آفاق کی یہ کارگہ شیشہ گری - حصّہ دوم - 7۔سیارچے – ان دیکھے جہاں

مجالس:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
7۔سیارچے – ان دیکھے جہاں (پہلا حصّہ)
How The Universe Works – Season 2, Episode 7
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"سیارچے"(Asteroids) کرۂ ارض کےازلی حریف ہیں وہ زمین پر ارب ہا برسوں سے حملہ آ ورہوتے رہے ہیں۔

ان کی تخلیق کا عمل صرف چند سیکنڈ ز پر ہی محیط ہوتا ہے۔٥٠ ہزار سال پہلے وہ دن اس دور میں جینے والے کسی بھی شخص کے لئے بھی بہت ہی بھیانک دن ہوگا۔

سیارچے دھاتوں سے بھرپور بڑے چٹانی "بٹے" (Boulders)اورمعدنیات کا بہت ہی قیمتی ذریعہ ہوتے ہیں۔ یہ برفیلی چھوٹی دنیائیں سیارہ زمین پر موجود تازے پانی سے بھی زیادہ پانی اپنے اندر ذخیرہ کئے ہوئے ہیں۔

آخر میں سیارچے ہی وہ پہلا قدم ہوں گے جن پر چڑھ کر ہم نظام شمسی کو چھوڑ دیں گے۔

سیارچوں نے ہی سیاروں کی تخلیق کی ہے۔ان کے بغیر ہماری دنیا موجود نہیں ہوتی ۔ ہماری موجودگی ان ہی کی مرہون منّت ہے۔ یہ وجود و فنا کو بانٹنے والے اجسام ہیں۔

رات کا آسمان ستاروں ، کہکشاؤں،سیاروں، اور سیارچوں سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ سیارچوں کا مطلب ہے ستاروں کے جیسا۔بہترین دوربینوں سے دیکھنے پر بھی یہ آسمان پر روشنی کے ایک نقطہ سے زیادہ کچھ نہیں لگتے۔ یہ کونیاتی چٹانی بٹے ہیں اور ان جیسے کھرب ہا اجسام جن کا حجم ایک کار سے لے کر عظیم الجثہ سینکڑوں میل پر پھیلے ہوئےحجم تک ہے موجود ہیں۔ یہ سب مل کراپنے وجود کی اپنی تخلیق کی کہانی سنا رہے ہیں۔

زمین ان سیارچوں کی مدد سے ٤۔٥ ارب سال پہلے اس وقت وجود میں آئی جب نظام شمسی ایک وسیع کونیاتی بھنور تھا۔ گرد ایک دوسرے سے جڑتی رہی اور سیارچے بناتی رہی۔ہمارے نظام شمسی میں یا یوں کہہ لیں کہ ہر نظام شمسی میں سیاروں سے پہلے بننے والی چیز بڑی چٹانیں ہی ہوتی ہیں جن کو ہم سیارچے کہتے ہیں۔اس وقت تک کوئی سیارہ نہیں بنا ہوتابس یہ سیارچے ہی ہوتے ہیں یہ چٹانوں اور پتھروں کے ٹکڑےسورج کے گرد گھومتے ہوئے بھنور سا بنا دیتے ہیں(تصویر نمبر ١)۔ اس وقت بننے والا نظام شمسی ایک بہت ہی عجیب و غریب سی جگہ ہوگی جہاں ایک گول جھولے کی طرح سیارچے اور اسی قسم کی چیزیں سورج کے گرد چکر کاٹ رہی ہوں گی ۔یہ ہر رنگ و نسل کےہوں گے اور جن کی تعداد کئی کھرب ہوگی۔
[​IMG]تصویر نمبر ١ - Birth of Asteriods by Zonnee, on Flickr
یہ قدیمی سیارچے ہی ہمارے نظام شمسی کو اس کی موجودہ ساخت ودیعت کریں گے اور اس سیارے کوبنائیں گے جس پر ہم مقیم ہیں۔ سیارچے خلاء میں موجود صرف چٹانوں کے ٹکڑے ہی نہیں ہوتے بلکہ یہ سیاروں کی بنیادی اینٹیں ہوتی ہیں۔ ارب ہا چھوٹے سیارچوں نے مل کر سیاروں کو بنا یا ہوگا۔اس وقت ان کی رفتار کئی ہزار میل فی گھنٹہ ہوگی جس سے چپک کر انہوں نے بہت سخت شکل اختیار کرلی ہوگی۔

یوں سمجھ لیں کہ یہ ایک کار ریس کی طرح کا میلہ ہوگا۔ جس طرح تیز رفتار کاروں کے تصادم نقصان پہنچاتے ہیں اور ان کے کچھ حصّے تباہ ہوجاتے ہیں بالکل اسی طرح سیارچوں کی آپس کی ٹکر سے بھی ہوتا ہے۔ایک ساتھ رہنے کے لئے ان کو آپس میں ٹکرانا تو پڑتا ہی ہوگا۔ کار کی دوڑ میں جس طرح ہوتا ہے کہ وہ سب ایک ہی سمت میں تیزی سے دوڑتی ہیں بالکل اسی طرح سیارچے شروعاتی نظام شمسی میں کر رہے تھے۔ جب تصادم ہوتے تو وہ اتنے خطرناک نہیں ہوتے تھے ۔ کچلے جانے کا بعد بجائے وہ الگ ہوتے وہ ایک دوسرے سے جڑ جاتے تھے۔ یہ ہی عمل سیاروں کے بننے کا سبب تھا۔

ان سیارچوں کی خلاء میں رفتار یکساں تھی لہٰذا انہوں نے آپس میں جڑ کر بڑا ہونا شروع کیا اور اسی عمل کے نتیجے میں سیارے بننے کی شروعات ہوئی ہے۔ سیارچے چٹانوں کے ڈھیر میں بدلنے لگےجس طرح سے دو گاڑیاں آپس میں ٹکرا کر ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں۔ جتنے زیادہ سیارچےآپس میں ٹکراتے اتنے زیادہ وہ بڑے ہوتے جاتےتھے ۔ گرد کے ذرّات کو جڑ کر براہ راست سیارے بننےکےعمل میں کئی ارب سال لگ جاتے مگر سیارچوں کی بدولت ان سیاروں کو بننے میں صرف کچھ لاکھ سال ہی لگے۔ جب چٹانی ڈھیر پہاڑ کے حجم کے ہوگئے تو قوّت ثقل نے اس عمل کو تیز کرنا شروع کردیا۔

