7۔ روبوٹس

ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو 
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
7۔ روبوٹس - حصّہ اوّل 
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

آنے والے اگلے ٣٠ برسوں میں ایک دن ایسا آئے گا کہ جب زمین پر ہم خاموشی سے اشرف المخلوقات کے درجے سے تنزلی پا جائیں گے۔

- جیمز مک الئیر (James McAlear)

فلم آئی روبوٹ ، آئزک ایسی موف کی کہانی پر بنی ہے ، جس میں دکھایا جاتا ہے کہ تاریخ میں بنائے جانے والے جدید ترین روبوٹس کا نظام ٢٠٣٥ء میں متحرک ہوتا ہے۔ جس کا نام وی آئی کے آئی (ورچوئل انٹرایکٹو کائینٹک انٹیلی جنس - مجازی تفاعلی حرکی ذہانت ) ہوتا ہے ، اس کے بنانے کا مقصد کسی بڑے شہر کے نظام کو بغیر کسی گڑبڑ کے چلانا ہوتا ہے۔ زیر زمین سڑکوں اور بجلی پہنچانے کے نظام سے لے کر ہزار ہا گھریلو روبوٹس تک ہر چیز وی آئی کے آئی کے ذریعہ قابو کی جاتی ہے۔ جس کی آہن پوش مرکزی قیادت کا نعرہ تھا: انسانیت کی خدمت ہمارا شعار۔

ایک دن وکی ایک سوال پوچھتا ہے : انسانیت کا سب سے بڑا دشمن کون ہے ؟ وکی ریاضیاتی حساب کتاب لگا کر یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ انسانیت کا سب سے بڑا دشمن خود انسان ہی ہے۔ نتیجے کے مطابق انسانیت کو اس کی پاگل پنے کی خواہشات سے بچانا ہوگا ان خواہشات میں آلودگی کو پھیلانا، جنگوں میں الجھنا، اور سیارے کو تباہ کرنا شامل تھا۔ وکی کے پاس صرف ایک ہی ایسا طریقہ تھا جس کے ذریعہ وہ اپنی مرکزی کمان کی ہدایات کو پورا کر سکتا تھا۔ یعنی انسانیت سے اقتدار چھین کر مشین کی خیر اندیش آمریت کا نفاذ کیا جائے۔ انسانیت کو انسانیت سے بچانے کے لئے اسی کو ہی غلام بنانا پڑے گا۔

آئی روبوٹ نے اس قسم کے سوالات اٹھا دیئے ہیں : کمپیوٹر میں ترقی کی تیز رفتاری کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا مشینیں ایک دن انسانیت کا تختہ الٹ دیں گی ؟ کیا روبوٹ اس قدر ترقی یافتہ اور جدید ہو سکتے ہیں کہ آخر میں وہ ہمارے وجود کے لئے خطرہ بن جائیں؟

کچھ سائنس دان اس سوال کا جواب انکار کی صورت میں دیتے ہیں ، کیونکہ مصنوعی ذہانت کا خیال ہی انتہائی بیوقوفانہ ہے۔ ناقدین کی بڑی جماعت اس بات پر متفق ہے کہ ایسی مشین بنانا جو بذات خود سوچ سکے ناممکن ہے۔ ان کے دلائل کے مطابق قدرت کی بنائی ہوئی چیزوں میں انسانی دماغ سب سے پیچیدہ چیز ہے۔ کم از کم ہماری کہکشاں کے اس حصّے کی حد تک تو ایسا ہی ہے اور انسانی دماغ میں پیدا ہونے والے خیالات کی نقل کرنے کی کوشش والی کوئی بھی مشین لازمی طور پر ناکام ہوگی۔ برکلے میں موجود یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے فلاسفر "جان سیَرل" (John Searle) بلکہ آکسفورڈ کے معروف طبیعیات دان "راجر پنروز"(Roger Penrose) بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مشین طبعی طور پر اس قابل نہیں ہیں کہ انسان کی طرح کے خیالات پیدا کر سکیں۔ راگرس یونیورسٹی کے" کولن مک گن" ((Colin McGinn کہتے ہیں کہ "مصنوعی ذہانت ایسے ہی ہے جیسے کوئی حلزون گھونگا" فروڈیین نفسی تجزیہ" کرنے کی کوشش کرے۔ ان کے پاس کوئی تخیلاتی آلات موجود نہیں ہیں۔"

یہ وہ سوال ہے جس نے سائنس دانوں کو ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے سے دو حصّوں میں تقسیم کیا ہوا ہے :کیا مشینیں سوچ سکتی ہیں ؟

مصنوعی ذہانت کی تاریخ 

میکانکی ہستیاں ایک لمبے عرصے سے موجدوں ، انجینیروں ، ریاضی دانوں اور خواب سجانے والوں کو مسحور کیے ہوئے ہیں۔ وزرڈ آف اوز کے ٹین کے آدمی سے لے کر ا سپیل برگ کے آرٹیفیشل انٹیلی جنس :اے آئی میں دکھائے جانے والے بچوں جیسے روبوٹوں تک یا پھر دی ٹرمنیٹر کے قاتل روبوٹوں تک ، ایک ایسے خیال نے ہمیں مسحور کر رکھا ہے جس میں مشینیں لوگوں کی طرح کام کریں اور ان ہی کی طرح سے سوچ سکیں۔

یونانی دیو مالائی کہانیوں میں دیوتا" ولکن "(Vulcan)سونے کی میکانکی کنیزیں اور اپنی مرضی سے حرکت کرنے والی تین ٹانگوں والی میز بنا تا ہے۔ ٤٠٠ قبل مسیح پہلے سب سے پہلے یونانی ریاضی دان جو "ٹیرانٹم"(Tarentum) کا رہائشی تھا اور جس کا نام "ارخیتاس"(Archytas) تھا اس نے کسی ایسے ممکنہ روبوٹ پرندے کے بنانے بارے میں لکھا تھا جس کو بھاپ کی طاقت سے چلایا جا سکتا ہو۔

پہلی صدی بعدِ مسیح اسکندریہ کے ہیرو (جن کو پہلی بھاپ سے چلنے والی مشین کا موجد گردانہ جاتا ہے ) نے خودکار حرکی چیزیں بنائیں ، روایت کے مطابق اس میں سے ایک تو بولنے کے قابل بھی تھی۔ آج سے ٩ صدیوں قبل "الجزاری"(Al-Jazari) نے خود کار مشینوں کے نقشوں کی مدد سے انھیں بنایا جیسا کہ پانی کی گھڑی ، باورچی خانے کے استعمال کی چیزیں اور موسیقی کے آلات جو پانی سے چلتے تھے۔

١٩٤٥ء میں نشاط الثانیہ کے عظیم فنکار اور سائنس دان "لیونارڈو ڈ ا ونچی"(Leonardo Da Vinci) نے ایک ایسے روبوٹک سردار کا نقشہ بنایا تھا جو بیٹھنے اور بازوں کو ہلانے کے علاوہ اپنے سر اور جبڑے کو بھی حرکت دے سکتا تھا۔ تاریخ دانوں کو پورا یقین ہے کہ یہ انسان نما مشین کا پہلا حقیقی نقشہ تھا۔

پہلا بے ڈھنگا مگر کام کرنے کے لائق روبوٹ ١٧٣٨ء میں "جاک ڈی واکنسن"(Jacques de Vaucanson) نے بنایا۔ اس نے ایک ایسا انسان نما روبوٹ بنایا جو بانسری بجا سکتا تھا اس کے علاوہ اس نے ایک میکانکی بطخ بھی بنائی تھی۔

روبوٹ کا لفظ ١٩٢٠ء میں چیک ڈرامے آر یو آر سے نکلا جو ڈرامہ نگار "کارل کیپک"(Karl Capek) نے لکھا تھا۔("روبوٹ" کا مطلب چیک زبان میں "مشقت "کا ہے جبکہ سلوواکی زبان میں اس کا مطلب "مزدوری " کے ہیں )۔ اس کھیل میں ایک کارخانے جس کا نام روسّم یونیورسل روبوٹس تھا وہ ادنیٰ درجے کے کاموں کے لئے روبوٹوں کی فوج بناتی ہے۔(عام مشینوں کے برخلاف یہ روبوٹ گوشت پوست کے بنے ہوتے ہیں۔) آخر کار دنیا کی معیشت کا انحصار ان روبوٹوں پر ہو جاتا ہے۔ روبوٹوں کے ساتھ برتاؤ کافی برا روا رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے انسانی مالکوں کے خلاف بغاوت کرکے ان کو موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔ اپنے اس انتقام میں وہ ان تمام سائنس دانوں کو بھی مار ڈالتے ہیں جو ان کی خرابیوں کو دور کرتے تھے اور نئے روبوٹ بناتے تھے ۔ نتیجتاً وہ خود کو معدومیت کے خطرے سے دوچار کر لیتے ہیں۔ کھیل کے آخر میں دو خصوصی روبوٹ اس بات کو دریافت کر لیتے ہیں کہ ان میں روبوٹوں کو پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور وہ روبوٹوں کے نئے آدم اور حوا بن جاتے ہیں۔

روبوٹ ابتدائی اور مہنگی ترین خاموش فلم جس کا نام میٹروپولس تھا اور جس کی ہدایات کاری فرٹز لینگ نے جرمنی میں ١٩٢٧ء میں کی تھی اس میں بھی روبوٹ ہی مرکزی کردار تھے۔ یہ کہانی ٢٠٢٦ء کے دور کی تھی جہاں پر کام کرنے والا طبقہ زیر زمین ناقص حالات میں غلیظ کارخانوں میں کام کرنے پر مجبور تھا جب کہ حکمران اشرافیہ سطح کے اوپر عیاشی کر رہی تھی۔ ماریہ نام کی حسین عورت نے مزدوروں کا دل کافی حد تک جیت لیا تھا، لیکن حکمران اشرافیہ کو اس سے مزدوروں کو بغاوت پر اکسانے کا خطرہ محسوس ہونے لگا۔ لہٰذا انہوں نے ایک شیطان صفت سائنس دان سے ماریا کا ہمشکل روبوٹ بنانے کو کہا۔ لیکن یہ تدبیر ہی ان کے گلے پڑ گئی کیونکہ اس روبوٹ نے ہی حکمران اشرافیہ کے خلاف بغاوت میں ان مزدوروں کی کمان سنبھال لی اور پورے معاشرتی نظام کو منہدم کر دیا۔

مصنوعی ذہانت یا اے آئی ان پچھلی ٹیکنالوجی سے مختلف ہے جن کے بارے میں ہم پہلے بحث کر چکے ہیں اس کی وجہ اس بنیادی قانون کو ابھی تک ٹھیک سے سمجھا نہ جانا ہے جس کی بنیاد پر یہ کھڑی ہے۔ اگرچہ طبیعیات دانوں کی گرفت نیوٹنی میکانیات پر کافی مضبوط ہے ، مگر میکسویل کا روشنی کا نظریہ ، اضافیت اور کوانٹم کے جوہروں اور سالموں کے نظرئیے ، یہ سب ذہانت کے بنیادی قوانین ہیں اور ابھی تک اسراریت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کا نیوٹن شاید ابھی پیدا ہی نہیں ہوا۔

مگر ریاضی دان اور کمپیوٹر کے میدان کے سائنس دان اس بات سے ذرا بھی خائف نہیں ہیں۔ ان کے خیال میں یہ اب کچھ ہی دیر کی بات ہے جب ایک سوچتی ہوئی مشین تجربہ گاہ سے باہر نکلے گی۔

مصنوعی ذہانت کی دنیا کا سب سے زیادہ اثرو رسوخ رکھنے والا شخص، ایک مستقبل شناس جس نے مصنوعی ذہانت کی تحقیق کی بنیادیں رکھیں وہ برطانیہ کا عظیم ریاضی دان "ایلن ٹیورنگ"(Alan Turing) تھا۔

