چاند پر LCROSS کا خود کش حملہ

مجالس:

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
السلام علیکم۔

آج کی باسی خبر!

جمعہ، 9 اکتوبر 2009ء کو عالمی وقت (UT) کے مطابق دن کے ساڑھے گیارہ بجے (11:30) اور پاکستان کے موجودہ "معیاری" وقت (UT+6:00) کے مطابق ساڑھے پانچ بجے (عصر کی نماز سےکچھ دیر قبل) ناسا کا LCROSS خلائی جہاز چاند کے قطبِ جنوبی کے قریب ایک گہرے گڑھے میں چھلانگ لگا کر خود کو دھماکے سے اڑا لے گا۔
یہ "خود کش حملہ" اس لیے کیا جائے گا کہ چاند کے قطبین پر موجود گڑھوں میں چونکہ سورج کی روشنی نہیں پہنچ پاتی، اس لیے ان گڑھوں کی تہہ کے سرد اور نسبتاً محفوظ علاقے میں پانی کی موجودگی کا کچھ امکان پایا جاتا ہے۔ ساتھ ہی وہاں پائے جانے والے دیگر کیمیائی اجزاء کا بھی علم ہو جائے گا۔

تفصیل کچھ یوں ہے کہ پہلے LCROSS سیٹلائٹ کا بوسٹر راکٹ چاند کے "Cabeus crater" نامی گڑھے میں چھلانگ لگائے گا اور گڑھے کی تہہ سے ٹکرا کر دھماکے سے پھٹ جائے گا۔ اس دھماکے کے نتیجے میں جو گرد و غبار اٹھے گا، وہ محققین کے اندازے کے مطابق تقریباً 10 کلومیٹر کی بلندی تک پہنچے گا، جسے زمین سے بھی 10 انچ یا زیادہ قطر کی دوربین کی مدد سے دیکھا جا سکے گا۔ اس کے کچھ دیر بعد LCROSS سیٹلائٹ بذاتِ خود اس گڑھے کا رخ کرے گا، راستے میں دھماکے کے باعث اٹھنے والے غبار میں موجود اجزاء کا کیمیائی تجزیہ کرے گا، اور خود بھی راکٹ کے قریب کہیں گر کر شہید ہو جائے گا۔
اس کے علاوہ خلا میں اور زمین پر موجود کئی بڑی دوربینوں سے بھی اس غبار پر نظر رکھی جائے گی تاکہ پانی کی موجودگی کی علامات کا پتا لگایا جا سکے۔

اس تمام عمل کے دوران چونکہ پاکستان میں دن کا وقت ہوگا، اس لیے پاکستان میں مقیم فلکیات دان بذاتِ خود تو اس کا براہِ راست مشاہدہ نہیں کر پائیں گے، البتہ آپ ناسا کے ٹی وی چینل پر اس تمام عمل کو دیکھ سکتے ہیں جہاں اس واقعہ کی براہِ راست کوریج عالمی وقت کے مطابق 10:15 بجے (پاکستان کے موجودہ "معیاری" وقت کے مطابق سوا چار بجے) یعنی ٹکراؤ سے تقریباً ایک گھنٹہ قبل ہی شروع ہو جائے گی۔ ساتھ ہی ماہرین کے تبصرے اور بہت کچھ بھی مفت میں ملے گا۔ اب تو خوش ہو جاؤ۔
یہ رہا ناسا ٹیلیویژن کا پتا۔
http://www.nasa.gov/ntv
(اگر کوئی مناسب پراسیسنگ پاور رکھنے والا شخص اس تمام عمل کو دوسروں کے فائدے کے لیے ریکارڈ بھی کر لے تو کیا ہی بات ہے!)

