آفاق کہ یہ کارگہ شیشہ گری - 8۔زمین کی خلقت

مجالس:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
8۔زمین کی خلقت (پہلاحصّہ)
How The Universe Works – Season 2, Episode 8
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری دنیا ایک تواتر سے جاری رہنے والے تصادموں اور تباہی کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے۔ قیامت خیزسیاروی تصادم ، لاکھوں وحشی کونیاتی حملے اور کائنات میں موجودسب سےخطرناک دھماکے یعنی کہ سپرنووا یہ سب حشر کا سماں برپا کرنے والے ہنگامے زمین کوبننے سے پہلے ہی ریزہ ریزہ کر سکتے تھے اور آج ہمارے سیارہ زمین کا کوئی نام و نشان تک نہیں ہوتا۔ یہ ساری حشر سامانیاں ہمارے جسموں کے ایٹموں تک کو خلاء میں بکھیر دینے کی طاقت رکھتی ہیں اس کے باوجود اس تمام ہنگامے نے ہمارے حیرت انگیز سیارہ کو جنم دےدیا۔ زمین ایک حیرت آفریں اوربہت ہی خاص جگہ ہے۔اس کی تخلیق کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہر چیز اس قرینے سے وقوع پزیر ہوئی ہے جیسے کہ اس کو ہونا چاہئے تھا شروع سے لے کر آخر تک ہر چیز ایک انتہائی نازک توازن پر ٹکی ہوئی ہے۔زمین کی اس زبردست تخلیق کو دیکھ کر اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا کائنات میں کہیں اور بھی کسی دوسری جگہ کوئی سیارہ زمین کی طرح وجود پا سکتا ہے ؟ اگر اس سوال کا جواب مل جائے تو پھر کائنات زمین جیسی دنیاؤں سے بھری ہوئی ہوگی جہاں زندگی اپنی جہت میں رواں دواں ہوگی۔ کرۂ ارض ایک غیر معمولی سیارہ ہے۔ زندگی کے لئےضروری ہربنیادی چیز یہاں موجود ہے-- کھرب ہا مخلوقات ، پودے اور ہم انسانوں جیسے ذی شعور مخلوق۔

"رسٹی شوئیکارٹ"(Rusty Schweickart) ایک امریکی خلانورد ہیں جو زمین کو" انٹرنیشنل سپیس ا سٹیشن"(International Space Station) سے دیکھنے کا تجربہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں "جب ہم خلاء سے زمین کو دیکھتے ہیں تو حیات کے بارے میں جو کچھ ہم جانتے ہیں وہ سب کچھ یہاں اسی سیارے پر نیچے موجود ہے۔ خلاء میں ہر ٩٠ منٹس میں زمین کے گرد ایک چکر لگاتے ہوئے جب ہم اس خوبصورت سیارے کو دیکھتے ہیں تو اس نیلے سیارے کے سحر میں کھو جاتے ہیں۔"(تصویر نمبر ١)
[​IMG]تصویر نمبر ١ - Space_Station_over_Earth by Zonnee, on Flickr
یہ بات توہم سب جانتے ہیں کہ زمین ہمارے نظام شمسی میں ایک فقید المثال سیارہ ہے مگرجو بات ہم اب تک نہیں جانتے وہ یہ ہے کہ کیا کائنات میں بھی یہ ایک بے نظیر سیارہ ہے یا نہیں۔ ہمارے لئے ان عوامل کا جاننا بہت ضروری ہے جنہوں نے زمین کی خلقت کا انتظام کیا اس بات کو جانے اور سمجھے بغیر ہم دوسرے ستاروں کے گرد ان عوامل کا جائزہ نہیں لے سکتے۔ اگر ہم نے ان عوامل کو کہیں اور کچھ دوسرے ستاروں کے گرد پا لیا تو یہ اس بات کا عندیہ ہوگا کہ کائنات میں موجود مختلف جگہوں پر زمین جیسے دوسرے جہاں بھی جنم لے سکتے ہیں۔ یہ سوال انسان کو کافی عرصے سے تنگ کررہا ہے کہ کیا دوسرے سیارے بھی دیگر ستاروں کے گرد چکر لگا رہے ہیں یا نہیں؟ اس بات کی تلاش کے لئے ہمیں وقت کے پہیے کو پیچھے گھومانا ہوگا اور اس بات کی چھان بین کرنی ہوگی کہ زمین کا جنم کیسے ہوا۔

وقت کے دھارے کو پیچھے کر کے اب ہم ٤۔٥ ارب سال پہلے کے دور میں کھڑے ہیں۔ جہاں ہم گرد کےان گنت چھوٹے چھوٹے ذرّات کو دیکھ رہے ہیں جنہوں نے دوسرے گرد کے ذرّات کے ساتھ مل کر زمین کی تشکیل کرنی ہے۔ یہ تمام گرد کے ذرّات اس ستارے کی پیدائش کا حصّہ ہیں جن سے ابھی نظام شمسی نے جنم لینا ہے۔ سیاروں کی پیدائش کے لئے سب سے پہلے ایک ایسا دور شروع ہونا لازمی ہے جس میں گرد کے بادل ہمارے سیارے سمیت ہزار ہا شیرخوار سیاروں میں تبدیل ہوکر نظام شمسی کا حصّہ بنیں ۔ بالکل یہ ہی عمل ہم سے ٧ ہزار نوری سال کے فاصلے پر" عقابی سحابیے" (Eagle Nebulae)میں چل رہا ہے۔ ہمارا اپنا نظام شمسی بھی اسی طرح کے گرد و غبار کے بادلوں میں ہی بنا تھا۔

اس سحابیے میں گیس کے تین ستون موجود ہیں جن کو "تخلیق کے ستونوں "(Pillars of Creation) کا نام دیا گیا ہے اور جودسیوں کھرب ہا میل کا احاطہ کئے ہوئے ہیں۔ یہ سحابیہ ایک بہت بڑی ساخت ہے۔

بادل دیکھنے میں بہت کثیف لگتے ہیں مگر اصل میں یہ بہت ہی غیر گنجان ہیں ۔

یہاں پر موجود پہاڑ جتنا بادل لے کر اگر ہم اس کو دبائیں اور بھینچیں تو وہ بادل دب کر ایک چھوٹا سا چٹانی پتھر ہی بناپائے گا۔

