نا ممکن کی طبیعیات "Physics of Impossible" از میچو کاکو

مجالس:

یہ کتاب مشہور زمانہ نظریاتی طبیعیات دان میچو کاکو کی کتاب"Physics of the Impossible" کا ترجمہ کرنے کی کوشش ہے ۔ کسی بھی کتاب کو ترجمہ کرنے کا یہ میرا پہلا تجربہ ہے لہٰذا اس میں کافی زیادہ غلطیوں کا احتمال ہوگا ۔ ہرچند یہ ایک طویل کتاب ہے لیکن اس میں دلچسپی لینے والے لوگوں کی رائے میری حوصلہ افزائی کرتی رہی تو انشاء الله اس کو جلد مکمل کرکے یہاں پر شایع کرتا رہوں گا ۔

 

پیش لفظ

اگر کوئی خیال شروع میں ہی فضول نہ لگے تو پھر اس سے کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی ہے۔

  • البرٹ آئن سٹائن

 

کیا ایک دن یہ بات ممکن ہو سکے گی  کہ ہم دیوار میں سے آر پار ہو کر آسانی کے  گزر سکیں ؟ کیا  ہم ایسے بین النجم خلائی جہاز(Starships) جو سریع از نور (Faster Than Light)رفتار سے چلتے ہوں بنا سکیں گے ؟کیا ہم حاضر ہوتے ہوئے بھی لوگوں کی نظروں کے سامنے سے غائب ہو کر غیر مرئی(Invisible) ہو  سکیں  گے؟ کیا مستقبل میں ہم اس قابل ہو سکیں گے کہ  اشیاء کو صرف  اپنی دماغی طاقت سے ہلا سکیں ؟کیا ہم اپنے جسموں کو فی الفور خلاء کے دور دراز کے مقام میں منتقل کر سکیں گے ؟

 

میں اپنے بچپن سے ہی مذکورہ  بالا تمام سوالوں میں دلچسپی لیتا تھا۔دوسرے کئی طبیعیات دانوں کی طرح جب میں نے بھی شعور کی منزل میں قدم رکھا  تو مجھ پر،  وقت میں ممکنہ سفر (Time Travel)، اشعاعی بندوق (Ray Guns)، غیر مرئی حفاظتی ڈھال (فورس فیلڈForce Filed -  )، متوازی کائناتوں (Parallel Universes)اور اسی طرح کے دوسرے خیالات کی یلغار ہوتی رہتی تھی۔ جادو ،  انوکھے خیال ، سائنسی قصّے یہ سب کے سب میرے تخیل کے کھیل کے میدان ہوتے تھے۔انہوں نے میرے پوری زندگی پر مشتمل ناممکنات(Impossibilities) کے ساتھ عشق کی ابتداء کی۔

 

مجھے وہ وقت  یاد ہے جب پرانا فلیش گورڈن (Flash Gordon)  ٹیلی ویژن پر نشر مکرر کیا گیا تھا ۔ ہر ہفتے کو میں ٹیلی ویژن سیٹ کے سامنے چپک کر بیٹھ جاتا تھا  اور فلیش، ڈاکٹرزرکوف  (Dr. Zarkov) اور ڈیل آرڈین (Dale Arden)  کے جوکھموں  اور ان کی آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی مستقبل کی ٹیکنالوجی(Technology): خلائی جہاز ، غیر مرئی حفاظتی ڈھال ، شعاعی بندوق اور آسمانوں میں قائم شہروں کو دیکھ کر  عش عش کر اٹھتا تھا۔ کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرتا تھا  کہ جس میں اس سلسلے کی قسط نشر ہو اور میں اس کونہ دیکھوں ۔اس پروگرام نے میرے سامنے پوری ایک نئی دنیا کھول کر رکھ دی تھی ۔ یہ بات سوچ کر ہی مجھے تھر تھری آ جاتی تھی کہ میں کسی ایک دن کسی خلائی سیارے پر جا کر اس کے عجیب  اجنبی میدانوں کی چھان بین کر رہا ہوں گا۔ ان  تمام زبردست دریافتوں کی کشش نے یہ بات مجھ پر عیاں کردی تھی کہ میری منزل کسی طرح سے اس پروگرام میں دکھائی جانے والی سائنس کے عجوبوں میں لپٹی ہوئی ہے۔

 

 پھر بعد میں مجھ پر یہ عقدہ کھلا کہ اس دشت کی سیاحی میں صرف  میں ہی اکیلا نہیں تھا۔ کافی سارے اعلیٰ پائے کے سائنس دانوں نے سائنس میں دلچسپی ان سائنسی قصّوں کے ذریعہ ہی لی تھی ۔ عظیم فلکیات دان ایڈوِن ہبل(Edwin Hubble) جولیس ورن(Jules Verne) کے کام سے مسحور تھا۔ ورن کے کام کو پڑھ کر ہبل نے قانون میں امید افزا مقام کو چھوڑ کر اپنے والد کی نافرمانی کرتے ہوئے ان کی خواہش کے برخلاف  اپنا مستقبل سائنس کی دنیا میں شروع کیا۔ آخر کار وہ بیسویں صدی کا سب سے عظیم فلکیات دان بنا۔ کارل ساگاں (Carl Sagan)  جو ایک ممتاز فلکیات دان اور کئی ہاتھوں ہاتھ بکنے والی کتابوں کا مصنف  تھا اس نے اپنے تخیل کی بنیاد ایڈگر رائس بروس (Edgar Rice Burroughs) کے ناول جان کارٹر آف مارس (John Carter of Mars)سے ڈالی۔ جان کارٹر کی طرح اس نے ایک دن مریخ کی مٹی کو کھوجنے کا خواب دیکھا تھا۔

 

جب البرٹ آئن سٹائن کی موت ہوئی تو اس وقت میں اپنے لڑکپن کے عہد سے گزر رہا تھا ، مگر مجھے یہ بات اچھی طرح سے یاد ہے کہ لوگ اس کی زندگی اور موت کے بارے میں سرگوشیاں  کرتے تھے۔ آئن سٹائن کی موت کے اگلے دن میں نے اخبار میں اس کی میز کی تصویر کو دیکھا ، جس پر اس کا سب سے عظیم اور نامکمل کام کا مسودہ رکھا ہوا تھا۔ میں نے اپنے آپ سے سوال کیا  ایسی کونسی اہم چیز تھی جو اپنے دور کے مشاق سائنس دان سے مکمل نہیں ہو سکی ؟ اس مضمون میں یہ دعوی کیا گیا  تھا کہ آئن سٹائن نے ایک ناممکن چیز کا خواب دیکھا تھا ، ایک مسئلہ جو اس قدر گھمبیر تھا کہ اس کا حل  کسی فانی انسان کے بس کی بات نہیں تھی۔ مجھے یہ بات جاننے کے لئے برسوں لگ گئے کہ وہ مسودہ کس چیز کے بارے میں تھا ؟ وہ ایک عظیم وحدتی "ہر شئےکے نظریئے  " (Theory of Everything)کے بارے میں تھا۔ اس خواب نے اس کے زندگی کے آخری تین عشروں کو پی لیا تھا ، اور اسی چیز  نے مجھے اپنے تخیل پر مرتکز ہونے کے لئے مدد کی۔ میں چاہتا تھا کہ کسی بھی طرح سے میں بھی اپنا تھوڑا حصّہ آئن سٹائن کی ان کوششوں میں ڈالوں جس میں طبیعیات کے تمام مروجہ قوانین کو یکجا کرکے ایک نظریئے  میں پرویا جا سکے۔

 

 جب میں نے  شعور کی کچھ منازل کو طے کر لیا اس وقت مجھے احساس ہوا کہ اگرچہ فلیش گورڈن ایک جانباز تھا اور ٹیلی ویژن ڈرامے میں ہمیشہ اپنی محبوبہ کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا تھا ، اصل ہیرو تو سائنس دان تھے جنہوں نے ٹیلی ویژن کے اس سلسلے کو اس قابل بنایا تھا کہ اس کو نشر کیا  جا سکے۔ ڈاکٹر زرکوف   کے بغیر کوئی بھی خلائی جہاز نہیں بن سکتا تھا  ، نہ ہی مانگو کا سفر (Trip to Mongo) کیا جا سکتا تھا  اور نہ ہی زمین کو بچایا جا سکتا تھا۔ جانبازی کو چھوڑ دیجئے ، سائنس کے بغیر تو سائنسی قصوں  کا  بھی وجود نہیں ہوتا۔

            

بعد میں مجھے اس بات کا اندازہ ہوا کہ یہ کہانیاں تو سائنس کی رو سے تقریباً ناممکن تھیں  یہ تو صرف انسانی تخیل کی پرواز ہی تھیں۔ شعور کی منازل کو حاصل کرنے کا مطلب تھا کہ ایسی طلسمی کہانیوں کو اپنے ذہن سے دور کر دیا جائے۔ حقیقی دنیا میں مجھے بتایا گیا کہ ناممکنات کو چھوڑ کر قابل عمل چیزوں کو  گلے لگانا ہوتا ہے۔

 

بہرحال میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر مجھے اپنے  ناممکنات کی سحر انگیزی سے الگ نہیں ہونا تو یہ صرف اس وقت ہی ممکن ہے جب میں طبیعیات کی رو سے ان  کو جاننے کی کوشش کروں۔ جدید طبیعیات کی ٹھوس معلومات کے بغیر میں صرف مستقبل کی ٹیکنالوجی  کے بارے میں اندازے قائم کرتا رہوں گا  اس بات کو سمجھے بغیر کہ آیا وہ ممکن بھی ہیں یا نہیں۔ میں نے اس بات کو سمجھ لیا تھا کہ مجھے جدید ریاضی میں اپنے آپ کو غرق کرنا پڑے گا اور طبیعیات کو سیکھنا ہوگا۔ اور پھر میں نے یہ ہی کیا۔

 

میں نے کالج کے سائنس فیئر کے پروجیکٹ میں ، اپنے گھر کے گیراج میں ایک جوہری تصادم گر(Atom Smasher) بنایا۔ میں ویسٹنگ  ہاؤس کمپنی گیا جہاں سے ٤٠٠ پونڈ ٹرانسفارمر کا بچا کچا  سریا  حاصل کیا۔ کرسمس کے دنوں میں٢٢ میل کے تانبے کی تاروں کو کالج کے فٹبال کے میدان میں لپیٹا۔ آخر کار میں نے ٢٣ لاکھ الیکٹران وولٹ  برقی مسرع (اِنتہائی تیز رفتار الیکٹرون تیار کرنے کا آلہ جو ایک ٹرانسفارمر کی طرح کام کرتا ہے جس کو  انگریزی میں بیٹا ٹرون – Betatron کہتے ہیں ) کا ذرّاتی اسراع گر(Particle Accelerator) بنا لیا جو ٦ کلو واٹ پاور استعمال کرتا تھا (یہ  میرے گھر کی پوری بجلی کے برابر تھا ) اور زمین کے مقناطیسی میدان کے مقابلے میں ٢٠ ہزار گنا زیادہ  مقناطیسی میدان پیدا کرتا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ ایک گیما  شعاعوں کی کرن کو پیدا کیا جا سکے جو اس قدر طاقتور ہو جس سے ضد مادّہ (Anti Matter)پیدا ہو جائے۔

 

میرے سائنس فیئر کے اس پروجیکٹ نے مجھے نیشنل سائنس  فیئر میں جگہ دلوا دی  اور ہار ورڈ کا وظیفہ حاصل کر کے آخرکار میرا خواب پورا ہوا  جہاں میں اپنے مقصد یعنی کہ طبیعیات دان بننے کے لئے جدوجہد کر سکتا تھا  اور اپنے مثالی سائنس دان البرٹ آئن سٹائن کے نقش قدم پر چل سکتا تھا۔

 

آج مجھے سائنسی کہانیوں کے مصنفین  اور فلم نگاروں کے برقی خطوط ( ای میلز ) موصول ہوتی رہتی ہیں جس میں وہ مجھ سے  اپنی کہانیوں میں سچائی کا رنگ بھرنے کے لئے مدد مانگتے ہیں اور اس بات کو جاننا چاہتے ہیں کہ آخر ناممکنات کی آخری حد کیا ہے۔

 

"ناممکن" ایک  نسبتی چیز ہے

 

بطور طبیعیات دان ، اکثر میں نے یہ دیکھا ہے کہ ناممکن ایک نسبتی اصطلاح  (Relative Term) ہے۔ شعور کی منازل طے کرتے ہوئے مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میری استانی نے دیوار پر زمین کے نقشے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے جنوبی امریکہ اور افریقہ کی ساحل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ کیا یہ ایک عجیب اتفاق نہیں ہے کہ دونوں ساحل ایک دوسرے سے ایسے ملے ہوئے ہیں جیسے کہ  آڑا کٹا معمہ (Jigsaw Puzzle) ؟  کچھ سائنس دان بہرحال اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ شاید یہ کبھی ایک ہی بڑے وسیع بر اعظم کا حصّہ تھے۔ مگر مجھے ان کی  یہ بات کافی بیوقوفانہ  لگتی ہے   کوئی بھی طاقت اتنی توانا نہیں ہو سکتی کہ ان  دو عظیم بر اعظموں کو ایک دوسرے سے  دھکیل کر دور کر سکے۔ ایسا سوچنا ہی ناممکن ہے۔ انہوں نے نتیجہ بھی  اخذ کر لیا تھا۔

 

اگلے سال ہم نے ڈائنو سارس کا مطالعہ کیا۔ میرے استاد نے کہا ،کیا یہ بات بہت عجیب نہیں ہے کہ ڈائنو سارس زمین پر کروڑوں سال حکمرانی کرتے رہے اور ایک دن سب کے سب غائب ہو گئے ؟ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کیوں مر گئے۔ کچھ ماہر رکازیات (Paleontologist) سمجھتے ہیں کہ شاید خلاء میں سے آتے ہوئے کسی شہابیے نے ان سب کی جان لے لی  مگر یہ بات ناممکن ہے ایسا تو سائنسی قصّوں میں ہی ہوتا ہے۔

 

آج ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ ارضی سختائے ہوئے حصّوں (Plate Tectonics)کے ذریعہ بر اعظم حرکت کرتے ہیں  اور غالب گمان یہ ہی ہے کہ ٦۔٥ کروڑ سال پہلے ایک دیو قامت شہابیہ (Meteor)  جس کا حجم چھ میل کا تھا  اس نے زمین سے ٹکرا کر  اس کی سطح پر رہنے والے  ڈائنو سارس اور دوسری  پائی جانے والی حیات کا خاتمہ کر دیا تھا۔ میں نے اپنی  اس کوتاہ عرصہ حیات میں ناممکن نظر آنے والی چیزوں کو بار بار سائنسی حقیقت بنتے ہوئے دیکھا ہے۔ لہٰذا کیا  یہ سوچنا  ممکن ہے کہ ہم  مستقبل میں کسی ایک  دن اپنے آپ کو ایک جگہ سے  دور دراز  دوسری جگہ فی الفور منتقل (Teleport)کر سکیں  ، یا کوئی ایسا خلائی جہاز بنا سکیں  جو ایک دن ہمیں نوری برس (Light Year)کے فاصلوں پر موجود ستاروں پر کمند ڈالنے میں مدد کر سکے ؟

 

عام طور پر کوئی بھی ایسا کارنامہ آج کے طبیعیات دانوں کی نظر میں ناممکن ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ آنے والی چند صدیوں میں ممکن ہو سکے؟ یا آنے والی دس ہزار برسوں میں جب ٹیکنالوجی اور زیادہ جدید ہو جائے ؟ یا پھر دسیوں لاکھ سال گزرنے کے بعد ؟ اس کو ذرا دوسری طرح سے سوچیں ، اگر ہمارا سامنا کسی طرح سے ایک ایسی تہذیب  (Civilization) سے ہوتا ہے جو ہم سے دس لاکھ سال آگے ہو  تو کیا ان کی روزمرہ کی ٹیکنالوجی ہمیں جادو لگیں گی ؟ اس کتاب کی گہرائی میں ایک سوال ہر جگہ نظر آئے گا ،  کیا صرف اس لئے کوئی چیز آنے والی صدیوں یا لاکھوں برس کے مستقبل میں  ناممکن رہے گی کیونکہ ہم اس کو دور حاضر میں ناممکن سمجھتے ہیں ؟

 

پچھلی صدی میں سائنس کی ترقی کو دیکھتے ہوئے  بالعموم اور کوانٹم نظریئے (Quantum Theory)  اور عمومی اضافیت (General Relativity)   کی پیدائش کے بعد بالخصوص یہ بات ممکن ہو گئی ہے کہ  اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے کہ اگر ان ٹیکنالوجی کا ہونا ممکن ہے تو کب تک  بھلا ایسا ہو سکے گا۔ مزید جدید نظریوں کے پیش کئیے جانے کے بعد جیسا کہ اسٹرنگ کے نظریئے نے سائنسی کہانیوں میں موجود کئی چیزوں مثلاً  وقت میں سفر اور متوازی کائناتوں کے بارے میں  بھی ماہرین طبیعیات کو دوبارہ سے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ذرا آج سے ١٥٠ برس پہلے کے دور میں اُن ٹیکنالوجیز کا تصوّر کیجئے جن کو اس وقت کے سائنس دانوں نے ناممکن قرار دے دیا تھا  مگر آج وہ ہماری زندگی کا لازمی حصّہ بن چکی ہیں۔ جولیس ورن نے ایک ناول  ١٨٦٣ءمیں لکھا تھا  جس کا نام پیرس ان دی ٹوینٹتھ  سنچری تھا۔ یہ  ناول  لکھے جانے  کے بعد ایک صدی تک تالے میں بند رہا  اور اس وقت تک گمنامی کے اندھیروں  میں ڈوبا  رہا جب تک اس کو حادثاتی طور پر ورن کے پڑ پوتے نے دریافت نہیں کر لیا اور پہلی دفعہ یہ  ١٩٩٤ء میں شایع  ہوا۔ اس ناول  میں ورن نے اس بات کی پیش گوئی کی تھی کہ پیرس ١٩٦٠ء میں کیسا دکھائی دے گا۔ اس کے ناول میں ان ٹیکنالوجی کی بھر مار ہے جو انیسویں صدی میں ناممکن سمجھی جاتی تھیں ، جس میں فیکس مشین ، عالمگیر مواصلاتی نظام ، شیشے کی بلند و بالا عمارتیں ، تیل سے چلنے والی خود کار گاڑیاں اور تیز رفتار بالائی گزرگاہ والی ریل گاڑیاں وغیرہ شامل ہیں۔

 

اس بات میں کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ ورن نے اس قدر صحت کے ساتھ پیشگوئی کیسے کر لیں تھیں۔ اس کی وجہ تھی  وہ سائنس کی دنیا میں غرق رہتا تھا  اور اپنے ارد گرد موجود سائنس دانوں کے افکار  سے فائدہ اٹھانا جانتا  تھا۔ سائنس کی بنیادی باتوں کی گہرائی میں غور و فکر کرنے سے ہی اس نے ایسی چونکا دینے والی پیش گوئیاں کی تھیں۔

 

نہایت ہی افسوس سے یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ انیسویں صدی کے کچھ عظیم سائنس دانوں نے اس کے برخلاف سوچا اور بہت ساری ٹیکنالوجی کو ناامیدی کی حد تک ناممکن قرار دے ڈالا۔ لارڈ کیلون  (Lord Kelvin)، جو شاید وکٹورین دور کے سب سے ممتاز طبیعیات دان تھے (ان کو آئزک نیوٹن کے پہلو میں ویسٹ منسٹر ، ایبی میں دفن کیا ہوا ہے ) نے اس بات کا اعلان کردی تھا کہ "ہوا سے بھاری" کوئی بھی چیز جیسا کہ ہوائی جہاز   کو بنانا ممکن نہیں ہوگا۔ ان کا خیال تھا کہ ایکس ریز(X-rays) ایک افوہ ہے اور ریڈیو کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔ لارڈ ردرفورڈ  (Lord Rutherford) جس نے جوہر کا مرکزہ دریافت کیا تھا  اس نے جوہری بم کو چاند کی روشنی کے مماثل دے کر اس کے بنانے کے امکان کو ہی مسترد کر دیا تھا۔ انیسویں صدی کے کیمیا دانوں نے پارس پتھر یا سنگ جادو (جس کو فلاسفر اسٹون بھی کہتے ہیں ) – ایک ایسی چیز جو سیسے کو سونے میں بدل دے - کی تلاش  کے کسی بھی امکان کو مسترد کر دیا تھا۔ انیسویں صدی کی کیمیا ان عناصر مثلاً  سیسہ کے غیر متبدلانہ یا عدم تغیری کی  اساس پر کھڑی تھی۔ لیکن آج کے جوہری تصادم گروں کی مدد سے ہم  نظری اعتبار سے سیسے کے جوہروں کو سونے میں بدل سکتے ہیں۔ ذرا آج کے ٹیلی ویژن ، کمپیوٹر  اور انٹرنیٹ پر نظر ڈالیں اور سوچیں کہ وہ بیسویں صدی میں کیسے شاندار ہو گئے ہیں۔

 

کچھ عرصہ پہلے ہی کی بات ہے جب سیاہ شگافوں (بلیک ہولز) کو سائنسی قصّوں سے زیادہ کچھ اور سمجھا نہیں جاتا تھا۔ خود آئن سٹائن نے ١٩٣٩ءمیں ایک مضمون لکھا تھا جس میں اس نے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ بلیک ہولز کبھی بھی نہیں بن سکتے۔ اس کے باوجود ہبل خلائی دوربین(Hubble Space Telescope) اور چاندرا ایکس رے دوربین (Chandra X-ray Telescope)نے خلاء میں موجود  ہزاروں بلیک ہولز کی نشاندہی کی ہے۔

 

یہ ٹیکنالوجی اس وجہ سے ناممکن سمجھی جاتی تھیں کہ اس وقت بنیادی طبیعیاتی قوانین اور سائنس  کا انیسویں صدی  کے دوران  اور بیسویں صدی کے اوائلی حصّے  میں دریافت نہیں ہوئے تھے۔ اس وقت سائنس کی معلومات خاص طور پر جوہری پیمانے پر خاصی  کم تھیں لہٰذا اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں تعجب نہیں کرنا  چاہئے کہ ان ٹیکنالوجی  کو اس وقت ناممکن سمجھا گیا تھا۔  

 

ناممکنات پر غور و فکر

 

تعجب انگیز بات تو یہ ہے کہ ناممکنات پر سنجیدگی کے ساتھ  غور و فکر  کرنے سے کلی طور ناقابل توقع اور  گہرے  سائنسی میدان کے دروازے وا ہو گئے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک صدی تک دائمی حرکی مشین (Perpetual Motion Machine)  کی مایوس کن اور بے ثمر تلاش نے طبیعیات دانوں کو اس نتیجے پر پہنچایا کہ ایسی کوئی بھی مشین بنانا ناممکن ہے۔ لیکن اس فضول سی کوشش میں وقت برباد کرنے کے نتیجے میں انہوں نے بقائے توانائی (Conservation of Energy) اور حر حرکیات  (Thermodynamics) کے تین قوانین کو حاصل کیا ۔ اس طرح سے ایک فضول دائمی حرکی مشین کی تلاش نے ایک بالکل نیا میدان حر حرکیات کا کھول دیا  جو  ایک طرح سے بھاپ کے انجن، مشینی دور اور جدید صنعتی سماج  کی بنیادوں  کا حصّہ بنا۔

 

انیسویں صدی کے اختتام  تک سائنس دانوں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ زمین کی عمر  ارب ہا سال کی نہیں ہو سکتی۔ لارڈ کیلون نے اس بات کا اعلان قطعیت کے ساتھ کر دیا کہ پگھلی ہوئی زمین ٢ سے ٤ کروڑ برس میں ہی ٹھنڈی ہو سکتی ہے  جو براہ راست ارضیاتی اور ڈارونی  حیات دانوں کے ان دعووں کے خلاف تھا جس میں زمین  کی عمر کو ارب ہا سال کا سمجھا گیا تھا۔ مادام کیوری اور دوسروں کی نیوکلیائی دریافت کے بعد  ناممکن آخر کار ممکن میں بدل گیا۔ اس دریافت سے یہ معلوم ہوا کہ زمین کا مرکز کس طرح سے تابکاری تنزلی یا انحطاط (Radioactive Decay)کے نتیجے میں گرم ہوتا ہے  جو حقیقت میں زمین کو ارب ہا سال تک پگھلی ہوئی حالت میں رکھ سکتا ہے۔

    

١٩٢٠ء اور ١٩٣٠ء کے عشروں میں جدید راکٹ کے بانی  رابرٹ گوڈارڈ (Robert Goddard)  کو ان لوگوں نے  زبردست تنقید کا نشانہ بنایا  جو یہ سمجھتے تھے کہ راکٹ کبھی بھی خلاء میں سفر نہیں کر سکے گا۔ وہ طنز ا ً اس کی جدوجہد کو" گوڈارڈ کی حماقت" کہتے تھے۔ ١٩٢١ء میں  نیو یارک ٹائمز کے مدیر ڈاکٹر گوڈارڈ کے کام پر کچھ یوں برسے: "پروفیسر گوڈارڈ عمل اور رد عمل کے باہمی رشتے سے  بالکل بے خبر ہیں اور ان کو خالی خلاء کے بجائے کسی ایسی چیز کی اشد  ضرورت ہے جو رد عمل ظاہر کر سکے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے پاس وہ  بنیادی علم بھی موجود  نہیں ہے جو روزانہ  کالج میں  طالبعلموں کو بچوں کی طرح دیا جاتا ہے۔"  راکٹ بنانا ممکن نہیں  ہے ، مدیر نے خفگی سے کہا ،کیونکہ وہاں خلاء میں  ہوا موجود نہیں ہے جو اس کو اپنے خلاف دھکا دے سکے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ایک ریاست کے سربراہ  -  ایڈ لف ہٹلر  (Adolf Hitler)نے گوڈارڈ کے نا ممکنہ  راکٹ   کے مضمرات کا اندازہ لگا لیا ۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران ناممکن سمجھے جانے والے راکٹوں وی – ٢ نے موت و تباہی کی صورت پر لندن میں بارش کردی ، جس کے نتیجے میں انگلستان نے  تقریباً نے گھٹنے ٹیک ہی دیئے تھے۔  

 

ناممکنات پر غور و فکر نے شاید دنیا کی تاریخ کو ہی بدل دیا۔ ١٩٥٠ء کے عشرے میں یہاں تک کہ آئن سٹائن بھی  اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ جوہری بم(Atom Bomb) بنانا ناممکن ہے۔ طبیعیات دان جانتے تھے کہ آئن سٹائن کی مساوات کے مطابق  زبردست توانائی جوہر کے مرکزے میں موجود ہوتی ہے مگر ایک مرکزے سے نکلنے والی توانائی بہت ہی معمولی ہوتی ہے۔ مگر جوہری طبیعیات دان لیو زیلارڈ(Leo Szilard) نے ١٩١٤ءکے  ایچ جی ویلز(H.G. Wells)کے ناول ، "دا ورلڈ سیٹ فری" کو یاد رکھا ہوا تھا جس میں ویلز نے جوہری بم  کے بننے کی پیش گوئی کی تھی ۔ اس کتاب میں ویلز نے لکھا تھا کہ جوہری بم کا راز ایک طبیعیات دان نے ١٩٣٣ء میں پا لیا تھا۔ اتفاق کی بات تھی کہ زیلارڈ کے ہاتھ یہ ناول ١٩٣٢ءمیں لگا تھا۔ ناول کو پڑھ کر اس کو حوصلہ ملا ،اتفاق کی بات ہے کہ  جیسا کہ ویلز نے دو دہائی قبل جوہری بم بنانے  کی پیشن گوئی کی تھی ،زیلارڈ  پر یہ بات منکشف ہو گئی تھی  کہ کس طرح  سے انفرادی جوہر کی توانائی کو زنجیری تعامل(Chain Reaction) کے ذریعہ بڑھایا جاتا ہے  اس طرح سے ایک یورینیم کے مرکزے  کو توڑ کر حاصل کرنے والی توانائی کو دسیوں کھرب تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ زیلارڈ نے اس کے بعد تجربات کا ایک سلسلہ شروع کیا اور آئن سٹائن اور صدر فرینکلن روز ویلٹ  سے خفیہ گفت و شنید جاری رکھی جس کے نتیجے میں مین ہٹن پروجیکٹ وجود میں آیا  جہاں پہلا جوہری بم بنا۔

    

بار ہا  ہم نے دیکھا ہے کہ ناممکنات میں غور و فکر نے ہمارے لئے بالکل نئے دریچوں کو وا کیا ہے جس نے طبیعیات و کیمیا کی حدود کونہ صرف  وسیع  کر دیا بلکہ سائنس دانوں کو بھی  ناممکن کے مطلب کو تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔ جیسا کہ سر ولیم اوسائر(Sir William Osier) نے ایک دفعہ کہا تھا ،"ایک نسل کا فلسفہ دوسری نسل کے لئے  خرافات بن جاتی ہے ، اور گزرے ہوئے  کل کی بیوقوفی آنے والے کل کی دانائی  بن جاتی ہے۔"

 

کافی طبیعیات دان ایسے ہیں جو ٹی ایچ وائٹ  (T.H.White) کے اس  مشہور و معروف قول کو دہراتے ہیں جو انہوں نے دی ونس اینڈ دی فیوچر کنگ میں لکھا تھا ، "کوئی بھی چیز جو ممنوع نہیں ہے وہ لازمی ہوتی ہے !" طبیعیات میں ہم نے اس کا ثبوت ہر دور میں پایا ہے۔ تاوقتیکہ ہم کوئی ایسا طبیعیات کا قانون پا لیں  جو  واشگاف طور پر کسی نئے مظاہر کی مخالفت کرے۔(ایسا  کافی دفعہ نئے ذیلی جوہری ذرّات کو تلاش کرتے ہوئے  ہو چکا ہے۔) ایک منطقی نتیجہ ٹی ایچ وائٹ کے بیان کا شاید یہ ہو سکتا ہے "کوئی بھی چیز جو ناممکن نہیں ہے ، وہ لازمی ہے !"

 

 مثال کے طور پر ماہر کائنات ا سٹیفن ہاکنگ (Stephen Hawking)نے ایک نئے قانون طبیعیات کو دریافت کرنے کے بعد وقت میں سفر کو ناممکن ثابت کرنے کی کوشش کی۔ جس کو اس نے "قانون تحفظ تقویم"(Chronology Protection Conjecture)  کا نام دیا۔ بدقسمتی سے کافی برسوں کی سخت محنت کے بعد بھی وہ اپنے اس اصول کو ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ اس کے برخلاف درحقیقت طبیعیات دانوں نے اس بات کا عملی مظاہرہ کیا ہے کہ کوئی بھی قانون جو ہمیں وقت میں سفر کرنے سے روکے آج کے مروجہ ریاضی کے قوانین کی رو سے بہت دور ہے۔ کیونکہ آج کوئی بھی ایسا قانون موجود نہیں ہے جو ٹائم مشین بنانے سے روکے۔ لہٰذا طبیعیات دانوں کو نہایت سنجیدگی سے وقت میں سفر کے امکان کو لینا پڑا۔

 

اس کتاب کا مقصد ہے کہ ان ٹیکنالوجی کا جائزہ لیا جائے جن کو آج تو  ناممکن سمجھا جاتا ہے لیکن  ہو سکتا ہے وہ آنے والی عشروں سے لے کر صدیوں تک ہماری روزمرہ کی زندگی کا لازمی حصّہ بن جائیں۔

 

پہلے ہی ایک اور "ناممکن " سمجھی جانے والی ٹیکنالوجی کا" ممکن" ہونا ثابت ہو چکا ہے :دور دراز  منتقلی  (دور دراز اجسام کی بغیر کسی ذریعہ کے منتقلی  یعنی Teleportation - )  کا کامیاب تجربہ کم از کم جوہری پیمانے پر تو کیا جا چکا ہے۔ کچھ برسوں پہلے ہی طبیعیات دان یہ کہتے ہوئے پائے جاتے تھے کہ کسی بھی شے کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بغیر کسی واسطے کے بھیجنا کوانٹم طبیعیات کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اصل اسٹار ٹریک کا  مصنف طبیعیات دانوں کی تنقید سے اس  قدر ڈسا گیا کہ بالآخر اس کو ہائیزن برگ کا  آلہ تثویب(Heisenberg Compensators) کو اس میں شامل کرنا پڑا تاکہ وہ دور دراز منتقلی  میں موجود ایک نقص کو درست کر سکے۔ آج حالیہ دریافتوں کی بدولت ، طبیعیات دان جوہروں کو ایک کمرے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ  یا فوٹون کوآسٹریا کے دریائے  ڈینیوبی کے پار  منتقل کر سکتے ہیں۔

 

مستقبل کا اندازہ لگانا  

 

مستقبل کا اندازہ لگانا  ہمیشہ سے ہی مشکل رہا ہے خاص طور پر ایک صدی سے لے کر اگلے ہزار برسوں تک۔ طبیعیات دان نیلز بوہر (Neils Bohr)اس بات کی کافی تکرار کرتا تھا ،" اندازہ لگانا  بہت ہی مشکل کام ہے۔ خاص طور پر مستقبل کے بارے میں۔" مگر جولیس ورن  کے دور اور حالیہ عہد میں کافی بنیادی فرق ہے۔ آج طبیعیات کے بنیادی قوانین کو سمجھا جا چکا ہے۔ ششدر کر دینے والے تینتالیس درجے کے بنیادی قوانین  جو پروٹون کی اندرونی ساخت سے لے کر کائنات تک کا احاطہ کرتے ہیں آج طبیعیات دان ان کو اچھی طرح سے سمجھ چکے ہیں۔ نتیجتاً طبیعیات دان معقولیت کے ساتھ پر اعتماد طور پر  اندازہ لگا سکتے ہیں  کہ مستقبل میں ٹیکنالوجی  کس  طرح کی ہو سکتی ہیں  اور ساتھ ساتھ وہ ان ٹیکنالوجی کو بھی الگ کر سکتے ہیں  جن کا ممکن ہونا بعید از امکان ہے اور وہ بھی جو واقعی میں ناممکن ہیں۔

 

 اسی  لئے اس کتاب  میں ناممکن  چیزوں کو میں نے  تین حصّوں میں تقسیم کیا ہے۔

 

پہلی جماعت I کی ناممکنات ہے۔ یہ وہ ٹیکنالوجی ہیں جو آج تو ناممکن ہیں لیکن  یہ ہمارے جانے پہچانے قوانین طبیعیات سے رو گردانی کرتی ہوئی نظر نہیں آتی ہیں۔ لہٰذا ہو سکتا ہے کہ یہ اس صدی میں ہی ممکن ہو جائیں  یا شاید اگلی صدی میں کچھ بدلی ہوئی حالت میں ہمیں نظر آئیں ۔ اس جماعت میں جو ناممکنات  شامل ہیں وہ یہ ہیں : دور رہیّت (دور دراز فوری منتقلی )، ضد مادّہ سے چلنے والے انجن ، خیال خوانی(Telepathy) کی مختلف اقسام، دماغی طاقت سے چیزوں کو حرکت دینا(Psychokinesis) اور   غیر مرئیت (Invisibility)۔

 

دوسری جماعت وہ ہے جس کو میں نے جماعت II کی ناممکنات کہا ہے۔ یہ وہ ٹیکنالوجی ہیں جہاں طبیعیاتی دنیا کی ہماری سمجھ بوجھ ابھی شروع ہوئی ہے۔ اگر وہ کسی طرح سے ممکن ہو سکتی ہیں تو بھی  ان چیزوں کو پورا ہونے میں  ایک ہزار سال سے لے کر دسیوں لاکھ سال  تک لگ سکتے ہیں۔ اس میں ٹائم مشین ، اضافی خلاء میں سفر(Hyper Space Travel) کا امکان اور ثقف کرم(وارم ہول یعنی Wormhole -  ) کے ذریعہ وقت میں سفر شامل ہیں۔

 

آخری قسم کو میں نے جماعت III کی ناممکنات کا نام دیا ہے۔ یہ وہ ٹیکنالوجی ہیں جو مروجہ قوانین طبیعیات سے رو گردانی کرتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ایسی بہت ہی کم ٹیکنالوجی ہیں۔ اگر ان کا وقوع ہونا ممکن ہوا تو یہ ہماری طبیعیات کی سمجھ بوجھ میں بنیادی تبدیلی ہوگی۔

   

درجہ بندی اہم ہے ، میں یہ بات محسوس کرتا ہوں کہ سائنسی قصّوں میں بہت ساری ٹیکنالوجی کو سائنس دانوں نے اس لئے  رد کر دیا تھا کہ ان کا پورا ہونا ناممکن تھا  ، جب سائنس دان  کوئی ایسی بات کرتے ہیں تو ان کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ ٹیکنالوجی ہماری جیسی نوزائیدہ تہذیب کے لئے ناممکن ہیں۔ مثال کے طور پر خلائی مخلوق کا زمین پر چکر لگانا عام طور پر  ناممکن سمجھا جاتا ہے  کیونکہ ستاروں کے درمیان فاصلہ بہت وسیع ہے۔ واضح طور پر  بین النجم سفر(Interstellar Travel) ہمارے جیسی کسی بھی تہذیب کے لئے ناممکن ہے ، مگر  کوئی تہذیب ہم سے جو صدیوں یا ہزاروں سال آگے ہوگی اس کے لئے ایسا سفر ممکن ہو گا۔ لہٰذا ایسی کسی چیز کو "ناممکن" کا درجہ دینا  اہم ہے۔ وہ ٹیکنالوجی جو ہماری دور حاضر کی  تہذیب کے لئے ناممکن ہیں ،ضروری نہیں ہیں کہ وہ دوسری جدید قسم کی تہذیبوں کے لئے ناممکن ہوں۔ کسی بھی چیز کو ممکن اور ناممکن کی گروہ بندی کرنے  سے پہلے اس بات کو دھیان میں رکھنا ضروری ہے کہ ٹیکنالوجی  ایک ہزار برس سے لے کر دسیوں لاکھ سال  مستقبل میں ہم سے کس قدر جدید ہو سکتی ہیں۔

 

کارل ساگاں نے ایک دفعہ ہمیں دعوت فکر دیتے ہوئے  لکھا تھا،" کسی بھی تہذیب کے لئے دس لاکھ برس پرانے  ہونے کا کیا مطلب ہے ؟ ہمارے استعمال میں  ریڈیائی دوربینیں اور خلائی جہاز صرف چند عشروں سے ہی آنے شروع ہوئے ہیں ؛ ہماری فنی تہذیب صرف چند سو سال پرانی ہے۔۔۔ کوئی بھی جدید تہذیب جس کی عمر  دسیوں لاکھ سال کی ہو وہ ہم سے اتنا ہی آگے ہوگی جتنا کہ  آج ہم کسی بچے   یا لنگور سے آگے ہیں۔"

 

میں نے اپنی تحقیق میں پیشہ ورانہ طور پر اس بات پر اپنی توجہ کو مرکوز رکھا کہ کسی طرح سے آئن سٹائن کے خواب "ہر شئے کے نظریہ " کو مکمل کر سکوں۔ ذاتی طور پر میں اس بات میں کافی سرور محسوس کرتا ہوں کہ "آخری نظریہ "پر کام کروں جو حتمی طور پر دور حاضر کے سائنس کے  سب سے مشکل ناممکن سوالوں کا جواب دے سکے، جیسا کہ وقت میں سفر ممکن ہے یا نہیں ، بلیک ہول کے قلب میں کیا ہے ، یا بگ بینگ سے پہلے کیا ہوا تھا۔ میں اب بھی اپنے زندگی بھر کے ہمسفر "ناممکن" کے بارے میں خیالی پلاؤ پکا رہا ہوتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ وہ وقت کب آئے گا جب ان میں سے کچھ ناممکنات، "ممکن"  بن کر ہماری روزمرہ کی زندگی میں داخل ہو سکیں گی۔ 

میچو کاکو

1. غیر مرئی حفاظتی ڈھال (قوّتِ میدان)

1.  غیر مرئی حفاظتی ڈھال  (قوّتِ میدان)

  • جب کوئی ممتاز و جید سائنس دان کسی امر  کے ممکن ہونے کے  بارے میں رائے زنی کرے تو وہ یقینی طور پر صحیح ہوتا ہے۔ لیکن  جب وہ کہے کہ یہ امر  ناممکن ہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ غلط ہو۔
  • ممکنات کی حد کو جاننے کا ایک ہی طریقہ ہے  کہ ناممکنات  کی سرحد کو تھوڑا سا زیادہ پار کرنے کا جوکھم اٹھایا جائے۔
  • جادو او ر جدید ٹیکنالوجی میں امتیاز نہیں کیا جا سکتا۔

 

آرتھر سی کلارک  - تین قوانین (تھری لاز)

 

"خلائی جہاز کی حفاظتی ڈھال کو کھول دو!"

