روشنی سے تیز تر - Dr. Michio Kaku

مجالس:

(Dr. Michio Kaku کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ آپ کا تعلق امریکہ سے ہے اور آپ مبصر، ادیب، اینکر، نظری طبیعات دان ہیں۔ بی بی سی، ڈسکوری، ہسٹری چینل سمیت متعدد ٹیلی ویژن اور ریڈیو سے وابستہ اداروں کے لئے پروگرامز ترتیب دے چکے ہیں۔ آپ متعدد مشہور و معروف سائنسی کتب کے مصنف ہیں۔

آپ کی کتاب  Physics of the Impossible   کا ترجمہ کرنے کی دل نے ٹھانی تو ہےمگر دیکھتے ہیں یہ دھن کب تک سوار رہتی ہے۔ خیر اس سلسلے کی پہلی قسط مذکورہ کتاب کے باب نمبر 11 کے پہلے حصہ سے ترجمہ کی گئی ہے۔ امید ہے طبعِ نازک پہ ہرگز گراں نہ گزرے گی۔ دعاؤں کی درخواست ہے کہ طبیعت اب اس جانب مائل رہے۔)

 

روشنی سے زیادہ رفتار

          سٹار وارز (Star Wars) میں میلینئم فالکن (Millennium Falcon) صحرائی سیارے Tatooine کو تباہ کر دیتا ہے اور پھر ہمارے ہیروز لیوک سکائی واکر (Luke Skywalker) اور ہان سولو (Han Solo) کو لے کے سیارے کے گرد چکر لگاتے خوفناک امپیریل جنگی جہازوں کے بیڑے سے ٹکرا جاتا ہے۔ ایمپائر کے جنگی جہاز ہمارے ہیروز کے جہاز پہ لیزر حملہ کرتے ہیں، جو میلینئم فالکن کے ریڈیائی لہروں کے حصار میں شگاف ڈال دیتی ہے۔ میلینئم فالکن کا فوجی حصار ختم ہو جاتا ہے۔ اسی دوران ہان سولو چیخ اٹھتا ہے کہ اب اُن کی واحد امید یہی ہے کہ وہ ہائپر سپیس (hyperspace) میں چھلانگ لگا دیں۔ عین آخری لمحات میں، ہائپر ڈرائیو کے انجن میں زندگی کی لہر دوڑتی ہے اور ان کے آس پاس موجود تمام ستاروں کی در انفجاری (implode) مرکز کی طرف بڑھ جانے سے ایک سوراخ نمودار ہوتاہے اور میلینئم فالکن اس سوراخ سے گزر کر ہائپر سپیس میں داخل ہو جاتا ہے، جہاں آزادی اُس کی منتظر ہے۔

          کیا یہ سائنسی کہانی ہے؟ بلاشبہ۔ لیکن کیا اِس کی بنیاد سائنسی حقائق پہ ہے؟ ہو سکتا ہے۔ روشنی سے زیادہ رفتار سے سفر کرنا ہمیشہ سے سائنسی کہانیوں کا مرکز و محور رہا ہے لیکن حال میں طبیعات دانوں نے اس کے ممکنات پہ سنجیدگی سے سوچنا شروع کیا ہے۔

          آئن سٹائن کے مطابق کائنات میں روشنی کی رفتار مطلق اور حتمی رفتار ہے۔ ہماری اس لا محدود کائنات میں کوئی  بھی شے روشنی کی رفتار سے زیادہ تو کجا، روشنی کی رفتار سے بھی سفر نہیں کر سکتی۔ حتیٰ کہ ہمارے مہلک ترین اور جدید ترین ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم اتنی توانائی پیدا کر سکتے کہ وہ صرف پھٹتے ہوئے ستاروں کے مرکز میں ہی موجود ہو سکتی ہے، مگر توانائی کی یہ مقدار بھی سب ایٹمک پارٹیکلز کو روشنی سے زیادہ رفتار مہیا نہیں کر سکتی۔ظاہراً ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کائنات میں روشنی کی رفتار ہی سب سے زیادہ اور مطلق ہے لیکن اگر ایسا ہے تو پھر کائنات کے بیش بہا رموز و اسرار سے پردہ اٹھانے اور دور دراز کہکشاؤں تک ہمارا سفر کرنے کا عزم دیوانے کے خواب سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔

