مرکز گریز اور مرکز مائل قوتیں؛ کیا یہ دونوں عمل اور رد عمل کی قوتیں ہیں؟

مجالس:

آپ کیا کہیں گے بیچ اس مسئلے کے؟

محمد سعد's picture

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
میرے خیال میں پہلے ان دونوں قوتوں کا ایک با تصویر مثال کے ذریعے تعارف بہتر رہے گا تاکہ ان طلبائے علم کو بھی سمجھنے میں آسانی ہو جن کے لیے یہ موضوع ابھی نیا ہے۔

تصویر:
Circular motion, Centripetal and Centrifugal force

(میری رائے میں اس مثال کو سمجھنا زیادہ آسان ہو جائے گا اگر آپ تصور کریں کہ "م" کے مقام پر آپ خود کھڑے ہیں اور ایک پتھر کو دھاگے سے باندھ کر گول گول گھما رہے ہیں۔)

فرض کریں ایک جسم نقطہ "ا" سے اپنا سفر شروع کرتا ہے اور سیدھے خط پر سفر کرتے ہوئے نقطہ "ب" تک پہنچتا ہے۔ اس مقام پر اس کی "لمحاتی رفتار" (instantaneous velocity)، جسے v سے ظاہر کیا گیا ہے، کی سمت "ب" سے "ج" کی جانب ہے۔ اس مقام پر آپ اسے بائیں جانب موڑنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ آپ اس پر "م" کی جانب قوت لگاتے ہیں جس کے نتیجے میں یہ جسم ایک دائرے میں حرکت شروع کر دیتا ہے جس کا مرکز "م" ہے۔ جو قوت آپ نے لگائی، اس سے جسم کی رفتار تیز یا سست نہیں ہوئی بلکہ صرف اس کی سمت تبدیل ہوئی ہے۔ اس قوت کو مرکز مائل قوت (centripetal force) اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے اسراع (acceleration) کو مرکز مائل اسراع (centripetal acceleration) کہتے ہیں۔ مرکز مائل اسراع کی سمت بھی مرکز مائل قوت کی سمت میں، یعنی "م" کی جانب ہے۔ جس وقت ہم مرکز مائل قوت لگانا شروع کرتے ہیں، اسی وقت اس کے ردِ عمل کے طور پر ایک اور قوت پیدا ہوتی ہے جسے مرکز گریز قوت کہتے ہیں۔ مرکز گریز قوت مقدار میں مرکز مائل قوت کے برابر اور بالکل مخالف سمت میں ہوتی ہے۔ تصویر والی مثال میں اس کی سمت "ب" سے "د" کی جانب ہے۔
(یہاں پر شاید ایک سوال ذہن میں آئے کہ اگر مرکز گریز قوت بالکل مخالف سمت میں ہے اور مقدار میں برابر بھی ہے تو مرکز مائل قوت کا اثر ختم کیوں نہیں کر دیتی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ دونوں قوتوں کا اثر الگ الگ اجسام پر ہوتا ہے۔ مرکز مائل قوت کا اثر دائرے میں حرکت کرنے والے جسم پر جبکہ مرکز گریز قوت کا اثر مرکز مائل قوت لگانے والے جسم پر۔)
اب جب تک ہم مذکورہ جسم پر مرکز مائل قوت لگاتے رہیں گے، تب تک یہ دائرے (اس مثال میں جس کا مرکز "م" ہے) کی صورت میں حرکت کرے گا۔ فرض کریں کہ یہ جسم اسی طرح دائرے میں حرکت کرتے ہوئے نقطہ "ہ" پر پہنچتا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس مقام پر پہنچ کر رفتار، مرکز مائل قوت اور مرکز گریز قوت کی سمت بدل چکی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرکز مائل قوت کی سمت مسلسل بدلتی رہتی ہے اور یہ قوت اس دائرے کے مرکز کی سمت میں لگائی جاتی ہے جس میں جسم کو گھمانا ہے۔