قوّت ثقل کی اہمیت اس وقت شروع ہوتی ہے جب وہ کسی پہاڑی کے حجم کے جتنی چیز میں موجود ہو۔ اس وقت جب کسی سیارچے کا حجم کئی میل پر پھیلا ہوا ہو تو قوّت ثقل کی طاقت اتنی ہوتی ہے کہ وہ مادّے کو اپنے پاس کھینچ سکے۔اب فرض کریں کہ زمین موجود نہیں ہے اور صرف ایک چھوٹی سی پہاڑی موجود ہے اور ہم اس کی طرف دورخلاء میں سے تیرتے ہوئے جارہے ہیں تو اس کے پاس پہنچتے پہنچتے ہماری رفتار بڑھتی جائے گی یہاں تک کہ ہم اس سے ٹکرا جائیں۔ اس کی قوّت ثقل ہم کو کھینچ لے گی۔وہ اس وقت تک کھینچتی رہے گی جب تک ہم اس پہاڑی سےجا کر نہ ٹکرا جائیں۔

بڑے سیارچہ خلاء میں ایک طرح سے بڑے پہاڑ ہی کی طرح ہوتے ہیں۔شروعاتی نظام شمسی میں یہ بکثرت پائے جاتے تھے۔ان کی قوّت ثقل دوسرے سیارچوں کو اپنے پاس کھینچتی تھی۔جتنا بڑا سیارچہ ہوگا اتنا ہی زیادہ مادّہ وہ کھینچ سکے گا اور اتنی تیزی سے اس کی نشونما ہوگی۔

اس وقت چیزیں بہت تیزی کے ساتھ وقوع پزیر ہور ہی ہوں گی۔ سیارچے بہت تیزی کے ساتھ مادّے کو کھینچ کر بڑے ہورہے ہوں گے۔

شروعاتی خلائی پہاڑیوں نے اس وقت تک سیارچوں کو کھینچنا جاری رکھا تھا جب تک ان کو وہ میسر تھے اس وقت انہوں نے نوزائیدہ سیاروں کی شکل اختیار کر لی تھی۔ان ہی میں سے ایک سیارہ زمین بنا۔

سارے سیارےیہاں تک کہ ہماری زمین بھی اپنی ابتداء میں ایک سیارچہ ہی تھے۔

یہ ہی ایک طریقہ ہے جس سے تمام چٹانی سیارے وجود میں آئے۔عطارد، زہرہ، زمین اور مریخ سب بڑے ہوتے ہوئے سیارچے ہی تھے۔ مگر مریخ سے آگے تھوڑی دوری پر کچھ معمول سے ہٹ کرکوئی چیز وقوع پذیرہوگئی تھی جس کی وجہ سے کوئی بھی چٹانی سیارہ اس سے آگے موجود نہیں تھا۔وہاں صرف ارب ہا چٹانی بٹے جو کبھی ایک ساتھ نہیں جڑ سکے موجود ہیں جس کو" سیارچوں کی پٹی" (Asteroid Belt)کہتے ہیں۔یہاں سےآگے چٹانی سیاروں کی پیدائش کا عمل مشتری کی وجہ سے رک گیاتھا۔مشتری وہاں پر موجود ان سیارچوں سے پہلے ہی بن چکا تھا۔

مشتری ایک دیوہیکل سیارہ ہے۔اس کی ثقلی قوّت ہر چیز پر اثر انداز ہوتی ہے۔

4.5 ارب سال پہلے مشتری کی قوّت ثقل نے تباہی مچادی۔ اس نے سیارچوں کو ہر سمت میں ہنکا دیا تھا۔بڑے چٹانی بٹے اپنے مداروں سے نکل کر بے ربط مداروں میں چلے گئے۔کاروں کی دوڑ ختم ہوگئی اور گھڑ دوڑ شروع ہوگئی تھی ۔ مشتری کی دخل اندازی نے نظام شمسی میں گھڑ دوڑ شروع کردی۔
[​IMG]تصویر نمبر ٢ - Asteriod Collision - HST by Zonnee, on Flickr
سیارچے آپس میں ٹکراتے ہوئے ہر سمت میں جانے لگے۔ہر سمت میں چٹانیں زبردست افراتفری میں متصادم ہونے لگیں۔ مگراس بار ان چٹانوں نے واپس جڑنا شروع نہیں کیا۔اب انہوں نے ٹوٹ کر سیارچوں کی پٹی بنا دی تھی۔اس پٹی پر خطرناک ٹکراؤ آج بھی جاری ہیں۔٢٠١٠ میں ہبل دوربین نے بہت تیز رفتار سیارچوں کے تصادموں کو تصویر کشی کی(تصویر نمبر ٢)۔ سیارچے تخلیق و فنا دونوں کے ذمے دار ہوتے ہیں۔ ان میں سے اگر کچھ آرام سے ٹکراتے تومزید نئے سیارے بن جاتے ۔ خطرناک طریقے سے ٹکرا کر تو صرف سیارچوں کی پٹی ہی بن سکتی تھی ۔ سیارچوں کی پٹی ارب ہا چٹانوں اور چٹانی بٹوں سے مزین ان سیاروں کا قبرستان بن گیا ہے جو "حسرت ان غنچوں پر جو بن کھلے ہی مرجھا گئے" کے مصداق کبھی سیارے بن ہی نہیں سکے۔ سیارچوں کی پٹی ایک ایسا دیس ہے جو خطرات اور نئے امکانات سے بھرا ہو ا ہے یہ ایک ایسا جہاں ہے جو اپنے کھوجے جانے کا منتظر ہے۔

سیارچے بھی اس قدر متنوع فیہ ہیں جتنے سیارےیا چاند ہوسکتے ہیں۔ان میں سے کچھ دھاتی ہیں،کچھ چٹانی ہیں جبکہ کچھ برف پر مشتمل ہیں۔ ان میں سے کچھ کے تو اپنے چاند بھی ہیں۔ یہ ہر قسم کی شکل اور مختلف حجم کے ہوتے ہیں۔ بٹوں سے لے کر چھوٹے جہانوں تک یہ ہرشکل میں پائے جاتے ہیں۔ ماوراء نظام ہائے شمسی کے اپنے سیارچوں کی پٹیاں موجود ہیں۔"اپسیلون اریڈانی"(Epsilon Eridani) ستارہ ہم سے صرف ١٠ نوری سال دو رہے۔ اس کے ایک کے بجائے دو سیارچوں کی پٹیاں ہیں(تصویر نمبر ٣)۔ایک اور ستارے کی سیارچوں کی پٹی ہم سے ٢٥ گنا زیادہ بڑی ہے۔اگر ہم وہاں پر موجود کسی سیارے پر موجود ہوتے تو ہمیں یہ پٹی رات کو آسمان میں ایک بڑی لکیر کی طرح ملکی وے سے بھی زیادہ روشن نظر آتی۔
[​IMG]تصویر نمبر ٣ Epsilon Eridani Asteriod Belts - Artists Conspt by Zonnee, on Flickr
سیارچوں کی یہ پٹیاں ملبے کا وہ ڈھیر ہیں جو سیاروں کے بننے کے بعد بچ گئی ہیں۔لہٰذا یہ ہمیں اپنے نظام شمسی کے اولین دور کےمتعلق بتا تے ہیں۔ ہماری سیارچوں کی پٹی ہر قسم کے سیارچوں سے بھری ہوئی ہے۔ جہاں لاکھوں سیارچے اپنی اپنی کہانی سنا نے کو بیتاب ہیں۔ اس کے باوجود ہم نے ان کو بمشکل ہی دیکھا ہے۔ یہ صورتحال اب تبدیل ہونے والی ہے۔سیارچوں کی پٹی کی طرف جانے والا پہلا مشن جس کا نام "ڈان کھوجی"(Dawn Probe) ہے اپنے تکمیل کے مراحل پورے کرکے روانہ ہوچکا ہے۔ اس کا مقصد اس پراسرار سلطنت کو کھنگالنا ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
7۔سیارچے – ان دیکھے جہاں (پہلا حصّہ)
How The Universe Works – Season 2, Episode 7
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنس دانوں کو امید ہے کے اس ایک مشن سے ہمیں ان کے بارے میں اس سے کہیں زیادہ معلومات حاصل ہو جائیں گی جتنی ان کو دریافت کرنے سے اب تک ہوئی ہیں۔