  کپتان کرک (Kirk) اسٹار ٹریک  (Star Trek) کی ان گنت اقساط میں اپنے عملے کو سب سے پہلا حکم یہ ہی دیتا ہوا نظر آتا  ہے۔ اس حکم کی تعمیل کے نتیجے میں غیر مرئی حفاظتی ڈھال (فورس فیلڈ [Force Field] یا قوّت میدان)  کو جہاز کے گرد حصار بنانے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ خلائی جہاز "انٹرپرائز"  (Enterprise) کو دشمن کی آگ سے بچایا جا سکے۔

اسٹار ٹریک میں غیر مرئی حفاظتی ڈھال (قوّتِ میدان) کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جنگ  میں بطور فریق اپنی طاقت  و حیثیت کا اندازہ خلائی جہاز میں غیر مرئی حفاظتی ڈھال کی باقی بچی ہوئی طاقت سے لگایا جاتا ہے۔ جب  بھی غیر مرئی حفاظتی ڈھال  کی طاقت میں کمی ہوتی ہے تو اس کے نتیجے میں "انٹرپرائز"  کو  زیادہ سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے یہاں تک کہ اس کا  ہتھیار ڈالنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔

 اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ غیر مرئی حفاظتی ڈھال (قوّتِ میدان) آخر میں ہے کیا چیز ؟ سائنسی قصّوں  میں تو یہ بیوقوف بنانے کی حد تک سادہ سی چیز ہوتی ہے۔ جس میں ایک پتلی سی غیر مرئی مگر غیر نفوذ پذیر رکاوٹ جو اپنی  جانب داغے ہوئے  لیزر اور راکٹوں کو  دوسری طرف موڑ دیتی ہے۔ پہلی نظر میں غیر مرئی حفاظتی ڈھال دیکھنے میں اس قدر سادہ  لگتی ہے جیسے کہ بس میدان جنگ میں جلد ہی بنا لی جائی گی۔ فلم میں اس کو دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ کسی بھی دن کوئی موجد اس  دفاعی غیر مرئی حفاظتی ڈھال  کو بنانے کا  اعلان کر دے گا۔ مگر سچائی اس سے کہیں زیادہ کڑوی  و تلخ ہے۔

جس طرح سے "ایڈیسن" (Edison) کے روشنی کے بلب نے جدید تہذیب میں انقلاب برپا کر دیا بالکل اسی طرح سے  قوّت میدان ہماری روز مرہ کی زندگی پر نہایت ہی عمیق اثر ڈال سکتی ہے۔ افواج  اس غیر مرئی حفاظتی ڈھال  کو اپنے جنگی  حربے کے طور استعمال کر سکتی ہے تاکہ وہ ایک غیر متداخل حفاظتی تہ دشمنوں کے میزائل اور گولیوں سے بچاؤ  کی بنا کر  ناقابل تسخیر ہو جائیں۔ اس بات کا قیاس کیا جا سکتا ہے  کہ غیر مرئی حفاظتی ڈھال کی ایجاد کے بعد پل، سپر ہائی وے  اور سڑکیں بٹن دباتے ہی بنائے جا سکیں گے۔ پلک جھپکتے میں  صحرا میں پورے کے پورے شہر  کھڑے کیے جا سکتے ہیں جہاں کی بلند و بالا عمارتیں غیر مرئی حفاظتی ڈھال  سے بنی ہوئی ہوں گی۔ شہروں کے اوپر کھڑی غیر مرئی حفاظتی ڈھال  سے شہری اس قابل ہو جائیں گے کہ اپنے موسموں کے اثر کو اپنی مرضی سے قابو  کر سکیں۔ ان موسمی اثرات میں  تیز ہوائیں، برفانی طوفان،  گرد و باراں کے طوفان  وغیرہ شامل ہیں۔ سمندر کے اندر محفوظ غیر مرئی حفاظتی ڈھال  کی چھتری تلے شہر بسائے جا سکیں گے۔ شیشہ، اسٹیل، اور موٹریں  سب کچھ اس سے بدل جائے گا۔ ان تمام خوش آئند باتوں کے باوجود  غیر مرئی حفاظتی ڈھال  کو کسی تجربہ گاہ میں بنانا سب سے مشکل ترین کام ہے۔ درحقیقت کچھ ماہرین  طبیعیات تو اس  کی خصوصیات کو تبدیل کئے بغیر بنانے کو ہی  ناممکن گردانتے  ہیں۔

 

مائیکل فیراڈے (Michael Faraday)

غیر مرئی حفاظتی ڈھال  کا خیال  انیسویں صدی کے عظیم برطانوی سائنس دان مائیکل فیراڈے کے کام سے نکلا۔ فیراڈے ایک متوسط سفید پوش  گھرانے میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ لوہار تھا۔ اس نے اپنی روزی روٹی کمانے کا سلسلہ ایک چھوٹے سے کام یعنی کتاب کی جلد بندی کرنے والے کی حیثیت سے ١٨٠٠ء صدی عیسوی میں شروع کیا۔ نوجوان فیراڈے اس دور کی اہم دریافتوں سے بہت زیادہ متاثر تھا جنہوں نے دو نئی طاقتوں – برق  اور مقناطیسیت -  کی پراسرار خصوصیات کو بے نقاب کیا تھا۔ فیراڈے نے ان موضوعات پر  جتنا کچھ مواد  جمع ہو سکتا تھا، جمع کیا۔ اس کے علاوہ وہ  رائل انسٹیٹیوٹ آف لندن کے پروفیسر ہمفرے ڈےوی (Humphrey Davy) کے لیکچر ز میں بھی حاضری دیتا تھا ۔

 ایک دن پروفیسر ڈے وی کی آنکھ کو ایک  کیمیائی حادثے کے نتیجہ میں زبردست نقصان پہنچا جس کے بعد انہوں نے  فیراڈے کو اپنا سیکرٹری رکھ لیا۔ فیراڈے نے رفتہ رفتہ  رائل انسٹیٹیوٹ میں موجود سائنس دانوں کا اعتماد حاصل کرنا شروع کیا۔ اگرچہ اکثر اس کو یہاں پر  تجربات کرنے منع کر دیا جاتا تھا  لیکن پھر بھی وہ کوشش کرکے اپنے کچھ اہم تجربات کرنے کی اجازت حاصل کر ہی لیتا تھا۔  وقت کے  ساتھ ساتھ پروفیسر ڈے وی اپنے نوجوان معاون کی زبردست  ذکاوت سے جلنے لگا. فیراڈے اس وقت تجرباتی حلقوں میں ایک ابھرتا ہوا ستارا بن کر پروفیسر ڈے وی کو گہنا رہا تھا۔ ١٨٢٩ء میں ڈے وی کی موت کے بعد فیراڈے کو اپنے چونکا دینے والے ان  تجربات کے سلسلوں کو جاری رکھنے  کی کھلی چھٹی مل گئی تھی جس  کے نتیجے میں  جنریٹر کی ایجاد ہوئی . جنریٹر کی ایجاد نے پورے کے پورے شہروں کو  فعال و روشن  کرکے  دنیا کی تہذیب کو بدل کر رکھ دیا تھا۔

  فیراڈے کی عظیم دریافتوں کی کنجی اس کی قوّت کے میدان تھے۔ اگر لوہے کا برادہ (Iron Filings) مقناطیس کے اوپر رکھا  جائے تو ہم دیکھیں گے کہ لوہے کے اس برادے نے مکڑی کے جالے جیسا نمونہ بنا کر خالی جگہ کو بھر دیا ہوگا۔ یہ فیراڈے کی قوّت کی لکیریں تھیں جو ترسیمی  (گرافیکلی) طور پر اس بات کو بیان کرتی ہے کہ کیسے برقی اور مقناطیسی قوّت میدان خالی جگہ میں نفوذ کر جاتے ہیں۔  اگر مثال کے طور پر کوئی زمین کے مقناطیسی میدانوں کو گراف کی شکل میں بنائے تو وہ دیکھے گا کہ لکیریں شمالی قطب سے نکل کر زمین کے جنوبی قطب میں جا کر گر رہی ہیں۔ اسی طرح سے اگر کوئی برق و باراں کے طوفان میں بجلی کی لکیروں کے برقی میدان کا گراف بنائے تو اس کو قوّت کی یہ لکیریں بجلی کش سلاخ کے اوپری حصّے پر مرتکز نظر آئیں گی۔ فیراڈے کے مطابق خالی خلاء بجائے خالی ہونے کے قوّت کی لکیروں سے بھری ہوئی ہوتی ہے جو دور دراز کے اجسام کو حرکت میں لا سکتی ہے۔ (فیراڈے نوجوانی میں  غربت کی وجہ سے ریاضی سے نابلد تھا  جس کے نتیجے میں اس کی نوٹ بک میں ریاضی کی مساوات بھری ہونے کے بجائے ہاتھ سے بنی ہوئی ان لکیروں کی قوّت کے خاکے تھے۔ حیرت انگیز طور پر ریاضی میں نا تجربہ کاری کے باوجود اس کی بنائی ہوئی لکیروں کی قوّت کے خوبصورت خاکے آج کی کسی بھی طبیعیات کی ٹیکسٹ بک میں ملتے ہیں۔ طبیعیات کی دنیا میں اس کو بیان کرنے کے لئے  اکثر تصاویر ریاضی کی مساوات سے  زیادہ اہم ہوتی ہیں۔)

مورخین نے  اس بات کو جاننے کے لئے کافی جستجو کی ہے کہ کس طرح سے فیراڈے اپنی دریافت "قوت میدان"  تک پہنچا  جو سائنس کی دنیا میں ایک نہایت ہی اہم تصوّر ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جدید طبیعیات کا اگر ہم نچوڑ لیں تو وہ فیراڈے کی غیر مرئی حفاظتی ڈھال  کی زبان میں ہی لکھا جائے گا۔ ١٩٨٣ء  اس نے غیر مرئی حفاظتی ڈھال  کی وہ اہم بات  دریافت کر لی تھی جس نے انسانی تہذیب کو ہمیشہ کے لئے بدل کر رکھ دیا تھا۔ ایک دن وہ بچوں کے مقناطیس کو کسی تار کے لچھے پر گھما رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ اس طریقے میں اس نے تار کو چھوئے بغیر اس میں برقی رو پیدا کر لی ہے۔ اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مقناطیس کے غیر مرئی میدان نے تار میں موجود الیکٹران کو خالی جگہ میں دھکا دے کر برقی رو پیدا کردی تھی۔    

فیراڈے کی دریافت کردہ قوّت کے میدان  جو پہلے فضول، بیکار اور بے مقصد سمجھے جاتے تھے وہ درحقیقت  اصل میں مادّے  کو حرکت دے سکتے تھے اور برق کو پیدا کر سکتے تھے۔ آج جس بجلی کی روشنی میں آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہیں اس نے شاید فیراڈے کی دریافت شدہ برقی مقناطیسیت سے توانائی حاصل کی ہو۔ ایک گھومتا ہوا مقناطیس ایک ایسا قوّت میدان پیدا کرتا ہے جو تار میں موجود الیکٹران کو حرکت دیتا ہے جس کے  نتیجے میں برقی رو پیدا ہوتی ہے۔ تار میں موجود یہ برق کسی بلب کو روشن کرنے کے کام آسکتی ہے۔ یہ ہی اصول اس بجلی کی پیداوار میں استعمال ہوتا ہے جن سے آج کی دنیا کے ہمارے شہر روشن ہیں۔ مثال کے طور پر ڈیم میں بہتا ہوا پانی ٹربائن میں موجود ایک بہت بڑے مقناطیس کو گھومنے پر مجبور کرتا ہے  جو تار میں موجود الیکٹران کو دھکیلتا ہے جس سے برقی رو وجود میں آتی ہے جسے ہائی وولٹیج تاروں کے ذریعہ ہمارے گھروں تک پہنچایا جاتا ہے۔

دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہ سکتے ہیں کہ مائیکل فیراڈے کی قوّت  کے میدان  وہی طاقت ہے جس نے جدید انسانی تہذیب کی بنیاد ڈالی۔ اس کی دریافت کی بدولت ہی ہم برقی بلڈوزر سے لے کر، آج کے کمپیوٹر، انٹرنیٹ، اور آئی پوڈ استعمال کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔

  فیراڈے کی قوّت میدان پچھلے ١٥٠ سال سے ماہرین طبیعیات کے لئے تشویق کا سبب بنی ہوئی ہیں۔ آئن سٹائن  اس کے کام سے اتنا متاثر تھا کہ اس نے اپنا قوّت ثقل سے متعلق نظریہ قوّت کے  میدان کی صورت میں پیش کیا۔ میں خود بھی فیراڈے کے کام سے بہت زیادہ متاثر ہوں۔ کافی سال پہلے میں نے کامیابی کے ساتھ ا سٹرنگ کا نظریہ فیراڈے کی قوّت میدان کی زبان میں لکھا  جس نے بعد میں چل کرا سٹرنگ کے میدان کے نظریہ کی بنیاد ڈالی۔ اگر کبھی طبیعیات میں کوئی یہ کہے کہ وہ لکیروں کی قوّت کی طرح سوچتا ہے تو اس کا مطلب  ایک زبردست داد دینا ہوتا ہے۔

 

چار قوّتیں

دو  ہزار برسوں پر محیط طبیعیات کی ایک شاہانہ دریافت قدرت کی بنیادی  چار قوّتوں کو پہچاننا اور ان کو ایک دوسرے سے الگ کرنا ہے جو کائنات پر راج کر رہی ہیں۔ یہ سب کی سب میدان کی اس زبان میں بیان کی جا سکتی ہیں جس کو فیراڈے نے متعارف کروایا تھا۔ بدقسمتی سے ان میں سے کسی میں بھی وہ قوّت میدان  والی خصوصیات موجود نہیں ہیں جو زیادہ تر سائنس فکشن فلموں میں بیان کی جاتی ہیں۔ وہ طاقتیں یہ ہیں۔

١۔ کشش ثقل، ایک خاموش طاقت ہے جو ہمارے قدموں کو زمین کے اوپر رکھنے میں مدد دیتی ہے، یہ زمین اور ستاروں کو ٹوٹنے سے بچاتی ہے اور نظام شمسی اور کہکشاؤں کو باندھ کر رکھتی ہے۔ قوّت ثقل کے بغیر ہم اس گھومتے ہوئے سیارے کی بدولت، زمین کی سطح سے اٹھا کر  خلاء میں ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پھینک دیئے جائیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ قوّت کے میدان  کی وہ خصوصیات جن کو سائنس فکشن فلموں میں دکھایا جاتا ہے، قوّت ثقل  کی خصوصیات  اس کے بالکل برعکس ہوتی ہیں۔ قوّت ثقل کشش رکھتی ہے دھکیلتی نہیں، جبکہ نسبتاً یہ بہت ہی زیادہ نحیف ہوتی ہے اور یہ فلکیاتی بے انتہاء فاصلوں پر کام کرتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ اس پتلی، چپٹی، غیر نفوذ پذیر  رکاوٹ، جو لوگ سائنس فکشن میں پڑھتے اور دیکھتے ہیں ،سے بالکل ہی مختلف ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر  پورے سیارہ زمین کی کشش ثقل ایک " پر"  کو نیچے گرنے پر مجبور کرتی ہے مگر ہم اپنی صرف انگلی سے اس " پر"  کو زمین کی ثقلی قوّت سے آزاد کر کے اٹھا لیتے ہیں۔ اس دوران  ہماری انگلیوں نے اس پورے سیارے کی قوّت ثقل کے مخالفت میں کام کیا ہوتا ہے  جس کا وزن ٦٠٠  کھرب کھرب کلوگرام ہے۔

٢۔ برقی مقناطیسی قوّت، وہ طاقت جس نے ہمارے شہروں کو روشن کیا ہوا ہے۔  لیزر، ریڈیو، ٹیلی ویژن، جدید الیکٹرانکس، کمپیوٹرز، انٹرنیٹ، برقی رو، مقناطیسیت  سب کے سب برقی مقناطیسی قوّت کے کرشمے ہیں۔ شاید ہم یہ بات کہہ  سکتے ہیں کہ انسان کی دریافت کردہ طاقتوں میں یہ سب سے زیادہ مفید ہے۔ قوّت ثقل کے برخلاف یہ کھینچنے اور دھکیلنے دونوں کے کام کرتی ہے۔ اس کے باوجود کافی ایسی وجوہات ہیں جن کے سبب  یہ قوت میدان کے طور پر کام کرنے کے لئے بالکل نامناسب قوّت ہے۔ یہ آسانی سے معتدل ہو سکتی ہے۔ پلاسٹک اور دوسرے حاجز مادّے آسانی سے طاقتور مقناطیسی میدان یا برقی میدان  میں سے گزر سکتے ہیں۔ پلاسٹک کا کوئی بھی ٹکڑا مقناطیسی میدان کی طرف پھینکا جائے تو وہ آسانی سے اس کو پار کر لے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ برقی مقناطیسی قوّت لمبے فاصلوں سے کام کرتی ہیں  اور آسانی کے ساتھ کسی سطح پر مرتکز نہیں ہوتی۔ برقی مقناطیسی قوّت کے قوانین جیمز کلارک میکس ویل (James Clerk Maxwell)نے وضع کر دیئے ہیں  جو مساوات کی شکل میں ہیں اور یہ مساوات کسی بھی قوّت  کے میدان کا  حل نہیں بتاتی ہے۔ 

٣ اور ٤۔ کمزور اور مضبوط نیوکلیائی قوّتیں۔ کمزور نیوکلیائی قوّت  تابکاری کے انحطاط کے سلسلے کی طاقت ہے۔ یہ وہ تابکار طاقت ہے جس نے زمین کے قلب کو گرم کیا ہوا ہے۔ یہ ہی وہ طاقت ہے جو آتش فشانوں، زلزلوں، اور بر اعظموں کے بہنے کی ذمہ دار ہے۔ مضبوط نیوکلیائی قوّت ایٹم کے مرکزے کو تھام کر رکھتی  ہے۔ سورج اور ستاروں کی توانائی  نیوکلیائی قوّت سے ہی  پیدا ہوتی ہے جو کائنات کو روشن کرنے کی ذمہ دار ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ نیوکلیائی قوّتیں بہت ہی کم علاقے میں عمل پیرا ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں یہ صرف مرکزے کے اندر ہی کام کر سکتی ہیں۔ کیونکہ یہ مرکزے کا ساتھ بہت زیادہ جڑی ہوئی ہوتی ہے لہٰذا اس میں توڑ جوڑ کرنا نا ممکن کی حد تک مشکل  کام ہے۔ اس وقت تو ہمارے پاس اس قوّت کو استعمال کرنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم ایٹم کے ذیلی ذرّات دوسرے ایٹموں پر مار کر  پھاڑ کر الگ کریں  یا  اس کا استعمال  نیوکلیائی بم کو پھاڑنے کریں۔

اگرچہ قوّت کے میدان جن کا استعمال  سائنس فکشن میں دکھایا جاتا ہے کسی بھی مروجہ طبیعیات کے قوانین  سے مطابقت نہیں رکھتی ہیں۔ اب بھی ایسے کافی زیادہ نقائص  موجود ہیں جو کسی بھی قوّت کے میدان کی تخلیق میں آڑے آئیں گے۔ سب سے پہلے تو ایک پانچویں طاقت موجود ہو سکتی ہے جسے ابھی تک کسی بھی تجربہ گاہ میں نمودار ہوتا ہوا نہیں دیکھا گیا۔ مثال کے طور پر  ایسی کوئی بھی قوّت شاید فلکیاتی فاصلوں کے بجائے چند انچ سے لے کر چند فٹ تک کام کر سکے۔ (اس پانچویں قوّت کو ناپنے کی ابتدائی  کوششوں نے منفی نتائج ہی دیئے۔)

   دوسرے یہ بھی ممکن ہو سکتا ہے کہ پلازما کا استعمال کرتے ہوئے قوّت میدان کی کچھ خصوصیات کو بنایا جا سکے۔  پلازما " مادّے کی چوتھی" حالت ہے۔ ٹھوس، مائع  اور گیس مادّے کی وہ تین حالتیں ہیں جن سے ہم زیادہ شناسا ہیں، مگر کائنات میں مادّے کی سب سے زیادہ پائی جانے والی حالت پلازما کی ہے، جو کہ برق پارہ (جس کو آئن اور روان بھی کہتے ہیں) ایٹموں پر مشتمل گیس ہوتی ہے۔ کیونکہ پلازما میں ایٹم علیحدہ علیحدہ توڑ دیئے جاتے ہیں، جس میں الیکٹران ایٹموں سے اتار لئے جاتے ہیں، اس لئے  ایٹم برقی طور پر بار دار ہوتے ہیں لہٰذا ان کو آسانی سے برقی اور مقناطیسی میدانوں میں توڑا جوڑا جا سکتا ہے۔ پلازما کائنات میں دکھائی دینے والا سب سے زیادہ مادّہ ہے۔ سورج، ستارے، اور بین النجم گیسیں سب کے سب پلازما سے بنی ہوئی ہیں۔  ہم پلازما سے اس لئے زیادہ شناسا نہیں ہیں  کیونکہ یہ زمین پر زیادہ نظر نہیں آتا ہے۔ مگر ہم اس کو کڑکتی بجلی میں، سورج میں اور اپنے پلازما  ٹیلی ویژن کے اندر دیکھ سکتے ہیں۔

 

پلازمے کی کھڑکیاں

جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ جب  گیس کے درجہ حرارت کو کافی بڑھایا  جائے تو  پلازما بنتا ہے۔ جس کو مقناطیسی اور برقی میدان کے ذریعہ  موڑا اور ڈھالا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اس کو کسی چادر (شیٹ) یا  کھڑکی کی شکل میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ مزید براں اس پلازما کی کھڑکی کو ہوا کو خالی جگہ سے علیحدہ کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اصولی طور پر اس پلازما کو خلائی جہاز میں موجود ہوا کو باہر نکلنے سے روکنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں ایک شفاف نقطہ اتصال باہری خلاء اور خلائی جہاز کے درمیان بنایا جا سکتا ہے۔

اسٹار ٹریک ٹیلی ویژن فلم کے سلسلے میں ایک ایسی قوّت میدان کو شٹل بے کو باہری خلاء سے الگ کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ شٹل بے میں ایک چھوٹی شٹل کرافٹ  موجود ہوتی ہے۔ اس طریقے میں نا صرف چالاکی سے  مداریوں سے پیسے بچائے جا سکتے ہیں بلکہ اس کے نتیجے میں ایک ایسا آلہ بھی حاصل کیا  جا سکتا ہے جو کہ بنانا ممکن ہو۔

پلازما کی کھڑکی  ١٩٩٥ء میں بروک ہیون نیشنل لیبارٹری  جو کہ لونگ آئی لینڈ  نیو یارک میں واقع ہے وہاں پر کام کرنے والے  ایک ماہر طبیعیات ایڈی ہرش کاوچ (Ady Hershcovitch) نے ایجاد کی۔ اس نے ایک مسئلے سے نمٹنے  کے لئے اس  کھڑکی کو بنایا تھا۔  وہ مسئلہ  یہ تھا کہ کس طرح سے  دھاتوں کو الیکٹران کی کرنوں سے ویلڈ کیا جائے۔ ایک ویلڈر کی ايسيٹيلِيَن(Acetylene) کی ٹارچ  میں گرم گیسوں کے دھماکے سے دھات کو پگھلایا جاتا ہے اور پھر اس  پگھلی ہوئی دھات سے ٹکڑوں کو جوڑا جاتا ہے۔ دوسرے عام طریقوں کے مقابلے میں  الیکٹران کی کرن دھاتوں کو تیزی، صفائی اور سستے میں ویلڈ کر لیتی ہے۔ لیکن الیکٹران کی کرن کے ساتھ ویلڈنگ کرنے میں ایک مسئلہ جڑا ہوا تھا۔ وہ مسئلہ یہ تھی  کہ ویلڈنگ صرف خالی جگہ میں ہی  ہو سکتی تھی ۔ اس ویلڈنگ کے طریقے میں ایک خلاء کا خالی ڈبہ  جو ایک کمرے جتنا ہو بنا نا پڑ تا ہے  یعنی اس  طرح کی ویلڈنگ کے لوازمات کافی زحمت زدہ ہیں۔

  ڈاکٹر ہرش کا وچ نے اس مسئلہ کا حل پلازما کی کھڑکی ایجاد کر کے نکال لیا۔ صرف تین  فٹ اونچی اور ایک فٹ سے بھی کم قطر میں پلازما کی کھڑکی گیس  کے درجہ حرارت کو بارہ ہزار فارن ہائیٹ درجہ تک جا  پہنچاتا ہے جس کے نتیجے میں پلازما، برقی اور مقناطیسی میدان کے درمیان قید ہو جاتا ہے۔ یہ ذرّات دباؤ ڈالتے ہیں  جیسا کہ کسی بھی گیس میں ہوتا ہے، جو ہوا کو خالی چیمبر میں جانے سے روکتا ہے، جس سے ہوا کو خالی جگہ سے علیحدہ کیا جا سکتا ہے۔(جب آرگان(Argon)  گیس پلازما کی کھڑکی میں استعمال کی جاتی ہے تو یہ نیلے رنگ میں دہکتی ہے بعینہ  ویسے ہی جیسے اسٹار ٹریک میں غیر مرئی حفاظتی ڈھال   میں نظر آتی ہے۔) 

پلازما کی کھڑکی کا استعمال خلائی صنعت و سیاحت میں کافی وسیع پیمانے پر ہے۔ کئی موقعوں پر صنعتکاری کے عمل میں خرد بناوٹوں(Microfabrication)  اور صنعتی عمل کی  خشک نقش کاری(Dry Etching)  کے لئے خالی جگہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن  خالی جگہ میں کام کرنا ایک  مہنگا عمل  ہے۔ اب  پلازما کی کھڑکی کی ایجاد کے بعد اس  کے ذریعہ کوئی بھی سستے طریقے میں ایک بٹن سے پلک جھپکتے میں خالی خلاء کو بنا سکتا ہے۔

 کیا پلازما کی کھڑکی کو نفوذ ناپذیر ڈھال بنانے کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے؟ کیا وہ کسی توپ سے داغے گئے  گولے کو روکنے کے قابل ہے؟ مستقبل میں ہم اس بات کی امید کر سکتے ہیں کہ پلازما کی کھڑکی بہت زیادہ طاقتور اور اونچے درجہ حرارت والی ہو سکتی ہے،  جو باہر سے آنے والی  کسی  بھی چیز کو آسانی سے نقصان پہنچا سکتی ہے یا  پھر اسے  تحلیل بھی کر سکے گی۔ بہرحال  اس قسم کی غیر مرئی حفاظتی ڈھال  جیسی کہ سائنس فکشن فلموں میں دکھائی جاتی ہے بنانے کے لئے کئی قسم کی مہارتوں کو جمع کرکے تہ در تہ رکھ کر ہی ایسی کوئی حقیقی چیز بنائی جا سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہر تہ اس قابل نہیں ہو کہ توپ کے گولے کو روک سکے مگر  تمام تہیں مل کر شاید اس کو روک سکیں گی۔

 ہو سکتا ہے کہ باہری  پرت زبردست بار (Charge)والی پلازما کی کھڑکی ہو جس کا درجہ حرارت اس قدر زیادہ ہوگا کہ وہ دھاتوں کو پگھلا سکے گی۔ دوسری تہ میں اونچے درجے کی توانائی والی لیزر کی کرنیں ہوں گے۔ اس تہ میں ہزاروں لیزر کی کرنیں آڑھی ترچھی ہو کر ایک جالی کی سی صورت بنا دیں گی جو تہ میں سے گزرنے والے کسی بھی جسم  کو گرم کرکے تحلیل کر دیں گی۔ میں لیزر پر اگلے باب  میں مزید  بات کروں گا۔

اور اس لیزر کے پردے کے پیچھے ایک کاربن نینو ٹیوبز سے بنی جالی بھی موجود ہو سکتی  ہے۔ کاربن نینو ٹیوبز ننھی  سی نلکیاں ہوتی ہیں جو کاربن کے انفرادی ایٹموں سے مل کر بنتی ہیں ان کی چوڑائی  ایک ایٹم جتنی ہوتی ہے اور یہ سٹیل سے کئی گنا زیادہ مضبوط  ہوتی ہیں۔ کاربن نینو ٹیوبز کی لمبائی کا ابھی تک کا عالمگیر ریکارڈ صرف ١٥ ملی میٹر لمبا ہی ہے۔ مگر اس بات کا تصوّر کیا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں ہم اپنی مرضی کے مطابق  ان کو لمبا  بنا سکیں گے۔ فرض کریں کہ کاربن نینو ٹیوبز  کو اس جال میں پرویا  جا سکتا ہو  تو اس کے ذریعہ ایک ایسی انتہائی طاقتور اسکرین بنائی جا سکے گی  جو زیادہ تر چیزوں کو دور پھینکنے کے قابل ہوگی۔ یہ اسکرین ایک طرح سے غیر مرئی ہوگی  کیونکہ ہر کاربن نینو ٹیوب صرف ایک ایٹم پر ہی مشتمل ہوگی اس کے باوجود  کاربن نینو ٹیوبز پر مشتمل یہ جال کسی بھی دوسرے مادّے سے بنے ہوئے جال سے زیادہ مضبوط  ہوگا۔

لہٰذا پلازما کی کھڑکی کے ساتھ مل کر، لیزر کا پردہ  اور کاربن نینو ٹیوبز کی اسکرین ایک غیر مرئی دیوار بنا سکتی ہیں جو ایک طرح سے کافی سارے اجسام کے لئے پار کرنا تقریباً ناممکن ہی ہوگا۔

 اس کے باوجود یہ مختلف تہوں پر مشتمل حفاظتی ڈھال بھی مکمل طور پر سائنس فکشن میں دکھائی جانے والی قوّت میدان  کی خصوصیات پوری نہیں کر پائے  گی۔ کیونکہ یہ شفاف ہوں گی اور لیزر کی گزرنے والی  کرنوں کو نہیں روک پائے گی۔ لہٰذا ایک ایسی جنگ میں جہاں لیزر کے گولے داغے جا رہے ہوں، مختلف تہوں پر مشتمل حفاظتی ڈھال بیکار ہو جائے گی۔

 لیزر کی شعاعوں کو روکنے کے لئے ڈھال کو ایک جدید ضیا لونی (Photo chromatics) طریقے   کی ضرورت ہوگی۔ یہ وہ عمل ہے جو دھوپ سے بچنے کے لئے چشموں کو بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طریقے میں بننے والے  دھوپ کے چشمے  بالائے بنفشی شعاعوں(Ultra Violet Radiation) کے پڑتے ہی گہرے رنگ کے ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ ضیا لونی (فوٹو کرومٹکس) کی بنیاد ان سالموں پر ہوتی ہے جو کم از کم دو حالتوں میں رہ سکتے ہیں۔ اپنی ایک حالت میں وہ سالمات  شفاف ہوتے ہیں مگر جب ان پر بالائے بنفشی شعاعیں پڑتی ہیں تو وہ فوراً دوسری حالت میں آ جاتے ہیں  جو کہ غیر شفاف ہوتی ہے۔

 ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں ہم ایک دن اس قابل ہو جائیں کہ نینو ٹیکنالوجی (ٹیکنالوجی) کو استعمال کرتے ہوئے ایک ایسا مادّہ پیدا کر لیں جو کاربن نینو ٹیوبز  جتنا  مضبوط ہو اور جس میں وہ  بصری خصوصیات موجود ہوں جو ضیا لونی میں ہوتی ہیں تاکہ جب اس پر کوئی لیزر کی شعاع پڑے  تو وہ تبدیل ہو جائے۔ اس طرح ایک ایسی ڈھال بن سکے گی جو اس صلاحیت کی حامل ہوگی کہ لیزر کی بوچھاڑ کو روکنے کے ساتھ ساتھ ذرّات کی بوچھاڑ اور توپ کے گولے کو بھی روک سکے۔ فل الحال ایک ایسا ضیا لونی (فوٹو کرومٹکس) جو لیزر کی شعاع کو روک سکے وجود نہیں رکھتا۔

 

مقناطیسی ارتفاع(Magnetic Levitation

سائنس افسانوی  فلموں میں قوّت میدان کا مقصد شعاعی گنوں کی بوچھاڑ کو پرے دھکیلنے کے علاوہ ایک ایسی مچان کا بھی کردار ادا کرنا تھا جو قوّت ثقل کو للکار  سکے۔" بیک ٹو دا فیوچر"  فلم میں مائیکل جے فاکس  (Micheal J Fox)  ایک معلق تختے  (ہوور بورڈ)  پر سواری کرتا ہے جس کی شکل ا سکیٹ بورڈ سے ملتی ہے بس صرف فرق اتنا ہوتا ہے کہ وہ سڑک سے اوپر معلق ہو  کر چلتا ہے۔ اس قسم کا آلہ جو  قوّت ثقل کے مخالف کام کرتا ہو  ہمارے جانے پہچانے طبیعیاتی قوانین کے تحت بنانا ممکن ہے(اس بات کی مزید تفصیل باب نمبر ١٠ میں بیان کی جائے گی۔) لیکن اس طرح کے مقناطیسی افزوں معلق تختے  اور معلق  کاریں  مستقبل میں حقیقت کا روپ دھار سکتی ہیں  بشرط یہ کہ ہم بڑے اجسام کو اپنی مرضی سے ہوا میں اڑا سکیں۔ مستقبل میں اگر کمرے کے عام درجہ حرارت پرفوقی موصل (سپر کنڈکٹر) حقیقت کا روپ دھار لیں تو مقناطیسی میدان کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے چیزوں کو ہوا میں معلق کرنا ممکن ہو سکے گا۔

 اگر ہم دو مقناطیسی پٹیاں ایک دوسرے کے قریب  رکھیں جس میں دونوں کے شمالی قطبین ایک دوسرے کے مخالف ہوں  تو وہ دونوں مقناطیس ایک دوسرے کو دھکیلیں گے(اگر ہم مقناطیسی پٹی کو گھما کر اس طرح سے دوسرے مقناطیسی بار کی طرف کر دیں کہ اس کا جنوبی قطب دوسرے کے شمالی قطب کی طرف ہو جائے تو وہ ایک دوسرے کو کھینچ لیں گے۔) اس اصول کا استعمال کرتے ہوئے جس میں ایک جیسے قطبین  ایک دوسرے کو  دھکیلتے ہیں  زمین سے بڑی بھاری چیزیں اٹھائی  جا سکتی ہیں۔ پہلے ہی کافی قومیں جدید مقناطیسی معلق  ریل گاڑیاں (میگ لو ریلیں)بنا چکی ہیں جو عام مقناطیس کا استعمال کرتے ہوئے ریل کی پٹری سے تھوڑا سا  اوپر رہتے ہوئے ہوا میں معلق  رہتی ہیں۔ اس طرح سے انھیں رگڑ کی قوّت سے نبرد  آزما ہونا نہیں پڑتا  اور وہ ہوا کے اوپر تیرتی رہتی ہیں جس کے نتیجے میں ان کی رفتار  سابقہ ریل گاڑیوں کی  رفتار سے کہیں زیادہ ہے۔

١٩٨٤ء میں  دنیا کی پہلی تجارتی خودکار  معلق ریل (میگ لو ٹرین)  نے اپنا نظام برطانیہ میں  چلانا شروع کیا جو برمنگھم ایئرپورٹ سے شروع ہو کر قریبی برمنگھم ریلوے ا سٹیشن  تک جاتی تھی۔ میگ لو ریل جرمنی، جاپان اور کوریا میں بھی چلائی گئیں اگرچہ ان میں سے زیادہ تر کو تیز سمتی رفتار  کے لئے ڈیزائن نہیں کیا گیا تھا۔ سب سے پہلی تجارتی میگ لو ریل جو تیز سمتی رفتار پر چلنے کے لئے بنائی گئی ہے وہ انیشل آپریٹنگ سیگمنٹ (آئی او ایس)ڈیمونسٹریشن  لائن ان شنگائی  ہے جس کی زیادہ سے زیادہ رفتار ٢٦٨ میل فی گھنٹہ ہے۔ جاپانی میگ لو ریل نے یاما ناشی(Yamanashi) میں٣٦١ میل فی گھنٹہ کی  سمتی رفتار حاصل کر لی ہے جو عام پہیے والی ریل سے زیادہ ہے۔ 

مگر یہ میگ لو گاڑیاں بہت زیادہ مہنگی ہیں۔  ان کی استعداد کو بڑھانے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ فوقی موصل کا استعمال کیا جائے۔ جب فوقی موصل کو مطلق صفر درجہ حرارت  کے قریب  ٹھنڈا کیا جاتا ہے   تو ان کی  برقی مزاحمت ختم ہو جاتی ہے۔فوقی موصل ١٩١١ء میں ہیک اونس(Heike Onnes) نے دریافت کیا تھا۔ اگر کچھ مادّے ٢٠ کیلون درجہ حرارت سے نیچے ٹھنڈے کیے جائیں تو ان میں موجود ساری برقی مزاحمت ختم ہو جاتی ہے۔ عام طور سے جب ہم کسی دھات کو ٹھنڈا کرتے ہیں تو اس کی مزاحمت بتدریج کم ہوتی رہتی ہے(یہ اس لئے ہوتا ہے کیونکہ ایٹموں کی بے ترتیب ارتعاش الیکٹران کے بہاؤ میں مزاحم ہوتی ہے۔ درجہ حرارت کے کم کرنے پر ایٹموں کی یہ حرکت کم ہو جاتی ہے  لہٰذا برق کم مزاحمت کے ساتھ گزر سکتی ہے۔) اونس کو اس وقت بہت ہی حیرت ہوئی جب اس نے دیکھا کہ کچھ مادوں میں یہ مزاحمت  ایک دم  فاصل درجہ حرارت (Critical Temperature)پر جا کر ختم ہو گئی۔

ماہرین طبیعیات نے اس دریافت کی اہمیت کو فوراً سمجھ لیا تھا۔ برقی موصل کی تاروں میں توانائی کی اچھی خاصی مقدار بجلی کی لمبے فاصلوں میں  ترسیل کے دوران  ضائع ہو جاتی ہے۔ اگر اس ساری مزاحمت کو ختم کر دیا جائے تو برقی قوّت تقریباً مفت میں ہی پہنچائی جا سکتی ہے۔ در حقیقت بجلی اگر تاروں کے لچھے میں بنا کر چھوڑ دی جائے تو بجلی دسیوں لاکھوں سال تک تاروں کے لچھے  میں کم ہوئے بغیر ہی  گھومتی رہے گی۔ مزید براں زبردست طاقت کے مقناطیس تھوڑی سی کوشش کے  ذریعہ اس عظیم برقی رو  سے بنائے جا سکتے ہیں۔ ان مقناطیسوں کے ذریعہ زبردست وزن آسانی کے ساتھ اٹھائے جا سکتے ہیں۔

اپنی ان تمام تر معجزاتی طاقت کے باوجود فوق ایصالیت کا مسئلہ یہ ہے کہ ان جسیم مقناطیسوں کو زبردست ٹھنڈے مائع میں ڈبو کر رکھنا بہت ہی زیادہ مہنگا پڑتا ہے۔ مائع کو زبردست ٹھنڈا رکھنے کے لئے  بہت بڑے ریفریجریشن پلانٹس درکار ہوں گے جس کے نتیجے میں بننے والے کامل موصل مقناطیس  بہت زیادہ مہنگے پڑیں گے۔

ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب ماہرین طبیعیات اس قابل ہو جائیں گے کہ عام   کمرے کے درجہ حرارت پر ٹھوس جامد طبیعیات (Solid-State- Physics)کی دنیا کے شجر ممنوع  فوقی موصل  کو بنانے سکیں۔ فوقی موصل کی تجربہ گاہ میں ایجاد دوسرا صنعتی انقلاب برپا کر دے گا۔ طاقتور مقناطیسی میدان جو گاڑیوں اور ریل گاڑیوں کو اٹھانے کے قابل ہوں گے اس قدر سستے ہو جائیں گے کہ زمین کے اوپر منڈلاتی ہوئی گاڑیاں  معاشی طور پر قابل عمل ہو سکیں گی۔ عام  کمرے کے درجہ حرارت پر کام کرتے ہوئے فوقی موصل، بیک ٹو دی فیوچر، منور ٹی رپورٹ(Minority Report)  اور اسٹار وارز  میں دکھائی جانے والی اڑتی ہوئی گاڑیاں  حقیقت کا روپ دھار سکتی ہیں۔

حقیقت میں  کوئی بھی فوقی موصل سے بنی ہوئی بیلٹ پہن کر بغیر کچھ کئے آسانی کے ساتھ زمین سے اٹھ کر ہوا میں معلق ہو  سکتا ہے۔ اس بیلٹ کے سہارے کوئی بھی سپرمین کی طرح اڑ سکتا ہے۔ عام کمرے کے درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل اس قدر غیر معمولی ہیں کہ یہ کئی سائنسی افسانوی  ناولوں میں بھی دکھائے دیئے ہیں (جیسا کہ  رنگ ورلڈ سیریز  جو ١٩٧٠ء میں لیری نیوِن [Larry Niven]  نے لکھی تھی۔)

کئی دہائیوں سے ماہرین طبیعیات عام  کمرے کے درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل کی تلاش میں ہیں  جس میں انھیں ابھی تک ناکامی ہوئی ہے۔ ایک مادّے کے بعد دوسرے مادّے کو جانچنے کا  یہ کام  بہت زیادہ تھکا دینے والا اور  آر یا پھر پار والا کام ہوتا ہے۔ ١٩٨٦ء میں ایک مادّے کی نئی جماعت تلاش کر لی گئی جو مطلق صفر درجے سے ٩٠ ڈگری اوپر فوقی موصل جیسا برتاؤ کرنے لگتی ہے۔ اس مادّے کو اونچے درجے کے فوقی موصل کا نام دیا گیا تھا۔ اس دریافت نے طبیعیات کی دنیا میں سنسنی پھیلا دی۔ ایسا لگا جیسے کہ نلکا کھول دیا گیا ہو۔ ہر گزرتے مہینے، ماہرین طبیعیات نے ایک کے بعد ایک  کم درجہ حرارت پر فوقی موصل  حاصل کرنے کا ریکارڈ توڑنے کی دوڑ لگا دی۔ تھوڑے عرصے کے لئے ایسا لگا کہ شاید کمرے کے درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل  سائنسی  افسانوی  ناولوں  میں سے چھلانگ  لگا کر حقیقت کی دنیا میں آ جائیں گے۔ مگر کچھ سال  کی تیزی کے بعد اونچے درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل پر تحقیق میں کمی ہو گئی۔

سر دست  تو اونچے درجے پر فوقی موصل کا ریکارڈ جس مادّے کو حاصل ہے اس کا نام ہے "مرکری تھلیم بیریم کیلشیم کاپر آکسائڈ " جو فوقی موصل منفی ١٣٥ ڈگری پر بن جاتا ہے۔ عام  کمرے کے درجہ حرارت سے یہ اب بھی کافی زیادہ ہے  اس کو کمرے کے درجہ حرارت پر آنے میں ابھی کافی لمبا سفر طے کرنا پڑے گا۔ مگر یہ منفی ١٣٥ ڈگری  درجہ حرارت کافی اہم ہے۔ نائٹروجن منفی ١٩٦ ڈگری درجہ حرارت میں مائع کی حالت میں بدل جاتی ہے اور اس کی قیمت عام بکنے والے دودھ جتنی ہی ہوتی ہے۔ لہٰذا عام مائع نائٹروجن ان اونچے درجہ حرارت والے فوقی موصل کو ٹھنڈا کرنے کے لئے سستے میں استعمال کی جا سکتی ہے(بے شک کمرے کے درجہ حرارت پر فوقی موصل کو کام کرنے کے لئے کسی بھی قسم کی ٹھنڈ کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔)

کافی شرمندگی کی بات  ہے کہ ابھی تک کوئی بھی نظریہ  اونچے درجے والے فوقی موصل کی خصوصیات  کو بیان نہیں کر سکا۔  نوبل پرائز اس بات کی انتظار میں ہے کہ کوئی اولوالعزم ماہر طبیعیات اس بات کو بیان کر سکے کہ کس طرح سے یہ اونچے درجہ والی فوقی موصل کام کرتے ہیں۔(یہ اونچے درجے حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل ایٹموں کی جداگانہ تہوں کو لگا کر بنائے جاتے ہیں۔ کئی ماہر ین طبیعیات نے اس بات کو پیش کرنے کی کوشش کی کہ ایسا ممکن ہو سکتا ہے کہ سفالی[سرامک] مادّے کی تہیں  الیکٹران کے ایک تہ سے دوسرے تہ تک کے آزادانہ بہنے کو ممکن بناتی ہوں جس کے نتیجے میں یہ فوقی موصل بن جاتے ہوں۔ لیکن یہ عمل  ہوبہو کیسا ہوتا ہے یہ ابھی تک ایک معمہ ہی ہے۔)

بدقسمتی سے اس علم کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہی ماہرین طبیعیات نئے اونچے درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل کی تلاش میں اسی آر یا پھر پار والے عمل کا استعمال کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہو سکتا ہے کہ  افسانوی عام  کمرے کے درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل کل دریافت ہو جائے، یا پھر اگلے سال یا پھر کبھی نہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس کو حاصل کرنے میں کتنا وقت لگے گا نا  ہی یہ معلوم ہے کہ کیا کوئی ایسے مادّے کا وجود بھی ہے کہ نہیں جو فوقی موصل کے طور پر عام کمرے کے درجہ حرارت پر کام کر سکتا ہے۔

 کمرے کے درجہ حرارت پر کام کرنے والی فوقی موصل دریافت ہو گئے  تو تجارتی پیمانے پر اشیاء کا سیلاب آ جائے گا۔ زمین کے مقناطیسی میدانوں سے دس لاکھ گنا زیادہ طاقتور مقناطیسی میدان  ہر جگہ نظر آئیں گے۔ فوق ایصالیت کی ایک خاصیت کو "میسیئر کا اثر" (Meissner effect)  کہتے ہیں۔ اگر آپ مقناطیس کو فوقی موصل کے اوپر رکھ دیں  تو مقناطیس ہوا میں معلق ہو جائے گا ایسا لگے گا جیسے کہ کسی غیر مرئی طاقت نے اس کو تھام کر رکھا ہوا ہے۔ (میسیئر  اثر میں ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ مقناطیس اپنا عکسی مقناطیس فوقی موصل کے اندر بنا لیتا ہے جس کے نتیجہ میں اصل مقناطیس اور اس کا عکسی مقناطیس  ایک دوسرے کو دفع کرتے ہیں۔ اس بات کو ایک دوسرے طریقے سے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ مقناطیسی میدان فوقی موصل میں داخل نہیں ہو سکتے  اس کے بجائے فوقی موصل مقناطیسی میدان کو دھکیلتے ہیں۔ لہٰذا اگر مقناطیس کسی فوقی موصل کے اوپر رکھا جائے گا  اس کے لکیروں کی قوّت  کو فوقی موصل دفع کرے گا جس کے نتیجے میں لکیروں کی قوّت مقناطیس کو اوپر کی جانب دھکیلتی ہوئی اس کو ہوا میں معلق کر دے گی۔

 میسیئر کے اثر کے ذریعہ ہم مستقبل میں اس بات کا تصوّر کر سکتے ہیں کہ ہائی ویز اس خصوصی سفال (سیرامکس) سے بنے ہوں گے۔ ہماری بیلٹ یا گاڑی کے پہیوں میں لگے ہوئے مقناطیس ہمیں ہماری منزل کی طرف جادوئی طریقے سے تیرتے ہوئی بغیر رگڑ یا توانائی کے زیاں کے پہنچا دیں گے۔

میسیئر کا  اثر صرف مقناطیسی مادّوں پر ہی ہوتا ہے جیسے کہ دھاتیں۔ مگر یہ بات بھی ممکن ہے کہ  کامل موصلیت والے مقناطیسوں کو   غیر مقناطیسی مادّوں کو معلق کرنے میں استعمال کیا جا سکے۔ غیر مقناطیسی مادّوں  کو پیرا مقناطیسی(Paramagnet) مادّے اور ارضی مقناطیسی(Diamagnet) مادّہ  بھی کہتے ہیں۔ ان مادّوں کی اپنی مقناطیسی خاصیت نہیں ہوتی  مگر یہ اپنی مقناطیسی خاصیت صرف  داخلی مقناطیسی میدان کی موجودگی میں ہی  حاصل کر سکتے ہیں۔ پیرا مقناطیسی مادّے مقناطیس کی طرف کھینچتے ہیں جب کہ ارضی مقناطیسی مادّے  مقناطیس کو دھکیلتے ہیں۔

 مثال کے طور پر پانی ارضی مقناطیس ہے۔ کیونکہ تمام جاندار پانی سے بنے ہیں لہٰذا وہ طاقتور مقناطیسی میدان کی موجودگی میں معلق ہو سکتے ہیں۔ ١٥ تسلا کے مقناطیسی  میدان میں (جو زمین کے مقناطیسی میدان کے مقابلے میں ٣٠ ہزار گنا زیادہ ہے) سائنس دانوں نے چھوٹے جانوروں جیسے کہ مینڈک کو ہوا میں اٹھا لیا ہے۔ اگر کمرے کے درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل حقیقت بن گئے  تو بڑی غیر مقناطیسی اشیاء کو ان کی ارضی مقناطیسی خصوصیت کی بناء پر اٹھانا ممکن ہو جائے گا۔

قصہ مختصر سائنسی افسانوں  میں بیان کیے جانے والی قوّت کے میدان  کائنات کی بنیادی چار قوّتوں میں کہیں پوری نہیں اترتیں۔ اس کے باوجود یہ ممکن ہے کہ قوّت کے میدان کی بیان کی جانی والی  کئی خصوصیات کی نقل کی جا سکے۔ یہ نقل   کئی تہوں والی ڈھال جو پلازما کی کھڑکی، لیزر کے پردے، کاربن نینو ٹیوبز کی اسکرینوں اور ضیا لونی (فوٹو کرومٹکس)  پر مشتمل ہو کر بنائی جا سکتی ہے۔ لیکن  اس قسم کی غیر مرئی  ڈھال کو بنانے میں کئی دہائیاں  یا ہو سکتا ہے کہ پوری صدی بھی لگ جائے۔ لیکن عام  کمرے کے درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل تلاش کر لئے گئے  تو ان کے ذریعہ طاقتور مقناطیسی میدان سائنسی افسانوی فلموں  میں دکھائی جانے کاروں اور ریل گاڑیوں کو زمین سے بلند کرکے   ہوا میں معلق کر سکیں گے۔

ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے قوّت میدان کو ناممکنات کی  جماعت I  میں رکھا ہے۔ یعنی کہ جو چیز آج کی ٹیکنالوجی کے اعتبار سے ناممکن ہے وہ اگلی ایک صدی یا اس سے زیادہ کے عرصے میں  اپنی شکل کو بدلتے ہوئے ممکن ہو سکتی ہے۔  

