاتی طور پر اس پر آنے والی زبردست لاگت کے علاوہ کوئی بھی ایسی چیز موجود نہیں ہے جو ہمیں بھاری عناصر کے ضد جوہر بنانے سے روکے۔ صرف چند اونس ضد مادّہ پیدا کرنے میں ہی کچھ اقوام تو دیوالیہ ہو جائیں گی۔ ضد مادّہ پیدا کرنے کی موجودہ شرح ایک گرام کے ایک ارب سے  دس  ارب  حصّے سالانہ ہیں۔ امکان ہے کہ ضد مادّہ کی پیداوار کی  یہ شرح ٢٠٢٠ء تک تین گنا بڑھ جائے۔ ضد مادّہ سے حاصل ہونے والے معاشی فوائد ان کی لاگت کے مقابلے میں انتہائی حوصلہ شکن ہے۔  ٢٠٠٤ء  میں سرن میں ایک گرام کے کچھ دسیوں کھرب حصّے پیدا کرنے کی لاگت ہی دو کروڑ ڈالر تھی۔ اس شرح سے ایک گرام ضد مادّہ کو پیدا کرنے کے لئے لاگت ایک ہزار کھرب  (ایک پدم) آئی گی اور ضد مادّہ کے کارخانے کو مسلسل ایک کھرب سال تک چلنا ہوگا! یہ ہی وجہ ہے کہ اس دنیا میں  ضد مادّہ کائنات کی  سب سے زیادہ قیمتی چیز ہے۔

 

" اگر ہم  سرن میں پیدا ہونے والے  تمام ضد مادّہ کو جمع کرکے اس کو مادّے کے ساتھ ملا کر فنا کریں  تو ہمارے پاس حاصل ہونے والی توانائی اتنی ہوگی کہ جس سے ہم ایک برقی بلب  صرف چند سیکنڈ کے لئے جلا سکیں "  یہ سرن سے جاری ایک بیان کا حصّہ ہے۔

 

ضد مادّہ کو سنبھال کر رکھنا بھی اپنے آپ  میں کافی بڑا مسئلہ ہے  کیونکہ مادّے اور ضد مادّے کا آپس میں ملنا دھماکے کا باعث ہوگا۔  ضد مادّہ کو عام مادّے سے بنی کسی چیز میں رکھنا خود کشی کے مترادف ہوگا۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ جب ضد مادّہ اس قدر بارودی نوعیت کا ہوتا ہے تو پھر اس سے  کیسے نمٹا جائے گا ؟ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ پہلے  ضد مادّہ کے برق پاروں کو برقی پارہ گیس میں تبدیل کیا جائے اور پھر ان کو محفوظ طریقے سے  ایک مقناطیسی بوتل میں رکھا جائے۔ مقناطیسی میدان ان کو خانے کی دیواروں کو چھونے سے روکے رکھے گا۔

 

ایک ضد مادّہ کا انجن بنانے کے لئے ایک ضد مادّہ کے متواتر دھارے کی ضرورت ہوگی جو اس کو تعاملی خانے میں ڈالے گا جہاں پر اسے  انتہائی احتیاط کے ساتھ عام مادے سے ملایا جائے گا  جس کے نتیجے میں  کیمیائی راکٹ جیسا ایک انضباطی دھماکہ ہوگا۔ اس دھماکے میں پیدا ہوئے برق پاروں کو ضد مادّے کے راکٹ کے ایک سرے سے باہر نکالا جائے گا جس کے نتیجے میں دھکیل پیدا ہوگی۔ مادّے کو توانائی میں تبدیل کرنے کی ضد مادّہ کے انجن کی کارکردگی نظری طور پر مستقبل کے خلائی جہازوں کو بنانے کے لئے  سب سے زیادہ لبھانے  والی ہے۔ اسٹار ٹریک سلسلے میں  ضد مادّہ انٹرپرائز کے ایندھن کا ذریعہ ہوتا ہے ؛ اس کے انجن کو طاقت انضباطی مادّہ اور ضد مادّہ کو ٹکرانے سے ملتی ہے۔

 

جاری ہے۔۔۔۔۔

تبصرے

ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو 
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
10۔ ضد مادّہ اور ضد کائنات (حصّہ دوم)
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ضد مادّے سے چلنے والے راکٹ

پینسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے جیرالڈا سمتھ ضد مادّے سے چلنے والی راکٹوں کے سب سے بڑے حامی ہیں۔ ان کو پورا بھروسہ ہے کہ صرف چار ملی گرام پوزیٹرون پر مشتمل ضد مادّہ کسی ضد مادّہ سے چلنے والے راکٹ کو مریخ تک صرف چند ہفتوں میں ہی پہنچا دے گا۔ ان کے اندازے کے مطابق ضد مادّہ میں موجود توانائی عام مادّے سے چلنے والے راکٹ کے ایندھن کے مقابلے میں ایک ارب گنا زیادہ ہوتی ہے۔

اس جانب سب سے پہلا قدم اس کا ایندھن بنانے کی جانب ہوگا جس میں ضد پروٹون کو کسی ذرّاتی اسراع گر میں پیدا کیا جائے گا اور پھر ان کو ایک "پیننگ ٹریپ " میں رکھا جائے گا جس کواسمتھ ابھی بنا رہے ہیں۔ جب یہ بن کر مکمل ہو جائے گا تو اس کا وزن لگ بھگ دو سو بیس پونڈ (جس میں زیادہ تر وزن مائع نائٹروجن اور مائع ہیلیئم) ہوگا جس میں ایک مقناطیسی میدان میں اندازاً ایک ارب ضد پروٹون ذخیرہ ہوں گے۔ (انتہائی کم درجہ حرارت پر، ضد پروٹون کی موجی لہریں اس برتن کی دیواروں کے مقابلے میں جس میں وہ رکھا گیا ہوگا کئی گنا لمبی ہوں گی۔ لہٰذا ضد پروٹون اپنے آپ کو فنا کیے بغیر اس کی دیواروں میں سے بھی منعکس ہوتا ہوا دکھائی دے گا۔) انہوں نے مزید بتایا کہ یہ پیننگ ٹریپ ضد پروٹون کو صرف پانچ دن ہی اپنے اندر قید رکھ سکے گا (اس کے بعد وہ عام مادّے کے ساتھ مل کر پھٹ جائیں گے۔ ) اس کی پیننگ ٹریپ ضد پروٹون کا ایک گرام کا ایک اربواں حصّہ ذخیرہ کرنے کے قابل ہو گی۔ ان کا مقصد ہے کہ ایک ایسا پیننگ ٹریپ بنایا جائے جو ایک مائیکرگرام تک ضد پروٹون کو ذخیرہ کر سکے۔