[اگر قوت ایک ہی سمت ("ب" سے "م" والی سمت) میں لگائی جاتی رہے تو وہ مرکز مائل قوت نہیں ہوگی اور نہ ہی جسم کو دائرے میں گھمائے گی۔ ایسی قوت جسم کی سمت کو تو بدلے گی ہی لیکن ساتھ ہی اس کی رفتار کو بھی قوت کی سمت میں بڑھائے گی۔ اگر اس مثال میں لگائی جانے والی قوت کی سمت مستقل رہے تو مذکورہ جسم دائرے میں سفر کرنے کے بجائے اس نوعیت کے راستے پر چلے گا جیسا نقطوں کی مدد سے ظاہر کیا گیا ہے اور "ی" کی طرف جاتا ہے۔ اس راستے پر چلتے ہوئے، تھوڑا آگے پہنچ کر مذکورہ جسم، لگائی جانے والی قوت کی سمت میں حرکت کرنے لگ جائے گا چنانچہ اس کے بعد قوت کا اثر سمت پر نہیں بلکہ صرف رفتار کو تیز کرنے کی صورت میں ہوگا۔]

چونکہ مرکز گریز قوت، مرکز مائل قوت کا ردِ عمل ہے، اس لیے اس کا وجود بھی صرف تب تک رہے گا جب تک مرکز مائل قوت موجود ہے۔ اگر نقطہ "ہ" کے مقام پر ہم مرکز مائل قوت لگانا چھوڑ دیں تو مذکورہ جسم آزاد ہو کر "ہ" سے "و" کی سمت میں (جو کہ "ہ" پر اس کی لمحاتی سرعت یا instantaneous velocity کی سمت ہے) بالکل سیدھے راستے پر چلتا جائے گا جب تک اس پر کوئی اور قوت اثر انداز نہیں ہوتی۔

محمد سعد's picture

اب آتے ہیں آپ کے اصل سوال کی طرف۔
مرکز مائل قوت اور مرکز گریز قوت، ایک دوسرے کی نسبت سے عمل اور ردِ عمل ہی ہیں۔ مرکز مائل قوت عمل ہے اور مرکز گریز قوت اس کا ردِ عمل۔ اور جیسا کہ اصول ہے، ردِ عمل کی قوت اس وقت تک ہی موجود رہتی ہے جب تک عمل کی قوت موجود رہے۔ اس سے پہلے اور بعد میں ردِ عمل کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ مرکز گریز قوت بھی اسی وقت وجود میں آتی ہے جب ہم کسی جسم کو دائرے میں گھمانے کے لیے (مرکز مائل) قوت لگاتے ہیں۔ مرکز گریز قوت دائرے میں گھومنے والا جسم ہم پر لگاتا ہے۔ اور جوں ہی ہم قوت لگانا بند کرتے ہیں، گھومنے والا جسم بھی مخالف قوت لگانا بند کر دیتا ہے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ (اگر کوئی بیرونی قوت اس پر اثر انداز نہ ہو تو) جسم اسی سمت (اس مثال میں "و" کی سمت) میں روانہ ہو جاتا ہے جو اس کی چھوڑے جانے کے نقطے ("ہ") پر تھی، نہ کہ مرکز گریز قوت والی سمت میں۔ اسی طرح مرکز مائل قوت لگانے سے پہلے بھی ہمیں مرکز گریز قوت کی کوئی علامت نظر نہیں آتی۔ علاوہ ازیں مرکز گریز قوت، مقدار میں مرکز مائل قوت کے بالکل برابر اور سمت میں بالکل الٹ ہوتی ہے۔ ان تمام نکات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کی نسبت سے عمل اور ردِ عمل کی قوتیں ہی ہیں۔

محمد سعد's picture

مرکز مائل قوت کی مقدار معلوم کرنے کے لیے یہ مساوات استعمال کی جاتی ہے۔
(مساوات کو درست طور پر دیکھنے کے لیے آپ کے براؤزر میں MathML کی سپورٹ ہونی چاہیے)
Fc=mv2r
یہاں پر Fc مرکز مائل قوت کو ظاہر کرتا ہے، m جسم کی کمیت کو، v اس کی رفتار کو اور r دائرے کے نصف قطر کو۔

چونکہ قوت، کمیت اور اسراع کے حاصلِ ضرب کے برابر ہوتی ہے:
F=ma
یعنی:
mac=mv2r
لہٰذا دونوں اطراف کو m پر تقسیم کرنے سے مرکز مائل اسراع کی مساوات حاصل ہوتی ہے۔
ac=v2r
یہاں پر ac مرکز مائل اسراع کو ظاہر کرتا ہے۔