2۔ پوشیدگی (Invisibility)

 حصّہ اوّل 

جب تک آپ کا تخیل مرتکز نہ ہو، اس وقت تک آپ اپنی آنکھوں پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔

- مارک ٹوئن (Mark Twain)

اسٹار ٹریک IV: دی وائیج ہوم(Star Trek IV: The Voyage Home) فلم سیریز میں،" کلنگون"(Klingon) کے ایک گشتی جنگی جہاز کو"انٹرپرائز" کا عملہ اغواء کر لیتا ہے ۔ فیڈریشن اسٹار فلیٹ کے خلائی جہازوں سے ہٹ کر کلنگون ریاست کے خلائی جہازوں کے پاس ایک خفیہ "سلیمانی جبے نما آلہ" ہوتا ہے جو اس کو ریڈار کی پہنچ سے غائب کر دیتا تھا۔ اس طرح سے کلنگون کے خلائی جہاز فیڈریشن کے خلائی جہازوں کے پیچھے ان کی باخبری میں جا پہنچتے تھا اور وہاں سے ان پر شب خون مارتے تھے ۔ اس سلیمانی جبے نے کلنگون ریاست کو سیاروں کی ریاست پر ایک تزویراتی برتری دی ہوئی تھی۔

سوال یہ ہے کہ کیا سلیمانی جبہ بنانا ممکن ہے؟ سائنسی افسانوں اور خیالی دنیا میں" پوشیدہ آدمی " (The Invisible Man)کے صفحات سے لے، ہیری پوٹر ناول کے جادوئی سلیمانی جبے تک، اور"دا لارڈ آ ف دا رنگس "(The Lord of the Rings) کی انگوٹھی تک ایک لمبے عرصے سے" پوشیدگی" (Invisibility) ایک عجوبہ بنی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود ایک صدی تک ماہرین طبیعیات نے سلیمانی جبے جیسی کسی چیز کے ہونے کویہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ ایسی کسی بھی چیز کا وجود بصری قوانین کے برخلاف ہوگا۔ مزید براں یہ کہ مادّے کی کوئی بھی خصوصیت اس بات کی اجازت نہیں دیتی۔

کل کی ناممکن چیز آج ممکن ہو سکتی ہے۔ میٹا مٹیریل کے میدان میں پیش قدمی نے بصریات سے متعلق کتابوں میں انقلاب برپا کر دیا۔ تجرباتی بنیادی پراس مٹیریل کے ابتدائی نمونے ( پروٹو ٹائپ) تجربہ گاہوں میں بنائے جا چکے ہیں جنہوں نے ظاہر کو پوشیدہ بنا دیا ہے۔ ظاہر کو پوشیدہ کرنے کی اس خاصیت نے ذرائع ابلاغ، صنعت، اور افواج کی زبردست توجہ حاصل کر لی ہے۔

پوشیدگی تاریخ کے آئینے میں 

پوشیدگی یا غیر مرئی ہونا شاید قدیمی دیومالائی تصوّرات میں ایک سب سے پرانا تصوّر ہے۔ جب سے تاریخ لکھنا شروع ہوئی ہے، تنہا اور اکیلے لوگ غیر مرئی روحوں سے ڈرتے رہے ہیں جو بہت عرصے پہلے مرنے والوں کی آتما کی شکل میں رات کی تاریکی میں گھات لگا کر بیٹھی ہوئی ہوتی تھیں۔ یونانی ہیرو "پر سیس" (Perseus) سلیمانی ٹوپی کے سہارے شیطانی میڈوسا (Medusa) کا سر قلم کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا ۔فوج کے سپا سالاروں کے لئے سلیمانی ٹوپی جیسا کوئی آلہ ایک خواب رہا ہے۔ پوشیدہ رہ کر کوئی بھی دشمن کی صفحوں میں گھس کر آسانی کے ساتھ انھیں بے خبری میں پکڑ سکتا ہے۔ جرائم پیشہ افراد پوشیدگی کا فائدہ اٹھا کر زبردست قسم کے ڈاکے ڈال سکتے ہیں۔

"پلاٹو"(Plato) کے "نظریئے حسن عمل اور ضابطہ اخلاق"(Theory of Ethics and Mortality) میں پوشیدگی نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اس فلسفیانہ شاہکار "دی ریپپلک"(The Republic)میں پلاٹو نے جائیجیس (Gyges) کی انگوٹھی کے قصّے کو بیان کیا ہے۔ جس میں غریب مگر دیانت دار چرواہا جائیجیس جو "لیڈیا" (Lydia) میں رہتا تھا وہ کسی طرح سے ایک خفیہ غار میں پہنچ جاتا ہے جہاں اس کو ایک مقبرے میں موجود لاش ملتی ہے جس نے ایک سونے کی انگوٹھی پہنی ہوئی ہوتی ہے۔ جائیجیس کو جلد ہی پتا چل جاتا ہے کہ یہ سونے کی انگوٹھی ایک جادوئی اثر رکھتی ہے جو اس کو لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ کر سکتی ہے۔ جلد ہی غریب چرواہا اس طاقت کے نشے میں چور ہو جاتا ہے جو اس جادوئی انگوٹھی کے نتیجے میں اس نے حاصل کی تھی۔ بادشاہ کے محل میں چوری چھپے گھسنے کے بعد جائیجیس اپنی طاقت ملکہ کو لبھانے کے لئے استعمال کرتا ہے ۔بعد میں ملکہ کی مدد سے وہ بادشاہ کو قتل کرکے لیڈیا کا اگلا بادشاہ بن جاتا ہے۔

اس کہانی سے جو پلاٹو سبق دینا چاہتا تھا وہ یہ تھا کہ انسانوں کی اکثریت ایسی ہے جس میں ان کو جب طاقت اور موقع ملتا ہے وہ بغیر کسی دباؤ کے قتل اور چوری کرنے سے باز نہیں آتے۔ اس میں امیر و غریب کی کوئی قید نہیں ہے۔ زیادہ تر انسان آسانی سے شیطان کے بہکاوے میں آ سکتے ہیں۔ ضابطہ اخلاق ایک ایسی معاشی عمارت ہے جسے زبردستی بنا کر نافذ کیا جاتا ہے۔ آدمی عوام الناس کے درمیان نیک بن سکتا ہے تاکہ اس کی نیک نامی، دیانت داری اور ایمانداری کی بدولت لوگوں میں برقرار رہے۔ لیکن ایک دفع اس کے پاس پوشیدگی کی طاقت آ جائے تو اس طاقت کا استعمال ناقابل مزاحمت ہو جاتا ہے۔(کچھ لوگوں کے خیال میں یہ حسن اخلاق کی کہانی "جے آر آر ٹولکن" (J۔R۔R۔ Tolkien)کی لارڈ آ ف دا رنگ کی مثلث سے متاثر ہو کر لی گئی ہے جس میں انگوٹھی اس کے پہننے والے کو پوشیدگی کے ساتھ ساتھ شیطانی مخرج بھی بنا دیتی ہے۔

پوشیدگی سائنس فکشن میں ایک عام سی چیز ہوتی ہے۔١٩٣٠ء کی فلیش گورڈن کی سیریز میں، ایک کردار جس کا نام فلیش تھا وہ پوشیدہ ہو جاتا ہے تاکہ بے رحم منگ کے فائرنگ اسکواڈ سے فرار حاصل کر سکے۔ ہیری پوٹر کے ناولوں اور فلموں میں ہیری ایک سلیمانی جبہ پہن لیتا ہے جس کی مدد سے وہ "ہوگورٹ"(Hogwart) کے محل میں بغیر کسی کی نظر میں آئے ہوئے آوارہ گردی کرتا ہے۔

ایچ جی ویلز نے اس دیومالائی خواہش کو اپنے کلاسک ناول "پوشیدہ آدمی " میں ٹھوس شکل میں پیش کیا۔ اس ناول میں ایک طب کا طالبعلم حادثاتی طور پر چوتھی جہت کی طاقت دریافت کر لیتا ہے اور اس کی مدد سے پوشیدہ ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے وہ اس زبردست طاقت کو اپنے ذاتی فائدے کے لئے استعمال کرتا ہے، وہ جرائم کرنا شروع کرتا ہے اور آخر کار بے بسی کی موت میں اس وقت مارا جاتا ہے جب وہ پولیس سے بھاگنے کی کوشش کرتا ہے۔

میکسویل کی مساوات اور روشنی کا راز

جب تک ا سکاٹ لینڈ کے رہائشی - ماہر طبیعیات جیمزکلارک میکسویل کا کام منظر عام پر نہیں آیا اس وقت تک طبیعیات دانوں کی بصری قوانین پر گرفت کافی کمزور تھی۔ یہ ماہر طبیعیات انیسویں صدی کے طبیعیات دانوں میں ایک بڑا نام تھا۔ ایک طرح سے میکسویل، مائیکل فیراڈے کا برعکس تھا۔ فیراڈے کا تجرباتی وجدان شاندار قسم کا تھا مگر اس نے باضابطہ کوئی تربیت حاصل نہیں کی تھی، میکسویل، جو فیراڈے کا ہم عصر تھا اس نے ریاضی پر مکمل عبور حاصل کر لیا تھا۔ اس نے کیمبرج میں طبیعیاتی ریاضی میں بطور طالبعلم نہایت ممتاز مقام پایا تھا جہاں پر آئزک نیوٹن نے دو صدی قبل ہی اس کا کام آسان کر دیا تھا۔

نیوٹن نے" علم الا حصا ء"(Calculus) کو ایجاد کیا تھا جو "تفرقی مساوات" (Differential Equations)کی زبان میں بیان کیا گیا تھا ۔یہ اس بات کو بیان کرتا ہے کہ کس طرح اشیاء یکسانی کے ساتھ صغاری تبدیلیوں کو زمان و مکان میں جھیلتی ہیں۔ سمندروں کی موجوں کی حرکت، سیال، گیسیں، اور توپ کے گولے یہ سب چیزیں تفرقی مساوات کی صورت میں بیان کی جا سکتی ہیں۔ میکسویل نے بڑے واضح مقصد کے ساتھ فیراڈے کی انقلابی دریافتوں اور اس کی قوّت کے میدان کو انتہائی درستگی کے ساتھ تفرقی مساوات کی صورت میں بیان کیا۔

میکسویل نے فیراڈے کی اس دریافت سے شروعات کی کہ برقی میدان، مقناطیسی میدان میں بصورت معکوس تبدیل ہو سکتا ہے۔ اس نے فیراڈے کی قوّت کے میدان کی نقشہ کشی لی اور اس کو دوبارہ سے ہوبہو تفرقی مساوات میں لکھا جس کے نتیجے میں جدید سائنس کی دنیا میں ایک سب سے اہم مساوات کا سلسلہ وجود میں آیا۔ وہ ایک آٹھ سلسلوں کی انتہائی خوفناک لگنے والی تفرقی مساوات تھیں۔ دنیا میں موجود ہر طبیعیات داں اور انجنیئر جب وہ برقی مقناطیسیت کے شعبے میں کسی یونیورسٹی سے ماسٹر کی سند لیتا ہے تو وہ اس پر عہد لیتا ہے۔

اس کے بعد میکسویل نے خود سے نتیجہ خیز سوال کیا: اگر مقناطیسی میدان بصورت معکوس برقی میدان میں تبدیل ہو سکتے ہیں تو اس وقت کیا ہوگا جب وہ کبھی ایک نہ ختم ہونے والے چکر میں ایک دوسرے میں تبدیل ہوتے رہیں؟ میکسویل نے یہ بات معلوم کر لی تھی کہ برقی مقناطیسی میدان سمند کی موجوں کی طرح کی موجیں پیدا کرتے ہیں۔ اپنے تحیر کی خاطر اس نے ان موجوں کی رفتار کو ناپا اور ان کو روشنی کی رفتار کے برابر پایا! ١٨٦٤ء میں اس بات کو جاننے کے بعد اس نے پیش بینی کے طور پر لکھا :"یہ سمتی رفتار روشنی کی رفتار سے اس قدر نزدیک ہے کہ ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے پاس اس بات کا نتیجہ نکالنا کی مضبوط دلیل ہے کہ روشنی خود سے۔۔۔۔۔برقی مقناطیسی خلل ہے۔"

یہ شاید انسانیت کی تاریخ میں سب سے عظیم دریافت تھی۔انسانی تاریخ میں پہلی دفع روشنی کا راز ظاہر ہوا تھا۔ میکسویل نے اچانک اس بات کو محسوس کیا کہ طلوع سورج کی تابانی سے لے کر ہر چیز، غروب آفتاب، قوس و قزح کے خیرہ کناں رنگ، فلک میں موجود سماوی ستاروں تک ہر چیز کو ان موجوں کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے جس کو اس نے کاغذ کے پنے پر مساوات کی شکل میں لکھا تھا۔ آج ہم اس بات کو جان چکے ہیں کہ برقی مقناطیسی طیف - ریڈار سے لے کر ٹیلی ویژن تک، "زیریں سرخ روشنی"(Infrared)، بصری روشنی، بالائے بنفشی روشنی (Ultraviolet Light)،ایکس ریز، خرد موجیں(Microwaves)، اور گیما اشعاع یہ سب میکسویل کی موجیں ہی تو ہیں جو دوسرے الفاظ میں فیراڈے کی قوّت میدان کی تھرتھراہٹ ہیں۔

میکسویل کی مساوات کی اہمیت پر تبصرہ کرتے ہوئے آئن سٹائن نے لکھا ہے کہ "یہ وہ سب سے زیادہ گہرا اثر ڈالنے والی اور فائدہ مند دریافت ہے جس کو طبیعیات کی دنیا نے نیوٹن کے بعد سے لے کراب تک جانا ہے۔"

(افسوس کہ میکسویل جو انیسویں صدی کا ایک عظیم طبیعیات دان تھا وہ عہد شباب میں جب اس کی عمر صرف ٤٨ برس کی تھی ؛معدے کے کینسر کی وجہ سے انتقال کر گیا تھا۔ شاید یہ وہی وجہ تھی جس کے نتیجہ میں اس کی ماں کا بھی انتقال اسی عمر میں ہوا تھا۔ شاید اگر وہ زندہ رہتا، تو وہ اس بات کو دریافت کر لیتا کہ اس کی مساوات زمان و مکان میں خلل ڈالنے کی اجازت دیتی ہے جو سیدھی آئن سٹائن کی نظریے اضافت کی طرف جاتی ہے۔ یہ بات بہت زیادہ متحیر کر دینے والی ہے کہ اگر میکسویل لمبی عمر پاتا تو اضافیت کا نظریہ ممکنہ طور پر امریکہ کی سول وار کے دوران ہی دریافت ہو سکتا تھا۔)

میکسویل کی روشنی کے نظرئیے اور ایٹمی نظرئیے نے بصریات اور پوشیدگی کی سادہ تشریح کردی تھی۔ ٹھوس چیزوں میں ایٹم کس کر بندھے ہوئے ہوتے ہیں جبکہ مائع اور گیس میں سالموں کے درمیان کافی فاصلہ ہوتا ہے۔ زیادہ تر ٹھوس اشیاء غیر شفاف ہوتی ہیں کیونکہ روشنی کی اشعاع ٹھوس اجسام میں ایٹموں کے کثیف میٹرکس میں سے نہیں گزر سکتیں جو اس کے لئے اینٹوں کی دیوار کا کام کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف کئی مائع اور گیسیں شفاف ہوتی ہیں کیونکہ روشنی تیزی سے ان ایٹموں کے درمیان موجود بڑی خالی جگہوں میں سے پاس ہو سکتی ہے۔ ان ایٹموں کے درمیان یہ خالی جگہ بصری روشنی کی موجوں سے بڑی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر جیسا کہ مائع مثلاً پانی، الکحل، امونیا، ایسٹوں، ہائیڈروجن پیرا آکسائڈ، گیسولین وغیرہ شفاف ہوتے ہیں بعینہ ایسے ہی گیسیں بھی شفاف ہوتی ہیں جن میں آکسیجن، ہائیڈروجن، نائٹروجن، کاربن ڈائی آکسائڈ، میتھین وغیر ہ شامل ہیں۔

یہاں پر اس اصول کی کچھ اہم استثناء بھی موجود ہیں۔ کئی قلمیں ٹھوس ہونے کے باوجود شفاف ہوتی ہیں۔ مگر قلموں میں ایٹم ہوبہو ایک جالی کی صورت میں ترتیب وار انبار کی صورت میں صف بند ہوتے ہیں جن کے درمیان یکساں خالی جگہ ہوتی ہے۔ لہٰذا قلموں میں کئی ایسے راستے موجود ہو سکتے ہیں جہاں روشنی کی کرن جالی کے درمیان کی خالی جگہ سے نکل جاتی ہے۔ لہٰذا قلم اتنے ہی کسے ہوئے ایٹموں سے بندھی ہوئی ہوتی ہے جتنا کہ ایٹم کسی ٹھوس مادّے میں بندھے ہوئے ہوتے ہیں اس کے باوجود روشنی قلم میں سے گزرنے کا راستہ بنا سکتی ہے۔

کئی طرح کی صورتحال میں ٹھوس اشیاء بھی شفاف بن سکتی ہیں اگر ان میں موجود ایٹم بے ترتیب ہوں۔ ایسا کئی مادّوں کو بلند درجہ حرارت پر گرم کرکے تیزی سے ٹھنڈا کرنے کے بعد کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر شیشہ ٹھوس ہے مگر اس میں مائع کی کئی خصوصیات موجود ہیں کیونکہ اس میں ایٹم کسی خاص ترتیب سے نہیں مرتب ہوتے ہیں۔ کئی قسم کی ٹوفیاں اس طریقے کی مدد سے شفاف بنائی جا سکتی ہیں۔

میکسویل کی مساوات ہمیں بتاتی ہے کہ واضح طور پر پوشیدگی ایک ایسی خاصیت ہے جو کہ ایٹمی پیمانے پر حاصل کی جا سکتی ہے۔ لہٰذا پوشیدگی کو عام مادّے میں حاصل کرنا حد درجہ مشکل ضرور ہوگا مگر یہ ناممکن نہیں ہے۔ ہیری پوٹر کو غائب ہونے کے لئے پہلے تو سیال میں تبدیل ہونا ہوگا، اس کے بعد اس کو ابلنا ہوگا تاکہ وہ بھاپ بن سکے ، پھر اس کی قلم بنانی ہوگی، جس کے بعد اس کو دوبارہ گرم کرکے ٹھنڈا کرنا ہوگا۔ ظاہر سی بات ہے ہیری پوٹر کو غائب کرنے کے لئے یہ سب کچھ کرنا کسی جادوگر کے لئے بھی آسان نہیں ہوگا۔

فوج ابھی تک غیر مرئی جہاز بنانے کو قابل نہیں ہوئی ہے اگرچہ فوجی اداروں نے اس سے ملتی جلتی سب سے بہتر چیز بنانے کی کوشش ضرور کی ہے: یعنی در پردگی کی طرزیات (Stealth Technology)، جو ہوائی جہاز کو ریڈار کی نظروں سے اوجھل کر دیتی ہے۔ در پردگی کی ٹیکنالوجی میکسویل کی مساوات پر تکیہ کرتے ہوئے چالوں کا ایک سلسلہ شروع کرتی ہے۔ در پردگی کی صلاحیت کا حامل لڑاکا طیارہ مکمل طور پر انسانی آنکھ سے دکھائی دیتا ہے لیکن دشمن کے ریڈار کی اسکرین پروہ صرف کسی بڑے پرندے جیسا نظر آتا ہے۔(در پردگی کی ٹیکنالوجی اصل میں مختلف ترکیبوں کی کھچڑی ہوتی ہے۔ لڑاکا طیارے کے اندر کے مادّے میں رد و بدل کیا جاتا ہے، مثلاً طیارے میں ا سٹیل کی مقدار کو کم کرکے پلاسٹک اور لاکھ(Resins) کا استعمال کیا جاتا ہے، طیارے کے جسم کو بنانے کے لئے مختلف زاویوں کا استعمال کیا جاتا ہے،اس طیارے میں دھوئیں کے اخراج کے پائپوں کی ترتیب بھی بدل دی جاتی ہے اور اسی طرح سے دوسری کئی تبدیلیاں کی جاتی ہیں ۔اس طرح سے دشمن کے ریڈار سے نکلنے والی شعاعیں جہاز سے ٹکرا کر ہر سمت پھیل جاتی ہیں جس کے نتیجے میں وہ دشمن کے ریڈار کی اسکرین پر کبھی واپس نہیں جاتی۔ مگر اس در پردگی کی ٹیکنالوجی کے استعمال کے باوجود لڑاکا طیارہ مکمل طور پر غائب نہیں ہوتا اس کے بجائے وہ ریڈار سے آنے والی شعاعوں کو جتنا تکنیکی طور پر ممکن ہو سکتا ہے اتنا موڑ کر پھیلا دیتا ہے۔)

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔

 

--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
2۔ پوشیدگی (Invisibility) - حصّہ دوم 
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

میٹامٹیریل اور پوشیدگی 

شاید مخفی رہنے کے سلسلے میں سب سے زیادہ امید افزا پیش رفت مادّے کی ایک نئی پراسرار قسم میں ہوئی ہے جس کو میٹا مٹیریل کہتے ہیں۔ یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ اس کے ذریعہ ایک دن اشیاء کو صحیح معنی میں غائب کیا جا سکے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک زمانے میں میٹا مٹیریل کی تخلیق کو ناممکن سمجھا جاتا تھا کیونکہ یہ طبیعیات کے مروجہ قوانین کی خلاف ورزی کرتا تھا۔ ٢٠٠٦ء میں امریکی ریاست شمالی کیرولینا میں واقع ڈیوک یونیورسٹی اور برطانوی شہر لندن میں موجود امپیریل کالج میں محققین نے کامیابی کے ساتھ روایتی سوچ کا مقابلہ کیا اور ایک ایسا میٹامٹیریل بنایا جو خرد موجی شعاعوں (Microwave Radiation)کے لئے غیر مرئی رہتا ہے۔ اگرچہ ابھی بہت سے مسائل پر قابو پانا باقی ہے لیکن تاریخ میں پہلی بار ہم نے کسی عام مادّے کو خرد امواج سے پوشیدہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔(اس تحقیق کے لئے مالی تعاون پینٹاگون کی ڈیفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹ ایجنسی [دارپا] نے کیا ہے۔) 

ناتھن میہر ولڈ(Nathan Myhrvold) مائیکروسافٹ کے سابق چیف ٹیکنالوجی افسر ہیں وہ کہتے ہیں " میٹامٹیریل میں موجود انقلابی صلاحیت مکمل طور پر ہماری بصریات اور برقی اشیاء کے ہر پہلو کو سمجھنے کی سوچ کو تبدیل کر دے گی۔۔۔۔کچھ میٹامٹیریل تو اس قسم کے کرتب دکھا سکتے ہیں جو آج سے کچھ دہائیوں قبل تک معجزاتی لگتے تھے۔"

یہ میٹامٹیریل آخر میں ہیں کیا؟ یہ وہ مادّے ہیں جن میں وہ بصری خصوصیات موجود ہیں جو قدرتی طور پر نہیں پائی جاتی ہیں۔ میٹامٹیریل بنانے کے لئے اس مادّےکے اندر ہی چھوٹے امپلانٹ نصب کیے جاتے ہیں تاکہ وہ برقی مقناطیسی موجوں کو مسلمہ راستے سے مڑنے پر مجبور کریں۔ ڈیوک یونیورسٹی میں سائنس دانوں نے چھوٹے برقی سرکٹ تانبے کی تاروں کے جتھے میں گھسا دئیے جو ہموار ترتیب میں رکھے ہوئے مرتکز دائروں کی شکل میں تھے(کچھ ان کی شکل برقی بھٹی میں موجود لچھوں جیسی تھی)۔ نتیجے میں انتہائی پیچیدہ سفل گری (سرامک)،مومی مادّہ ( ٹیفلون)،ریشے کے مرکبات ( فائبر کمپوزٹ) اور دھاتی اجزاء کا آمیزہ وجود میں آیا۔ تانبے کی تاروں میں لگے ہوئے ننھے امپلانٹ نے خرد موجوں کو ایک خاص طریقے سے انضباط کرکے ایک مخصوص راستے پر خم دے کر گزرنے کے عمل کو ممکن بنایا۔ ذرا تصور کریں کہ دریا کسی پتھر کی سل کے ارد گرد سے ہوتا ہوا بہہ رہا ہو۔ کیونکہ پانی تیزی سےپتھر کی سل کے گرد لپٹتا ہے لہٰذا سل پانی کے بہاؤ کی طرف گر جائے گی۔ اسی طرح سے میٹامٹیریل مسلسل خرد امواج کے راستے کو تبدیل اور خم دیتے رہتے ہیں تاکہ وہ سلنڈر کے آس پاس بہہ سکے جس کے نتیجے میں سلنڈر کے اندر موجود ہر چیز خرد موجوں کے لئے پوشیدہ ہوگی۔ اگر میٹامٹیریل تمام انعکاس اور سائیوںکو حذف کر دیں تو اس وقت یہ کسی بھی اشیاء کو ہر قسم کی اشعاع سے مکمل طور پر مخفی رکھ سکیں گے۔

سائنس دانوں نے اس اصول کا کامیابی سے مظاہرہ ایک ایسے آلے کی مدد سے کیا جس کو دس فائبر گلاس کے چھلوں سے بنایا تھا جن کے گرد تانبے کا مرکب لپیٹا ہوا تھا۔ آلے کے اندر موجود تانبے کے چھلے خرد موجی اشعاع کے لئے تقریباً غائب ہی تھے انہوں نے صرف چھوٹا سا سایہ ہی بنایا تھا۔

میٹامٹیریل کا اصل کمال جوڑ توڑ کرنے کی وہ قابلیت ہے جس کو "انعطاف نما"(Index of Refraction) کہتے ہیں۔ انعطاف شفاف ذریعہ میں سے گزرتی ہوئی روشنی کے جھکاؤ کو کہتے ہیں۔ اگر آپ اپنا ہاتھ پانی میں رکھیں یا آپ اپنے چشمے کے عدسے سے دیکھیں تو آپ کو پانی اور چشمہ عام روشنی کے راستے کو خم دیتے ہوئے بگاڑتا ہوا نظر آئے گا۔

پانی یا چشمے کے عدسے میں سے گزرتی روشنی کے خم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ روشنی کی رفتار کسی کثیف شفاف شئے میں داخل ہونے کے بعد آہستہ ہو جاتی ہے۔ روشنی کی رفتار خالص خلاء میں ہمیشہ ایک جیسی رہتی ہے۔ مگر پانی یا گلاس کے اندر دوڑتی ہوئی روشنی کو دسیوں کھرب ایٹموں میں سے گزرنا پڑتا ہے لہٰذا اس کی رفتار آہستہ ہو جاتی ہے۔(روشنی کی رفتار کو کسی شئے کے اندر موجود دھیمی روشنی کی رفتار سے تقسیم کرنے کا عمل انعطاف نما کہلاتا ہے۔ کیونکہ روشنی ہمیشہ شیشے میں صفر کرتی ہوئی آہستہ ہو جاتی ہے لہٰذا انعطاف نما ہمیشہ ١ سے زیادہ ہی ہوگا)۔ مثال کے طور پر خلاء میں انعطاف نما ١ ہوگا، ہوا میں ١۔٠٠٠٣،شیشے میں ١۔٥ اور ہیرے میں ٢۔٤ ہوگا۔ عام طور سے جتنی زیادہ کثیف چیز ہوگی اتنا درجہ زیادہ ہی اس کا جھکاؤ اور انعطاف نما ہوگا۔

انعطاف نما کی مشہور زمانہ مثال سراب Mirage)کی ہے۔ اگر کبھی آپ کسی گرم دن میں گاڑی چلاتے ہوئے سیدھا افق کی جانب دیکھیں گے تو آپ کو سڑک جھلملاتی ہوئی نظر آئے گی جس کے نتیجے میں آپ کو ایک دمکتی ہوئی جھیل دکھائی دے گی۔ صحرا میں تو لوگوں کو دور دراز کے شہر اور پہاڑوں کے سائے بھی افق پر نظر آتے ہیں۔ سراب بننے کی وجہ سڑک یا ریگستان پر سے اٹھتی ہوئی گرم ہوا کی کثافت ہے جو عام ہوا کی با نسبت کم ہوتی ہے لہٰذا اس کا انعطاف نما آس پاس کی ٹھنڈی ہوا کے مقابلے میں کم ہوتا ہے لہٰذا دور دراز کے اجسام سے آتی ہوئی روشنی سڑک سے منعطف(Refreacted) ہو کر ہماری آنکھوں تک پہنچتی ہے جس سے ہمیں دھوکہ ہوتا ہے کہ ہم دور دراز پر واقع ان چیزوں کو دیکھ رہے ہیں۔

عام طور سے انعطاف نما مستقل ہوتا ہے۔ روشنی کی ایک تنگ کرن جب شیشے میں داخل ہوتی ہے تو خم کھاتی ہے لیکن خم کھانے کے بعد پھر سے وہ خط مستقیم پر سفر کرنے لگتی ہے۔ تھوڑی دیر کے لئے فرض کریں کہ ہم انعطاف نما کو اپنی مرضی سے منضبط کر سکتے ہیں لہٰذا ہم اسے شیشے میں ہر نقطہ پر مسلسل تبدیل کر سکتے ہیں۔ جیسے ہی روشنی اس نئے مادّہ میں داخل ہوگی روشنی کو نئے راستوں پر خمیدہ اور گھمایا جا سکے گا جس کے نتیجے میں وہ سانپ کی چال کی طرح اس پورے مادّے میں آوارہ گردی کرتی پھرے گی۔

اگر ہم انعطاف نما کو کسی میٹامٹیریل میں اپنی مرضی کا تابع کر لیں جس سے روشنی اس شئے آس پاس سے گزر جائے تو وہ شئے نظروں سے مخفی ہو سکے گی۔ اس امر کو ممکن بنانے کے لئے میٹامٹیریل کے انعطاف نما کو منفی ہونا پڑے گا جس کو طبیعیات کی ہر ٹیکسٹ بک ناممکن کہتی ہے۔(میٹامٹیریل کا نظریہ سب سے پہلے روسی طبیعیات دان وکٹر ویس لوگو (Victor Veselago)نے ١٩٦٧ میں پیش کیا جس میں اس نے عجیب بصری خصوصیات جیسے کہ منفی انعطاف نما اور ڈوپلر اثر(Doppler Effect) کے متضاد جیسی چیزیں بیان کی تھیں۔ میٹامٹیریل اتنی عجیب اور خلاف عقل لگتے ہیں کہ کسی زمانے میں ان کی تخلیق ناممکن سمجھی جاتی تھی۔ لیکن پچھلے چند سال میں میٹامٹیریل کو تجربہ گاہوں میں بنا لیا گیا ہے اور اس چیز نے متذبذب ماہرین طبیعیات کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ بصریات سے متعلق تمام ٹیکسٹ بکس کو دوبارہ سے لکھیں۔)

میٹامٹیریل پر تحقیق کرنے والے محققین ان صحافی حضرات سے اکثردق ہوئے رہتے ہیں جو یہ جاننا چاہتے ہیں کہ سلیمانی جبہ کب بکنے کے لئے تیار ہوگا۔ اس کا آسان جواب تو یہ ہے کہ اس میں ابھی کافی وقت درکار ہوگا۔

ڈیوک یونیورسٹی کے ڈیوڈ سمتھ کہتے ہیں " صحافی حضرات اکثر فون کرتے ہیں اور صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہم انھیں کسی طرح سے وقت مہینوں اور برسوں میں بتا دیں۔ وہ اتنا تنگ کرتے ہیں آخر آپ مجبوراً کہہ دیتے ہیں کہ پندرہ سال لگیں گے۔ اس کے بعد آپ کی کہی ہوئی بات شہ سرخی بن کر کچھ اس طرح سے اخبار میں نظر آتی ہے۔ ہیری پوٹر کے سلیمانی جبے کے آنے میں صرف پندرہ سال۔" یہ ہی وجہ ہے کہ اب وہ کسی واضح ٹائم ٹیبل کو دینے سے ہمیشہ صاف انکار کر دیتے ہیں۔ ہیری پوٹر یا اسٹار ٹریک کے مداحوں کو ابھی کافی انتظار کرنا ہوگا۔ اگرچہ حقیقی سلیمانی جبہ طبیعیات کے قوانین کی رو سے بنانا ممکن ہے اور کافی سارے ماہرین طبیعیات اس سے متفق بھی ہیں لیکن سخت فنی رکاوٹیں ابھی اس طرزیات کے سامنے سینہ سپر ہیں۔ خرد موجی اشعاع سے بڑھ کر بصری روشنی پر اس کام کے دائرے کو پھیلانا ہوگا۔

دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ میٹامٹیریل کے اندر پیوستہ آلات (امپلانٹڈ ڈیوائسوں) کے اندرونی ڈھانچے کو اشعاع کی طول موج (Wave Length)سے لازماً چھوٹا ہونا ہوگا۔ مثال کے طور پر خرد امواج کی طول موج لگ بھگ ٣ سینٹی میٹر ہوتی ہے۔ لہٰذا اس میٹامٹیریل کے لئے اس میں لگے ان ننھے پیوستہ آلات کا ٣ سینٹی میٹر سے چھوٹا ہونا ضروری ہے۔لیکن کسی شئے کو سبز روشنی - جس کا طول موج ٥٠٠ نینو میٹر ہوتا ہے - میں نظر نہ آنے کے لئے میٹامٹیریل کو اس طرح سے بنا نا ہوگا کہ اس میں لگائے ہوئے آلات صرف ٥٠ نینو میٹر لمبے ہوں ۔یہ بات دھیان میں رہے کہ نینو میٹر ایٹمی پیمانے کی لمبائی ہوتی ہے اور اس پر کام کرنے کے لئے نینو طرزیات کی ضرورت ہوتی ہے۔(ایک نینو میٹر ایک میٹر کے ایک اربویں حصّے کے برابر ہوتا ہے۔ لگ بھگ ٥ ایٹم ایک نینو میٹر میں سما سکتے ہیں۔ شاید یہ ہی وہ اہم رکاوٹ ہے جو کامل سلیمانی جبہ کو بنانے کی راہ میں حائل ہے۔ میٹامٹیریل میں موجود ہر ایک ایٹم کو اس طرح سے بدلنا پڑے گا کہ وہ روشنی کی کرن کو سانپ کی چال کی طرح خم کر سکے۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔

--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
2۔ پوشیدگی (Invisibility) - حصّہ سوم 
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
بصری روشنی کے لئے میٹامٹیریل 

کھیل شروع ہو چکا ہے۔

جب سے اس بات کا اعلان کیا گیا ہے کہ تجربہ گاہ میں میٹامٹیریل بنائے جا سکتے ہیں اس وقت سے اس میدان میں بھگدڑ سی مچ گئی ہے۔ جس کے نتیجے میں ہر چند مہینوں کے گزرنے کا بعد نئی بصیرت اور چونکا دینے والی اہم دریافتیں سامنے آ رہی ہیں۔ مقصد بالکل واضح ہے :نینو طرزیات کا استعمال کرتے ہوئے ایسے میٹامٹیریل بنائے جائیں جو خرد موجوں کو نہیں بلکہ بصری روشنی کو خم کر سکیں۔ اس سلسلے میں کئی طریقے تجویز کیے گئے ہیں جو سب کے سب کافی حوصلہ افزا ہیں۔

ایک تجویز تو یہ ہے کہ پہلے سے موجود سیمی کنڈکٹر صنعت میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی یعنی جس کو ہم پہلے سے جانتے ہیں کو استعمال کرتے ہوئے نئے میٹامٹیریل کو بنایا جائے۔ ایک تکنیک جس کا نام "سنگی طباعت" (فوٹو لتھوگرافی )ہے جو کمپیوٹر کو مختصر کرنے کی روح ہے اور اس ہی کے نتیجے میں کمپیوٹر کا انقلاب آیا ہے۔ اس طرزیات کے ذریعہ ہی انجنیئر ز اس قابل ہوئے ہیں کہ کروڑوں چھوٹے ٹرانسسٹر سلیکان کی اس پرت پر لگائے جاتے ہیں جو ہمارے انگوٹھے جتنی ہوتی ہے۔

کمپیوٹر کی رفتار اور طاقت ہر ١٨ مہینے کا بعد دگنی ہو جاتی ہے(جس کو "مور کا قانون" بھی کہتے ہیں ) اس کو وجہ یہ ہے کہ سائنس دان بالائے بنفشی اشعاع کا استعمال کرتے ہوئے چھوٹے سے چھوٹے حصّے سلیکان کی چپ پر "نقش"(Etch) کرتے ہیں ۔ یہ بالکل اس تیکنیک جیسی ہے جس میں رنگین ٹی شرٹس بنانے کے لئے ا سٹینسل کا استعمال کیا جاتا ہے۔(کمپیوٹر انجنیئر ز پتلی سی ویفر کے اوپر مختلف اجزاء پر مشتمل ننھی سی پرت چڑھاتے ہیں۔ اس کے بعد پلاسٹک کا ماسک ویفر کے اوپر رکھ دیا جاتا ہے جو ایک طرح سے ملمع کار کا کردار ادا کرتا ہے۔ اس میں تاروں کے پیچیدہ نقشے، ٹرانسسٹر ز اور کمپیوٹر کے کچھ حصّے ہوتے ہیں جو سرکٹ کا بنیادی ڈھانچہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس ویفر کو بالائے بنفشی اشعاع میں نہلایا جاتا ہے جن کا طول موج بہت ہی چھوٹا ہوتا ہے، اور یہ اشعاع نمونے کو ایک "ضیائی حساس"( Photosensitive) ویفر پر نقش کر دیتی ہیں۔ ویفر کو خصوصی گیسوں اور تیزابوں سے دھونے کے بعد، ماسک پر چھپ جانے والی پیچیدہ سرکٹری ویفر پر چھاپی جاتی ہے جہاں اس پر بالائے بنفشی روشنی ڈالی جاتی ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں ایک ایسا ویفر بنتا ہے جس میں کروڑوں چھوٹے کھانچے موجود ہوتے ہیں جو ٹرانسسٹر کے لئے بنیادی نقشے کا کام دیتے ہیں۔ اس وقت، چھوٹے سے چھوٹا حصّہ جو اس نقش کاری کے عمل میں بنایا جا سکتا ہے وہ ٣٠ نینو میٹر (یا تقریباً ١٥٠ ایٹم ) جتنا ہے۔

پوشیدگی حاصل کرنے کی جستجو میں ایک اور سنگ میل اس وقت آیا جب اس سلیکان ویفر کی نقش کاری کی ٹیکنالوجی، سائنس دانوں کے ایک گروپ نے اس پہلے پہل میٹامٹیریل کو بنانے میں استعمال کی جو روشنی کے "مرئی طیف "(Visible Spectrum)کا احاطہ کرتی ہے۔ ٢٠٠٧ء کی شروعات میں جرمن اور یو ایس ڈیپارٹمنٹ آف انرجی میں کام کرنے والے سائنس دانوں نے تاریخ میں پہلی بار اس بات کا اعلان کیا کہ انہوں نے ایک ایسا میٹامٹیریل بنا لیا ہے جو سرخ روشنی میں بھی کام کرتا ہے۔ بہت ہی قلیل عرصے میں ایک "ناممکن "چیز کو حاصل کر لیا گیا۔

آئی اوا ہ (Iowa)میں واقع ایمس لیبارٹری کے طبیعیات دان کوسٹاس سوکولس(Costas Soukoulis) نے، یونیورسٹی آف کارلزرو (University of Karlsruhe)، جرمنی کے ا سٹیفن لینڈن(Stefan Linden)، مارٹن ویگنر(Martin Wegener)، اورگونار ڈولنگ(Gunnar Dolling) کے ساتھ مل کر ایک ایسا میٹامٹیریل بنایا جس کا انعطاف نما سرخ روشنی کے لئے اشاریہ منفی ٦ تھا جس کا مطلب ٧٨٠ نینو میٹر طول موج ہے۔(اس سا پہلے میٹامٹیریل کو ١٤٠٠ نینو میٹر کی طول موج والی اشعاع کو خم کرنے کا ورلڈ ریکارڈ تھا، اپنے اس طول موج کی وجہ سے وہ مرئی روشنی کے احاطے سے باہر لیکن سرخ زیریں روشنی کے طول موج کے اندر تھی۔)

شروعات سائنس دانوں نے شیشے کی شیٹ سے کی، جس کے اوپر انہوں نے نہایت سی باریک چاندی، میگنیشیم فلورائیڈ اور ایک چاندی کی تہ چڑھائی، جس کے نتیجے میں فلورائیڈ کا ایک ایسا سینڈوچ بن گیا جو صرف ١٠٠ نینو میٹر پتلا تھا۔ اس کے بعد اسی نقش کاری کی تیکنیک کا استعمال کرتے ہوئے جنگلے(Grid) کا نمونہ مچھلی کے جال جیسا بنا دیا۔(اس میں سوراخ صرف ١٠٠ نینو میٹر چوڑے تھے جو سرخ روشنی کے طول موج سے کہیں زیادہ چھوٹے تھے۔) اس کے بعد انہوں نے اس میں سے سرخ روشنی کی کرن کو گزارا اور پھر اس کا " اشاریہ" (Index)ناپا جو کہ منفی ٦ نکلا۔

طبیعیات دان اس ٹیکنالوجی کا استعمال کافی جگہوں پر ہوتا دیکھ رہے ہیں۔" ہو سکتا ہے کہ ایک دن میٹامٹیریل ان چپٹے فوقی عدسوں (سپرلینس) کی تیاری میں استعمال ہوں جو مرئی طیف میں کام کر سکے۔" ڈاکٹر سوکولس نے کہا۔" ایسا کوئی بھی عدسہ روایتی طرزیات کے مقابلے میں بہت ہی عمدہ کارکردگی کا حامل ہوگا ، جو ہمیں باریک بینی سے ایک طول موج سے بھی کم کی جزئیات فراہم کر سکے گا۔" فوری طور پر اس کا استعمال خرد بینی چیزوں کی بے نظیر صراحت کے ساتھ تصویر کشی کرنے میں ہوگا۔ مثال کے طور پر زندہ انسانی خلیہ کے اندرون کی جھانک یا پھر رحم مادر میں موجود بچے کی بیماری کی تشخیص کرنے میں استعمال کیا جا سکے گا۔ ڈی این اے سالموں کی تصویر بے ڈھنگی ایکس رے قلمیات کو استعمال کئے بغیر لی جا سکے گی۔

ابھی تک ان سائنس دانوں نے صرف سرخ روشنی کے انعطاف کے منفی اشاریے کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کا اگلا قدم اس طرزیات کا استعمال کرتے ہوئے ایک ایسا میٹامٹیریل بنانا ہے جو پوری سرخ روشنی کو کسی جسم کے گرد خم کر دے تاکہ وہ روشنی کے لئے غیر مرئی ہو جائے۔

مستقبل میں ہونے والی پیش رفت اسی طرح سے" ضیائی قلموں "(Photonic Crystal)میں بھی ہو سکتی ہے۔ ضیائی قلموں کا مقصد ایک ایسی چِپ بنانا ہے جو برق کے بجائے روشنی کو استعمال کرتے ہوئے اطلاعات پر عمل کاری (انفارمیشن پراسیس) کرے۔ اس سے نینو طرزیات کو استعمال کرتے ہوئے ننھے اجزاء ویفر پر نقش کیے جائیں گے جس کے نتیجے میں انعطاف نما ہر اجزاء کے ساتھ تبدیل ہو جائے گا۔ ٹرانسسٹر ز میں بجلی کے بجائے روشنی کا استعمال کئی قسم کے فوائد کا حامل ہوگا۔ مثال کے طور پر ضیائی قلموں کے استعمال سے حرارت کا زیاں بہت ہی کم ہوگا۔( جدید سلیکان چپس میں پیدا ہونے والی حرارت اتنی ہوتی ہے کہ اس سے ایک انڈا آسانی کے ساتھ پکایا جا سکتا ہے۔ اس وجہ سے ان کو مسلسل ٹھنڈا کرنا پڑتا ہے بصورت دیگر وہ خراب ہو سکتی ہیں اور ان کو ٹھنڈا رکھنا بھی ایک مہنگا طلب کام ہے۔) اس میں کوئی زیادہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ ضیائی قلموں کی سائنس میٹامٹیریل کے لئے انتہائی موزوں ہے کیونکہ دونوں روشنی کے انعطاف نما کے جوڑ توڑ کو نینو پیمانے پر کرتی ہیں۔

پوشیدگی بذریعہ پلازمونک 

اگرچہ یہ طرزیات مفصلہ بالا طرزیات سے بہتر تو نہیں ہے۔لیکن بالکل ایک الگ طرح کی نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ایک دوسرے گروپ نے ٢٠٠٧ء کے درمیان اس بات کا اعلان کیا کہ انھوں نے ایک ایسا میٹامٹیریل بنا لیا جو روشنی کو خم کر سکتا ہے۔یہ نئی طرزیات پلازمونک کہلاتی ہے۔ کیلی فورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں طبیعیات دان "ہنری لیزک"(Henry Lezec)،" جینیفر ڈیون"(Jennifer Dionne) اور "ہیری ایٹ واٹر"(Harry Atwater) نے اعلان کیا کہ انہوں نے ایک ایسا میٹامٹیریل تیار کیا ہے جس کا منفی اشاریہ مزید مشکل نیلی-ہری مرئی روشنی کے بصری طیف میں بن سکتا ہے۔