یا شاید ایسا نہیں ہے۔۔۔

 

ناکام آئن سٹائن

          1902ءمیں کوئی بھی یہ بات وثوق سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ ایک نو عمر ماہرِ طبیعات البرٹ آئن سٹائن کو ماضی کے ایک عظیم ماہرِ طبیعات سر آئزک نیوٹن کے بعد عظیم ترین تصور کیا جائے گا۔ دراصل، 1902 کا سال آئن سٹائن کی زندگی میں سب سے بڑا نقطۂ زوال تھا۔ طبیعات میں Ph.D کی ڈگری ہونے کے باوجود آئن سٹائن کو تدریسی ملازمت کے لئے یونی ورسٹی انتظامیہ نے مسترد کر دیا (بعد میں آئن سٹائن کو علم ہوا کہ یہ سب اُن کے پروفیسر Heinrich Weber کے باعث ہوا۔ انہوں نے یونیورسٹی انتظامیہ کو آئن سٹائن کے متعلق خوفناک خطوط لکھے تھے اور یہ سب آئن سٹائن سے بدلہ لینے کے لئے کیا گیا)۔ اسی سال آئن سٹائن کی کو اپنی پہلی بیوی Mileva Marie کے سلسلے میں اپنی والدہ کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ حقیقتاً یہ ایک ناجائز رشتہ تھا اور آئن سٹائن کی پہلی بیٹی Lieserl ناجائز اولاد تھی۔ آئن سٹائن کو اپنی ملازمت کے سلسلے میں بھی بہت سی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

          اپنے دلگیر خطوط میں آئن سٹائن نے زندگی گزارنے کے لئے ایک سیلز مین بننے پہ بھی غور کیا۔ حتیٰ کہ اُس نے اپنے خاندان کو لکھا کہ بہتر یہی تھا کہ وہ پیدا ہی نہ ہوا ہوتا۔وہ اپنے خاندان پہ ایک بوجھ ہے اور اُس نے آج تک زندگی میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کی۔ جب اُس کے والد کا انتقال ہوا تو آئن سٹائن کو یہ سوچ کے سخت شرمندگی ہوئی کہ اُس کے باپ کا انتقال یہ سوچ سوچ کہ ہوا کہ آئن سٹائن "مکمل ناکامی" کا دوسرا نام ہے۔

          لیکن پھر اسی سال کے آخر میں آئن سٹائن کی قسمت نے پلٹا کھایا اور آئن سٹائن کے مقدر کا ستارا آسمانِ ہنر پہ اپنی پوری آب و تاب سے چمکنا شروع ہوا۔ ایک دوست کے توسط سے Swiss Patent Office میں کلرک کی ملازمت ملی۔ اسی ملازمت کے دوران آئن سٹائن نے ماڈرن فزکس میں ایک انقلاب برپا کیا۔ آئن سٹائن رجسٹر ہونے کے لئے آنے والے ماڈلز کا معائنہ کرتا اور فرصت کے اوقات میں فزکس کے ان سوالات پہ غور کرتا کہ جو بچپن سے ہی اُسے الجھائے رکھتے تھے۔

          آخر آئن سٹائن کی اس غیر معمولی ذہانت کا سبب کیا تھا؟ شاید اس کی ایک وجہ یہ رہی ہو گی کہ آئن سٹائن شروع سے ہی چیزوں کو طبیعاتی نقطۂ نظر سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتا تھا نہ کہ ریاضیاتی مساواتوں سے۔ آئن سٹائن نے ایک دفعہ کہا تھا کہ کوئی نظریہ اُس وقت تک بے معنی و بے فائدہ ہے، جب تک آپ اُسے ایک بچے کو نہیں سمجھا سکتے۔ یعنی کہ کسی بھی نظریہ کی اصل اُس کی طبیعاتی شبیہ میں چھپی ہوتی ہے۔ بہت سے ماہرِ طبیعات ریاضیاتی مساواتوں کے گھنے جنگل میں راستہ تلاشتے رہے لیکن بے سود۔ لیکن آئن سٹائن نے نیوٹن کی طرح آغاز چیزوں اور مظاہر  کے طبیعاتی مطالب ڈھونڈنے سے کیا اور جب اس وہ اس میں کامیاب ہوئے پھر اس کی باقاعدہ ترتیب کے لئے ریاضیاتی مساوات کا سہارا لیا۔