جولائی ٢٠١١ میں ڈان اپنے پہلے ہدف تک پہنچ گیا اور اس نے وہاں سے کچھ تصاویر بھیجیں(تصویر نمبر ٤)۔ویسٹا سیارچوں کی پٹی میں دوسرا سب سے بڑا سیارچہ ہے یہ سیارہ بنتے بنتے رہ گیا۔ مشتری کی زبردست قوّت ثقل نے اس کو مزید بڑھنے سے روک دیا۔ آج تو یہ ایک چھوٹا سا جہاں ہے۔ سیارچوں کی پٹی سے متعلق ایک غلط فہمی جو بہت عام ہے وہ یہ کہ ہم سمجھتے ہیں کہ وہاں پر موجودساری چیزیں بہت چھوٹی ہیں۔ مگر وہاں پر موجود کچھ بڑے سیارچوں کو صحیح طور سے تو ہم" چھوٹے سیارے"(Minor Planets) ہی کہہ سکتے ہیں۔ وہ کئی میل پر پھیلے ہوئے ہیں۔ویسٹا پر موجود ایک پہاڑ ماؤنٹ ایورسٹ سے تین گنا زیادہ بڑا ہے(تصویر نمبر ٥)۔
[​IMG]تصویر نمبر ٥ - Vesta-Mountain by Zonnee, on Flickr
ڈان کھوجی نے حیرت کے نئے جہاں وا کردئیے تھے۔سائنس دانوں کے لئے یہ بہت ہیجان انگیز چیز تھی وہ ایک بالکل نئی دنیا دیکھ رہے تھے۔

ویسٹا تو زمین کے اس دور کی تصویر ہے جب وہ امریکی ریاست ایریزونا کے جتنی تھی۔اس کو دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ جیسےکہ زمین کو بنتے ہوئے رحم مادر میں اس وقت دیکھ رہے ہوں جب اس کی عمر کچھ لاکھوں سال ہی کی تھی۔

ڈان کھوجی نے اس بات کا پتا لگالیا تھا کہ ویسٹا کا قلب لوہے پر مشتمل زمین کے قلب جیسا ہی ہے یہ اس بات کا ایک اور ثبوت ہے کہ جب زمین نوجوان تھی تو اس کا قلب بھی ایسا ہی تھا۔ یہ ششدر کردینے والی دنیا ہمیں اس بات کو سمجھنے کا موقع فراہم کرتی ہے کہ ہم کرۂ ارض کے ماضی میں جھانک کر اس کو سمجھ سکیں۔ سائنس دانوں کو وہاں وہ چیزیں دیکھنے کا موقع ملا جس کی وہ توقع نہیں کررہے تھے اور ان چیزوں کو دیکھ کر وہ بہت خوش اور حیران رہ گئے تھے ۔

ویسٹا کے سفر کے بعد ڈان کھوجی سیارچوں کی پٹی کے باہری حصّے کی طرف نکلا تاکہ اس قدیمی برفیلی دنیا کو کھنگال سکے جو ویسٹا سے چار گنا بڑی تھی۔یہاں پر ڈان کھوجی کا مقصد زمین کے ماضی کی ایک اور پہیلی کہ زمین پر سمندر کیسے بنے ؟کو سلجھانا تھا۔سیارچوں کی پٹی قدیمی ، خطرناک اور زمین سے دسیوں کروڑ میل دور ہے ۔ مگر سارے سیارچہ وہاں اس پٹی پر ٹکے نہیں رہتے۔ وہ پورے نظام شمسی میں گھومتے رہتے ہیں۔چاند کی سطح اس بات کی گواہ ہے کہ کس طرح سے ماضی میں ان سیارچوں نے اس پر زبردست برسنا شروع کیا تھا۔ اس بات کا ثبوت ہم ہر رات کواس وقت دیکھتے ہیں جب چاند آسمان پر طلوع ہوتا ہے ۔ چاند کی سطح کو دیکھنے سے پتا لگتا ہے کہ گڑھوں سے بھرپور بنجر زمین ان سیارچوں کی بارش سے ہونے والی بربادی کی کہانی سنا رہی ہوتی ہے جو خلاء سے نمودار ہو کر اس پربرسے اور اس کی سطح کو بگاڑ دیا۔دسیوں لاکھوں گڑھے چاند کی سطح پر پھیلے ہوئے ہیں جس میں نظام شمسی کا اب تک کا دریافت ہونے والا سب سے بڑا گڑھا جو ١٥٠٠ میل پر پھیلا ہوا ہے شامل ہے (تصویر نمبر ٦)اور اس گڑھے میں بھی خود ہزار ہا چھوٹے گڑھے موجود ہیں۔ سیارچوں کے ایک طوفان نے چاند پر آج سے ٤ ارب سال پہلے دھاوا بول دیا تھا۔ اگر ایسا چاند پر ہوسکتا ہے تو پھر زمین پر کیوں نہیں ہوسکتا؟
[​IMG]تصویر نمبر ٦ - Moon-Aitken by Zonnee, on Flickr
زمین چاند سے کافی بڑا اور زیادہ ضخامت والا خلاء میں نشانہ ہوسکتا ہے۔ چاند کے ہر ایک گڑھے کے مقابلے میں زمین پر ٥٠ یا ٦٠ گڑھے ہونے چاہئے تھے۔

ماضی کے یہ ٹکراؤ بہت دہشتناک ہوں گے۔ ہر کچھ ہفتوں کو چھوڑ کر ایک دیوہیکل اجرام فلکی دور دراز خلاء میں سے زمین کی طرح لپک رہا ہوگا اور زمین کی سطح پر سوراخ کرتا ہوا ایک پھانک سی بنا دیتا ہوگا۔