پلازمونک کا مقصد روشنی کو اس حد تک دبانا ہے کہ کسی شئے پر پڑتی ہوئی روشنی کو نینو پیمانے پر، خاص طور پر دھاتوں کی سطح پر توڑا جوڑا جا سکے۔ کیونکہ دھاتوں کے ایٹموں پر الیکٹران ڈھیلے ڈھالے انداز میں بند ہوتے ہیں لہٰذا وہ دھاتوں کی سطح پر موجود جالی میں سے آسانی سے حرکت کرتے ہیں اور اسی وجہ سے ان میں سے برقی رو آسانی سے گزر جاتی ہے۔ ہمارے گھروں کے تاروں میں دوڑتی ہوئی بجلی ان ڈھیلے ڈھالے بندھے ہوئے دھاتوں کی سطح پر موجود الیکٹران کا ہی بہاؤ ہوتا ہے۔ لیکن کچھ شرائط کے ساتھ جب روشنی کی کرن دھات کی سطح سے ٹکراتی ہے تو الیکٹران اصل روشنی کی کرن کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر تھر تھرا سکتے ہیں جس کے نتیجے میں دھات کی سطح پر موجود الیکٹران موجوں کی طرح حرکت میں آ جاتے ہیں (جن کو پلازمونک کہتے ہیں)، اور یہ موجوں کی طرح کی حرکت اصل روشنی کی کرن کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر ٹکرانے لگتی ہے۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان پلازمونک کو بھینچا بھی جا سکتا ہے اس طرح سے ان کی تعدد ارتعاش(فریکوئنسی ) اصل روشنی کی کرن جتنی ہو سکتی ہے (اور بعینہ ویسی ہی معلومات لے جا سکتی ہے)لیکن اس کی طول موج کافی چھوٹی ہوتی ہے۔ اصولی طور پر ان بھینچی ہوئی موجوں کو نینو تاروں پر ٹھونسا جا سکتا ہے۔ پلازمونک کا بھی حتمی مقصد ضیائی قلموں کی طرح کمپیوٹر کی چپس کو ہی بنانا ہے تا کہ وہ حساب کتاب بجلی کے بجائے روشنی سے کیا جا سکے۔

کالٹک کے اس گروپ نے اپنا میٹامٹیریل چاندی کی دو تہوں سے بنایا ہے جن کے درمیان سلیکان نائٹروجن کا "حاجز"(Insulator) درمیان میں موجود ہے (جس کی موٹائی صرف ٥٠ نینو میٹر ہے)، یہ حاجز ایک طرح سے "موجی رہنما" کا کام کرتے ہوئے پلازمونک موجوں کی حفاظت کرے گا۔ لیزر کی روشنی آلے میں آنے اور نکلنے کے لئے دو درزوں کا استعمال کرتی ہیں جو میٹامٹیریل کے اوپر کندہ کی ہوئی ہیں۔ اس زاویہ کا تجزیہ منفی اشاریہ کے ذریعہ اس وقت معلوم کیا جا سکتا ہے جب لیزر کی روشنی میٹامٹیریل میں سے گزرتے ہوئے خم کھاتی ہے۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔

--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
2۔ پوشیدگی (Invisibility) - حصّہ چہارم  
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

میٹامٹیریل کا مستقبل

 

میٹامٹیریل کے میدان میں پیش رفت مستقبل میں سرعت سے ہوگی۔ وجہ صاف ظاہر ہے  کہ لوگوں کی زبردست دلچسپی پہلے سے ہی ٹرانسسٹر  میں بجلی کے بجائے  روشنی کے استعمال کرنے کی ہے۔  ضیائی قلموں  اور پلازمونک میں جاری تحقیق جس کا مقصد سلیکان چپس کا متبادل پیدا کرنا ہے، مخفی رہنے کی تحقیق کو جاری رکھے گا۔  کروڑوں ڈالر پہلے ہی سلیکان کے   متبادل کو بنانے میں لگائے جا چکے ہیں  اور میٹامٹیریل میں ہونے والی تحقیق  کولا محالہ طور پر  ان کے تحقیقی کاموں سے فائدہ ہوگا۔   

 

ہرچند مہینوں میں اس میدان میں ہونے والی تیز رفتار ایجادات کی بدولت  کچھ طبیعیات دان عملی قسم کی غیبی ڈھال کو تجربہ گاہوں میں شاید اگلی کچھ دہائیوں  میں نمودار ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اگلے چند سال میں سائنس دان اس بات کے لئے پر اعتماد ہیں کہ وہ ایسے میٹامٹیریل بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے جو کسی بھی شئے کو مکمل طور پربصری روشنی کی کسی ایک تعدد ارتعاش پر  کم از کم دو جہتوں میں غیر مرئی کر دے گی۔ اس بات کو قابل عمل بنانے کے لئے ننھے نینو پیوستہ آلات کو باقاعدہ ترتیب وار لگانے کے  بجائے پیچیدہ نمونوں میں ایسے لگایا جائے گا جس سے روشنی کسی بھی جسم کے گرد آسانی سے مڑ سکے گی۔

 

اس کے بعد سائنس دانوں کو ایسا میٹامٹیریل بنانا ہوگا جو روشنی کو صرف دو جہتی چپٹی سطح کے بجائے سہ جہت میں  موڑ سکے۔" سنگی طباعت"(Photolithography) چپٹے سلیکان کے ویفر بنانے کے لئے بالکل موزوں ہے، مگر سہ جہتی میٹامٹیریل بنانے کے لئے ویفر کے انبار پیچیدہ انداز میں لگانے ہوں گے۔

 

 اس کے بعد سائنس دانوں کو اس مسئلہ کا حل نکالنا ہوگا جس میں میٹامٹیریل روشنی کی کسی ایک تعدد ارتعاش  کے بجائے کئی کو خم دے سکے۔ شاید یہ کام سب سے زیادہ مشکل ہوگا کیونکہ ابھی تک بنائے ہوئے ننھے پیوستہ آلات  صرف ایک درست  تعدد ارتعاش کی روشنی کو خم دینے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ سائنس دانوں کو شاید میٹامٹیریل تہوں کی صورت میں بنانے ہوں گے  جس میں ہر تہ ایک مخصوص تعدد ارتعاش کو خم کرے گی۔ اس مسئلے کا  حل ابھی تک واضح نہیں ہے۔ اس تمام باتوں سے قطع نظر ایک دفعہ یہ غائب ہونے کی ڈھال  یا سلیمانی ٹوپی بنا لی گئی تو یہ کافی بھاری آلے کی طرح ہوگی۔ ہیری پوٹر کا سلیمانی جبہ پتلے، لچکدار کپڑے سے بنا تھا  جو کسی بھی چیز کو اپنے اندر آنے کے بعد غائب کر دیتا تھا۔ مگر اس بات کو ممکن بنانے کے لئے جبے کے اندر  انعطاف نما کو مسلسل پیچیدگی کے ساتھ  اس وقت  تبدیل ہونا پڑے گا جب وہ پھڑپھڑائے  گا جو کہ ایک ناممکن سی بات ہے۔ سلیمانی جبے کو بنانے کے لئے میٹامٹیریل کے ٹھوس سلنڈر کو شروع میں استعمال کرنا پڑے گا۔ اس طرح سے انعطاف نما  کو سلنڈر کے اندر ہی ٹھیک کرلیا جائے گا۔( میٹامٹیریل کے مزید جدید ورژن میں ایسی چیزیں شامل کی جا سکتی ہیں  جو اتنی لچکدار ہوں  کہ  انھیں موڑا بھی جا سکے اور اس کے باوجود روشنی کو میٹامٹیریل میں سے ٹھیک راستے سے گزرنے دیں۔ اس طرح سے سلیمانی جبے کے اندر تھوڑی سی ہل جل کرنے کی اجازت مل جائے گی۔) 

 

کچھ لوگوں نے سلیمانی جبے کی ایک خامی کی طرف بھی اشارہ کیا: سلیمانی جبے کے اندر موجود کوئی بھی شخص ظاہر ہوئے بغیر باہر نہیں دیکھ سکے گا۔ ذرا تصّور کریں کہ ہیری پوٹر مکمل غائب ہو بس اس کی آنکھیں ہوا میں تیرتی ہوئی نظر آرہی ہوں۔ آنکھوں کے لئے بنایا جانے والا سوراخ مکمل طور پر باہر سے نظر آئے گا۔ اگر ہیری پوٹر مکمل طور پر غائب ہوگا  تو وہ سلیمانی جبے کے  اندر اندھوں کی طرح بیٹھا رہے گا۔(اس مسئلہ کا ایک ممکنہ حل  یہ ہے کہ دو چھوٹے شیشوں کی پلیٹس آنکھوں کے سوراخوں کے پاس لگا دی جائیں۔ یہ شیشے کی پلیٹیں  ایک طرح سے کرنوں کو توڑنے کے طور پر پلیٹوں پر پڑنے والی روشنی کے چھوٹے سے حصّے کو توڑ دیں گی اور پھر اس روشنی کو آنکھوں تک جانے دیں گی۔ لہٰذا اس طرح سے زیادہ تر سلیمانی جبے سے ٹکرانے والی روشنی اس کے ارد گرد بہ جائے گی جس کے نتیجے میں وہ شخص غائب رہے گے مگر بہت تھوڑا سا روشنی کا  حصّہ اس کی آنکھوں کی طرف چلا جائے گا۔)

 

یہ مشکلات جتنی بھی حوصلہ شکن ہوں، سائنس دان اور انجینیرز  بہت زیادہ پر امید ہیں کہ کسی قسم کا سلیمانی جبہ آنے والی دہائیوں میں بنایا جا سکتا ہے۔

 

 

پوشیدگی اور نینو ٹیکنالوجی

 

جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے  کہ پوشیدگی کی اصل کنجی نینو ٹیکنالوجی میں چھپی ہے، نینو ٹیکنالوجی کا مطلب ہے کہ  ایک میٹر کے ایک ارب حصّے جتنے ایٹمی  حجم  کی چیز میں جوڑ توڑ کیا جا سکے۔

نینو ٹیکنالوجی کی ابتداء اس ١٩٥٩ کے اس لیکچر سے ہوئی  جو نوبل انعام یافتہ رچرڈ فینمین نے امریکن فزیکل سوسائٹی میں " تہ میں کافی گنجائش  ہے " کے معنی خیز عنوان سے دیا۔ اپنے اس لیکچر میں اس نے قوانین طبیعیات کی روشنی میں اس بات کا تصوّر پیش کیا کہ چھوٹی مشینیں کیسی دکھائی دیں گی۔ اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ مشینیں چھوٹی سے چھوٹی بنائی جا سکیں گی یہاں تک کہ وہ ایٹم کے جتنی چھوٹی ہو جائیں اور اس وقت ایٹم کے ذریعہ دوسری مشینیں بنائی جا سکیں گی۔ ایٹمی مشینیں جیسا کہ   چرخی، بیرم (لیور) اور پہیہ  سب کے سب طبیعیات کے اندر رہتے ہوئے بنائے جا سکیں گے۔ اگرچہ ان کو بنانا بہت ہی زیادہ مشکل ہوگا، اس نے نتیجہ اخذ کیا۔

نینو ٹیکنالوجی کافی عرصے تک گمنامی کے اندھیرے میں پڑی رہی کیونکہ انفرادی ایٹموں سے کھیلنا اس وقت کی ٹیکنالوجی کے بس کی بات نہیں تھی۔ پھر ١٩٨١ میں طبیعیات دانوں نے تقطیعی سرنگی خردبین ( اسکیننگ ٹنلینگ مائکرو سکوپ )کی ایجاد کے ساتھ ایک زبردست مرحلے کو عبور کیا، جس کے نتیجے میں طبیعیات کا نوبل انعام   زیورخ میں واقع آئی بی ایم لیب میں کم کرنے والے گرڈ بنیگ  اور ہینرچ روہرر نے جیتا۔

اچانک سے طبیعیات دان اس قابل ہو گئے کہ متحیر کر دینے والی انفرادی ایٹموں کی قطار در قطار کیمیاء کی کتابوں میں موجود جیسی تصاویر حاصل کر سکیں یہ وہ چیز تھی جو ایک موقع پر ایٹمی نظریے کے ناقدین  ناممکن سمجھتے تھے۔  قلموں یا دھاتوں میں موجود قطاروں میں لگے ہوئے نفیس ایٹموں کی تصاویر لینا اب ممکن ہو گیا تھا۔  

وہ کیمیائی فارمولا  جو سائنس دان استعمال کرتے تھے، جس میں ایٹموں کے پیچیدہ سلسلے سالموں میں لپٹے ہوتے تھے  اپ خالی آنکھ سے دیکھے جا سکتے تھے۔ مزید براں یہ کہ تقطیعی سرنگی خردبین نے اس بات کو بھی ممکن بنا دیا تھا کہ انفرادی ایٹموں کے ساتھ جوڑ توڑ بھی کی جا سکے۔ درحقیقت  "آئی بی ایم" کے حروف تہجی انفرادی ایٹموں کے ذریعہ  ہجے کیے گئے  جس نے سائنس کی دنیا میں کھلبلی مچا دی۔

سائنس دان  اب اندھوں کی طرح انفرادی ایٹموں کے ساتھ جوڑ توڑ نہیں کرتے تھے بلکہ وہ اصل میں انھیں دیکھ کر ان کے ساتھ کھیل بھی سکتے تھے۔ تقطیعی سرنگی خردبین مغالطے کی حد تک سادہ  ہے۔ گرامو فون کی سوئیاں جس طرح سے قرص پر تقطیع کا عمل سر انجام دیتی ہیں  اسی طرح سے ایک تیز دھار کھوجی آہستگی کے ساتھ مادّے کے اوپر سے اس کا تجزیہ کرنے کے لئے  گزارا جاتا ہے۔(اس کی نوک اس قدر نوکیلی ہوتی ہے کہ وہ صرف ایک ایٹم پر حس مشتمل ہوتی ہے۔) ایک چھوٹا سا برقی بار کھوجی کے اوپر رکھ دیا جاتا ہے، پھر کھوجی میں برقی رو دوڑائی جاتی ہے  جو اس میں سے ہوتی ہوئی مادّے میں سے گزر کر سطح کے نیچے تک چلی جاتی ہے۔ جیسی ہی کھوجی ایک انفرادی ایٹم کو پاس کرتا ہے، کھوجی میں سے گزرنے والی بہتی ہوئی رو بدلتی رہتی ہے  اور اس بدلاؤ کو ریکارڈ کر لیا جاتا ہے۔ جب سوئی کسی ایٹم کے پاس سے گزرتی ہے تو برقی رو بڑھتی اور گھٹتی ہے  جس کے نتیجے میں غیر معمولی طریقے سے گہرائی میں اس کا نقشہ حاصل ہو جاتا ہے۔ کئی دفعہ کھوجی کے گزرنے کے بعد برقی رو کی تبدیلیوں کو پلاٹ کرنے پر انفرادی ایٹموں کی  جالی کو بناتی ہوئی خوبصورت تصاویر حاصل کی جا سکتی ہیں۔(تقطیعی سرنگی خردبین  کو بنانا کوانٹم طبیعیات کے عجیب و غریب قوانین کی بدولت ممکن ہوا۔ عام طور  سے الیکٹران کے پاس اتنی توانائی نہیں ہوتی کہ وہ کھوجی میں سے ہوتے  ہوئے رکھے ہوئے مادّے کی سطح میں سے  گزر سکے، مگر اصول عدم یقین   کی رو سے اس بات کا تھوڑا سا امکان ہے کہ رو میں موجود الیکٹران  رکاوٹ میں سے گھس جائیں گے اگرچہ یہ نیوٹن کے نظریے کے مخالف بات ہے۔ لہٰذا کھوجی میں سے بہتی رو مادّے میں موجود چھوٹے کوانٹم اثر کے لئے حساس ہوتی  ہے۔ کوانٹم نظریے کے اثر کو میں آگے تفصیل میں بیان کروں گا۔)

 

کھوجی اتنا حساس ہوتا ہے کہ وہ مختلف ایٹموں کے درمیان گھوم سکتا ہے  جس کے ذریعہ وہ سادی انفرادی ایٹموں پر مشتمل مشین بن سکتی ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی اب اس قدر جدید ہو گئی ہے کہ ایٹموں کے جتھے کمپیوٹر کی اسکرین پر دیکھے جا سکتے ہیں  اور اس کے بعد صرف کمپیوٹر کرسر کی حرکت سے ایٹموں کو کہیں بھی اپنی مرضی سے حرکت دی جا سکتی ہے۔ ایٹموں کو ایسے جوڑا توڑا جا سکتا ہے جیسے کہ لیگو بلاکس کے کھیل میں کیا جاتا ہے۔ حروف تہجی کو ایٹموں سے لکھنے کے علاوہ ایٹمی کھلونے بھی بنائے جا سکتے ہیں جیسا کہ ابا کس انفرادی ایٹموں سے بنایا جا سکتا ہے۔ ایٹموں کو سطح پر عمودی قطار میں لگایا جاتا ہے۔ ان عمودی قطاروں میں کاربن کی بکی بال (جن کی شکل فٹبال کی گیند کی طرح کی ہوتی ہے  مگر وہ کاربن کے انفرادی ایٹموں سے مل کر بنتی ہیں۔) یہ کاربن کی گیندیں پھر ہر کھانچے میں اوپر نیچے کی جا سکتی ہیں  جس کے نتیجے میں ابا کس بن جاتا ہے۔

 

یہ بات بھی ممکن ہے کہ الیکٹران کی شعاعوں سے ایٹمی آلات کو   کندہ کیا جا سکے۔ مثال کے طور پر کارنیل یونیورسٹی  میں موجود سائنس دانوں نے دنیا کا سب سے چھوٹا گٹار بنا لیا ہے  جو انسانی بال سے بھی ٢٠ گنا زیادہ چھوٹا ہے جس کو کرسٹلائن سلیکان سے بنایا گیا ہے۔ اس میں ٦ تار ہیں جن میں سے ہر ایک ١٠٠ ایٹموں کی موٹائی جتنا ہے  اور ان تاروں کو ایک ایٹمی قوّت کے مائیکروسکوپ سے کھینچا جا سکتا ہے (یہ گٹار اصل میں بجایا جا سکتا ہے مگر اس کی آواز جس تعدد ارتعاش میں نکلتی ہے وہ انسانی کانوں کی پہنچ سے دور ہے۔)

ابھی تک تو زیادہ تر نینو مشینیں کھلونے ہی ہیں۔ پیچیدہ مشینیں جیسے کہ گیر  اور بال بیرنگ بنانا ابھی باقی ہیں۔ مگر کافی ساری انجینیرز اس بات کے لئے پر اعتماد ہیں کہ آنے والے وقتوں میں وہ اس قابل ہو جائیں گے کہ اصل ایٹمی مشینیں بنا سکیں(ایٹمی پیمانے کی مشینیں قدرتی طور پر پائی جاتی ہیں۔ خلیہ پانی میں اس لئے تیر سکتے ہیں کہ وہ اپنی چھوٹے بالوں کو باقاعدہ جنبش دیتے ہیں۔اگر کوئی ان کے بال اور خلیہ کے درمیان  جوڑوں کا تجزیہ کرے گا  تو اسے  پتا چلے گا کہ  وہ اصل میں ایک ایٹمی مشین ہے  جو اس کے بالوں کو اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ ہر سمت میں حرکت کر سکے۔ لہٰذا ایک طریقہ نینو مشین بنانے کا یہ ہے کہ قدرت کی نقل کی جائے جس نے ایٹمی مشینیں بنانے میں ارب ہا سال پہلے کمال حاصل کرلیا تھا۔

 

جاری ہے .......

 

--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
2۔ پوشیدگی (Invisibility) - حصّہ پنجم (آخری حصّہ)
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ہالو گرام اور پوشیدگی 

ایک دوسرا طریقہ کسی شخص کو غائب کرنے کا یہ ہے کہ اس کے پیچھے والے منظر کی تصویر کشی کی جائے اور پھر پس منظر خاکہ براہ راست اس انسان کے کپڑوں یا اس کے آگے موجود کسی اسکرین پر بنایا جائے۔ سامنے سے دیکھنے پر ایسا لگے گا کہ وہ انسان شاید شفاف ہوگیا ہے کیونکہ روشنی کسی طرح سے اس کے جسم میں سے گزر گئی ہے۔ یونیورسٹی آف ٹوکیو میں واقع ٹاچی لیبارٹری میں ناوکی کا واکامی اس کام میں جس کا نام "بصری بہروپ"ہے،کافی سخت محنت کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے "اس کے ذریعہ پائلٹ کو کاکپٹ میں سے زمین پر موجود رن وے کو دیکھنے میں مدد مل سکے گی، یہ ڈرائیوروں کو بھی مڈگارڈ (ٹائروں کے اوپر کیچڑ سے بچاؤ کے لئے لگائی جانے والی پٹی ) میں سے دیکھتے ہوئے گاڑی کو پارک کرنے میں آسانی ہوگی۔" کا واکامی کا جبہ چھوٹی روشنی کو انعکاس کرنے والی دانوں سے بھرا ہے جو ایک سنیما کی اسکرین کی طرح کا کردار ادا کرتا ہے۔ ایک ویڈیو کیمرہ جبے کے پیچھے کی تصویر لے لیتا ہے۔ جس کے بعد اس تصویر کو ویڈیو پروجیکٹر میں ڈال دیا جاتا ہے جو جبے کے اگلے حصّے پر روشنی پھینکتا ہے جس سے ایسا لگتا ہے جیسے کہ روشنی اس شخص میں سے گزر رہی ہے۔

بصری بہروپ کے ابتدائی نمونے اصل میں لیب میں موجود ہیں۔ اگر آپ براہ راست اس شخص کو دیکھیں جس نے یہ اسکرین کے جیسے جبہ پہنا ہے تو آپ کو ایسا لگے گا کہ جیسے وہ شخص غائب ہو گیا ہے کیونکہ آپ اس شخص کے پیچھے والی تصویر ہی دیکھ رہے ہوں گے۔ مگر جب آپ اپنی آنکھوں کو تھوڑا سے جھپکیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ پیچھے والی تصویر ہل نہیں رہی ہے جس سے آپ کو اس کے جعلی ہونے کا اندازہ ہوگا۔ مزید حقیقت سے قریب تر بصری بہروپ بنانے کے لئے سہ جہتی سراب بنانا ہوگا۔ اس کام کے لئے ہالو گرام کی ضرورت ہوگی۔

ہالو گرام ایک سہ جہتی خاکہ ہوتا ہے جو لیزر کے ذریعہ بنایا جاتا ہے (جس طرح سے سہ جہتی تصویر شہزادی لیا کی اسٹار وار میں تھی)۔ کوئی بھی شخص پوشیدہ ہو سکتا ہے اگر پس منظر کی تصویر خصوصی ہالو گرافک کیمرے کے ذریعہ اتار کر اس شخص کے سامنے موجود خصوصی ہالو گرافک اسکرین پر ڈالی جائے۔ اس شخص کے سامنے موجود دیکھنے والا شخص کے بجائے ہالو گرافک اسکرین کو دیکھے گا جس میں ایک سہ جہتی تصویر اس شخص کے پیچھے کے منظر کی ہوگی اس طرح سے ایسا لگے گا کہ جیسے وہ شخص غائب ہو گیا ہے۔ اگر اس شخص کی جگہ پر ہوبہو اس کے پیچھے کا منظر موجود ہوگا تو آنکھوں کو حرکت دینے کے باوجود بھی یہ بتانا ممکن نہیں ہوگا کہ آپ جو دیکھ رہے ہیں وہ ایک فریب نظر ہے۔

سہ جہتی تصاویر لینا اس لئے ممکن ہوا کہ لیزر کی روشنی "مربوط" ہوتی ہے مطلب کہ تمام موجیں ہم آہنگی کے ساتھ تھر تھرا تی ہیں۔ ہالو گرام مربوط لیزر کی اس کرن سے جو دو حصّوں میں ہوتی ہے بنایا جاتا ہے۔ لیزر کی کرن کا ایک حصّہ فوٹوگرافک فلم پر چمکتا ہے جبکہ دوسرا حصّہ کسی بھی جسم پر پڑ کر اس کو منور کرتا ہوا واپس فوٹوگرافک فلم پر پڑتا ہے۔ جب یہ دونوں کرنیں فلم پر ایک دوسرے کی راہ میں حائل ہوتی ہیں تو اس سے ایک مدا خلتی نمونہ بنتا ہے جو اصل سہ جہتی موج کی تمام معلومات کو رمز بند (انکوڈ) کر دیتا ہے۔ اس فلم کو جب ڈیولپ کیا جاتا ہے تو وہ ایک پیچیدہ سے مکڑی کے جالے سے زیادہ کچھ اور نظر نہیں آتی جس میں گھومتی ہوئی لکیروں کے نمونے نظر آتے ہیں۔ مگر جب لیزر کی کرن اس فلم پر پڑتی ہے تو ہوبہو سہ جہتی نقل اصل شئے کی اچانک جادوئی طریقے سے نمودار ہو جاتی ہے۔

بہرحال ہالو گرافک پوشیدگی کے تیکنیکی مسائل کافی مشکل ہیں۔ ایک چیلنج تو ہالو گرافک کیمرے کو بنانا ہے جو اس بات کا اہل ہو کہ کم از کم ٣٠ فریم پر سیکنڈ سے تصاویر لے سکے۔ دوسرے مسئلہ ان اطلاعات کا ذخیرہ کرنا اور اسے معنی خیز بنانا ہے۔ آخر میں اس حاصل کی گئی تصویر کو اسکرین پر پھینکنا ہے تاکہ وہ تصویر اصل لگ سکے۔

پوشیدگی بہ ذریعہ چوتھی جہت 

ہمیں یہ بات بھی بتانی چاہئے کہ غائب ہونے کی ایک اور زیادہ ثقیف صورت جو ایچ جی ویلز نے "پوشیدہ آدمی "، میں بیان کی ہے جس میں چوتھی جہت کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے غائب ہونا ممکن تھا۔(اس کتاب میں آگے مزید تفصیل سے ممکنہ بلند جہتوں پر بات کروں گا۔) کیا ہم اپنی سہ جہتی کائنات میں رہتے ہوئے چوتھی جہت کے تفوق والے مقام سے اس دنیا میں معلق رہ سکتے ہیں؟ جیسے کہ سہ جہتی تتلی دو جہتی کاغذ کی شیٹ پر اڑتی نظر آتی ہے، ہم کائنات میں اپنے سے نیچے رہنے والی کسی بھی شخص کے لئے مخفی ہو جائیں گے۔ اس تصوّر کے ساتھ صرف ایک مسئلہ ہے کہ ابھی تک بلند جہتوں کا موجود ہونا ثابت نہیں ہوا ہے۔ مزید براں یہ کہ بلند جہتوں کا خیالی سفر جتنی توانائی کا متقاضی ہے وہ توانائی حاصل کرنا ہماری موجودہ ٹیکنالوجی کے بس سے باہر ہے۔ پوشیدگی حاصل کرنےکا یہ طریقہ واضح طور پر ہماری قابلیت اور علم سے کوسوں دور ہے۔ پوشیدگی حاصل کرنے کے لئے جتنی کوششیں کی گئی ہیں ان کو دیکھ کر یہ لگتا ہے کہ یہ آسانی سے ہماری اس جماعت میں شامل ہو سکتی ہے جس کو ہم نے جماعت "I" کی ناممکنات کا نام دیا ہوا ہے۔ آنے والی چند دہائیوں میں یا کم از کم اس صدی میں ہو سکتا ہےکہ پوشیدگی معمولی سی چیز ہو۔

3۔ فیزرس اور غارت گر ستارے (Phasers and Death Stars)

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
3۔ فیزرس اور غارت گر ستارے (Phasers and Death Stars) - پہلا حصّہ 
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ریڈیو کا مستقبل تاریک ہے۔ ہوا سے بھاری اڑنے والی مشینیں بنانا ممکن نہیں ہیں۔ ایکس ریز ایک ڈھکوسلہ ثابت ہوگی۔

- طبیعات دان لارڈ کیلون(Physicist Lord Kelvin) ، ١٨٩٩ء

ایٹم بم کبھی نہیں پھٹے گا۔ یہ بات میں ایک آتش گیر ماہر کی حیثیت سے کہہ رہا ہوں۔

- ایڈمرل ولیم لیہے (Admiral William Leahy) 

١ ،٢ ، ٣ ، ٤ فائر !

"اسٹار وارز" میں دکھایا جانے والا غارت گر ستارہ (ڈیتھ اسٹار) ایک جسیم ہتھیار ہوتا ہے ، جس کا حجم چاند جتنا ہوتا ہے۔ فلم میں وہ شہزادی "لیا" (Lea) کے مستقر ایک بےبس سیارے، "ایلڈی ران "(Alderaan) کی طرف نشانہ باندھ کر فائر کرتا ہے نتیجتاً وہ سیارہ جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔ سیارے کے جلنے سے ایک عظیم دھماکہ رونما ہوتا ہے جو ستارے کا ملبہ پورے نظام شمسی میں دھکیل دیتا ہے ۔ ایک ارب روحوں کی تکلیف دہ چیخوں سے" فورس " میں کھلبلی مچ جاتی ہے اور اس بربریت کی داستان کی بازگشت پوری کہکشاں میں سنائی دیتی ہے۔

کیا "اسٹار وارز" میں دکھایا جانے والا ہتھیار حقیقت حال میں بنانا ممکن ہے؟ کیا ایسا ہتھیار لیزر کے گولے برسا کر پورے سیارے کو تحلیل کر سکتا ہے؟ ان مشہور زمانہ "روشنی کی تلواروں"(Light Sabers) کے بارے میں کیا خیال ہے جو "لیوک ا سکائی والکر"(Luke Skywalker) اور ڈارتھ ویڈر (Darth Vader)نے بنائی تھی۔ یہ تلواریں جو روشنی کی کرنوں سے بننے کے باوجود مضبوط اسٹیل کو کاٹ کر رکھ دیتی تھیں۔ کیا اسٹار ٹریک میں دکھائی جانے والی فیزرس جیسی شعاعی گن مستقبل کی نسل انسانی کے قانون نافذ کرنے والے افسران اور فوجیوں کے لئے ایک کارآمد ہتھیار کے طور پر استعمال ہو سکے گی؟

اسٹار وارز کی فلمیں دیکھنے والے لاکھوں لوگ اس فلم میں دکھائے گئے اصلی خصوصی اثرات کی چمک دمک سے متاثر ہوتے ہیں ، مگر ناقدین کے آگے اسٹار وارز والوں کی بولتی بند ہو جاتی ہے، جو ان میں عیب جوئی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں دکھائی جانے والی چیزیں بطور تفریح تو ٹھیک ہے لیکن ان کا حقیقت کی دنیا سے کوسوں دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ ناقدین کے خیال میں چاند کے حجم جتنا، سیاروں کو ختم کرنے والا شعاعی ہتھیار انتہائی خیالی اور بے ڈھنگا ہے۔ اسی طرح سے ٹھوس روشنی کی کرنوں والی تلوار دور دراز کی کہکشاؤں میں بھی اتنی ہی انوکھی چیز ہوگی جتنی کہ ہماری حقیقی دنیا میں یہ ہیں۔ "جارج لوکاس"(George Locas) ، جو خصوصی اثرات کے ماہر ہیں ، اس کام کو کرتے ہوئے شاید بہت زیادہ بہک گئے ہیں اور انہوں نے تخیل کی سرحدوں کو پار کرنے کی کوشش کی ہے۔

اگرچہ اس بات کا یقین کرنا مشکل ہے ، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ایسی کوئی طبیعی حد موجود نہیں ہے جو خالص توانائی کو روشنی کی کرن میں ٹھونسنے سے روکے۔ طبیعیات کا کوئی ایسا قانون موجود نہیں ہے جو غارت گر ستارے یا پھر روشنی کی ٹھوس تلوار بنانے سے روک سکے۔ درحقیقت سیارے کو تباہ کرنے والی گیما شعاعیں کائنات میں موجود ہیں۔ کائنات کے دور دراز گوشوں میں ہوتے ہوئے گیما اشعاع کے عظیم انفجار خلائے بسیط میں وہ دھماکے پیدا کرتے ہیں جن کا نمبر بگ بینگ کے بعد آتا ہے۔ کوئی بھی بدقسمت سیارہ جو گیما شعاعوں کی لپیٹ میں آ جائے اس کا بھننا یا ٹکڑوں میں بٹنا لازمی ہے۔

شعاعی ہتھیار تاریخ کے آئینے میں 

شعاعی ہتھیار بنانے کا خواب کوئی نیا نہیں ہے بلکہ اس کی جڑیں قدیم دیو مالائی کہانیوں اور داستانوں میں موجود ہیں۔ یونانی دیوتا" زیوس"(Zeus) انسانوں پر بجلی کی کڑک سے اپنا قہر ڈھالنے کے لئے بدنام تھا۔" نورس"(Norse) دیوتا "تھور"(Thor) کے پاس ایک جادوئی ہتھوڑا "میالنیر" (Mjolnir)تھا ، جو بجلی کی کڑکیں پھینک سکتا تھا ، جبکہ ہندوؤں کا دیوتا "اندرا"(Indra) اپنے جادوئی نیزے سے توانائی کی کرنیں پھینکنے کے لئے مشہور تھا۔

شعاعوں کے استعمال کا نظریہ بطور عملی ہتھیار شاید عظیم یونانی ریاضی دان "ارشمیدس"(Archimedes) کے کام سے شروع ، ارشمیدس شاید عہد عتیق کا سب سے عظیم سائنس دان تھا ، جس نے ادھورا علم الاحصاء دو ہزار برس قبل نیوٹن اور "لئبنیز "(Leibniz)سے پہلے دریافت کیا تھا۔ ایک افسانوی جنگ جو رومی جنرل" مارسیلس"(Marcellus) کی فوجوں کے خلاف دوسری پیو نک جنگ(رو میوں ا ور کار تھیجوں کے دو میان ہونے والی تین جنگوں کو پیونک جنگیں کہتے ہیں )٢١٤ قبل مسیح میں ہوئی، ارشمیدس نے ریاست "سیراکیوز "(Syracuse) کے دفاع میں مدد کی اور یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے کافی بڑے شمسی عاکس بنائے جو سورج کی شعاعوں کو دشمنوں کے جہاز پر مرتکز کرتے تھے نتیجتاً ان میں آگ لگ جاتی تھی۔(سائنس دانوں کے درمیان یہ بحث اب بھی جاری ہے کہ آیا ایسا کام کرنے والا شعاعی ہتھیار عملی طور پر بنا نا ممکن ہے۔ سائنس دانوں کی کئی ٹیموں نے اس کی نقل کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے مختلف نکلے۔)

شعاعی بندوق کا سائنس فکشن میں نظر آنا ١٨٨٩ء میں ایچ جی ویلز کے کلاسک ناول "وار آف دا وورلڈز" سے شروع ہوا ، جس میں مریخ کی خلائی مخلوق پورے کے پورے شہروں کو تپائی میں نصب ہتھیاروں سے نکلتی ہوئی حرارتی شعاعوں سے تباہ کر دیتی ہے۔ دوسرے جنگ عظیم کے دوران نازی ہمیشہ سے نئی اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ دنیا کو فتح کرنے کے دیوانے رہے ہیں ، انہوں نے کئی قسم کی شعاعی بندوقوں کے تجربے کیے۔ اس میں شامل ایک صوتی آلہ ایسا تھا جو مکافی آئینوں پر مشتمل تھا اور شدید آواز کی شعاعوں کو مرتکز کر سکتا تھا۔ مرتکز روشنی کی شعاعوں سے بنائے گئے ہتھیار عوام کے تصوّر میں جیمز بانڈ کی فلم" گولڈ فنگر" سے آنے شروع ہوئے، جو ہالی ووڈ کی وہ پہلی فلم تھی جس میں لیزر دکھائی گئی تھی۔(فلم میں دکھایا گیا ہے کہ افسانوی برطانوی جاسوس دھاتی میز پر بندھا ہو ا ہے اور زبردست طاقت والی لیزر کی کرنیں آہستہ آہستہ بتدریج میز کو پگھلاتی ہوئی اس کی ٹانگوں کی طرف بڑھتی ہوئی اس کو دو حصّوں میں تقسیم کرنے کی دھمکی دے رہی ہوتی ہے۔)

طبیعیات دانوں نے ویلز کے ناول میں متعارف ہوئی شعاعی بندوق کا مذاق اڑنا شروع کر دیا تھا کیونکہ ان کے خیال میں وہ طبیعیات کے مروجہ قوانین کی خلاف ورزی کر رہی تھی۔ میکسویل کی مساوات کے مطابق ، جس روشنی کو ہم اپنے آس پاس دیکھتے ہیں وہ تیزی سے پھیلتی ہے اور بے ربط ہوتی ہے۔(یعنی یہ گڈمڈ موجوں والی مختلف تعدد ارتعاش اور مرحلوں والی ہوتی ہیں) ایک زمانے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ مربوط ، مرتکز اور ایک جیسی روشنی کی کرنیں ، جس طرح سے لیزر میں موجود ہوتی ہیں ، بنانی نا ممکن ہوتی ہے۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔

4۔ دور دراز منتقلی (Teleportation)

ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو 
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
4۔ دور دراز منتقلی (Teleportation) - حصّہ اوّل 
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

یہ کتنی اچنبھے کی بات ہے کہ ہم نے متناقص باتوں کی سچائی کو پا لیا۔ اب ہم آگے بڑھنے کی امید کر سکتے ہیں۔

- نیلز بوہر

میں قوانین طبیعیات کو بدل نہیں سکتا، کپتان !

- اسکوٹی ، چیف انجنیئر اسٹار ٹریک

دور دراز منتقلی یا کسی شخص یا شئے کو فی الفور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی ٹیکنالوجی انسانی تہذیب کا راستہ اور اقوام کی منزل تبدیل کر سکتی ہے۔ یہ ناقابل تردید طور پر جنگی اصولوں کو بدل دے گی: افواج اپنے دستوں کو دشمن کو بے خبر رکھتے ہوئے ان کی صفوں کے پیچھے بھیج سکتی ہیں یا صرف دشمن کی قیادت کو دور دراز منتقل کرکے ان کو قید بھی کر سکتی ہیں۔ دور حاضر کے ذرائع نقل و حمل کار سے لے کر پانی کے جہاز تک اور ہوائی جہاز سے لے کر ریل گاڑی تک ، اور بہت ساری صنعتیں جو ان نظاموں کو اپنی خدمات دیتی ہیں سب متروک ہو جائیں گی، ہم ان کو استعمال کرنے کے بجائے اپنے آپ کو دفتر یا کام کرنے کی جگہ پر اور اشیاء کو مارکیٹوں میں آسانی سے منتقل کر دیں گے۔ چھٹیاں گزرنا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوگا کیونکہ ہم اپنے آپ کو اپنی منزل پر بغیر کسی ذریعہ کے استعمال کے منتقل کر لیں گے۔ دور دراز منتقلی ہر چیز کو بدل دے گی۔ 

سب سے قدیم دور دراز منتقلی مذہبی کتابوں میں ملتی ہے مثلاً بائبل ، جہاں روحوں کا خاموشی کے ساتھ افراد کو لے جانا بیان کیا گیا ہے۔ یہ عہد نامہ جدید میں سے لی ہوئی سطریں ہیں جس میں لگتا ہے کہ فلپس کی دور دراز منتقلی غزہ سے اشدُود تک کی گئی تھی۔"جب وہ پانی میں سے نِکل کر اُوپر آئے تو خداوند کا رُوح فلپس کو اُٹھا لے گیا اور خوجہ نے اُسے پھر نہ دیکھا کیونکہ وہ خُوشی کرتا ہُوا اپنی راہ چلا گیا۔اور فلپس اشدُود میں آ نِکلا اور قیصریہ میں پہنچنے تک سب شہروں میں خُوشخبری سُناتا گیا۔(ایکٹس ٨ : ٣٦ – ٤٠ )

دور دراز منتقلی ہر جادوگر کی زنبیل کے کرتبوں اور نظر بندی کا حصّہ ہوتا ہے :مثلاً خرگوش کو ٹوپے سے نکالنا ، تاش کے پتوں کو آستیں میں سے نکالنا اور کسی کے کان کے پیچھے سے سکّہ نکالنا وغیرہ۔ دور حاضر کا سب سے جرات مند جادوئی کمال ہاتھی کو حیرت کے مارے تماشائیوں کے سامنے سے غائب کرنا ہے۔ اس کام کے عملی مظاہرہ میں ایک کافی ٹن وزنی بڑے ہاتھی کو ایک پنجرے میں رکھا جاتا ہے ۔ اس کے بعد جادوگر کی جادوئی چھڑی کے گھومنے کے ساتھ ہی ہاتھی تماشائیوں کو حیرت و استعجاب میں ڈالتا ہوا غائب ہو جاتا ہے۔(ظاہر سی بات ہے کہ حقیقت میں ہاتھی کہیں نہیں جاتا۔ یہ کرتب آئینوں کے ذریعہ دکھایا جاتا ہے۔ لمبے پتلے عمودی آئینوں کی پٹیاں پنجرے کے ہر طرف رکھی ہوتی ہیں۔ دروازے کی طرح یہ عمودی پٹیاں مڑتی بھی ہیں۔ جادوئی کرتب کے شروع میں جب یہ عمودی پٹیاں پنجرے کے اطراف میں اس کے پیچھے رکھ دی جاتی ہیں جس کے نتیجے میں آئینہ نظر نہیں آتا اور ہاتھی دکھائی دیتا ہے ، مگر جب آئینوں کو ٤٥ ڈگری زاویے پر تماشائیوں کے سامنے سے موڑا جاتا ہے تو ہاتھی غائب ہو جاتا ہے اور تماشائی پنجرے کے ایک طرف کی منعکس شدہ تصویر دیکھتے ہیں۔

دور دراز منتقلی اور سائنس فکشن 

سب سے پہلی دور دراز منتقلی جو سائنس فکشن میں ملتی ہے وہ" ایڈورڈ پیج مچل"(Edward Page Mitchell) کی کہانی "بغیر جسم کے آدمی " (The Man Without the Body)میں موجود ہے جو ١٨٧٧ء میں چھپی تھی۔ اس کہانی میں سائنس دان ایک بلی کے جسم کے ایٹموں کو علیحدہ کرکے اس کو ٹیلی گراف وائر کے ذریعہ دور منتقل کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے جب سائنس دان اپنے آپ کو بغیر ذریعے کے منتقل کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے تو عین اس وقت بیٹری ختم ہو جاتی ہے۔ صرف اس کا سر ہی کامیابی کے ساتھ منتقل ہو پاتا ہے۔

"سر آرتھر کونان ڈوئیل"(Sir Arthur Conan Doyle) ، جو اپنے شرلاک ہومز کے ناولوں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں ، ان کو دور دراز منتقلی کے تصوّر نے بہت لبھا لیا تھا۔ برسوں تک جاسوسی ناول اور مختصر کہانیاں لکھ کر وہ شرلاک ہومز سلسلے سے اکتا گئے اور آخر کار اپنے اس سراغ رساں کو پروفیسر "موریارٹی"(Moriarty) کے ساتھ آبشار سے نیچے گرا کر موت سے ہمکنار کرا دیا۔ مگر عوام کے شدید اسرار نے ڈوئیل کو شرلاک ہومز کو دوبارہ زندہ کرنے پر مجبور کر دیا۔ شرلاک ہومز کو مارنے میں ناکامی سے دلبرداشتہ ہو کر ڈوئیل نے ایک نیا سلسلہ شروع کیا ، جس میں پروفیسر" چیلنجر"(Challenger) شرلاک ہومز کے ہم رتبہ تھے۔ دونوں حاضر جواب اور گتھیوں کو سلجھانے کے ماہر تھے۔ جہاں مسٹر ہومز پیچیدہ معموں کو حل کرنے کے لئے ٹھنڈے اور منطقی استنباط سے کام لیتے تھے ، وہیں پروفیسر چیلنجر شیطانیت کی تاریک اور مافوق الفطرت دنیا کی مدد لیتے ہیں اور اس س میں دور دراز منتقلی بھی شامل تھی۔

١٩٢٧ء میں ایک ناول "انتشاری مشین"(The Disintegration Machine) میں پروفیسر کا ٹکراؤ ایک ایسے بھلے مانس آدمی سے ہوا جو ایک ایسی مشین کا موجد تھا جو کسی بھی شخص کو علیحدہ کرکے دور درز منتقل کرنے کے بعد دوبارہ سے جوڑ دیتی تھی۔ لیکن اس وقت پروفیسر چیلنجر کے پیروں تلے زمین نکل گئی جب اس کے خالق نے شیخی بگھارتے ہوئے اسے بتایا کہ اگر مشین کسی غلط ہاتھ میں چلی جائے تو پورے کے پورے لاکھوں افراد کے شہر کو صرف ایک بٹن کے دبانے سے ختم کر دے گی۔ پروفیسر چیلنجر نے اس مشین کا استعمال کرتے ہوئے اس کے موجد کو علیحدہ کیا اور اس کو دوبارہ جوڑے بغیر ہی تجربہ گاہ سے باہر نکل آیا۔

زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب ہالی ووڈ نے دور دراز منتقلی کو دریافت کیا۔١٩٥٨ء میں فلم "مکھی "(The Fly) میں اس بات کا تجزیہ کیا گیا کہ اگر دور دراز منتقلی خطرناک طور پر غلط راہ پر گامزن ہو جائے تو اس کا انجام کیا ہو سکتا ہے۔ فلم میں جب ایک سائنس دان کامیابی کے ساتھ اپنے آپ کو کمرے میں منتقل کرتا ہے تو اس کے جسم کے ایٹم ایک مکھی کے ایٹم سے مل جاتے ہیں جو حادثاتی طور پر دور دراز منتقلی کے خانے میں داخل ہوئی تھی ، اس طرح وہ سائنس دان مضحکہ خیز تقلیبی عفریت میں تبدیل ہو جاتا ہے جو آدھا انسان اور آدھی مکھی ہوتا ہے۔ (اس فلم کا ایک ریمیک جس میں "جیف گولڈبلم" (Jeff Goldblum)نے مرکزی کردار ادا کیا تھا وہ ١٩٨٦ء میں ریلیز ہوئی تھی۔)

