رفتار اور وزن میں اضافہ

اس باب کے عنوان کو دیکھ کر شاید مراد صاحب کو غصہ آجائے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ حرکت کرنے یا دوڑنے سے وزن کم ہوتا ہے، مگر بڑھتا نہیں ہے.. تو پھر یہ غیر منطقی بات چہ معنی دارد؟

یہ درست ہے کہ جانداروں میں حرکت کے لیے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے، اور توانائی کے لیے ایندھن کی، اور ہمارا ایندھن شوگر اور فیٹس وغیرہ میں مضمر ہے، جو جل کر مطلوبہ کام میں صرف ہوجاتا ہے، اس لیے جسم کا وزن کم ہوجاتا ہے، جب تک کہ صاحبِ جسم نیا ایندھن خوراک کی شکل میں نہ لے.

لیکن اضافیت کی وہ مساوات جو اس باب کے عنوان کی بات کہتی ہے، اس کا جسمانی ورزش یا جانداروں کی حرکت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، ہمارا موضوع اس سے کہیں زیادہ گہرا ہے.. کوئی چیز جتنی تیزی سے حرکت کرے گی اس کی کمیت اتنی زیادہ ہوگی.

یہاں مراد اعتراض کرتے ہوئے کہہ سکتا ہے کہ: کیا یہاں دو باتوں میں تضاد نہیں ہے؟ .. آپ نے پہلے کہا کہ کوئی چیز جتنی زیادہ تیزی سے حرکت کرے گی اتنی زیادہ سمٹے گی اور جب وہ روشنی کی رفتار کو پہنچے گی تو غائب ہوجائے گی.. اب پھر ایک اور مساوات آکر یہ کہہ رہی ہے کہ: کوئی شئے جتنی زیادہ تیزی سے حرکت کرے گی اتنی ہی اس کی کمیت بڑھ جائے گی.. شاید اب یہ مساوات یہ بھی کہے گی کہ کسی چیز کی کمیت روشنی کی رفتار کے قریب پہنچنے تک بہت زیادہ بڑھ جائے گی، اور شاید روشنی کی رفتار تک پہنچنے تک اس کی کمیت لا متناہی ہوجائے.

بالکل مراد.. مساوات بالکل یہی کہتی ہے، مگر شاید آپ ایسا سمجھ نہ پائیں.. یہ کس طرح ممکن ہے کہ کوئی شئے روشنی کی رفتار تک پہنچتے پہنچتے سکڑ سکڑ کر غائب ہونے تک آجائے، اور پھر اسی وقت اس کی کمیت بھی بڑھ کر لا متناہی ہوجائے.. یعنی کائنات میں موجود تمام مادے سے کئی گنا زیادہ؟

یہ درست ہے کہ بظاہر اس بات میں ایک پاگل پن جھلکتا ہے، لیکن اسی میں کائنات کا ایک اہم راز پنہاں ہے.. مگر صبر سے کام لیجیے، ہر چیز کا وقت ہوتا ہے!

نیوٹن کے زمانے سے لے کر انیسویں صدی کے آخر تک یہ سمجھا جاتا رہا کہ کسی چیز کی کمیت کبھی تبدیل نہیں ہوتی، چاہے وہ سکون کی حالت میں ہو یا حرکت کی حالت میں، اگر لوہے کی کوئی بال خلاء میں ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر رہی ہو یا ساٹھ ہزار میل فی سیکنڈ، اس کی کمیت زمین پر ساکت حالت کے مقابلے میں تبدیل نہیں ہوگی.. مگر اضافیت نے آکر اس کے برعکس پیشین گوئی کی اور اس ضمن میں سائنسدانوں کے عقیدے کو ہلا کر رکھ دیا.