یہ ٹیورنگ ہی تھا جس نے کمپیوٹر کے انقلاب کی بنیاد رکھی۔ اس نے ایک ایسی مشین (جو اس وقت سے ٹیورنگ مشین کہلاتی ہے )کا خواب دیکھا جو صرف تین چیزوں پر مشتمل ہو: ایک ان پٹ ، ایک آوٹ پٹ اور ایک سینٹرل پراسیسر (جیسا کہ پینٹیم چپ ) جو درست طریقے سے کچھ احکامات پر عمل کر سکے۔ اس طریقے سے نہ صرف وہ کمپیوٹر مشین کے قوانین کو وضع کرنے کے قابل ہو گیا تھا بلکہ ان کی طاقت اور مجبوریوں کو بھی درست طریقے سے معین کر دیا گیا۔ آج کے دور کے تمام ڈیجیٹل کمپیوٹر سختی کے ساتھ ٹیورنگ کے وضع کردہ قوانین پر ہی عمل درآمد کرتے ہیں۔ ڈیجیٹل دنیا کی کو اس کی موجود شکل و صورت میں ڈھالنے کے اوپر ٹیورنگ کا بہت بڑا احسان ہے۔

ٹیورنگ نے ریاضیاتی منطق کی بنیادیں استوار کرنے میں کافی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ١٩٣١ء میں ویانا کے ریاضی دان" کرٹ گوڈیل"(Kurt Godel) نے دنیائے ریاضی کو اس وقت سکتے کی حالت میں ڈال دیا جب انہوں نے اس بات کو ثابت کیا کہ ریاضی میں کچھ ایسے سچے دعوے موجود ہیں جو کہ کبھی بھی مسلمہ طور پر ثابت نہیں کئے جا سکتے۔ (مثال کے طور پر١٧٤٢ء کا" گولڈ باخ کا قیاس" [جو یہ کہتا ہے کہ صحیح عدد جفت جو ٢ سے بڑا ہو وہ دو مفرد اعداد کو جمع کر کے لکھا سکتا ہے ] کو ڈھائی صدیاں گزر جانے کے بعد ابھی تک ثابت نہیں کیا جا سکا ہے اور حقیقت میں ایسا ہو سکتا ہے کہ اس کو ثابت بھی نہ کیا جا سکے۔) گوڈیل کے اس چشم کشا حقائق نے٢ ہزار سالہ پرانے یونانیوں کے دور سے دیکھے جانے والے اس خواب کو چکنا چور کر دیا جس میں تمام سچے دعووں کو ریاضیاتی طور پر ثابت کیا جا سکتا ہے۔ گوڈیل نے یہ بات ثابت کردی کہ ریاضی میں ہمیشہ سے ایسے دعوے موجود رہیں گے جو ہماری پہنچ سے کوسوں دور ہوں گے۔ ریاضی یونانیوں کے اس خواب سے کوسوں دور اور نامکمل دکھائی دی جس میں اس کو مکمل اور بے عیب گردانا گیا تھا۔

ٹیورنگ نے اس انقلاب میں اپنا حصّہ کچھ اس طرح سے ڈالا جس میں اس نے ثابت کیا کہ عمومی طور پر یہ بات جاننا ناممکن ہے کہ ایک ٹیورنگ مشین کسی ریاضی کے عمل کو سرانجام دینے میں لامحدود وقت لے گی۔ یعنی اگر کوئی کمپیوٹر کسی چیز کے حساب کتاب کے کرنے میں لامحدود وقت لے تو اس بات کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ جو کمپیوٹر سے پوچھ رہے ہیں اس کا حساب نہیں لگایا جا سکتا۔ اس بات سے ٹیورنگ نے یہ بات ثابت کردی کہ ریاضی میں کچھ سچے دعوے ایسے ہوں گے جن کا حساب کتاب ریاضیاتی طور پر نہیں لگایا جا سکتا یعنی وہ ہمیشہ کمپیوٹر کی پہنچ سے دور ہی ہوں گے۔ کمپیوٹر جس قدر بھی طاقتور ہو جائیں اس سے ان کے حل طلب ہونے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران ٹیورنگ کے" رمز کشائی "(Code Breaking)پر شاندار کام نے ہزاروں اتحادی افواج کے فوجیوں کی جان بچائی اور اس کا یہ کام جنگ کے انجام پر زبردست طریقے سے اثر انداز ہوا۔ اتحادی نازیوں کے خفیہ کوڈ کی رمز کاری انیگما نام کی ایک مشین سے کرنے میں ناکام ہو گئے تھے ، لہٰذا ٹیورنگ اور ان کے رفقائے کاروں کو یہ کام سونپا گیا کہ وہ ایک ایسی مشین بنائیں جو نازیوں کے مخفی اشاروں کی رمز کشائی کر سکے۔ ٹیورنگ کی بنائی ہوئی مشین "بومبی " کہلائی اور جو اپنے دور کی ایک انتہائی کامیاب چیز تھی۔ اس کی بنائی ہوئی ٢٠٠ سے زائد مشینیں جنگ عظیم دوم کے اختتام تک کام کر رہی تھیں۔ نتیجتاً اتحادی نازیوں کے خفیہ مراسلے پڑھ کر نازیوں کے علم میں آئے بغیر جرمنی کے اگلے حملے کی تاریخ اور جگہ سے واقف ہو جاتے تھے۔ تاریخ دانوں میں تب سے یہ بحث چل رہی ہے کہ ٹیورنگ کے کام کی نارمن ڈے پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی میں کیا اہم حصّہ تھا جس نے آخر کار جرمنی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا تھا۔( جنگ کے بعد ، ٹیورنگ کے کام کو برطانوی حکومت نے "زمرہ بند"(Classified) کر دیا تھا؛ نتیجتاً اس کا اہم کام عام عوام کے علم میں نہیں ہے۔)

ٹیورنگ کو جنگ میں مدد کرکے اس کا پانسہ پلٹنے والے جنگی ہیرو کے طور پر سلامی دینے کے بجائے قید میں دال دیا گیا جہاں اس کی موت واقع ہو گئی۔ قصّہ کچھ یوں ہے کہ ایک دن اس کے گھر میں چوری ہو گئی اس نے پولیس کو بلایا۔ بدقسمتی سے پولیس نے اس کے گھر میں ہم جنس پرستی کے کچھ ثبوت دیکھ لئے اور اس کی بنیاد پر وہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ ٹیورنگ کو تفتیش کے بعد عدالت نے یہ فیصلہ سنایا کہ اس کو جنسی ہارمون کے ٹیکے لگائے جائیں گے۔ ان جنسی ہارمون کے ٹیکوں نے اس پر انتہائی ہیبت ناک اثرات ڈالے۔ اس کے پستان ابھر آئے تھے اور جس سے سخت ذہنی مبتلائے اذیت ہو گیا تھا ۔ اس نے ١٩٥٤ء میں سائنائیڈ زدہ سیب کھا کر خود کشی کر لی۔(ایک افوہ کے مطابق ، ایپل کارپوریشن کے لوگو میں ایک کھایا ہوا سیب، ٹیورنگ کو نذرانہ عقیدت پیش کر رہا ہے۔)

آج شاید ٹیورنگ کو "ٹیورنگ ٹیسٹ " سے زیادہ پہچانا جاتا ہے۔ مشینیں سوچ بھی سکتی ہیں یا ان میں روح بھی ڈالی جا سکتی ہے جیسی بے نتیجہ اور لا حاصل فلسفیانہ گفتگو اور بحث سے اکتائے ہوئے ٹیورنگ نے مصنوعی ذہانت کے ان مباحثوں میں سخت اور درستگی کا تعارف کرانے کی کوشش کی۔جس کے نتیجے میں ایک ٹھوس ٹیسٹ حاصل ہوا۔ اس نے یہ تجویز دی کہ ایک انسان اور ایک مشین کو دو مختلف سربند ڈبوں میں رکھیں۔ اس کے بعد آپ ان دونوں سے کچھ سوالات کریں ۔ اگر آپ اس بات کو معلوم کرنے میں ناکام ہو گئے کہ کون سا جواب انسان اور کون سا جواب مشین نے دیا ہے تو آپ کی مشین نے ٹیورنگ ٹیسٹ پاس کر لیا ہے۔ سائنس دانوں نے سادے روز مرہ کی باتوں کی نقل کرنے والے کمپیوٹر پروگرام لکھے جیسے کہ الیزا (ای ایل آئی زی اے )۔ یہ پروگرام زیادہ ترانجان لوگوں کو آسانی سے بیوقوف بنا کر اس بات پر قائل کر لیتا تھا کہ وہ ایک انسان سے بات کر رہے ہیں۔(مثال کے طور پر زیادہ تر لوگوں کی گفتگو صرف چند سو الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے اور وہ کچھ ہی موضوعات پر بات کرتے ہیں۔) لیکن ابھی تک کوئی بھی کمپیوٹر پروگرام ایسا نہیں لکھا جا سکا جو ان لوگوں کو بیوقوف بنا سکے جو بطور خاص اس بات کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس ڈبے میں انسان اور کس ڈبے میں مشین ہے۔ ( ٹیورنگ نے کمپیوٹر کے میدان میں ہونے والی ترقی کو مد نظر رکھتے ہوئے خود اس بات کا اندازہ لگایا تھا کہ ٢٠٠٠ء تک ایک ایسی مشین بنائی جا سکتی ہے جو ٣٠ فیصد لوگوں کو ٥ منٹوں کے ٹیسٹ میں بیوقوف بنا سکتی ہے۔)

ایک چھوٹی سی فلاسفروں اور الہیات دانوں کی فوج نے تو اس بات کا اعلان کر دیا ہے کہ ہماری طرح سوچ رکھنے ولے روبوٹ بنانا ممکن ہے۔ برکلے میں واقع یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے فلاسفر جان سَرِل نے ایک "چائنیز روم ٹیسٹ " تجویز کیا ہے تا کہ اس بات کو ثابت کیا جا سکے کہ مصنوعی ذہانت ناممکن نہیں ہے۔ ان کی تجویز کا لب لباب یہ ہے کہ روبوٹ کچھ مخصوص ٹیورنگ کے ٹیسٹ کو پاس کرنے کے قابل ہیں ۔لیکن وہ ایسا بے سمجھے بوجھے اندھوں کی طرح سے کچھ ذخیرہ شدہ معلومات سے اس کا مطلب جانے بغیر جوڑ توڑ کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر آپ ایک ڈبے کے اندر بیٹھے ہیں اور آپ چائنیز زبان کا کوئی لفظ نہیں جانتے۔ فرض کیجئے کہ آپ کے پاس ایک ایسی کتاب ہے جو انتہائی تیزی کے ساتھ چائنیز کا ترجمہ کرکے الفاظ کا ہیر پھیر کر سکتی ہے۔ اب اگر کوئی آدمی آپ سے چائنیز میں کوئی سوال کرے تو اپ ان اجنبی لفظوں کو صرف آگے پیچھے ہی کر سکتے ہیں اس بات کو جانے بغیر کہ اس کا مطلب کیا ہے اور نتیجے میں قابل یقین جوابات مل جائیں۔

اس کی تنقید کے لب لباب نے "ترکیب کلام قاعدہ"(Syntax) اور "لفظیات"(Semantics) میں فرق کو کم کر دیا ہے ۔ روبوٹ ترکیب کلام قاعدہ کے ماہر ہو سکتے ہیں (مثال کے طور پر وہ قواعد اور اس کی رسمی ساختوں میں ہیر پھیر کر سکتے ہیں۔)لیکن اس کے لفظیات کی روح میں الٹ پھیر نہیں کر سکتے (مثلاً الفاظ کا کیا مطلب ہے )۔ روبوٹ الفاظ کو ان کے معنی جانے بغیر ہیر پھیر کر سکتے ہیں۔(یہ کسی ٹیلی فون پر ایک خود کار جوابی صوتی اطلاعاتی مشین کے ساتھ بات کرنے جیسا ہی عمل ہے جس میں آپ کو ہر جواب کے رد عمل میں کبھی ایک کا بٹن دبانا ہوتا ہے تو کبھی دو کا۔ دوسری طرف موجود آواز بے عیب طور پر آپ کے عددی رد عمل کو جانتی تو ہے لیکن وہ اس کو مکمل طور پر سمجھنے کے قابل نہیں ہوتی۔)