ہرچند ضد مادّہ زمین پر سب سے زیادہ قیمتی چیز ہے، لیکن اس کی قیمت ڈرامائی طور پر ہر گزرتے سال کے ساتھ کم ہو رہی ہے (ایک گرام کی قیمت آج کے حساب سے چھ کروڑ پچیس لاکھ کھرب ڈالر ہے )۔ ایک نیا ذرّاتی اسراع گر شکاگو سے باہر فرمی لیب میں بن رہا ہے جو ضد مادّہ کو ١۔٥ سے ١٥ نینو گرام تک سالانہ بنا سکے گا نتیجتاً اس کی قیمتیں اور کم ہوں گی۔ بہرحال ناسا کے "ہیرالڈ گیررش" (Harold Gerrish) اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مزید بہتری کے ساتھ اس کی لاگت حقیقت پسندانہ طور پر فی مائیکروگرام پانچ ہزار ڈالر ہو جائے گی۔ نیو میکسیکو میں واقع لاس الموس کی سینرجسٹک ٹیکنالوجیز کے ڈاکٹر اسٹیون ہوو (Steven Howe)کہتے ہیں "ہمارا مقصد ضد مادّہ کو سائنس دنیا سے نکا ل کر حقیقی دنیا میں لانا ہے تاکہ اس سے ذرائع نقل و حمل اور طب میں تجارتی فوائد اٹھا سکیں۔" 

ابھی تک ذرّاتی اسراع گر جو ضد پروٹون کو پیدا کر رہے ہیں ان کو خاص اس مقصد کے لئے نہیں بنایا لہٰذا ان کی کارکردگی کافی خراب ہے۔ ایسے اسراع گروں کو ضد مادّہ پیدا کرنے کے کارخانوں کے بجائے بنیادی طور پر تحقیقاتی مقاصد کے لئے بنایا گیا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ ا سمتھ ایک نئے ذرّاتی اسراع گر کو بنانے کے خواب کو پورا ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں جو خاص اس مقصد کے بنایا گیا ہو کہ وہ کافی مقدار میں ضد مادّہ کو پیدا کرے تاکہ اس پر آنے والی لاگت کم ہو۔ 

اگر ضد مادّہ کی لاگت مزید فنی بہتری اور بڑے پیمانے پر پیداوار کی وجہ سے کم ہو سکی توا سمتھ کو یقین ہے کہ مستقبل میں ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب ضد مادّہ سے چلنے والے راکٹ ہی بین السیارہ سفر بلکہ ہو سکتا ہے کہ بین النجم سفر میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھیں گے۔ بہرحال تب تک تو ضد مادّہ سے چلنے والے راکٹ کاغذی منصوبوں کی شکل میں میزوں پر ہی پڑے رہیں گے۔

قدرتی طور پر پائے جانے والے ضد مادّہ 

اگر ضد مادّہ کو بنانا زمین پر اتنا مشکل ہے تو کیا ایسا ممکن ہے کہ اس کو خلائے بسیط میں تلاش کیا جا سکے ؟ کائنات میں ضد مادّہ کو تلاش کرنے کے بعد ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ بہت ہی کم تعداد میں موجود ہے اس امر نے طبیعیات دانوں کو کافی حیرت میں ڈال دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری کائنات زیادہ تر ضد مادّے کے بجائے مادّہ سے بنی ہوئی ہے جس کی توضیح کرنی نہایت مشکل ہے۔ ہم سادے طریقے سے اس بات کو یوں فرض کر سکتے ہیں کہ کائنات کی ابتداء میں تشاکلی طور پر مادّے اور ضد مادّے کی برابر مقدار موجود تھی۔ لہٰذا ضد مادّے کا موجود نہ ہونا ایک کافی پریشان کن بات ہے۔

سب سے پہلے اس کا حل آندرے سخاروف نے پیش کیا جنہوں نے سوویت یونین کے لئے ہائیڈروجن بم کو ١٩٥٠ء میں بنایا تھا۔ سخاروف نے یہ نظریہ پیش کیا کہ کائنات کی ابتداء میں مادّے اور ضد مادّے میں ہلکی سا تشاکل تھا۔ یہ ننھا سا تشاکلی فرق "سی پی" نقص کہلایا۔ فی الحال یہ مظاہر ابھی زبردست تحقیق کا متقاضی ہے۔ حقیقت میں سخاروف نے یہ نظریہ پیش کیا کہ کائنات میں موجود تمام جوہر اس تقریباً مکمل بے عیب مادّے اور ضد مادّے کے ٹکراؤ کے نتیجے میں بچ جانے والے ہیں ، بگ بینگ ان دونوں کو فنا کرنے کا سبب بنا تھا جس کے نتیجے میں مادّے کی ننھی سی مقدار باقی بچ گئی تھی۔ یہ وہی مادّہ تھا جس نے بعد میں قابل مشاہدہ کائنات کو بنایا۔ ہمارے جسم میں موجود تمام جوہر اس جناتی ٹکراؤ کے نتیجے میں بچ جانے والی کھرچن ہی ہیں۔

اس نظریے کے مطابق اس امر کا امکان بہرحال اپنی جگہ موجود ہے کہ تھوڑی سی مقدار ضد مادّہ کی قدرتی طور پر بچ گئی ہوگی ۔ اگر ایسا ہوا تو اس کے منبع کی کھوج کے ساتھ ہی ضد مادّہ کی ضد مادّہ راکٹ میں ایندھن کی لاگت کافی گھٹ جائے گی۔ نظری طور پر قدرتی طور پر پائے جانے والے ضد مادّہ کے ذخیرے کو تلاش کرنے میں کسی قسم کی پریشانی نہیں ہونی چاہئے۔ جب ایک الیکٹران اور ضد الیکٹران آپس میں ملتے ہیں تو وہ گیما شعاعوں کی صورت میں فنا ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں ١۔٠٢ ملین الیکٹران وولٹ یا اس سے زیادہ کی توانائی پیدا ہوتی ہے۔ لہٰذا اس قوّت کی گیما شعاعوں کی کھوج کرنے سے کائنات میں ہمیں قدرتی طور پر پایا جانے والے ضد مادّہ کا سراغ مل جائے گا۔