اس موضوع پر بات کرنے سے پہلے ہم ایک اہم بات واضح کرنا چاہیں گے.. ہم میں سے اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ کسی شئے کی کمیت اس کا وزن ہے، یا اس کا وزن اس کی کمیت کے مساوی ہے.. یہ تصور غلط ہے، کیونکہ سائنسدان کمیت کا تعین میزان سے نہیں کرتے جس طرح ہم اپنی روز مرہ زندگی میں کرتے ہیں (جیسے سبزی تول کر خریدنا)، بلکہ ان کی نظر میں کسی شئے کی کمیت حرکت کے خلاف اس کی مدافعت ہے.. کسی شئے کی کمیت جتنی زیادہ ہوگی، حرکت کے خلاف اس کی مدافعت اتنی ہی زیادہ ہوگی، اور اسے حرکت دینے یا دھکیلنے کے لیے زیادہ توانائی کی ضرورت ہوگی، عام فٹ بال کے حجم کی لوہے کی ایک بال کو دھکیلنے میں جو توانائی صرف ہوگی وہ اس توانائی سے زیادہ ہوگی جو اسی دھات کی بنی ہوئی ٹینس کے حجم کی بال کو دھکیلنے میں صرف ہوگی.

یہاں کوئی کہہ سکتا ہے کہ: بڑی بال چھوٹی بال سے زیادہ وزنی ہے.. یعنی اس کی کمیت زیادہ ہے.. تو فرق کیا ہے؟

وزن کششِ ثقل یا تجاذب کے فرق سے مختلف ہوسکتا ہے، مگر کسی شئے کی کمیت ہمیشہ ایک ہی رہتی ہے، کیونکہ وہ ایک محدود عدد کے ذروں پر مشتمل ہے جو کم یا زیادہ نہیں ہوسکتے.. جبکہ وزن کائنات کے مختلف مقامات میں مختلف ہوسکتا ہے، مگر شرط یہ ہے کہ اس کمیت کو تشکیل دینے والا مادہ ہر حال میں اتنا ہی رہے، اگر کمیت بڑھ جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کوئی دوسری کمیت اس کمیت میں شامل کردی گئی ہے، اور اس کمیت میں ایٹموں کی تعداد بڑھ گئی ہے، لیکن اس سب کی فکر مت کریں، کیونکہ ہم زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتے، چنانچہ تجاوز کرتے ہوئے ہم وزن کو کمیت کے مساوی قرار دے دیتے ہیں.

جب آئن سٹائن میدان میں آیا تو اس نے دیکھا کہ نیوٹن کے زمانے سے لے کر اس کے زمانے تک سائنسدانوں میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ جتنا ہم کسی شئے پر دھکیلنے کی قوت میں اضافہ کریں گے وہ اتنی ہی زیادہ تیز حرکت کرے گی اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ وہ روشنی کی رفتار سے حرکت کرنے لگے گی، اور تب بھی اس کی کمیت تبدیل نہیں ہوگی.

آئن سٹائن اپنی مساوات کی وساطت سے کہتا ہے کہ: نہیں.. دونوں نظریے غلط ہیں، نا کمیت اپنے حال پر رہے گی، اور نا ہی وہ شئے روشنی کی رفتار سے حرکت کر سکے گی.

تو ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟

اضافیت کی ایک مساوات نے کمیت اور حرکت کے تعلق کو واضح کیا ہے، اسے سمجھنے کے لیے ہم کچھ مثالیں دیتے ہیں.

اگر ہم خلاء میں سو کلو گرام کمیت کا مادہ سات میل فی سیکنڈ کی رفتار (زمین کے تجاذب سے بھاگ نکلنے کے لیے لازمی رفتار، خلاء میں راکٹ اسی رفتار سے چھوڑے جاتے ہیں) سے چھوڑیں تو اضافیت کی مساوات ہمیں یہ بتاتی ہے کہ یہ کمیت گرام کے دس ہزارویں حصے کے تین حصوں کے برابر بڑھ گئی ہے.. یا آواز کی رفتار سے اڑنے والے جنگی جہاز کی کمیت گرام کے ایک لاکھویں حصے کے ایک حصے کے برابر بڑھ گئی ہے! .. یہ اضافے اتنے کم ہیں کہ ہم انہیں نہیں ناپ سکتے.