گیس اور بادلوں کو دبا کر کثیف ستاروں اور سیاروں کی شکل میں ڈھالنے کے لئے کسی بے حد طاقتور واقعہ کارونما ہونا لازمی ہے۔ ٢٠٠٧ء میں سپٹزر خلائی دوربین نے اس بات کی شہادت حاصل کرلی کہ ایک پھٹتے ہوئے ستارے نے ایک گیس کی وسیع دیوار کو ان ستونوں کی جانب روانہ کیا(تصویر نمبر ٢)۔
[​IMG]تصویر نمبر ٢ - spitzer_pillarA_02 by Zonnee, on Flickr
ایک گرم مادّے کی موج ،تخلیق کے ستونوں تک جارہی ہے جو ایک پھٹ کر مرتے ہوئے ستارے یعنی کہ سپرنووا کی صدماتی موج تھی۔

سپرنووا اس زور سے چمکتے ہیں کہ تھوڑے عرصے کے لئے پوری کہکشاں کی روشنی کو بھی چھپا دیتے ہیں۔زبردست گرم پلازما خلاء میں ایک دھماکے کے ساتھ نکل ٧ کروڑ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ پڑتا ہے ۔ایک زبردست صدماتی موج تیزی سے تخلیق کے ستونوں تک جاتی دکھائی دے رہی ہے اور جب یہ موج ان ستونوں سےٹکرائی گی تویہ ان کو ختم کرکے نئے جہاں بھی بنادے گی۔ سپرنووا کی صدماتی موجیں ستونوں سے جاکرٹکرائیں گی ، جس سے ہلکی گیس اور گرد کے بادل دب کر کثیف جھنڈ میں بدل جائیں گے جس میں سے ہر ایک نیا ستارہ ، نیا نظام شمسی خلق ہوگا۔ سالموں کے بادل سپرنووا کے دھماکے سے بھینچ کر ستارے اور سیارے بناتے ہیں۔

اب ہمیں واپس ٤۔٥ ارب سال والے دور میں چلنا ہوگا جب ہمارا نظام شمسی بھی اسی طرح سے جنم لے رہا تھا۔اس وقت ایک سپرنووا نے کثیف بادلوں کو دبا کر ایک قرص کی شکل دے دی تھی۔ ایک پتلے سے سحابیہ نے گیس اور گردکے بھنور کی شکل اختیار کرتے ہوئے ایک نئے نظام شمسی بنانے کی تیاری شروع کر دی تھی۔ ہمارے سورج اور اس کے گرد بننے والے سیاروں کے لئے ایک ستارے اپنی جان قربان کردی تھی۔ یہ اس خلاف قیاس لمبے عمل کی پہلی کڑی تھی جس میں ہماری دنیا کو بننا تھا۔ زمین کو اپنی اس موجودہ حالت میں بننے کے لئے فلکیاتی بے جوڑ امکانات کو شکست فاشت دینا تھا۔ بہت سارے عوامل کو بالکل ٹھیک اسی ترتیب سے ایسے ہی وقوع پزیر ہونا تھا جس سے اس سیارے نے جنم لینا تھا جس کا نام زمین ہے۔ اس سیارے کو اپنے ستارے سےبالکل مناسب فاصلے پرپیدا ہونا چاہئے تھا، اس کا حجم، اور اس کے گرد گھومنے والے چاند کا حجم اور اس طرح کے دیگر بے شمار عوامل کو بالکل ٹھیک طریقے سے وقوع پزیر ہونا تھا۔ زمین پر زندگی کے لئے تمام شرائط کا پورا ہونا ضروری تھا۔

ہمارے جیسے بے عیب جہاں کی تخلیق کے لئے کافی سارے ترپ کے پتے درکار تھے۔ کسی طرح سے ہمارے نظام شمسی کا چھکا لگ گیا۔ مگر سب سے بڑا سوال یہ کہ کیا ایسا کائنات میں کہیں اور بھی ہو سکتا ہے؟

کائنات میں رونماء ہونے والے ایک خطرناک واقعہ نے ہمارے سیارے کی پیدائش کے لئے لبلبی دبا دی تھی۔ ایک بکھرے ہوئے بادل نے دب کر ایک کثیف گرد کے بھنور کو بنا دیا تھا۔ اس گرد میں سے کچھ نے زمین کا حصّہ بننا تھا۔ مگر سوال یہ ہے کہ اتنے چھوٹے گرد کے ذرّات نے مل کر کیسے اتنے بڑے جہاں بنا دیے؟۔ سپرنووا نے ایک ایسی بندوق کی لبلبی دبا دی تھی جس نے ان عوامل کو یکے بعد دیگرے شروع کردیا جس کے نتیجے میں آخرکار ہمارا نظام شمسی اورہماری دنیا وجود میں آئی۔ اس بادل کے مرکز میں ایک گرم گیس کا گولا بننے لگاتھا جس نے آگے جاکر ہمارا سورج بننا تھا۔ اس گرم گیس کے گولےکے گردگھومنے والی مٹی نے سیاروں کا حصّہ بننا تھا مگر اس سے پہلے ان ذرّات کو آپس میں جڑنا تھا۔

اب ہمارے پاس ایک دلچسپ پہیلی موجود ہے۔ یہ ٹکیہ اب گیس اور گرد کے ذرّات پر مشتمل ہے جن کا حجم سگریٹ کے دھوئیں کے ذرّات جتنا ہی ہے جو ظاہر ہے کہ بہت ہی چھوٹی سی چیز ہوتی ہے ۔ مگر پھر کسی طرح سے ان چھوٹی سی چیزوں نے مل کر اس زمین کو بنایا جس کو ہم آج دیکھتے ہیں۔

قوّت ثقل ایک زبردست کشش رکھنے والی طاقت ہے۔ اس نے کہکشاؤں اور نظام ہائے شمسی کی بناوٹ میں بنیادی کردار ادا کیا لیکن گرد کے یہ ذرّات اس قدر چھوٹے ہوتے ہیں کہ قوّت ثقل کے بل بوتے پر یہ ایک دوسرے کو کھینچ نہیں سکتے ۔ اس کے باوجود یہ کسی طرح سے ایک دوسرے سے جڑ کر جتھوں کی صورت میں جمع ہوئے اور نوزائیدہ سیاروں کی شکل میں ڈھل گئے۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قوّت ثقل یہاں کارفرما نہیں تھی تو پھر وہ کونسی طاقت تھی جس نے ان گرد کے ذرّات کو آپس میں جڑنے پر مجبور کیا۔ جرمنی میں سائنس دان اسی گتھی کو سلجھانے میں مصروف ہیں۔ وہ ایک بڑے مینار کے اندر اس بات کی نقل کررہے ہیں کہ خلاء میں گرد کے ذرّے کس طرح سے برتاؤ کرتے ہیں۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
8۔زمین کی خلقت (دوسراحصّہ)
How The Universe Works – Season 2, Episode 8
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر وہ کشش ثقل کی غیر موجودگی میں تجربات کر رہے ہیں۔ پورا تجربہ کشش ثقل کی مکمل غیر موجودگی میں ہوگا۔ اس تجربے میں سائنس دانوں نے خلاء کی اتنی اچھی نقل بنائی ہےکہ اس سے اچھی خلاء کی نقل زمین پر کرنا ممکن نہیں ہے۔