دور دراز منتقلی کی مقبولیت پہلی دفع عمومی ثقافت میں اسٹار ٹریک سلسلہ کے ساتھ نمایاں ہونا شروع ہوئی۔ "جین روڈن بیری" (Gene Roddenberry)، جو اسٹار ٹریک کے خالق ہیں ، انہوں نے دور دراز منتقلی اس ڈرامائی سلسلے میں اس لئے متعارف کرائی کیونکہ پیراماؤنٹ ا سٹوڈیو کا بجٹ مہنگے خصوصی اثر پیدا کرنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ جس میں دور دراز کے سیاروں پرسے اڑتے اور اترتے ہوئے خلائی جہازوں کی نقل کی جاتی۔یہ ایک نسبتاً سستا نسخہ تھا کہ انٹرپرائز کے عملے کو ان کی منزل تک روانہ کر دیا جائے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سائنس دانوں نے دور دراز منتقلی کے ممکن ہونے پر کئی قسم کا اعتراضات داغ دیئے۔کسی شے کو دور دراز منتقل کرنے کے لئے سب سے پہلے تو کسی بھی جاندار کے جسم میں موجود ایٹموں کی بالکل صحیح جگہ معلوم ہونی چاہئے۔ شاید یہ بات ہائیزن برگ کے" اصول عدم یقینی"(Uncertainty Principle) کی خلاف ورزی ہوگی (اس اصول کے مطابق کسی بھی الیکٹران کی صحیح جگہ اور بالکل ٹھیک سمتی رفتار کو بیک وقت معلوم نہیں کیا جا سکتا۔) "اسٹار ٹریک" کو پیش کرنے والے نے ناقدین کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے "ہائیزن برگ کا آلہ تثویب" ترسیلی کمرے میں متعارف کروایا ، اور کمرے میں ایک ترکیب طراز آلے کا اضافہ کر دیا جو کوانٹم طبیعیات کے قوانین کا ازالہ کر دیتا تھا۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ ہائیزن برگ کے آلہ تثویب کی ضرورت قبل از وقت تھی۔ اس وقت کے سائنس دان اور ناقدین شاید غلط تھے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔

5۔ خیال رسانی یا خیال خوانی (Telepathy)

ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو 
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

5۔  خیال رسانی یا  خیال خوانی (Telepathy) - حصّہ اوّل 
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

 

 

 

اگر  پورے دن  آپ کا سامنا کسی نئی چیز سے نہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کا دن بیکار گیا۔

 

-  جان وہیلر (John Wheeler)

 

خلاف قیاس عمل  کرنے والے ہی ناممکنات کو حاصل کریں گے۔

 

-  ایم سی ایسچر(M.C Escher)

 

 

 

"اے ای  وین ووگٹ " (E.A Van Vogt) کے ناول "سلان" (Slan) نے ہمارے خیال خوانی سے جڑے ڈر کو بہت ہی زبردست طریقے سے اپنا موضوع بنایا ہے۔

 

" جامی  کراس"(Jommy Cross)  اس ناول کا ہیرو  ایک" سلان"  ہوتا ہے جس کا تعلق ایک معدوم ہوتی  ہوئی انتہائی ذہانت والی خیال خواں  نسل سے ہوتا  ہے۔

 

 ناول میں  اس کے والدین کو بے رحمی کے ساتھ غیض و غضب سے بھرے انسانوں کا وہ  مجمع  قتل کر دیتا ہے  جو تمام خیال رسانوں سے اس لئے خوف کھاتا  اور نفرت کرتا تھا کہ سلانوں  کی یہ شاندار طاقت انسانوں کی ذاتی زندگی میں ان کے  بے تکلف خیالات میں  دخل در معقولات  کر سکتی تھی۔ ناول میں  انسان بے رحمی کے ساتھ سلان کا  جانوروں کی طرح سے  شکار کر تے ہیں ۔ سر میں سے نکلتی ہوئی بیل سوت کی وجہ سے  سلان کو پہچانا بہت ہی آسان تھا۔ ناول کی کہانی کے دوران ، جامی  دوسرے سلانوں  سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتا ہے  جو ممکنہ طور پر انسانوں کے اس بےرحم شکار سے تنگ آ کر خلاء میں فرار ہو گئے تھے۔

 

تاریخی طور پر دماغ شناسی اس قدر اہم رہی ہے کہ اکثر اس کا تعلق دیوتاؤں سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ کسی بھی دیوتا کی بنیادی طاقتوں میں سے ایک دماغ کو پڑھنا تھا  تاکہ وہ ہماری دعاؤں کو سن کر قبول کر سکیں۔ دماغوں کو اپنی مرضی کے مطابق پڑھنے والا ایک خیال خواں  آسانی کے ساتھ کرۂ ارض  کا  طاقتور ترین شخص  بن سکتا ہے۔ ایک ایسا شخص  کسی بھی وال اسٹریٹ بینکر کے دماغ میں داخل ہو کر یا اس کو حریف سے جبراً بلیک میل کرکے  صاحب ثروت  بھی بن سکتا ہے۔ اس کا وجود  قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔ وہ بغیر کوشش کیے کسی بھی قوم کے حساس قومی راز چرا سکتا ہے۔ سلان کی طرح اس سے بھی ڈرا جائے گا اور ہو سکتا ہے کہ اس کو موت کے گھاٹ  بھی اتار  دیا جائے۔

 

ایک سچے خیال رساں کی زبردست طاقت  مشہور زمانہ سلسلے "فاؤنڈیشن" از" آئزک ایسی موف"(Issac Asimov) میں دکھائی گئی ہے۔ اس  کی اکثر تشہیر سائنس فکشن کی طلسماتی دنیا کی سب سے عظیم کہانی کے طور پر کی جاتی ہے۔ کہانی میں ایک کہکشانی سلطنت جو کئی ہزار سال سے حکومت کر رہی تھی اب اپنے زوال و  بربادی کے قریب تھی۔ خفیہ سائنس دانوں کی ایک جماعت جس کا نام سیکنڈ فاؤنڈیشن تھا  اس نے پیچیدہ مساوات کا  استعمال کرتے ہوئے اندازہ لگایا کہ سلطنت  کی تہذیب زوال پذیر ہو کر  آخر کار ٣٠ ہزار سال کے گمنامی کے اندھیرے میں ڈوب جائے گی۔ سائنس دانوں نے مساوات کی بنیاد پر ایک مفصل منصوبہ بنایا۔ اس منصوبے کا مقصد تہذیب کے زوال کو چند ہزار سال تک محدود رکھنا تھا۔ لیکن پھر ایک ناگہانی مصیبت نازل ہو گئی۔ ان کی مفصل مساوات بھی ایک اندازہ لگانے سے چوک گئی تھی۔ اس ناگہانی آفت کے نتیجے میں ایک "تقلیبی"(Mutant) جو "خچر(Mule)" کہلایا پیدا ہو گیا۔ یہ تقلیبی خچر  دور دراز سے بیٹھ کر بھی دماغوں کو اپنے قبضے میں کرنے کی صلاحیت کا حامل تھا ۔نتیجتاً اس کے پاس وہ طاقت و صلاحیت آ گئی تھی جس سے وہ کہکشانی سلطنت پر بھی قبضہ کرنے کے قابل ہو گیا  تھا۔  اگر اس خیال خواں  کو نہیں روکا جاتا تو کہکشاں کے مقدر میں ٣٠ ہزار سال کا انتشارو خلفشار لکھ دیا گیا تھا۔

 

اگرچہ سائنس فکشن خیال رسانی کی زبردست کہانیوں سے بھری ہوئی ہیں مگر حقیقت کچھ زیادہ  ہی تلخ ہے۔ خیالات ذاتی اور غیر مرئی ہوتے ہیں ، لہٰذا  اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صدیوں سے  بہروپئے اور ٹھگ ہم میں موجود سادہ لوح افراد کو بے وقوف بناتے رہے ہیں۔ ایک سب سے آزمودہ  ترکیب  جو جادوگر اور دماغ پڑھنے ولے استعمال کرتے ہیں اس میں  وہ اپنا ایک شریک کار سامعین میں گھسا دیتے ہیں۔ پھر اپنے اس شریک کار کا دماغ پڑھ کر وہ مجمع کو متاثر کرتے ہیں۔

 

 کئی جادوگر اور دماغ پڑھنے والوں نے اپنا پیشہ مشہور زمانہ کرتب" ہیٹ ٹرک" سے شروع کیا۔ جس میں لوگ ذاتی پیغام ایک کاغذ کے ٹکڑے پر لکھ کر اس کو ٹوپی  کے اندر ڈال دیتے تھے۔ اس کے بعد جادوگر سامعین کے پاس جا کر ان کو بتا تا ہے  کہ انہوں نے کیا لکھا تھا جس سے ہر کوئی حیرت زدہ رہ جاتا تھا۔ اس میں مغالطے کی حد تک سادہ  مگر فطین ترکیب استعمال کی جاتی تھی۔ (مزید تفصیلات کے لئے حواشی ملاحظہ کیجئے )

 

ایک اور مشہور خیال خوانی واقعے  میں انسان کے بجائے ایک جانور کا استعمال کیا گیا تھا۔ اس ترکیب میں ایک حیرت انگیز گھوڑاجس کا نام  "چالاک ہنز "(Clever Hans) تھا اس کو استعمال کیا گیا  تھا۔ اس گھوڑے نے یورپین تماش بینوں کو ١٨٩٠ء میں حیرت کے سمندر میں غرق کر دیا تھا۔چالاک ہنز تماشائیوں کو حیرت و استعجاب میں ڈالنے کے لئے پیچیدہ ریاضی کے حسابات حل کرنے کے کارنامے سرانجام دے سکتا تھا۔ مثال کے طور پر اگر آپ چالاک ہنز سے ٤٨ کو ٦ سے  تقسیم کرنے کا کہتے ، تو گھوڑا  اپنے کھر کو آٹھ دفعہ زمین پر مارتا۔ چالاک ہنز حقیقت میں تقسیم، ضرب کسری جمع ، اور الفاظ کے  ہجے بھی کر سکتا تھا بلکہ یہاں تک کہ وہ تو  موسیقی کی طرزوں کو بھی پہچان سکتا تھا۔ چالاک ہنز کے مداحوں نے اس بات کا اعلان کر دیا تھا کہ یا تو وہ انسانوں سے بھی زیادہ ذہین تھا  یا پھر وہ خیال رسانی کے ذریعہ لوگوں کے دماغ سے نتیجے نکال لیتا تھا۔

 

مگر چالاک ہنز کسی فطین ترکیب کا نتیجہ نہیں تھا۔ اس کی حساب لگانے کی شاندار صلاحیت نے اس کے  تربیت کار کو بھی بے وقوف بنا دیا تھا۔ ١٩٠٤ء میں ممتاز ماہر نفسیات پروفیسر "سی اسٹرف" (C. Strumpf)  اس گھوڑے کی جانچ کرنے کے لئے اپنے پاس لے کر آئے لیکن انہوں کسی بھی قسم کی چالاکی یا گھوڑے کو ہوتے ہوئے مخفی اشارے نہیں دیکھے۔ ان کے اس تجزیے سے  عوام میں  چالاک ہنز کی سحر انگیزی اور بڑھ گئی۔  تین سال کے بعد ، اسٹرف کے ایک شاگرد ماہر نفسیات  "آسکر فاسٹ"(Oskar Pfungst)  نے ایک اور با مشقت تجزیہ  کیا اور آخر کار چالاک ہنز کے راز سے پردہ اٹھانے میں کامیاب ہو گیا۔ گھوڑا  صرف اپنے تربیت کار کے چہرے کے انتہائی لطیف تاثرات  کا مشاہدہ کرتا تھا۔ گھوڑا اس وقت تک اپنا کھر زمین پر مارتا رہتا تھا جب تک اس کا تربیت کار اپنے چہرے کے تاثرات کو ہلکا سا بدل نہیں دیتا تھا۔ تاثرات کے بدلتے ہی  وہ اپنا کھر زمین پر مارنا روک دیتا تھا۔ چالاک گھوڑا نہ تو حساب کتاب کر سکتا تھا  نہ ہی لوگوں کے دماغ کو پڑھ سکتا تھا۔  وہ تو  صرف ایک انتہائی چالاک لوگوں کے چہرے کے  تاثرات کا مشاہدہ کرنے والا تھا۔

 

تاریخ میں دوسرے خیال خواں  جانوروں کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ تاریخ میں سب سے پہلے ١٥٩١ء میں انگلستان  میں ایک گھوڑا جس کا نام موروکو تھا اس کا ذکر ملتا ہے۔ اس دور میں وہ گھوڑا بہت مشہور ہو گیا تھا اور اس نے اپنے مالک کی قسمت کھول دی تھی  وہ تماشائیوں میں سے کسی بھی شخص کو پسند کرتا ، حرف تہجی کی طرف اشارہ ، اور پانسے پر موجود اعداد کو جمع بھی کر سکتا تھا۔ اس نے انگلینڈ میں ایک ایسی سنسنی پھیلا دی تھی کہ شیکسپیئر نے اس کو اپنے ڈرامے "لووز لیبرس لوسٹ " میں  بطور  "رقاص گھوڑے" کا کردار لکھ کر امر کر دیا۔

 

جواری بھی اکثر لوگوں کے دماغ کو کافی حد تک پڑھ لیا کرتے تھے۔ عام طور پر انسان جب بھی کوئی خوش ہونے والی چیز دیکھتا ہے تو اس کی آنکھ کی پتلی پھیل جاتی ہے۔ جبکہ اس کی  آنکھ کی پتلیاں  اس وقت سکڑ جاتی ہیں جب وہ کوئی  ایسی چیز دیکھتا ہے جس کو وہ  ناپسند کرتا ہو  (آنکھ کی پتلیاں اس وقت بھی سکڑ جاتی ہیں جب وہ  ریاضی کے پیچیدہ مسائل حل کر رہا ہوتا ہے )۔ جواری اپنے سامنے بیٹھے مخالفوں کے چہروں  پر ان کی آنکھوں میں جھانک کر اس کے سکڑنے اور پھیلنے کا اندازہ لگاتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اکثر جواری رنگین نقاب لگاتے ہیں تاکہ وہ اپنی  آنکھوں کے تاثرات کو چھپا سکیں۔ آنکھوں پر لیزر کی شعاع کو مار کر بھی اس کے منعکس ہونے کی جگہ کا اندازہ لگایا  جا سکتا ہے۔ اس طرح سے کافی صحت کے ساتھ یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ  جس شخص پر لیزر کی شعاع ماری گئی ہے وہ  کہاں دیکھ رہا ہے۔ منعکس ہوئے لیزر کے نقطہ کا تجزیہ کرکے اس بات کا معلوم کیا جا سکتا ہے کہ فاعل کس طرح سے تصویر کا معائنہ کر  رہا ہے۔ ان دونوں ٹیکنالوجی  کو ملا کر  کسی چیز کا معائنہ کرتے ہوئے شخص کے جذباتی تاثرات  اس کی بے خبری  کی حالت میں معلوم کیے جا سکتے۔

 

جاری ہے۔۔۔۔۔

6۔ سائیکو کنیسس یا حرکتِ بعید یا روحی حرکی قوّت (حرکت بذریعہ دماغ )

ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو 
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
6۔ سائیکو کنیسس یا حرکتِ بعید یا روحی حرکی قوّت (حرکت بذریعہ دماغ ) - حصّہ اوّل)
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

کسی بھی نئے سائنسی نظرئیے کی جیت مخالف کو قائل کرنے اور اس کو سیدھا راستہ دکھانے کے بجائے اس میں ہے کہ اس کا مخالف گمنامی کے اندھیرے میں ڈوب جائے اور نئی نسل نئے نظرئیے کے ساتھ جوان ہو۔

- میکس پلانک

ایک کم عقل شخص وہ سچ بولنا اپنا حق سمجھتا ہے جسے عقلمند کبھی نہیں بولے گا۔

- شیکسپیئر

ایک دن آسمان فلک میں دیوتاؤں کا اجلاس ہوا جس میں انسانیت کی حالت اور مفلسی زیر بحث آئی۔ وہ انسانیت کی لاحاصل ، عاقبت نااندیش اور غیر معقول حماقتوں سے نالاں تھے۔ اجلاس میں موجود ایک دیوتا کو انسانوں پر رحم آ جاتا ہے اور وہ انسانوں پر ایک تجربہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں وہ ایک عام آدمی کو لامحدود طاقت عطا کر دیتا ہے۔ وہ یہ دیکھنے چاہتے تھے کہ انسان دیوتا بن کر کیسا برتاؤ کرتے ہیں؟

جارج فنگے (یا فودرینگے[Fotheringay]) بزاز (پارچہ فروش) ایک عام سا کند ذہن شخص تھا۔ ایک صبح اس نے اپنے آپ میں اچانک دیوتائی قوّتوں کو پا یا۔ وہ شمعوں کو پانی میں تیرا سکتا تھا ، پانی کا رنگ بدل سکتا تھا ، شاندار من و سلوا بنا سکتا تھا بلکہ یہاں تک کہ ہیروں کو بھی بنا سکتا تھا۔ شروع میں تو اس نے اپنی طاقت کو تفریح اور اچھے کاموں کے لئے استعمال کی۔ لیکن آخر کار خود نمائی اور ہوس نے اس پر غلبہ پاتے ہوئے اس کو طاقت کا بھوکا جابر انسان بنا دیا جس کے پاس محل اور ناقابل تصوّر کی حد تک دولت تھی۔ اپنی لامحدود طاقت کے نشے میں چور وہ ایک ناقابل تلافی غلطی کر بیٹھا۔ اس نے زمین کو گھومنے سے منع کرنے کا حکم دے دیا۔ اس کے ساتھ ہی زمین پر ایسی آفتیں ٹوٹیں کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ زمین کی گردش رکتے ہی ہر چیز ہزاروں میل فی گھنٹہ کی رفتار سے خلاء میں اڑنے لگی۔ ساری انسانیت خلاء میں پہنچ گئی۔ بے بسی کی حالت میں اس نے اپنی آخری خواہش بیان کی : ہر چیز واپس اسی طرح سے اپنی پرانی شکل میں آ جائے جیسا کہ وہ پہلے سے تھی۔

یہ کہانی اس فلم کا خلاصہ ہے جس کا نام تھا " انسان جو معجزے دکھا سکتا ہے "(دی مین ہو کڈ ورک میریکلس ١٩٣٦ء ) جو ١٩١١ء کی ایچ جی ویلز کی مختصر کہانی پر مبنی تھی۔ (بعد میں یہ جم کیری کی فلم "قادر مطلق بروس " (بروس آل مائٹی ) کے نام سے دوبارہ بنائی گئی جس میں انتہائی طاقتور اور ربّانی قوّتیں مثلاً چھٹی حس، روحی حرکت یا حرکت بعید ( دماغ کے ذریعہ چیزیں کو حرکت میں لانا[Psychokinesis]) ، یا صرف چیزوں کو اپنی سوچ سے حرکت دینے جیسی تمام قوّتیں اس کو تفویض کردی گئی تھیں۔ ویلز اس کہانی سے جو سبق دینا چاہتا تھا وہ یہ تھا کہ دیوتاؤں جیسی طاقت و اختیار کے لئے ان جیسی بصیرت اور ادرک کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ 

روحی حرکت یا حرکت بذریعہ دماغ ادب میں کافی نمایاں مقام رکھتی ہے خاص طور پر شیکسپیئر کے ناول "طوفانی "(دی ٹیمپسٹ) میں جہاں ایک جادوگر" پروسپیرو(Prospero)" اپنی بیٹی "مرانڈا"(Miranda) اور جادوئی موکل "ایریل"(Areil) کے ساتھ برسوں سے ایک سنسان جزیرے پر اپنے شیطانی بھائی کی غداری کی وجہ سے مبتلائے مصیبت تھے۔ پروسپیرو کو جب اس بات کا پتا چلتا ہے کہ اس کا شیطانی بھائی اس کے علاقے میں سے ایک کشتی پر سوار ہو کر گزر رہا ہے تو وہ اپنے بھائی سے انتقام لینے کے لئے اپنی روحی حرکت کی قوّت سے ایک عفریت نما طوفان کا طلسم جگاتا ہے جس کے نتیجے میں اس کے شیطانی بھائی کا پانی کا جہاز جزیرے کے پاس ڈوب جاتا ہے۔ اس کے بعد پروسپیرو اپنی حرکی قوّت زندہ بچ جانے والوں کے اوپر آزماتا ہے جس میں ایک وہ لڑکا بھی شامل ہوتا ہے جس کا نام "فرڈینانڈ" (Ferdinand)ہوتا ہے جو بعد میں پروسپیرو کی بیٹی کا محبوب بن جاتا ہے۔

(روسی مصنف "ولادیمیر نوبوکوف"(Vladimir Nabokov) کے مطابق "طوفانی " کی کہانی سائنس فکشن سے بہت زیادہ ملتی ہے۔ حقیقت میں اس کے لکھے جانے کے ٣٥٠ برس کے بعد یہ کہانی ایک١٩٥٦ء میں بننے والی سائنس فکشن کلاسک فلم "ممنوع سیارہ " میں دوہرائی گئی جس میں پروسپیرو سوچوں میں غلطاں سائنس دان "موربئوس " (Morbius)بن گیا، موکل روبوٹ "روبی"(Robi) بن گیا ، مرانڈا موربئوس کی خوبصورت بیٹی "الٹائر ا"(Altaira) کے روپ میں پیش ہوئی ، اور جزیرے کا نام سیارہ "الٹائر -٤ "(Altair – 4) رکھ دیا گیا۔ جین روڈن بیری جو اسٹار ٹریک ٹیلی ویژن سلسلے کے خالق ہیں انہوں نے اس بات کو برملا تسلیم کیا ہے کہ ان کی ٹیلی ویژن سلسلے کو بنانے کی تحریک دینے والی فلم "ممنوع سیارہ "ہی تھی۔)

حالیہ دور کا ایک اور ناول جس کا نام" کیری" (Carrie)(١٩٧٤ء) تھا اور یہ ا سٹیفن کنگ نے لکھا تھا۔ اس میں روحی حرکت کہانی کا مرکزی حصّہ تھی۔ اس کہانی نے غربت کے مارے مصنف کو دنیا کی خوفناک کہانیوں کا صف اوّل کا مصنف بنا دیا تھا۔ ناول میں کیری ایک حد درجے کی شرمیلی ، جذباتی، معاشرتی طور پر ٹھکرائی ہوئی نا پسندیدہ کالج کی لڑکی تھی جو دماغی طور پر پریشان ماں کے چنگل میں پھنس گئی تھی۔ اس کی تشفی کرنے کے لئے صرف اس کی روحی حرکت کی قوّت ہی تھی جو بظاہر اس کے گھرانہ میں ڈیرہ ڈالے ہوئی تھی۔ناول کے آخر ی حصّے میں اذیت رسان نے دھوکے سے اس کو یہ بات کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ وہ ایک ملکہ ہے اور پھر اس کے نئے لباس کو مکمل طور پر سور کا خون گرا کر آلودہ کر دیا۔ آخری حصّے میں کیری کے انتقام کا انجام دکھایا ہے۔ وہ اپنی دماغی طاقت سے تمام دروازے بند کر دیتی ہے۔ اپنے اذیت رسان کو بجلی سے مار ڈالتی ہے ، اسکول میں آگ لگا دیتی ہے اور خودکشی کا ایسا طوفان چھوڑتی ہے جس کے نتیجے میں قصبے کے زیادہ تر لوگ اپنی زندگیاں ہار جاتے ہیں۔

ذہنی طور پر ایک کھسکے ہوئے شخص کے ہاتھ میں روحی حرکت کی قوّت اسٹار ٹریک سلسلے کی یادگار قسط " چارلی ایکس " (Charlie – X)کا مرکزی خیال تھا ۔ یہ قسط ایک ایسے نوجوان کے بارے ،میں تھی جو خلاء کے ایک دور دراز کے سیارے سے تعلق رکھتا تھا اور مجرمی نوعیت کا تھا۔ اپنی روحی حرکت کی قوّت کو بھلائی کے کاموں میں استعمال کرنے کے بجائے اس نے اس کا استعمال لوگوں کو قابو کرنے کے لئے شروع کر دیا اور ان کو اپنی خود غرض خواہشات کے آگے جھکنے پر مجبور کر دیا۔ اگر وہ "انٹرپرائز" پر قابو پا لیتا تو زمین پر پہنچ کر وہاں سیاروی افراتفری اور تباہی کا سبب بن سکتا تھا۔ 

روحی حرکی قوّت بھی "فورس" کی قوّت تھی جس کو جنگجوؤں کی ایک اساطیری سوسائٹی نے بنایا تھا اس سوسائٹی کا نام" اسٹار وار" کی داستان میں "جیڈآئی" (Jedi)سردار تھا۔

روحی حرکی قوّت اور حقیقی دنیا 

شاید روحی حرکی قوّت کی مشہور دوبدو لڑائی اصل دنیا میں "جونی کار سن"(Johnny Carson) کے شو میں ١٩٧٣ء میں ہوئی۔ یہ تاریخی لڑائی دو لوگوں کے درمیان تھی جس میں سے ایک اسرائیلی نفسیاتی " یوری گیلر"(Uri Geller) تھا جس کا دعویٰ تھا کہ وہ اپنی دماغی طاقت کے بل بوتے پر چمچے کو موڑ سکتا ہے اور دوسرا "امیزنگ رینڈی" (Amazing Randi) - ایک پیشہ ور جادوگر تھا۔ اس نے اپنے دوسرے پیشے کا آغاز ان دھوکے بازوں کے بھانڈے پھوڑنے سے کیا جو روحی حرکی قوّت رکھنے کا دعویٰ کرتے تھے۔(حیرت کی بات یہ ہے کہ ان تینوں کی میراث مشترکہ تھی: سب نے بطور جادوگر اپنا روزگار شروع کیا تھا۔ ہاتھ کی صفائی کی شعبدہ بازی میں کمال حاصل کرکے وہ تماشائیوں کو حیران کر دیتے تھے۔)

گیلر کے شعبدہ بازی دکھانے سے پہلے ، کار سن نے رینڈی سے مشورہ مانگا ۔ رینڈی نے جونی کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے چمچے گیلر کو دے اور شو ٹائم سے پہلے اس نے ان چمچوں کا معائنہ بھی کیا۔ شعبدہ شروع کرتے ہوئے جب کار سن نے گیلر سے کہا کو وہ اپنے چمچوں کے بجائے اس کے دیئے ہوئے چمچوں کو موڑے تو وہ سناٹے میں آگیا۔ ہر دفعہ جب وہ چمچے کو موڑنا شروع کرتا تو ناکام ہو کر شرمندہ ہو جاتا۔( بعد میں رینڈی، جونی کار سن کے شو میں آیا جہاں اس نے کامیابی کے ساتھ چمچوں کو موڑنے کا شعبدہ دکھایا لیکن اس نے اپنے اس جادو کو روحی حرکت کی قوّت کے بجائے شعبدہ بازی کا کمال بتایا۔ دی امیزنگ رینڈی نے ١٠ لاکھ ڈالر کا انعام اس شخص کے لئے رکھا ہوا ہے جو کامیابی کے ساتھ روحی حرکی قوت کا مظاہرہ کرکے دکھائے گا ۔سردست تو کوئی بھی نفسیاتی اس دس لاکھ ڈالر کے انعام کو جیت نہیں سکا ہے۔)

جاری ہے۔۔۔۔۔

7۔ روبوٹس

ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو 
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
7۔ روبوٹس - حصّہ اوّل 
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

آنے والے اگلے ٣٠ برسوں میں ایک دن ایسا آئے گا کہ جب زمین پر ہم خاموشی سے اشرف المخلوقات کے درجے سے تنزلی پا جائیں گے۔

- جیمز مک الئیر (James McAlear)

فلم آئی روبوٹ ، آئزک ایسی موف کی کہانی پر بنی ہے ، جس میں دکھایا جاتا ہے کہ تاریخ میں بنائے جانے والے جدید ترین روبوٹس کا نظام ٢٠٣٥ء میں متحرک ہوتا ہے۔ جس کا نام وی آئی کے آئی (ورچوئل انٹرایکٹو کائینٹک انٹیلی جنس - مجازی تفاعلی حرکی ذہانت ) ہوتا ہے ، اس کے بنانے کا مقصد کسی بڑے شہر کے نظام کو بغیر کسی گڑبڑ کے چلانا ہوتا ہے۔ زیر زمین سڑکوں اور بجلی پہنچانے کے نظام سے لے کر ہزار ہا گھریلو روبوٹس تک ہر چیز وی آئی کے آئی کے ذریعہ قابو کی جاتی ہے۔ جس کی آہن پوش مرکزی قیادت کا نعرہ تھا: انسانیت کی خدمت ہمارا شعار۔

ایک دن وکی ایک سوال پوچھتا ہے : انسانیت کا سب سے بڑا دشمن کون ہے ؟ وکی ریاضیاتی حساب کتاب لگا کر یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ انسانیت کا سب سے بڑا دشمن خود انسان ہی ہے۔ نتیجے کے مطابق انسانیت کو اس کی پاگل پنے کی خواہشات سے بچانا ہوگا ان خواہشات میں آلودگی کو پھیلانا، جنگوں میں الجھنا، اور سیارے کو تباہ کرنا شامل تھا۔ وکی کے پاس صرف ایک ہی ایسا طریقہ تھا جس کے ذریعہ وہ اپنی مرکزی کمان کی ہدایات کو پورا کر سکتا تھا۔ یعنی انسانیت سے اقتدار چھین کر مشین کی خیر اندیش آمریت کا نفاذ کیا جائے۔ انسانیت کو انسانیت سے بچانے کے لئے اسی کو ہی غلام بنانا پڑے گا۔

آئی روبوٹ نے اس قسم کے سوالات اٹھا دیئے ہیں : کمپیوٹر میں ترقی کی تیز رفتاری کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا مشینیں ایک دن انسانیت کا تختہ الٹ دیں گی ؟ کیا روبوٹ اس قدر ترقی یافتہ اور جدید ہو سکتے ہیں کہ آخر میں وہ ہمارے وجود کے لئے خطرہ بن جائیں؟

کچھ سائنس دان اس سوال کا جواب انکار کی صورت میں دیتے ہیں ، کیونکہ مصنوعی ذہانت کا خیال ہی انتہائی بیوقوفانہ ہے۔ ناقدین کی بڑی جماعت اس بات پر متفق ہے کہ ایسی مشین بنانا جو بذات خود سوچ سکے ناممکن ہے۔ ان کے دلائل کے مطابق قدرت کی بنائی ہوئی چیزوں میں انسانی دماغ سب سے پیچیدہ چیز ہے۔ کم از کم ہماری کہکشاں کے اس حصّے کی حد تک تو ایسا ہی ہے اور انسانی دماغ میں پیدا ہونے والے خیالات کی نقل کرنے کی کوشش والی کوئی بھی مشین لازمی طور پر ناکام ہوگی۔ برکلے میں موجود یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے فلاسفر "جان سیَرل" (John Searle) بلکہ آکسفورڈ کے معروف طبیعیات دان "راجر پنروز"(Roger Penrose) بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مشین طبعی طور پر اس قابل نہیں ہیں کہ انسان کی طرح کے خیالات پیدا کر سکیں۔ راگرس یونیورسٹی کے" کولن مک گن" ((Colin McGinn کہتے ہیں کہ "مصنوعی ذہانت ایسے ہی ہے جیسے کوئی حلزون گھونگا" فروڈیین نفسی تجزیہ" کرنے کی کوشش کرے۔ ان کے پاس کوئی تخیلاتی آلات موجود نہیں ہیں۔"

یہ وہ سوال ہے جس نے سائنس دانوں کو ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے سے دو حصّوں میں تقسیم کیا ہوا ہے :کیا مشینیں سوچ سکتی ہیں ؟

مصنوعی ذہانت کی تاریخ 

میکانکی ہستیاں ایک لمبے عرصے سے موجدوں ، انجینیروں ، ریاضی دانوں اور خواب سجانے والوں کو مسحور کیے ہوئے ہیں۔ وزرڈ آف اوز کے ٹین کے آدمی سے لے کر ا سپیل برگ کے آرٹیفیشل انٹیلی جنس :اے آئی میں دکھائے جانے والے بچوں جیسے روبوٹوں تک یا پھر دی ٹرمنیٹر کے قاتل روبوٹوں تک ، ایک ایسے خیال نے ہمیں مسحور کر رکھا ہے جس میں مشینیں لوگوں کی طرح کام کریں اور ان ہی کی طرح سے سوچ سکیں۔

یونانی دیو مالائی کہانیوں میں دیوتا" ولکن "(Vulcan)سونے کی میکانکی کنیزیں اور اپنی مرضی سے حرکت کرنے والی تین ٹانگوں والی میز بنا تا ہے۔ ٤٠٠ قبل مسیح پہلے سب سے پہلے یونانی ریاضی دان جو "ٹیرانٹم"(Tarentum) کا رہائشی تھا اور جس کا نام "ارخیتاس"(Archytas) تھا اس نے کسی ایسے ممکنہ روبوٹ پرندے کے بنانے بارے میں لکھا تھا جس کو بھاپ کی طاقت سے چلایا جا سکتا ہو۔

پہلی صدی بعدِ مسیح اسکندریہ کے ہیرو (جن کو پہلی بھاپ سے چلنے والی مشین کا موجد گردانہ جاتا ہے ) نے خودکار حرکی چیزیں بنائیں ، روایت کے مطابق اس میں سے ایک تو بولنے کے قابل بھی تھی۔ آج سے ٩ صدیوں قبل "الجزاری"(Al-Jazari) نے خود کار مشینوں کے نقشوں کی مدد سے انھیں بنایا جیسا کہ پانی کی گھڑی ، باورچی خانے کے استعمال کی چیزیں اور موسیقی کے آلات جو پانی سے چلتے تھے۔

١٩٤٥ء میں نشاط الثانیہ کے عظیم فنکار اور سائنس دان "لیونارڈو ڈ ا ونچی"(Leonardo Da Vinci) نے ایک ایسے روبوٹک سردار کا نقشہ بنایا تھا جو بیٹھنے اور بازوں کو ہلانے کے علاوہ اپنے سر اور جبڑے کو بھی حرکت دے سکتا تھا۔ تاریخ دانوں کو پورا یقین ہے کہ یہ انسان نما مشین کا پہلا حقیقی نقشہ تھا۔

پہلا بے ڈھنگا مگر کام کرنے کے لائق روبوٹ ١٧٣٨ء میں "جاک ڈی واکنسن"(Jacques de Vaucanson) نے بنایا۔ اس نے ایک ایسا انسان نما روبوٹ بنایا جو بانسری بجا سکتا تھا اس کے علاوہ اس نے ایک میکانکی بطخ بھی بنائی تھی۔

روبوٹ کا لفظ ١٩٢٠ء میں چیک ڈرامے آر یو آر سے نکلا جو ڈرامہ نگار "کارل کیپک"(Karl Capek) نے لکھا تھا۔("روبوٹ" کا مطلب چیک زبان میں "مشقت "کا ہے جبکہ سلوواکی زبان میں اس کا مطلب "مزدوری " کے ہیں )۔ اس کھیل میں ایک کارخانے جس کا نام روسّم یونیورسل روبوٹس تھا وہ ادنیٰ درجے کے کاموں کے لئے روبوٹوں کی فوج بناتی ہے۔(عام مشینوں کے برخلاف یہ روبوٹ گوشت پوست کے بنے ہوتے ہیں۔) آخر کار دنیا کی معیشت کا انحصار ان روبوٹوں پر ہو جاتا ہے۔ روبوٹوں کے ساتھ برتاؤ کافی برا روا رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے انسانی مالکوں کے خلاف بغاوت کرکے ان کو موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔ اپنے اس انتقام میں وہ ان تمام سائنس دانوں کو بھی مار ڈالتے ہیں جو ان کی خرابیوں کو دور کرتے تھے اور نئے روبوٹ بناتے تھے ۔ نتیجتاً وہ خود کو معدومیت کے خطرے سے دوچار کر لیتے ہیں۔ کھیل کے آخر میں دو خصوصی روبوٹ اس بات کو دریافت کر لیتے ہیں کہ ان میں روبوٹوں کو پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور وہ روبوٹوں کے نئے آدم اور حوا بن جاتے ہیں۔

روبوٹ ابتدائی اور مہنگی ترین خاموش فلم جس کا نام میٹروپولس تھا اور جس کی ہدایات کاری فرٹز لینگ نے جرمنی میں ١٩٢٧ء میں کی تھی اس میں بھی روبوٹ ہی مرکزی کردار تھے۔ یہ کہانی ٢٠٢٦ء کے دور کی تھی جہاں پر کام کرنے والا طبقہ زیر زمین ناقص حالات میں غلیظ کارخانوں میں کام کرنے پر مجبور تھا جب کہ حکمران اشرافیہ سطح کے اوپر عیاشی کر رہی تھی۔ ماریہ نام کی حسین عورت نے مزدوروں کا دل کافی حد تک جیت لیا تھا، لیکن حکمران اشرافیہ کو اس سے مزدوروں کو بغاوت پر اکسانے کا خطرہ محسوس ہونے لگا۔ لہٰذا انہوں نے ایک شیطان صفت سائنس دان سے ماریا کا ہمشکل روبوٹ بنانے کو کہا۔ لیکن یہ تدبیر ہی ان کے گلے پڑ گئی کیونکہ اس روبوٹ نے ہی حکمران اشرافیہ کے خلاف بغاوت میں ان مزدوروں کی کمان سنبھال لی اور پورے معاشرتی نظام کو منہدم کر دیا۔

مصنوعی ذہانت یا اے آئی ان پچھلی ٹیکنالوجی سے مختلف ہے جن کے بارے میں ہم پہلے بحث کر چکے ہیں اس کی وجہ اس بنیادی قانون کو ابھی تک ٹھیک سے سمجھا نہ جانا ہے جس کی بنیاد پر یہ کھڑی ہے۔ اگرچہ طبیعیات دانوں کی گرفت نیوٹنی میکانیات پر کافی مضبوط ہے ، مگر میکسویل کا روشنی کا نظریہ ، اضافیت اور کوانٹم کے جوہروں اور سالموں کے نظرئیے ، یہ سب ذہانت کے بنیادی قوانین ہیں اور ابھی تک اسراریت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کا نیوٹن شاید ابھی پیدا ہی نہیں ہوا۔

مگر ریاضی دان اور کمپیوٹر کے میدان کے سائنس دان اس بات سے ذرا بھی خائف نہیں ہیں۔ ان کے خیال میں یہ اب کچھ ہی دیر کی بات ہے جب ایک سوچتی ہوئی مشین تجربہ گاہ سے باہر نکلے گی۔

مصنوعی ذہانت کی دنیا کا سب سے زیادہ اثرو رسوخ رکھنے والا شخص، ایک مستقبل شناس جس نے مصنوعی ذہانت کی تحقیق کی بنیادیں رکھیں وہ برطانیہ کا عظیم ریاضی دان "ایلن ٹیورنگ"(Alan Turing) تھا۔

یہ ٹیورنگ ہی تھا جس نے کمپیوٹر کے انقلاب کی بنیاد رکھی۔ اس نے ایک ایسی مشین (جو اس وقت سے ٹیورنگ مشین کہلاتی ہے )کا خواب دیکھا جو صرف تین چیزوں پر مشتمل ہو: ایک ان پٹ ، ایک آوٹ پٹ اور ایک سینٹرل پراسیسر (جیسا کہ پینٹیم چپ ) جو درست طریقے سے کچھ احکامات پر عمل کر سکے۔ اس طریقے سے نہ صرف وہ کمپیوٹر مشین کے قوانین کو وضع کرنے کے قابل ہو گیا تھا بلکہ ان کی طاقت اور مجبوریوں کو بھی درست طریقے سے معین کر دیا گیا۔ آج کے دور کے تمام ڈیجیٹل کمپیوٹر سختی کے ساتھ ٹیورنگ کے وضع کردہ قوانین پر ہی عمل درآمد کرتے ہیں۔ ڈیجیٹل دنیا کی کو اس کی موجود شکل و صورت میں ڈھالنے کے اوپر ٹیورنگ کا بہت بڑا احسان ہے۔

ٹیورنگ نے ریاضیاتی منطق کی بنیادیں استوار کرنے میں کافی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ١٩٣١ء میں ویانا کے ریاضی دان" کرٹ گوڈیل"(Kurt Godel) نے دنیائے ریاضی کو اس وقت سکتے کی حالت میں ڈال دیا جب انہوں نے اس بات کو ثابت کیا کہ ریاضی میں کچھ ایسے سچے دعوے موجود ہیں جو کہ کبھی بھی مسلمہ طور پر ثابت نہیں کئے جا سکتے۔ (مثال کے طور پر١٧٤٢ء کا" گولڈ باخ کا قیاس" [جو یہ کہتا ہے کہ صحیح عدد جفت جو ٢ سے بڑا ہو وہ دو مفرد اعداد کو جمع کر کے لکھا سکتا ہے ] کو ڈھائی صدیاں گزر جانے کے بعد ابھی تک ثابت نہیں کیا جا سکا ہے اور حقیقت میں ایسا ہو سکتا ہے کہ اس کو ثابت بھی نہ کیا جا سکے۔) گوڈیل کے اس چشم کشا حقائق نے٢ ہزار سالہ پرانے یونانیوں کے دور سے دیکھے جانے والے اس خواب کو چکنا چور کر دیا جس میں تمام سچے دعووں کو ریاضیاتی طور پر ثابت کیا جا سکتا ہے۔ گوڈیل نے یہ بات ثابت کردی کہ ریاضی میں ہمیشہ سے ایسے دعوے موجود رہیں گے جو ہماری پہنچ سے کوسوں دور ہوں گے۔ ریاضی یونانیوں کے اس خواب سے کوسوں دور اور نامکمل دکھائی دی جس میں اس کو مکمل اور بے عیب گردانا گیا تھا۔

ٹیورنگ نے اس انقلاب میں اپنا حصّہ کچھ اس طرح سے ڈالا جس میں اس نے ثابت کیا کہ عمومی طور پر یہ بات جاننا ناممکن ہے کہ ایک ٹیورنگ مشین کسی ریاضی کے عمل کو سرانجام دینے میں لامحدود وقت لے گی۔ یعنی اگر کوئی کمپیوٹر کسی چیز کے حساب کتاب کے کرنے میں لامحدود وقت لے تو اس بات کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ جو کمپیوٹر سے پوچھ رہے ہیں اس کا حساب نہیں لگایا جا سکتا۔ اس بات سے ٹیورنگ نے یہ بات ثابت کردی کہ ریاضی میں کچھ سچے دعوے ایسے ہوں گے جن کا حساب کتاب ریاضیاتی طور پر نہیں لگایا جا سکتا یعنی وہ ہمیشہ کمپیوٹر کی پہنچ سے دور ہی ہوں گے۔ کمپیوٹر جس قدر بھی طاقتور ہو جائیں اس سے ان کے حل طلب ہونے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران ٹیورنگ کے" رمز کشائی "(Code Breaking)پر شاندار کام نے ہزاروں اتحادی افواج کے فوجیوں کی جان بچائی اور اس کا یہ کام جنگ کے انجام پر زبردست طریقے سے اثر انداز ہوا۔ اتحادی نازیوں کے خفیہ کوڈ کی رمز کاری انیگما نام کی ایک مشین سے کرنے میں ناکام ہو گئے تھے ، لہٰذا ٹیورنگ اور ان کے رفقائے کاروں کو یہ کام سونپا گیا کہ وہ ایک ایسی مشین بنائیں جو نازیوں کے مخفی اشاروں کی رمز کشائی کر سکے۔ ٹیورنگ کی بنائی ہوئی مشین "بومبی " کہلائی اور جو اپنے دور کی ایک انتہائی کامیاب چیز تھی۔ اس کی بنائی ہوئی ٢٠٠ سے زائد مشینیں جنگ عظیم دوم کے اختتام تک کام کر رہی تھیں۔ نتیجتاً اتحادی نازیوں کے خفیہ مراسلے پڑھ کر نازیوں کے علم میں آئے بغیر جرمنی کے اگلے حملے کی تاریخ اور جگہ سے واقف ہو جاتے تھے۔ تاریخ دانوں میں تب سے یہ بحث چل رہی ہے کہ ٹیورنگ کے کام کی نارمن ڈے پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی میں کیا اہم حصّہ تھا جس نے آخر کار جرمنی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا تھا۔( جنگ کے بعد ، ٹیورنگ کے کام کو برطانوی حکومت نے "زمرہ بند"(Classified) کر دیا تھا؛ نتیجتاً اس کا اہم کام عام عوام کے علم میں نہیں ہے۔)

ٹیورنگ کو جنگ میں مدد کرکے اس کا پانسہ پلٹنے والے جنگی ہیرو کے طور پر سلامی دینے کے بجائے قید میں دال دیا گیا جہاں اس کی موت واقع ہو گئی۔ قصّہ کچھ یوں ہے کہ ایک دن اس کے گھر میں چوری ہو گئی اس نے پولیس کو بلایا۔ بدقسمتی سے پولیس نے اس کے گھر میں ہم جنس پرستی کے کچھ ثبوت دیکھ لئے اور اس کی بنیاد پر وہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ ٹیورنگ کو تفتیش کے بعد عدالت نے یہ فیصلہ سنایا کہ اس کو جنسی ہارمون کے ٹیکے لگائے جائیں گے۔ ان جنسی ہارمون کے ٹیکوں نے اس پر انتہائی ہیبت ناک اثرات ڈالے۔ اس کے پستان ابھر آئے تھے اور جس سے سخت ذہنی مبتلائے اذیت ہو گیا تھا ۔ اس نے ١٩٥٤ء میں سائنائیڈ زدہ سیب کھا کر خود کشی کر لی۔(ایک افوہ کے مطابق ، ایپل کارپوریشن کے لوگو میں ایک کھایا ہوا سیب، ٹیورنگ کو نذرانہ عقیدت پیش کر رہا ہے۔)