          سیب کو زمین پہ گرانے اور چاند کو اپنے مدار میں حرکت پہ مجبور کرنے والی قوتیں ایک جیسی ہیں؟ جب نیوٹن نے فیصلہ کیا کہ یقیناً ایسا ہی ہے، پھر اُس نے ریاضیاتی مساواتوں کا سہارا لیا، جنہوں نے کائنات کے بہت سے رموز کو آشکار کرنے کے ساتھ ساتھ اجرامِ فلکی کے متعلق بھی نہ حل ہونے والے بہت سے سوالات کے جوابات دیے۔

 

آئن سٹائن اور اضافیت

          1905میں آئن سٹائن نے اپنی مشہور و معروف Special Theory of Relativity  پیش کی۔ اس نظریہ کی بنیاد ایک ایسا اچھوتا مشاہدہ ہے کہ جو ایک بچہ بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ آئن سٹائن کا نظریہ دراصل اُس ایک خواب کا نقطۂ عروج تھا، جو وہ اکثر دیکھا کرتا تھا: اگر روشنی سے زیادہ رفتار سے سفر کیا جائے تو کیا ہو گا؟

          آئن سٹائن کو علم تھا کہ Newtonian Mechanics   زمین پہ موجود اجسام کی حرکت سے متعلق اور Maxwell کا نظریہ بنیادی طور پہ روشنی سے متعلق ہے۔ آئن سٹائن کے مطابق طبیعات کے یہ دونوں ستون ایک دوسرے  کے متضاد رویہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ ان میں سے ایک کو گرنا ہی پڑے گا۔

          نیوٹن کے مطابق ہم روشنی سے زیادہ رفتار سے سفر کر سکتے ہیں کیونکہ نیوٹن کے نظریہ میں روشنی کی رفتار کچھ خاص اہمیت نہیں رکھتی۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر آپ روشنی کی ایک کرن کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں تو وہ آپ کو ساکن نظر آنی چاہیے لیکن نوجوان آئن سٹائن نے غور کیا کہ کبھی بھی کسی نے روشنی کی کسی کرن کو ساکن حالت میں نہیں دیکھا بلکہ ہمیشہ متحرک ہی پایا ہے۔ لہٰذاروشنی کی رفتار کے متعلق نیوٹن کا نظریہ کوئی واضح توجیح پیش نہیں کر پاتا۔

          آخر کار زیورچ میں ایک طالب علم کی حیثیت سے میکسویل کے نظریہ کا مطالعہ کرتے ہوئے آئن سٹائن نے جواب ڈھونڈ لیا۔ اُس نے کچھ ایسا تلاش کیا کہ جو شاید میکسویل بھی نہیں جانتا تھا۔ چاہے ہم جتنی  مرضی رفتار سے حرکت کریں، روشنی کی رفتار مستقل رہتی ہے۔ چاہے ہم روشنی کے ساتھ ساتھ سفر کریں یا مخالف سمت میں، یہ ہمیشہ مستقل (خاص مقرر کردہ) رفتار سے سفر کرتی ہے لیکن ہماری فہمِ عامہ (عقلِ سلیم) اسے تسلیم کرنے سے عاری ہے۔

          آخر کار آئن سٹائن نے اس سوال کا جواب پا لیا۔ آئن سٹائن کے مطابق آپ کبھی بھی روشنی کی لہروں کے ساتھ ساتھ سفر نہیں کر سکتے چاہے ہم جتنی مرضی رفتار سے سفر کریں کیونکہ یہ ہمیشہ ہماری نسبت سے ایک مستقل رفتار کے ساتھ سفر کرتی ہے۔