محققین نے گرد ایک ڈبے میں ڈال کر اس کو ایک پھینکنے والے کیپسول میں بند کردیا۔ پھر اس کیپسول کو مینارکے فرش پرموجود ایک بہت ہی طاقتور منجنیق میں ڈال دیا ۔ یہ منجنیق اس صلاحیت کی حامل ہے کہ اس کیپسول کو صفر سے لے کر ١٠٠ میل فی گھنٹہ کی رفتار تک ایک چوتھائی سیکنڈ میں پھینک دے ۔ ٤٠٠ فٹ اوپر کیپسول مینار کے سب سے اونچے حصّہ میں پہنچ کر نیچے گرنا شروع کرتاہے۔ایک پولیسٹرین گیندوں کا ٣٠ فٹ گہرا ڈرم اس نیچےگرتے ہوئے کیپسول کو توڑ دیتا ہے۔ یہ سب کشش ثقل کی غیر موجودگی میں صرف ١٠ سیکنڈ میں انجام پزیر ہوتا ہے جو سائنس دانوں کے خیال میں اتنا وقت ہے جس میں گرد کے ذرّات آپس میں چپک سکتے ہیں۔

کیپسول کے چھوڑے جانے کے اگلے لمحے ہی گردبے وزنی کی حالت میں آگئی ۔ذرّات نےاسی طرح جتھوں کی شکل اختیار کرنا شروع کردی جس طرح سے شروعاتی نظام شمسی میں کی ہوگی۔

اس تجربے میں جو قوّت ان گرد کے ذرّات کو آپس میں باندھ رہی تھی وہ قوّت ثقل نہیں تھی کیونکہ قوّت ثقل اتنے چھوٹے پیمانے پر اس طرح سے کام نہیں کرسکتی ہے۔ سائنس دان سمجھتے ہیں کہ جس طاقت نہیں انھیں آپس میں باندھ کر رکھا ہے وہ " برق سکونی کی قوّت"(Electrostatic Force) ہے۔

سردیوں میں جب کبھی آپ اپنے کپڑے الماری سے نکلتے ہیں تو وہ اکثر آپ سے چپک جاتے ہیں یہ اسی برق سکونی قوّت کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں ۔ یہاں پر بھی اسی قوّت کا اثر ہے جو ایک گرد کے ذرّے کو دوسرے گرد کے ذرّے سے چپکا دیتے ہیں۔

اس تجربے میں اب گرد کے ذرّات نے روئیں جیسی گیندوں کی شکل اختیار کرلی تھی۔

گرد کے ذرّات پر موجود چھوٹے سے برق سکونی بار نےذرّات کے آپس میں ٹکرانے پر ان کو جوڑ دیا تھا جس سے گرد کے خرگوش کی شکل جیسی چیزیں وجود میں آگئی تھیں۔

ان گردکے خرگوشوں نے ہی آگے چل کر سیاروں کوبنانا تھا۔ انہوں نےسوئی کی نوک کے جتنے حصّے سے بننا شروع کیا اور بڑھتے گئے۔ گرد اب جھنڈ کی صورت میں تھی مگر اب بھی یہ گرد ہی کی گیندیں تھیں۔ ان گرد کی گیندوں کو چٹانوں کی صورت اختیار کرنے کے لئے ایک بالکل نئے عمل یعنی "کونیاتی برق کے طوفان" (Cosmic Electric Storm)سے گزرنا تھا۔ خلاء کے بادل اسی طرح سے بار دار ہوجاتے ہیں جیسے کہ زمین پر موجود بادل ہوتے ہیں جس سے بجلی کی زبردست کڑک پیدا ہوتی ہے۔ گرد کی گیندیں ٹھوس چٹان کی شکل ایک زبردست توانائی سے بھرپور حادثے جیسے کہ بجلی کی کڑک میں ہی بن سکتی ہیں۔ "برقی کڑک" (Electric Bolt)نے گرد کی گیندوں کو آپس میں پیس کر ان کا درجہ حرارت ٣ ہزار ڈگری فارن ہائیٹ درجہ تک پہنچا دیا جس سے وہ کچھ ہی منٹوں میں ٹھنڈی ہو کر ٹھوس چٹانوں کی صورت میں ڈھل گئیں۔ شہابیے آج بھی ان قدیمی گیندوں کو اپنے اندر لے کر گھوم رہے ہیں یہ چھوٹے کرۂ کبھی سیاروں کی بنیادی اینٹیں ہوا کرتے تھے۔ زمین بنانے کے لئے ان چھوٹے چٹانی پتھروں کو آپس میں ٹکراکر جوڑنا اور بڑھنا ضروری تھا۔ چٹانوں نے حادثاتی تصادموں کے نتیجے میں بڑھنا شروع کیا مگر اس عمل میں کافی سارا وقت درکار تھا۔ آخر کار ان نوزائیدہ سیاروں نے بننا شروع کردیا جن کا شروعاتی حجم چند میل پر پھیلے ہوئے سیارچوں کے جتنا تھا۔ شیرخوار دنیا اب ایک شہر کے چھوٹے سے حصّے ہی جتنی تھی اور ایک نئی قوّت یعنی کہ قوّت ثقل کو کمان سونپنے کے لئے تیار ہو رہی تھی۔

اس وقت کوئی اکیلا سیارچہ ثقلی قوّت کے زور پر کسی دوسرےپڑوسی سیارچے کوکھینچ سکتا تھا۔ لہٰذا کوئی بھی دو سیارچے جو ایک دوسرے کے قریب سے گزرتے قوّت ثقل کے زیر اثر آپس میں ٹکرا جاتے۔

ایک دفہ جب قوّت ثقل نے مورچہ سنبھال لیا تو پھر اس عمل میں پہیےلگ گئے کیونکہ بجائے حادثاتی طور پر ٹکرانے کے اب ان سیارچوں نے خود سے مادّے کو کھینچنا شروع کردیا۔

قوّت ثقل نے چٹانوں کو آپس میں کھینچنا شروع کیا اور ان کو جوڑ کر بڑے سے بڑے" روڑوں کی قطار" (Piles of Rubble)بنانی شروع کردی۔ اس عمل نے جس نےگرد کے ذرّوں سے گرد کی گیندیں بنانے میں ایک لمبا عرصہ لگا دیا تھا اب اچانک ایڑھ لگا دی جس سے سیاروں کے بننے کے عمل میں پر لگ گئے اور انہوں نے تیزی سے پروان چڑھنا شروع کردیا۔