لیکن جب مادہ روشنی کی رفتار کے قریب پہنچتا ہے تب معاملہ مختلف ہوتا ہے.. شبانہ کی ہی حالت لے لیں جو روشنی کی نوے فیصد 90% رفتار سے سفر کر رہی ہے.. تو اگر زمین پر اس کی کمیت 65 کلو گرام تھی، تو اس رفتار میں سفر کرنے کی وجہ سے ہمیں اس کی کمیت دگنی لگے گی (یعنی 130 کلو گرام ہوجائے گی)، مگر شبانہ کو اپنے آپ میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی کیونکہ وہ اپنے آپ کی نسبت حرکت نہیں کر رہی ہے، اس کے علاوہ اگر وہ اپنا ہینڈ بیگ اٹھا لے تو وہ اسے بھاری نہیں لگے گا جیسا کہ وہ ہمیں زمین پر نظر آتا ہے.. اس کے ماحول میں ہر چیز انتہائی منطقی لگ رہی ہے، بالکل جیسے وہ زمین پر رہ رہی ہو.. مگر روشنی کی نوے فیصد رفتار سے سفر کرتی ہم سے دور جاتی ہوئی شبانہ ہمیں زمین سے ایسی نہیں لگتی.. اس کے ہاں ہر چیز کی کمیت بڑھ گئی ہے.

یہاں کوئی سوال کر سکتا ہے کہ: اگر کمیت محدود تعداد کے ذروں یا ایٹمز پر مشتمل ہے تو کمیت میں یہ اضافہ کہاں سے آگیا؟

جواب یہ ہے کہ: کوئی بھی ساکن کمیت اپنے آپ حرکت نہیں کر سکتی.. آپ کو راستے میں پڑا ہوا پتھر نظر آتا ہے، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ لوگوں کو راستہ دینے کے لیے پتھر خود ہٹ گیا ہو.. آپ کو اسے اپنے پیر سے مارنا ہوگا، اس پر دھکیلنے کی قوت یا توانائی سے اثر انداز ہونا ہوگا، یہ قوت خرچ کی گئی توانائی ہے.. اور کمیت جتنی زیادہ ہوگی، اسے زیادہ توانائی کی ضرورت ہوگی، اس کے علاوہ رفتار کا اضافہ دھکیلنے کی مزید توانائیوں کی پیشین گوئی کرتا ہے.. اگر آپ کسی شئے کو تیز سے تیز تر دوڑنے کے لیے دھکیلیں، تو اس کے لیے لازم ہے کہ توانائی میں مسلسل اضافہ کیا جاتا رہے.. اور جب وہ شئے روشنی کی رفتار کے قریب پہنچے گی، تو اس کی کمیت بہت زیادہ بڑھ جائے گی، یعنی وہ دگنی سے تگنی پھر سینکڑوں، لاکھوں اور پھر کروڑوں گنا بڑھ جائے گی، اور جب وہ روشنی کی رفتار تک (فرض کرتے ہوئے) پہنچے گی تب تک اس کی کمیت لا متناہی ہوجائے گی، یعنی کائنات میں موجود تمام مادے سے زیادہ.. اور اس لا متناہی کمیت کو دھکیلنے کے لیے ہمیں لا متناہی توانائی کی ضرورت ہوگی، یعنی کائنات میں مجود تمام توانائیوں کا کئی گنا.. چنانچہ اگر آپ ریت کے ایک ذرے کو روشنی کی رفتار سے دوڑانا چاہتے ہیں تو آپ کو اتنی زیادہ توانائی کے حصول کا کوئی طریقہ بتانا ہوگا جو کہ یقیناً نا ممکن ہے.. مساواتوں کی زبان یہی کہتی ہے.