اس عمل کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لیے مناسب علاقے اس نقشے میں بتائے گئے ہیں۔ شمالی امریکہ میں واقع دریائے مسی سپی کے مغرب کی جانب کا علاقہ مناسب ترین بتایا گیا ہے۔

اس عمل کی ایک عدد کمپیوٹر اینیمیشن بھی دستیاب ہے۔ حجم 11 میگابائٹ، طوالت ڈیڑھ منٹ۔

مزید تفصیلات یہاں پر دیکھیں۔
http://science.nasa.gov/headlines/y2009/05oct_lcrossvg.htm

اور اگر آپ کو بعد میں اس تحقیق کے آنے والے نتائج میں دلچسپی ہو تو اس صفحے پر بذریعہ برقی خط خبریں حاصل کرنے کا ربط بھی موجود ہوگا۔ اس کے علاوہ SpaceWeather.com پر نظر رکھنا بھی مفید رہے گا۔ اور اگر یہ آپ کے لیے بہت محنت کا کام ہو تو فکر نہ کریں۔ امید کرتا ہوں کہ اتنا وقت تو مل ہی جائے گا کہ میں خود ہی نتائج کے متعلق خبریں یہاں پر ارسال کر دوں۔ یا پھر شاید کوئی اور یہ کام کر کے میرے لیے آسانی پیدا کر دے (اگرچہ اس کا امکان زیادہ نہیں :P )۔

جب خود گئے تھے تب اتنی عقل نہیں آئی..!! خیر دیر آید کی مصداق دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے، ویسے چاند پر پانی کی تلاش کے لیے اتنی درد سری کیوں؟ کیا مریخ یا دیگر سیاروں پر توجہ مرکوز کرنا زیادہ بہتر نہ ہوگا؟

محمد سعد's picture

جب خود گئے تھے تو تب بھی مٹی کے نمونے لائے تو تھے۔ لیکن وہ چونکہ استوائی علاقے (یعنی چاند کے خطِ استوا کے آس پاس) کے نمونے تھے جہاں دھوپ بہت زیادہ مقدار میں پڑتی ہے، اس لیے ان نمونوں میں پانی ملنے کا امکان ہی نہ تھا۔ اور اس وقت چونکہ انسان کو چاند کے متعلق کچھ زیادہ معلوم نہ تھا، اس لیے قطبین کے گڑھوں میں پانی کی موجودگی کا تصور کسی کے ذہن میں نہیں آیا ہوگا۔
اب انہیں چاند پر پانی ڈھونڈنے کی فکر اس لیے لاحق ہوئی ہے کہ وہ مستقبل کی خلائی مہمات کے لیے چاند کو بطور سٹیشن یا "بس سٹاپ" استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے ان مہمات میں کافی سہولت ہو جائے گی۔ اور ظاہری بات ہے کہ سٹیشن پر رہنے والے لوگوں کو پانی بھی درکار ہوگا۔ اور پانی چونکہ وزنی چیز ہے اس لیے اسے زمین سے چاند پر لے جانے کی صورت میں بہت زیادہ خرچ آئے گا۔ چنانچہ کوشش کی جا رہی ہے کہ اگر چاند پر ہی کہیں پانی موجود ہو تو اس کو استعمال کیا جائے۔

محمد سعد's picture

السلام علیکم۔

موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ تصادم کا مرحلہ پرسوں بروز جمعہ، پاکستان کے موجودہ معیاری وقت (GMT+6:00) کے مطابق تقریباً ساڑھے پانچ بجے، یعنی عصر کی نماز سے کچھ دیر قبل، کامیابی کے ساتھ طے ہو گیا ہے۔ اگرچہ Centaur بوسٹر راکٹ کے تصادم کے نتیجے میں اس درجے کا روشن جھماکہ یا غبار پیدا نہ ہوا کہ جس کی بہت سے لوگ امید لگائے بیٹھے تھے، لیکن بہرحال، LCROSS پر نصب زیریں سرخ (Infrared) کیمروں نے اس سے پیدا ہونے والا حرارت کا جھماکہ ضرور دیکھا۔ اور ساتھ ہی اس پر نصب طیف نگاروں (Spectrometers) نے دھماکے کے ملبے میں سے گزرتے ہوئے سوڈیم کی موجودگی کا پتا لگایا جو کہ ایک غیر متوقع کھوج ہے۔
مشن پر کام کرنے والے سائنس دان LCROSS کے طیف نگاروں سے حاصل ہونے والے ڈیٹا میں پانی کی موجودگی کے سراغ ڈھونڈنے میں مصروف ہیں۔ اس مرحلے کی تکمیل کے بعد ہی چاند پر پانی کی موجودگی کے حوالے سے کسی نتیجے پر پہنچا جا سکے گا۔