مگر سیارے صرف حد سے بڑی چٹانیں ہی نہیں ہوتے۔ اس وقت تک یہ چٹانیں گلٹیوں سے بھری غیر فعال تھیں۔یہ سوال اب بھی جواب طلب ہے کہ زمین نے کرۂ کی شکل لے کر اپنے آپ کو زندگی سے کیسے بھر دیا تھا؟شروعاتی نظام شمسی سیاروں کے بننے کا کارخانہ تھا۔ گرد چپک کر چٹانوں کو بنا رہی تھی ۔ چٹانیں سیارچوں کو تشکیل دے رہی تھیں۔ مگر زیادہ تر سیارچے زمین جیسے تو بالکل نہیں تھے۔

جب ہم سیارچوں کو قریب سے دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ بگڑی ہوئی مونگ پھلی کی شکل جیسے نظر آتے ہیں (تصویر نمبر ٣)یا پھر دبے ہوئے پلپلے آ لو جیسے دکھائی دیتے ہیں۔ ان لمبوتری شکل والے اجسام پر بڑے شگاف بھی موجود ہیں۔
[​IMG]تصویر نمبر ٣ - Itokawa -Asteroid_Peanut-Shaped by Zonnee, on Flickr
ابھی تک نوزائیدہ زمین ارب ہا بدشکل خلائی بٹوں میں سے ایک تھی۔ سیارہ بننے کے لئے پہلے اسے کرۂ کی شکل اختیار کرنی تھی۔ یہ عمل اس وقت ہی شروع ہوسکتا تھا جب اس کا پھیلاؤ سینکڑوں میل پر محیط ہو تاکہ اس کی اپنی ثقلی قوّت اس کی بناوٹ کو تبدیل کردے۔ ایک دفہ اگر کافی مادّہ اور کمیت جمع ہوجائے تو ثقلی قوّت اس قدر توانا ہوجاتی ہےکہ کوئی بھی عظیم الجثہ پہاڑاس کی طاقت سے ٹوٹ سکتا ہے۔

قوّت ثقل اس قدر توانا ہوسکتی ہے کہ وہ چٹانوں کو توڑ کر ان کو ایک ایسے سیال کے طور پر استعمال کرے جس سے وہ چیز کرۂ کی شکل میں آجائے۔

بڑی بڑی چٹانوں نے ٹوٹ کر گرنا شروع کیا۔شروعاتی سیارہ ارض کی زبردست ثقلی قوّت نے ان کو سب سے پر اثر ساخت - وسیع ، گول چٹانی گیند کی شکل میں ڈھالنا شروع کردیا۔مگر زمین کی یہ بناوٹ بھی جلد ہی بدلنے والی تھی۔ ناہموار روڑوں کی قطار نے ایک چھوٹی سی دنیا کی شکل لے لی تھی جس کی ساخت جلد بدلنے والی تھی۔کونیاتی چٹانیں اور بٹے خلاء میں سے اب بھی نازل ہورہے تھے۔ ہر تصادم درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بن رہا تھا۔

زبردست قسم کی توانائی نہایت تیزی سے حرکت کرتے ہوئے اجسام میں جمع ہورہی تھی۔ اور جب وہ چیز زمین سے ٹکراتی تووہ ساری حرکی توانائی اس میں موجود ساری توانائی اس مادّہ میں منتقل ہوجاتی جس سے مادّہ گرم ہو کر پگھل جاتا اسی پگھلی ہوئی حالت میںزمین کافی عرصے تک رہی۔

نوجوان سیارہ اب ٹھوس چٹان کے بجائے پگھلتا ہوا کھولتا ہوا مادّہ تھا یہ مادّہ بالکل کسی کارخانے کے بلاسٹ فرنس سے نکلنے والے مادّے کےجیسا ہی تھا۔

حیران کن طور پر اس سارے عمل نے زمین پر زندگی کی شروعات کو ممکن بنایا۔

جس طرح بھٹی میں پسے ہوئے لوہے کی کچ دھات، دیگردھاتیں اور پتھروں کا مکسچر ڈالا جاتا ہے جہاں بھٹی میں موجودحرارت لوہے کی کچ دھات اور باقی سب چیزوں کو پگھلا دیتی ہے بالکل اسی طرح شروعاتی زمین میں بھی ہواتھا ۔

بھٹی میں درجہ حرارت ٢٧٠٠ ڈگری فارن ہائیٹ تک جا پہنچتا ہے جو لوہے تک کو پگھلا ڈالتا ہے۔

آج سے لگ بھگ ٤۔٥ ارب سال پہلے زمین کی سطح کا درجہ حرارت بھی ٢٧٠٠ ڈگری فارن ہائیٹ ہی تھا۔ ذرا ایک پگھلے ہوئے سیارے کا تصّور کریں تو آپ کو دور گرجتے ہوئے آتش فشاں لاوا اگلتے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہمنظر ہمارے ذہن میں "دانتے" کی(Dante) نظم "انفرنو" (Inferno)کے کسی باب کا نقشہ کھینچ دیتا ہے۔

لوہا اور دیگر دھاتیں چٹانوں سے بھاری ہوتی ہیں۔ لہٰذا پگھلی ہوئی دھاتیں چٹانوں سے الگ ہوکر نیچے بیٹھ گئیں۔یہ بہت ہی حیرت انگیز عمل تھا جس نے ارب ہا سال پہلےپہل زمین کے پہلے قشر کو بنایا جس پر ہم عام زندگی میں چلتے ہیں۔پگھلی ہوئی چٹانیں ٹھنڈی ہو کر زمین کی سطح پر آگئیں جہاں انہوں نے اس کی اوپری پرت بنائی۔ جبکہ پگھلا ہوا لوہا نیچے چلا گیااور زمین کے اندر یہ اس کے قلب تک جا پہنچا ۔ زمین کی چٹانی سطح کے اوپر ہم رہتے ہیں مگر زمین کے پگھلے ہوئے لوہے پر مشتمل قلب کے بغیر ہم میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچ سکتا تھا۔ اس سارےعمل نے لوہے کو دوسری معدنیات سے علیحدہ کردیا تھا۔ جب لوہا قلب میں پہنچا تو اس نے وہاں جاکر آخر کار زمین کے مقناطیسی میدان بنائے جن کی وجہ سے ہم آج تک زندہ ہیں۔