حتمی نتیجہ یہ ہے کہ ہم کبھی لا متناہی کمیت حاصل نہیں کر سکیں گے، کیونکہ ہم کبھی لا متناہی توانائی حاصل نہیں کر سکتے.. اور نا ہی کسی چیز کا نا چیز کی طرف سمٹاؤ.. کیونکہ ہم کسی بھی کمیت کو چاہے وہ کتنی ہی کم کیوں نہ ہو روشنی کی رفتار سے نہیں دھکیل سکتے.

ساکن (ظاہری) ماحول کی نسبت روشنی کی رفتار کے قریب سفر کرنے والے مادے کی کمیت میں اضافہ حرکت کا نتیجہ ہے، اور حرکت توانائی کی مختلف اشکال کی ایک شکل ہے، کمیت کو دھیکلنے والی اس عظیم توانائی نے ہی کمیت میں یہ اضافہ کیا ہے.. گویا توانائی کمیت کی صورت میں مجسم ہوکر اصل کمیت میں شامل ہوگئی ہو.. اس کا سیدھا سا مطلب یہ بھی ہے کہ کمیت توانائی ہے، اور توانائی کمیت ہے.. جیسے ہم کہہ رہے ہوں کہ "روح" مادے کی شکل میں مجسم ہوگئی ہو، مگر روح نا تو مادہ ہے اور نا ہی کمیت، اور نا ہی لوگوں کو دکھانے کے لیے اسے پکڑ کر پنجرے میں بند کیا جاسکتا ہے.. کیونکہ روح توانائی ہے، روشنی توانائی ہے، اور حرارت بھی توانائی ہے، آپ بارش کے پانی کی طرح روشنی کو کسی برتن میں جمع نہیں کر سکتے، نا ہی آپ فکری توانائی کا سامان کی طرح وزن کر سکتے ہیں، اور نا ہی حرکت کی اس توانائی کو جس سے ہم ساری زندگی حرکت کرتے ہیں رقم کی طرح بینک میں جمع کروا سکتے ہیں.. اور نا ہی حرارت کو سردیوں کے موسم میں سینکنے کے لیے محفوظ کیا جاسکتا ہے.

توانائی کی صورت کوئی بھی ہو اسے چھوا نہیں جاسکتا، صرف محسوس کیا جاسکتا ہے.. مثلاً ہم حرارت کی توانائی کو محسوس کرتے ہیں مگر وہ مجسم نہیں ہوسکتی، ہم آنکھوں کے ذریعے روشنی کی توانائی کو محسوس کرتے ہیں مگر وہ جمع نہیں کی جاسکتی.. تو پھر آخر میں دھکیلنے کی توانائی مجسم ہوکر کمیت بن جائے اس پر ہم کیسے یقین کر لیں؟.

اس کے باوجود مساوات بالکل یہی بات کہتی ہے.. تو کیا "دل کے خوش رکھنے کو" اس پیشین گوئی کی کوئی دلیل ہے؟

ایک سے زیادہ دلیل ہے.. سب سے پہلی یہ کہ وہ ایٹم جو ایٹمی ری ایکٹروں میں روشنی کی رفتار کے قریب دوڑتے ہیں ان کی کمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے.. ایٹمی سائنس دان اس حقیقت کا روز ہی سامنا کرتے ہیں، بلکہ ان کے لیے لازم ہے کہ وہ ان ایٹموں کی کمیت کے اضافے کا حساب لگانے کے لیے آئن سٹائن کی اس مساوات کا سہارا لیں تاکہ اس کی بنیاد پر ایٹمی ری ایکٹر بنائے جا سکیں، اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان کا انجام قاہرہ کے نبی العلاء پل بنانے والے انجینئر سے زیادہ مختلف نہیں ہوگا جس نے پل کے ڈیزائن میں درجہ حرارت سے پیدا ہونے والے سمٹاؤ اور پھیلاؤ کو مدِ نظر نہیں رکھا تھا. (کہا جاتا ہے کہ اس انجینئر نے خودکشی کر لی تھی، کیونکہ پل اس قاتلانہ غلطی کی وجہ سے ابھی تک ٹریفک کے لیے نہیں کھولا گیا، تاہم اس سنی سنائی کہانی کا مجھے کوئی با قاعدہ ثبوت نہیں ملا).