          Newtonian Mechanics ایک سخت مقید نظام ہے: ایک کچے دھاگے کو کھینچنے کی طرح، کہ اگر ہم اس کے افتراضات (assumptions) کو ذرا سا بھی چھیڑیں تو نیوٹنی میکانیات کا تمام نظریہ کھل کر بکھر جائے گا، اس کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ نیوٹن کے نظریے میں پوری کائنات کا وقت یکساں رفتار سے گزرتا ہے۔ زمین کا ایک سیکنڈ، زہرہ یا مریخ کے ایک سیکنڈ کے برابر ہو گا۔ اسی طرح زمین کا ایک میٹر پلوٹو کے ایک میٹر کے برابر ہو گا۔ لیکن اگر روشنی کی رفتار تمام کائنات میں مستقل رہتی ہے تو پھر زمان و مکان کے متعلق طبیعاتی نظریات میں ایک بڑی تبدیلی کی ضرورت پڑتی ہے۔ کائنات میں روشنی کی رفتار کو مستقل رکھنے کے لئے زمان و مکان میں عمیق تبدیلیاں نا گزیر ہیں۔

          آئن سٹائن کے مطابق اگر ہم کسی تیز ررفتار راکٹ میں سفر کر رہے ہوں تو راکٹ کے اندر وقت کے گزرنے کی رفتار کم ہو گی بہ نسبت زمین کے۔ دراصل وقت کے گزرنے کا انحصار اس بات پہ ہے کہ ہم کس رفتار سے حرکت کر رہے ہیں۔ مزید یہ کہ راکٹ کی رفتار کے لحاظ سے راکٹ کے اندر کی جگہ (مکان) سکڑ جاتی ہے جس کی باعث چیزوں کی لمبائی متاثر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ہم ٹیلی سکوپ کے ذریعے دیکھیں تو ہم محسوس کریں گے کہ راکٹ کے اندر گھڑی کی رفتار آہستہ ہے، لوگ آہستہ رفتار سے حرکت کر رہے ہیں اور لوگ چپٹے ہوں گے۔

          حقیقتاً اگر راکٹ روشنی کی رفتار سے سفر کرے تو وقت بظاہر رک جائے گا، راکٹ کی لمبائی صفر ہو جائے گی اور وزن لا متناہی ہو جائے گا۔چونکہ ان میں سے کوئی بھی صورت طبیعی طور پر ممکن نہیں ہے  لہٰذا آئن سٹائن کے مطابق کوئی بھی روشنی سے زیادہ رفتار سے سفر نہیں کر سکتی (کیونکہ کوئی شے جتنی زیادہ رفتار سے حرکت کرے گی، اُس کی کمیت (mass)اتنی ہی زیادہ بڑھتی جائے گی۔ اس کا مطلب کہ حرکت کی توانائی کمیت میں تبدیل ہو رہی ہے اور اسے ہم آئن سٹائن کی مشہورِ زمانہ مساوات  سے معلوم کر سکتے ہیں)۔

          جب سے آئن سٹائن نے اپنی مشہورِ زمانہ مساوات اخذ کی ہے تب سے اب تک لاکھوں تجربات کے ذریعے آئن سٹائن کے انقلابی خیالات و نظریات کی تصدیق ہو چکی ہے۔ مثال کے طور پہ گلوبل پوزیشننگ سےسسٹم (Global Positioning System: GPS) زمین پہ کسی بھی شے کا محل وقوع بتانے کے لئے آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت کا سہارا لیتا ہے (فوج بھی جی پی ایس سسٹم پہ انحصار کرتی ہے حتیٰ کہ پینٹاگون کے جرنلز کو کسی ایسی ایجاد کے بارے میں بتاتے ہوئے ماہرینِ طبیعات بھی آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت کا سہارا لیتے ہیں)۔