مرکز گریز قوت کا نظریہ اب تقریبا فراموش کر دیا گیا ہے۔ جدید نظریئے کے مطابق یہ ایک جعلی قوت ہے جو کہ گھومنے والے جسم کے فریم آف ریفرینس میں ہی محسوس کی جا سکتی ہے۔ اوپر آپ نے جو مثال دی ہے اس میں پتھر پر صرف مرکز مائل قوت عمل کرتی ہے جس سے پیدا ہونے والے ایکسیلیریشن یا اسراع کی سمت اندر کی طرف ہوتی ہے۔ پتھر کو گھماتے ہوئے ہاتھ پر جو قوت محسوس ہوتی ہے وہ دراصل رسی کے تناؤ کی وجہ سے ہوتی ہے، ایسے ہی جس طرح اس پتھر کو رسی سے پکڑ کر سیدھا گھسیٹا جائے تو بھی اسی طرح کی قوت محسوس ہو گی۔

مرکز گریز یا سینٹری فیوگل فورس کا تجربہ گاڑی میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو بھی ہوتا ہے ۔ جب گاڑی موڑ کاٹتی ہے تو اندر بیٹھے ہوئے مسافر موڑ سے باہر کی طرف جھک جاتے ہیں۔ نیچے دئے گئے لنک میں گاڑی میں بیٹھے شخص کے لیے مرکز گریز قوت کا مظاہرہ دکھایا گیا ہے۔ ڈیش بورڈ پر پڑی ہوئی کیسٹ بائیں جانب موڑ کاٹتے ہوئے دائیں جانب کھسک جاتی ہے۔ اس کی وجہ ڈرائیور کے لیے تو مرکز گریز قوت بیان کی جا سکتی ہے۔ لیکن ایسے شخص کے لیے جو کہ انرشئل فریم آف ریفرینس میں موجود ہے، کیسٹ کی حرکت مطلقا اس کے جمود کی وجہ سے ہے۔ کیسٹ اپنی سپیڈ کے مطابق سیدھا سفر کرتی ہے جبکہ کار بائیں جانب مڑ جاتی ہے۔ کار کے ٹائروں کو سڑک کی فریکشن یا رگڑ سے اتنی مرکز مائل قوت مل جاتی ہے کہ یہ پھسلتی نہیں۔ لیکن کیسٹ کو ڈیش بورڈ یہ مرکز مائل قوت فراہم نہین کر پاتا۔ جس کی وجہ سے یہ سیدھی سمت میں سفر جاری رکھتی ہے۔ اگر ڈیش بورڈ یہ قوت فراہم کر دے تو کیسٹ نہیں پھسلے گی۔
http://regentsprep.org/regents/physics/phys06/bcentrif/centrif.htm

محمد سعد's picture

galaxy wrote:
مرکز گریز یا سینٹری فیوگل فورس کا تجربہ گاڑی میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو بھی ہوتا ہے ۔ جب گاڑی موڑ کاٹتی ہے تو اندر بیٹھے ہوئے مسافر موڑ سے باہر کی طرف جھک جاتے ہیں۔ نیچے دئے گئے لنک میں گاڑی میں بیٹھے شخص کے لیے مرکز گریز قوت کا مظاہرہ دکھایا گیا ہے۔ ڈیش بورڈ پر پڑی ہوئی کیسٹ بائیں جانب موڑ کاٹتے ہوئے دائیں جانب کھسک جاتی ہے۔ اس کی وجہ ڈرائیور کے لیے تو مرکز گریز قوت بیان کی جا سکتی ہے۔ لیکن ایسے شخص کے لیے جو کہ انرشئل فریم آف ریفرینس میں موجود ہے، کیسٹ کی حرکت مطلقا اس کے جمود کی وجہ سے ہے۔ کیسٹ اپنی سپیڈ کے مطابق سیدھا سفر کرتی ہے جبکہ کار بائیں جانب مڑ جاتی ہے۔ کار کے ٹائروں کو سڑک کی فریکشن یا رگڑ سے اتنی مرکز مائل قوت مل جاتی ہے کہ یہ پھسلتی نہیں۔ لیکن کیسٹ کو ڈیش بورڈ یہ مرکز مائل قوت فراہم نہین کر پاتا۔ جس کی وجہ سے یہ سیدھی سمت میں سفر جاری رکھتی ہے۔ اگر ڈیش بورڈ یہ قوت فراہم کر دے تو کیسٹ نہیں پھسلے گی۔
http://regentsprep.org/regents/physics/phys06/bcentrif/centrif.htm