جاری ہے۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
8۔زمین کی خلقت (تیسراحصّہ)
How The Universe Works – Season 2, Episode 8
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پگھلا ہوا لوہا قلب کے اندر گھومنے لگا جس سے زبردست طاقتور مقناطیسی میدان زمین کے گرد وجود میں آگئے جو خلائی تابکاری کے خلاف ایک ڈھال کے طور پر ہمارے کام آتے ہیں۔ مگر ابھی بھی نوزائیدہ زمین کافی چھوٹی تھی اتنی چھوٹی کے آج کا ہمارا چاند ماما بھی اس سے بڑا تھا۔ اس نئے بنے ہوئے جہاں نے نا صرف ابھی اور بڑا ہونا تھا بلکہ اس کو اپنا وجود بچا کر ٹکڑوں میں بٹنے سے بھی بچنا تھا۔ ہزار ہا چھوٹے سیارے نظام شمسی میں گھوم رہے تھے جن میں سے کچھ بن بلائے مہمان کی طرح سیدھے زمین کی طرف چلے آرہے تھے۔

نظام شمسی کی عمر ابھی صرف ایک لاکھ سال ہی کی تھی۔ نوجوان زمین اب ایک سیارے جیسی دکھنے لگی تھی۔ یہ ایک کرۂ کی شکل اختیار کر گیاتھا جس کا قلب لوہے پر مشتمل تھا اور اس کی سطح چٹانی تھی۔ اس کے باوجود ہمارا نونہال سیارہ صرف چند میل پر ہی پھیلا ہوا تھا۔اس کو ابھی اپنی دور حاضر والی موجودہ شکل میں آنے کے لئے کافی لمبا سفر طے کرنا تھا۔ اس کو ابھی ٤ ہزار گنا زیادہ اور ضخیم ہونا تھا اور مقابلہ بہت زیادہ سخت تھا۔ ہزار ہا چھوٹے سیارے نظام شمسی میں آوارہ گردی کر رہے تھے جو اکثر ٢٠ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے کسی سے بھی ٹکرا جاتے تھے۔

ہم اس دور کے ان قدیمی تصادموں کے ثبوت زمین پر اب بھی دیکھ سکتے ہیں جیسے کہ امریکی ریاست ایرزونا میں موجود ایک شہابی گڑھا اس بات کی نشانی ہے۔سائنس دانوں کی دلچسپی اس شہابی گڑھے میں اتنی نہیں ہے جو صرف ٥٠ ہزار سال پرانا ہے بلکہ اس سیارچے کی باقیات میں ہے جس نے زمین کی سطح میں چھید کرکے اس شگاف کو ڈالا ہے ۔وہ سیارچہ ٤۔٥ ارب سال پرانا ہوگا۔

ماہرین کا خیال ہے کہ ایک سیارچہ شروعاتی نظام شمسی میں بہت ہی خطرناک اور شدید قسم کے حادثے میں بچ نکلا ہوگا۔یہ سیارچہ خلاء میں ارب ہا سال سے آوارہ گردی کرتارہا ہوگا اور پھر کسی وقت زمین کی طرف آ نکلا ہوگا اور پھر اس کی زمین سے ٹکر ہوگئی ہوگی۔ ماہرین کا مقصد اس سیارچے کا ٹکرا تلاش کرنا تھا ، جو اس دور کا باقی بچ جانے والا ملبہ ہو سکتا تھا جب سیارے ارتقاء پذیر ہورہے تھے۔

یہ شہابی گڑھا ایک ایسی ٹکر کا نشان ہے جو ٥٠ ہزار سال یا اس سے بھی پہلےوقوع پزیر ہوا ہوگا اور اس ٹکر میں بہت سے ٹکڑے زمین کی سطح سے باہر نکل گئے ہوں گے۔

ماہرین کومکمل یقین ہے اصل سیارچہ لوہے سے بھرپور ہوگا لہٰذا اس سیارچے کی باقیات کے ثبوتوں کی تلاش کے دوران انہوں نےمیٹل ڈٹیکٹر ز کی مدد لی جس نے کئی گھنٹوں کی زبردست محنت اور کڑی مشقت کے بعد اس بات کی تصدیق کردی کہ ان کا خیال صحیح تھا۔ ان جدیدمیٹل ڈٹیکٹرز ہونے کے باوجود شہابیوں کو ڈھونڈھ نکالنا ایک مشکل کام تھا ۔ ان شہابی ٹکڑوں کی کھوج کےشروع میں ماہرین کو بہت سے غلط سگنل ملے کبھی کوئی لوہا کا بولٹ مل جاتا تو کبھی لوہے کی تارمل جاتی۔

کئی گھنٹوں کی تلاش اور کئی فالتو چیزوں کے ملنے کے بعد آخر کارقسمت نے یاوری کی اور ان ماہرین کو شہابیے کا ثبوت مل ہی گیا۔یہ شہابیہ ٩٠% لوہے اور ١٠% نکل پر مشتمل تھا جو صرف ایک چھوٹے سیارے کے قلب میں ہی بن سکتا تھا۔ یہ چھوٹا سیارہ جہاں کہیں سے بھی آیا تھا اس زبردست حادثے میں کچلا گیا ہوگا۔ شروعاتی نظام شمسی میں ایک طوفان بدتمیزی مچی ہوئی تھی چھوٹے سیارے دوسرے چھوٹے سیاروں کے ساتھ ٹکرا رہے تھے جس سے کچھ کے پرخچے اڑ گئے تھے اور صرف ان کے قلب ہی باقی بچ گئے تھے۔ یہ واقعی نہایت فتنہ انگیز دور تھا۔

پورے کے پورے جہاں ان تصادموں میں سکڑ کر صرف چٹان اور دھاتوں کے ٹکڑے ہی رہ گئے تھے۔ ابتدائی نظام شمسی میں اس قسم کے واقعات بہت ہی عام تھے۔ نوزائیدہ زمین کا وجود خطرے میں تھا۔ اس دور کا نام "دیوتاؤں کی لڑائی "(Titanomachia) رکھا گیا ہے۔ سارے چٹانی سیارے جس میں ہماری زمین بھی شامل ہے اس دور سے گزرے ہیں۔ کبھی کبھار وہ پورے کے پورے پاش پاش ہوجاتے تھے تو کبھی کوئی ایک دوسرے کو ہضم کرلیتا تھا۔

بڑے سیارے ایک طرح سے شدید جنگ جیتنے میں مصروف تھے اس بات کا مقابلہ جاری تھا کہ ان میں سےکون سب سے زیادہ اپنے پڑوسی سیارچوں کو ہضم کرتا ہے۔