          اس نظریے کی بہترین وضاحت ایٹم سمیشرز (Atom Smashers) کے ذریعے دی جا سکتی ہے، جن میں سائنسدان ذرات (Particles)  کو روشنی کے قریب قریب رفتار مہیا کرتے ہیں۔ سرن (CERN) کے Large Hadron Collider Accelerator میں پروٹانز کو قریباً دس کھرب (Trillion) الیکٹران وولٹ انرجی مہیا کی جاتی ہے اور نتیجتاً وہ روشنی کے قریب قریب رفتاریں حاصل کر لیتے ہیں۔

          فی الحال ایک راکٹ سائنٹسٹ کے لئے light barrier  کچھ خاص بڑی رکاوٹ نہیں ہے کیونکہ راکٹس بمشکل دسیوں ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرنے کے قابل ہیں۔ لیکن ایک یا دو صدیوں بعدجب سائنسدان قریبی ستاروں (زمین سے تقریباً 4 نوری سال کے فاصلے) پہ مصنوعی سیارے بھیجنے کے متعلق سنجیدگی سے سوچیں گے، تب یقیناً light barrier ایک بڑا مسئلہ ثابت ہو گا۔

 

آئن سٹائن کے نظریے میں چور دروازے

          کئی دہائیوں تک طبیعات دان آئن سٹائن کے نظریات میں چور راستے تلاش کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ کچھ راستوں کو تلاش کیا بھی گیا، مگر اُن میں سے زیادہ تر کسی کام کے نہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی آسمان کے ایک سرے کی طرف فلیش لائٹ روشن کر کے اسے گھما کر دوسرے سرے پر لے جاتا ہے، تو اصولاً روشنی کی اس کرن کی شبیہ (تصویر، امیج) نے روشنی سے زیادہ رفتار سے سفر کیا۔ چند ہی ثانیوں میں فلیش لائٹ کی شبیہ افق کے ایک پار سے دوسرے پار ایک ایسے نقطے تک سفر کرتی ہے جو ابتدائی نقطے سے نوری سالوں کے پیمانے کے فاصلے پر ہے۔ لیکن اس سب سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اس طریقہ سے روشنی سے زیادہ رفتار پر کسی قسم کی اطلاع (انفارمیشن) کی ترسیل نہیں کی جا سکتی۔ روشنی کی شبیہ روشنی سے زیادہ رفتار ضرور حاصل کر لے گی مگر یہ شبیہ کسی بھی قسم کی توانائی یا معلومات ساتھ لے کر نہیں جا رہی۔

          اسی طرح فرض کرتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک قینچی ہے۔ جتنا ہم قینچی کے اتصالی نقطہ سے دور ہوں گے، قینچی کے دونوں بازو (Blades)اتنی ہی زیادہ رفتار سے ایک دوسرے کو قطع کریں گے۔ اگر ہم تصور کریں کہ قینچی کی لمبائی ایک نوری سال کے برابر ہےتو قینچی کے دونوں بازوؤں کو بند کرتے ہوئے مقامِ انقطاع (Crossing Point)روشنی سے زیادہ رفتار سے حرکت کرے گا۔ (لیکن یہ بھی اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ مقامِ انقطاع کسی بھی قسم کی توانائی اور معلومات رکھنے سے قاصر ہے۔)

          جیسا کہ باب نمبر 4 میں بیان ہو چکا ہے کہ EPR Experiment ہمیں روشنی سے زیادہ رفتار سے معلومات کی ترسیل کی اجازت دیتا ہے۔ (یاد کیجیے گا کہ اس تجربے میں دو الیکٹرانز ہم آہنگی سے مرتعش (vibrate)ہو  رہے ہوتے ہیں اور پھر انہیں مخالف سمتوں میں رفتار دی جاتی ہے۔ چونکہ دونوں الیکٹرانز باہم مربوط ہیں لہٰذا ان کے درمیان معلومات کی ترسیل روشنی سے زیادہ رفتار پر ہو گی، مگر یہ معلومات بے قاعدہ اور بے ترتیب ہو گی لہٰذا ہمارے کسی کام کی نہیں۔ لہٰذا EPR Machines  کو دور دراز ستاروں پہ خلائی جہاز بھیجنے کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔)