سائنس دانوں نے اس کو"ماضی بعید کی بھاری بمباری" (Late Heavy Bombardment)کا نام دیا ہے۔٢٠ کروڑ سال تک آگ کی گیندوں کی بارش آسمان سے ہوتی رہی ہوگی۔ان ٹکروں سے زمین پر زلزلے آئے ہوں گے جو زمین کی معلوم تاریخ میں سب سے زیادہ خطرناک زلزلوں سے بھی بڑے زلزلے ہوں گے۔١٠ ہزار میل فی گھنٹہ کی زبردست رفتار کے طوفانوں نے زمین کے ابتدائی کرۂ فضائی کو اڑا کر رکھ دیا ہوگا۔ مگر ان سیارچوں نے زمین کو ایک نئی چیز سے بھی روشناس کرایا ۔ ان سیارچوں میں سے کچھ میں برف یعنی جما ہوا پانی بھی تھا جو گرتے ہوئے پگھل کر پانی بن گیا تھا۔ ہر سیارچہ نے اس میں تھوڑا تھوڑا کر کے اضافہ کیا۔اب سوال یہ ہے کہ کیا سیارچے زمین پر اتنا پانی لے کر آئے جس سے اس کا دو تہائی حصّہ ڈھک گیا تھا۔ سائنس دان اس بات کی تلاش میں ہیں کہ زمین پر پانی کہاں سے آیا۔کیونکہ ان کے مطابق زمین اپنی پیدائش کے وقت بہت گرم اور سوکھی ہوئی تھی۔

ناسا کے اس کھوجی ڈان کا مقصد اب اس سوال کا جواب ڈھونڈھناہے ۔ سیارچوں کی یہ پٹی اب بھی برفیلے سیارچوں سے بھری ہوئی ہے جو اس کے ٹھنڈے اور دور دراز والے حصّہ میں موجود ہیں۔٢٠١٥ء ڈان خلائی گاڑی نظام شمسی کے سب سے بڑے سیارچے" سیریز"(Ceres) پر پہنچے گا (تصویر نمبر ٧)۔
[​IMG]Asteroid Ceres with twin jets of steam by Zonnee, on Flickr
سیریزکی کمیت سیارچوں کی پٹی کی کمیت کا ایک تہائی ہے اور یہ کسی بھی دریافت شدہ سیارچے سے چار گنا زیادہ بڑا ہے۔ اس کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ خالص برف کا بنا ہوا ہو۔ سیریز کا اندرونی حصّہ چٹانی ہیں جبکہ اس کی سطح زیادہ تر برف کی ہے۔ یہ سورج سے کافی دور ،ٹھنڈ اور متوازن بھی ہے۔ سیریز صرف ٦٠٠ میل چوڑا ہی ہے مگر اس کے باوجود اس میں زمین پر موجود تازہ پانی سے زیادہ جمی ہوئی برف ہوسکتی ہے۔ ڈان مشن اس بات کا جواب یقینا حاصل کر لے گا کہ اگر سیریز واقعی میں اتنی برف رکھتا ہے تو زمین پر پانی کہاں سے آیا۔جب ٤ ارب سال پہلے زمین پر سیارچوں کی بارش ہورہی تھی تو کچھ سیریز جیسے کچھ ضخیم برفیلے اجسام زمین پر پانی کی کافی مقدار لے کر آئے ہوں گے۔

پانی ، برف کی شکل میں آسمان سے ہی آیا ہوگا تاکہ زمین پر وہ یہ زبردست سمندر بنا سکے۔ اور صرف یہ سمندروں کی بات نہیں ہے، زمین پر موجود دریا، برف کے تودے اور بادل سب کچھ آسمان ہی سے نازل ہوا تھا۔

ہو سکتا ہے کہ ڈان مشن سیریز پر سے کچھ اور اہم انکشافات کرسکے ۔ ہوسکتا ہے کہ وہ وہاں برف کے نیچے کوئی سمندر تلاش کر لے ۔ ایک اندرونی پانی کی سطح جو" بونے سیارے" (Dwarf Planet)کی قلب کی گرمی سے پگھل گئی ہوگی۔ حیات پانی پر انحصار کرتی ہے۔ ہم جہاں پانی پاتے ہیں وہاں زندگی کی رمق بھی مل سکتی ہے۔اگر وہاں پر مائع پانی کا سمندر سطح کے نیچے موجود ہو سکتا ہے تو پھر وہاں حیات کے ہونے یا نہ ہونے کا بھی سوال اٹھ سکتا ہے۔

"ماوراء ارض زندگی"(Extraterrestrial Life) سیارچوں کی پٹی سے بھی شروع ہو سکتی ہے سیریز اس حیات کا گھر ہوسکتا ہے جو سمندر کی سطح کے نیچے پنپتی ہو۔اگر سیارچے جیسے کہ سیریز حیات کو سہارا دے سکتے ہیں تو یہ اس چیز کو سمجھنے میں بھی مدد دے سکتے ہیں کہ زندگی زمین پر کیسے شروع ہوئی تھی۔ ٤ ارب سال پہلے سیارچوں نے زمین پر برسنا شروع کیا تھا اور وہ زمین پر پانی اور شاید حیات بھی ساتھ لے کر آئے تھے۔سیارچوں کی پٹی سے لے کر زمین کے نئے سمندروں تک - ابتدائی جاندار، جو آخرکار زمین پر موجود تمام جانداروں میں بدل گئے - انہوں نے زمیں کو زندگی کا کنارہ بنا دیا۔ ہمارے اولین آباؤ اجداد شاید سیارچوں کی پٹی سے ہی آئے تھے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ چھوٹے سے جہاں پورے نظام شمسی میں زندگی پیدا کرنے کی جگہیں ہوں ۔ اور ہوسکتا ہے کہ دوسرے ستاروں کے گرد بھی ایسا ہی ہوتا ہو۔

سیارچے شاید زندگی اور موت دونوں کو پوری کائنات میں لے کر آتے ہیں ۔مگر ایک دفہ زندگی شروع ہوگئی تو یہ اس کو ختم بھی کرسکتے ہیں۔ سیارچے ایک سکے کے دو رخ ہیں۔ تخلیق و فناان میں لپٹی ہوئی ہے ۔ کرۂ ارض خلائی بمباری کی عین زد میں ہے ۔