ردِ عمل کی قوت ہمیشہ اس جسم پر محسوس ہوتی ہے جو عمل کی قوت لگا رہا ہو۔ اس مثال میں آپ اس حد تک تو درست ہیں کہ کیسٹ مرکز گریز قوت کی وجہ سے نہیں پھسل رہی بلکہ اپنے جمود (inertia) کی وجہ سے اپنا سیدھا راستہ برقرار رکھتی ہے۔ لیکن یہ بات درست نہیں کہ مرکز گریز قوت کا سرے سے کوئی وجود ہے ہی نہیں۔ مرکز گریز قوت کا اثر کیسٹ پر نہیں بلکہ گاڑی پر ہوگا۔ وہ بھی تب جب کیسٹ پھسلتی پھسلتی بالکل کنارے تک پہنچ جائے اور آگے راستہ بند ہو (آپ کی مثال میں راستہ کھلا ہے چنانچہ کیسٹ بغیر رکاوٹ کے اپنا سفر جاری رکھتی ہے)۔ یہ نقطہ اوپر والی تصویر میں نقطہ "ب" کی طرح سمجھ لیں۔ یہاں پہنچ کر گاڑی کیسٹ پر قوت لگائے گی اور ردِ عمل میں گاڑی پر بھی کیسٹ کی طرف سے قوت لگے گی۔ بالکل ایسے ہی جیسے کسی بھاری ڈبے کو دھکیلتے ہوئے ہمیں مخالف سمت میں قوت محسوس ہوتی ہے۔ اس مثال میں ردِ عمل کی قوت ہم پر اثر انداز ہوتی ہے، نہ کہ ڈبے پر۔ اسی طرح میری بند گاڑی والی مثال میں بھی ردِ عمل کی قوت (مرکز گریز قوت) گاڑی پر اثر انداز ہوگی، نہ کہ کیسٹ پر۔

galaxy wrote:
مرکز گریز قوت کا نظریہ اب تقریبا فراموش کر دیا گیا ہے۔ جدید نظریئے کے مطابق یہ ایک جعلی قوت ہے جو کہ گھومنے والے جسم کے فریم آف ریفرینس میں ہی محسوس کی جا سکتی ہے۔ اوپر آپ نے جو مثال دی ہے اس میں پتھر پر صرف مرکز مائل قوت عمل کرتی ہے جس سے پیدا ہونے والے ایکسیلیریشن یا اسراع کی سمت اندر کی طرف ہوتی ہے۔ پتھر کو گھماتے ہوئے ہاتھ پر جو قوت محسوس ہوتی ہے وہ دراصل رسی کے تناؤ کی وجہ سے ہوتی ہے، ایسے ہی جس طرح اس پتھر کو رسی سے پکڑ کر سیدھا گھسیٹا جائے تو بھی اسی طرح کی قوت محسوس ہو گی۔

آپ ایک بات بھول گئے کہ رسی میں تناؤ تب پیدا ہوتا ہے جب دونوں سروں کو مخالف سمتوں میں کھینچا جاتا ہے۔ جب پتھر کو رسی سے پکڑ کر زمین پر گھسیٹا جائے تب ایک طرف ہمارے کھینچنے کی قوت ہوتی ہے جبکہ دوسری طرف زمین کی رگڑ کی قوت جو اس کے مخالف سمت میں ہوتی ہے۔
پتھر کو گھماتے وقت رسی میں جو تناؤ پیدا ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ پتھر کی سمت میں بھی ایک قوت عمل کر رہی ہے۔ یہی مرکز گریز قوت ہے جو کہ ہماری لگائی گئی مرکز مائل قوت کا ردِ عمل ہے۔