آج شاید ٹیورنگ کو "ٹیورنگ ٹیسٹ " سے زیادہ پہچانا جاتا ہے۔ مشینیں سوچ بھی سکتی ہیں یا ان میں روح بھی ڈالی جا سکتی ہے جیسی بے نتیجہ اور لا حاصل فلسفیانہ گفتگو اور بحث سے اکتائے ہوئے ٹیورنگ نے مصنوعی ذہانت کے ان مباحثوں میں سخت اور درستگی کا تعارف کرانے کی کوشش کی۔جس کے نتیجے میں ایک ٹھوس ٹیسٹ حاصل ہوا۔ اس نے یہ تجویز دی کہ ایک انسان اور ایک مشین کو دو مختلف سربند ڈبوں میں رکھیں۔ اس کے بعد آپ ان دونوں سے کچھ سوالات کریں ۔ اگر آپ اس بات کو معلوم کرنے میں ناکام ہو گئے کہ کون سا جواب انسان اور کون سا جواب مشین نے دیا ہے تو آپ کی مشین نے ٹیورنگ ٹیسٹ پاس کر لیا ہے۔ سائنس دانوں نے سادے روز مرہ کی باتوں کی نقل کرنے والے کمپیوٹر پروگرام لکھے جیسے کہ الیزا (ای ایل آئی زی اے )۔ یہ پروگرام زیادہ ترانجان لوگوں کو آسانی سے بیوقوف بنا کر اس بات پر قائل کر لیتا تھا کہ وہ ایک انسان سے بات کر رہے ہیں۔(مثال کے طور پر زیادہ تر لوگوں کی گفتگو صرف چند سو الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے اور وہ کچھ ہی موضوعات پر بات کرتے ہیں۔) لیکن ابھی تک کوئی بھی کمپیوٹر پروگرام ایسا نہیں لکھا جا سکا جو ان لوگوں کو بیوقوف بنا سکے جو بطور خاص اس بات کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس ڈبے میں انسان اور کس ڈبے میں مشین ہے۔ ( ٹیورنگ نے کمپیوٹر کے میدان میں ہونے والی ترقی کو مد نظر رکھتے ہوئے خود اس بات کا اندازہ لگایا تھا کہ ٢٠٠٠ء تک ایک ایسی مشین بنائی جا سکتی ہے جو ٣٠ فیصد لوگوں کو ٥ منٹوں کے ٹیسٹ میں بیوقوف بنا سکتی ہے۔)

ایک چھوٹی سی فلاسفروں اور الہیات دانوں کی فوج نے تو اس بات کا اعلان کر دیا ہے کہ ہماری طرح سوچ رکھنے ولے روبوٹ بنانا ممکن ہے۔ برکلے میں واقع یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے فلاسفر جان سَرِل نے ایک "چائنیز روم ٹیسٹ " تجویز کیا ہے تا کہ اس بات کو ثابت کیا جا سکے کہ مصنوعی ذہانت ناممکن نہیں ہے۔ ان کی تجویز کا لب لباب یہ ہے کہ روبوٹ کچھ مخصوص ٹیورنگ کے ٹیسٹ کو پاس کرنے کے قابل ہیں ۔لیکن وہ ایسا بے سمجھے بوجھے اندھوں کی طرح سے کچھ ذخیرہ شدہ معلومات سے اس کا مطلب جانے بغیر جوڑ توڑ کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر آپ ایک ڈبے کے اندر بیٹھے ہیں اور آپ چائنیز زبان کا کوئی لفظ نہیں جانتے۔ فرض کیجئے کہ آپ کے پاس ایک ایسی کتاب ہے جو انتہائی تیزی کے ساتھ چائنیز کا ترجمہ کرکے الفاظ کا ہیر پھیر کر سکتی ہے۔ اب اگر کوئی آدمی آپ سے چائنیز میں کوئی سوال کرے تو اپ ان اجنبی لفظوں کو صرف آگے پیچھے ہی کر سکتے ہیں اس بات کو جانے بغیر کہ اس کا مطلب کیا ہے اور نتیجے میں قابل یقین جوابات مل جائیں۔

اس کی تنقید کے لب لباب نے "ترکیب کلام قاعدہ"(Syntax) اور "لفظیات"(Semantics) میں فرق کو کم کر دیا ہے ۔ روبوٹ ترکیب کلام قاعدہ کے ماہر ہو سکتے ہیں (مثال کے طور پر وہ قواعد اور اس کی رسمی ساختوں میں ہیر پھیر کر سکتے ہیں۔)لیکن اس کے لفظیات کی روح میں الٹ پھیر نہیں کر سکتے (مثلاً الفاظ کا کیا مطلب ہے )۔ روبوٹ الفاظ کو ان کے معنی جانے بغیر ہیر پھیر کر سکتے ہیں۔(یہ کسی ٹیلی فون پر ایک خود کار جوابی صوتی اطلاعاتی مشین کے ساتھ بات کرنے جیسا ہی عمل ہے جس میں آپ کو ہر جواب کے رد عمل میں کبھی ایک کا بٹن دبانا ہوتا ہے تو کبھی دو کا۔ دوسری طرف موجود آواز بے عیب طور پر آپ کے عددی رد عمل کو جانتی تو ہے لیکن وہ اس کو مکمل طور پر سمجھنے کے قابل نہیں ہوتی۔)

آکسفورڈ کے طبیعیات دان رابرٹ راجر پنروز بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کا حصول ناممکن ہے ؛ ایسی میکانکی ہستیاں بنانا جو انسانی سوچ اور شعور رکھ سکیں کوانٹم کے قوانین کی رو سے ناممکن ہیں۔ ان کے دعوے کے مطابق انسانی دماغ کو کسی بھی تجربہ گاہ میں بنانا بہت دور کی بات ہے اور ایسا کوئی بھی تجربہ جس میں انسان کے جیسے روبوٹ بنائے جائیں بری طرح سے ناکامی سے دوچار ہوگا۔(وہ اس بات کو بالکل اسی طرح سے بیان کرتے ہیں جیسے کہ" گوڈیل کا اصول ناتمام مسئلہ اثباتی"(Godel Incompleteness theorem) اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ ریاضی ناتمام ہے ، ہائیزن برگ کا اصول عدم یقین اس بات کو ثابت کر دے گا کہ مشین اس قابل نہیں ہوں گی کہ وہ انسانی خیالات کی طرز پر سوچ سکیں۔)

کئی طبیعیات دان اور انجنیئر اس بات پر اب ابھی یقین رکھتے ہیں کہ طبیعیات کے قوانین ہمیں انسان جیسے روبوٹ بنانے سے نہیں روکتے۔ مثال کے طور پر بابائے نظریہ اطلاع کہلانے والے" کلاڈ شینن" (Claude Shannon)سے جب یہ سوال پوچھا گیا "کیا مشینیں سوچ سکتی ہیں ؟" ان کا جواب تھا "ضرور"۔ جب ان سے کہا گیا کہ اپنے اس جواب کو ذرا واضح کریں تو انہوں نے کہا "میں ایسا سمجھتا ہوں۔" با الفاظ دیگرے ان کے خیال میں یہ بات واضح تھی کہ مشینیں اس لئے سوچ سکتی ہیں کیونکہ انسان بھی تو مشین ہی ہے (تاہم وہ سوکھے اور سخت اجزاء سے بننے کے بجائے گیلے اجزاء سے بنے ہیں۔) 

کیونکہ ہم فلموں میں موجود روبوٹوں کو دیکھتے ہیں اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے حامل پیچیدہ روبوٹ کی اصل اور حقیقی دنیا میں آمد صرف اب کچھ ہی دیر کی بات ہے۔ حقیقت اس سے کہیں زیادہ مختلف ہے۔ عام طور پر انسان جیسے نظر یا دکھائی دینے والے روبوٹ کے پیچھے کوئی چالاک ترکیب استعمال کی گئی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر کوئی آدمی سائے میں چھپ کر بیٹھا ہوا ہوتا ہے جو مائکروفون کے ذریعہ روبوٹ بن کر بات کر رہا ہوتا ہے بعینہ ایسے جیسے کہ ساحر نے "دی وزرڈ آف اوز " میں کیا تھا۔ سیارہ مریخ پر بھیجی گئی خلائی گاڑیوں میں ہمارے اب تک کے بنائے ہوئے سب سے جدید روبوٹ موجود ہیں لیکن ان کی ذہانت ایک کیڑے سے زیادہ نہیں ہے۔ ایم آئی ٹی کی مشہور زمانہ مصنوعی ذہانت کی تجربہ گاہ میں ، تجرباتی روبوٹوں کو لال بیگ جیسے کرتب دکھانے میں بھی انتہائی مشکل ہوتی ہے۔ جیسے کہ فرنیچر سے بھرے کمرے میں گھومنا ، چھپنے کی جگہوں کو تلاش کرنا اور خطرے کو بھانپنا وغیرہ۔ زمین پر موجود کوئی بھی روبوٹ بچوں کی سادہ سی کہانی کو بھی نہیں سمجھ سکتا۔

٢٠٠١ء :اے ا سپیس او ڈےسی فلم میں یہ غلط طور پر سمجھ لیا گیا کہ ٢٠٠١ء تک ہم سب کے پاس ایچ اے ایل (ہیریسٹیکلی پروگرامڈ الوگرتھم کمپیوٹر ) ہوگا ، ایک سپر –روبوٹ جو خلائی جہاز کو مشتری تک لے جانے کے قابل ہوگا ، وہ عملے سے بات چیت بھی کر سکے گا ، مسائل کو حل کرے گا اور انسانوں جیسا برتاؤ کرے گا۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔

8۔ ماورائے ارض اور نا شناختہ طائر ی اشیاء (اڑن طشتریاں )

 
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
8۔ ماورائے ارض اور نا شناختہ طائر ی اشیاء (اڑن طشتریاں )
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
یا تو ہم کائنات میں اکیلے ہیں یا پھر ایسا نہیں ہیں۔
دونوں خیالات ہی ڈرا دینے والے ہیں۔

- آرتھر سی کلارک

ایک میلوں پر محیط جسیم خلائی جہاز پورے آسمان کو ڈھکتا ہوا لاس اینجیلس کی فضاء میں ابھرتا ہے۔ نتیجتاً پورا شہر اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے۔ پوری دنیا میں اہم شہروں کے گرد طشتری نما حصار بنا لئے جاتے ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں خوش باش تماشائی دوسرے سیارے سے آنے والے مہمانوں کو لاس اینجیلس میں خوش آمدید کہنے کو تیار رہتے ہیں اور اس مقصد کے لئے وہ اپنی اونچی عمارتوں کی چھتوں پر جمع ہو جاتے ہیں تا کہ وہ اپنے فلکی مہمانوں کے قریب جا سکیں۔

خاموشی سے لاس اینجیلس پر معلق رہنے کے کئی دن بعد خلائی جہاز کے درمیانی حصّہ کھلتا ہے جس میں سے ایک لیزر شعاعوں کے بوچھاڑ کو داغا جاتا ہے جو چشم زدن میں اونچی عمارتوں کو بھسم کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں تباہی کی وہ لہر پورے شہر میں پھیل جاتی ہے۔ اور چند ہی سیکنڈوں میں شہر کو جلے ہوئے پتھروں کے روڑوں میں تبدیل کر دیتی ہے۔ 

فلم انڈیپنڈنس ڈے (یوم آزادی ) میں دکھائی جانے والی خلائی مخلوق ہمارے اندر کے خوف کی نمائندگی کرتی ہے۔ فلم ای ٹی میں ہم اپنے خواب اور حسرتیں خلائی مخلوق میں ڈالتے ہیں۔ پوری تاریخ میں لوگ خلائی مخلوق کے خیالوں سے سحر انگیز رہے ہیں جو دوسری دنیا کے باسی ہوتے ہیں۔ ١٦١١ء سومنیم رسالے میں ، ماہر فلکیات جوہانس کیپلر نے اپنے وقت کی بہترین سائنسی علم کو استعمال کرتے ہوئے چاند تک کے سفر کے بارے میں پیش گوئی کی۔ اس کے خیال میں اس سفر کے دوران ہمارا واسطہ عجیب خلائی مخلوق ، پودوں اور جانوروں سے پڑ سکتا ہے۔ لیکن اکثر سائنس اور مذہب خلاء میں زندگی کے موجود ہونے کے تصوّر پر متصادم ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے نہایت ہی بھیانک نکلتے ہیں۔

چند برسوں پہلے ، ١٦٠٠ء میں ڈومنیکی راہب اور فلسفی "جرڈانو برونو"(Giordano Bruno) کو روم کی سڑکوں پر زندہ جلا دیا تھا۔ اس کی تذلیل کرنے کے لئے گرجا نے اس کو الٹا لٹکا دیا تھا اور جلانے سے پہلے اس کو برہنہ کر دیا تھا۔ برونو کس چیز پر یقین رکھتا تھا جس کی پاداش میں اس کو نشانہ عبرت بنا دیا تھا ؟ اس نے تو بس ایک سادہ سا سوال کر لیا تھا : کیا خلاء میں حیات کسی شکل میں موجود ہے؟ کوپرنیکس کی طرح وہ بھی اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے لیکن کوپرنیکس کے برعکس وہ اس بات پر بھی یقین رکھتا تھا کہ ہمارے جیسی انگنت مخلوق خلاء میں رہتی ہیں۔(بجائے اس بات کو سمجھا جاتا کہ ممکنہ طور پر ارب ہا صوفی، راہب ، گرجا اور یسوع مسیح خلاء میں موجود ہو سکتے ہیں ، گرجا والوں کے لئے یہ زیادہ آسان راستہ تھا کہ ایسی بات کرنے والے کسی بھی آدمی کو زندہ جلا کر جان چھڑا لی جائے۔)

کچھ چار صدیوں سے زائد عرصے سے برونو سائنسی مورخین کا سائے کی طرح سے پیچھا کر رہا ہے۔ آج برونو ہر ہفتے اپنا انتقام لے رہا ہے۔ ہر دوسرے مہینے ایک نیا ماورائے شمس سیارہ کسی دوسرے ستارے کے گرد چکر لگاتا ہوا دریافت ہو رہا ہے۔ ابھی تک خلاء میں ڈھائی سو سے زیادہ سیارے دوسرے ستاروں کے گرد چکر لگاتے ہوئے دریافت ہو چکے ہیں۔ برونو کی ماورائے شمس سیاروں کی پیش گوئی درست ثابت ہو چکی ہے۔ لیکن ابھی ایک سوال کا جاننا باقی ہے۔ ہرچند ملکی وے کہکشاں میں ماورائے شمس سیارے موجود ہیں مگر ان میں سے کتنے ایسے ہیں جہاں زندگی موجود ہے ؟ اور اگر شعور کی حامل حیات خلاء میں موجود ہے تو سائنس اس کے بارے میں کیا کہتی ہے ؟

کسی خلائی مخلوق سے فرضی ٹاکرا معاشرے ، ہنگامے کے شوقین قاریوں اور فلم بینوں کو نسلوں سے متحیر کیے ہوئے ہے۔ سب سے مشہور واقع ٣٠ اکتوبر ١٩٣٨ء میں ہوا جب اورسن ویلز (Orson Welles)نے ہیلووین کی تفریح امریکی عوام سے کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ایچ جی ویلز کی وار آف دی ورلڈ سے بنیادی خیال لیا اور مختصر خبروں کو سی بی ایس قومی ریڈیو پر نشر کرنا شروع کر دیا۔ اس کھیل کو رقص و موسیقی کے پروگراموں کے درمیان میں نشر کیا گیا ، وقفے وقفے سے مریخیوں کا زمین پر حملہ اور اس کے بعد تہذیب کی تباہی کی کہانی بیان کی جاتی رہی۔ اس خبر کو سن کر کہ مریخ کی مشینیں گروور مل ، نیو جرسی میں اتر چکی ہیں اور وہاں پر انہوں نے موت کی شعاعوں کو شہروں کو تباہ کرنے اور دنیا کو فتح کرنے کے لئے داغنا شروع کر دیا ہے، لاکھوں امریکیوں میں کھلبلی مچ گئی۔( بعد میں اخباروں کے ذریعہ یہ بھی پتا چلا کہ شہر سے یکدم شہریوں کا انخلاء بھی ہونا شروع ہو گیا تھا۔ اس کی وجہ کچھ چشم دید گواہوں کے زہریلی گیس کو سونگھنے اور دور دراز میں روشنی کے جھماکے دیکھنے کے دعوے تھے ۔)

مریخ کی سحر انگیزی کے جادو نے اس وقت بھی سر چڑھ کر بولنا شروع کر دیا تھا جب ماہرین فلکیات نے مریخ پر ایک عجیب سا نشان دیکھا جو ایک جسیم "M" کی طرح دکھائی دیتا تھا اور میلوں دور تک پھیلا ہوا تھا۔ تبصرہ کاروں نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ ہو سکتا ہے کہ "M" کا مطلب "مریخ " ہی ہو۔ اور مریخی ، زمینی لوگوں کو اپنے وجود کی آگاہی سے امن پسندی کے ساتھ اس طرح سے روشناس کر وا رہے ہوں ، جس طرح سے چئیر لیڈر اپنی فٹ بال کی ٹیم کا نام میدان میں ہجے کرتی ہیں۔(دوسروں نے اس کا تاریک پہلو ایسے دیکھا کہ ان کے خیال میں "M" اصل میں "W" تھا اور "W" کا مطلب "وار "(جنگ ) تھا ۔ دوسرے الفاظوں میں مریخیوں نے زمین کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا ۔ یہ ہلچل اس وقت ختم ہو گئی جب وہ "M" ایسے غائب ہو گیا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ وہ نشان گرد کے طوفانوں کی وجہ سے پیدا ہوا تھا۔ جس نے پورے سیارے کو گھیر لیا تھا۔ صرف بڑے چار آتش فشاں اس سے ڈھکنے سے بچے رہ گئے تھے۔ ان چاروں آتش فشانوں کے دھانے کچھ "M" یا "W" جیسے دکھائی دیتے تھے۔

حیات کی کھوج کی سائنسی تحقیقات 

ماورائے ارض حیات کی ممکنہ کھوج کرنے والے سنجیدہ طبع سائنس دان کہتے ہیں کہ حیات جیسی کسی بھی چیز کے وجود کے بارے قطعیت کے ساتھ کہنا ناممکن ہے۔ اس بات سے قطع نظر ہم خلائی حیات کے بارے میں عمومی خیالات کا اظہار طبیعیات، کیمیا اور حیاتیات کو مد نظر رکھتے ہوئے کر سکتے ہیں۔

سب سے پہلے سائنس دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مائع پانی کی موجودگی کائنات میں حیات کی تخلیق کے لئے سب سے اہم چیز ہے۔" پانی کے پیچھے چلو " کا نعرہ اکثر فلکیات دان اس وقت لگاتے ہیں جب وہ حیات کے ثبوت خلاء میں تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔۔ مائع پانی ، دوسرے مائعوں کے برعکس کائناتی حل پذیر ہے اس میں حیران کر دینے والی مختلف کیمیائی چیزوں کو حل کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس کی مثال ،مثالی ڈونگے کی سی ہے جس میں پیچیدہ تر سالمات بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پانی بھی ایک سادہ سالمہ ہے جو پوری کائنات میں پایا جاتا ہے ، جبکہ دوسرے مائع کافی نایاب ہیں۔

دوسرے ہم یہ بات بھی جانتے ہیں کہ کاربن ایک ایسا عنصر ہے جو حیات کی تخلیق میں استعمال ہوتا ہے کیونکہ اس میں چار بند ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس میں چار دوسرے ایٹموں کو باندھنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے جس کے نتیجے میں ناقابل یقین پیچیدہ ترین سالمات بن سکتے ہیں۔ مختصراً کاربن کی لمبی زنجیریں بنانا آسان ہے جو ہائیڈرو کاربن اور نامیاتی کیمیا کی بنیادی اساس ہوتی ہیں۔ دوسرے چار بندوں کی صلاحیت کے حامل عنصر اس قابل نہیں ہوتے کہ اتنی زرخیز قسم کی کیمیائی چیزوں کو بنا سکیں۔

سب سے زیادہ کاربن کی اہمیت اس مشہور زمانہ تجربے میں حاصل کی گئی جو "اسٹینلے ملر" (Stanley Miller)اور "ہیرالڈ یوری" (Herold Urey) نے ١٩٥٣ء میں کیا جس میں معلوم ہوا کہ ہو سکتا ہے کہ خود کار حیات قدرتی طور پر کاربن کی کیمیا کا ضمنی حاصل ہو۔ انہوں نے امونیا ، میتھین اور دوسرے زہریلے کیمیائی اجزاء کا محلول لیا جو ان کے مطابق نوزائیدہ زمین پر موجود تھے۔ اس کو انہوں نے ایک جار میں رکھا اور اس میں تھوڑی سی برقی رو گزاری اور اس کے بعد انتظار کرنے لگے۔ ایک ہفتے کے دوران ہی انہوں نے خود بخود امینو ایسڈ کے بننے کے ثبوت دیکھے۔ برقی رو نے امونیا اور کاربن میں موجود بندوں کو توڑ کر جوہروں کو از سر نو ترتیب دے کر پروٹین کے پیش رو امینو ایسڈ کو بنا دیا۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ حیات شاید خود سے پیدا ہو گئی ہو۔ امینو ایسڈ شہابیوں کے اندر اور خلائے بسیط میں گیس کے بادلوں میں بھی پائے گئے ہیں۔

تیسرے، حیات کی بنیادی اساس وہ سالمہ ہے جو خود کی نقل بنا لیتا ہے جس کو ڈی این اے کہتے ہیں۔ کیمیا میں خود کی نقل کرنے والے سالمات انتہائی نایاب ہیں۔ زمین پر پہلے ڈی این اے نے بننے میں شاید سمندروں کے اندر کروڑوں سال کا عرصہ لگایا ہوگا۔ غالباً اگر کسی نے ملر –یوری والا تجربہ دس لاکھ سال پہلے سمندر میں دہرایا ہو تو ڈی این اے کے سالمات خود سے بن سکتے تھے ۔زمین پر ان جگہوں کی ممکنہ امیدوار جہاں اوّلین ڈی این اے جیسے سالمات بنے ہوں گے وہ سمندر کی تہ میں آتش فشانی ریخیں ہو سکتی ہیں ، پودوں اور ضیائی تالیف کے عمل کو شروع ہونے سے پہلے ان ریخوں میں ہونے والی ہلچل توانائی کی معقول مقدار ابتدائی ڈی این اے کے سالموں اور خلیوں کو مہیا کر سکتی تھی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ڈی این اے کے ساتھ ساتھ کاربنی سالمات بھی خود کی نقل کر سکتے ہیں یا نہیں۔ لیکن کائنات میں ڈی این اے کی شباہت کے دوسرے خود کار نقلچی سالمات کی موجودگی کی امید کی جا سکتی ہے۔ 

لہٰذا ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ حیات کو مائع پانی ، ہائیڈرو کاربن کیمیائی اجزاء اور کچھ طرح کے خود کار نقلچی سالمات مثلاً ڈی این اے کی ضرورت ہوگی۔ ان جامع اصولوں کی کسوٹی کا استعمال کرتے ہوئے ہم اس طرح ایک اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کائنات میں ذہین مخلوق کی تعداد کیا ہوگی۔ ١٩٦١ء میں کارنیل یونیورسٹی کے ماہر فلکیات "فرینک ڈریک"(Frank Drake) وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے ایک خام تخمینہ لگایا تھا۔ اگر ہم ملکی وے کے ایک کھرب ستاروں سے شروع کریں تو ہم دیکھیں گے کہ اس کی معمولی تعداد ہمارے سورج جیسے ستاروں کی ہو گی۔ اس کے بعد ہم ان ستاروں کے گرد ماورائے نظام ہائے شمس تلاش کریں۔ با الخصوص ڈریک کی مساوات اس بات کا تخمینہ لگاتی ہے کہ کہکشاں میں کتنی تہذیبیں موجود ہونی چاہیں ۔ اس مقصد کے لئے وہ کوئی اعداد کو ضرب دیتے ہیں جس میں مندرجہ ذیل عوامل شامل ہیں :

· کس شرح سے ستارے کہکشاں میں پیدا ہو رہے ہیں ،
· کتنے ستاروں کے گرد سیارے موجود ہوں گے ،
· ہر ستارے کے گرد کتنے سیارے ایسے ہوں گے جہاں حیات کی جملہ شرائط موجود ہوں گی ،
· ان میں سے کتنے سیارے ایسے ہوں گے جہاں حیات نے جنم لیا ہوگا ،
· ان میں سی کتنی حیات ایسی ہوں گی جنہوں نے ذہانت حاصل کی ہوگی،
· اس میں سے کتنی ایسی حیات ہوں گی جو اس بات کی خواہش اور قابلیت رکھتی ہوں کہ وہ رابطہ کر سکیں، اور
· ایک تہذیب کی اندازاً کیا عمر ہوگی۔

معقول تخمینا جات لے کر اور متواتر احتمال کو ضرب دے کر ہم یہ نتیجہ آسانی سے اخذ کر سکتے ہیں کہ ١٠٠ سے لے کر ١٠ ہزار ایسے سیارے صرف ملکی وے کہکشاں میں موجود ہو سکتے ہیں جہاں حیات اپنا مسکن بنا سکتی ہے۔ اگر حیات کی ذہین قسم کی شکل ملکی وے میں یکساں طور پر پھیلی ہوئی ہو تو پھر ہم اس بات کی امید کر سکتے ہیں کہ ایسا کوئی سیارہ زمین سے صرف چند نوری برس کے فاصلے پر موجود ہوگا۔ ١٩٧٤ء میں کارل ساگاں نے صرف ملکی وے کہکشاں میں ہی ١٠ لاکھ تہذیبوں کے موجود ہونے کا اندازہ لگایا تھا۔

یہ قیاس ہی ان لوگوں کی مزید تائید کرتا ہے جو ماورائے ارض تہذیبوں کے ثبوتوں کے متلاشی ہیں۔ ذہین حیات کو پروان چڑھانے والے موافق سیاروں کے تخمینا جات کی بنیاد پر سائنس دان سنجیدگی کے ساتھ ایسے ریڈیائی اشاروں کی تلاش کر رہے ہیں جو کسی سیارے سے نشر ہو رہے ہوں ، یہ اشارے ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے اشاروں جیسی ہی ہوں گے جو ہماری زمین نے آج سے پچاس سال قبل نشر کرنے شروع کیے تھے۔ 

جاری ہے۔۔۔۔۔

9۔ نجمی خلائی جہاز (اسٹار شپس )

ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو 
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
9۔ نجمی خلائی جہاز (اسٹار شپس ) حصّہ اوّل 
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
چاندپر کسی چیز کو پھینکنا ایک مہمل اور بیوقوفانہ مثال ہے اس بد طینت مہارت کے پیچھے سائنس دان چلیں گے ۔۔۔۔ یہ دعویٰ بنیادی طور پر نا ممکن لگ رہا ہے۔

- اے ڈبلیو بائیکرٹن(A.W.Bickerton) 

بگمان غالب انسانیت کے ٹھاٹ باٹ کبھی بھی ختم نہیں ہوں گے۔ انسان ایک سے دوسرے سورج کی طرف ہجرت کریں گے جب وہ ختم ہو جائے گا۔

اور حیات ، ذہانت اور انسانیت کی معراج کا خاتمہ کبھی نہیں ہوگا وہ ہمیشہ ترقی کرے گی۔

- کونسٹنٹین ای ٹیولکوفسکی(Konstantin E. Tsiolkovsky) - بابائے راکٹ

مستقبل بعید میں ایک دن ضرور ایسا آئے گا جب وہ ہمارا زمین پر آخری دن ہوگا۔ آج سے ارب ہا سال گزرنے کے بعد آخر کار آسمان پر آگ برسنے لگے گی۔ سورج پھول کر زمین سے سوا نیزے کی دوری پر رہ کر اس کو جہنم بنا دے گا ۔ پورے آسمان پر صرف سورج ہی دکھائی دے گے اور آسمان میں موجود دوسری تمام چیزیں اس کے آگے ہیچ لگیں گی۔ زمین پر درجہ حرارت کے بڑھنے کے ساتھ ہی سمندر ابل کر بخارات بن کر اڑ جائیں گے اور اپنے پیچھے سوختہ اور تپتی ہوئی خشک زمین چھوڑ دیں گے۔ پہاڑ پگھل کر سیال میں بدل جائیں گے نتیجتاً جہاں کبھی شہر بسا کرتے ہوں گے ان جگہوں پر لاوا بہنے لگے گا۔

قوانین طبیعیات کی رو سے یہ ڈراؤنی وحشت ناک قیامت آنا ناگزیر ہے۔ آخر کار سورج زمین کو آگ کے شعلوں میں لپیٹ کر ختم کر دے گا۔ قوانین طبیعیات میں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔

یہ آفت و بربادی کا عمل اگلے ٥ ارب برسوں میں ہوگا۔ کائناتی وقت کے اس پیمانے پر انسانی تہذیب میں اتار چڑھاؤ کی لہریں انتہائی خفیف سی ہوں گی۔ ایک دن یا تو ہمیں زمین کو چھوڑنا ہوگا یا پھر موت کو گلے لگانا ہوگا۔ اگر ایسا ہے تو پھر انسانیت یا ہماری آنے والی نسلیں اس وقت زمین پر موجود نا قابل برداشت حالات سے کیسے نمٹیں گی؟

ریاضی دان اور فلاسفر "برٹرانڈرسل"(Bertrand Russell) نے ایک دفعہ ایسے نوحہ کیا " نہ تو کوئی آگ، نہ ہی کوئی جوانمردی ، نہ ہی تخیل کی پرواز و احساس ، حیات کو اس کی قبر دفن ہونے سے بچا سکتی ہے ، نسلوں کی محنت ، ریاضت ، کشف ، انسانیت کی تمام تر روشن و غیر معمولی اختراعی قوّت ان سب کا مقدر نظام شمسی کی وسیع موت کے نتیجے میں ہونے والی معدومیت میں دفن ہے ، اور انسانیت کی تمام کاوشوں کے مینار کو لازمی طور پر کائنات کی دھول میں کھنڈر بن کر دفن ہونا ہے۔۔۔۔"

میرے لئے انگریزی ادب میں موجود یہ ٹکڑا سب سے زیادہ رلا دینے والا ہے۔ مگر رسل نے یہ ٹکڑا اس وقت لکھا تھا جب خلائی جہازوں کا بننا ناممکن سمجھا جاتا تھا۔ آج کے دور میں کسی دن زمین کو چھوڑ کر جانے کا خیال کوئی بہت زیادہ دور کی کوڑی نہیں ہے۔ کارل ساگاں نے ایک دفعہ کہا تھا ہمیں دو سیاروں کی انواع بننا چاہئے۔ زمین پر موجود حیات بہت زیادہ قیمتی ہے۔ اس نے کہا کہ کسی بھی بڑی تباہی آنے سے پہلے ہمیں کم از کم ایک اور سیارے پر پھیل کر اس کو آباد کرنا جانا چاہئے۔ زمین کائناتی نشانہ بازوں یعنی کہ سیارچوں، دم دار ستاروں اور زمین کے مدار کے قریب تیرتے ہوئے گرد و غبار کے ملبے کے عین نشانے پر ہے اور اس میں سے کسی سے بھی ہونے والا تصادم ہمیں مرحوم کر سکتا ہے۔

آنے والی عظیم تباہیاں 

شاعر "رابرٹ فراسٹ" (Robert Frost)پوچھتا ہے کہ زمین کا انجام آگ سے ہوگا یا پھر برف سے۔ طبیعیات کے قوانین کا استعمال کرتے ہوئے ہم اس بات کی معقولیت کے ساتھ پیش بینی کر سکتے ہیں کہ کسی بھی قدرتی آفت کی صورت میں زمین کا کیا انجام ہوگا۔

ہزار برس کے پیمانے پر ، انسانی تہذیب کے لئے ایک خطرہ نئے برفانی دور کا ہے۔ آخری برفانی دور ١٠ ہزار سال پہلے ختم ہوا ہے ۔ آج سے ١٠ سے ٢٠ ہزار سال کے درمیان جب نیا برفانی دور آئے گا اس وقت زیادہ تر شمالی امریکہ آدھ میل برف سے ڈھک جائے گا۔ انسانی تہذیب اس چھوٹے سے "بین ثلجین"(Interglacial) زمانے میں حال میں ہی پروان چڑھی ہے۔ جب زمین غیر معمولی گرم تھی مگر یہ چکر ہمیشہ کے لئے نہیں رہے گا۔

لاکھوں سال گزرنے کے بعد بڑے شہابیے یا دم دار ستارے زمین سے ٹکرا کر بڑی تباہی پھیلا سکتے ہیں۔ آخری بڑے اجرام فلکی سے زمین کا تصادم آج سے ٦۔٥ کروڑ سال پہلے ہوا تھا جب ایک جسم جو ٦ میل چوڑا تھا آ کر میکسیکو کے جزیرہ نما یوکاتان سے ٹکرایا جس کے نتیجے میں ایک ١٨٠ میل قطر کا گڑھا بن گیا۔ اس تصادم سے پیدا ہونے والی تباہی نے وقت کے زمین پر حکمران ڈائنو سارس کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا تھا۔ مزید ایک تصادم کی امید اسی وقت کے پیمانے کو مد نظر رکھتے ہوئے کی جا رہی ہے۔

آج سے ارب ہا سال کے بعد سورج بتدریج پھیل کر زمین کو نگل جائے گا۔ حقیقت میں ہم نے اس بات کا اندازہ لگایا ہے کہ سورج اگلے ایک ارب سال میں ١٠ فیصد زیادہ گرم ہو جائے گا جس کے نتیجے میں زمین شدید گرم ہو جائے گی۔یہ زمین کو مکمل طور پر اگلے ٥ ارب برسوں میں اس وقت ختم کردے گا جب یہ ایک دیوہیکل سرخ دیو میں بدل جائے گا۔

آج سے دسیوں ارب سال بعد سورج اور ملکی وے کہکشاں دونوں ختم ہو جائیں گی۔ ہمارا سورج اپنا ایندھن جو ہائیڈروجن اور ہیلیئم کی شکل میں ہے پھونک دے گا اور پھر ایک سفید بونے کی صورت میں سکڑ کر بتدریج ٹھنڈا ہوتے ہوئے ایک کالا نیوکلیائی کچرے کا ڈھیر بن کر خلاء میں تیرتا رہے گا۔ آخر کار ملکی وے کہکشاں اپنی پڑوسی کہکشاں اینڈرومیڈا (مراة المسلسلہ )سے جا ٹکرائے گی۔ یہ کہکشاں ہماری کہکشاں سے کہیں زیادہ بڑی ہے۔ ملکی وے کے مرغولی بازوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے نتیجتاً ہمارا سورج خلاء کی بے کراں گہرائیوں میں دھکیل دیا جائے گا۔ دونوں کہکشاؤں کے مرکز میں موجود بلیک ہول ایک دوسرے سے ٹکرا کر ضم ہونے سے پہلے موت کا رقص شروع کر دیں گے۔

اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ انسانیت ایک دن نظام شمسی کی قید سے نکل کر کسی قریبی سیارے پر اپنی جان بچا کر بھاگ سکتی ہے تاکہ اپنے آپ کو ختم ہونے سے روکا جا سکے تو سوال یہ اٹھتا ہے :ہم وہاں کیسے جائیں گے ؟ سب سے قریبی ستارہ الف قنطورس ٤ نوری برس سے بھی زیادہ دور ہے۔ روایتی کیمیائی راکٹ جو موجودہ خلائی پروگراموں میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں مشکل سے ٤٠ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار کو چھو سکتے ہیں۔ اس رفتار سے صرف سب سے قریبی ستارے تک پہنچنے کے لئے ہی ٧٠ ہزار برس درکار ہوں گے۔

آج کے خلائی منصوبوں کی جانچ کریں تو یہ بات عیاں ہوگی کہ ہماری موجودہ قابلیت اور ایسے نجمی سفر کرنے والے خلائی جہازوں کو بنانے کی درکار قابلیت جو ہمیں کائنات میں سفر کا آغاز کرنے کے قابل بنا سکیں زمین آسمان کا فرق ہے۔

١٩٧٠ء کی دہائی میں چاند پر قد م رکھنے کے بعد سے ہم نے انسان بردار خلائی جہاز کو صرف ایک ایسے مدار میں بھیجا ہے جہاں موجود خلائی شٹل اور انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن زمین سے صرف ٣٠٠ میل دور پر تھے۔ ٢٠١٠ء سے ناسا نے شٹل پروگرام کو اس طرح ترتیب دیا ہوا ہے کہ اورائن خلائی جہاز کو بنانے کا آغاز کیا جائے گا۔ یہ جہاز خلاء نوردوں کو ٢٠٢٠ء تک ٥٠ سال کے وقفے کے بعد چاند پر لے جائے گا۔ اس منصوبے کا ایک مقصد چاند پر مستقل انسانی اڈہ بنانا ہے۔ اس کے بعد انسان بردار جہاز مریخ کی جانب روانہ کیا جائے گا۔

ظاہر سی بات ہے کہ اگر ہم ستاروں پر کمند ڈالنا چاہتے ہیں تو راکٹ کی ایک نئی قسم کو کھوجنا ہوگا۔ یا تو ہمیں بنیادی طور پر اپنے راکٹوں کی دھکیل کی قوّت کو بڑھانا ہوگا یا پھر راکٹوں کے کام کرنے کے وقت کو بڑھانا ہوگا۔ مثال کے طور پر ایک بڑے کیمیائی راکٹ میں کئی لاکھ پونڈ دھکیل پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے لیکن وہ صرف چند منٹ تک ہی ایندھن کو جلا پاتا ہے۔ اس کے برخلاف دوسرے راکٹ جیسا کہ برق پارے والا انجن ([Ion Engine]اس کے بارے میں ہم آگے بات کریں گے ) میں دھکیل کی کمزور قوّت پیدا ہوتی ہے خاص باٹ یہ ہے کہ وہ برسوں تک خلاء میں کام کر سکتا ہے۔ اور جب بات راکٹ کی ہو تو اس میں کچھوا ہمیشہ خرگوش سے جیت جاتا ہے۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔

10۔ ضد مادّہ اور ضد کائنات

ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

10۔ ضد مادّہ اور ضد کائنات (حصّہ اوّل)

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

 

سائنس کی دنیا میں ہے  کسی دریافت کا ڈھنڈورا پیٹنے کا سب سے ہیجان انگیز فقرہ  "یوریکا"  (میں نے پا لیا !)  نہیں  بلکہ  "یہ مضحکہ خیز ہے "  ہے۔

 

-  آئزک ایسی موف

 

اگر کوئی آدمی اس چیز پر یقین نہ رکھے جس پر ہم رکھتے ہیں تو ہم اسے  پاگل کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں  میرا مطلب ہے کہ آج کل ایسا ہوتا ہے کیونکہ ہم اسے جلا نہیں سکتے۔

 

-  مارک ٹوئن

 

آپ رہبر کو اس  کی پیٹھ میں گھسے تیر سے پہچان سکتے ہیں۔

 

-  بیورلی روبک

 

ڈین براؤن کی شہرہ آفاق  کتاب  "اینجلز  اینڈ ڈیمنس"  جو ہاتھوں ہاتھ بکنے والی کتاب " دی ڈاونچی کوڈ" کی پیش رو تھی۔ اس ناول  میں ایک بنیاد پرستوں کا ایک ٹولہ ،  دی ایلومنیٹی (روشن ضمیر والے ) ویٹی کن کو ایک ضد مادّہ کے بم سے اڑانے کی  ایک سازش تیار کرتے ہیں۔ اس بم  کو جنیوا سے باہر نیوکلیائی تجربہ گاہ سرن سے چرایا ہوتا ہے۔ سازشی جانتا تھا کہ جب مادّہ اور ضد مادّہ آپس میں ملیں گے  تو اس کے نتیجے میں ایک  عظیم الشان دھماکا ہوگا  جو ہائیڈروجن کے بم سے کہیں زیادہ طاقتور ہوگا۔ اگرچہ ایک ضد مادّہ کا بم خالص خیالی ہے مگر ضد مادّہ کا وجود  بالکل حقیقی ہے۔

 

ایک جوہری بم اپنی تمام تر تباہ کاریوں کے باوجود صرف ایک فیصد کارکردگی کا حامل ہوتا ہے۔ یورینیم کا انتہائی معمولی حصّہ ہی توانائی میں بدلتا ہے۔ لیکن اگر کوئی ضد مادّہ کا بم بنا لیا گیا تو وہ اس کی کمیت کو سو فیصد توانائی میں بدل دے گا  جس کے نتیجے میں وہ نیوکلیائی بم کے مقابلے میں کافی زیادہ کارگر ہوگا۔ (زیادہ درست طور پر ضد مادّہ کے بم میں پچاس فیصد مادّہ قابل استعمال توانائی میں تبدیل ہوگا ؛ جبکہ باقی نظر نہ آنے والے نیوٹرینوں کی شکل میں بدل جائے گی۔)

 

ضد مادّہ کافی عرصے سے  قیاس آرائیوں کا مرکز رہا ہے۔ ہرچند ابھی تک کسی بھی قسم کا کوئی بھی ضد مادّہ بم وجود نہیں رکھتا لیکن  طبیعیات دانوں نے اپنے طاقتور جوہری  ذرّاتی اسراع گروں کا استعمال کرتے ہوئے انتہائی قلیل مقدار  میں ضد مادّہ کو اپنے تحقیقی مقصد کے لئے استعمال کے لئے پیدا  کر لیا  ہے۔

 

 

ضد مادّہ کی پیداوار اور اس کی کیمیا

 

بیسویں صدی کے نقطہ آغاز سے ہی ، طبیعیات دانوں نے یہ بات سمجھ لی تھی کہ ایٹم بار دار ذیلی جوہری ذرّات پر مشتمل ہوتا ہے ، جس کے مرکزے (جس میں مثبت بار ہوتا ہے )  کے گرد الیکٹران (منفی بار کے ساتھ ) چکر لگا رہا ہوتا ہے۔  مرکزے میں پروٹون (جن کے اوپر پر مثبت بار ہوتا ہے ) اور نیوٹرون (جو برقی طور پر معتدل ہوتے ہیں )موجود ہوتے ہیں۔١٩٥٠ء میں طبیعیات دانوں کو اس وقت جھٹکا لگا جب انھیں پتا چلا کہ ہر ذرّے کا ایک جڑواں مخالف بار والا ضد ذرّہ بھی موجود ہے۔ سب سے پہلا دریافت ہونے والا ضد ذرّہ  ایک  مثبت بار والا ضد الیکٹران  (جس کو پوزیٹرون کہتے ہیں)  تھا۔  پوزیٹرون ہر لحاظ سے الیکٹران کے مثل ہی ہے بجز اس کے کہ اس پر مخالف بار ہوتا ہے۔ سب سے پہلے اس کی دریافت ایک کائناتی  شعاعوں کی تصاویر ایک بادلوں والے خانے میں لیتے ہوئے ہوئی تھی۔(پوزیٹرون کا سراغ ایک بادلوں کے خانے میں لگانا بہت ہی آسان تھا۔ جب انھیں ایک طاقتور مقناطیسی میدان میں رکھا جاتا ہے تو وہ عام الیکٹران کی مخالف سمت میں  مڑ  جاتے ہیں۔ حقیقت میں  ان ضد مادّہ کی تصویر  میں نے بھی اپنے کالج کے زمانے میں لی تھی۔)

 

١٩٥٥ء میں برکلے میں واقع یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں موجود ذرّاتی اسراع گر - بیواٹرن میں  پہلا ضد پروٹون بنایا۔ امیدوں کے عین مطابق وہ بالکل پروٹون کے مشابہ تھا سوائے اس کے کہ اس پر منفی بار تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ نظری طور پر ہم ضد مادّہ کو بھی بنا سکتے ہیں۔ (جس میں پوزیٹرون ایک ضد پروٹون کے گرد چکر لگا رہا ہوگا  )۔  حقیقت میں ضد عناصر ، ضد کیمیا ، ضد لوگ ،ضد زمین اور یہاں تک کہ ضد کائنات کا  نظری طور پر موجود ہونا ممکن ہے۔

 

فی الحال تو سرن میں موجود ایک دیو ہیکل ذرّاتی اسراع گر  اور شکاگو سے باہر فرمی لیب  نے انتہائی معمولی سی ضد ہائیڈروجن کی مقداریں بنائی ہیں۔(اس کو پروٹون کی بلند توانائی والی کرنوں کو ہدف پر ذرّاتی  اسراع گر کو استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا۔ جس کے سبب  ایک ذیلی جوہری ذرّات کی پھوار سی بن گئی تھی۔ طاقتور مقناطیس  کے ذریعہ  ضد پروٹون کو علیحدہ کر لیا تھا  جو بہت زیادہ دھیمے  ہو کر انتہائی پست سمتی رفتار والے ہو گئے تھے اور پھر  وہ ان  ضد الیکٹران کے سامنے ظاہر ہو گئے تھے جو قدرتی طور پر سوڈیم  - ٢٢ سے خارج ہوتے ہیں۔ جب ضد الیکٹران ضد پروٹون کے گرد چکر لگاتے ہیں تو وہ ضد ہائیڈروجن بناتے ہیں کیونکہ ہائیڈروجن ایک پروٹون اور ایک الیکٹران سے مل کر بنتا ہے۔) خالص خالی جگہ میں یہ ضد جوہر ہمیشہ کے لئے باقی رہ سکتے ہیں۔ لیکن  آلودگی اور دیواروں کے درمیان ٹکرانے کی وجہ سے ضد جوہر عام مادے سے ٹکرا ہی جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں توانائی میں بدلتے ہوئے  فنا ہو جاتے ہیں۔

 