حقیقت میں ضد مادّہ کے مخزن ملکی وے میں پائے گئے ہیں جو اس کے مرکز سے کچھ زیادہ دور نہیں ہیں۔ یہ بات نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے ڈاکٹر "ولیم پرسیل" (William Purcell) نے کہی۔ بظاہر ضد مادّے کی کافی مقدار موجود ہے جو ان گیما شعاعوں کو پیدا کر رہی ہے جن میں ١۔٠٢ ملین الیکٹران وولٹ کی توانائی موجود ہے۔ جیسا کہ ابھی بیان کیا ہے کہ یہ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب عام ہائیڈروجن گیس سے ٹکراتی ہے۔ اگر یہ ضد مادّہ کی کہر قدرتی طور پر موجود ہے تو یہ بات بھی ممکن ہے کہ ضد مادّے کے دوسرے ذخیرہ بھی کائنات میں موجو د ہوں جو بگ بینگ کے وقت تباہ ہونے سے بچ گئے ہوں۔

قدرتی طور پر پائے جانے والی ضد مادّہ کی منظم طریقے سے تحقیق کے لئے ، دی پامیلا - پی اے ایم ای ایل اے (پے لوڈ فار اینٹی میٹر - میٹر ایکسپلوریشن اینڈ لائٹ نیوکلی اسٹرو فزکس) مصنوعی سیارچہ ٢٠٠٦ء میں مدار میں چھوڑا گیا۔ یہ روس ، اٹلی ، جرمن اور سویڈن کی اشتراکی کوششیں تھیں جس میں اس کو ضد مادّہ کے ذخیروں کو کائنات میں تلاش کر نے کے لئے بنایا گیا تھا۔ اس سے پیش تر ضد مادّے کو تلاش کرنے والی مہمات میں بلند ارتفاع پر اڑنے والے غبارے اور خلائی شٹل استعمال کیے گئے تھے لہٰذا اس میں حاصل ہونے والا مواد ایک ہفتے سے زیادہ کا نہیں تھا۔ان تمام کے برخلاف پامیلا مدار میں کم از کم تین سال تک رہے گا۔ "یہ اب تک کا بنایا جانے والا سب سے بہترین سراغ لگانے والا ہے اور ہم اس کو کافی لمبے عرصے تک استعمال کر سکیں گے۔ "یہ بات یونیورسٹی آف روم کے ٹیم ممبر "پئیرجورجو پیکوزہ" (Piergiorgio Picozza) نے کہی۔

پامیلا کو کائناتی شعاعوں کا سراغ عام ذرائع جیسا کہ سپرنووا سے لگانے کے لئے بنایا ہے لیکن وہ دوسرے غیر معمولی ذریعے مثلاً ضد مادّہ سے بنے ستارے کا استعمال بھی کر سکتی ہے۔ خاص طور پر پامیلا کسی ضد مادّے کے ستارے کے اندرون میں پیدا ہوئے ضد ہیلیئم گیس کی کھوج بھی کرے گی۔ اگرچہ موجودہ دور کے زیادہ تر طبیعیات دان یہ سمجھتے ہیں کہ بگ بینگ میں لگ بھگ مکمل طور پر مادّے اور ضد مادّے میں ٹکراؤ ہو گیا تھا جیسا کہ سخاروف بھی سمجھتا ہے۔ پامیلا کو ایک دوسرے زاویے سے سوچ کر بنایا ہے کہ کائنات کے پورے حصّے میں ضد مادّہ ، مادّہ کے ساتھ مل کر فنا نہیں ہو گیا تھا لہٰذا وہ آج بھی ضد ستارہ کی شکل میں موجود ہونا چاہئے۔

ضد مادّہ کی خلاء میں تھوڑی سی مقدار کا مطلب ہوگا کہ اس کو بین النجم خلائی جہاز میں استعمال کیا جا سکے گا۔ ناسا کے انسٹیٹیوٹ فار ایڈوانسڈ کانسپٹس نے ضد مادّہ کو خلاء سے حاصل کرنے والے خیال کو کافی سنجیدگی سے لیا ہے۔ اس نے حال ہی میں ایک تجرباتی پروگرام کی مالی معاونت کی ہے تا کہ وہ اس خیال پر مزید تحقیق کر سکے۔ "بنیادی طور پر آپ کو ایک ایسا جال بنانا ہوگا جیسے کہ آپ مچھلی پکڑ رہے ہوں " یہ بات ہبار ٹیکنالوجیز کے جیرالڈ جیکسن نے کہی جن کی تنظیم ان تنظیموں میں سے ایک ہے جس نے اس خیال پر کام شروع کر دیا ہے۔

ضد مادّہ کو چننے والا آلہ تین ہم مرکز کروں پر مشتمل ہوگا جس میں سے ہر ایک میں تاروں کی جالی جیسا جال بنا ہوا ہوگا۔ باہری کرۂ سولہ کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہوگا اور اس پر مثبت بار ہوگا، لہٰذا وہ کسی بھی مثبت بار والے پروٹون کو دفع کر سکے گا جبکہ منفی بار والے ضد پروٹون کو اپنی طرف کھینچ لے گا۔ ضد پروٹون کو باہری کرۂ میں جمع کر لیا جائے گا اور پھر ان کو اس کرۂ میں سے گزرتے وقت دھیما کر دیا جائے گا اور آخر میں وہ سب سے اندرونی کرۂ میں پہنچ کر رک جائے گا۔ یہ اندرونی کرۂ صرف سو میٹر پر پھیلا ہوا ہوگا۔ ضد پروٹونوں کو ایک مقناطیسی بوتل میں قید کر لیا جائے گا جہاں ان کو ضد الیکٹران کے ساتھ ملا کر ضد ہائیڈروجن کے جوہر بنائے جائیں گے۔

جیکسن نے اندازہ لگایا ہے کہ مادّہ اور ضد مادّے کے ضابطے میں تعامل کے نتیجے میں ایک خلائی جہاز صرف تیس ملی گرام کے ضد مادّہ کا استعمال کرتے ہوئے ایک شمسی بادبان کو پلوٹو تک پہنچا سکتا ہے۔ ضد مادّے کا سترہ گرام خلائی جہاز کو قنطورس الف تک پہنچانے کے لئے کافی ہوگا۔ جیکسن کا دعویٰ ہے کہ زہرہ اور مریخ سیارے کے مدار کے درمیان اسی گرام ضد مادّہ موجود ہے جس کو خلائی کھوجی کی مدد سے چنا جا سکتا ہے۔ پیچیدگیوں اور ضد مادّے کے چننے والے دیوہیکل سیارچے کی لاگت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ شاید اس صدی کے آخر تک یا پھر اس کے بھی بعد ہی ہم اس ضد مادّہ سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔

کچھ سائنس دان ضد مادّہ کو باہر خلاء میں تیرتے ہوئے شہابیوں سے حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں ( فلیش گورڈن کی تمثیلی کہانی میں ایک دفعہ ایسے آوارہ سیارچے کا ذکر تھا جو ضد مادّہ سے بنا باہر ی خلاء میں تیر رہا تھا اگر وہ کسی سیارے سے ٹکرا جاتا تو ایک زبردست دھماکے کا سبب بن سکتا تھا۔)