حالیہ دور میں سائنس دانوں نے اس بات کو سمجھ لیا ہے کہ ہم کائناتی بموں کے بالکل عین نشانے پر ہیں۔ خلانوردوں خوداس تجربے سے گزرے ہیں۔ جب اپالو ٩ مشن پر موجود ایک خلانورد خلاء میں گئے تو جیسے ہی وہ خلائی جہاز سے باہر کی جانب نکلے تو وہ آسمان سے آتے ہوئے ایک سیارچہ کے ٹکڑے سے بال بال بچے اگر وہ ان سے ٹکرا جاتا تو ان کے خلائی سوٹ میں سوراخ کر دیتا۔ زمین کے اس پاس زیادہ تر اجسام بہت چھوٹے ہیں مگر ان کی رفتار ہزار ہا میل فی گھنٹہ ہے ۔ خلائی سوٹ بہت مظبوط ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بھاری بھی بہت ہوتے ہیں مگر ابھی تک کسی سیارچے نے اس میں سوراخ نہیں کیا ۔ زمین میں بھی ان چھوٹے سیارچوں سے بچنے کی ایک حفاظتی تہ جسے ہم کرۂ فضائی کہتے ہیں موجود ہے۔ جب کوئی سیارچہ کرۂ فضائی سے ٹکراتا ہے تو وہ جل جاتا ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
7۔سیارچے – ان دیکھے جہاں (تیسرا حصّہ)
How The Universe Works – Season 2, Episode 7
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک خلاء نورداپنے ماضی کی یاد کچھ اس طرح بتاتے ہیں کہایک رات جب وہ خلاء سے زمین کے اندھیرے حصّے کی طرف دیکھ رہے تھے تو ان کو وہاں کبھی کبھار روشنی کے جھماکے نظر آتے تھے جو بعد میں جا کر ان کو سمجھ میں آئے کہ وہ تو ٹوٹتے ہوئے تارے دیکھ رہے ہیں۔

زیادہ تر لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ اگر وہ رات میں گھاس پر لیٹے ہوئے آسمان پر دیکھیں تو ان کو ہر گھنٹے میں کئی ٹوٹتے تارے نظر آئیں گے ۔
[​IMG]تصویر نمبر ٨ - Arizona Crater by Zonnee, on Flickr
ان میں سے اکثریت کی تعداد ریت کے ذروں جتنی ہوتی ہے۔یہ ہوا میں ہی جل جاتے ہیں مگر بڑی چٹانیں کرۂ فضائی کاسینا چاک کرتی ہوئے سیدھی زمین سےجاٹکراتی ہیں۔ اس بات کا ثبوت ایک شہابی گڑھا امریکی ریاست ایریزونا میں موجود ہے(تصویر نمبر ٨) جو کسی سیارچے نے ١٥٠ فٹ تک کا چھید بنا دیا ہے۔اس کو دیکھ کر اس زبردست طاقت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جس نے اس کو کھودا ہوگا اور ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ وہاں پر موجود مٹی اوپر نیچے ہوگئی اور کچھ چٹانیں تو بالکل ہی الٹی ہوگئیں ہیں۔

اس قسم کے دسیوں لاکھوں ٹکراؤ زمین کے ماضی میں ہوئے ہوں گے اور شاید مستقبل میں بھی اس سے زیادہ ہوں۔کسی شہر کا تصّور کریں جہاں کوئی شہابی گڑھا موجود ہو۔ وہاں کوئی آسمانی گیند بہت تیزی سے آئی ہوگی اس کی رفتار ٨ میل فی سیکنڈ ہوگی لہٰذا وہ زمین سے ٹکرا نے میں زیادہ دیر نہیں لگائے گی۔ اس آگ کی گیند کی حرارت سطح کو گرم کردے گی۔مگر زیادہ نقصان ٹکر کے بعد ہوگا۔ایک دفہ جب یہ زمین سے ٹکرا جائے تو یہ بہت ہی کم وقت میں گڑھا بنا دے گی۔بہت ہی کم وقت میں بہت زیادہ مقدار میں توانائی خارج ہوگی جس کے بہت ہی زیادہ تباہ کن اثرات ہوں گے۔ سیارچہ زمین سے ٹکرا کر ختم ہوتے ہوئے ایک زبردست صدماتی موج پیدا کرے گا جس کے نتیجے میں کسی بھی طاقتورطوفانی آندھی کی رفتار سے چھ گنا زیادہ تیز ہوائیں پیداہوں گی۔

اس تصادم کے بعد اس میں سے ایک جھکڑ نکلے گا جو کئی میل پر پھیلاہوا ہوگا اور بہت زبردست دھول بھی نکلے گی جو عمارتوں اور گھروں کو تباہ کردے گی۔ اگر خدانخوستہ وہ شہابی ٹکڑاجس نے ایریزونا میں شگاف بنایا ہے آج کسی شہر سے ٹکرائے توپورے کے پورے شہر کو تباہ کر دے گا۔مگر یہ شہابی گڑھا والا سیارچہ بہت چھوٹا تھا۔ یہ کسی بہت بڑے سیارچہ کا ایک ٹکڑا تھا۔جو بھی کچھ وہاں ایریزونا میں ٹکرایا تھا وہ کوئی بڑی چیز نہیں تھا۔ شاید وہ ٥٠ گز لمبا ہی تھا جو فٹ بال کے میدان جتنا بھی بڑا نہیں تھا۔

خلاء میں دسیوں لاکھوں سیارچے ایریزونا میں ٹکرانے والے شہابی سیارچے کے ٹکڑے سے کہیں زیادہ بڑے موجود ہیں۔وہ اس سےبھی زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں پورے کے پورے ملک تباہ کرسکتے ہیں یا شاید اس سےبھی زیادہ۔ کوئی بھی سیارچہ جو آدھے میل لمبا ہو پوری کی پوری انسانی تہذیب کودنیا سے ختم کرسکتا ہے۔یہ ہم اس لئے جانتے ہیں کیونکہ یہ اس سے پہلے بھی ہوچکا ہے۔

اور یہ کوئی خیالی بات نہیں ہے اس بات کے ثبوت ہر جگہ پوری دنیا میں موجود ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس وقت وہ ہمارے پیروں کے نیچے بھی موجود ہوں۔
[​IMG]تصویر نمبر ٩ - KT Boundary by Zonnee, on Flickr
کچھ جگہوں پر تو ان کو ڈھونڈھنا بہت ہی آسان ہے۔جیسے کہ امریکی ریاست" کولوراڈو" (Colorado)میں ایک ہلکے رنگ کی چٹان جس کو" کے ٹی سرحد" (KT Boundary)کہتے ہیں موجود ہے(تصویر نمبر ٩)۔ اس کو سرحد اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس نے دو زمانوں کے بیچ میں ایک نشانی لگائی ہوئی ہے۔ہر وہ چیز جو اس کے ٹی سرحد کے نیچے موجود ہے وہ ڈائنو سارس کے دور کی ہے اور ہر وہ چیز جو اس کے اوپر ہے وہ اس کے بعد کے زمانے کی ہے۔لہٰذا یہ اس دور کی یادگار ہے جب ڈائنو سارس ختم ہوئے تھے۔ اس تہہ میں ایک عنصر جس کا نام" اریڈیم"(Iridium) ہے کافی تعداد میں پایا جاتا ہے۔یہ زمین کی سطح پر کمیاب جبکہ سیارچوں میں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔لہٰذا اگر کوئی بڑا سیارچہ زمین سے ٹکرایا ہوگا تو اس نے ہر جگہ مٹی دھول کو پھیلایا ہوگا اور اس سیارچے میں موجود اریڈیم ایک تہہ کی شکل میں تمام زمین پر بیٹھ گئی ہوگی اور بالکل ایسا ہی ہم یہاں پر دیکھتے ہیں جو ایک سیارچے کی ٹکر کا واضح نشان ہے۔