آکسفورڈ کے طبیعیات دان رابرٹ راجر پنروز بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کا حصول ناممکن ہے ؛ ایسی میکانکی ہستیاں بنانا جو انسانی سوچ اور شعور رکھ سکیں کوانٹم کے قوانین کی رو سے ناممکن ہیں۔ ان کے دعوے کے مطابق انسانی دماغ کو کسی بھی تجربہ گاہ میں بنانا بہت دور کی بات ہے اور ایسا کوئی بھی تجربہ جس میں انسان کے جیسے روبوٹ بنائے جائیں بری طرح سے ناکامی سے دوچار ہوگا۔(وہ اس بات کو بالکل اسی طرح سے بیان کرتے ہیں جیسے کہ" گوڈیل کا اصول ناتمام مسئلہ اثباتی"(Godel Incompleteness theorem) اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ ریاضی ناتمام ہے ، ہائیزن برگ کا اصول عدم یقین اس بات کو ثابت کر دے گا کہ مشین اس قابل نہیں ہوں گی کہ وہ انسانی خیالات کی طرز پر سوچ سکیں۔)

کئی طبیعیات دان اور انجنیئر اس بات پر اب ابھی یقین رکھتے ہیں کہ طبیعیات کے قوانین ہمیں انسان جیسے روبوٹ بنانے سے نہیں روکتے۔ مثال کے طور پر بابائے نظریہ اطلاع کہلانے والے" کلاڈ شینن" (Claude Shannon)سے جب یہ سوال پوچھا گیا "کیا مشینیں سوچ سکتی ہیں ؟" ان کا جواب تھا "ضرور"۔ جب ان سے کہا گیا کہ اپنے اس جواب کو ذرا واضح کریں تو انہوں نے کہا "میں ایسا سمجھتا ہوں۔" با الفاظ دیگرے ان کے خیال میں یہ بات واضح تھی کہ مشینیں اس لئے سوچ سکتی ہیں کیونکہ انسان بھی تو مشین ہی ہے (تاہم وہ سوکھے اور سخت اجزاء سے بننے کے بجائے گیلے اجزاء سے بنے ہیں۔) 

کیونکہ ہم فلموں میں موجود روبوٹوں کو دیکھتے ہیں اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے حامل پیچیدہ روبوٹ کی اصل اور حقیقی دنیا میں آمد صرف اب کچھ ہی دیر کی بات ہے۔ حقیقت اس سے کہیں زیادہ مختلف ہے۔ عام طور پر انسان جیسے نظر یا دکھائی دینے والے روبوٹ کے پیچھے کوئی چالاک ترکیب استعمال کی گئی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر کوئی آدمی سائے میں چھپ کر بیٹھا ہوا ہوتا ہے جو مائکروفون کے ذریعہ روبوٹ بن کر بات کر رہا ہوتا ہے بعینہ ایسے جیسے کہ ساحر نے "دی وزرڈ آف اوز " میں کیا تھا۔ سیارہ مریخ پر بھیجی گئی خلائی گاڑیوں میں ہمارے اب تک کے بنائے ہوئے سب سے جدید روبوٹ موجود ہیں لیکن ان کی ذہانت ایک کیڑے سے زیادہ نہیں ہے۔ ایم آئی ٹی کی مشہور زمانہ مصنوعی ذہانت کی تجربہ گاہ میں ، تجرباتی روبوٹوں کو لال بیگ جیسے کرتب دکھانے میں بھی انتہائی مشکل ہوتی ہے۔ جیسے کہ فرنیچر سے بھرے کمرے میں گھومنا ، چھپنے کی جگہوں کو تلاش کرنا اور خطرے کو بھانپنا وغیرہ۔ زمین پر موجود کوئی بھی روبوٹ بچوں کی سادہ سی کہانی کو بھی نہیں سمجھ سکتا۔

٢٠٠١ء :اے ا سپیس او ڈےسی فلم میں یہ غلط طور پر سمجھ لیا گیا کہ ٢٠٠١ء تک ہم سب کے پاس ایچ اے ایل (ہیریسٹیکلی پروگرامڈ الوگرتھم کمپیوٹر ) ہوگا ، ایک سپر –روبوٹ جو خلائی جہاز کو مشتری تک لے جانے کے قابل ہوگا ، وہ عملے سے بات چیت بھی کر سکے گا ، مسائل کو حل کرے گا اور انسانوں جیسا برتاؤ کرے گا۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔

تبصرے

--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
7۔ روبوٹس - حصّہ دوم 
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

منظم طریقہ یا منظم اصول 

کم از کم دو اہم مسائل ایسے ہیں جو سائنس دان عشروں سے بھگت رہے ہیں یہ مسئلے ان کی روبوٹ بنانے کی کوششوں کی راہ میں حائل ہیں :نمونوں کی پہچان اور عقل سلیم یا عقل عامہ۔ روبوٹ ہم سے زیادہ بہتر طور پر دیکھ سکتے ہیں مگر وہ دیکھی ہوئی چیزوں کو سمجھ نہیں سکتے۔روبوٹ ہم سے کہیں بہتر سامع ہوتے ہیں مگر وہ ان سنی ہوئی باتوں کو سمجھ نہیں سکتے۔ ان دونوں جڑواں مسئلوں کو حل کرنے کے لئے محققین نے مصنوعی ذہانت کے لئے منظم اصول کا طریقہ اپنایا (اکثر اس کو ضابطہ پسند مکتبہ فکر یا گوفائی (جی او ایف اے آئی - گڈ اولڈ فیشنڈ اے آئی )۔ ان کا مقصد نمونوں کی پہچان کے تمام اصولوں اور عقل سلیم کو ایک سی ڈی پر لانا ہے۔ ان کے خیال میں اس سی ڈی کو کمپیوٹر میں ڈال کر کمپیوٹر فوراً ذخیرہ شدہ معلومات کی بدولت انسان کے جیسی ذہانت حاصل کر لے گا۔ ١٩٥٠ء اور ١٩٦٠ء کے عشروں میں اس سمت میں کافی پیش رفت ہوئی جس میں روبوٹ شطرنج اور چوسر کھیل سکتے تھے ، الجبرا کے سوال حل کر سکتے تھے ، اینٹوں کو اٹھا سکتے تھے اور اسی طرح کے دوسرے کام بھی کر سکتے تھے۔ اس میدان میں پیشرفت اس قدر شاندار ہو رہی تھی کہ اس بات کی پیش گوئی کردی گئی کہ جلد ہی روبوٹ انسانی ذہانت کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔

مثال کے طور پر ١٩٦٩ء میں اسٹینفرڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں ایک روبوٹ جس کا نام "شیکی " تھا اس نے میڈیا میں سنسنی پھیلائی دی تھی۔ شیکی ایک چھوٹا سا پی ڈی پی کمپیوٹر تھا جس کو پہیوں پر رکھا ہوا تھا اور اس کے اوپر ایک کیمرہ لگا ہوا تھا ، کیمرہ کمرے کا جائزہ لے سکتا تھا اور کمپیوٹر کمرے میں موجود اشیاء کا تجزیہ کرکے ان کو پہچان سکتا تھا اور کمرے میں صحیح طرح سے گھوم پھر سکتا تھا۔ شیکی انسان کی بنائی ہوئی پہلی ایسی میکانکی خود کار چیز تھی جو حقیقی دنیا میں صحیح طور سے کچھ کام کر سکتی تھی اور اسی بات نے صحافیوں کو اس بات کی پیش گوئی کرنے پر مجبور کر دیا تھا کہ جلد ہی روبوٹ انسان کو خاک میں روتا چھوڑ دیں گے۔

مگر اس قسم کے روبوٹ کی خامیاں جلد ہی عیاں ہو گئیں۔ مصنوعی ذہانت میں منظم اصول کے طریقے کو اپناتے ہوئے جو روبوٹ بنائے گئے وہ انتہائی جسیم، بھدے روبوٹ تھے جن کو خصوصی کمرے میں چلنے کے لئے ہی کئی گھنٹے درکار ہوتے تھے اور وہ خصوصی کمرے بھی صرف چند سیدھی چیزوں پر مشتمل ہوتے تھے جیسا کہ مربع اور مثلث۔ اگر کوئی بے ضابطہ شکل کا فرنیچر کمرے میں موجود ہو تو روبوٹ اس کو پہچانے کے قابل ہی نہیں رہتا۔(اس کے برعکس ، ایک پھل مکھی جس کے دماغ میں صرف ڈھائی لاکھ عصباینے موجود ہوتے ہیں اور وہ ان روبوٹ میں استعمال ہونے والی توانائی کے مقابلے میں انتہائی کم توانائی استعمال کرتی ہے ، بغیر کسی پریشانی کے سہ ابعادی طور پر آسانی کے ساتھ گھوم پھر سکتی ہے آنکھیں چندیا دینے والے حلقوں کا سلسلہ بناتی ہے اور یہ بھدے روبوٹ صرف دو جہتوں میں ہی پھنس جاتے ہیں۔

منظم اصول کا طریقہ جلد ہی اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ "اسٹیو گرینڈ"(Steve Grand) جو سائبر لائف انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ہیں وہ فرماتے ہیں کہ "اس طرح کے طریقوں کو ثابت کرنے میں پچاس برس گزر گئے اور وہ اپنے وعدوں کے دعووں میں سچے ثابت نہیں ہو سکے۔" ١٩٦٠ء کے عشرے میں سائنس دانوں نے اس کام کی سنگینی کو پوری طرح سے نہیں سمجھا تھا جس میں روبوٹ کی پروگرامنگ صرف سادہ کام کو ادا کرنے کے لئے کرنی تھی ، جیسا کہ کسی روبوٹ کو اس طرح سے پروگرام کرنا کہ یہ چابی، جوتے اور مگوں کو پہچان سکے۔ ایم آئی ٹی کے "روڈنی بروکس"(Rodney Brooks) کہتے ہیں " چالیس سال پہلے ایم آئی ٹی میں واقع آرٹیفیشل انٹیلی جنس لیبارٹری ایک طالبعلم کو گرمیوں کے موسم میں اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے رکھتے تھے جس میں وہ ناکام ہوتے تھے اور میں بھی ١٩٨١ء میں اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں اس مسئلہ کو حل کرنے میں ناکام رہا۔" حقیقت میں اے آئی کے محققین ابھی تک اس مسئلہ کو حل نہیں کر سکے ہیں۔