اگر قدرتی طور پر پایا جانے والا ضد مادّہ خلاء میں نہیں ملا تو ہمیں عشروں یا ہو سکتا ہے کہ صدیوں تک زمین پر بڑے پیمانے پر ضد مادّہ کو پیدا کرنے کا انتظار کرنا ہوگا۔ لیکن فرض کریں کہ ضد مادّہ کو پیدا کرنے کی تمام فنی مشکلات پر قابو پا لیا جا سکتا ہے تو اس بات کا امکان کھلا ہوا ہے کہ ایک دن ضد مادّہ ہمیں ستاروں کے پار لے جائے گا۔

مفصلہ بالا تمام حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اس ٹیکنالوجی کی مستقبل میں ارتقاء کا اندازہ لگاتے ہوئے میں ایک ضد مادّہ راکٹ خلائی جہاز کو جماعت "I" کی ناممکنات میں رکھ رہا ہوں۔

جاری ہے۔۔۔۔۔

ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو 
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
10۔ ضد مادّہ اور ضد کائنات (حصّہ سوم)
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ضد مادّہ کے بانی 

ضد مادّہ کیا ہے؟ ایسا سوچنا بھی عجیب لگتا ہے کہ قدرت نے ذیلی ایٹمی ذرّوں کو کائنات میں یوں ہی دگنی تعداد میں پیدا کر دیا تھا۔ قدرت عام طور پر انتہائی کفایت شعار ہوتی ہے لیکن ضد مادّہ کی جانکاری کے بعد قدرت اب ہمیں کافی فضول خرچ اور بے انتہا شاہ خرچ لگ رہی ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اگر ضد مادّہ موجود ہے تو کیا ضد کائنات بھی موجود ہوگی ؟

ان تمام سوالات کا جواب دینے کے لئے ہمیں ضد مادّے کی اصلیت کے بارے میں جاننا ہوگا۔ ضد مادّہ کی دریافت ماضی میں ١٩٢٨ء میں "پال ڈیراک " (Paul Dirac) کے زبردست کام کے نتیجے میں ہوئی تھی۔ وہ بیسویں صدی کے ایک نہایت ہی روشن فکر رکھنے والے طبیعیات دان تھے۔ ان کے پاس کیمبرج یونیورسٹی کی لوکیشین کرسی تھی ، یہ وہی کرسی تھی جس پر نیوٹن بیٹھا کرتا تھا اور اب یہ کرسی ا سٹیفن ہاکنگ کے پاس ہے۔ ڈیراک ١٩٠٢ء میں پیدا ہوئے۔ یہ لمبے قد کے اور چست آدمی تھے۔ ١٩٢٥ء میں جب کوانٹم کا انقلاب رونما ہوا تو وہ اس وقت اپنے عہد شباب سے گزر رہے تھے۔ اگرچہ اس وقت وہ الیکٹریکل انجنیئر نگ کی تعلیم حاصل کر رہے تھے لیکن کوانٹم نظریے سے پیدا ہونے والی دلچسپی کی لہر کی وجہ سے اچانک انہوں نے قلابازی لگا کر اس میدان میں چھلانگ لگا دی۔

کوانٹم کا نظریئے اس خیال پر مبنی ہے کہ الیکٹران جیسے ذرّات کو نقطہ جیسے ذرّات کے بجائے کسی قسم کو موجوں سے بھی بیان کیا جا سکتا ہے جس کو شروڈنگر کی "موجوں کی مساوات "بھی کہتے ہیں۔(موجیں کسی بھی نقطہ پر کسی بھی ذرّے کے موجود ہونے کے امکان کو ظاہر کرتی ہیں )۔

مگر ڈیراک نے اس بات کا اندازہ کر لیا تھا کہ شروڈنگر کی مساوات میں نقص ہے۔ یہ صرف ان الیکٹران کو بیان کرتی ہے جو صرف کم سمتی رفتار سے حرکت کرتے ہیں۔ بلند سمتی رفتار پر یہ مساوات ناکام ہو جاتی ہے کیونکہ یہ بلند رفتار سے حرکت کرتے ہوئی اجسام کے قانون کی فرمانبرداری نہیں کرتی یعنی کہ اضافیت کے قانون جو البرٹ آئن سٹائن نے دریافت کیے تھے۔

نوجوان ڈیراک کے لئے یہ ایک چیلنج تھا کہ شروڈنگر کی مساوات کو دوبارہ سے اس طرح سے ترتیب دے کہ وہ نظریہ اضافیت سے بھی رو گردانی نہ کرے۔ ١٩٢٨ء میں ڈیراک نے شروڈنگر کی مساوات میں ایک بنیادی تبدیلی پیش کی جو آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کے بھی تابع تھی۔ اس نے دنیائے طبیعیات کو بھونچکا کر دیا تھا۔ ڈیراک نے اپنی مشہور اضافی مساوات برائے الیکٹران خالصتاً بلند ریاضیاتی اجسام جن کو "اسپیونر" کہتے ہیں ان کو آگے پیچھے کر کے حاصل کر لی تھی۔ اچانک ایک ریاضیاتی تجسس کائنات کا مرکز نگاہ بن گیا تھا۔(اس سے پہلے کے طبیعیات دانوں کے برعکس جو اس بات پر زور دیتے تھے کہ طبیعیات کی دنیا کی عظیم دریافتیں صرف ناقابل تردید تجربات سے ہی حاصل ہو سکتی تھیں ، ڈیراک نے ان کے مخالف بالکل ہی الگ راہ چنی تھی ۔ اس کے خیال میں خالص ریاضی بشرطیکہ حقیقت میں وہ خوبصورت بھی ہو تو کسی بھی عظیم دریافت تک رہنمائی کر سکتی ہے۔ اس نے لکھا " مساوات میں خوبصورتی ہو نا زیادہ اہم ہے بجز اس کے کہ وہ تجربات سے مطابقت رکھے۔۔۔ایسا لگتا ہے جیسے کوئی کسی کی مساوات میں خوبصورتی لانے پر کام کر رہا ہے اور اگر وہ حقیقت میں صاحب بصیرت بھی ہو تو وہ یقینی طور پر صحیح راہ پر گامزن ہے۔")

اپنی الیکٹران کے لئے مساوات کو درست کرتے ہوئے ڈیراک کو اندازہ ہوا کہ آئن سٹائن کی مشہور زمانہ مساوات E = mc2 بھی کچھ زیادہ صحیح نہیں تھی۔ صحیح مساوات کو E = ± mc2 ہونا چاہئے۔(یہ منفی کا نشان اس لئے آیا کیونکہ ہمیں کچھ مخصوص تعداد کا "جزر المربع"(Square Root) بھی لینا ہوتا ہے۔ لہٰذا جزر المربع لیتے ہوئے کسی بھی مقدار کی منفی اور مثبت کا نشان ہمیشہ ابہام پیدا کرے گا۔)

