10۔ ضد مادّہ اور ضد کائنات

ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

10۔ ضد مادّہ اور ضد کائنات (حصّہ اوّل)

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

 

سائنس کی دنیا میں ہے  کسی دریافت کا ڈھنڈورا پیٹنے کا سب سے ہیجان انگیز فقرہ  "یوریکا"  (میں نے پا لیا !)  نہیں  بلکہ  "یہ مضحکہ خیز ہے "  ہے۔

 

-  آئزک ایسی موف

 

اگر کوئی آدمی اس چیز پر یقین نہ رکھے جس پر ہم رکھتے ہیں تو ہم اسے  پاگل کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں  میرا مطلب ہے کہ آج کل ایسا ہوتا ہے کیونکہ ہم اسے جلا نہیں سکتے۔

 

-  مارک ٹوئن

 

آپ رہبر کو اس  کی پیٹھ میں گھسے تیر سے پہچان سکتے ہیں۔

 

-  بیورلی روبک

 

ڈین براؤن کی شہرہ آفاق  کتاب  "اینجلز  اینڈ ڈیمنس"  جو ہاتھوں ہاتھ بکنے والی کتاب " دی ڈاونچی کوڈ" کی پیش رو تھی۔ اس ناول  میں ایک بنیاد پرستوں کا ایک ٹولہ ،  دی ایلومنیٹی (روشن ضمیر والے ) ویٹی کن کو ایک ضد مادّہ کے بم سے اڑانے کی  ایک سازش تیار کرتے ہیں۔ اس بم  کو جنیوا سے باہر نیوکلیائی تجربہ گاہ سرن سے چرایا ہوتا ہے۔ سازشی جانتا تھا کہ جب مادّہ اور ضد مادّہ آپس میں ملیں گے  تو اس کے نتیجے میں ایک  عظیم الشان دھماکا ہوگا  جو ہائیڈروجن کے بم سے کہیں زیادہ طاقتور ہوگا۔ اگرچہ ایک ضد مادّہ کا بم خالص خیالی ہے مگر ضد مادّہ کا وجود  بالکل حقیقی ہے۔

 

ایک جوہری بم اپنی تمام تر تباہ کاریوں کے باوجود صرف ایک فیصد کارکردگی کا حامل ہوتا ہے۔ یورینیم کا انتہائی معمولی حصّہ ہی توانائی میں بدلتا ہے۔ لیکن اگر کوئی ضد مادّہ کا بم بنا لیا گیا تو وہ اس کی کمیت کو سو فیصد توانائی میں بدل دے گا  جس کے نتیجے میں وہ نیوکلیائی بم کے مقابلے میں کافی زیادہ کارگر ہوگا۔ (زیادہ درست طور پر ضد مادّہ کے بم میں پچاس فیصد مادّہ قابل استعمال توانائی میں تبدیل ہوگا ؛ جبکہ باقی نظر نہ آنے والے نیوٹرینوں کی شکل میں بدل جائے گی۔)

 

ضد مادّہ کافی عرصے سے  قیاس آرائیوں کا مرکز رہا ہے۔ ہرچند ابھی تک کسی بھی قسم کا کوئی بھی ضد مادّہ بم وجود نہیں رکھتا لیکن  طبیعیات دانوں نے اپنے طاقتور جوہری  ذرّاتی اسراع گروں کا استعمال کرتے ہوئے انتہائی قلیل مقدار  میں ضد مادّہ کو اپنے تحقیقی مقصد کے لئے استعمال کے لئے پیدا  کر لیا  ہے۔

 

 

ضد مادّہ کی پیداوار اور اس کی کیمیا

 