مثال کے طور پر جب ہم کسی کمرے میں گھستے ہیں تو ہم فوراً ہی فرش، کرسیوں، میزوں اور اسی طرح سے دوسری چیزوں کو پہچاننے لگتے ہیں مگر جب کوئی روبوٹ کمرے کا جائزہ لیتا ہے تو کمرے میں اسے وسیع سیدھی اور ٹیڑھی لکیروں کا مجموعہ نظر آتا ہے جس کو وہ پکسل میں بدلتا ہے۔ ہمیں میز کو پہچاننے میں شاید ایک سیکنڈ کا کچھ ہی حصّہ لگتا ہے ، مگر کمپیوٹر صرف دائروں، بیضوی ، مرغولے، سیدھی لکیریں ، ٹیڑھی لکیریں، کونے اور اس طرح کی چیزوں کو دیکھتا ہے۔ کافی دیر حساب کتاب کرنے کے بعد شاید کمپیوٹر میز کو پہچان سکے۔ لیکن اگر آپ نے اس میز کو تھوڑا سا گھما دیا تو وہ پھر سے اس کو پہچاننے میں اتنا ہی وقت لگائے گا۔ دوسرے الفاظ میں روبوٹ دیکھ سکتے ہیں بلکہ وہ ہم سے بہتر دیکھ سکتے ہیں مگر وہ اس بات کو نہیں سمجھ سکتے کہ وہ کیا دیکھ رہے ہیں۔ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے شاید ایک روبوٹ کرسی، میز اور لیمپ کو دیکھنے کے بجائے صرف لکیروں اور خمیدہ لکیروں کے بے ہنگم مجموعے کو دیکھے۔ ہمارا دماغ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے غیر شعوری طور پر دسیوں کھرب حسابات لگاتے ہوئے(یہ ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے میں ہم خوش قسمتی سے آگاہ نہیں ہوتے) اشیاء کو پہچان لیتا ہے۔ اس کی وجہ ہمارے دماغ کی ارتقاء کے عمل سے بے خبری ہے۔ فرض کیجئے کہ ہم اکیلے کسی جنگل میں موجود ہوں جہاں ایک خون خوار دانتوں والے شیر بھی موجود ہے تو خطرے کو بھانپ کر وہاں سے فرار کے لئے دماغ کے ضروری حساب کتاب کے عمل کو جان کر ہی ہم مفلوج ہو جائیں گے۔ زندہ رہنے کے لئے صرف ہمیں اتنا جاننا کافی ہے کہ اس صورتحال سے نکلنے کے لئے کیسے بھاگا جائے۔ جنگل میں رہتے ہوئے دماغ میں جانے اور آنے والی ان تمام چیزوں سے باخبر رہنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی جو ہمیں میدان ، آسمان ، درخت ، چٹانیں اور اسی طرح کی دوسری چیزوں کو پہچاننے کے لئے ضروری ہیں۔

با الفاظ دیگر ہمارے دماغ کے کام کرنے کے طریقے کو ایک جسیم برف کے تودے سے تشبیہی دی جا سکتی ہے۔ ہم صرف تودے کی چوٹی یعنی کہ شعور کے بارے میں ہی جانتے ہیں۔ لیکن اس کے نیچے گھات لگائے بیٹھے نظروں سے اوجھل ایک بڑا حصّہ جس کو ہم لاشعور کہتے ہیں موجود ہے۔ یہ دماغ میں جلنے والی توانائی کا بڑا حصّہ ان سادہ باتوں کو سمجھنے میں کھا جاتا ہے جو اس کے اس پاس موجود ہوتی ہیں جیسا کہ اس بات کو سمجھنا کہ آپ کہاں بیٹھے ہیں ، آپ کس سے بات کر رہے ہیں اور آپ کے ارد گرد کیا چیز رکھی ہوئی ہے۔ یہ سب چیزیں ہماری اجازت یا ہماری آگاہی کے بغیر ہی ہو جاتا ہے۔

یہ ہی وہ بات ہی جس کی وجہ سے روبوٹ کمرے میں چل پھر نہیں سکتے ، ہاتھ کی لکھائی نہیں پڑھ سکتے، ٹرک اور کار نہیں چلا سکتے ، کوڑا نہیں اٹھا سکتے اور اسی طرح کی دوسری چیزیں نہیں کر سکتے۔ یو ایس فوج نے سینکڑوں لاکھوں ڈالر اس بات کی کوشش میں خرچ کر دیئے کہ کسی طرح سے میکانکی فوجی اور ذہین ٹرک بنا لیں مگر ابھی تک کامیاب نہیں ہوئے۔

سائنس دان اس بات کو سمجھنا شروع ہو گئے ہیں کہ شطرنج کھیلنے میں یا بڑے اعداد کو ضرب دینے میں صرف تھوڑی سی انسانی ذہانت استعمال ہوتی ہے۔١٩٩٧ء میں جب آئی بی ایم کے کمپیوٹر ڈیپ بلیو نے شطرنج کے عالمگیر چیمپئن گیری کیسپاروف کو ٦ بساطوں میں ایک مقابلے میں ہرایا تو یہ کمپیوٹر کی طاقت کی فتح تھی ، ہرچند اس کھیل کے نتیجے نے اخباروں کی شہ سرخیوں میں کافی جگہ بنائی لیکن اس تجربے نے ہمیں ذہانت یا شعور کے بارے میں کوئی آگاہی نہیں دی ۔ انڈیانا یونیورسٹی کے "ڈوگلس ہوف اسٹیٹر"(Douglas Hofstadter) جو ایک کمپیوٹر کے سائنس دان ہیں کہتے ہیں "یا اللہ ، میں تو ہمیشہ یہ سمجھتا تھا کہ شطرنج کھیلنے کے لئے ذہانت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اب مجھے پتا چلا کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ بات نہیں تھی کہ کیسپاروف کوئی گہری سوچ کا حامل انسان نہیں تھا جس طرح سے شطرنج کو گہری سوچ کے عمل کے بغیر کھیلا جا سکتا ہے ، یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی اپنے بازوں کو ہلائے بغیر اڑے۔"

(کمپیوٹر کے میدان میں ہونے والی پیش رفت کی وجہ سے روزگار کی دنیا پر زبردست اثر پڑے گا۔ مستقبلی اکثر اوقات یہ خیال پیش کرتے ہیں کہ آنے والے عشروں میں صرف ان لوگوں کے پاس ہی روزگار حاصل کرنے کے مواقع موجود ہوں گے جو انتہائی بلند درجے کے کمپیوٹر کی صلاحیتوں کے حامل سائنس دان اور کمپیوٹر کے میدان کے ماہر فنیات ہوں گے۔ لیکن صحت گار ،تعمیراتی مزدور، آگ بجھانے والے ، پولیس، اور اسی طرح کے دوسری قسم کے کام کرنے والے لوگوں کے روزگار کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا کیونکہ یہ جو کام کرتے ہیں اس میں نمونوں کو پہچاننا ہوتا ہے۔ ہر جرم ، کوڑے کا ہر حصّہ ، اوزار اور آگ کے نمونے مختلف ہوتے ہیں لہٰذا ان کا انتظام روبوٹ کے ذریعہ سے نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری طرح کالج سے نکلے ہوئے طالبعلم ، جیسے کہ نچلے درجے کے منیب یا منشی (اکاؤنٹنٹ)، دلال، اور خزانچی(کیشیئر) ہو سکتا ہے کہ اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں کیونکہ ان کا کام نیم تکراری ہوتا ہے جس میں اعداد پر نظر رکھنی ہوتی ہے اور یہ ایک ایسا کام ہے جو کمپیوٹر بہت اچھے سے کر لیتے ہیں۔)

نمونوں کو پہچانے کے علاوہ ایک دوسرا مسئلہ جو روبوٹوں کو مزید بہتر بنانے کی راہ میں حائل ہے اور وہ زیادہ بنیادی مسئلہ ہے وہ فہم عامہ کی کمی کا ہے۔ مثال کے طور پر انسانوں کو یہ بات معلوم ہے :

· پانی تر ہوتا ہے۔

· مائیں اپنی بیٹیوں سے بڑی ہوتی ہیں۔

· جانوروں کو درد ہوتا ہے۔

· مرنے کے بعد کوئی واپس نہیں آ سکتا۔

· تسموں کو کھینچا جاتا ہے دھکیلا نہیں جاتا۔

· تیلی کو نکالا جاتا ہے دھکیلا نہیں جاتا۔

· وقت پیچھے نہیں جاتا۔

لیکن علم الا حصا ء یا ریاضی کی کوئی ایسی حد نہیں ہے جو ان سچائیوں کو بیان کر سکے۔ ہم یہ بات اس لئے جانتے ہیں کہ ہم نے جانوروں ، پانی، دھاگے کو دیکھا ہوا ہے اور ہم ان کی سچائی کو خود سے تلاش کر سکتے ہیں۔ بچے عقل سلیم کو حقیقت کا سامنا کر کے سیکھتے ہیں۔ قوانین حیاتیات اور طبیعیات کی بصیرت سخت محنت کے بعد حقیقی دنیا سے واسطہ ہموار کرنے کے بعد حاصل کی جاتی ہے۔ مگر روبوٹوں کو اس قسم کے تجربات میسر نہیں ہوتے۔ وہ صرف اتنا ہی جانتے ہیں جتنا ان کے پروگرام میں پہلے سے موجود ہوتا ہے۔

(مستقل کے وہ روزگار جس میں عقل عامہ کا عمل دخل ہوگا وہ بھی انسانوں کے لئے میسر ہوں گی جیسے کہ ، فن تخلیق کاری، ایجادیت ، فن کاری ، مزاح نگاری، تفریح باز ، تجزیہ نگاری اور رہنما۔ صحیح معنوں میں یہ وہ صلاحیتیں ہیں جو ہمیں دوسری چیزوں سے مختلف کر کے انسان بناتی ہیں اور ان چیزوں کی نقل کرنے میں کمپیوٹر کو مشکل پیش آتی ہے۔)

ماضی میں ریاضی دانوں نے ایک گرج دار پروگرام بنانے کی کوشش کی جس میں عقل سلیم کے تمام قوانین ڈال دیئے تاکہ ایک دفعہ میں ہی اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرکے قصّے کو تمام کیا جائے۔ اس بارے میں سب سے حوصلہ مند جرات ایک پروگرام سی وائے سی (جو انسائیکلوپیڈیا[دائرۃ المعارف ] کا مختصر ہے ) ہےجو سائیکورپ کے بانی" ڈوگلس لینٹ"(Douglas Lenat) کی کاوش ہے۔ مین ہٹن کے گرج دار پروجیکٹ کی طرح جس میں ٢ ارب ڈالر کی لاگت سے جوہری بم بنایا گیا تھا ، سی وائے سی بھی مصنوعی ذہانت کا "مین ہٹن منصوبے " جیسا ہی تھا ، یہ آخری کوشش کی طرح سے تھا تا کہ حقیقی معنوں میں مصنوعی ذہانت کو حاصل کیا جا سکے۔

یہ کوئی زیادہ حیرت کی بات نہیں تھی کہ لینٹ کا نعرہ تھا "ذہانت دس لاکھ اصولوں کا نام ہے "(لینٹ نے ایک بالکل نیا طریقہ نکالا جس کے تحت عقل سلیم کے نئے قانون تلاش کئے گئے؛ اس کے پاس اسٹاف موجود تھا جو اہانت آمیز تخصیص شدہ صفحات اور پژمردہ صفحات کو پڑھتے تھے۔ پھر یہ سی وائے سی سے پوچھتے تھے کہ وہ ان میں سے اغلاط کی نشاندہی کرے۔ اگر اس طرح سے لینٹ کی کامیابی مل گئی تو سی وائے سی زیادہ تر دوسرے ٹیبلوائیڈ ریڈرز سے زیادہ سمجھدار ہوگا!)