سائنسدانوں نے پایا ہے کہ پروٹون جب ایٹمی ری ایکٹروں میں 177 ہزار میل فی سیکنڈ (روشنی کی 95% رفتار) کی رفتار سے حرکت کرتے ہیں تو ان کی کمیت تین گنا بڑھ جاتی ہے! .. اس کے علاوہ سائنسدان الکٹرونوں کو روشنی کی رفتار کے قریب تیز کرنے میں کامیاب رہے جس سے ہر الیکٹرون کی کمیت 900 گنا بڑھ گئی!..

چنانچہ مساوات کی پیشین گوئی کی درستگی کا پہلا ثبوت ہمیں ایٹموں کی سطح پر ملا، ہم اور ثبوت بھی حاصل کر سکتے تھے، اگر ہم کسی پتھر، کار، ٹرین، یا راکٹ کی رفتار کو روشنی کی رفتار کے قریب لا سکتے، مگر آپ جانتے ہیں کہ حرکت کرتی کسی شئے کی کمیت جتنی بڑھے گی، اسے اتنی ہی توانائی کی ضرورت پڑے گی، چونکہ پروٹون کی کمیت گرام کے ایک لاکھ ملین ملین ملین حصے کے ایک حصے کے برابر ہے، چنانچہ اسے دھکیلنے کے لیے درکار توانائی ایٹمی ری ایکٹروں کی حد میں آتی ہے (روشنی کی رفتار میں نہیں بلکہ روشنی کی رفتار کے قریب) .. مگر ریت کا ایک ذرہ پروٹون سے کئی بلین بلین گنا بڑا ہے.. تو پھر کسی گاڑی یا راکٹ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

نظریہ اضافیت کی مساواتوں کی درستگی کا سب سے بڑا ثبوت آئن سٹائن کی شہرہ آفاق مساوات E = mc² (جہاں E توانائی m کمیت اور c روشنی کی رفتار کے لیے) ہے.. اس مساوات نے اس کائنات کے بہت سے راز افشاء کیے ہیں جس میں ہم رہتے ہیں.. اگرچہ ہم نے اس کے رموز مختصراً بیان کیے ہیں مگر یہ شاید ہمارے لیے کوئی معنی نہ رکھے، مگر ریاضی کے عجائبات سے با خبر لوگوں کے لیے اس میں بہت کچھ پنہاں ہے، بعض لوگ اس چھوٹی سی مساوات کو ایک ایسی پہیلی قرار دیتے ہیں جسے لاگو نہیں کیا جاسکتا.. مساوات میں تین محدود چیزیں ہیں: روشنی کی رفتار، توانائی اور کمیت (یا مادہ) .. اور یہ ایک عجیب ریاضیاتی جوڑ ہے.. کہ جب ہم توانائی اور مادے کی بات کر رہے ہیں تو پھر اس میں روشنی کی رفتار کا کیا عمل دخل ہے؟ .. شاید روشنی کی رفتار ہی وہ گمشدہ کڑی ہے جو توانائی اور مادے کو ایک ساتھ جوڑتی ہے، مگر یہ سب کیوں اور کیسے ہوا اس کا جواب شاید کسی کے پاس نہیں، ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ مساواتوں کی یہی زبان ہی ہمیں وہ راستہ دکھاتی ہے جس کی بنیاد پر ساری کائنات کھڑی ہے.