١٩٩٥ء میں سرن نے اس اعلان کے ساتھ ہی تاریخ رقم کردی تھی کہ اس نے نو ضد ہائیڈروجن کے جوہر بنائے تھے۔ فرمی لیب نے اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جلد ہی ایک سو ضد ہائیڈروجن کے جوہر بنا لئے۔ نظریاتی طور پر اس پر آنے والی زبردست لاگت کے علاوہ کوئی بھی ایسی چیز موجود نہیں ہے جو ہمیں بھاری عناصر کے ضد جوہر بنانے سے روکے۔ صرف چند اونس ضد مادّہ پیدا کرنے میں ہی کچھ اقوام تو دیوالیہ ہو جائیں گی۔ ضد مادّہ پیدا کرنے کی موجودہ شرح ایک گرام کے ایک ارب سے  دس  ارب  حصّے سالانہ ہیں۔ امکان ہے کہ ضد مادّہ کی پیداوار کی  یہ شرح ٢٠٢٠ء تک تین گنا بڑھ جائے۔ ضد مادّہ سے حاصل ہونے والے معاشی فوائد ان کی لاگت کے مقابلے میں انتہائی حوصلہ شکن ہے۔  ٢٠٠٤ء  میں سرن میں ایک گرام کے کچھ دسیوں کھرب حصّے پیدا کرنے کی لاگت ہی دو کروڑ ڈالر تھی۔ اس شرح سے ایک گرام ضد مادّہ کو پیدا کرنے کے لئے لاگت ایک ہزار کھرب  (ایک پدم) آئی گی اور ضد مادّہ کے کارخانے کو مسلسل ایک کھرب سال تک چلنا ہوگا! یہ ہی وجہ ہے کہ اس دنیا میں  ضد مادّہ کائنات کی  سب سے زیادہ قیمتی چیز ہے۔

 

" اگر ہم  سرن میں پیدا ہونے والے  تمام ضد مادّہ کو جمع کرکے اس کو مادّے کے ساتھ ملا کر فنا کریں  تو ہمارے پاس حاصل ہونے والی توانائی اتنی ہوگی کہ جس سے ہم ایک برقی بلب  صرف چند سیکنڈ کے لئے جلا سکیں "  یہ سرن سے جاری ایک بیان کا حصّہ ہے۔

 

ضد مادّہ کو سنبھال کر رکھنا بھی اپنے آپ  میں کافی بڑا مسئلہ ہے  کیونکہ مادّے اور ضد مادّے کا آپس میں ملنا دھماکے کا باعث ہوگا۔  ضد مادّہ کو عام مادّے سے بنی کسی چیز میں رکھنا خود کشی کے مترادف ہوگا۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ جب ضد مادّہ اس قدر بارودی نوعیت کا ہوتا ہے تو پھر اس سے  کیسے نمٹا جائے گا ؟ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ پہلے  ضد مادّہ کے برق پاروں کو برقی پارہ گیس میں تبدیل کیا جائے اور پھر ان کو محفوظ طریقے سے  ایک مقناطیسی بوتل میں رکھا جائے۔ مقناطیسی میدان ان کو خانے کی دیواروں کو چھونے سے روکے رکھے گا۔

 

ایک ضد مادّہ کا انجن بنانے کے لئے ایک ضد مادّہ کے متواتر دھارے کی ضرورت ہوگی جو اس کو تعاملی خانے میں ڈالے گا جہاں پر اسے  انتہائی احتیاط کے ساتھ عام مادے سے ملایا جائے گا  جس کے نتیجے میں  کیمیائی راکٹ جیسا ایک انضباطی دھماکہ ہوگا۔ اس دھماکے میں پیدا ہوئے برق پاروں کو ضد مادّے کے راکٹ کے ایک سرے سے باہر نکالا جائے گا جس کے نتیجے میں دھکیل پیدا ہوگی۔ مادّے کو توانائی میں تبدیل کرنے کی ضد مادّہ کے انجن کی کارکردگی نظری طور پر مستقبل کے خلائی جہازوں کو بنانے کے لئے  سب سے زیادہ لبھانے  والی ہے۔ اسٹار ٹریک سلسلے میں  ضد مادّہ انٹرپرائز کے ایندھن کا ذریعہ ہوتا ہے ؛ اس کے انجن کو طاقت انضباطی مادّہ اور ضد مادّہ کو ٹکرانے سے ملتی ہے۔

 

جاری ہے۔۔۔۔۔

11۔سریع از نور

ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو - حصّہ دوم
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
11۔سریع از نور (پہلا حصّہ)
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
یہ بات کافی قابل ادراک ہے کہ (زندگی)کہکشاں اور اس سے آگے پھیلے گی۔ لہٰذا زیست کائنات میں غیر اہم آلودہ سراغ کی طرح ہمیشہ کے لئے نہیں رہے گی اگرچہ ہنوز ایسا ہی ہے۔ درحقیقت میں اس خیال کو کسی حد تک پسند کرتا ہوں۔

- خلا نورد رائل سر مارٹن ریس

روشنی کی رفتار سے تیز سفر کرنا ممکن نہیں ہے اور یہ بات مناسب بھی نہیں ہے کیونکہ اس سے ٹوپی گر جائے گی۔

- ووڈی ایلن

اسٹار وار میں جب " میلینیم فالکن" (Millennium Falcon) سنسان سیارے "ٹیٹو یئن " (Tatooine) کو اڑاتا ہے، جس میں ہمارے جوان مرد لیوک اسکائی والکر اور ہین سولو موجود ہوتے ہیں، تو جہاز کا ٹکراؤ سیارے کی گرد چکر لگانے والے جنگی خلائی جہاز امپیریل کے اسکواڈرن آف مینا نسنگ کے جہاز سے ہو جاتا ہے۔ سلطنت کا جنگی جہاز سزا دینے کے لئے لیزر کا سمندر ہمارے جانبازوں کے جہاز کی طرف پھینکتا ہے جو چشم فلک میں ان کی غیر مرئی ڈھال کو توڑتا ہوا اس میں سے گزر جاتا ہے۔ میلینیم فالکن مصیبت میں آ جاتا ہے۔ لیزر کی آگ سے پیدا ہونے والی تباہ کن صورتحال سے بچتے ہوئے ہین سولو چیختا ہے کہ اضافی خلاء (Hyper Space) میں کودنا ہی ان کے پاس بچنے کی آخری امید ہے۔ فوراً ہی اضافی ڈرائیو (Hyper Drive) کا انجن چالو ہو کر زندہ ہو جاتا ہے ان کے گرد موجود تمام ستارے ان کی اسکرین پر نظر آنے والے مرکز کی طرف دوڑ پڑتے ہیں جس کے نتیجے میں آنکھوں کو چندیا جانے والی روشنی پیدا ہوتی ہے۔ ایک سوراخ کھلتا ہے جس کے اندر دی میلینیم فالکن غائب ہو کر اضافی خلاء میں پہنچ کر آزادی حاصل کرتا ہے ۔

سائنس فکشن ؟ بے شک۔ لیکن کیا یہ سائنٹفک حقیقت پر مبنی ہو سکتی ہے ؟ شاید روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ تیز سفر سائنس فکشن کی دنیا میں ایک اہم جز ہے ، لیکن سچ تو یہ ہے کہ دور حاضر میں طبیعیات دانوں نے اس امکان پر کافی سنجیدگی سے غور کرنا شروع کر دیا ہے۔

آئن سٹائن کے مطابق روشنی کی رفتار کائنات میں سفر کرنے کی آخری حد ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے طاقتور ترین ذرّاتی اسراع گر جس میں جوہروں کو آپس میں ٹکرایا جاتا ہے۔ یہ ذرّاتی اسراع گر اس قسم کی توانائی کو پیدا کر سکتے ہیں جو صرف کسی پھٹتے ہوئے ستارے کے قلب میں ہی یا پھر بگ بینگ کے وقت پیدا ہو سکتی ہے اس کے باوجود یہ بھی ذیلی جوہری ذرّات کو روشنی کی رفتار سے تیز نہیں پھینک سکتے۔ بظاہر طور پر روشنی کی رفتار کائنات میں سفر کرنے کی آخری حد ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو دور دراز کی کہکشاؤں میں پہنچنے کی ہماری امید خاک میں مل جائے گی۔

اور ہوسکتا ہے کہ ایسا نہ ہو۔۔۔۔

ناکام آئن سٹائن 

١٩٠٢ءمیں یہ بات کافی طور پر واضح تھی کہ نوجوان طبیعیات دان البرٹ آئن سٹائن اس منزل سے بہت دور ہے جہاں وہ آئزک نیوٹن کے بعد ایک عظیم ماہر طبیعیات کے طور پر جانا جائے گا۔ حقیقت میں وہ سال اس کی زندگی کا سب سے برا سال تھا۔ تازہ تازہ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد اس کو ان تمام یونیورسٹیوں میں استاد کی نوکری دینے سے انکار کر دیا گیا تھا جن میں اس نے نوکری کے لئے درخواست دی تھی۔ (اس کو بعد میں یہ بات پتا چلی کہ اس کے پروفیسر " ہینرچ ویبر" (Heinrich Weber) نے اس کی سفارش کے لئے انتہائی خطرناک خطوط لکھے تھے ، ہو سکتا ہے کہ اس نے آئن سٹائن سے اپنی کلاس میں غیر حاضری کا بدلہ لیا ہو۔) مزید براں آئن سٹائن کی ماں بہت شدت کے ساتھ اس کی محبوبہ "ملیوا میرک" (Mileva Maric) کے خلاف تھی، جوان دنوں میں امید سے تھی ۔ ان کی پہلی بیٹی "لیزرل" (Lieserl) ناجائز طریقے سے پیدا ہوئی تھی۔ نوجوان البرٹ اس معمولی ملازمت میں بھی ناکام رہا تھا جو اس نے کی تھی۔ یہاں تک کہ اس کی وہ کم آمدن والی پڑھانے والی نوکری بھی اس وقت ختم ہو گئی جب وہ اپنی ملازمت سے فارغ کیا گیا۔ اپنے مایوس کن خطوط میں اس نے اس بات کا بھی اظہار کیا تھا جس میں وہ زندہ رہنے کے لئے سیلز مین کی نوکری کرنے کو تیار تھا۔ اس نے اپنے خاندان کو ایک خط میں یہاں تک لکھا کہ کیونکہ وہ اپنے خاندان پر ایک بوجھ ہے اور اس میں ایک اچھے اور کامیاب مستقبل کو پانے کی صلاحیت موجود نہیں ہے لہٰذا اس کا پیدا نہ ہونا ہی بہتر تھا۔ جب اس کے باپ کا انتقال ہوا تو اس کو اس بات کا انتہائی غم تھا کہ اس کا باپ یہ سوچتے ہوئے مر گیا کہ اس کا بیٹا ایک ناکام انسان ہے۔

اس ایک سال کے بعد آئن سٹائن کی قسمت نے پلٹا کھایا۔ ایک دوست نے اس کو سوئس پیٹنٹ آفس میں کلرک کی جاب دلوا دی۔ اس انتہائی کم درجے کی نوکری پر رہتے ہوئے ہی اس نے جدید دور کے عظیم انقلاب کو برپا کیا۔ وہ بہت ہی تیزی سے اپنی میز پر موجود پیٹنٹوں کا تجزیہ کرکے طبیعیات کے ان مسائل میں غور و فکر کرنا شروع کرتا جو اس کو عہد طفلی سے ہی پریشان کرتے تھے۔

اس کی غیر معمولی ذہانت کا راز کیا تھا ؟ شاید اس کی غیر معمولی ذہانت کی ایک بات یہ ہو سکتی تھی کہ وہ خالص ریاضی سوچ کے بجائے طبیعیاتی اشکال کی صورت میں سوچتا تھا (مثال کے طور پر حرکت کرتی ہوئی ریل ، اسراعی گھڑیاں اور کھینچی ہوئی ساخت )۔ آئن سٹائن نے ایک مرتبہ یہ بات کہی کہ جب تک کوئی نظریہ کسی بچے کو نہیں سمجھ میں آئے اس وقت تک وہ نظریہ بیکار ہے؛ یعنی کسی بھی نظریئے کو جسمانی تصویری شکل میں بیان کرنے ہی اس کی اصل روح ہوتی ہے ۔ بہت سارے طبیعیات دان ریاضی کی دبیز گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں اور کہیں کے نہیں رہتے۔ مگر اپنے پیش رو نیوٹن کی طرح آئن سٹائن بھی طبیعی تصاویر کا دیوانہ تھا اس کے لئے ریاضی اس کے بعد آتی تھی۔ نیوٹن کے لئے طبیعی تصویر چاند اور گرتا ہوا سیب تھی۔ کیا وہ قوّت جس نے سیب کو گرایا تھا اس قوّت کے برابر تھی جس نے چاند کو اس کے مدار میں ٹکا کر رکھا ہوا ہے ؟جب نیوٹن نے اس کا فیصلہ کیا تو اس کا جواب ہاں میں تھا۔ اس نے کائنات کے لئے ایک ریاضیاتی ڈھانچہ بنا دیا جس نے اچانک سے ہی فلک کے عظیم راز – فلکی اجسام کی اپنی حرکت کے قوانین کو ہم پر افشاں کیا۔

آئن سٹائن اور اضافیت 

البرٹ آئن سٹائن نے اپنی مشہور زمانہ نظریہ اضافیت کو ١٩٠٥ء میں پیش کیا۔ اس نظریئے کے قلب میں موجود ایک ایسی تصویر تھی جس کو کوئی بچہ بھی سمجھ سکتا تھا۔ اس کا نظریہ اس خواب کی تعبیر تھا جو وہ ١٦ برس کی عمر سے دیکھ رہا تھا ، جب وہ ایک نتیجہ خیز سوال پوچھتا تھا : اس وقت کیا ہوگا جب آپ ایک دور میں روشنی کی رفتار کو پیچھے چھوڑ دیں گے؟ ایک نوجوان کے طور پر وہ یہ بات جانتا تھا کہ نیوٹن کی میکانیات زمین اور فلکی اجسام کی حرکت کو بیان کرتی ہے اور میکسویل کا نظریہ روشنی کی تشریح کرتا ہے۔ یہ دونوں نظریئے اس وقت طبیعیات کے دو ستون تھے۔

آئن سٹائن کی غیر معمولی ذہانت نے جان لیا تھا کہ یہ دونوں ستون ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کو گرنا ہوگا۔

نیوٹن کے مطابق روشنی کی شعاع کو شکست دی جا سکتی ہے کیونکہ روشنی کی رفتار میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ روشنی کی شعاع کو ضرور اس وقت ساکن رہنا چاہئے جب کوئی اس سے دوڑ لگائے۔ لیکن نوجوان آئن سٹائن نے اس بات کو جان لیا تھا کہ کسی نے بھی ایسی روشنی کی موج نہیں دیکھی ہے جو ساکن ہو یعنی جو منجمد موج کی طرح ہو۔ لہٰذا نیوٹن کا نظریہ اس بات کو صحیح طرح سے بیان کرنے سے قاصر تھا۔

آخر کار بطور طالبعلم زیورخ میں میکسویل کے نظریئے کو پڑھتے ہوئے آئن سٹائن نے اس سوال کا جواب حاصل کرلیا تھا۔ اس نے ایک ایسی چیز دریافت کر لی تھی جس کو میکسویل بھی نہیں جانتا تھا : روشنی کی رفتار مستقل ہے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی کتنی تیزی سے حرکت کرے۔ چاہئے آپ روشنی کی سمت میں دوڑیں یا اس کی مخالفت میں دوڑ لگائیں وہ دونوں صورتوں میں ایک ہی سمتی رفتار سے سفر کرے گی مگر اس کی یہ خاصیت عقل سے متصادم ہے۔ آئن سٹائن نے اپنے بچپن کے سوال کا جواب حاصل کرلیا تھا : کوئی بھی روشنی سے دوڑنے کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا اس بات سے کچھ فرق نہیں پڑے گا کہ وہ کتنی تیزی سے حرکت کر رہا ہے۔

مگر نیوٹن میکانیات ایک سختی سے بند نظام تھا : جیسے کسی ڈھیلی رسی کو چرخی پر چڑھایا ہوا ہو، رسی کو ذرا سے کھینچا اور وہ پوری بکھر گئی ۔ یہی حال اس نظریئے کا تھا ۔ پورا نظریہ اس وقت بکھر جاتا ہے جب اس مفروضے کی بنیادوں میں تھوڑا سا بھی رد و بدل کیا جاتا۔ نیوٹن کے نظریئے میں وقت تمام کائنات میں ایک جیسا تھا۔ زمین پر ایک سیکنڈ ، زہرہ یا مریخ پر گزرے ہوئے ایک سیکنڈ کے جتنا ہی تھا۔ اسی طرح سے زمین پر لگی پیمائش کی لکڑی پلوٹو پر لگی پیمائش کی لکڑی جتنی ہی ہوگی۔ اس بات سے قطع نظر کہ کوئی شئے کتنی ہی تیز حرکت میں ہو اگر روشنی کی رفتار ہمیشہ ساکن رہے گی تو ہمیں اپنی مکان و زمان کی تفہیم میں کافی تبدیلی کرنا ہو گی۔ روشنی کی رفتار کو ساکن رکھنے کے لئے زمان و مکان میں عمیق خلل آ جائے گا۔

آئن سٹائن کے مطابق اگر آپ کسی تیز رفتار خلائی جہاز میں بیٹھے ہیں تو راکٹ کے اندر وقت کے گزرنے کی رفتار بہ نسبت ان لوگوں کے جو زمین پر موجود ہیں کم ہوگی۔ وقت کے مختلف گزرنے کی شرح اس بات پر منحصر ہوگی کہ آپ کتنا تیزی سے حرکت کرتے ہیں۔ مزید براں راکٹ کے اندر موجود خلاء بھی دب جائے گی جس کے نتیجے رفتار کی مناسبت سے ناپنے کی لکڑی بھی بدل جائے گی اور اس کے ساتھ ہی جہاز کی کمیت بھی بڑھ جائے گی۔ اگر ہم راکٹ کے اندر دوربین سے دیکھنے کے قابل ہوں تو ہم یہ بات دیکھ سکیں گے کہ راکٹ کے اندر موجود گھڑیاں آہستہ چل رہی ہیں لوگ آہستہ رفتار سے حرکت کر رہے ہیں اور لوگ ہمیں چپٹے نظر آئیں گے۔

حقیقت میں اگر راکٹ روشنی کی رفتار سے سفر کرے گا تو بظاہر ان کے لئے وقت تھم جائے گا اور راکٹ کی کمیت لامتناہی ہو جائے گی۔ (کیونکہ ان میں سے کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جو ہماری عقل عامہ میں سما سکے لہٰذا آئن سٹائن نے کہا کہ کوئی بھی چیز روشنی کی رفتار کو پار نہیں کر سکتی۔ (کیونکہ کوئی بھی جسم جتنی تیز حرکت کرے گا اتنا ہی اس کی کمیت بڑھ جائے گی ، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حرکی توانائی کمیت میں بدل جائے گی۔کمیت میں تبدیل ہوتی ہوئی توانائی کی درست مقدار بہت آسانی سے حاصل کی جا سکتی ہے اور اس کے بعد ہمیں وہ عہد ساز مساوات حاصل ہوئی جو صرف چند سطروں میں آسکتی ہے یعنی E = mc²)۔

جب سے آئن سٹائن نے اپنی مشہور زمانہ مساوات پیش کی ہے تب سے کروڑوں کی تعداد میں تجربات نے اس انقلابی خیال کی تصدیق کی ہے۔ مثال کے طور پر جی پی ایس نظام جو زمین پر موجود ہمارے محل وقوع کو چند فٹ کے فاصلے تک صحیح بتا سکتا ہے . اگر اس میں اضافیت کے حساب سے وقت کو درست نہیں کیا جائے تو یہ نظام صحیح طرح سے کام نہیں کرے گا۔(کیونکہ فوج بھی جی پی ایس نظام پر انحصار کرتی ہے لہٰذا پینٹاگون کے جنرلوں کو بھی طبیعیات کے اس حصّے کا بارے میں بتایا جاتا ہے جس کا تعلق آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت سے ہے۔)جی پی ایس میں موجود گھڑیاں حقیقت میں زمین سے اوپر مدار میں رہتے ہوئے ایسے ہی تبدیل ہوتی ہیں جیسے کہ آئن سٹائن نے پیش گوئی کی تھی۔

تصویری طور پر اس خیال کی سب سے بہترین شکل کسی جوہری اسراع گر میں ملتی ہے جہاں سائنس دان ذرّات کو روشنی کی رفتار کے قریب اسراع دیتے ہیں۔ سرن میں موجود جناتی اسراع گر جس کا نام " لارج ہیڈرون کولائیڈر" ہے جو جنیوا، سوئٹزرلینڈ کے باہر ی حصّے میں واقع ہے، اس میں پروٹون کو دسیوں کھربوں الیکٹران وولٹ پر اسراع دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ روشنی کی رفتار کے قریب حرکت کرتے ہیں۔

راکٹ میں بیٹھے ہوئے سائنس دان کے لیے ابھی تک روشنی کی حد کوئی مسئلہ نہیں ہوگی کیونکہ راکٹ مشکل سے ہی کچھ دس ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتا ہے۔ مگر اگلی ایک یا دو صدی میں جب راکٹ کے سائنس دان سنجیدگی کے ساتھ کھوجی دوسرے ستاروں کی طرف روانہ کریں گے (جو زمین سے ٤ برس نوری سال کے فاصلے پر موجود ہیں ) تو روشنی کی حد بتدریج مسئلہ بن جائے گی۔

جاری ہے۔۔۔۔۔

12۔ وقت میں سفر

ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو - حصّہ دوم
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
12۔ وقت میں سفر (پہلا حصّہ)
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
اگر وقت میں سفر ممکن ہے ، تو پھر مستقبل سے آنے والے مسافر کہاں ہیں؟

- ا سٹیفن ہاکنگ

"[وقت میں سفر ] خلافِ عقل ہے"۔ فلبی نے کہا

"کس عقل کے خلاف ؟"وقت کے مسافر نے پوچھا۔

ایچ۔ جی۔ ویلز

جانس اکویشن (Janus Equation) میں مصنف "جی۔ا سپریول" (G. Spruill) نے وقت کے سفر کے ایک انتہائی کرب ناک مسئلہ پر روشنی ڈالی۔ اس شاندار کہانی میں ایک انتہائی ذہین ریاضی دان جس کا مقصد وقت کے سفر کا راز جاننا تھا وہ ایک انتہائی خوبصورت اور اجنبی خاتون سے ملتا ہے اور پھر دونوں ایک دوسرے کے عاشق و معشوق بن جاتے ہیں ہرچند وہ اس کے ماضی کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ پھر وہ اس کے اصل ماضی کو جاننے کے تجسس میں کھو جاتا ہے۔ آخر کار اس پر یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ اس خاتون نے پلاسٹک سرجری کروا کر اپنی ماضی کی شکل و صورت کو بدل لیا تھا۔ اس کو مزید یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اپنی جنس کو تبدیل کرنے کا آپریشن بھی کروایا تھا۔ آخر میں اس کو پتا چلتا ہے کہ وہ خاتون اصل میں وقت کی مسافر تھی جو مستقبل سے آئی تھی اور وہ کوئی اور نہیں وہ تھی ۔ یعنی اصل میں "وہ" خود تھا جس کا تعلق مستقبل سے تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اس نے اپنے آپ سے محبت کی تھی۔ اب آپ حیرت سے سوچ رہے ہوں گے کہ اس وقت کیا ہوتا اگر ان دونوں کے کوئی اولاد ہو جاتی۔ اور اگر وہ بچہ پھر ماضی میں سفر کرتا اور کہانی کے شروع میں جا کر پھر سے ریاضی دان بن جاتا تو کی یہ ممکن ہوتا کہ وہ خود سے اپنی ماں ، باپ ، بیٹا یا بیٹی بن سکتا؟

ماضی میں تبدیلی

وقت کائنات کے عظیم اسراروں میں سے ایک اسرار ہے۔ ہم وقت کے دھارے میں اپنی مرضی کے خلاف بہے جا رہے ہیں۔٤٠٠ برس بعد مسیح میں "سینٹ آگسٹین" (Saint Augustine) نے وقت کی متناقص نوعیت کے بارے میں کافی تفصیل سے لکھا ہے :"ماضی اور مستقبل کیسے ہو سکتے ہیں ، جبکہ ماضی تو گزر چکا ہے اور مستقبل ابھی آیا نہیں ہے ؟اور حال ہمیشہ حال ہی رہے اور کبھی بھی ماضی بننے کے لئے آگے نہیں بڑھے تو وہ وقت نہیں ابدیت ہوگی۔" اگر ہم سینٹ آگسٹین کی منطق کو آگے مزید بڑھائیں تو ہم دیکھیں گے کہ وقت کا ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ ماضی گزر چکا ہے ، مستقبل کا کوئی وجود نہیں ہے اور حال صرف ابھی کے لئے ہے۔(سینٹ آگسٹین نے پھر ایک انتہائی عمیق اعتقادی سوال اٹھایا ہے جو اس بات سے بحث کرتا ہے کہ وقت کیسے خدا پر اثر انداز ہوتا ہے ، وہ سوالات جو آج بھی با مقصد ہیں۔ اگر خدا ہر جگہ موجود ہے اور قادر مطلق ہے ، تو وہ لکھتے ہیں کہ کیا وہ (خدا ) بھی وقت گزارنے کا پابند ہے ؟ دوسرے الفاظ میں کیا خدا بھی ہم فانی لوگوں کی طرح سے جلدی میں ہے کیونکہ اس کو اپنے کسی کام کے لئے دیر ہو رہی ہے ؟ سینٹ آگسٹین نے آخر میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ خدا ہر جگہ موجود ہے لہٰذا وہ وقت کا پابند نہیں ہو سکتا لہٰذا اس کا وجود وقت سے ماوراء ہے۔ اگرچہ وقت سے ماوراء کا تصوّر کچھ عجیب سا لگتا ہے ، مگر یہ خیال ایک ایسا خیال ہے جو جدید طبیعیات میں بار بار آتا ہے جیسا کہ ہم آگے دیکھیں گے۔)

سینٹ آگسٹین کی طرح ہم سب وقت کی عجیب نوعیت اور وہ کس طرح سے خلاء سے مختلف ہے ، کے بارے میں متجسس رہتے ہیں۔ اگر ہم خلاء میں آگے پیچھے حرکت کر سکتے ہیں تو پھر وقت میں کیوں نہیں سفر کر سکتے ؟ ہم سب اس بارے میں سوچتے ہیں کہ مستقبل میں آنے والے برسوں میں ہمارے لئے کیا رکھا ہوا ہے۔ انسانوں کا عرصہ حیات محدود ہے اس کے باوجود ہم ان واقعات کے بارے میں بہت زیادہ تجسس میں رہتے ہیں جو ہمارے گزرنے کے لمبے عرصے بعد وقوع پذیر ہوں گے۔

اگرچہ ہمارا وقت میں سفر کرنے کا خواب اتنا ہی قدیم ہے جتنی قدیم انسانیت ہے ، بظاہر طور پر سب سے پہلی وقت میں سفر کی کہانی "میمورس آف دی ٹوینتھ سنچری " ١٧٣٣ء میں " سیموئیل میڈن" (Samuel Madden) نے ایک فرشتے کے بارے میں لکھی جس کا تعلق ١٩٩٧ء سے تھا اور جس نے ٢٥٠ برس کا سفر ماضی میں طے کیا تھا تاکہ برطانیہ کے اتاشی کو وہ دستاویزات دے دے جو اس بات کی بیان کرتی ہیں کہ مستقبل میں دنیا کس طرح کی ہو جائے گی۔

اس طرح کی کئی اور کہانیاں بھی ہوں گی۔ ١٨٣٨ کی مختصر کہانی "مسنگ ونس کوچ :این اناکورونزم ،" جس کو نامعلوم مصنف نے لکھا تھا یہ کہانی اس شخص کی تھی جو ایک کوچ کا انتظار کر تے ہوئے اچانک غائب ہو کر ایک ہزار سال پہلے کے دور میں چلا جاتا ہے ۔ وہاں وہ ایک خانقاہ کے راہب کے ساتھ ملتا ہے اور اس کو یہ بات سمجھنے کی کوشش کرا تا ہے کہ کسی طرح سے تاریخ اگلے ایک ہزار برس میں آگے بڑھے گی۔ اس کے بعد پھر وہ اچانک سے اپنے آپ کو ویسے ہی پراسرار طریقے سے حال میں پاتا ہے بجز اس کے کہ اس کا کوچ موجود نہیں ہوتا۔

١٨٤٣ء کا چارلس ڈکنز کا ناول ، اے کرسمس کیرول بھی ایک طرح سے وقت کے سفر کی کہانی ہے ، کیونکہ ایبینیزر اسکروج (Ebenezer Scrooge) کو ماضی میں اور مستقبل دونوں میں لے جایا جاتا ہے تاکہ وہ حال سے پہلے ماضی کی دنیا اور اپنے مرنے کے بعد مستقبل کی دنیا کا مشاہدہ کر سکے کہ وہ کیسی ہوگی ۔ 

امریکی ادب میں سب سے پہلے وقت کے سفر کا ذکر مارک ٹوائن کے ١٨٨٩ء کے ناول "اے کنیکٹیکٹ یانکی ان کنگ آرتھر س کورٹ" میں ملتا ہے ۔ انیسویں صدی کے ایک یانکی کو وقت میں پیچھے کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے تاکہ آرتھر کے کورٹ کو ٥٢٨ بعد مسیح میں ختم کر دے۔ اس کو قیدی بنا لیا جاتا ہے اور مفاد عامہ کے پیش نظر اس کو جلانے کی تیاری کی جاتی ہے اس وقت وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ سورج پر داغ لگا سکتا ہے کیونکہ اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس دن سورج گرہن ہوگا۔ جب سورج کو گرہن لگتا ہے تو مجمع ڈر جاتا ہے اور اس کو آزاد کرنے کے لئے راضی ہو جاتا ہے اور سورج کو واپس اصل حالت میں لانے کے بدلے میں اس کو خصوصی اختیارات عطا کر دیئے جاتے ہیں۔

مگر سب سے سنجیدہ کوشش جو وقت کے سفر کو قصص میں بیان کرنے کی گئی وہ ایچ جی ویلز کی کلاسک "دی ٹائم مشین " ہے جس میں ہیرو کو سینکڑوں ہزاروں سال مستقبل میں بھیجا جاتا ہے۔ کافی دور مستقبل میں انسانیت خلقی طور پر دو ذاتوں میں منقسم ہو جاتی ہے ایک خطرناک " مور لاکس" جو گندی زیر زمین مشینیں رکھتے ہیں اور ایک بیکار بچوں جیسے "ایلوئے" جو سورج کی دھوپ میں سطح زمین پر رقص کرتے ہوئے اپنے ہولناک مستقبل سے بے فکر ہوتے ہیں (کہ ان کو مور لاکس کھا جائیں گے )۔

اس کے بعد سے وقت میں سفر سائنسی قصص اسٹار ٹریک سے لے کر بیک ٹو دی فیوچر تک کا باقاعدہ وطیرہ بن گیا۔ فلم سپرمین I میں جب سپرمین کو معلوم چلتا ہے کہ لوئس لین مر چکی ہے ، تو وہ مایوسی کی حالت میں وقت کو واپس پلٹتا ہے۔ وہ تیزی سے سریع از نور رفتار سے زمین کی مخالفت میں گردش شروع کر دیتا ہے یہاں تک کہ وقت واپس پیچھے پلٹ جاتا ہے۔ پہلے زمین آہستہ ہوتی ہے اور پھر آخر میں الٹی طرف گھومنے لگتی ہے یہاں تک کہ زمین پر موجود تمام گھڑیاں الٹی چلنے لگتی ہیں۔ سیلابی پانی واپس چلے جاتے ہیں ، ٹوٹے ہوئے ڈیم معجزانہ طور پر جڑ جاتے ہیں اور لوئس لین موت سے حیات کی جانب پلٹ آتی ہے۔ 

سائنسی نقطہ نگاہ سے وقت میں سفر نیوٹن کی کائنات میں ناممکن ہے جہاں وقت کو ایک تیر کی طرح سے دیکھا جاتا ہے۔ ایک دفعہ تیر کمان سے نکل گیا تو پھر وہ اپنے راستے سے نہیں ہٹے گا۔ زمین پر ایک سیکنڈ پوری کائنات میں ایک سیکنڈ کے برابر ہے۔ یہ نظریہ آئن سٹائن نے اٹھا کر پھینک دیا جس نے ثابت کر دیا تھا کہ وقت ایک دریا کی مانند ہے جو پوری کائنات میں پیچیدہ راستوں پر بہ رہا ہے۔ یہ کہکشاؤں اور ستاروں میں سے گزرتا ہوا کبھی تیز رفتار ی سے بہتا ہے تو کبھی آہستہ بہتا ہے۔ لہٰذا زمین پر گزرنے والا ایک سیکنڈ مطلق نہیں ہے ؛ وقت کے گزرنے کا عمل ہمارے کائنات میں سفر سے مشروط ہے یہ کائنات میں مختلف شرح سے چلتا ہے۔

جیسا کہ میں نے پہلے اس بات سے بحث کی ہے کہ آئن سٹائن کی خصوصی نظریہ اضافیت کے مطابق وقت راکٹ کے اندر اتنا دھیما ہو جائے گا جتنا تیز وہ سفر کرے گا۔ سائنسی قصصی مصنف اس بات کی پیش گوئی کرتے ہیں کہ اگر آپ نے روشنی کی رفتار کی حد کو توڑ دیا تو آپ ماضی میں سفر کر سکیں گے۔ مگر یہ بات ممکن نہیں ہے کیونکہ روشنی کی رفتار کی حد تک پہنچنے کے لئے آپ کو لامحدود کمیت کی ضرورت ہوگی۔ روشنی کی رفتار کسی بھی راکٹ کے لئے حد رفتار ہے۔ اسٹار ٹریک IV:دی ووئی ایج ہوم میں انٹرپرائز کے عملے نے ایک کلنگون کا خلائی جہاز اغواء کرلیا اور پھر غلیل کی طرح سے سورج کی جانب غوطہ لگا کر روشنی کی رفتار کی حد کو توڑ دیا تاکہ وہ سان فرانسسکو میں ١٩٦٠ء کی دہائی میں نکل آئے۔ مگر یہ قوانین طبیعیات کی رو سے ممکن نہیں ہے۔

اس بات سے قطع نظر کہ مستقبل میں وقت کا سفر ممکن ہے اور اس بات کو دسیوں لاکھوں دفعہ تجربات کی رو سے ثابت کیا جا چکا ہے۔ دی ٹائم مشین کے ہیرو کا مستقبل کا سفر حقیقت میں ممکن ہے۔ اگر کوئی خلا نورد روشنی کی رفتار سے سفر کرے تو اس کو شاید قریبی ستارے تک پہنچنے کے لئے ایک منٹ کا عرصہ لگے گا۔ جبکہ زمین پر چار سال کا عرصہ گزرے چکا ہوگا لیکن اس کے لئے صرف ایک منٹ ہی گزرا ہوگا کیونکہ راکٹ کے اندر وقت کے گزرنے کی رفتار آہستہ ہو جائے گی۔ اس طرح سے اس نے زمین پر گزرے وقت کے مطابق چار سال مستقبل میں سفر کیا ہوگا۔(ہمارے خلا نورد بھی مستقبل کے مختصر سفر میں ہر دفعہ اس وقت محو سفر ہوتے ہیں جب وہ باہری خلاء میں جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ ١٨ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کے اوپر سفر کرتے ہیں لہٰذا ان کی گھڑیاں زمین پر موجود گھڑیوں کے مقابلے میں آہستہ چلتی ہیں۔ لہٰذا ایک سال کی خلائی ا سٹیشن پر مہم گزارنے کے بعد جب وہ زمین پر لوٹتے ہیں تو اصل میں انہوں نے سیکنڈ کے کچھ حصّے میں مستقبل کا سفر کیا ہوتا ہے۔ ابھی تک سب سے زیادہ مستقبل کا سفر روسی خلا نورد "سرگئی ایودیوف" (Sergei Avdevyev) کے پاس ہے جنہوں نے زمین کے گرد ٧٤٨ دن تک چکر لگایا جس کے نتیجے میں وہ مستقبل میں0.02 سیکنڈ آگے چلے گئے۔)

لہٰذا ایک ایسی ٹائم مشین جو ہمیں وقت میں آگے لے جائے وہ آئن سٹائن کی خصوصی اضافیت کے نظریہ سے میل کھاتی ہے۔ مگر وقت میں پیچھے جانے کا بارے میں کیا خیال ہے ؟

اگر ہم وقت میں پیچھے کی طرف سفر کر سکیں تو تاریخ کو لکھنا ناممکن ہوگا۔ جیسے ہی مورخ تاریخ لکھے گا ، کوئی بھی ماضی میں جا کر اس کو دوبارہ سے درج کر دے گا۔ ٹائم مشین نہ صرف مورخوں کی چھٹی کر دے گی بلکہ وہ ہمیں بھی اس بات کے قابل کر دے گی کہ ہم اپنی مرضی سے وقت کو بدل دیں۔ مثال کے طور پر اگر ہم واپس ڈائنو سارس کے دور میں چلے جائیں اور اس فقاریے پر پیر رکھ دیں جس نے آگے چل کر ہمارا ارتقاء کرنا تھا تو شاید ہم پوری انسانیت ہی کو ختم کر ڈالیں گے۔ تاریخ ایک نا ختم ہونے والا باب بن جائے گی کیونکہ مستقبل سے آنے والے مسافر اس بات کی کوشش میں ہوں گے کہ تاریخ کو ایسا کر دیا جائے جس میں ان کا کردار سب سے اعلیٰ و ارفع نظر آئے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔

13۔ متوازی کائناتیں

ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو - حصّہ دوم
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
١٣۔ متوازی کائناتیں (پہلا حصّہ)
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

"جناب ، کیا واقعی آپ کا یہ مطلب ہے "پیٹر نے پوچھا ،"کیا ہر جگہ دوسرے جہاں بھی ہو سکتے ہیں ، اس طرح کے کونے کی گرد بھی ؟"
"اس سے زیادہ اور کس چیز کا امکان ہے ،"پروفیسر نے جواب دیا۔۔۔۔جبکہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائے "سمجھ میں نہیں آتا کہ ان ا سکولوں میں انھیں آج کل کیا پڑھایا جا رہا ہے۔"

- سی۔ایس۔ لوئس ، دی لائن ، دی وچ اینڈ دی وارڈروب 

سنو :پڑوس میں بے تحاشا شاندار کائناتیں موجود ہیں۔ چلو وہاں چلتے ہیں۔

- ای۔ای کمنگس 

کیا واقعی متبادل کائناتیں وجود رکھتی ہیں ؟ یہ موضوع فلموں کے مصنفین کے لئے سب سے پسندیدہ ہے جیسا کہ اسٹار ٹریک کی ایک قسط "مرر مرر " (Mirror Mirror) میں دکھایا گیا ہے۔ کپتان کرک حادثاتی طور پر ایک اجنبی متوازی کائنات میں بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا جہاں ہوتا ہے جہاں پر وفاقی سیارگان ، ایک شیطانی حکومت ہوتی ہے جس کے حکمران وحشی فاتح ، لالچی اور لٹیرے ہوتے ہیں۔ اس کائنات میں سپوک نے عجیب سی داڑھی رکھی ہوئی ہوتی ہے جبکہ کپتان کرک ایک بھوکے قزاقوں کا سردار ہوتا ہے جو اپنے دشمنوں کو غلام بناتا ہوا اپنے سے برتر لوگوں کو غارت کر رہا ہوتا ہے۔

متبادل کائناتیں ہمیں ان جہانوں کو کھوجنے کے قابل کر سکیں گی جہاں "اگر ایسا ہوتا تو کیا ہوتا " کے مزیدار اور حیرت انگیز امکانات کا جائزہ لیا جا سکتا ہے ۔ مثال کے طور پر سپرمین کی بچوں کی کہانیوں میں کئی ایسی کائناتیں موجود ہوتی ہیں جہاں سپرمین کا اصل سیارہ کریپٹون کبھی بھی نہیں پھٹتا یا جہاں سپرمین آخر میں اپنی شناخت ایک عام آدمی کلارک کانٹ کے نام سے بتا دیتا ہے اور پھر لوئس لین سے شادی کرکے سپر بچوں کا باپ بن جاتا ہے۔ مگر کیا متوازی کائناتیں صرف ٹوائی لائٹ زون ریرن کا ہی خاصا ہے یا پھر جدید طبیعیات میں ان کی کوئی ٹھوس بنیاد بھی ہے ؟

تاریخ میں پیچھے قدیمی سماجوں تک دیکھا جائے تو اس حقیقت کا اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ دوسرے جہانوں کے وجود پر یقین رکھتے تھے جو عموماً دیوتاؤں یا بھوتوں کی دنیا ہوتی تھی۔ گرجا جنت ، دوزخ اور برزخ پر یقین رکھتا ہے۔ بدھ مت میں نروانا اور دوسری شعوری حالتیں موجود ہیں۔ جبکہ ہندو تو مختلف جنموں پر یقین رکھتے ہیں۔

عیسائی خانقاہیں جنّت کے محل وقوع کو بیان کرنے میں ناکام ہو گئیں ، اکثر وہ اس بات کی قیاس آرائی کرتی ہیں کہ شاید خدا بلند آسمانوں میں رہتا ہے۔ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ اگر ایک اضافی جہت اپنا وجود رکھتی ہے تو وہ کافی ساری خصوصیات جو دیوتاؤں میں پائی جاتی ہیں ہو سکتا ہے کہ وہ واقعی میں موجود ہوں۔ کوئی بھی ہستی جو اضافی یا بلند جہتوں میں رہتی ہو وہ اپنی مرضی سے حاضر ،غائب ہونے پر قادر ہوگی یا وہ دیواروں میں سے بھی گزر سکتی ہوگی یعنی کہ وہ ایک ایسی خاصیت کی حامل ہو گی جو اللہ والوں کی نشانی ہے۔

دور حاضر میں متوازی کائناتوں کا تصوّر طبیعیات کی دنیا میں گرما گرم مباحثوں کا باعث بنا ہوا ہے۔ حقیقت میں کافی قسم کی متوازی کائناتیں موجود ہیں جو ہم کو یہ بات سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں کہ "حقیقت "سے ہماری کیا مراد ہے۔ متوازی کائناتوں کی اس بحث میں سوائے "حقیقت "کے معنی کے بذات خود کوئی اور چیز داؤ پر نہیں لگی ہوئی ہے۔ کم از کم تین قسم کی مختلف متوازی کائناتیں موجود ہیں جو سائنسی دنیا میں زبردست مباحثوں کا موجب بنی رہتی ہیں :

الف۔ اضافی خلاء (ہائپر ا سپیس ) یا بلند جہتیں
ب۔ کثیر کائناتیں
ج۔ کوانٹم متوازی کائناتیں

اضافی خلاء یا بلند جہت

متوازی کائناتیں جو تاریخ میں مباحثوں کے سب سے لمبے سلسلے کا عنوان رہی ہیں ان میں سے ایک بلند جہتیں ہیں۔ اس حقیقت کا ادراک کرنا ہمیں آسان لگتا ہے کہ ہم تین جہتوں کی دنیا میں رہتے ہیں (لمبائی ، چوڑائی اور اونچائی )۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم کسی بھی جسم کو خلاء میں کیسے بھی حرکت دے دیں اس کا ہر محل وقوع ان تین جہتوں کے ذریعہ ہی سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ حقیقت میں ہم ان تین چیزوں سے کائنات میں موجود کسی بھی چیز کا، یہاں تک کہ اپنی ناک کے کونے سے لے کر سب سے دور دراز کی کہکشاں تک ہر چیز کا محل وقوع بیان کر سکتے ہیں۔

چوتھی مکانی جہت ، ہمیں اپنی عقل کے خلاف لگتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر دھوئیں کو کمرے میں بھر نے دیا جائے تو ہم دھوئیں کو کسی اور جہت میں غائب ہوتا نہیں دیکھیں گے۔ اپنی کائنات میں ہم کسی بھی جسم کو اچانک سے غائب ہوتا دیکھ کر کسی دوسری کائنات میں تیر کر جاتا ہوا نہیں دیکھتے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر بلند جہتیں موجود بھی ہیں تو لازمی طور پر وہ کسی بھی جوہر سے چھوٹی ہوں گی۔

یہ سہ جہتی مکانی ہی یونانیوں کیبنیادی جیومیٹری کی اساس ہے۔ مثال کے طور پر ارسطو نے اپنے مضمون "فلک پر "لکھا "ایک لکیر کی صرف ایک ہی جہت ہے ، ایک سطح کی دو جہتیں ہیں جبکہ کسی بھی ٹھوس چیز کی تین جہتیں ہوتی ہیں اور اس سے آگے کسی بھی قسم کی کوئی جہت نہیں ہے کیونکہ بس یہی تین جہتیں ہوتی ہیں۔" اسکندریہ کے بطلیموس نے ١٥٠ بعد مسیح میں پہلی مرتبہ بلند جہتوں کے ناممکن ہونے کا ثبوت دیا ۔ اپنے مضمون "فاصلوں پر " اس نے وجوہات اس طرح سے بیان کیں۔ تین لکیروں کو ایک دوسرے کے عمودی کھینچیں (جیسے کہ کسی کمرے کے کونے میں ہوتی ہیں۔) واضح طور پر چوتھی لکیر کو ان تین لکیروں کے عمودی نہیں کھینچا جا سکتا لہٰذا چوتھی جہت کا ہو ناممکن نہیں ہے۔(اس نے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہمارا ذہن چوتھی جہت کو تصوّر میں لانے سے قاصر ہے۔ آپ کی میز پر رکھا ہوا ذاتی کمپیوٹر ہر وقت اضافی جہتوں میں حساب کتاب کرتا رہتا ہے۔)