بیسویں صدی کے نقطہ آغاز سے ہی ، طبیعیات دانوں نے یہ بات سمجھ لی تھی کہ ایٹم بار دار ذیلی جوہری ذرّات پر مشتمل ہوتا ہے ، جس کے مرکزے (جس میں مثبت بار ہوتا ہے )  کے گرد الیکٹران (منفی بار کے ساتھ ) چکر لگا رہا ہوتا ہے۔  مرکزے میں پروٹون (جن کے اوپر پر مثبت بار ہوتا ہے ) اور نیوٹرون (جو برقی طور پر معتدل ہوتے ہیں )موجود ہوتے ہیں۔١٩٥٠ء میں طبیعیات دانوں کو اس وقت جھٹکا لگا جب انھیں پتا چلا کہ ہر ذرّے کا ایک جڑواں مخالف بار والا ضد ذرّہ بھی موجود ہے۔ سب سے پہلا دریافت ہونے والا ضد ذرّہ  ایک  مثبت بار والا ضد الیکٹران  (جس کو پوزیٹرون کہتے ہیں)  تھا۔  پوزیٹرون ہر لحاظ سے الیکٹران کے مثل ہی ہے بجز اس کے کہ اس پر مخالف بار ہوتا ہے۔ سب سے پہلے اس کی دریافت ایک کائناتی  شعاعوں کی تصاویر ایک بادلوں والے خانے میں لیتے ہوئے ہوئی تھی۔(پوزیٹرون کا سراغ ایک بادلوں کے خانے میں لگانا بہت ہی آسان تھا۔ جب انھیں ایک طاقتور مقناطیسی میدان میں رکھا جاتا ہے تو وہ عام الیکٹران کی مخالف سمت میں  مڑ  جاتے ہیں۔ حقیقت میں  ان ضد مادّہ کی تصویر  میں نے بھی اپنے کالج کے زمانے میں لی تھی۔)

 

١٩٥٥ء میں برکلے میں واقع یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں موجود ذرّاتی اسراع گر - بیواٹرن میں  پہلا ضد پروٹون بنایا۔ امیدوں کے عین مطابق وہ بالکل پروٹون کے مشابہ تھا سوائے اس کے کہ اس پر منفی بار تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ نظری طور پر ہم ضد مادّہ کو بھی بنا سکتے ہیں۔ (جس میں پوزیٹرون ایک ضد پروٹون کے گرد چکر لگا رہا ہوگا  )۔  حقیقت میں ضد عناصر ، ضد کیمیا ، ضد لوگ ،ضد زمین اور یہاں تک کہ ضد کائنات کا  نظری طور پر موجود ہونا ممکن ہے۔

 

فی الحال تو سرن میں موجود ایک دیو ہیکل ذرّاتی اسراع گر  اور شکاگو سے باہر فرمی لیب  نے انتہائی معمولی سی ضد ہائیڈروجن کی مقداریں بنائی ہیں۔(اس کو پروٹون کی بلند توانائی والی کرنوں کو ہدف پر ذرّاتی  اسراع گر کو استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا۔ جس کے سبب  ایک ذیلی جوہری ذرّات کی پھوار سی بن گئی تھی۔ طاقتور مقناطیس  کے ذریعہ  ضد پروٹون کو علیحدہ کر لیا تھا  جو بہت زیادہ دھیمے  ہو کر انتہائی پست سمتی رفتار والے ہو گئے تھے اور پھر  وہ ان  ضد الیکٹران کے سامنے ظاہر ہو گئے تھے جو قدرتی طور پر سوڈیم  - ٢٢ سے خارج ہوتے ہیں۔ جب ضد الیکٹران ضد پروٹون کے گرد چکر لگاتے ہیں تو وہ ضد ہائیڈروجن بناتے ہیں کیونکہ ہائیڈروجن ایک پروٹون اور ایک الیکٹران سے مل کر بنتا ہے۔) خالص خالی جگہ میں یہ ضد جوہر ہمیشہ کے لئے باقی رہ سکتے ہیں۔ لیکن  آلودگی اور دیواروں کے درمیان ٹکرانے کی وجہ سے ضد جوہر عام مادے سے ٹکرا ہی جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں توانائی میں بدلتے ہوئے  فنا ہو جاتے ہیں۔

 