مگر طبیعیات کو منفی توانائی سے ہمیشہ سے چڑ ہے۔ طبیعیات کا ایک مسلمہ اصول ہے جو یہ بیان کرتا ہے کہ اجسام ہمیشہ سے پست توانائی کی طرف مائل ہوتے ہیں (یہ ہی وجہ ہے کہ پانی ہمیشہ نیچے کی سطح کی طرف میلان رکھتا ہے )۔ کیونکہ مادّہ ہمیشہ سے اپنی پست توانائی کی حالت کی طرف میلان رکھتا ہے لہٰذا منفی توانائی کا امکان ممکنہ طور پر تباہ کن ہوگا۔ جس کا مطلب یہ ہوگا کہ تمام الیکٹران آخر کار لامتناہی منفی توانائی کی طرف رو بہ سفر ہوں گے لہٰذا ڈیراک کا نظریہ پائیدار نہیں ہوگا۔ لہٰذا ڈیراک نے ایک خیال ایجاد کیا جس کا نام "ڈیراک کا سمندر "رکھا۔ اس کے وجدان میں تمام منفی توانائیوں کی حالت پہلے سے ہی لبریز ہے لہٰذا ایک الیکٹران کسی بھی منفی توانائی کی طرف نہیں رو بہ سفر ہوگا۔ اسی وجہ سے کائنات پائیدار ہے۔اس کے علاوہ گیما شعاعیں اکثر ان الیکٹرانوں سے ٹکرا سکتی ہیں جو منفی توانائی کی حالت میں بیٹھے ہوتے ہیں اور وہ ان کو مثبت توانائی کی حالت میں لے آتی ہیں۔ اس وقت ہم گیما شعاع کو ایک الیکٹران میں بدلتا ہوا دیکھ سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ڈیراک کے سمندر میں ایک سوراخ پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ سوراخ ضد الیکٹران کی طرح خلاء میں ایک بلبلے کی طرح برتاؤ کرے گا۔ لہٰذا اس تصویر میں ضد مادّہ ڈیراک کے سمندر میں موجود بلبلے ہیں۔

ڈیراک کی اس شاندار پیشن گوئی کے چند سال کے بعد ہی "کارل اینڈرسن" نے اصل میں ضد الیکٹران کو دریافت کر لیا (جس کے نتیجے میں ڈیراک کو نوبل پرائز ١٩٣٣ءمیں ملا)۔

دوسرے الفاظ میں ضد مادّہ وجود رکھتا ہے کیونکہ ڈیراک کی مساوات میں دو قسم کے حل موجود ہیں ایک مادّے کے لئے ہے جبکہ دوسرا ضد مادّہ کے لئے ہے (اور اس طرح سے یہ خصوصی نظریہ اضافیت کا نتیجہ بنتا ہے۔)

نہ صرف ڈیراک کی مساوات نے ضد مادّہ کے وجود کی پیش گوئی کی بلکہ اس نے الیکٹران کے "گھماؤ " کے امکان کو بھی ظاہر کیا۔ ذیلی جوہری ذرّات لٹو کی طرح سے گھوم سکتے ہیں۔ ٹرانسسٹر اور نیم موصل میں الیکٹران کے بہاؤ کو سمجھنے کے لئے ان کا گھماؤ بہت ہی اہم ہوتا ہے جنہوں نے جدید برقیات کی بنیاد رکھی ہے۔

ا سٹیفن ہاکنگ کو اس بات کا افسوس رہا ہے کہ ڈیراک نے اپنی اس ایجاد کردہ مساوات کی پیٹنٹ حاصل نہیں کی۔ اس نے لکھا "ڈیراک اپنی قسمت بنا لیتا اگر وہ اپنی" ڈیراک مساوات" کو پیٹنٹ کروا لیتا۔ اس کو ہر بکنے والے ٹیلی ویژن ، واک مین ، ویڈیو گیم اور کمپیوٹر سے آمدنی حاصل ہوتی۔

آج ڈیراک کی یہ مساوات ویسٹ منسٹر ، ایبی میں پتھر پر نقش کرکے آئزک نیوٹن کے مقبرے سے کچھ زیادہ دور نہیں لگی ہوئی ہے۔ پوری دنیا میں شاید یہ واحد مساوات ہے جس کو یہ امتیازی اعزاز حاصل ہوا ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔

ڈیراک  اور نیوٹن

 

سائنسی مورخ جواس انقلابی  مساوات  کی ابتداء کو سمجھنے کی کوشش کر رہے  ہیں کہ کیسے ڈیراک  نے یہ  مساوات اور ضد مادّہ کا تصوّر حاصل کیا وہ اکثر اس کو نیوٹن کے ہم پلہ سمجھتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر نیوٹن اور ڈیراک  میں کافی چیزیں قدر مشترک تھیں۔  ان دونوں نے اپنا اختراعی کام کیمبرج یونیورسٹی میں اپنے عہد شباب میں کیا،  دونوں ہی  ریاضی کے ماہر تھے،  اور دونوں میں ایک اور سخت قسم کی خصوصیت تھی :بیماری کی حد تک پہنچنے والی مکمل طور پر آدم بیزاری۔  دونوں ہی اس بات میں بدنام تھے کہ وہ ہلکی پھلکی  گپ شپ نہیں کر سکتے تھے  اور معاشرتی طور پر بالکل ہی  روکھے تھے۔ تکلیف دہ حد تک شرمیلا ڈیراک  اس وقت تک کچھ نہیں کہتا تھا جب تک اس سے براہ راست کچھ پوچھا نہ جائے  اور اس کا جواب  ہوتا تھا "ہاں "، یا  "نہ"، یا پھر "میں نہیں جانتا "۔

  

ڈیراک  انتہائی شرمیلا اور شہرت سے نفرت کرتا تھا۔ جب اس کو طبیعیات میں نوبل انعام کے لئے نامزد کیا  تو اس نے شہرت  اور اس سے پیدا ہونے والی مشکلات کی وجہ سے  نہایت سنجیدگی سے اس کو واپس کرنا کا سوچا۔ لیکن  جب اس کو بتایا کہ نوبل انعام کو واپس کرنے سے وہ  اور زیادہ مشہور ہو جائے گا تو اس نے بادل نخواستہ اس کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔

 