اس مساوات کے ذریعے ہم کسی بھی قسم کے ایک کلو گرام مادے کی توانائی کی مقدار معلوم کر سکتے ہیں چاہے وہ مادہ پتھر ہو، لوہا ہو، گوشت ہو یا کوئی مائع.. نتیجہ یہ ہے کہ کسی بھی قسم کے ایک کلو گرام مادے کی توانائی نو سو ہزار بلین بلین توانائی یونٹ ہے، اس عدد کو اگر ہم اپنی روز مرہ زندگی میں محسوس کرنا چاہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی بھی قسم کے مادے کا ایک کلو گرام اگر مکمل طور پر فنا ہوجائے اور اپنی مادی حالت کو چھوڑ کر موجی (موج یا لہر) حالت میں آجائے تو اس سے جو توانائی برآمد ہوگی وہ کچھ یوں ہوگی:

- یہ توانائی 22 ہزار ملین ٹن دھماکے دار مادے T.N.T کے برابر ہوگی!

- اس توانائی سے آپ اپنی گاڑی (بشرطیکہ آپ کے پاس ہو) پر دنیا کا چار لاکھ مرتبہ چکر لگا سکتے ہیں.. یعنی اگر آپ بغیر رکے 80 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتے رہیں تو 20 ہزار سال میں آپ 16 ہزار ملین کلو میٹر طے کریں گے.. اللہ آپ کی اور آپ کی گاڑی کی عمر دراز کرے!

اس فہرست میں اور بہت سی شماریات شامل کی جاسکتی ہیں جن سے مادے میں چھپی بے پناہ توانائی کا اندازہ ہوتا ہے.. مگر کیا کبھی ہم ان توانائیوں کو آزاد کر سکیں گے؟

یہاں وہ بحث پیش کرنی بے جا نہ ہوگی جو آئن سٹائن اور اس کی مذکورہ مساوات کا مذاق اڑانے والے کچھ لوگوں کے درمیان ہوئی تھی، ایک صاحب نے کہا: آپ دعوی کرتے کہ مٹھی بھر کوئلے میں جو توانائی ہے وہ تمام جرمن فوجیوں کے ہتھیاروں سے زیادہ ہے.. اگر یہ درست ہوتا - جیسا کہ آپ اپنی مساوات کے ذریعے دعوی کر رہے ہیں - تو پھر ہم اسے نوٹ (محسوس) کیوں نہیں کرتے؟

آئن سٹائن جواب دیتے ہیں: اگر کسی امیر آدمی کی تمام دولت کہیں دفن ہو اور کسی نے اسے ایک مارک بھی کبھی صرف کرتے نہ دیکھا ہو تو اس صورت میں کوئی بھی اس دولت کا اندازہ یا تخمینہ نہیں لگا سکے گا، یہی صورت مادے کی ہے.. جب تک وہ اپنی توانائی آزاد نہیں کرتی، تب تک اسے نوٹ یا محسوس نہیں کیا جاسکے گا.

ایک دوسرا سوال کرتا ہے: تو اس توانائی کو آزاد کرنے کے لیے آپ کیا مشورہ دیتے ہیں؟

آئن سٹائن: اسے آزاد کرنے کے امکانات کی میرے پاس کوئی دلیل یا تصور نہیں ہے.

ایک اور سوال: کیا اپنی لیبارٹری میں تجربات کے دوران آپ پہلے بھی کبھی مادے اور توانائی کے حوالے سے اس مساوات کے نتیجے پر پہنچے؟

تب حاضرین حیران رہ گئے جب انہوں نے کہا: میں کبھی لیبارٹری میں نہیں گیا، اور نا ہی کبھی کوئی ایک تجربہ ہی کیا ہے.. علمِ طبیعات دراصل ایک نظریاتی نظام کے علاوہ کچھ نہیں جو ہمیشہ ترقی اور ارتقاء کی حالت میں رہتا ہے، اور اس کی ترقی کا انحصار آزاد دریافتوں پر ہے.. چنانچہ مجھے اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ میں درست ہوں!