یہ جنگ ٣ کروڑ سال تک جاری رہی۔ آخر کار ہزاروں چھوٹے سیاروں نے مل کر کچھ بڑے سیارے بنائے جن کے نام تھے، عطارد، زہرہ، زمین، مریخ اور تھیا ۔ پانچویں سیارے تھیا نے بننے کے بعد ہماری زمین کی طرف دور لگادی جس سے ہماری زمین کا اس دور کا آخری ٹکراؤ ہوا ۔ تھیا کا حجم مریخ کے جتنا تھا یہ اتنا بڑا تھا کہ زمین کو تباہ کر سکتا تھا۔ اگر ایسی کوئی چیز ہماری زمین سے سیدھی جاکر ٹکراتی تو وہ زمین کو ریزہ ریزہ کردیتی اور آج سیارہ زمین کا وجود نہیں ہوتا۔

اگر مریخ کے حجم کایہ سیارہ زمین سےبالکل سیدھا آکرٹکراتا تو شاید اس نظام شمسی میں ایک اور سیارچوں کی پٹی اس جگہ موجود ہوتی جہاں آج زمین ہے۔
[​IMG]تصویر نمبر ٤ - Theia and Earth Collision by Zonnee, on Flickr
مگر زمین کی خوش قسمتی تھی کہ بجائے سیدھی ٹکر کے تھیا زمین سے اچٹتا ہوا ٹکرایا(تصویر نمبر ٤)۔ یہ ٹکراؤ زمین کی تاریخ کا سب سے شدید اور خطرناک تصادم تھا۔ اس ٹکر نے زمین کو دوبارہ پگھلی ہوئی حالت میں پہنچا کر ایک ایسی جگہ میں تبدیل کردیا تھا جہاں ایک ٦٠٠ میل گہرا وسیع میگما موجود تھا۔ زمین اس حادثے میں بمشکل بچ پائی تھی۔ اور اس حادثے نے ہمارے جہاں کو مکمل طور پر بدل دیا تھا۔ اتنا مادّہ خلاء میں بکھر گیا تھا جو ایک پورے امریکہ جتنا چوڑا چٹانی پہاڑ جس کی اونچائی ١٠ ہزار میل کی ہو بنا سکتا تھا۔ اس تصادم میں کافی ساری توانائی پیدا ہوئی اور بہت سارا ہنگامہ مچا۔ کافی سارے مادے کی مقدار خلاء میں زمین کے مدار میں جا پہنچی اس دھول نے زمین کے گرد زبردست حلقے بنا دیے(تصویر نمبر ٥) پھر انہوں نے مل کر زمین کے گرد دو چٹانی اجسام بنا لئے جو زمین کے گرد چکر کاٹ رہے تھے۔
[​IMG]تصویر نمبر ٥ - Earth moon formation by Zonnee, on Flickr
٤ ارب سال پہلے کوئی سیارہ مریخ جتنی چیز زمین سے ٹکرائی جس میں کافی سارا مادّہ خلاء میں چلا گیا اب سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس حادثے میں صرف ایک نہیں بلکہ دو چاند بن گئے تھے (تصویر نمبر ٦)۔ دسیوں لاکھوں سال زمین کے آسمان پر ان دو چاندوں کی حکمرانی رہی آخر کار وہ دونوں ایک دوسرے سے قریب ہوتے ہوئے آپس میں ٹکرا گئے۔ دو نوں چاند وں کے انضمام سے ایک بڑا چاند وجود میں آیا جو آج ہمیں آسمان میں نظر آتا ہے۔
[​IMG]تصویر نمبر ٦ - Earth_with_two_moons by Zonnee, on Flickr
نظام شمسی میں ہمیں کسی بھی سیارے کے مقابلے میں اتنا بڑا چاند نظر نہیں آتا جتنا بڑا چاند ہماری کرۂ ارض کا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ ہم ثنائی جہاں کے رہنے والے ہیں جہاں دو دنیائیں ایک دوسرے کے گرد چکر لگا رہی ہیں۔

اتنے بڑے چاند کے بغیر ہمارا وجود اس دنیا میں قائم رہنا ناممکن تھا۔

چاند نے حیات کی بقاء کے لئے ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے اس نے زمین کے مدار کو پائیداری اور استحکام فراہم کیا ہے۔

چاند نے زمین کی محوری گردش کو ایک زاویہ پرگھومنے میں مدد کی ہے جس سے ہمارے موسموں کو ایک جیسا رہنے میں آسانی ملی ہے۔ زمین کی ایک ہی زاویہ پر محوری گردش کرتے ہوئے سورج کے گرد چکر لگانے کی وجہ سے باقاعدہ موسم وجود میں آئے جو حیات کی بقاء اور اس کے ارتقاء کے لئے لازمی تھے۔ زمین نہ ہی بہت زیادہ گرم ہے نہ ہی بہت زیادہ ٹھنڈی ہے اور اس کا سبب ہماری سورج سے مناسب دوری اور ہماراضخیم چندہ ماما ہیں۔

زمین برف اور بخارات سے ڈھکنے کے بجائے بہتے ہوئے مائع پانی سے ڈھکی ہوئی ہے۔مگر یہ بہتا ہوا پانی ضرور کہیں اور سے آیا ہے۔ نوزائیدہ دنیا تو بہت ہی زیادہ خشک تھی۔ پانی حاصل کرنے کے لئے ہماری زمین کو دوبارہ سے مصیبت جھیلنی تھی۔

یہ اس زمانے کی بات ہی جب سورج کو روشن ہوئے صرف ٥٠ کروڑ سال ہی ہوئے تھے۔آج سے ٤ ارب سال پہلے اس زمین پر جس پر حضرت انسان کو قدم رکھنا تھا وہاں اس کے پڑوس میں تازہ تازہ چاند بنا تھا اوروہ خود ایک صحرائے بے آب کی مانند تھی۔فلکیات کی دنیا میں یہ خیال سب سے زیادہ حیرت انگیز ہے کہ جن عوامل کے تحت زمین وجود میں آئی تھی اس کے نتیجے میں زمین کو گرم اور خشک ہی پیدا ہونا تھا ۔ شروع میں یہاں پر پانی نہیں تھا۔ جیسے ہی سیارہ زمین وجود میں آئی تھی ویسے ہی سورج کی زبردست تپش نے پانی کو بخارات بنا کر اڑا دیا تھا۔ سورج سے دور درجہ حرارت کافی ٹھنڈا تھا لہٰذانظام شمسی کے بیرونی حصّے میں برف اور پانی دم دار ستاروں اور سیارچوں میں جمع تھا جبکہ سورج سے قریب نوزائیدہ دنیا خشک تھی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیا ہوا جس سے ایسی تبدیلی آگئی کہ اب ہماری دنیا میں ایسا حیرت انگیز اور شاندارمسلسل رواں دواں پانی کا چکر موجود ہے۔ غالب امکان یہ ہے کہ زمین پر پانی کہیں باہر سے ہی آیا تھا۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

 