١٩٩٥ء میں سرن نے اس اعلان کے ساتھ ہی تاریخ رقم کردی تھی کہ اس نے نو ضد ہائیڈروجن کے جوہر بنائے تھے۔ فرمی لیب نے اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جلد ہی ایک سو ضد ہائیڈروجن کے جوہر بنا لئے۔ نظریاتی طور پر اس پر آنے والی زبردست لاگت کے علاوہ کوئی بھی ایسی چیز موجود نہیں ہے جو ہمیں بھاری عناصر کے ضد جوہر بنانے سے روکے۔ صرف چند اونس ضد مادّہ پیدا کرنے میں ہی کچھ اقوام تو دیوالیہ ہو جائیں گی۔ ضد مادّہ پیدا کرنے کی موجودہ شرح ایک گرام کے ایک ارب سے  دس  ارب  حصّے سالانہ ہیں۔ امکان ہے کہ ضد مادّہ کی پیداوار کی  یہ شرح ٢٠٢٠ء تک تین گنا بڑھ جائے۔ ضد مادّہ سے حاصل ہونے والے معاشی فوائد ان کی لاگت کے مقابلے میں انتہائی حوصلہ شکن ہے۔  ٢٠٠٤ء  میں سرن میں ایک گرام کے کچھ دسیوں کھرب حصّے پیدا کرنے کی لاگت ہی دو کروڑ ڈالر تھی۔ اس شرح سے ایک گرام ضد مادّہ کو پیدا کرنے کے لئے لاگت ایک ہزار کھرب  (ایک پدم) آئی گی اور ضد مادّہ کے کارخانے کو مسلسل ایک کھرب سال تک چلنا ہوگا! یہ ہی وجہ ہے کہ اس دنیا میں  ضد مادّہ کائنات کی  سب سے زیادہ قیمتی چیز ہے۔

 

" اگر ہم  سرن میں پیدا ہونے والے  تمام ضد مادّہ کو جمع کرکے اس کو مادّے کے ساتھ ملا کر فنا کریں  تو ہمارے پاس حاصل ہونے والی توانائی اتنی ہوگی کہ جس سے ہم ایک برقی بلب  صرف چند سیکنڈ کے لئے جلا سکیں "  یہ سرن سے جاری ایک بیان کا حصّہ ہے۔

 

ضد مادّہ کو سنبھال کر رکھنا بھی اپنے آپ  میں کافی بڑا مسئلہ ہے  کیونکہ مادّے اور ضد مادّے کا آپس میں ملنا دھماکے کا باعث ہوگا۔  ضد مادّہ کو عام مادّے سے بنی کسی چیز میں رکھنا خود کشی کے مترادف ہوگا۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ جب ضد مادّہ اس قدر بارودی نوعیت کا ہوتا ہے تو پھر اس سے  کیسے نمٹا جائے گا ؟ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ پہلے  ضد مادّہ کے برق پاروں کو برقی پارہ گیس میں تبدیل کیا جائے اور پھر ان کو محفوظ طریقے سے  ایک مقناطیسی بوتل میں رکھا جائے۔ مقناطیسی میدان ان کو خانے کی دیواروں کو چھونے سے روکے رکھے گا۔

 

ایک ضد مادّہ کا انجن بنانے کے لئے ایک ضد مادّہ کے متواتر دھارے کی ضرورت ہوگی جو اس کو تعاملی خانے میں ڈالے گا جہاں پر اسے  انتہائی احتیاط کے ساتھ عام مادے سے ملایا جائے گا  جس کے نتیجے میں  کیمیائی راکٹ جیسا ایک انضباطی دھماکہ ہوگا۔ اس دھماکے میں پیدا ہوئے برق پاروں کو ضد مادّے کے راکٹ کے ایک سرے سے باہر نکالا جائے گا جس کے نتیجے میں دھکیل پیدا ہوگی۔ مادّے کو توانائی میں تبدیل کرنے کی ضد مادّہ کے انجن کی کارکردگی نظری طور پر مستقبل کے خلائی جہازوں کو بنانے کے لئے  سب سے زیادہ لبھانے  والی ہے۔ اسٹار ٹریک سلسلے میں  ضد مادّہ انٹرپرائز کے ایندھن کا ذریعہ ہوتا ہے ؛ اس کے انجن کو طاقت انضباطی مادّہ اور ضد مادّہ کو ٹکرانے سے ملتی ہے۔

 

جاری ہے۔۔۔۔۔