یہ مساوات ہمیں بتاتی ہے کہ کائنات میں قدرت کا کوئی سربستہ راز چھپا ہوا ہے اور ہمیں مادے اور توانائی کے حوالے سے اپنے مفہوم پر نظرِ ثانی کرنی ہوگی.. ایک عام عقیدہ یہ تھا کہ کائنات میں دو ہی بنیادی عناصر ہیں، مادہ اور توانائی.. مادہ ایک جامد اور محسوس چیز ہے اور کمیت کی تمام تر خوبیوں کا حامل ہے جسے ہم سب جانتے ہیں، مگر توانائی اس کے برعکس ہے.. یہ آزاد ہے اور نظر نہیں آتی مگر موجوں کی صورت میں سفر کرتی ہے اور اس کی کمیت نہیں ہے.

جبکہ مساوات کہتی ہے کہ: مادہ اور توانائی ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں.. جب مادہ فنا ہوتا ہے تو توانائی نمودار ہوجاتی ہے، اور اگر توانائی "مجسم" ہوجائے تو مادہ نمودار ہوجاتا ہے، گویا جو مادہ ہمیں اور ساری کائنات کو تشکیل دیتا ہے وہ جسیموں میں مقید کثیف توانائی ہے.. اور جسیمے ذرات تشکیل دیتے ہیں، اور ذرے مادہ.. مختصراً یہ کہ مادہ توانائی ہے، اور توانائی مادہ ہے، ان دونوں میں تفریق ایک وقتی حالت ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی طرف ہی لے جاتے ہیں.. یہ کوئی مشکل مساوات نہیں ہے، اس کا دایاں، بائیں کے مساوی ہے.. ایک طرف تونائی ہے، اور دوسری طرف مادہ، گویا قدرت ہمارے ساتھ لکا چھپی کھیل رہی ہو یا ہمیں مرغی اور انڈے کی پہیلی پیش کر رہی ہو.. پہلے کیا آیا تھا: انڈا یا مرغی؟ .. پہلے کیا نمودار ہوا: مادہ یا توانائی؟ .. پہلے سوال میں کچھ بے وقوفی جھلکتی ہے، اور دوسرے میں حقیقت کی تلاش جسے جب بھی انسان نے یہ سمجھا کہ وہ اس کے قریب پہنچ گیا ہے وہ سراب بن کر دھوکہ دے جاتی ہے، یا مختلف پیچیدہ شکلوں میں ظہور پذیر ہوکر اپنے پیچھے کائنات کی واحد مساوات چھپا دیتی ہے.

E = mc² صرف تین حروف جن کے جب راز کھلے تو جنت اور جہنم کے دروازے ایک ساتھ کھل گئے.. تعمیر اور تخریب، شر اور تباہی.. ہمارا انتخاب کیا ہوگا؟ .. اس کا انحصار انسان کی حکمت پر ہے.

ان تین حروف نے دوسری عالمی جنگ کا خاتمہ کیا، اور انہی سے جاپان کی عظیم قوم کے صبر کا امتحان لیا گیا، اس کے دو شہر نیست ونابود کردیے گئے اور اس نے خاموشی سے شکست تسلیم کر لی.

اس مساوات کے نمودار ہونے کے چالیس سال بعد انسان مادے کو توانائی کی صورت میں آزاد کر سکا، اس نے ذرے کا دل چیرا اور مادے کا بہت کم حصہ غائب ہوکر ایسی تباہ کن توانائی کی شکل میں سامنے آیا کہ جس کی تاریخ میں کہیں کوئی مثال نہیں ملتی، انسانیت ششدر رہ گئی.. ایٹمی بھوت آج بھی ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے کہ مغرب اور مشرق نے ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ لگا رکھی ہے، اگر ان ہتھیاروں کی توانائیاں غلطی سے بھی آزاد ہوگئیں تو کرہ ارض کے ہر انسان کے حصے میں 15 ٹن T.N.T شدید دھماکے دار مادہ آئے گا.. مگر اچھی بات یہ ہے کہ یہ ابھی تک قید ہے اور دعا کریں کہ یہ قید ہی رہے.