وہ صبح یقیناً ایک عام سی ہی صبح ہوگی جب وہ سیارچہ اس زمین سے ٹکرایا ہوگا جو کروڑں سال سے ویسی ہی ڈائنوسارس کی زمین رہی ہوگی۔اس دن آسمان پر کوئی چیز نظر آئی ہوگی جو بہت زیادہ روشن اور گرم ہوگی۔ وہ سیارچہ ٦ میل لمبا ہوگا جو کرۂ ارض پر مکمل تباہی پھیلانا کا اہل ہوگا۔ وہ سیارچہ جو یہاں آکر ٹکرایا اور جس نے زمین پر یہ تہ بنائی ہے وہ بہت زیادہ ضخیم اور بہت تیزی کے ساتھ حرکت کر رہا ہوگا لہٰذا اس میں جو توانائی پیدا ہوئی ہوگی اس نے بہت ہی زبردست دھماکہ کیا ہوگا۔اس کی طاقت ہیروشیما پر گرائے گئے ٥ ارب جوہری بموں کی طاقت کے برابر ہوگی۔ زمین سےبڑے بڑے چٹانی ٹکڑے فضاء میں بلند ہوئے ہوں گے اور پھر واپس اس کی سطح پر آگ کے گولوں کی شکل میں برسے ہوں گے۔ بےقابو آگ نے پورے سیارے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہوگا۔

کے ٹی سرحد میں ایک کالک کی بھی تہ ہے جو اس بات کی نشاندہی کر رہی ہے کہ اس حادثے میں ایک عالمگیر آگ بھی لگی ہوگی جس نے اس ٹکر کے بعد ہر چیز میں آگ لگا دی ہوگی ۔زمین اندھیرے میں ڈوب گئی ہوگی اور زبردست پیمانے پر اس وقت موجود حیات ختم ہوگئی ہوگی۔ ہم اس بات کو یوں سمجھ لیں کہ ساری قدرتی آفات ایک ساتھ پوری دنیا پر نازل ہوجائیں تو اس وقت زمین کا جو حال ہوگا وہی حال اس ٹکر میں ہوا ہوگا۔ یہ دن زمین کے لئے روز محشر جیسا ہوگا۔

یہ سیارچے خلاء میں موجودزمین اور اس میں موجود حیات کے لئےایک طرح سےبہت ہی خطرناک دھمکی ہیں ۔ اتنا بڑا سیارچہ زمین سے پھر ٹکرا سکتا ہے اور پھر وہی عمل دہرا سکتا ہے جو ڈائنو سارس کے دور کے ساتھ ہوا تھا۔خدانخوستہ ایسا پھر سے ہوا تو اس وقت حیات زمین پر صرف رینگنے والے کیڑوں جیسے لال بیگ کی صورت میں ہی باقی رہے گی ۔ یہ ہی وہ واحد جاندارہوں گے جو اس حادثہ میں زندہ بچ سکیں گے ۔ اس قسم کا ٹکراؤ آج سے کافی عرصہ بعد مستقبل بعید میں متوقع ہے۔سوال یہ ہے کہ اس وقت کیا ہوگا کیا انسانیت کو وہ آخری وقت ہوگا یا ہم قدرت کو چکمہ دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

سیارچوں نے ہماری دنیا کو اس کی موجودہ شکل دی وہ زمین پر پانی بھی لے کر آئے انہوں نے زمین پر سے ڈائنو سارس کو ختم کر کے نئے جانداروں کے لئے جگہ بنائی۔مگر سیارچے ہماری لئے ایک طرح سے خطرہ بھی ہیں۔ ہم یہ بات بہت ہی یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ مستقبل میں سیارچوں کا زمین سے ایسا ٹکراؤ ہونا ناگزیر ہے لہٰذا سوال یہ نہیں ہے کہ ایسا ہوگا کہ نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ ایسا کب ہوگا؟بڑے شہابیے ٹکراؤ ٦ سے ١٠ کروڑ سال میں وقوع پزیر ہوتے ہیں۔لہٰذا اگلا ٹکراؤ جلد ہی ہوگا۔
[​IMG]تصویر نمبر ١٠ - Arecibo Puerto Rico - Telescope by Zonnee, on Flickr
اگر ہم زندہ رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں تیار ہونا پڑے گا ۔ ہمیں سیارچوں کو ڈھونڈھ کر اس بات کا پتا لگانا ہوگا کہ ان میں سے کون سا زمین کی طرف آرہا ہے۔خوش قسمتی سے ڈائنو سارس اور ہم انسانوں میں کافی فرق ہے۔ہمارے پاس دوربین ہے اور ہمیں ان کا آنے سے پہلے پتا لگ سکتا ہے۔ سیارچے سیاروں اور ستاروں سے بہت زیادہ چھوٹے ہوتے ہیں۔ان کو اپنی طرف آتا ہوا دیکھنا بہت ہی مشکل ہے۔ ان کا پیچھا کرنے کے لئے ہمیں ایک دیوہیکل دوربین کی ضرورت ہے جیسی دوربین "آریسیبورصدگاہ"(Arecibo Observatory) جو" پورٹو ریکو"(Puerto Rico) میں موجود ہے(تصویر نمبر ١٠)۔یہ جگہ انسانیت کے لئے سب سے بہترین جگہ ہے جہاں سے ان سیارچوں کے ٹکراؤ سے ہم اپنی بہترین حفاظت کرنے کے قابل ہیں۔یہ ایک وسیع پیالے جو ہزار فٹ پر پھیلا ہوا ہےپر مشتمل ہے۔ اور یہ دنیا کی نہ صرف سب سے بڑی دوربین ہے بلکہ یہ دنیا کی سب سے بڑی ریڈار ڈش بھی ہے۔ جس طرح سے کوئی بھی ریڈار ہوا میں موجود تمام ہوائی جہازوں کا حساب کتاب رکھتا ہے اسی طرح یہ دوربین خلاء میں موجود زمین کے قریب اجرام کا ریکارڈ رکھتا ہے یہ اس قدر طاقتور ہے کہ یہ ان اجرام کا سراغ کئی لاکھوں میل دور سے لگا سکتا ہے۔ دوربین سے بڑھ کر ریڈار کسی بھی چیز کا فاصلہ براہ راست اور بالکل درست لگا سکتے ہیں کہ وہ اس وقت کہاں پر موجود ہے۔یہ طریقہ سیارچوں کے سراغ لگانے کے لئے بالکل ٹھیک ہے۔
[​IMG]تصویر نمبر ١١ - apophis by Zonnee, on Flickr
٢٠٠٤ء میں ماہرین فلکیات نے ایک اسٹیڈیم کے جتنا سیارچہ زمین کی طرح بڑھتے دیکھا جس کا نام مصری تباہی کے دیوتا" آپوفس" (Apophis)کے نام پر رکھا(تصویر نمبر ١١)۔ ماہرین نے اندازہ لگایا کہ یہ ١٣ اپریل ٢٠٢٩ بروز جمعے کے دن زمین سے ٹکرا سکتا ہے۔آپوفس دور حاضر میں زمین کے قریب پہلا اجرام ہے جس سے ماہرین فلکیات پہلی بار سہمے ہوئے ہیں۔ اس بات کا امکان کہ کچھ بہت ہی تباہ کن ہو سکتا ہے ٣٠ میں سے ١ کا ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
7۔سیارچے – ان دیکھے جہاں (چوتھا اورآخری حصّہ)
How The Universe Works – Season 2, Episode 7
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آریسیبونے خلاء میں موجود اب تک کے سب سے بڑے خطرے کا سراغ لگاکر اپنی اہمیت جتا دی ہے۔ آپوفس پورے ملک کے ملک برباد کر سکتا ہے۔مگر اس سیارچے کا راستہ اب بھی غیر یقینی ہے۔یہ زمین سے ٹکرا بھی سکتا ہے اور اس سے دور سے بھی گزر سکتا ہے۔ صرف آریسیبو ہی ہمیں یہ بات یقینی طور پر بتا سکتی ہے۔