سی وائے سی کا ایک مقصد کسی طرح سے اس چیز کا حصول ہے جس میں ایک روبوٹ اتنی سمجھ بوجھ حاصل کر لے کہ وہ خود سے کسی بھی لائبریری میں موجود کتابوں اور رسالوں کو پڑھ کر نئی اطلاعات حاصل کر کے ان کو سمجھ سکے۔ اس جگہ پر پہنچ کر سی وائے سی ایک اس ننھے سے پرندے کی طرح ہو جائے گا جو اپنا گھونسلا چھوڑ کر اڑنے کی تیاری کر رہا ہو یعنی خود سے چلنے کے لئے تیار۔

مگر اس شراکت داری کے ١٩٨٤ء میں بننے سے لے کر اب تک ، اس کی ساکھ کو ایک عام مسئلہ کی وجہ سے بہت نقصان پہنچا ہے : ان چیزوں کی پیش گوئی کرنا جس سے شہ سرخیاں تو بن سکتی ہیں لیکن وہ حقیقت سے نہایت دور ہوتی ہیں۔ لینٹ نے اس بات کی طرف پیش گوئی کی ہے کہ ١٠ سال میں ١٩٩٤ء تک سی وائے سی میں ٣٠ سے لے کر ٥٠ فیصد تک حقیقت سے ہم آہنگ چیزیں موجود ہوں گی۔ آج بھی سی وائے سی کو بند نہیں کیا گیا۔ سی وائے سی میں موجود سائنس دانوں نے اس بات کا اندازہ لگا لیا ہے کہ کمپیوٹر کو ایک چار سالہ بچے کے جتنا فہم عامہ سکھانے کے لئے کروڑوں پروگرامنگ سطریں لکھنی پڑیں گی۔ ابھی تک سی وائے سی پروگرام میں صرف ٤٧ ہزار تصوّرات اور ٣٠٦ ہزار حقائق موجود ہیں۔ سائیکورپ کے باقاعدہ رجائیت پسندانہ پریس ریلیز نکلنے کے باوجود لینٹ کے ایک ساتھی "آر وی گو ہا"(R(R.V Guha) جنہوں نے ٹیم کو ١٩٩٤ء میں چھوڑ دیا تھا کہتے ہیں "سی وائے سی عام طور سے ایک ناکام منصوبے کے طور پر دیکھا جاتا ہے ہم اپنے آپ کو ایک ایسی چیز کے سائے کو بنانے کے لئے ہلکان کر رہے ہیں جس کو بنانے کا ہم نے وعدہ کیا تھا۔ "

دوسرے الفاظ میں عقل سلیم کے تمام قوانین کو ایک کمپیوٹر میں پروگرام کرنا انتہائی دشوار ہے کیونکہ عقل سلیم کے قوانین بے انتہاء ہیں۔ انسان اس کو بغیر کسی مشکل کے سیکھ لیتے ہیں کیونکہ پوری زندگی ان کا واسطہ روز مرہ کی چیزوں سے پڑتا رہتا ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ بغیر کسی مشکل کے خاموشی کے ساتھ طبیعیات اور حیاتیات کے قوانین کو جان لیتے ہیں مگر روبوٹ ایسا نہیں کر سکتے۔

مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس اس بات کو تسلیم کرتے ہیں ،" یہ کام ان اندازوں سے کہیں زیادہ مشکل ثابت ہو رہا ہے جس میں ہم امید کر رہے تھے کہ کمپیوٹر اور روبوٹ اپنے ارد گرد کے ماحول کا احساس کرنے لگیں گے اور تیز رفتاری کے ساتھ ٹھیک طرح سے جواب دیں گے۔۔۔۔مثال کے طور پر ، کمرے میں رکھی ہوئی کسی چیز کے مقابلے میں اپنی جگہ کو جاننا ، کسی آواز پر دھیان دیتے ہوئے تقریر کو سمجھنا ، اور مختلف حجم، بناوٹ اور نازک چیزوں کو پکڑنا۔ کوئی انتہائی سادہ بات جیسے کہ کھلے ہوئے دروازے اور کھڑکی میں فرق بتانا کسی روبوٹ کے لئے انتہائی دشوار ہوگا۔"

ذہانت کے منظم طریقے کے حمایتیوں کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اس سمت میں پیش رفت دنیا بھر کی تجربہ گاہوں میں اگرچہ کبھی کبھار منجمد لگتی ہے بہرحال کچھوے کی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے۔ مثال کے طور پر پچھلے چند سالوں میں تازہ ترین اختراعی ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے والی ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹس ایجنسی (دار پا ) نے ایک ٢٠ لاکھ ڈالر کا انعام اس منصوبے کے لئے رکھا ہے جس میں ڈرائیور کے بغیر گاڑی خود کار طریقے سے سنگلاخ زمین پر صحرائے موجاؤ میں چلائی جا سکے۔ ٢٠٠٤ء میں ریس میں حصّہ لینے والا کوئی ایک بھی امیدوار اس چیلنج کو پار نہیں کر سکا۔ سب سے بہتر کار بھی صرف ٧۔٤ میل کے فاصلہ طے کرنے کے بعد ٹوٹ گئی تھی۔ مگر ٢٠٠٥ء میں سٹینفرڈ ریسنگ ٹیم کی بغیر ڈرائیور کی کار نے کامیابی کے ساتھ ١٣٢ میل پر مشتمل صبر آزما راستہ طے کر لیا۔(اگرچہ کار نے یہ راستہ ٧ گھنٹے میں جا کر طے کیا)۔ چار دوسری اور کاروں نے بھی ریس کو مکمل کیا۔ (کچھ ناقدین نے کھیل کے قوانین میں لمبے سنسان راستے میں جی پی ایس کو استعمال کرنے کی اجازت کی جانب بھی اشارہ کیا ، حقیقت میں کاریں پہلے سے طے کیے ہوئے نقشے قدم اور زیادہ رکاوٹوں کے بغیر والے راستے پر بھی چل سکتی تھیں لہٰذا اس میں کار کو کبھی بھی اپنے راستے میں پیچیدہ رکاوٹوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ حقیقت کی دنیا میں کاروں کو اپنے گرد دوسری کاروں، راہ گیروں ، عمارتوں ، ٹریفک جام اور اس طرح کی دوسری کئی غیر متوقع راستے میں آنے والی چیزوں سے نمٹنا ہوگا۔)

بل گیٹس کافی محتاط پسند رہتے ہوئے پرامید بھی ہیں کہ اگلی دھماکے دار چیز روبوٹک مشینیں ہی ہوں گی۔ وہ پرسنل کمپیوٹر میں روبوٹک میدان کے استعمال کو کافی پسند کرتے ہیں۔ پرسنل کمپیوٹر کے استعمال کو انہوں نے ٣٠ سال پہلے شروع کرنے میں مدد کی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ پی سی کی طرح اس کو بھی لوگ ہاتھوں ہاتھ لیں۔" کوئی بھی یقینی طور پر یہ نہیں کہ سکتا کہ ایسا کب ہوگا - یا پھر یہ صنعت حد فاصل کو پار بھی کر سکے گی کہ نہیں۔" وہ مزید لکھتے ہیں کہ "اگر ایسا ہوا تو شاید یہ دنیا کو بدل دے گی۔"

(ایک دفعہ انسانی ذہانت کے حامل روبوٹ تجارتی پیمانے پر ملنے لگیں تو ان کی زبردست مانگ پیدا ہو جائے گی۔ اگرچہ کھرے روبوٹ آج موجود نہیں ہیں ، مگر پہلے سے پری پروگرامڈ روبوٹ موجود ہیں جو کافی ثمر آور ثابت ہو رہے ہیں۔ انٹرنیشنل فیڈریشن آف روبوٹکس کے تخمینا جات کے مطابق ٢٠٠٤ء میں ٢٠ لاکھ کے قریب پرسنل روبوٹ موجود ہیں اور مزید ٧٠ لاکھ ٢٠٠٨ء تک استعمال میں آئیں گے۔ جیپنیز روبوٹ ایسوسی ایشن نے اندازہ لگایا ہے کہ ٢٠٢٥ء تک ذاتی روبوٹ کی صنعت جس کی قدر آج ٥ ارب ڈالر کی ہے وہ ٥٠ ارب ڈالر سالانہ کی ہو جائے گی۔)

جاری ہے ۔۔۔۔۔

 
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
7۔ روبوٹس - حصّہ سوم
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
اوندھا طریقہ 

منظم طریقے کی مصنوعی ذہانت کی محدودیت کی وجہ سے اوندھے طریقے کی کوششیں شروع کر دی گئیں یعنی ارتقائی نقل اس طرح سے کی جائے جیسا کہ بچہ سیکھتا ہے۔ مثال کے طور پر کیڑے مکوڑے اپنے ماحول کا تبزیہ کرنے کے بعد نہیں چلتے پھرتے لہٰذا اس طرح سے کھرب ہا کھرب پکسل پر مشتمل تصاویر کی عمل کاری سپر کمپیوٹر کے ذریعہ کرنے کی بچت ہوگی۔ کیڑے کا دماغ عصبانی جال پر مشتمل ہوتا ہے جو سیکھنے کی ایسی مشین ہوتی ہیں جو آہستہ آہستہ نا موافق ماحول میں گھس کر اس میں چلنا پھرنا سیکھ لیتی ہیں۔ ایم آئی ٹی میں چلنے والے روبوٹ منظم طریقے کے ذریعہ بنانے انتہائی مشکل تھے لیکن سادے کیڑوں جیسی میکانکی مخلوق جو سیدھا میدان میں اترے اور ابتداء سے سیکھنے کا عمل شروع کرے ؛ کامیابی کے ساتھ ایم آئی ٹی کے فرش پر چند منٹوں میں تیزی سے دوڑ سکتی ہیں۔

ایم آئی ٹی کی مشہور زمانہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس لیبارٹری کے ڈائریکٹر روڈنی بروکس اپنے جسیم اور بھدے منظم طریقے سے بنے چلنے والے روبوٹوں کے لئے مشہور ہیں وہ اس وقت اپنی اس منظم طریقے سے منحرف ہو گئے جب انہوں نے چھوٹے کیڑے نما روبوٹوں کے خیال کو جانا جو چلنے کے طریقوں کو لڑکھڑا کر اور چیزوں سے ٹکرا کر سیکھ رہے تھے۔ چلتے وقت اپنے قدموں کے درست نشانوں کو بڑے بڑے کمپیوٹر پروگراموں کا استعمال کرتے معلوم کرنے کے بجائے ، اس کے کیڑے نما روبوٹوں نے سعی و خطا کا طریقہ استعمال کرتے ہوئے اپنے پیروں کی حرکت کو کمپیوٹر کی نہایت ہی قلیل توانائی کو خرچ کرتے ہوئے معلوم کرنا سیکھ لیا ہے۔ آج بروکس کی نسل کے کئی کیڑے نما روبوٹ مریخ کی سنسان سطح پر اپنے دماغ کے بھروسے پر چہل قدمی کرتے ہوئے ناسا کے لئے ڈیٹا جمع کر رہے ہیں۔ بروکس کو یقین ہے کہ اس کے کیڑے نما روبوٹ نظام شمسی کو کھوجنے کے لئے بہت زیادہ مناسب ہیں۔

بروکس کے ایک منصوبے کا نام " کوگ" ہے جس کا مقصد ایک ایسے میکانکی روبوٹ کو بنانا ہے جس میں چھ مہینے کے بچے کی ذہانت موجود ہو۔ باہر سے دیکھنے پر کوگ تاروں کا گچھا ، سرکٹ ، گراریوں کا بے ہنگم مجموعہ نظر آتا ہے ہرچند اس کا سر ، آنکھیں اور بازو بھی ہیں۔ کسی بھی قسم کا کوئی بھی ذہانت کا پروگرام اس میں نہیں ڈالا گیا ہے ،اس کو بنایا ہی ایسا گیا ہے کہ یہ اپنی آنکھ انسانی تربیت کار پر مرکوز رکھے جو اس کو سادہ چیزیں سکھانے کی کوشش کرتا ہے۔(محققین میں سے ایک حاملہ ہو گئیں تھیں انہوں نے یہ شرط لگائی کہ ان کا بچہ دو سالہ ہونے تک زیادہ سیکھے گا یا پھر کوگ۔ بچے نے سیکھنے میں کوگ کو کافی پیچھے چھوڑ دیا۔)