  نیوٹن کی منفرد شخصیت کے اوپر تدھے  کے تدھے لکھے جا چکے ہیں  جس میں اس کی پارے کے زہر سے لے کر دماغی بیماریوں تک سب کچھ ہی تو شامل ہے۔ لیکن حالیہ دور میں ایک نیا نظریہ کیمبرج کے ماہر نفسیات  "سائمن بیرن کوہین" (Simon Baron-Cohen) نے پیش کی ہے جو  نیوٹن اور ڈیراک  کی عجیب و غریب شخصیت کو بیان کر سکتی ہے۔ بیرن کوہین کا دعویٰ  ہے کہ دونوں ایک بیماری جس کا نام "اسپرجر کی علامات " ہے اور جو  خود خیالی کی ہی ایک قسم ہے۔ یہ وہی بیماری ہے  جو فلم "رین مین "  میں ایک  بے وقوف علامہ کو  ہوتی ہے۔  جو افراد اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں  وہ بد نامی کی حد تک کم سخن ، معاشرتی طور پر  بدسلیقہ  اور کبھی کبھار خداداد  ریاضی کی صلاحیتوں سے مالا مال ہوتے ہیں۔ لیکن  خود خیالی کے شکار کے افراد کے برعکس یہ معاشرے کے کارآمد افراد بن سکتے ہیں اور بہت ہی شاندار ملازمت بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر یہ نظریہ درست ہے تو شاید ڈیراک  اور نیوٹن کی معجزاتی ریاضیاتی  کی طاقت کی قیمت ان کی انسانیت سے معاشرتی طور پر دوری ہے۔

 

 

ضد قوّت ثقل اور ضد کائنات

 

ڈیراک  کے نظریہ کا استعمال کرتے ہوئے ہم اس بات کو جواب دے سکتے ہیں : کہ ضد مادّے کا قوّت ثقل کی شکل میں کون رفیق کار ہوگا ؟ کیا ضد کائنات وجود رکھتی ہے ؟ جیسا کہ ہم نے بیان کیا تھا کہ ضد ذرّات عام مادّے کے مقابلے میں مخالف بار رکھتے ہیں۔ لیکن ان ذرّات پر جن پر کوئی بار نہیں ہوتا (جیسا کہ فوٹون ، روشنی کا ایک ذرّہ  یا گریوٹون  جو قوّت ثقل کا ذرّہ ہوتا ہے )ان کے بھی اپنے ضد ذرّات ہو سکتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جاذبی قوّت کا اپنا ضد مادّہ ہوتا ہے ، دوسرے الفاظ میں قوّت ثقل اور ضد قوّت ثقل ایک ہی چیز ہیں۔ لہٰذا ضد مادّہ کو دفع ہونے کے بجائے  قوّت ثقل کے زیر اثر اپنے آپ  میں ڈھیر ہونا چاہئے۔(یہ بات عالمگیر طور پر طبیعیات دان مانتے ہیں اگرچہ اس کو تجربہ گاہ میں ابھی تک ثابت نہیں کیا گیا۔)

 

ڈیراک  کا نظریئے اس گہرے سوال کا بھی جواب دیتا ہے : کہ قدرت نے ضد مادّہ کو بننے کیوں دیا؟ کیا اس کا مطلب ہے کہ ضد کائنات بھی موجود ہوگی ؟ کچھ سائنس فکشن کی کہانیوں میں ، ہیرو زمین کے جیسا کوئی سیارہ خلاء میں دریافت کرتا ہے۔ حقیقت میں وہ سیارہ ہر طرح سے زمین کا ہمشکل ہوتا ہے بجز اس کے کہ وہ ضد مادّہ سے بنا ہوتا ہے۔ ہمارے پاس اس سیارے کا جڑواں ضد مادّہ سے بنا ہوا ہو سکتا ہے ، جہاں ضد بچے ، ضد شہروں میں رہ رہے ہوں۔ کیونکہ  ضد کیمیا  قوانین بالکل قوانینِ کیمیا جیسے ہی ہوں گے  بجز اس کے کہ ان پر بار مخالف ہونگے ، لہٰذا  اس جہاں میں رہنے والے لوگوں کو کبھی نہیں پتا لگے گا کہ وہ ضد مادّہ سے بنے ہیں۔(طبیعیات دان اس کو  بار- الٹ  یا سی الٹ کائنات کہتے ہیں ، کیونکہ وہاں اس ضد کائنات میں تمام بار الٹ ہوں گے ، لیکن  اس کے علاوہ ہر چیز یہاں کے جیسی ہی ہوگی۔)

  

 دوسری سائنسی کہانیوں میں سائنس دانوں کو  یہ بات معلوم چلتی ہے کہ باہری خلاء میں  زمین کا جڑواں  ایسا ہے جیسے کہ آپ کائنات کو آئینے میں دیکھ رہے ہوں  جہاں ہر  چیز الٹی ہے۔ ہر ہستی  کا قلب سیدھی طرف ہے اور زیادہ تر لوگ کھبے ہیں۔ وہ وہاں اپنی زندگی اس بات سے بے خبر ہو کر گزار رہے ہیں کہ وہ الٹی آئینے میں نظر آنے والی جیسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں ہر چیز الٹی ہے۔(طبیعیات دان ایسی دنیا کو  آئینے جیسی الٹ پھیر کائنات یا پھر پی الٹ پھیر کہتے ہیں۔)

 

 کیا ایسی ضد کائنات یا الٹ پھیر کائنات حقیقت میں موجود ہو سکتی ہے ؟ طبیعیات دانوں نے جڑواں کائنات کے سوال کو نہایت سنجیدگی سے لیا ہے کیونکہ جب ہم صرف بار کو اپنے تمام ذیلی جوہری ذرّات پر الٹ دیں گے یا سیدھی الٹی حالت کو ایک دوسرے کی مخالفت میں پلٹ دیں گے تب بھی نیوٹن اور آئن سٹائن  کی مساوات  اپنی جگہ ایک جیسی ہی رہیں گی۔ لہٰذا سی الٹ اور پی الٹ کائنات تو ایک جیسی ہی رہے گی۔

 

نوبل انعام یافتہ رچرڈ فیمین ایسی کائناتوں کے بارے میں ایک انتہائی دلچسپ سوال اٹھاتے ہیں۔ فرض کریں کہ ایک دن ہمارا ریڈیائی رابطہ دور دراز کے سیارے کی خلائی مخلوق سے  ہو جاتا ہے جس کو ہم دیکھ نہیں سکتے۔ کیا ہم ان کو ریڈیو کے ذریعہ  سیدھے اور الٹے کا فرق بتا پائیں گے؟ انہوں نے پوچھا۔ اگر طبیعیات کے  قوانین  پی الٹ کائنات کو بننے کی اجازت دیں تو ان کو اس قسم کی بات کو سمجھانا ناممکن ہوگا۔