آریسیبو دوربین ہی اس قابل تھی کہ وہ اس غیر یقینی صورتحال کو ٩٨%کم کرکے صحیح اندازہ لگا سکے۔ اس نے یہ نتیجہ نکالا کہ فی الحال تو اس کے ٹکرانے کا ٢٠٢٩ میں کوئی چانس نہیں ہے۔

وہ زمین کے قریب سے چاند سے بھی نزدیک فاصلے سے گزرے گا۔بلکہ ہمارے کچھ مصنوعی سیارچوں سے بھی قریب سے اس کا گزر ہوگا۔ ہمارے پاس سیارچوں کا سراغ لگانے کے لئے بہت طاقتور آلات موجود ہیں۔مستقبل میں کبھی شاید ہم کسی ایسے سیارچہ کا بھی پتا لگا لیں جو زمین سے ٹکرائے گا۔ سوال یہ ہے کہ ہم اپنا بچاؤ اس ٹکراؤ سے کیسے کریں گے۔ سب سے زبردست حکمت عملی تو یہ ہوگی کہ اس سے پہلے کہ وہ ہمیں تباہ کرے ہم اس کو تباہ کردیں۔ مگر یہ کام خطرات سے بھرپور ہوگا۔

ہم کبھی نہیں چاہیں گے کہ یہ اس طرح سے تباہ ہو جس میں اس کے ٢،٣، یا ٥ ٹکڑے ہوجائیں جس سے یہ پوری دنیا کو اپنا نشانہ بنا سکے اور بہت سارے انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دے۔ سیارچے کو پھاڑنے سے اس اکیلا سیارچے کے ٹکرانے سے زیادہ نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ کچھ ایسا کیا جائے جس سے یہ زمین کی طرف آنے سے اپنا راستہ بدل لے۔ جب کوئی سیارچہ زمین کی طرف رخ کرتا ہے تو مستقبل میں ان دونوں کا راستہ ایک دوسرے کو قطع کرسکتا ہے۔ اور وہ دونوں ایک نقطہ پرایک ساتھ پہنچ سکتے ہیں۔ تھوڑی دیرکے لئے فرض کریں کہ زمین ایک ریل گاڑی ہے جبکہ سیارچہ ایک کارہے اور دونوں ریلوے لائن پر ایک دوسرے کو کراس کرتے ہوئے آمنے سامنے آگئے ہیں۔ اگر وہ دونوں ایک وقت میں ایک مخصوص جگہ پہنچیں گے تو ٹکراؤ لازمی ہوگا۔ اس ٹکر سے بچنے کا سب سے بہتر طریقہ یہ نہیں ہوگا کہ آپ اس کار کی سمت ریلوے لائن سے سے بدل دیں بلکہ یہ ہوگا کہ آپ کسی ایک چیز کی رفتار کو آہستہ یا تیز کرلیں۔

اگر وہ کار اپنی رفتار بڑھا کر ریل کےآنے سے پہلے وہاں سے گزر جائےیا پھر اپنی رفتار کو آہستہ کر کے ریل کے گزرنے کا انتظار کر لے اور پھر اس جگہ کو کراس کرلے تو دونوں کو کچھ نہیں ہوگا اور وہ صحیح سلامت رہیں گے۔ سیارچے سے بھی ہم یہ ہی چاہتے ہیں تا کہ یہ بات یقینی بنا سکیں کہ اس ایک جگہ سے گزرتے ہوئے زمین اور سیارچہ ایک ساتھ نہ پہنچ جائیں۔ کار کی رفتار کو آہستہ کرکے ہم اس تصادم کو روک سکتے ہیں۔ یہ ہی ایک طریقہ ہے جس سے اس تصادم سے بچا جاسکتا ہے۔
[​IMG]تصویر نمبر ١٢ - Asteriod Tractor by Zonnee, on Flickr
مگر مصیبت یہ ہے کہ سیارچوں کے بریک نہیں ہوتے کہ ان کو دبا کر آہستہ کیا جاسکے۔ ہمیں ان کی رفتار کو آہستہ کرنے کے لئے کچھ دوسرے طریقوں کا استعمال کرنا ہوگا۔ ایک طریقہ تو یہ ہےکہ اس کے لئے اسی سیارچے کی ثقلی قوّت کو استعمال کیا جائے۔ چھوٹے سیارچے کے لئے ہمیں ایک بڑا خلائی جہاز درکار ہوگا جو اس سیارچے کے قریب ہو۔ خلائی جہاز کو اس سیارچے کی سطح سے اوپر منڈلاتے رہنا ہوگا(تصویر نمبر ١٢)۔ ہم اس خلائی جہاز سے دھکیلنے کی قوّت پیدا کریں گے تاکہ وہ اس کی سطح پر گر نہ جائے اور ایک طرح سے خلائی جہاز اسے ثقلی قوّت سے پرے دھکیل دے۔ قوّت ثقل کو استعمال کرتے ہوئے اس سیارچے کو زمین کے راستے سے کھینچا جا سکتا ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ قوّت ثقل اس سیارچے کی رفتار کو اتنا آہستہ کردے گی کہ یہ زمین سے نہ ٹکرائے۔