کیڑوں کی نقل کرنے میں کامیابی حاصل کرکے ، عصبی جالوں کے ذریعہ بنانے والے روبوٹ کے پروگرام فقاری جانداروں کی نقل کرتے ہوئے بری طرح ناکامی سے دو چار ہو گئے۔ سب سے جدید روبوٹ عصبی جالوں کا استعمال کرتے ہوئے ایک کمرے میں چہل قدمی اور پانی میں تیر بھی سکتا ہے لیکن نہ تو وہ چھلانگ لگا سکتا ہے اور نہ ہی وہ کتے کی طرح جنگل میں شکار کر سکتا ہے ، اور نہ ہی کسی بلی کے گرد خراماں خراماں پھر سکتا ہے۔ بڑے عصبی جالوں والے روبوٹوں میں شاید ١٠ عصبیوں سے لے کر سینکڑوں عصبی ہو سکتے ہیں ، لیکن انسانی دماغ میں ایک کھرب سے بھی زیادہ عصبانیے ہوتے ہیں۔ سی ایلیگنس ایک بہت ہی سادہ سا کیڑا ہے جس کے اعصابی نظام کی مکمل نقشہ سازی ماہرین حیاتیات کر چکے ہیں اس کے اعصابی نظام میں صرف ٣٠٠ عصبانیے ہیں جس کی وجہ سے شاید یہ قدرتی طور پر پایا جانے والے سب سے سادہ اعصابی نظام رکھنے والا جاندار بن گیا ہے۔ اس کے باوجود ان عصبانیوں کے درمیان ٧ ہزار اتصالی رابطے موجود ہیں۔ سی ایلیگنس جیسے سادے دماغی عصبانی نظام کو بھی ابھی تک کسی کمپیوٹر پر نہیں بنا یا جا سکا ہے۔(١٩٨٨ء میں ایک کمپیوٹر کے ماہر نے اندازہ لگایا تھا کہ ٢٠٠٤ء تک ہمارے پاس ایسے روبوٹ موجود ہوں گے جن میں ١٠ کروڑ مصنوعی عصبانیے ہوں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی ١٠٠ عصبانیوں والے روبوٹوں کو بہت ہی خاص سمجھا جاتا ہے۔)

قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ مشینیں وہ کام بغیر کسی مشکل کے کر لیتی ہیں جو کام انسان کے لئے کافی مشکل ہوتا ہے مثلاً بڑے اعداد کا حاصل ضرب حاصل کرنا، شطرنج کو کھیلنا وغیرہ لیکن مشینیں اس وقت جواب دے جاتی ہیں جب ان سے کوئی ایسا کام کرنے کو کہا جائے جو انسانوں کے لئے انتہائی سادہ ہو جیسے کمرے میں چلنا ، چہروں کو پہچاننا یا دوستوں سے گپیں لگانا وغیرہ۔ اس کی وجہ یہ کہ ہمارے سب سے جدید کمپیوٹر بھی بس اعداد کو جوڑنے کی مشین ہی ہیں۔ ہمارا دماغ بہرحال انتہائی نازکی کے ساتھ زندہ رہنے اور روز مرہ کی مشکلات سے نمٹنے کے لئے بنا ہے۔ اس کام کے لئے انتہائی پیچیدہ خیالات جیسے کہ نمونوں کی پہچان یا عقل سلیم کی بناوٹ کی ضرورت ہے ۔ جنگل میں زندہ رہنے کے لئے حساب کتاب یا شطرنج کھیلنے کے بجائے شکاریوں سے اپنا بچاؤ کرنے ، جیون ساتھی تلاش کرنے اور ماحول کے ساتھ مطابقت کی ضرورت پڑتی تھی۔

ایم آئی ٹی کے "مارون منسکی"(Marvin Minsky) جو مصنوعی ذہانت کے بانیوں میں سے ایک ہیں مصنوعی ذہانت کی مشکل کا خلاصہ یوں بیان کرتے ہیں " مصنوعی ذہانت کی تاریخ کافی مضحکہ خیز ہے کیونکہ پہلی اصل کامیابی کافی خوبصورت چیزیں تھیں ، جیسے کہ ایک مشین جو منطقی مسئلوں یا علم الاحصاء کے کسی مسئلہ کا اچھا سا حل نکال دیتی تھی لیکن اس کے بعد ہم نے اس بات کی کوشش کی کہ مشینیں ان کہانیوں کے بارے میں بتا سکیں جو پہلی جماعت کے طالبعلموں کی پڑھنے والی کتابوں میں موجود ہیں۔ لیکن آج تک تو کوئی ایسی مشین موجود نہیں ہے جو اس طرح کا کام کر سکے۔"

کچھ لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ منظم اور اوندھے طریقے سے مل کر ایک شاندار طریقے بن جائے جو انسان نما روبوٹ اور مصنوعی ذہانت کے لئے ایک کنجی کی حیثیت اختیار کر لے۔ بچہ جب سیکھتا ہے تو وہ اوندھے طریقے کا ہی استعمال کرتے ہوئے اپنے ارد گرد کے ماحول میں گھل مل جاتا ہے ، آخر میں اس کو اپنے والدین ، معلموں اور کتابوں سے ہدایات منظم طریقے سے ہی ملتی ہیں۔ ایک بالغ کے طور پر ہم ان دونوں طریقوں کو ملا کر ہی سیکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک باورچی کھانے کی ترکیب کتاب سے دیکھ کر تو کھانا بناتا ہے لیکن ساتھ ساتھ اس کو چکھتا بھی رہتا ہے۔

"ہنس موراویک"(Hans Moravec) کہتے ہیں " مکمل ذہین مشینوں کا نتیجہ دونوں کوششوں کو ملانے کے بعد بنائے جانے والے سنہرے میکانکی آلات بن جانے کے بعد نکل سکتا ہے۔" شاید یہ کام آنے والے اگلے ٤٠ برسوں میں ہو سکے گا۔

جذباتی روبوٹ ؟

فن و ادب میں جو ایک چیز تسلسل کے ساتھ ملتی ہے وہ ان میکانکی ہستیوں کی انسان بننے کی آرزو ہوتی ہے ، تا کہ وہ انسانوں جیسے جذبات کے حامل ہو سکیں۔ وہ تاروں اور ٹھنڈے اسٹیل کے ساتھ ساتھ ہنسنے، رونے اور ان تمام خوش گوار احساسات کو محسوس کرنے کی خواہش رکھتے ہیں جو ایک انسان میں موجود ہوتی ہے۔

مثال کے طور پنوکیو ایک ایسا پتلا ہوتا ہے جو ایک عام سا لڑکا بننا چاہتا ہے۔ دی وزرڈ آف اوز میں ٹن مین یہ خواہش رکھتا ہے کہ اس کے پاس بھی ایک دل ہو۔ اور اسٹار ٹریک کا ڈیٹا ایک ایسا روبوٹ ہوتا ہے جو طاقت و ذہانت کے ہر معاملے میں انسانوں کی پچھاڑ دینے کے باوجود بھی انسان بننے کی آرزو رکھتا ہے۔ 

کچھ لوگوں کے خیال میں ہمارے جذبات ہی انسان ہونے کی اعلیٰ خصوصیت کے عکاس ہوتے ہیں۔ شاید کبھی بھی کوئی مشین ڈوبتے سورج کے نظارے کا لطف نہیں اٹھا سکے گی یا کسی مذاق کی بات پر قہقہہ لگا سکے گی۔ کچھ لوگ یہ بات بھی کہتے ہیں کہ کسی مشین میں جذبات کا ہونا ایک انتہائی ناممکن بات ہے کیونکہ جذبات ہی انسانی نشو نما کی معراج ہیں۔ لیکن وہ سائنس دان جو مصنوعی ذہانت پر کام کر رہے ہیں اور اس بات کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح سے جذبات کے پیدا کرنے کے طریقوں کو کھوج کر ایک دوسری طرح کی تصویر پیش کر سکیں۔ ان کے مطابق جذبات کا انسانیت کی روح سے دور دور تک کا واسطہ نہیں ہے ہاں البتہ اس کا تعلق ارتقائی عمل سے ضرور ہے۔ سادے الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ جذبات انسانوں کے لئے اچھی چیز ہیں۔ وہ ہمیں جنگل میں زندہ رہنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں یہاں تک کہ وہ آج کے دور میں زندگی کے خطرات سے نبرد آزما ہونے کے لئے بھی مدد کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر ارتقائی عمل کے لئے پسند کرنے کا عمل بہت ہی اہم ہے کیونکہ زیادہ تر چیزیں ہمارے لئے نقصان دہ ہوتی ہیں۔ جن لاکھوں چیزوں سے ہمارا روزانہ واسطہ پڑتا ہے اس میں سے صرف چند ہی ہمارے فائدے کی چیزیں ہوتی ہیں۔ لہٰذاکسی چیز کو پسند کرنے کا مطلب ہے کہ ہم ان لاکھوں نقصان پہچانے والی چیزوں میں سے کچھ ان چیزوں کو چن لیں جو ہمارے لئے فائدہ مند ہیں اور اس کے لئے اپنی پسند اور ناپسند کی چیزوں کے درمیان موجود فرق کو واضح کر لیں۔

اسی طرح سے حسد کرنے کا عمل ایک انتہائی اہم جذبہ ہے۔ کیونکہ نسل کو آگے بڑھانا ہمارے لئے اس لئے انتہائی ضروری ہے کہ ہم اپنی اگلی نسل تک اپنے جین کو ساتھ خیریت کے منتقل کر دیں۔(یہی وجہ ہے کہ محبت اور جنسی عمل کے نتیجے میں جذبات اتنے ہیجان انگیز ہو جاتے ہیں۔)

ندامت و پشیمانی اس لئے انتہائی ضروری ہیں کہ وہ ہمیں معاشرتی سلیقہ سکھاتے ہیں تا کہ ہم ایک امداد باہمی کے تحت موجود سماج میں صحیح طریقے سے رہ سکیں۔ غلطی کرنے کے بعد اگر ہم کبھی شرمندگی کا اظہار نہ کریں تو ہمیں اپنے قبیلے سے نکال باہر کیا جائے گا جس کے نتیجے میں ہمارا وجود اور اپنی نئی نسل کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔

تنہائی کا احساس بھی ایک اہم جذبہ ہے۔ شروع میں تو تنہائی ایک فضول اور غیر ضروری جذبہ لگتا ہے کیونکہ ہم اکیلے بھی رہ سکتے ہیں۔ مگر اپنے ساتھیوں کے ساتھ رہنا ہمارے اپنے وجود کی بقاء کے لئے انتہائی ضروری ہے کیونکہ ہم سماج کے مشترکہ وسائل پر انحصار کرتے ہیں۔

دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہ سکتے ہیں کہ جب روبوٹ زیادہ جدت طراز ہو جائیں گے تو ان میں بھی شاید جذبات موجود ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ روبوٹ کو اپنے مالک کے ساتھ جوڑ کر پروگرام کر دیا جائے تا کہ اس کو کچرے کے ڈبے میں پھینکے جانے کے خطرے سے بچایا جا سکے۔ اس طرح کے جذبات روبوٹوں کو سماج کے ساتھ بہتر طور پر گھلنے ملنے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں وہ اپنے مالک کا دشمن بننے کے بجائے ایک اچھا رفیق بن سکتا ہے۔

کمپیوٹر کے ماہر ہنس موراویک اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ روبوٹوں کو خوف جیسے جذبوں کے ساتھ پروگرام کیا جا سکتا ہے تا کہ وہ اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکیں۔ مثال کے طور پر اگر روبوٹ کی بیٹریاں ختم ہو رہی ہوں تو روبوٹ پریشانی یا بلکہ خوف کا اظہار اس طرح سے کر سکے کہ انسان اس کی بات کو آسانی کے ساتھ سمجھ سکیں۔ وہ کسی پڑوسی کے پاس جا کر بھی چارج ہونے کی درخواست کچھ اس طرح سے کر سکتا ہے " مہربانی فرمائیں ! مجھے چارج ہونے کی سخت ضرورت ہے اور یہ میرے لئے انتہائی اہم ہے ، اس پر آنے والی لاگت انتہائی معمولی سی ہوگی اور ہم آپ کو بعد میں اس کی ادائیگی بھی کر دیں گے!"