دو ہزار سال تک جس ریاضی دان نے بھی چوتھی جہت کی بات کی اسے ممکنہ طور پر تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ ١٦٨٥ میں ریاضی دان جان ویلس (John Wallis) کو چوتھی جہت کے سلسلے میں متنازع کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ یہ "قدرت کا عفریت ہے اور اس کے ہونے کا امکان بد خلقت مخلوق یا آدھے گھوڑے اور آدھے انسان کے جیسی کسی چیز کے ہونے سے بھی کم ہے۔" انیسویں صدی میں کارل گاس ، (Karl Gauss) "ریاضی کے شہزادے "، نے چوتھی جہت پر ریاضی میں کافی کام کیا م تاہم وہ اس کی مخالفت کے ڈر سے اس کو شایع کرنے سے خوفزدہ تھا۔ ذاتی طور پر گاس نے اس بات کو جانچنے کے لئے تجربات کئے کہ کیا یونانی سہ جہتی جیومیٹری حقیقت میں کائنات کو بیان کر سکتی ہے۔ ایک تجربے میں اس نے اپنے مدد گاروں کو تین پہاڑیوں کی چوٹیوں پر کھڑا کیا جن میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں لالٹین تھی اس طرح سے اس نے ایک بہت بڑا تکون بنا لیا تھا۔ گاس نے پھر تکون کے ہر زاویہ کو ناپا۔ اس نے مایوس کن طور پر تمام اندرونی زاویوں کا حاصل جمع ١٨٠ درجہ کا پایا۔ اس نے نتیجہ اخذ کیا کہ اگر یونانیوں کے معیار کی جیومیٹری میں کسی قسم کا فرق ہوگا تو وہ اتنا کم ہوگا کہ ان لالٹینوں سے ناپا نہیں جا سکے گا۔

گاس نے اضافی جہتوں کی بنیادی ریاضی کو اپنے شاگرد گورگ برن ہارڈ ریمین(Georg Bernhard Riemann) پر چھوڑ دیا تھا۔(اس کے کام کو مکمل طور پر عشروں بعد آئن سٹائن کے نظریئے اضافیت میں درآمد کیا گیا )۔ مشہور زمانہ لیکچر جو اس نے ١٨٥٤ میں دیا تھا ریمین نے ایک ہی وار میں یونانیوں کی دو ہزار سالہ جیومیٹری کرسی اقتدار کو اٹھا کر پھینک دیا اور اضافی خم دار جہتوں کی ریاضی کے بنیادی اصول وضع کیے جن کو ہم آج بھی استعمال کرتے ہیں۔

ریمین کی شاندار دریافت ١٨٠٠ کے آخر میں کافی مشہور ہوئی ، چوتھی جہت فنکاروں، موسیقاروں ، مصنفین ، فلاسفروں اور مصوروں میں کافی مقبول ہوئی۔ فنی مؤرخ لنڈا ڈال ریمپل ہنڈریسن(Linda Dolrymple Henderson) کے مطابق پکاسو کا "کیوب ازم" چوتھی جہت سے کافی حد تک متاثر ہو کر بنایا گیا تھا۔(پکاسو کی عورت کی بنائی ہوئی اس تصویر میں آنکھیں سامنے کی جانب جبکہ ناک اطراف میں موجود ہے۔ یہ تصویر اس کوشش کا حصّہ تھی جس میں چوتھی جہت کو بیان کیا گیا تھا کیونکہ جو کوئی چوتھی جہت سے اس عورت کو دیکھے گا وہ ایک ساتھ ہی اس چہرہ ، ناک اور سر کا پچھلا حصّہ دیکھ سکے گا۔) ہنڈریسن لکھتی ہے "بلیک ہول کی طرح چوتھی جہت پراسرار خصوصیات رکھتی ہے جس کو مکمل طور پر سائنس دانوں نے بھی ابھی تک نہیں سمجھا۔ اس کے باوجود اس کا اثر١٩١٩ء کے بعد سے بلیک ہول یا کسی بھی اور حالیہ سائنسی نظریئے سے (اضافیت کو چھوڑ کر ) سب سے زیادہ ہے۔

دوسرے مصوروں نے بھی چوتھی جہت کو بنانے کی کوشش کی ہے۔ سلواڈور ڈالی(Salvador Dali) کی کرسٹس ہائپر کوبئیس(Christus Hypercubius)، میں حضرت عیسی کو ایک عجیب تیرتے ہوئے سہ جہتی صلیب پر چڑھایا جا رہا ہے جو اصل میں ایک "ٹیسسر ایکٹ " کھلا ہوا چوتھی جہت کا مربع ہے۔ اپنی مشہور "دائمی یاد" (پرسسٹنس آف میموری ) میں اس نے وقت کو چوتھی جہت سے بتانے کی کوشش کی تھی لہٰذا اس نے پگھلی ہوئی گھڑی سے اس کو تشبیہ دی۔ مارسیل ڈویکیم(Marcel Duchamps) کی " اترتی ہوئی سیڑھی سے برہنہ " میں ایک برہنہ کو سیڑھی سے اترتے ہوئے بہتے ہوئے وقت سے تشبیہ دے کر وقت کو ایک چوتھی جہت بتانے کی کوشش کی تھی۔ چوتھی جہت آسکر وائلڈ (Oscar Wilde)کی کہانی "دی کینٹرول گھوسٹ " میں بھی موجود تھی جس میں گھر پر طاری ہوا بھوت چوتھی جہت میں رہتا تھا۔

چوتھی جہت ایچ۔ جی۔ ویلز کی کافی کہانیوں میں موجود ہے جس میں "پوشیدہ آدمی"(دی انوزیبل مین)، دی پلانر ا سٹوری ، اور دی وونڈر فل وزٹ شامل ہیں۔ آخری کہانی تب سے ہی ہالی ووڈ کی فلموں اور سائنسی قصصی ناولوں کی بنیاد بنی ہوئی ہے ، جس میں ہماری کائنات متوازی کائنات سے ٹکرا جاتی ہے۔ دوسری کائنات کا ایک بیچارہ فرشتہ ہماری کائنات میں کسی شکاری سے حادثاتی طور پر زخمی ہو کر گر جاتا ہے۔ ہماری کائنات کی زبردست لالچ ، کمینے پن اور خود غرضی کی وجہ سے آخر کار وہ فرشتہ خود کشی کر لیتا ہے۔)

متوازی کائنات کا خیال رابرٹ ہینلین(Robert Heinlein) کی منافقت کے موضوع پر لکھی ہوئی کہانی دی نمبر آف دی بیسٹ میں بھی موجود ہے۔ ہینلین نے ایک چار بہادر مہم جوؤں کی جماعت کی کہانی کو بیان کیا ہے جو متوازی کائناتوں میں ایک پاگل پروفیسر کی بین الجہت ا سپورٹ کار میں اچھل کود کرتے پھر رہے ہیں۔

ایک ٹیلی ویژن سلسلے سلائیڈر میں ایک نوجوان ایک کتاب کو پڑھتا ہے اور ایک ایسی مشین بنانے کی کوشش کرتا ہے جو اس کو متوازی کائناتوں میں گرا سکے۔(وہ نوجوان لڑکاجوکتاب پڑھتا ہے وہ اصل میں میری کتاب "اضافی جہت "[Hyperspace]تھی۔)

تاریخی طور پر چوتھی جہت طبیعیات دانوں کے لئے صرف ایک پر تجسس چیز سے زیادہ نہیں رہی ہے۔ فی الحال ابھی تک تو کسی بھی قسم کا کوئی ثبوت اضافی جہتوں کا نہیں مل سکا ہے۔ تبدیلی کا آغاز ١٩١٩ء میں اس وقت ہوا جب ایک انتہائی متنازع مقالہ تھیوڈور کلوز ا(Theordor Kaluza) نے لکھا جس میں اس نے اضافی جہتوں کا اشارہ دیا تھا۔ اس نے آئن سٹائن کی عمومی نظریہ اضافیت سے شروع کیا ، تاہم اس نے اس کو پانچ جہتوں میں رکھا۔(ایک جہت وقت کی اور چوتھی جہت خلاء کی ، کیونکہ وقت ایک مکان و زمان کی چوتھی جہت ہے ، طبیعیات دان اب چوتھی مکانی جہت کو پانچویں جہت کہتے ہیں )۔ اگر پانچویں جہت کو چھوٹے سے چھوٹا کر دیا جائے تو مساوات جادوئی طریقے سے دو حصّوں میں بٹ جاتی ہے۔ ایک حصّہ آئن سٹائن کی معیاری نظریہ اضافیت کو بیان کرتا ہے جب کہ دوسرا حصّہ میکسویل کی روشنی کا نظریہ بن جاتا ہے !

یہ ایک شاندار دریافت تھی۔ شاید روشنی کا راز ہی پانچویں جہت میں چھپا ہوا ہے ! آئن سٹائن بھی اس حل کو دیکھنے کے بعد مبہوت رہ گیا جس نے روشنی اور ثقل کی ایک شاندار وحدت کو بیان کیا تھا۔(آئن سٹائن کلوز ا کی اس تجویز سے اس قدر بوکھلا گیا تھا کہ اس نے صرف دو سال اس بات کی غور و فکر میں ہی گزار دیئے اور اس کے بعد ہی وہ اس مقالے کو شایع کروانے پر راضی ہوا۔) آئن سٹائن نے کلوز ا کو لکھا "پانچ جہتی سلنڈر نما دنیا کا خیال ایک وحدتی نظریئے کے ذریعہ مجھ پر کبھی ظاہر نہیں ہوا۔۔۔۔پہلی نظر میں ہی ، مجھے تمہارا نظریہ بہت پسند آیا۔۔۔۔ با ضابطہ طور پر تمہارے نظریہ کی وحدت چونکا دینے والی ہے۔"

برسوں سے طبیعیات دان یہ سوال اٹھا رہے ہیں : اگر روشنی موج ہے ، تو وہ کس چیز کو خمیدہ کر رہی ہے ؟روشنی ارب ہا سال تک خالی خلاء میں سے گزر سکتی ہے ، مگر خلاء تو خالی ہے جس میں کسی بھی قسم کا کوئی مادّہ نہیں ہے۔ تو خلاء میں کیا چیز خمیدہ ہو رہی ہے ؟ کلوز ا کے نظریئے سے ہمیں اس مسئلہ کا ایک ٹھوس اور پائیدار حل مل گیا : روشنی کی لہریں پانچویں جہت پر سوار ہوتی ہیں۔ میکسویل کی مساوات جو نہایت درستگی کے ساتھ روشنی کی تمام خصوصیات کو بیان کرتی ہے وہ ایک ایسی مساوات کے طور پر نمودار ہوتی ہے جہاں موجیں پانچویں جہت میں سفر کرتی ہیں۔

کسی مچھلیکو اتھلے تالاب میں تیرتا ہوا تصوّر کریں۔ اس کو تیسری جہت کا شاید کبھی معلوم ہی نہیں ہو سکے گا ، کیونکہ ان کی آنکھیں اس کے اطراف میں لگی ہوئی ہیں اور وہ آگے، پیچھے ، سیدھی اور الٹی طرف ہی تیر سکتی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ ایک تیسری جہت ان کے لئے ناممکن ہو۔ مگر فرض کریں کہ تالاب کے اوپر بارش شروع ہو جاتی ہے ہرچند کہ وہ تیسری جہت کو نہیں دیکھ سکے گی تاہم تالاب کی سطح پر بنتی لہروں کو تو دیکھ ہی سکتی ہے ۔ بعینہ ایسے کلوز ا کا نظریہ روشنی کو پانچویں جہت میں لہروں پر سفر کرتے ہوئے بیان کرتی ہے۔

کلوزا نے اس کا جواب بھی دیا ہے کہ پانچویں جہت کہاں ہے۔ کیونکہ ہم نے پانچویں جہت کا کوئی ثبوت نہیں دیکھا ہے ، لہٰذا اس کو اس قدر چھوٹا حلقہ دار ہونا چاہئے کہ ہم اس کا مشاہدہ نہ کر سکیں۔(ذرا دو جہتی کاغذ کی شیٹ کا تصوّر کریں اور اس کو موڑ کر ایک سلنڈر کی طرح سے بنا دیں۔ دور سے سلنڈر ایک جہت کی لکیر نظر آئے گا۔ اس طرح سے موڑنے پر ایک دو جہتی چیز ایک جہتی بن جائے گی۔)

کلوزا کے مقالے نے شروع میں ایک سنسنی پھیلا دی تھی۔ مگر آنے والی دنوں میں اس نظریئے پر بھی اعتراض اٹھائے گئے۔ اس پانچویں جہت کا حجم کیا ہے ؟وہ کیسی مڑتی ہے ؟ان کا کوئی جواب نہیں دیا جا سکا۔

عشروں تک آئن سٹائن نے اس نظریئے پر بار بار کام کیا۔١٩٥٥ میں اس کے آنجہانی ہو جانے کے بعد، اس نظریئے کو جلد ہی بھلا دیا گیا جس کے نتیجے میں طبیعیات کے ارتقاء میں اس کی حیثیت ایک عجیب سے حاشیہ جیسی ہو گئی تھی ۔

جاری ہے۔۔۔۔۔

14۔ دائمی حرکی مشین

ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو - حصّہ سوم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
14۔ دائمی حرکی مشین (پہلا حصّہ)

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
نظریوں کی قبولیت کے چار مراحل ہوتے ہیں :

i. یہ بالکل بیکار ہے ، فضول ؛
ii. یہ دلچسپ ہے ، مگر ٹھیک نہیں ہے؛
iii. یہ سچ ہے ، مگر اہم نہیں ہے؛
iv. میں ہمیشہ سے یہی کہتا ہوں۔

- (جے بی ایس ہیلڈ ن ، ١٩٦٥ء )

آئزک ایسی موف کے کلاسک ناول "دی گاڈ دیم سیلو ز" میں ایک گمنام کیمیا دان حادثاتی طور پر ٢٠٧٠ء میں اپنے وقت کی سب سے عظیم ایجاد کر بیٹھتا ہے، وہ ایک ایسا الیکٹران پمپ ایجاد کر لیتا ہے جو لامحدود توانائی مفت میں پیدا کرتا ہے ۔ اس ایجاد کا اثر فوری اور بہت ہی گہرا ہوتا ہے ۔ اس کیمیا دان کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے اور اس کو تاریخ کا عظیم سائنس دان گردانا جاتا ہے کیونکہ اس نے تہذیب کی توانائی کی پیاس کو بجھایا تھا۔ "وہ پوری دنیا کا سانتا کلاز اور الہ دین کا چراغ تھا۔ "ایسی موف نے لکھا۔ اس کی بنائی ہوئی کمپنی جلد ہی دنیا کی امیر ترین کمپنیوں میں سے ایک بن جاتی ہے جو تیل، گیس ، کوئلے اور نیوکلیائی صنعتوں کے کاروبار کو ٹھپ کر کے رکھ دیتی ہے ۔

دنیا اس مفت کی توانائی کے نشے میں ڈوب جاتی ہے اور تہذیب اس نئی ملنے والی طاقت کے نشے سے سرشار ہو جاتی ہے۔ ہر کوئی اس کارنامے کی خوشی منانے میں مصروف ہو جاتا ہے ۔ صرف ایک اکیلا طبیعیات دان ہی اس بات سے پریشان رہتا ہے ۔"یہ مفت کی توانائی کہاں سے آ رہی ہے؟" وہ اپنے آپ سے پوچھتا ہے ۔ آخر میں وہ یہ راز جان ہی جاتا ہے ۔ مفت کی توانائی ایک ہولناک قیمت کے بدلے میں مل رہی ہوتی ہے ۔ یہ توانائی خلاء میں ایک سوراخ میں سے آ رہی ہوتی ہے جو ایک متوازی کائنات سے جڑا ہوا ہوتا ہے ، اور پھر اچانک ہی توانائی کا سیلاب ہماری کائنات میں ایک زنجیری عمل شروع کر دیتا ہے ۔ نتیجے میں ستارے اور کہکشائیں تباہ ہو جاتی ہیں اور سورج ایک سپرنووا میں بدل جاتا ہے اور یوں وہ زمین کے ساتھ ہی تباہ ہو جاتا ہے ۔

جب سے تاریخ لکھی گئی ہے ، موجدوں، سائنس دانوں کے مقدس جام جبکہ عطائیوں اور دھوکے بازوں کے افسانوں میں" جاودانی حرکی مشین "کا ذکر ملتا ہے۔ جو ایک ایسا آلہ ہوتا ہے جو توانائی کو ضائع کئے بغیر ہمیشہ چلتا رہتا ہے۔ اس کا ایک بہتر ورژن ایک ایسا آلہ بھی ہوتا ہے جو اس توانائی سے زیادہ توانائی پیدا کرتا ہے جو وہ استعمال کرتا ہے ، جیسا کہ الیکٹران پمپ تھا ، جو مفت کی لامحدود توانائی پیدا کرتا تھا۔

آنے والے وقتوں میں جب ہماری صنعتی دنیا سے بتدریج سستا تیل ختم ہو جائے گا تو صاف توانائی کے وافر ذرائع کو ڈھونڈھنے پر کافی دباؤ ہوگا۔ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ، گرتی ہوئی پیداوار ، بڑھتی ہوئی آلودگی ، ماحولیاتی تبدیلیاں سب کے سب قابل تجدید توانائی کی کھوج میں دلچسپی کو بڑھا رہی ہیں۔ آج چند موجد اس لہر پر سوار ہو کر لامحدود مفت کی توانائی کی امید دلا رہے ہیں اور اپنی ان ایجادوں کو سینکڑوں لاکھوں کی تعداد میں بیچنے کے لئے پر تول رہے ہیں۔ وقتاً فوقتاً مختلف موجد سامنے آتے رہتے ہیں جو سنسنی خیز دعوے کر کے ذرائع ابلاغ میں اکثر اگلے ایڈیسن کہلاتے ہیں۔

دائمی حرکی مشین کی شہرت چار دانگ پھیلی ہوئی ہے۔ دی سمسنز کی ایک قسط جس کا عنوان "دی پی ٹی اے ڈس بینڈ " تھا ، اس میں لیزا استادوں کی ہڑتال کے دوران اپنی ایک دائمی حرکی مشین بناتی ہے۔ اس وجہ سے ہومر سختی سے اس بات کا اعلان کرتا ہے ،" لیزا یہاں آؤ۔۔۔اس گھر میں ہم حر حر کیات کے قوانین کو مانتے ہیں !"

ایک کمپیوٹر کے کھیل دی سمز ، زینو ساگا قسط Iاور II اور الٹیما IV: دی فالس پروفیٹ ،میں اور نکلوڈین کے پروگرام "انویڈر زم "، میں دائمی حرکی مشینوں نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔

لیکن اگر توانائی اتنی قیمتی ہے ، تو پھر اس بات کی کیا امید ہے کہ کوئی دائمی حرکی مشین بنائی جا سکے ؟کیا ایسا آلہ بنانا واقعی ناممکن ہے ،یا ان کے بنانے میں ہمیں طبیعیات کے قوانین پر نظر ثانی کرنا پڑے گی ؟

توانائی تاریخ کے آئینے میں 

توانائی کسی بھی تہذیب کی بقاء کے لئے انتہائی ضروری ہوتی ہے۔ دراصل انسانی تاریخ کو توانائی کے آئینے میں دیکھا جا سکتا ہے۔٩٩۔٩ فیصد انسانی وجود، قدیمی سماج خانہ بدوش تھے ، انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کرتے ہوئے خوراک کے لئے شکار کرتے تھے۔ ان کی زندگی وحشیانہ اور مختصر تھی۔ ہمارے پاس جو توانائی اس وقت موجود تھی وہ ایک ہارس پاور کے بیسواں حصّہ تھی یعنی کہ ہمارے پٹھوں کی طاقت۔ ہمارے آباؤ اجداد کی ہڈیوں کے تجزیہ سے زبردست ٹوٹ پھوٹ کے واضح ثبوت ملے ہیں ، جو روز مرہ زندگی میں جدوجہد کے نتیجے میں واقع ہوئے تھے۔ اوسط عمر ٢٠ سال سے بھی کم تھی۔

مگر آخری برفانی دور کے خاتمے کے بعد جو دس ہزار سال قبل پہلے ختم ہوا تھا ، ہم نے زراعت اور پالتو جانوروں کے طریقوں کو دریافت کر لیا تھا ، خاص طور پر گھوڑے کو ، جس کے نتیجے میں بتدریج ہماری توانائی ایک ہارس پاور سے دو ہارس پاور تک بڑھ گئی۔ اس سے انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ انقلاب آنے کی شروعات ہوئی۔ گھوڑے اور بیل سے ایک آدمی کے پاس اتنی توانائی آ جاتی تھی کہ وہ پورے میدان میں حل چلا سکے ، دس میل کا سفر ایک دن میں کر سکے اور سینکڑا ہا پونڈ وزنی چٹانوں یا غلے کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جا سکے۔ انسانیت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ان کے پاس زائد توانائی تھی جس کے نتیجے میں ہمارے شہروں کی بنیاد پڑی۔ زائد توانائی کا مطلب تھا کہ سماج فنکاروں ، ماہرین تعمیرات اور کاتب نویسوں کو پالنے کے قابل ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں قدیمی سماج پھلے پھولے۔ جلد ہی عظیم سلطنتیں اور اہرام جنگلوں سے نمودار ہونے لگے۔ اوسط زندگی ٣٠ سال تک کی ہو گئی۔

اس کے بعد ٣٠٠ برس پہلے انسانی تاریخ میں دوسرا عظیم انقلاب برپا ہوا۔ مشین اور بھاپ کی آمد کے ساتھ ہی ایک انسان کے پاس توانائی کی مقدار دسیوں ہارس پاور تک ہو گئی۔ بھاپ کے انجن کی توانائی کو قابو میں لا کر لوگ اب پورے کے پورے براعظموں کو چند دنوں میں پار کرنے لگے۔ مشینیں اب پورے کے پورے میدانوں میں ہل چلا سکتی تھیں ، سینکڑوں لوگوں کو ہزاروں میل کی دوری تک لے جا سکتی تھیں اور ہم اس قابل ہو سکے کہ بلند و بالا عمارتوں والے شہروں کو بنا سکیں۔ انیسویں صدی تک ایک امریکی کی اوسط عمر لگ بھگ ٥٠ برس کے پہنچ گئی تھی ۔

آج ہم انسانی تاریخ کے تیسرے عظیم انقلاب یعنی کہ اطلاعاتی انقلاب کے دوراہے پر موجود ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی ، بجلی اور طاقت کی حرص نے ہماری توانائی کی ضرورت کو آسمان سے باتیں کرنے والا بنا دیا ہے اور ہماری اضافی توانائی بہت ہی قلیل مقدار میں رہ گئی ہے۔ اب کسی بھی فرد کے لئے موجود توانائی کو ہزار ہا ہارس پاور میں ناپا جاتا ہے۔ ہم ایک کار جو ہزار ہا ہارس پاور کی ہوتی ہے اس کو یوں ہی ایک عام سے انداز میں لیتے ہیں۔ اس بات میں کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ توانائی کی اس بڑھتی ہوئی طلب نے توانائی کے عظیم ذرائع میں دلچسپی کو یکدم بڑھا دیا ہے اور ان ذرائع میں دائمی حرکی مشین بھی شامل ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔

15۔ پیش بینی

ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو - حصّہ سوم
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
15۔ پیش بینی - پہلا حصّہ

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
تناقض ایک سچائی ہے جو توجہ حاصل کرنے کے لئے سر کے بل کھڑی ہے۔

- نیکولس فلیٹا (Nicholas Falletta)

کیا پیش بینی یا وقوف ماقبل کا وجود ہو سکتا ہے؟ یہ قدیمی تصوّر ہر مذہب میں موجود ہے جس کی تاریخ رومیوں اور یونانیوں کے ہاتف سے لے کر پرانے عہد نامے کے انبیاؤں تک جاتی ہے۔ مگر ان قصّوں میں پیش بینی کا تحفہ ایک طرح سے سزا بھی ہوتی تھی۔ یونانی دیو مالائی قصّوں میں ایک ٹرائے کے بادشاہ کی بیٹی کیسنڈرا (Cassandra) ہوتی ہے۔ اپنی خوبصورتی کی وجہ سے وہ سورج دیوتا اپالو کی توجہ حاصل کر لیتی ہے۔ اس کا دل جیتنے کے لئے اپالو اس کو مستقبل کو دیکھنے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔ تاہم کیسنڈرا اپالو کو حقارت سے ٹھکرا دیتی ہے۔ غیض و غضب سے بھرا ہوا اپالو اپنے دیئے ہوئے تحفہ کو اس طرح سے بدل دیتا ہے کہ کسینڈرا مستقبل کو تو دیکھ سکتی ہے لیکن اس کی پیش بینی پر کوئی یقین نہیں کرتا ہے۔ جب کسینڈرا اپنے لوگوں کو آنے والی قریبی تباہی سے آگاہ کرتی ہے تو اس کی کوئی نہیں سنتا ۔ اس نے کاٹھ کے گھوڑے کی فریب کے بارے میں ، ایگا میمنون (Agamemnon) اور یہاں تک کہ اپنی موت کے بارے میں بھی پہلے ہی سے بتا دیا تھا۔ تاہم اس کو سنجیدہ لینے کے بجائے ٹرائے کے لوگ اس کو پاگل سمجھ کر قید کر دیتے ہیں۔

نوسٹراڈیمس کی سولویں صدی کی پیش گوئیاں ہوں یا حال میں ہی ایڈگر کائیسے(Edgar Cayce) کے دعوے کہ وہ وقت کے پردے کو اٹھا سکتا ہے ہر کوئی پیش بینی کرنے میں لگا ہوا ہے ۔ اگرچہ بہت سارے دعوے دار ایسے موجود ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ان کی پیش گوئیاں درست ثابت ہوں گی (مثال کے طور پر جنگ عظیم دوم کی پیشن گوئی ، جان ایف کینیڈی کا قتل ، اور اشتراکیت کا زوال )، غیر واضح ، تمثیلی انداز میں ان غیب دانوں نے اپنے شعرکچھ اس طرح سے لکھے ہیں کہ اس سے مختلف قسم کی متناقض توجہات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر نوسٹراڈیمس کی رباعیاں عمومی طور کی ہیں کہ اس سے کوئی بھی اپنا من چاہا مطلب مطلب نکال سکتا ہے (اور لوگوں نے یہی کیا ۔)۔ ایک رباعی ملاحظہ کیجئے :

زمین کو ہلا دینے والی آگ دنیا کے قلب سے نکل کر دھاڑے گی :
نئے شہر کے قریب زمین لرزے گی
دو عالی منش ایک لاحاصل جنگ میں الجھ جائیں گے
بہار کی حسینہ چھوٹا نیا سرخ دریا بہائے گی۔

کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یہ رباعی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ نوسٹراڈیمس نے پہلے سے ہی نیویارک شہر کے جڑواں ٹاوروں کو ١١ ستمبر ٢٠٠١ء میں جلتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ اس کے باوجود صدیوں سے دوسرے واقعات کو بھی اسی رباعی سے منسوب کیا جاتا رہا ہے۔ بیان کردہ چیزیں اتنی مبہم ہیں کہ ان کی کئی تشریحات کی جا سکتی ہیں۔

پیش بینی تمثیل نگاروں کا پسندیدہ کھیل کا میدان بنا رہا ہے جنہوں نے آنے والے وقتوں میں سلطنتوں کے زوال کے بارے میں اس کے ذریعہ لکھنے کی کوشش کی ہے۔ شیکسپیئر کی میک بیتھ میں پیش بینی کھیل کا مرکزی خیال تھا اور میک بیتھ کی آرزو بھی تھی ، اس کھیل میں اس کا سامنا تین چڑیلوں سے ہوتا ہے جو اس کا عروج اسکاٹ لینڈ کے حکمران کی حیثیت سے دیکھ رہی ہوتی ہیں۔ چڑیلوں کی پیش گوئی کے ساتھ ہی اس کی لوگوں کے قتال کی خواہش اور حوصلہ بڑھ جاتا ہے ۔اور یہ پیش بینی اس کو ایک خونی اور مہیب مہم اپنے دشمنوں کو ختم کرنے کے لئے شروع کرنے کی تحریک دیتی ہے ۔ اس تحریک کے نتیجے میں وہ اپنے دشمن میکڈوف (Macduff)کی معصوم بیوی اور بچے کو بھی قتل کر دیتا ہے۔

تخت و تاج پر قبضہ کرنے کے لئے گھناؤنی حرکتیں کرنے کے بعد میک بیتھ کو چڑیلوں کے ذریعہ پتا لگتا کہ اس کو کسی جنگ میں شکست نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی اس پر کوئی فاتح غالب آ سکتا ہے۔ وہ صرف اس وقت ہی شکست کھا سکتا ہے جب عظیم برنام جنگل کے لوگ اس کے خلاف بلندی (ڈنسیننی پہاڑی )پر آئیں گے۔ اور کوئی بھی عورت ایسے بچے کو جنم دے گیجو میک بیتھ کو نقصان پہنچا سکے ۔ تاہم قدرت کو تو کچھ اور ہی منظور تھا عظیم برنام کے جنگل میں میکڈوف کے فوجی اپنے آپ کو پودوں کی ٹہنیوں میں چھپائے ہوئے تھے ، اور خفیہ طور پر میک بیتھ کی طرف پیش قدمی کر رہے ہوتے ہیں ۔اور میکڈوف خود رحم مادر کو چیر کر پیدا ہوا تھا۔

اگرچہ ماضی کی پیش گوئیوں سے کئی الگ طرح کے معنی لئے جا سکتے ہیں ، لہٰذا ان کو جانچنا ممکن نہیں ہوتا ہے ، پیش گوئیوں کی ایک قسم ایسی ہے جس کا آسانی سے تجزیہ کیا جا سکتا ہے مثلاً زمین کی تباہی کے بارے میں درست تاریخ کا اندازہ لگانا ۔ جب سے انجیل کے آخری باب "الہام "نے یوم قیامت کی تفصیلات بیان کی ہیں ، جس میں افراتفری اور تباہی ، دجال کی آمد کے ساتھ ہی شروع ہو جائے گی اور دوسری اور آخری بار یسوع مسیح تشریف لائیں گے ، تب سے بنیاد پرستوں نے کافی کوشش کی ہے کہ یوم حشر کی درست تاریخ کی پیش گوئی کر سکیں۔

ایک اور شہرہ آفاق قیامت کی پیشن گوئی نجومیوں نے کی تھی ، اس پیش گوئی میں انہوں نے کہا کہ ایک عظیم سیلاب دنیا کا خاتمہ ٢٠ فروری ١٥٢٤ کو کر دے گا۔ ان کی اس پیشن گوئی میں تمام سیاروں کا فلک میں جمع ہونا تھا یعنی کہ عطارد ، زہرہ ، مریخ ، مشتری اور زحل۔ اس پیش گوئی نے پورے یورپ میں بڑے پیمانے پر افراتفری پھیلا دی ۔ انگلستان میں ٢٠ ہزار لوگوں نے اپنے گھروں کو کسمپرسی کی حالت میں چھوڑ دیا تھا۔ ایک قلعہ جس میں خوراک اور پانی کا دو مہینے کا ذخیرہ جمع کیا گیا تھا وہ سینٹ بارتھولومیو گرجا گھر(Saint Bartholomew Church) کے قریب بنایا گیا۔ پورے جرمنی اور فرانس میں لوگوں نے تندہی سے بڑی کشتیاں بنانی شروع کر دیں تاکہ سیلاب کے آنے پر اس میں بیٹھ جائیں۔ کاؤنٹ وون اگلہیم (Count Von Iggleheim) نے تو یہاں تک کیا کہ اس یادگار لمحے کے لئے ایک تین منزلہ کشتی تیار کر لی تھی۔ لیکن آخر کار جب وہ تاریخ آئی تو صرف معمولی سی بارش ہی برسی۔ ہجوم کا مزاج خوف سے یکدم غصّے میں بدل گیا۔ ان لوگوں نے جنہوں نے اپنی تمام جمع پونجی بیچ ڈالی تھی اور اپنی زندگانیوں کو الٹ پلٹ کر دیا تھا انتہائی ناامید ہو گئے تھے۔ غصّے سے بپھرا ہوا ہجوم دیوانہ ہو گیا۔ کاؤنٹ کو سنگسار کرکے موت سے ہمکنار کر دیا گیا اور سینکڑوں لوگ اس بھگدڑ میں مارے گئے۔

صرف عیسائی ہی نہیں ہیں جو پیش گوئیوں کے جھانسے میں آتے ہیں۔ ١٦٤٨ میں سباتائی زیوی ،سمیرنا کے امیر یہودی کا بیٹا تھا جس نے مسیحیت کا دعویٰ کر دیا تھا اور یہ پیش گوئی کی تھی کہ دنیا ١٦٦٦ میں ختم ہو جائے گی۔ خوش باش ، کرشماتی شخصیت ، اور دیو مالائی کہانیوں کبالہ پر زبردست عبور کے ساتھ اس نے تیزی سے اپنی گرد خوفناک جانباز وفادار مریدوں کا ٹولہ جمع کر لیا تھا جنہوں نے پورے یورپ میں خبر کو عوام الناس میں پھیلا دیا تھا۔ ١٦٦٦ کی بہار میں دور دراز میں رہنے والے یہودی جس میں فرانس، ہالینڈ ، جرمنی اور ہنگری کے رہائشی شامل تھے انہوں نے اپنا بستر بوریا سمیٹ کر اپنے مسیحا کی پکار کے منتظر ہوئے۔ مگر اس سال کے آخر میں زیوی کو قسطنطنیہ کے وزیر اعظم نے پابند سلاسل کر دیا تھا۔ ممکنہ پھانسی کو دیکھتے ہوئے اس نے ڈرامائی طور پر اپنے یہودی کپڑے اتار کر ترک عمامہ باندھ لیا اور اسلام قبول کر لیا۔ نتیجتاً دسیوں ہزاروں مریدوں نے اس کے طلسم کو توڑ کر اس دھرم سے علیحدگی اختیار کر لی۔ 

غائب دانوں کی پیش گوئیوں کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہے اور دسیوں لاکھ دنیا کے باسیوں کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ولیم ملر نے ریاست ہائے متحدہ امریکا میں اس بات کا اعلان کیا کہ ٣ اپریل ، ١٨٤٣ کو روز قیامت برپا ہونے والا ہے۔ جیسے ہی پیش گوئی ریاست ہائے متحدہ امریکا میں پہنچی ، اتفاق سے رات کو آسمان پر ١٨٣٣ میں ایک شاندار شہابیوں کی بارش شروع ہو گئی ، جو اس قسم کی بارش میں سب سے بڑی تھی ۔ اس واقعے نے ملر کی پیشن گوئی کو مزید تقویت دی۔

دسیوں ہزار جوشیلے مرید جو ملی رائٹس کہلاتے تھے روز قیامت کا انتظار کرنے لگے ۔ جب ١٨٤٣ آیا اور بغیر کسی قیامت برپا کیے گزر گیا ، تو ملی رائٹس کی تحریک کئی بڑے حصّوں میں بٹ گئی ۔ملی رائٹس کے زبردست جمگھٹے کی وجہ سے اس میں سے بنا ہوا ہر جتھے کا مذہب پر کافی گہرا اثر ہوا اور آج بھی ہے۔ ملی رائٹس کے ایک بڑے جتھے کی تحریک نے ١٨٦٣ میں جمع ہو کر اپنا نام سیون ڈے ایڈونٹسٹ چرچ رکھا جس کے آج لگ بھگ ایک کروڑ چالیس لاکھ مسیحی ارکان ہیں۔ ان کے مذہب کا مرکزی خیال مسیح کا فوری طور پر دوبارہ ظاہر ہونا ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔

16.اختتامیہ - ناممکنات کا مستقبل

ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو -اختتامیہ
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ناممکنات کا مستقبل

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
کوئی بھی چیز چاہئے کتنی بڑی اور پاگل پن کی ہو بشرطیکہ کہ وہ طبیعی طور پر ممکن ہو تو لاکھوں کی تعداد میں موجود ٹیکنالوجیکل سوسائٹیوں میں سے کوئی ایک نہ ایک اس کو سنجیدگی سے ضرور لے گی ۔

- فری مین ڈیسن

منزل قسمت سے نہیں پسند سے حاصل کی جاتی ہے۔ چیزوں کا انتظار نہیں کیا جاتا بلکہ ان کو حاصل کیا جاتا ہے ۔

- ولیم جیننگس برائن (William Jennings Brian)

کیا کچھ ایسی سچائیاں موجود ہوں گی جو ہمیشہ ہماری پہنچ سے دور رہیں گی؟ کیا علم کے کچھ ایسے بیش بہا سمندر موجود ہیں جو جدید تہذیب کی بھی پہنچ سے دور ہوں گے۔ ابھی تک ہم نے جتنی ٹیکنالوجی کو بھی دیکھا اور جانچا ہے اس میں سے صرف دو ہی ایسی ملتی ہیں جو جماعت III کی ناممکنات میں جگہ پاتی ہیں یعنی کہ دائمی حرکی مشین اور پیش بینی۔ کیا کچھ اور ٹیکنالوجی بھی ایسی ہیں جن کا حاصل کرنا ممکن نہیں ہے ؟

خالص ریاضی وافر کلیات کی شکل میں بتاتی ہے کہ کچھ چیزیں یقینی طور پر ناممکن ہیں۔ ایک سادی سی مثال ہے کہ کسی بھی زاویے کو صرف پرکار اور فٹے کی مدد سے تین مساوی حصّوں میں قطعہ کرنا ممکن نہیں ہے ۔اس حقیقت کو ١٨٣٧ء میں ثابت کیا جا چکا ہے۔

یہاں تک کہ سادے نظام جیسا کہ علم الحساب میں بھی ناممکنات موجود ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا کہ یہ بات ناممکن ہے کہ تمام سچے بیانوں کو علم الحساب کے مفروضوں کے اندر رہتے ہوئے ثابت کیا جا سکے۔ علم الحساب نامکمل ہے۔ علم الحساب میں ہمیشہ سے ایسی سچے بیان موجود رہیں گے جن کو صرف ایک بڑے نظام کے تحت ثابت کیا جا سکتا ہے جس میں علم الحساب اس کا ذیلی حصّہ ہو۔

ہرچند کہ ریاضی میں کچھ چیزیں ناممکن ہیں ،لیکن کسی کو طبیعیاتی سائنس میں مطلق طور پر ناممکن کہنا بہت ہی خطرناک گردانہ جاتا ہے ۔ میں آپ کو نوبل انعام یافتہ البرٹ اے مچلسن(Albert A. Michelson) کی تقریر یاد دلاتا چلوں جو انہوں نے ١٨٩٤ء میں یونیورسٹی آف شکاگو کی ریئرسن فزیکل لیب کی یاد میں دی تھی۔ اس تقریر میں انہوں نے برملا اس بات کا اعلان کیا تھا کہ نئی طبیعیات کو دریافت کرنا ممکن نہیں ہے: طبیعیات کی سائنس کے سب سے زیادہ اہم بنیادی قوانین اور حقائق دریافت ہو چکے ہیں اور اب ان کو اتنا مضبوطی کے ساتھ قائم کیا جا چکا ہے کہ اس بات کا امکان کہ نئی دریافتوں کی صورت میں ان کی کوئی اور کبھی بھی جگہ لے سکے انتہائی دور کی کوڑی ہے۔۔۔۔ہماری مستقبل کی دریافتیں عشاریہ کے بعد چھٹے حصّے میں ملیں گی۔"

اس کا تبصرہ سائنسی دنیا کی تاریخ میں اس انقلاب کی شام میں تھا جب کوانٹم کا آفتاب ١٩٠٠ء میں طلوع ہو رہا تھا اور اضافیت کا مہتاب ١٩٠٥ء میں اپنی روشنی سے رات کی تاریکی کو دور کرنے آ رہا تھا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ چیزیں جو دور جدید کے مروجہ طبیعیات کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نا ممکن نظر آتی ہیں ممکن ہے کہ کل جب ہمارے جانے پہچانے قوانین طبیعیات بدل جائیں وہ چیزیں ممکنات میں شامل ہو جائیں۔

١٨٢٥ء میں، عظیم فرانسیسی فلاسفر اوگستے کومتے (Auguste Comte)نے کورس ڈی فلوسوفی میں اعلان کر دیا تھا کہ سائنس کے لئے یہ بات نا ممکن ہے کہ وہ اس بات کا تعین کر سکے کہ ستارے کس چیز سے مل کر بنے ہیں۔ یہ اس وقت کے حساب سے ایک محفوظ دعویٰ تھا کیونکہ اس وقت تک ستاروں کی نوعیت کے بارے میں کچھ بھی پتا نہیں تھا۔ وہ اس قدر فاصلے پر تھے کہ ان پر جایا ہی نہیں جا سکتا تھا۔ اس کے باوجود اس کے دعوے کے صرف چند سال کے بعد ہی طبیعیات دانوں نے (طیف بینی کو استعمال کرتے ہوئے ) اس بات کا اعلان کر دیا کہ سورج ہائیڈروجن سے بنا ہے۔ درحقیقت ہم جانتے ہیں کہ ستاروں سے خارج ہونے والی روشنی کے ارب ہا سال پہلے طیفی خطوط کا تجزیہ کرکے یہ ممکن ہے کہ کائنات میں پائے جانے والے زیادہ تر کیمیائی عناصر کا پتا لگا سکیں۔

کومتے نے سائنس کی دنیا کو دوسری ناممکنات کی فہرست دے کر بھی للکارا تھا :

  • اس کا دعویٰ تھا کہ اشیاء کی اصل ساخت ہمارے علم سے ہمیشہ ماوراء ہی رہے گی۔ بالفاظ دیگر مادّے کی اصل نوعیت کو جاننا ممکن ہی نہ ہوگا۔
  • وہ سمجھتا تھا کہ ریاضی کو کبھی بھی حیاتیات اور کیمیا کو بیان کرنے کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔
  • اس کا خیال تھا کہ فلکی اجسام کا مطالعہ انسانی زندگی پر کوئی اثر نہیں ڈالے گا۔

انیسویں صدی میں ایسی ناممکنات کو پیش کرنا سمجھ میں آتا ہے کیونکہ سائنس کے بارے میں کا علم بہت ہی سطحی قسم کا تھا۔ مادّے اور حیات کے بارے میں وہ کچھ زیادہ نہیں جانتے تھے۔ تاہم آج ہمارے پاس جوہر ی نظریہ ہے جس نے مادّے کی ساخت کی تفتیش کے لئے بالکل ایک نیا جہاں ہی کھول دیا ہے۔ ہم ڈی این اے اور کوانٹم کے نظریہ کے بارے میں جانتے ہیں جس نے حیات اور کیمیا کے کئی گوشوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ ہم خلاء میں شہابیوں کے اثر کے بارے میں بھی جان گئے ہیں جس نے نہ صرف زمین پر زندگی گزرنے کے طریقے کو بدل دیا ہے بلکہ اس کے اپنے وجود کو بھی شکل دینے میں مدد کی ہے۔

فلکیات دان جان بیرو درج کرتے ہیں ،"مورخ اب بھی اس بارے میں بحث کرتے ہیں کہ کومتے کا نقطۂ نظر ہی فرانس میں سائنس کے زوال کا ایک سبب بنا تھا۔"

ریاضی دان ڈیوڈ ہلبرٹ (David Hilbert) کومتے کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں "میرے خیال کے مطابق کومتے کو غیر حل شدہ مسئلہ نہ ملنے کی اصل وجہ یہ ہے حقیقت میں کوئی بھی لاینحل مسئلہ ہے ہی نہیں۔"

مگر آج سائنس دان نئے نا ممکنات کی فہرست بنا کر بیٹھ گئے ہیں : ہم کبھی بھی یہ بات نہیں جان پائیں گے کہ بگ بینگ سے پہلے کیا تھا (یا یہ دھماکہ ہوا ہی کیوں تھا ) اور ہم کبھی بھی ہر شئے کا نظریہ حاصل نہیں کر پائیں گے۔

طبیعیات دان جان وہیلر پہلے ناممکن پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :"دو سو برس پہلے آپ کسی سے بھی یہ بات پوچھ سکتے تھے کہ "کیا ہم کبھی یہ بات سمجھ سکیں گے کہ حیات کیسے وجود میں آئی تھی ؟" اور وہ آپ کو شاید یہ جواب دیتا ،" بعید از قیاس !ناممکن !" میں بھی اس سوال کے لئے ایسا محسوس کرتا ہوں "کیا ہم کبھی یہ سمجھ سکیں گے کہ کائنات کیسے وجود میں آئی؟" ماہر فلکیات جان بیرو مزید اضافہ کرتے ہیں ، روشنی جس رفتار سے سفر کرتی ہے وہ محدود ہے لہٰذا ہمارا کائنات کی ساخت کے بارے میں علم بھی محدود ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ محدود ہے یا لامحدود ، اس کی شروعات بھی ہوئی تھی یا اس کا خاتمہ بھی ہوگا یا نہیں ، معلوم نہیں کہ طبیعیات کی ساخت ہر جگہ ایک جیسی ہے یا نہیں ، اور کیا کائنات صاف ہے یا گندی ہے ،۔۔۔۔تمام عظیم سوالات جو کائنات کی نوعیت کے بارے میں ہیں - اس کی پیدائش سے لے کر اس کے انجام تک - ناقابل جواب ہیں۔"

بیرو بالکل صحیح تھا کہ ہم کبھی بھی قطعیت کے ساتھ کائنات کی شان و شوکت کی اصل نوعیت کو نہیں جان پائیں گے۔ مگر یہ بات ممکن ہے کہ ہم بتدریج ان ازلی سوالات کے جواب کافی نزدیک تک حاصل کر لیں۔ بجائے قطعیت کو اپنے علم کی سرحدوں کا تابع کریں ان ناممکنات کو اپنے لئے ایک چیلنج کے طور پر قبول کرنا اگلی آنے والی سائنس دانوں کی نسل کے لئے زیادہ بہتر ہوگا۔ یہ حدود کیک کی پرتوں جیسی ہیں جن کو بس کاٹنا ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