سیارچے ہمارے مستقبل پر ایک دوسری طرح سے بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ہم ان کو مہلک ہتھیارے سے ایک انتہائی قیمتی اثاثے میں بھی بدل سکتے ہیں۔سیارچے تخلیق کی طاقت ہوتے ہیں۔ انہوں نے سیارے بنائے وہ ہی زمین پر پانی لے کر آئے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ انتہائی تباہی بھی مچاتے ہیں۔سیارچے خطرہ ہونے کے ساتھ ساتھ عطیہ خداوندی بھی ہیں۔ شروع میں وہ زندگی کے لئے بنیادی سامان کے کر آئے۔ بعد میں وہ حیات کو بھی ختم کرسکتے ہیں۔ سیارچے تباہی اور بربادی بھی لانے کا سبب بن سکتے ہیں۔ مگر زندگی کو ان سے ہمیشہ خطرہ نہیں ہوتا ۔
[​IMG]تصویر نمبر ١٣ - Asteroid-mining-illus-2 by Zonnee, on Flickr
ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب ہم تکنیکی طور پر اتنا آگے پہنچ جائیں گے کہ ہم کوئی ایسی چیزان سیارچوں پر بھیج سکیں جو ان کا راستہ بدل سکےیا ان کو تباہ کر سکے۔ہمارے پاس ابھی تو اس کو اپنے راستے سے ہٹانے کی تکنیک موجود ہے۔ ہم ان کوتباہی کے بجائے اپنے فائدہ کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔ ہم وہاں کان کنی کر سکتے ہیں(تصویر نمبر ١٣)۔ ان سیارچوں میں سے کئی حیران کن معدنیات سے بھرپور ہیں۔کئی طرح سے سیارچے خلاء میں سونے کی کانیں ہیں۔ بلکہ وہ صرف سونے کی کانیں ہی نہیں ہیں بلکہ وہاں زنک، ایلومینیم اور پلاٹینم بھی موجود ہیں۔صرف ایک اوسط حجم کا سیارچہ ہی ہزار ہا ارب ہا ڈالر مالیت کی معدنیات کا خزانہ ہو سکتا ہے۔ مگر اس کام کے لئے تو پہلے ہمیں وہاں پہنچنا ہوگا۔

١٥ اپریل ٢٠١٠ میں امریکی صدر اباما نے ایک نئے منصوبے کا اعلان کیاجس میں انہوں نے بتایا کہ ٢٠٢٥ تک ایک نئے طرح کے خلائی جہازبنانے کی امید کی جارہی ہے جس کا مقصد خلاء میں لمبا سفر طے کرنا ہوگا اور جو خلائی جہاز کے عملے کو لے کر چاند سے دور خلاء میں لے کر جائے گا۔ انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ مشن خلانوردوں کو سیارچوں تک لے جانا شروع کرے گا۔

سب سے آسان سیارچہ جس پر انسان پہنچ سکتا ہے وہی سیارچہ ہے جس کا زمین سے ٹکرانے کا خطرہ ہے۔ جیسے ہی یہ ہمارے پاس سے گزرے گا ویسے ہی ہم اپنا خلائی جہاز اس کی طرف روانہ کردیں گے۔باوجود اس کے کہ یہ سیارچہ ہمارے بہت قریب سے گزرے اس پر کان کنی کرنا ابھی تو دیوانے کی بڑ ہی ثابت ہوگی۔ سیارچوں کی پٹی پر کان کنی نہ کرنے کی وجہ اس پر آنے والی لاگت ہے ۔ اسی لئے ہم ابھی تو خلائی جہاز پر خود سے خرچہ کر رہے ہیں۔کسی سیارچے کو دور خلاء سے لانے میں زبردست پیسہ ، ایندھن اور مہارت درکار ہوگی۔

مگر ہوسکتا ہے کہ ہمیں وہ معدنیات زمین پر لانا نہ پڑیں۔ہم سیارچوں پر موجود وسائل سے خلاء میں رہنے کی چیزیں بنا سکتے ہیں۔ ہمیں کوئی خلائی اسٹیشن بنانے کی ضرورت نہیں ہے وہ وہاں پہلے سے ہی موجود ہے۔ ہمیں وہاں پر کسی قسم کی حفاظتی چھت کی ضرورت نہیں ہوگی۔ہمیں وہاں صرف مٹی میں سوراخ کرکے ان چٹانی چیزوں کو تابکاری اور چھوٹے شہابی ٹکڑوں سے بچنے کے لئے بطور حفاظتی چھت استعمال کرنا ہوگا۔ سیارچے ایک طرح سے بنے بنائے خلائی ا سٹیشن ہیں۔

ہلکی قوّت ثقل وہاں آنے اور جانے میں مدد دے گی۔ وہاں پر وافر مقدار میں پانی اور وہ تعمیراتی سامان موجود ہے جو کسی کالونی بنانے کے لئے ضروری ہوتا ہے۔

لہٰذا اس دن جب ہمیں سیارچوں کی پٹی پر انسانی بسیرا ڈالنا ہوگا تو بس ہمیں وہاں شہر تعمیر کرنے کی ضرورت ہوگی کیونکہ ہم کو اس پٹی میں ہی قیمتی دھاتیں مل جائیں گی۔
[​IMG]تصویر نمبر١٤ - Colonization of Asteriods - Artists Conspt by Zonnee, on Flickr
ایک شہروں پر مشتمل وسیع جتھا فیتے کی طرح خلاء میں ارب ہا میل پر پھیلا ہوا بن جائے گا(تصویر نمبر١٤ )۔ اور یہ صرف شہر ہی نہیں ہوں گے بلکہ یہ تو خلائی جہاز بنانے کے کارخانے ہوں گے۔ شاید سیارچے اصل میں ہمیں وہ دھاتیں مہیا کرسکیں جس سے ہم اپنے خلائی جہاز بنا سکیں۔

تو ہو سکتا ہے کہ مریخ اور مشتری کے درمیان کہیں پر ہمارے مستقبل کے خلاء جہاز بنانے کے کارخانے موجود ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ سیارچے ہمیں نظام شمسی سے باہر نکلنے کے لئے پہلا قدم رکھنے کی جگہ فراہم کر سکیں۔ سیارچوں نے زمین کو بنایا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ حیات کو بھی وہی زمین پر لائے ہوں۔ اور مستقبل میں یہ انسانیت کی زمین پر سے فرار میں بھی مدد کرسکیں تاکہ وہ کہکشاں میں دوسری جگہ بسیرا ڈال سکے۔ ایک طرح سے سیارچے ہمیں دور خلاء میں بھیج سکتے ہیں۔ چاہئے ہمیں اپنی حفاظت کرنی ہو یااپنے مسکن کو بڑھانا ہو ۔تمام کائنات میں موجود جدید تہذیبیں دوسرے ستاروں پر پہنچنے کے لئے سیارچوں کوپہلے قدم کے طور پر استعمال کر رہی ہوں گی اور ان کی پیروی میں انسانیت بھی پیچھے نہیں رہے گی۔ 

تمام شد۔۔۔۔۔