جذبات فیصلہ کرنے میں بھی انتہائی اہم ہوتے ہیں۔ کچھ مخصوص دماغی بیماریوں کے مریض جذبات کو محسوس کرنے سے عاری ہوتے ہیں۔ ان کے استدلال کی قابلیت تو موجود رہتی ہے لیکن وہ کسی قسم کے جذبات کا اظہار نہیں کر سکتے۔یونیورسٹی آف آئیووا کالج آف میڈیسن کے عصبیات دان ڈاکٹر "انٹونیو ڈیمیسیو"(Antonia Damasio) جنہوں نے اس قسم کے دماغی عارضے کے لاحق مریضوں پر تحقیق کی ہوئی ہے۔ وہ یہ نتیجہ اخذ کر پائے ہیں کہ " وہ مریض جانتے تو ہیں لیکن اس کا احساس نہیں کرتے "۔

ڈاکٹر ڈیمیسیو سمجھتے ہیں کہ ایسے فرد اکثر چھوٹے چھوٹے فیصلے کرنے میں بھی مفلوج ہو جاتے ہیں۔ ان کی رہنمائی کرنے والے مخصوص جذبوں کی غیر موجودگی کی وجہ سے وہ ایک نا ختم ہونے والے بحث میں الجھے رہتے ہیں جس سے عملاً وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پاتے۔ ڈاکٹر ڈیمیسیو کے ایک مریض نے صرف آدھا گھنٹہ اگلی ملاقات کو طے کرنے کے فیصلے کے لئے لے لیا تھا۔

سائنس دانوں کو یقین ہے کہ جذبات دماغ کے اس حصّے میں پیدا ہوتے ہیں جس کا نام " محیطی نظام "(Limbic System)ہے جو ہمارے دماغ کے مرکز میں موجود ہوتا ہے۔ جب لوگ اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں جس میں نیو کورٹیکس (جو استدلالی سوچ کے دائرہ کار کا نگران ہوتا ہے ) اور محیطی نظام میں رابطے کا فقدان پیدا ہو جاتا ہے۔ مریضوں کی استدلالی قوّت تو اپنی جگہ موجود رہتی ہے لیکن ان کے پاس کسی فیصلے تک رہنمائی کرنے والے جذبات موجود نہیں ہوتے۔ کبھی ہمارا وجدان اور کبھی جبلت ہمیں فیصلہ لینے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ان لوگوں کو جن کے دماغ میں یہ مسئلہ ہوتا ہے ان کے استدلالی دماغی حصّے اور محیطی نظام کے درمیان رابطے کا فقدان پیدا ہو جاتا ہے ان میں یہ جبلی یا الہامی فیصلے لینے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔

مثال کے طور پر جب ہم خریداری کے لئے جاتے ہیں تو ہم لاشعوری طور پر ہزار ہا فیصلے تقریباً ہر اس چیز کے لئے لیتے ہیں جو ہم دیکھتے ہیں۔ جیسا کہ "یہ بہت مہنگا ہے ، بہت سستا ہے ، کافی رنگین ہے ،انتہائی بیوقوفانہ ہے یا بس ٹھیک ہی ہے۔" اس قسم کی دماغی بیماریوں کے شکار لوگوں کے لئے خریداری ایک انتہائی ڈراؤنے خواب کی طرح ہوتا ہے کیونکہ انھیں ہر چیز ایک ہی قدر کی دکھائی دیتی ہے۔

بڑھتی ہوئی ذہانت اور پسند نا پسند کے اختیار کے ساتھ روبوٹ بھی اسی طرح سے فیصلے کرنے میں مفلوج ہو جائیں گے۔ یہ گدھے کی اس اخلاقی حکایت کے جیسا ہی ہوگا جس میں ایک گدھا دو گھاس کے گھٹوں کے درمیان میں بیٹھا ہوتا ہے اور اس سے یہ فیصلہ نہیں ہو پا رہا ہوتا ہے کہ کونسے گھٹے میں سے گھاس کھائے جس کے نتیجے میں آخر کار وہ بھوک سے مارا جاتا ہے۔) اس بات سے نمٹنے کے لئے مستقبل کے روبوٹوں کے دماغوں میں جذبات کو بھی انڈیلنا ہوگا۔ روبوٹوں میں جذبات کے فقدان کے اوپر تبصرہ کرتے ہوئے ایم آئی ٹی میڈیا لیب کے ڈاکٹر "روزا لنڈ پیکارڈ"(Rosalind Picard) کہتے ہیں کہ "وہ اس بات کا احساس نہیں کر سکتے کہ کیا چیز اہم ہے۔ یہ ان کا سب سے بڑا نقص ہے۔ بس کمپیوٹر ایسا نہیں کر سکتے۔"

جیسا کہ روسی ناول نگار" فیوڈر دوستو یفسکی"(Fyodor Dostoevsky) لکھتے ہیں کہ " اگر دنیا میں ہر چیز استدلالی ہو جائے تو پھر کچھ نہیں ہوگا۔"

با الفاظ دیگر مستقبل کے روبوٹوں کو جذبات کی شدید ضرورت ہوگی تا کہ ان کے مقاصد کا تعین اور ان کی زندگی کو معنویت اور شکل دی جا سکے ورنہ دوسری صورت میں وہ اپنے آپ کو لامحدود ممکنات میں سے فیصلہ لینے میں مفلوج پائیں گے۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔

--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
7۔ روبوٹس - حصّہ چہارم (آخری حصّہ)
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
کیا وہ صاحب شعور ہیں ؟

اس بات پر کوئی عالمگیر اتفاق رائے موجود نہیں ہے کہ آیا مشین بھی صاحب شعور ہو سکتی ہیں یا نہیں۔ بلکہ اتفاق رائے تو اس بات پر بھی نہیں ہے کہ شعور کا کیا مطلب ہے۔ ابھی تک کسی نے بھی کوئی شعور کی مناسب تعریف نہیں کی ہے۔

مارون منسکی شعور کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں " وہ ذہنوں کے سماج" کی طرح سے ہے یعنی کہ ہمارے دماغ میں موجود خیالات مقامی طور سے پیدا نہیں ہوتے بلکہ وہ مختلف مرکزوں میں پھیلے ہوئے ہوتے ہیں جہاں وہ ایک دوسرے سے کسی خاص وقت میں مقابلہ کر رہے ہوتے ہیں۔ شعور کو ہم ایک طرح سے خیالات اور خاکوں کا سلسلہ کہہ سکتے ہیں جو مختلف چھوٹے دماغوں سے پیدا ہو رہے ہوتے ہیں جس میں سے ہر ایک ہماری توجہ حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہا ہوتا ہے۔

اگر یہ بات درست نکلی تو شاید شعور کو رائی کے پہاڑ کی طرح پیش کیا گیا ہے ، شاید کچھ زیادہ ہی مقالے فلاسفر اور نفسیات دانوں نے اس مضمون کی توضیح کے لئے لکھ ڈالے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ شعور کو بیان کرنا کوئی اتنا مشکل نہیں ہو۔ لاجولا میں واقع سالک انسٹیٹیوٹ کے "سڈنی برینر"(Sydney Brenner) کہتے ہیں "میں اس بات کی پیش گوئی کرتا ہوں کہ ٢٠٢٠ء سال تک مفید بصری شعور بطور سائنسی مسئلہ کے افق سے کہیں غائب ہو گیا ہوگا اور ہمارے جانشین اس تمام سائنسی خرافات کو دیکھ کر حیران ہو رہے ہوں گے جن کو ہم آج زیر بحث کیے ہوئے ہیں بشرطیکہ ان میں اتنا حوصلہ ہو کہ وہ ان متروک جریدوں کو برقی دستاویز خانہ میں جا کر پڑھیں۔"

مارون منسکی کے مطابق مصنوعی ذہانت طبیعیاتی رقابت کا شکار ہو رہی ہے۔ طبیعیات میں ایک ایسی سادہ مساوات کو ڈھونڈھ کر لانا جوئے شیر کے مترادف ہے جو کائنات میں موجود طبیعیات کی تمام قوّتوں کو ایک نظرئیے میں متحد کرکے "ہر شئے کے نظرئیے " کو بنا دے۔ مصنوعی ذہانت پر تحقیق کرنے والے اس خیال سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہیں اور اس کوشش میں وہ ایک ایسا اصول تلاش کر رہے ہیں جس میں وہ شعور کو بیان کر سکیں۔ منسکی کے مطابق ایسا کوئی سادہ سا اصول اپنا وجود ہی نہیں رکھتا۔

(مجھ سمیت وہ لو گ جو اس شارح سے تعلق رکھتے ہیں ان کے مطابق اس لاحاصل بحث میں الجھے بغیر کہ سوچنے کے قابل مشین کو بنایا جا سکتا ہے یا نہیں ہمیں ان کو بنانے کی کوشش ضرور کرنی چاہئے۔ شعور سے متعلق ، ممکن ہے کہ شعوری تسلسل ، کمرے میں موجود انتہائی پست درجہ حرارت کو نوٹ کرنے سے لے کر آج کی خود شناس مخلوق یعنی انسانوں میں موجود ہو سکتا ہے۔ جانوروں بھی با شعور ہو سکتے ہیں لیکن ان کے شعور کی سطح انسانی شعور جتنی نہیں ہو سکتی ہے۔ لہٰذا ہمیں شعور سے متعلق فلسفیانہ بحث میں الجھے رہنے کے بجائے اس بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ ہم مختلف النوع شعوری سطح کی گروہ بندی کریں۔ ہو سکتا ہے کہ آخر میں روبوٹ سلیکان شعور حاصل کر لیں۔ درحقیقت یہ ممکن ہے کہ ایک دن روبوٹ کے اندر سوچنے اور اطلاعات کو سمجھنے کی صلاحیت اس طرح سے پیدا کی جا سکے جس کا طریقہ کار ہم سے کافی مختلف ہو۔ ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں ، جدید روبوٹ قاعدے اور علم المعنیٰ میں فرق کو دھندلا دیں جس کے نتیجے میں ان کے اور انسانی رد عمل میں فرق کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ اگر ایسا ہونا ممکن ہے تو پھر وہ سوال کہ کیا وہ حقیقت میں کسی چیز کو سمجھ سکتے ہیں ایک فضول سا سوال ہوگا۔ ایک ایسا روبوٹ جو علم المعنیٰ میں مہارت رکھتا ہوگا وہ ہر لحاظ سے اس بات کو سمجھنے کا اہل ہوگا کہ کیا کہا جا رہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ، ایک قاعدے کا مکمل ماہر بات کو سمجھ رہا ہے۔)

کیا روبوٹ ہمارے لئے خطرہ بھی ہو سکتے ہیں ؟

مور کا قانون کہتا ہے کہ کمپیوٹر کی طاقت ہر اٹھارہ مہینے گزرنے کے بعد دگنی ہو جائے گی ، اس لئے یہ بات قابل فہم ہے کہ چند عشروں کے بعد ایسے روبوٹ بنائے جا سکیں گے جن میں ذہانت موجود ہوگی۔ مثال کے طور پر کتے یا بلی۔ مگر ٢٠٢٠ء تک مور کا قانون منہدم ہو چکا ہوگا کیونکہ سلیکان کا دور ختم ہو چکا ہوگا۔ پچھلے پانچ عشروں کے لگ بھگ کمپیوٹر کی قوّت میں شاندار اضافے کی وجہ ننھے سلیکان کے ٹرانسسٹر کی تخلیق تھی ، جو کروڑوں کی تعداد میں ہماری انگلی پر سما سکتے ہیں۔ بالائے بنفشی شعاعوں کا استعمال ان کو سلیکان سے بنے ہوئے ویفر پر منقش کر دیا جاتا ہے ۔ لیکن یہ ٹرانسسٹر کو چھوٹی سے چھوٹی جگہ پر سمانے کا عمل ابدی طور پر تو جاری نہیں رہے گا۔ ان ٹرانسسٹر کے حجم کو سالموں کے جتنا تو ہونا ہی پڑے گا جس کے بعد ان کے حجم میں مزید کمی کا عمل بند ہو جائے گا۔ ٢٠٢٠ء کے بعد یا شاید اس وقت سلیکان ویلی زنگ آلود پٹی بن جائے گی جب سلیکان کا دور اختتام پذیر ہوگا۔