 

 کچھ چیزیں بیان کرنا آسان ہوتی ہیں  جیسا کہ ہمارے جسموں کی شکل ، ہاتھوں کی انگلیوں کی تعداد ، بازو  اور پیر۔ خلائی مخلوق کو ہم قوانین طبیعیات اور قوانین کیمیا کو بھی بیان کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہم ان کو سیدھے اور الٹے (یا کلاک وائز  اور ضد کلاک وائز ) کو بیان کرنے کی کوشش کریں گے تو ہر دفعہ ہم ناکام ہو جائیں گے۔ ان کو ہم کبھی بھی یہ بیان نہیں کر سکیں گے کہ ہمارا دل ہمارے جسم کے الٹی طرف ہے،  زمین کس سمت میں گھوم رہی ہے، ڈی این اے کے سالمات  کس طرح سے گھومتے ہیں۔

 لہٰذا ایک زبردست جھٹکا اس وقت لگا جب کولمبیا یونیورسٹی کے " سی این یانگ" (C۔N۔ Yang) اور "ٹی ڈی لی" (T۔D۔ Lee)  نے اس نظریئے کو غلط ثابت کر دیا۔ انہوں نے ذیلی ذرّات کی نوعیت کو جانچتے ہوئے اس بات کو ثابت کر دیا کہ  آئینے کی طرح پی الٹ کائنات وجود نہیں پا سکتی۔ ایک طبیعیات دان نے یہ نتیجے کو سننے کے بعد کہا "دیوتا سے کہیں کوئی غلطی ہو گئی ہے۔"  ان ہلا دینے والے نتیجوں ، جن کو "مساوی نمائندگی کی شکست"  کہا جاتا ہے یانگ اور لی کو طبیعیات کا  نوبل انعام ١٩٥٧ء میں دلوانے کا سبب بنا حاصل کیا۔

 

فیمین کے لئے اس نتیجے کا مطلب یہ تھا کہ اگر آپ خلائی مخلوق سے ریڈیو پر بات کر رہے ہیں تو یہ ممکن ہے کہ آپ کوئی ایسا تجربہ کر سکیں جو آپ کو اس قابل کر دے کہ آپ سیدھی  اور الٹی کائنات  کا فرق  خالی ریڈیو کے ذریعہ ہی بیان کر سکتے ہیں  (مثال کے طور پر،  تابکار کوبالٹ  - ٦٠سےخارج ہونے والے الیکٹران  برابری کی بنیاد پر کلاک وائز یا ضد کلاک وائز نہیں گھومتے  بلکہ اصل میں وہ  ایک ترجیح سمت میں گھومتے ہیں  جس کے نتیجے میں وہ  مساوی نمائندگی کے اصول  کو  توڑ دیتے ہیں۔)

 

تب فیمین سمجھ گیا تھا  کہ خلائی مخلوق اور انسانوں کی تاریخی ملاقات آخر کار ممکن  ہو سکتی ہے۔ لہٰذا یہ ممکن ہے کہ  جب  ہم پہلی مرتبہ خلائی مخلوق سے ملیں تو انھیں بتا سکتے ہیں کہ اپنے سیدھے ہاتھ کو اٹھائیں تاکہ ہم ان سے مصافحہ کیا جا سکے۔  اگر خلائی مخلوق نے صحیح طرح سے اپنا سیدھا ہاتھ اٹھا لیا تو تب ہی ہم یہ بات جان پائیں گے کہ ہم نے ان کو کامیابی کے ساتھ سیدھے اور الٹے  اور کلاک وائز اور ضد کلاک وائز کا تصوّر سمجھا دیا ہے۔ مگر پھر فیمین نے ایک بوکھلا دینے والا خیال پیش کیا ہے۔ اس وقت کیا ہوگا کہ اگر خلائی مخلوق نے سیدھے ہاتھ  کو اٹھانے کے بجائے الٹا ہاتھ اٹھایا ؟ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے ایک انتہائی مہلک غلطی کر لی ہے  یعنی ہم ان کو سیدھے اور الٹے کا تصوّر صحیح طرح سے نہیں بیان کر سکے۔ سب سے خطرناک  بات تو یہ ہوگی کہ اگر  خلائی مخلوق ضد مادّہ سے بنی ہوگی تو  انہوں نے اس تجربہ کو الٹا ادا کیا ہوگا  لہٰذا انہوں نے سیدھے اور الٹے کے تصوّر کو ملا دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جب ہم ان سے ہاتھ ملائیں گے تو ہم دونوں ہی دھماکے سے پھٹ جائیں گے !

 

مفصلہ بالا ہماری سمجھ بوجھ١٩٦٠ء  تک کی تھی۔ یہ بات ناممکن ہے کہ ہم اپنی کائنات اور اس کائنات میں کوئی فرق کر سکیں جو ضد مادّہ سے بنی ہے جہاں مساوی نمائندگی الٹی ہے۔ اگر آپ اس نمائندگی اور بار کو الٹ بھی  کر دیں تو بننے والی کائنات انھیں طبیعیات کے قوانین  کے تابع ہوگی جو ہماری کائنات میں لاگو ہیں ۔ مساوی نمائندگی خود ہی سے شکست کھا لے گی  مگر بار اور مساوی نمائندگی اب بھی ایک کائنات کا اچھا تشاکل ہیں۔ لہٰذا پی کائنات کا وجود اب بھی ہونا ممکن ہے۔

 

اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم کسی خلائی مخلوق سے فون پر بات کر رہے ہیں تو ہم ان کو ایک ایسی کائنات جس میں  بار بھی الٹ ہوں اور مساوی نمائندگی بھی الٹ ہو  اورایک عام کائنات کا فرق نہیں بتا سکتے۔(یعنی سیدھا اور الٹا ایک دوسرے سے بدل جائے گا  اور تمام مادّہ ضد مادّہ میں تبدیل ہو جائے گا۔)

تب ١٩٦٤ء میں طبیعیات دانوں کو ایک اور جھٹکا ملا : سی پی الٹ کائنات وجود نہیں رکھ سکتی۔ ذیلی جوہری ذرّات کی خصوصیات کو جانچ کریہ ممکن ہے کہ اگر آپ ریڈیو کے ذریعہ کسی دوسری سی پی الٹ کائنات میں بات کر رہے ہیں تو سیدھے اور الٹے  اور کلاک وائز اور ضد کلاک وائز کا فرق بتایا جا سکتا ہے۔ اس نتیجے کے  صلے میں "جیمز کرونن" (James Cronin) اور "ول فیچ" (Val Fitch) نے ١٩٨٠ء میں نوبل انعام جیتا۔

 