How The Universe Works – Season 2 کی آخری قسط کا آخری حصّہ ملاحظہ کیجئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
8۔زمین کی خلقت (چوتھا اورآخری حصّہ)
How The Universe Works – Season 2, Episode 8
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ہمیں ایک ایسا نظام شمسی چاہئے جہاں کافی سارا پانی موجود ہو تو اس کے لئے اس نظام میں موجود پانی کو باہری حصّے سے اندرونی حصّے کی طرف لانا ہوگا اور یہ کام دمدار ستاروں اور سیارچوں کی مدد سے ہی کیا جاسکتا ہے۔

دم دار تارے اور برفیلے سیارچوں میں پانی کی زبردست مقدار محفوظ تھی مگر وہ اس وقت نوزائیدہ زمین سے کروڑں میل دوری پر تھے ۔ اس وقت کچھ ایساواقعہ رونما ہواہوگا جس نے نظام شمسی اور زمین پر کافی کچھ تبدیل کردیاتھا۔ اس واقع میں سیارچوں اور دم دار تاروں کوکسی چیز نے پورے نظام شمسی میں اچھال دیا تھا۔ مشتری ، زحل،نیپچون اور یورینس نےمل کر نظام شمسی میں بھونچال مچا دیا تھا۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب نظام شمسی بہت زیادہ جوان تھا۔ لہٰذا جس طرح نوجوانی میں لڑکے لڑکیاں اپنی من مانی کرتے ہوئے ہلا گلا کرتے ہیں بالکل اسی طرح سے ان سیاروں نے بھی کیا۔

نوزائیدہ سیاروں کو اپنے مداروں میں ابھی پائیدار استحکام نہیں ملا تھا۔ ان کے بدلتے مداروں کی وجہ سے مشتری اور زحل ایک پیچیدہ سےعمل میں محو رقص ہوگئے تھے۔ جب بھی زحل سورج کے گرد ایک چکر پورا کرتا تو مشتری سورج کے گرد دو چکر مکمل کرتا تھا۔ لہٰذا وہ ہمیشہ ایک مخصوص جگہ پرپہنچ کر ایک دوسرے کے آگے پیچھے موجود ہوتے تھا۔ ہر دفہ قوّت ثقل انہیں ایک ہی سمت میں دھکیل دیتی تھی۔ پہلے انہوں نے اپنے مداروں کو اور پھر بعد میں پورے نظام شمسی کواتھل پتھل کردیا۔ پورا نظام درہم برہم ہوگیا ۔

سیاروں کی طوفان بدتمیزی شروع ہوچکی تھی۔ اس تمام افراتفری کے دوران نیپچون اور یورینس نے اپنے مدار ایک دوسرے سے بدل لئے تھے۔ زحل اور آگے کی طرف دوڑ پڑا۔ ان دیوہیکل سیاروں نے ارب ہا سیارچوں اور دم دار تاروں کو نئے مداروں میں دھکیل دیا ۔ جن میں سے کئی نے زمین کا رخ کرلیا تھا ۔

سیارچے اور دم دار تارے پورے نظام شمسی میں پھیل گئے جس میں سے کچھ زمین اور چاند سے جا ٹکرائے ۔

کونیاتی میزائلوں نے زمین پر بمباری شروع کردی تھی ۔

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ زمین کا ہر انچ حصّہ ان دمدار تاروں یا سیارچوں سے ہونے والے تصادموں کی زد میں آیا ہوگا۔ظاہر سی بات ہے کہ اس وقت زمین رہنے کی جگہ توبالکل نہیں ہوگی۔

یہ بمباری ایک ارب سال تک اس وقت تک چلی جب تک ان گیسی دیو سیاروں نے اپنے مداروں میں استحکام حاصل نہیں کرلیا تھا جس سے نظام شمسی میں بھی دوبارہ سکون ہوگیا تھا۔خود زمین پر بھی بنیادی تبدیلی رونما ہوگئی تھی ۔ ان دمدار ستاروں میں چٹانی پتھروں کے علاوہ جمع ہوا پانی برف کی صورت میں موجود تھا۔ ہمیں معلوم ہے کہ دم دار ستارے برف سے بنے ہوتے ہیں یہ برف کی گندی گیندوں کی مانند ہوتے ہیں جبکہ سیارچے بھی زمین پر برف اور پانی لانے کا سبب بنے ہیں۔ ہمارے بھرے ہوئے سمندر اسی کونیاتی طوفان کے مرہون منّت ہیں۔

جب آپ اگلی دفہ پانی پئیں تو یاد رکھیے گا کہ آپ دم دار ستارے یا سیارچے کا جوس پی رہے ہیں۔

پانی کی آمد وہ حتمی چیز تھی جس نے زمین کو رہنے کے قابل بنایا تھا۔ تباہی اور بربادی کے یکے بعد دیگرے شروع ہونے والے ہنگامہ خیز سلسلوں نے ایک ایسے جہاں کی تخلیق کی جو حیات کے لئے بالکل موزوں تھا۔سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کائنات میں دوسرے ستاروں کے گرد کہیں اور بھی ہوا ہوگا ؟یا پھر ہم اکیلے ہی ہیں؟ ہم یہاں اس سیارے پر کیسے آئے ؟ کرۂ ارض خوش قسمتی سے غیر معمولی واقعات کے وقوع پزیرہونے کے نتیجہ میں وجود میں آئی ہے۔

٥ ارب سال پہلے ، اس بات کا امکان بہت ہی کم تھا کہ زمین جیسا سیارہ ایکایسے ستارے کے گرد بن جائے گا جو ملکی وے کہکشاں کےنہایت ہی عام سے بازو میں واقع ہوگا۔ کرۂ ارض کا وجود میں آنا اتنا ہی حیرت انگیز ہے جیسے کوئی دو پانسوں کو جن میں ہزار ہا اعداد موجود ہوں پھینک کر ایک ساتھ دو چھکے حاصل کرلے ۔

ہم جانتے ہیں کہ ایسا ایک دفہ تو ہوچکا ہے ورنہ ہم یہاں یہ بات کرنے کو موجود نہیں ہوتے مگر اس بات کا کیا امکان ہے کہ ایسا کائنات میں کہیں اور بھی ہوا ہوگا اور وہاں اس سیارے پر بھی حیات موجود ہوگی اور وہاں وہ چیزیں بھی موجود ہوں گی جو کہ ہمارے سیارے پر حیات کے جاری و ساری رہنے کے لئے لازمی ہیں۔ ان بنیادی چیزوں میں مناسب درجہ حرارت، پائیدار چاند،ایک حفاظت کرنے والا مقناطیسی میدان، اور بالکل صحیح مقدار میں پانی شامل ہیں ۔ تمام عوامل کو بالکل ٹھیک اسی حالت میں ہی ہونا چاہئے جس حالت میں وہ اب موجود ہیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود حیران کن طور پر کائنات میں لاتعداد طور پر ہمارے جیسے جہاں موجود ہوں گے جو اس بات کے انتظار میں ہیں کہ کب ہم ان کو تلاش کرتے ہیں۔ کائنات اس قدر وسیع ہے کہ ہم ایک دن کبھی بھی کیپلر خلائی دوربین کی مدد سے ایک ایسا سیارہ ضرورڈھونڈھ نکا ل لیں گے۔