اگر آپ پرسوں اس تصادم کی براہِ راست کوریج نہیں دیکھ پائے، تو اس کے آخری 6 منٹ کی ویڈیو یہاں پر دیکھی جا سکتی ہے۔
http://www.nasa.gov/multimedia/videogallery/index.html
دائیں جانب حالیہ ویڈیوز کی فہرست میں "NASA TV Coverage of LCROSS Impact" کے عنوان سے یہ ویڈیو موجود ہوگی۔ یہ وہ منظر ہے جو کہ خلائی جہاز نے گرتے ہوئے "اپنی آنکھوں سے" دیکھا۔
اور اگر آپ دیر سے یہاں آئے ہیں اور ویڈیو اب "حالیہ" نہیں رہی تو ویڈیو کے خانے کے بالکل نیچے "Video Archives" میں ڈھونڈ لیں۔

والسلام۔

محمد سعد's picture

تصادم کے بعد ابتدائی طور پر بہت سے لوگوں میں مایوسی دکھائی دی کیونکہ تصادم کے نتیجے میں کوئی بھی ملبہ گڑھے سے باہر نکلتا نظر نہیں آیا تھا۔ مثال کے طور پر Palomar رصد گاہ کی 200 انچ کی دوربین سے Centaur بوسٹر راکٹ کے تصادم کے 15 سیکنڈ بعد ہی کی یہ تصویر دیکھیں۔ تصویر میں Cabeus گڑھا بالکل درمیان میں پہاڑ کے پیچھے نظر آ رہا ہے۔

اس کی بارہ منٹ کی ویڈیو دیکھنے کے لیے یہاں پر کلک کریں

توقع تو یہ تھی کہ یہاں سے خلائی جہاز کے ٹکڑے اور چاند کی مٹی اڑتے ہوئے نظر آئیں گے لیکن ایسی حساس دوربین سے بھی کچھ نظر نہ آیا۔

لیکن اس سب کا مطلب یہ بھی نہیں کہ LCROSS کا مشن ناکام ہو گیا۔ بلکہ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ غیر متوقع طور پر تصادم کے نتیجے میں زیادہ ملبہ نہ اڑنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمیں جلد ہی چاند کی سطح کے متعلق کوئی نئی بات معلوم ہونے والی ہے۔ اور یہ بات اس کو ایک کامیاب تجربہ بناتی ہے۔
اب سائنس دان یہ پتا لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ نئی معلومات ہیں کیا۔ آگے آنے والے دنوں میں جوں جوں نئی دریافتیں سامنے آتی ہیں، وہ ان کا اعلان کرتے جائیں گے۔

ماخذ۔
SpaceWeather.Com (12 Oct. 2009)

محمد سعد's picture

ناسا نے زیریں سرخ طول موج (Infrared Wavelength) میں سینٹار راکٹ بوسٹر کے تصادم کے اثرات کی کچھ تصاویر جاری کی ہیں۔

یہ تصویر راکٹ بوسٹر کے ٹکرانے کے پندرہ سیکنڈ بعد اس کے 600 کلومیٹر پیچھے موجود LCROSS خلائی جہاز نے لی جس میں تصادم سے اڑنے والے ملبے کا تقریباً 6 سے 8 کلومیٹر چوڑا بادل نظر آ رہا ہے۔

یہ سینٹار کے تصادم سے پیدا ہونے والے گڑھے کی تصویر ہے جو کہ تقریباً 92 فیٹ یا 28 میٹر چوڑا بتایا جاتا ہے۔