          ایک طبیعات دان کے لئے سب سے اہم چور دروازہ خود آئن سٹائن کے توسط سے کھلا۔ آئن سٹائن نے 1915 میں عمومی نظریۂ اضافیت (General Theory of Relativity) پیش کیا۔ یہ ایک ایسا نظریہ تھا کہ جو خصوصی نظریۂ اضافیت (Special Theory of Relativity) سے کہیں زیادہ مؤثر اور کارگر ہے۔ عمومی اضافیت کا بیج اُسی وقت بو دیا گیا تھا، جب آئن سٹائن نے merry-go-round کی فزکس پہ غور کیا تھا۔

          ہم جانتے ہیں کہ چیزیں سکڑتی ہیں، جب وہ روشنی کی رفتار تک رسائی حاصل کرتی ہیں۔ یعنی جتنی ہم تیز حرکت کریں گے، اتنا ہی سکڑتے جائیں گے۔ لیکن گھومتی ہوئی ڈسک (Disk) میں بیرونی محیط (outer circumference)مرکز کی نسبت زیادہ تیزی سے حرکت کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ باہری کنارے (rim) پہ لگا ہوا مسطر (ruler) یقیناً سکڑے گا جبکہ مرکز پہ لگائے گئے مسطر کی حالت میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ merry-go-round کی سطح ہموار یا مسطح (flat) نہیں ہوتی بلکہ خمیدہ (curved) ہوتی ہے۔ Merry-go-round میں زمان و مکان کی خمیدگی دراصل اسراع (acceleration) کے باعث ہوتی ہے۔

          عمومی نظریۂ اضافیت میں زمان و مکان (space-time) کی ساخت کچھ ایسی ہے کہ اسے پھیلایا (stretch)بھی جا سکتا ہے اور سکیڑا (shrink)بھی۔ خاص حالات کے تحت، ہم اسے روشنی سے زیادہ رفتار سے پھیلا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پہ بگ بینگ کا تصور کیجیے، جب 13.7 کھرب سال پہلے کائناتی دھماکے (cosmic explosion) کے نتیجے میں کائنات وجود میں آئی تھی۔اس کا حساب لگایا جا سکتا ہے کہ ابتدا میں کائنات روشنی سے زیادہ رفتار سے پھیلی ہو گی۔(یہ عمل خصوصی نظریۂ اضافیت سے انحراف نہیں کرتا کیونکہ یہ خالی سپیس (empty space) تھی۔ ستاروں کے درمیان موجود سپیس میں وسعت آئی تھی، ستارے بذاتِ خود نہیں پھیلے تھے۔ پھیلتی ہوئی سپیس (expanding space) کسی قسم کی اطلاع نہیں رکھتی ہے۔)

          اہم نکتہ یہ ہے کہ خصوصی نظریۂ اضافیت صرف ہمارے نزدیک موجود کائناتی اجسام پہ ہی لاگو ہوتا ہے۔ ہمارے نظامِ شمسی میں خصوصی نظریۂ اضافیت کی تصدیق مصنوعی سیارچوں کے ذریعے کی جا چکی ہے۔ لیکن  دور دراز کے کائناتی اجسام (مثلاً نظامِ شمسی سے باہر) کے لئے عمومی نظریۂ اضافیت کا سہارا ہی لیا جاتا ہے۔ عمومی اضافیت میں سپیس ٹائم ایک فیبرک (fabric) کی طرح ہے اور اس فیبرک کو روشنی کی بہ نسبت زیادہ پھیلایا جا سکتا ہے۔ یہ ہمیں سپیس میں سوراخوں (holes) کا تصور دیتا ہے، جن کے ذریعے کوئی بھی سپیس اور ٹائم میں آسان اور مختصر راستے اپنا سکتا ہے۔