(کافی  طبیعیات دان اس وقت بہت زیادہ دلبرداشتہ ہو گئے تھے جب انھیں معلوم ہوا  کہ سی پی کائنات طبیعیات کے قوانین کی رو سے متصادم ہے۔ پس  بین جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ یہ دریافت ایک اچھی بات تھی۔ اگر سی پی کائنات کا وجود ممکن ہوتا تو بگ بینگ کی ساعت کے وقت مادّہ اور ضد مادّہ ہو بہو برابر کی مقدار میں ہوتا  جس کے نتیجے میں مادّہ اور ضد مادّہ سو فیصد آپس میں مل کر فنا ہو جاتا  اور ہمارے ایٹموں کا بننا ممکن نہ رہتا ! ہمارا اپنا وجود اس حقیقت کی گواہی ہے کہ ہم اس بچے ہوئے مادّے سے بنے ہیں جو مادّہ اور ضد مادّہ  کے ٹکراؤ کے بعد بچ جانے والا مادّہ تھا اور یہ اس سی پی کائنات کی خلاف ورزی کا ثبوت ہے۔)

 

کیا کسی الٹی کائنات کا ہونا ممکن ہے ؟ مفصلہ بالا باتوں کے باوجود اس بات کا جواب ہاں میں ہے۔ اگر مساوی نمائندگی  کا الٹ اور بار کا الٹ ہونا ناممکن ہے اس کے باوجود ایک ضد کائنات موجود ہو سکتی ہے۔ لیکن  اس صورت میں وہ انتہائی عجیب ہوگی۔ اگر ہم بار ، مساوی نمائندگی اور وقت کے دھارے کو پلٹ دیں تب بھی کائنات کو طبیعیات کے تمام قوانین کی اطاعت کرنا ہوگی۔ ایک سی پی ٹی کائنات کا وجود ممکن ہے۔

 

وقت کے دھارے کو الٹنا ایک عجیب تشاکل ہے۔ ایک الٹے وقت کی کائنات میں  تلا ہوا انڈا کھانے کی میز پر سے اٹھ کر ہانڈی میں چلا جائے گا اور پھر وہاں سے اٹھ کر  انڈے کے چھلکوں میں جا کر ان کو بند کرکے ثابت انڈا بن جائے گا۔ مردے زندہ ہو جائیں گے،  اس کے بعد جوان ہوں گے ، پھر بچے بنیں گے اور آخر میں اپنی ماؤں کے رحم میں چلے جائیں گے۔

 

عقل عامہ ہمیں یہ سمجھاتی ہے کہ ایک الٹے وقت کی کائنات کا موجود ہونا ممکن نہیں ہے۔ مگر ذیلی ایٹمی ذرّات کی ریاضیاتی مساوات  ہمیں کچھ اور بتاتی ہیں۔ نیوٹن کے قانون کا اطلاق بے عیب طریقے سے آگے پیچھے کی طرف ہو سکتا ہے۔ کسی بلیرڈ کے کھیل کی  ویڈیو بنانے کا تصوّر کریں۔ گیندوں کا ہر ٹکراؤ نیوٹن کے قانون کی اطاعت کرتا ہے،  اسی کسی ویڈیو گیم کی ٹیپ کو الٹا  چلانا ایک عجیب سا  کھیل بنا دے گا مگر  نیوٹن کا قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے!

 

کوانٹم کے نظریئے میں چیزیں اور زیادہ پیچیدہ ہو جاتی ہیں۔  الٹے وقت کی کائنات کوانٹم میکانیات کے اصولوں سے انحراف ہے  مگر پوری سی پی ٹی کائنات  کے وجود کی اس میں بھی اجازت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسی کائنات، جس میں سیدھا اور الٹا آپس میں ایک دوسرے سے بدل جائیں،  مادّہ ضد مادّہ میں تبدیل ہو جائے اور وقت کا دھارا الٹا بہنے لگے، مکمل طور پر قابل قبول ہے یہ  طبیعیات کے مروجہ  قوانین کا بھی اتباع کرے گی۔

 

(حیران کن بات یہ ہے کہ  ہم کسی بھی ایسی سی پی ٹی الٹ دنیا  سے کسی بھی قسم کا رابطہ نہیں کر سکتے ۔ اگر ان کے سیارے پر وقت کا دھارا الٹا بہ رہا ہوگا  تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم ان کو جو بھی پیغام  ریڈیو کے ذریعے بھیجیں  گے  وہ ان کے مستقبل کا حصّہ ہوگا  لہٰذا وہ اس بات کو فوراً اسی وقت بھول جائیں گے جیسی ہی وہ بات ہم انھیں بتائیں  گے۔ لہٰذا اگرچہ سی پی ٹی الٹ کائنات کا قوانین طبیعیات کی رو سے موجود ہونا ممکن ہے  لیکن ہم کسی بھی سی پی ٹی الٹ دنیا میں رہنے والی خلائی مخلوق سے ریڈیو کے ذریعہ بات چیت نہیں کر سکتے۔)

 

مختصر الفاظ میں ضد مادّے سے چلنے والے انجن ہمیں ایک حقیقی امکان بہم پہنچاتے ہیں  جس  کا استعمال ہم  مستقبل بعید میں بطور ایندھن کر سکتے ہیں، بشرطیکہ کافی سارا ضد مادّہ زمین پر بن سکے  یا  اس کو خلاء میں تلاش کر لیا جائے ۔مادّے اور ضد مادّے میں توازن  سی پی انحراف کی وجہ سے  بگڑا ہوا ہے  جس کا مطلب یہ ہے کہ ضد مادّہ  کائنات کے کچھ حصّوں میں موجود ہو سکتا ہے  اور ہم اس کا اب بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

 

لیکن  کیونکہ ضد مادّہ کے انجن کو بنانے میں کافی مشکلات فنی طور پر راہ میں حائل ہیں  لہٰذا  ان مشکلات  پر قابو پانے میں شاید ایک صدی کا عرصہ یا اس سے بھی زیادہ لگ سکتا ہے۔ اس  وجہ سے میں اس کو جماعت "I" کی ناممکنات میں درجہ بند کر رہا ہوں۔

 

مگر چلیں ایک اور سوال سے نمٹتے ہیں :کیا آج سے ہزاروں  برسوں بعد مستقبل  بعید میں روشنی کی رفتار سے چلنے والے خلائی جہاز بنانا ممکن ہوگا ؟ کی آئن سٹائن کے مشہور  مقولے  "روشنی کی رفتار سے کوئی بھی چیز تیز نہیں ہو سکتی؟"  میں کیا کوئی گنجائش موجود  ہے۔ حیرت انگیز طور اس کا جواب ہاں میں ہے۔