ان تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ تصادم کی نتیجے میں کافی ہلچل ہوئی تھی۔ اور منصوبے کے مطابق باریک ذرات پر مبنی بادل بھی وجود میں آیا تھا۔ اگرچہ زمین سے یہ کچھ زیادہ متاثر کن نظر نہیں آیا لیکن در حقیقت یہ منصوبہ زبردست طور پر کامیاب ہوا۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ملبے کی کم چمک تصادم کے مقام پر موجود مادے کی خصوصیات کا پتا لگانے میں ایک مفید سراغ ہو سکتی ہے۔

جہاں تک چاند پر پانی کی موجودگی کا سوال ہے تو محققین اس سلسلے میں فی الحال واضح طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے۔ خلائی جہاز کے ڈیٹا کو دیگر رصدگاہوں کے ڈیٹا کے ساتھ یکجا کرنے اور اس تمام ڈیٹا کے تفصیلی تجزیے میں کئی ہفتوں تک کا وقت لگ سکتا ہے۔ ناسا کے مطابق، اس دوران جوں جوں نئی باتیں معلوم ہوتی ہیں، ان کا اعلان کیا جاتا رہے گا۔

مزید تفصیلات کے لیے ناسا کی 16 اکتوبر کی پریس ریلیز دیکھیں۔
http://www.nasa.gov/mission_pages/LCROSS/main/LCROSS_impact.html
مزید تصاویر یہاں پر موجود ہیں۔
http://www.nasa.gov/mission_pages/LCROSS/main/LCROSS_impact_images.html

محمد سعد's picture

پرسوں 13 نومبر، بروز جمعہ، ایک پریس کانفرنس میں LCROSS مشن پر کام کرنے والے محققین نے اعلان کیا ہے کہ تصادم کے مقام سے اڑنے والے غبار میں پانی کی موجودگی کی تصدیق ہو گئی ہے۔ یعنی جہاں پر راکٹ اور خلائی جہاز گرے، وہاں پانی موجود ہے۔

تصادم کے موقع سے اب تک سائنس دان LCROSS سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کے تجزیے میں مصروف ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے خلائی جہاز کے طیف پیماؤں (Spectrometers) سے حاصل ہونے والے ڈیٹا پر خصوصی توجہ دی کیونکہ وہاں موجود مادے کا پتا لگانے میں اس کا اہم ترین کردار ہے (طیف پیما ایک آلہ ہے جو کہ کسی مادے میں جذب یا اس سے خارج ہونے والی روشنی کے تجزیے سے اس کی شناخت میں مدد کرتا ہے)۔ اب تک کے تجزیے سے یہ بات یقینی ہو گئی ہے کہ چاند پر تصادم کے مقام پر پانی موجود ہے۔ البتہ یہ وہاں کے علاقے میں کس انداز سے پھیلا ہوا ہے، اس کی مقدار کیا ہے، اور اس کے علاوہ وہاں اور کون سے مادے موجود ہیں، ان تمام سوالوں کے جواب پانے کے لیے ابھی مزید تجزیے کی ضرورت ہے۔ خلائی جہاز سے حاصل ہونے والا ڈیٹا بہت زیادہ ہے اور اسے پوری طرح سمجھنے میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔

مزید تفصیلات اس صفحے پر دیکھیں۔
http://science.nasa.gov/headlines/y2009/13nov_lcrossresults.htm

محمد سعد's picture

ناسا کی طرف سے 21 اکتوبر کو آنے والی اس رپورٹ میں اب تک ہوئی مزید تحقیق کا خلاصہ دیکھا جا سکتا ہے۔
http://science.nasa.gov/science-news/science-at-nasa/2010/21oct_lcross2/

مزید تحقیقی مواد کے لیے LCROSS مشن کی اپنی ویب سائٹ دیکھیں۔
http://www.nasa.gov/lcross