          ان تمام نکات سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید روشنی سے تیز تر سفر کا ایک طریقہ تو عمومی اضافیت سے استفادہ کرنا ہی ہے۔ ایسے دو طریقے ہیں جن سے یہ ممکن ہو سکتا ہے۔

  1. سپیس کو پھیلانا (Stretching Space): اگر آپ اپنے پیچھے کی سمت سپیس کو پھیلا دیں اور سامنے کی سمت اسے سکیڑ دیں تو آپ محسوس کریں گے کہ آپ نے روشنی سے زیادہ رفتار سے حرکت کی لیکن یہ صرف آپ کا وہم ہو گا۔ دراصل آپ نے تو حرکت ہی نہیں کی۔لیکن چونکہ سپیس یعنی مکان کی ہئیت اور صورت تبدیل ہو چکی ہے، اِس لئے آپ پلک جھپکتے ہی دور دراز ستاروں تک پہنچ جائیں گے۔
  2. سپیس کو چیرنا  (Ripping Space): آئن سٹائن نے ء1935 میں ورم ہول (wormhole) کا تصور پیش کیا۔ ذرا Alice کے Looking Glass (آسانی کے لئے اسے ہم "جامِ جمشید"سمجھ لیتے ہیں) کا تصور کیجیے۔ یہ ایک جادوئی آلہ ہے، جو آکسفورڈ کے مضافاتی و دیہی علاقہ کو ونڈرلینڈ سے ملاتا ہے۔ بالکل اسی طرح ورم ہول بھی دو کائناتوں کو آپس میں ملا سکتا ہے۔ جب ہم گریڈ سکول میں تھے تو ہمیں پڑھایا جاتا تھا کہ دو نقاط کے درمیان کم ترین فاصلہ ایک سیدھی لائن ہوتی ہے۔ لیکن ضروری نہیں کہ یہ بات بالکل درست ہو کیونکہ اگر ہم کسی کاغذ کو اس طرح بَل (curl) دیں کہ دونوں نقاط آپس میں مل جائیں، تب ہم دیکھیں گے کہ دو نقاط کے درمیان کم ترین فاصلہ در اصل ایک ورم ہول ہے۔

          واشنگٹن یونی ورسٹی کے ماہرِ طبیعات میٹ وائیزر (Matt Visser) کہتے ہیں کہ "اضافیت سے منسلک طبیعات دانوں اور سائنسدانوں نے اب یہ سوچنا شروع کر دیا ہے کہ آخر وہ کون سے ضروری لوازمات ہیں، جن کے ذریعے ہم سائنس فکشن کی اقلیم سے وارپ ڈرائیو (warp drive) اور ورم ہول کے تصورات کو حقیقی دنیا کے لئے قابلِ عمل بنا سکیں"۔

          برطانیہ کے شاہی ماہرِ فلیکیات (Royal Astronomer) سر مارٹن ریز (Sir Martin Rees) یہاں تک کہتے ہیں کہ "ورم ہولز، اضافی ابعاد (extra dimensions) اور کوانٹم کمپیوٹرز  ہمارے سامنے ایسے قیاسی منظرنامے کھولتے ہیں کہ جو ہماری تمام کائنات کو ایک جیتی جاگتی (زندہ و تابندہ کائنات)  کون (living cosmos) میں تبدیل کر سکتے ہیں۔"

 

(محمد بلال اعظم (ساہیوال))

ماشاء الله آپ کا ترجمہ کافی رواں اور سہل ہے. کچھ عرصے پہلے میں نے بھی میچو کاکو کی کتاب "Physics of the Impossible" کا ترجمہ کرنا شروع کیا تھا جو الحمدللہ تقریباً مکمل ہوچکا ہے. بہرحال میرا کیا ہوا ترجمہ اتنا شاندار نہیں ہے جتنا آپ نے کیا ہے . میں اب تھوڑا تھوڑا کرکے اس ترجمے کو اردوویب کی محفل میں اور کچھ فیس بک گروپس میں شایع کررہا ہوں.

امید کرتا ہوں کہ آپ جلد ہے اس کام کو پایا تکمیل تک پہنچائیں گے.