جیف مرسی کیپلر خلائی دوربین کے مشن کو انویسٹیگیٹر ہیں وہ کیپلر مشن کے بارے میں بتاتے ہیں "اس دوربین کا ایک ہی مقصد ہے کہ زمین کے حجم کا زمین جیسا سیارہرات کو آسمان میں دکھائی دینے والے کسی دوسرے ستارے کی گرد ڈھونڈا جائے"۔

زمین جیسے سیارے کو ڈھونڈھنا فنی طور بہت مشکل ہے۔ کیپلر سے پہلے ماہرین فلکیات نے ٢٠ برسوں میں صرف ٥٠٠ کے قریب سیارے تلاش کیے۔جس میں سے زیادہ تر گیسی دیو تھے جو زمین سے سینکڑوں گنا زیادہ بڑے تھے۔ کیپلر کے بعد سے ان کی تعداد میں ایک دم سے اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔

کیپلر اب تک کچھ ہزار متوقع سیارے ڈھونڈ چکی ہے جن میں سے کئی تو متعدد سیارگان نظام کا حصّہ ہیں۔ کہیں ایک، تو کہیں دو،تو کہیں تین، یہاں تک کے ایک ستارے کے گرد چھ سیارے بھی چکر لگاتے ہوئے دکھائی دیے ہیں۔ کیپلر ستاروں کے درمیان سیاروں کی نہ تھمنے والی تعداد کو ڈھونڈ رہی ہے۔

ابھی تک کیپلر نے زمین کے حجم سے دوگنا سیارہ اس جگہ پر ڈھونڈا ہے جہاں زندگی کے لئے بالکل مناسب درجہ حرارت موجود ہے۔ ابھی تو ہمیں نہیں معلوم کہ اس سیارے کی باقی خصوصیات زمین کی طرح ہیں کہ نہیں جیسے کہ مائع بہتے ہوئے پانی کا موجود ہونا وغیرہ۔ اگر یہ سیارہ، زمین کے جیسا نہ بھی ہو تو بھی دوسرے درجنوں سیارے ایسے موجود ہیں جو زمین کے جیسے ہو سکتے ہیں۔ کیپلر نے تو ابھی سیاروں کی بہت ہی کم تعداد کو ڈھونڈا ہے اس کی وجہ ہے کہ اس نے ابھی آسمان میں موجود کہکشاں کا بہت ہی چھوٹا سا حصّہ کھنگالا ہے ۔

ابھی تو یہ دوربین پورے آسمان کو دیکھ بھی نہیں رہی ہے یہ تو بس ابھی کہکشاں کے ایک چھوٹے سے حصّوں میں ستاروں کا جائزہ لے رہی ہے۔ یہ اتنا چھوٹا حصّہ ہے کہ اگر ہم اوپر دیکھیں تو ہمارے انگھوٹے کے جتنا حصّہ ہی ہوگا۔

ہماری پوری کہکشاں میں لگ بھگ ٢ کھرب ستارے موجود ہیں جن میں سے اکثر کے گرد سیارے موجود ہیں۔

کیپلر اور دوسرے ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کی بنا پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان میں سے آدھے بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ ستاروں کے گرد سیارے موجود ہوں گے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف ملکی وے کہکشاں میں ہی کم از کم ایک کھرب سیارے موجود ہوں گے۔ زمین کے جیسے عالم ہو سکتا ہے عنقا ہوں مگر اس بات کا قوی امکان ہے کہ ایسے سیارے موجود ضرور ہوں گے۔ ایسا کوئی بھی امکان کہ سیارہ زمین جیسا کوئی سیارہ ممکن ہو بہت ہی کم ہوگا مگر جب کائنات میں بے تحاشہ ستارے موجود ہیں تو ایسے سیارے کا بننا بھی ناممکن بہرحال نہیں ہے۔ اور جب آپ کے پاس بہت زیادہ سیارے موجود ہوں گے تو کوئی نہ کوئی تو اس میں سے زمین کے جیسا بھی ہوگا۔ ہماری کہکشاں میں اس قدر سیارے ہیں کہ دس لاکھ میں ایک کا بھی امکان موجود ہو تو زمین کے جیسے ہزار ہا سیارے موجود ہوں گے۔

ہمارے کائنات میں کلی طور پر دسیوں کھرب کہکشائیں موجود ہیں جن میں سے ہر ایک کم و بیش ہماری کہکشاں ملکی وے جیسی ہے ۔لہٰذا ہماری کائنات میں سیاروں کی لامحدود تعداد موجود ہے۔

خلائی دنیائیں کائنات میں ہر جگہ موجود ہوں گی۔

اگرچہ کائنات میں موجود تمام سنساروں میں سے کوئی ایک سنساربھی ہم اپنے جیسا ابھی تک دریافت نہیں کرسکے ہیں ۔ لیکن اگر شماریات کی زبان میں بات کی جائے تو اس بات کا ١٠٠ فیصد امکان ہے کہ کائنات میں کھرب ہا سیارے زمین کے جیسے موجود ہوں گے۔

اور اتنی بڑی تعداد میں زمین جیسے سیاروں کی موجودگی میں اس بات کا بھی غالب امکان ہے کہ وہاں پر ذہین مخلوق بھی موجود ہوگی۔ ماہرین فلکیات و کونیات تو شرطیہ کہتے ہیں کہ زمین کے جیسی دنیائیں اس کائنات میں ضرور موجود ہوں گی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ کائنات میں کہیں پر ذہین بولنے والی مخلوق اپنے آپ سے سوال کر رہی ہوگی کہ "کیا کائنات میں ہمارے علاوہ کہیں اور بھی کوئی ذہین مخلوق موجود ہے؟"

زمین کے جنم کی کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ یہ بات بعید از قیاس ہے کہ ہم کائنات میں اکیلےہی موجود ہوں۔ سوال یہ نہیں ہے کہ کیا ہم اکیلے ہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ ہمارے پڑوسی ہم سے کتنی دور ہیں اور ہم کب ان سے مل رہے ہیں۔

تمام شد۔۔۔۔۔