انسانیت کی بھلائی اسی میں ہے کہ مادے سے آزاد کی گئی توانائی کا استعمال انسانیت کی بھلائی اور اس کی ترقی کے لیے کیا جائے.

ازل سے جو روشنی کائنات کو منور کیے ہوئے ہے وہ کھربوں ستاروں کے بطن سے نکلتی ہے جو دراصل مادے کی توانائی میں تبدیلی کی وجہ سے ہی ہے.. ہمارا سورج جو اپنے گرد بے پناہ مقدار میں روشنی، حرارت اور شعاعیں پھیلا رہا ہے وہ اس عام ایندھن سے نہیں چلتا جو ہم استعمال کرتے ہیں، اگر ایسا ہوتا تو وہ کب کا بجھ چکا ہوتا، وہ اسی مساوات کی بنیاد پر ہی چلتا ہے.. مادے کا کچھ حصہ غائب ہوتا ہے جس کے نتیجے میں بے پناہ توانائیاں نمودار ہوتی ہیں جو کروڑوں سال اسی طرح چلتی رہیں گی.

مادے کی توانائی میں تبدیلی کی یہ ایک چھوٹی سی تصویر تھی جو مساوات کی درستگی کا ثبوت ہے.. مگر، کیا اس کے برعکس ہونے کی کوئی دلیل ہے.. یعنی توانائی کو مادے کی صورت میں مجسم کرنا؟

ایک سے زیادہ دلیل ہے.. ایٹمی ری ایکٹروں میں سائنسدان دن رات مادے کے ایسے جسیموں یا پارٹیکلز کے ساتھ وقت گزارتے ہیں جو روشنی کی رفتار کے قریب چھوٹتے ہیں، اور اگر اچانک کسی ہدف سے ٹکرا کر رک جائیں تو اپنی جس توانائی سے وہ دوڑ رہے ہوتے ہیں فنا یا ضائع نہیں ہوتی، بلکہ پارٹیکل اور اینٹی پارٹیکلز کی شکل میں نمودار ہوتے ہیں، مگر.. یہ اینٹی پارٹیکل کا کیا مطلب ہے؟

دراصل یہ ایک طویل موضوع ہے جس کی یہاں گنجائش نہیں، مختصراً یہ کہ سائنسدانوں نے مادے کے ہر پارٹیکل کا جو ہماری کائنات تشکیل دیتے ہیں رد یا اینٹی پارٹیکل دریافت کیا ہے، دونوں ہی توانائی کی ایک معینہ مقدار سے ظہور پذیر ہوتے ہیں جن کا حساب اسی مساوات (E = mc²) سے کیا جاسکتا ہے.. تاہم یہ رد جسیمے ہماری دنیا کے جسیموں کے ساتھ ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتے بالکل جس طرح برف جہنم میں گزارہ نہیں کر سکتی، یہ رد جسیمہ جیسے ہی ظاہر ہوتا ہے اپنے متضاد جسیمے سے اس کا ٹکرانا حتمی ہوتا ہے جس کی وجہ سے دونوں ہی ایک دوسرے کو مکمل فنا کردیتے ہیں، اور اپنی مجسم (مادی) حالت کو چھوڑ کر موجی حالت میں آجاتے ہیں.. یعنی توانائی بن کر کائنات میں روشنی کی رفتار سے نکل کھڑے ہوتے ہیں.. اس میں مساوات کی درستگی کا کھلا ثبوت ہے جسے لوگ پاگل پن یا ایک ایسی پہیلی قرار دیتے رہے جس کا کوئی مطلب نہیں ہے!