ایک عام پینٹیم چپ میں بیس ایٹموں پر مشتمل ایک تہ ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ٢٠٢٠ء تک پینٹیم کی اس چپس کی تہ صرف پانچ ایٹموں پر مشتمل ہو۔ اس وقت ہائیزن برگ کا اصول عدم یقین آ دھمکتا ہے یعنی یہ پتا نہیں چلے گا کہ الیکٹران کس جگہ پر ہیں۔ لہٰذا برق اس تہ سے باہر آ جائے گی اور کمپیوٹر میں شارٹ سرکٹ ہو جائے گا۔ اس نقطے پر آ کر کمپیوٹر کا انقلاب اور مور کا قانون ، کوانٹم نظرئیے کی وجہ سے ایک بند گلی میں جا کھڑا ہو جائے گا۔(کچھ لوگ دعویدار ہیں کہ ڈیجیٹل عہد "ایٹموں پر بٹس کی جیت" ہے۔ لیکن آخر میں جب ہم مور کے قانون کی آخری سرحد تک پہنچے گے تو ایٹم اپنا انتقام پورا کر چکے ہوں گے۔)

ماہرین طبیعیات اب سلیکان کے عہد کے بعد کی ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں جو کمپیوٹر کی دنیا پر اپنی حکمرانی کو ٢٠٢٠ء کے بعد سے استوار کر سکے لیکن ابھی تک کچھ ملے جلے نتیجے ہی حاصل ہو پائے ہیں۔ جیسا کہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں کہ مختلف قسم کی ٹیکنالوجی کو پرکھا جا رہا ہے تاکہ وہ آخر میں سلیکان کی ٹیکنالوجی جگہ لے لیں گی ، اس قسم کی ٹیکنالوجی میں شامل کوانٹم کمپیوٹر ز ، ڈی این اے کمپیوٹر ز ، بصری کمپیوٹر ز، جوہری کمپیوٹر ز وغیرہ وغیرہ ہیں۔ لیکن اس میں سے ہر ایک کے راستے میں ابھی کافی مشکلات کھڑی ہیں جن کا ان کو سامنا کرتے ہوئے سلیکان چپس کی جگہ لینی ہے۔ انفرادی سالموں اور ایٹموں کو قابو کرنے کی ٹیکنالوجی ابھی اپنے طفلی عہد میں ہیں لہٰذا ارب ہا ٹرانسسٹر کو جوہروں کی جسامت جتنے بنانا ہماری موجودہ صلاحیت سے کہیں دور ہے۔

چلیں تھوڑی دیر کے لئے فرض کر لیں کہ طبیعیات دانوں نے سلیکان اور کوانٹم کمپیوٹر کے درمیان کے فاصلوں کو پاٹ دیا ہے اور مور کا قانون کسی دوسری شکل میں بھی سلیکان کے عہد کے بعد بھی نافذ العمل ہے تب مصنوعی ذہانت ایک سچائی بن سکتی ہے۔ اس وقت روبوٹ انسانی منطق اور جذبوں کے ماہر بن سکتے ہیں اور ہر دفعہ ہی ٹیورنگ ٹیسٹ کو پاس کر سکیں گے ۔ا سٹیون ا سپیل برگ نے اس ممکنہ صورتحال کو اپنی فلم "آرٹیفیشل انٹیلی جنس :اے آئی "(مصنوعی ذہانت) میں موضوع بحث بنایا ہے۔ اس فلم میں پہلا روبوٹ لڑکا بنایا جاتا ہے جو جذبات کا اظہار بھی کر سکتا ہے لہٰذا اس کو انسانی سماج میں گود لیا جا سکتا ہے۔

اس بات سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا روبوٹ بھی خطرناک ہو سکتے ہیں ؟ اس کا جواب مثبت ہو سکتا ہے۔ اگر روبوٹس میں بندروں جتنی عقل آ جائے تو وہ خطرناک ہو سکتے ہیں۔ اتنی عقل کے ساتھ وہ نہ صرف اپنے آپ کو پہچان سکتے ہیں بلکہ اپنے مقصد کو بھی طے کر سکتے ہیں۔ اس سنگ میل کو حاصل کرنے کے لئے بھی کئی عشرے درکار ہوں گے ، لہٰذا سائنس دانوں کے پاس کافی وقت ہے کہ وہ اس وقت تک روبوٹ کا مشاہدہ کر سکیں جب تک وہ ہمارے لئے خطرہ نہیں بنتے۔ مثال کے طور پر ایک خصوصی چپ ان کے پروسیسر میں لگائی جا سکتی ہے جو ان کو آپے سے باہر نہ نکلنے دے۔ یا ہو سکتا ہے کہ وہ ان کو ایمرجنسی کے درمیان غیر فعال یا خود کو تباہ کرنے پر آمادہ کر سکے۔

آرتھر سی کلارک لکھتے ہیں " یہ ممکن ہے کہ ہم کمپیوٹروں کے پالتو بن جائیں جس کے نتیجے میں ہماری حیثیت گود میں بیٹھنے والے پالتو کتے کی سی ہو جائے گی لیکن میں اس بات کی امید کرتا ہوں کہ ہم اپنی اس صلاحیت کو ہمیشہ محفوظ رکھیں گے جو ایسی کسی صورتحال کو اپنی مرضی سے بدل سکتی ہوگی۔"

ایک اور خطرہ جس کا سامنا ہمیں کرنا پڑ سکتا ہے وہ یہ کہ ہمارا ہیکل اساسی (بنیادی ڈھانچہ) ان کمپیوٹر و ں پر انحصار کرتا ہے۔ ہمارے پانی، بجلی، ذرائع نقل و حمل اور ابلاغی نیٹ ورک سب کچھ نہایت تیزی سے کمپیوٹروں کے رحم و کرم پر ہوتے چلے جائیں گے۔ ہمارے شہر اس قدر پیچیدہ ہو گئے ہیں کہ صرف ایک پیچیدہ کمپیوٹر نیٹ ورک ہی ان وسیع بنیادی ڈھانچوں کو ضابطے میں رکھ کر نگرانی کر سکتا ہے۔ مستقبل میں ان کمپیوٹر نیٹ ورکوں میں مصنوعی ذہانت کو ڈالنا انتہائی ضروری ہو جائے گا۔ اس پورے کمپیوٹر کے بنیادی ڈھانچے میں سرایت کی ہوئی کوئی بھی گڑبڑ یا ناکامی پورے شہر، ملک یہاں تک کہ پوری انسانی تہذیب کو مفلوج کرنے کے لئے کافی ہوگی۔

کیا کمپیوٹر کسی وقت ذہانت میں ہمیں پیچھے چھوڑ دیں گے ؟ یقینی طور پر طبیعیات میں کوئی ایسا قانون موجود نہیں ہے جو اس بات کو ہونے سے روک سکے۔ اگر روبوٹوں میں چیزیں سیکھنے کی قابلیت رکھنے والے عصبانیوں کے جال موجود ہوں گے تو وہ ایک ایسے نقطہ کی طرف ترقی کر لیں گے جہاں وہ ہم سے زیادہ تیزی کے ساتھ چیزوں کو سیکھ سکیں اور ہم سے بہتر انداز میں کام کر سکیں ۔اور پھر اس بات کی امید کرنا ایک معقول بات ہوگی کہ وہ استدلال میں ہم سے آگے بڑھ جائیں۔ موراویک کہتے ہیں "ما بعد حیاتیاتی دنیا " ایک ایسی دنیا ہوگی جہاں بنی نوع انسان کو ایک معاشرتی تبدیلی کی لہر کے نتیجے میں جھاڑو لگا کر صاف کر دیا جائے گا اور یہ لہر اس کی بنائی ہوئی مصنوعی چیز سے ہی اٹھے گی۔۔۔۔۔ اور جب ایسا ہوگا ، تو ہمارا ڈی این اے بیکار ہو کر ارتقاء کی دوڑ اکے اس نئے مقابلے میں ہار جائے گا۔" 

کچھ موجدوں کے مطابق جیسا کہ "رے کرزویل"(Ray Kurzweil) تو یہاں تک پیش گوئی کرتے ہیں کہ یہ وقت عنقریب ہی آیا چاہتا ہے ، دیر سے آنے کے بجائے جلدی آئے گا ہو سکتا کہ آنے والے چند عشروں میں ایسا ہو جائے۔ ممکن ہے کہ ہم اپنے ارتقائی جانشینوں کو بنا رہے ہیں۔ کچھ کمپیوٹر کے سائنس دان تو ایسے کسی نقطے کو دیکھ رہے ہیں جس کو وہ " وحدانیت یا اکائیت " (Singularity)کہتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوگا جب روبوٹ اطلاعات کی عمل کاری کو برق رفتاری کے ساتھ انجام دے سکیں گے۔ نتیجتاً نئے روبوٹس تخلیق کئے جائیں گے یہاں تک کہ ان کی اطلاعات کو جذب کرنے کی اجتماعی صلاحیت اس قدر جدید ہو جائے گی جس کی کوئی حد نہیں ہوگی۔

طویل عرصے میں کچھ لوگ اپنی معدومیت کا انتظار کرنے کے بجائے کاربن اور سلیکان کی ٹیکنالوجی کو ضم ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ ہم انسان بنیادی طور پر کاربن سے بنے ہیں جبکہ روبوٹ سلیکان سے بنے ہیں (کم از کم اس وقت کی حد تک تو ایسا ہی ہے )۔ شاید اس بات کا حل صرف یہ ہی ہے کہ ان کو ہم اپنے ساتھ ضم کر لیں۔(اگر ہم کبھی بھی ماورائے ارض ہستیوں سے ملے تو ہمیں اس بات سے حیرت زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہونی چاہئے کہ وہ آدھے نامیاتی ہوں اور آدھے میکانکی۔ یہ اس لئے ہوگا تا کہ وہ خلاء کے سخت سفر کو برداشت کر سکیں اور نامہرباں ماحول میں بھی زندہ رہ سکیں۔)

مستقبل بعید میں ، روبوٹ یا انسان نما سائبورگ ممکن ہے کہ ہمیں حیات جاوداں کے تحفے سے روشناس کرا دے۔ مارون منسکی اس میں اضافہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں " جب سورج اپنی حیات پوری کر لے گا تو پھر کیا ہوگا؟ یا ہم سیارے کو تباہ کر دیں ؟ ہم کیوں نہ اچھے طبیعیات دان، انجنیئر ز اور ریاضی دان نہ بنائیں ؟ ہمیں اپنے مستقبل کا خود سے معمار بننا پڑے گا۔ اگر ہم ایسے نہیں کریں گے تو ہمارا ورثہ گمنامی کے اندھیرے میں ڈوب جائے گا۔"

موراویک مستقبل بعید میں ایک ایسے وقت کا تصوّر کر تے ہیں جب ہماری عصبی ساخت تبدیل ہو کر براہ راست ایک مشین میں بدل جائے گی جس کے نتیجے میں ہمیں ایک طرح سے ابدیت حاصل ہو جائے گی۔ یہ ایک انتہائی سرکش خیال ہے مگر یہ ممکنات کی سرحدوں کے پار دور کا خیال نہیں ہے۔ لہٰذا ان سائنس دانوں کے خیال میں جو مستقبل بعید میں جھانکنے کی کوشش کر رہے ہیں ، ابدیت (ڈی این اے کی بہتر صورت میں یا سلیکان کی شکل میں ) ہی انسانیت کی آخری منزل ہے۔

ایسی مشینوں کو بنانے کا خیال ایک حقیقت بن سکتا ہے جو جانوروں جتنی یا شاید ہمارے جتنی یا ہم سے بھی زیادہ ذہین ہوں۔ اگر ہم مور کے قانون کو منہدم ہونے سے روک سکیں اور عقل سلیم کے مسائل پر قابو پا سکیں تو شاید اس صدی کے آخر تک ایسا ہونا ممکن ہو۔ ہرچند مصنوعی ذہانت کے بنیادی اصول اب بھی دریافت کیے جا رہے ہیں لیکن اس جانب پیش رفت کافی تیز رفتار اور امید افزا ہے۔ ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں ان روبوٹ اور دوسری سوچنے والی مشینوں کو جماعت "I" کی ناممکنات میں شامل کر رہا ہوں۔