قصہ یورینس اور نیپچون کی دریافت کا

باتھ، انگلستان کے مغرب میں ایک قصبہ ہے۔ وہاں ایک ماہر موسیقار ویلیم ہرشل (William Herschel) رہا کرتا تھا۔ دن کو وہ آرگن بجاتا اور آرکسٹراز منعقد کرتا۔ اور رات کو وہ فلکیات دان بن جاتا اور اپنی بنائی ہوئی مختلف دوربینوں سے آسمان کا مشاہدہ کرتا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریاضی اور فلکیات کی کتابیں بھی پڑھتا رہتا۔ لیکن بنیادی طور پر وہ طبعیت کا ایک جستجوگر تھا۔ اور اپنی دوربین کو پہلے سے معلوم اشیاء کے تعاقب میں لگانے کے بجائے وہ آسمان میں غیر معمولی مظاہر ڈھونڈتا رہتا تھا۔ اسی تلاش میں 1781ء میں اس کا واسطہ یورینس سے پڑا، جسے وہ شروع میں کوئی دمدار یا کسی سحاب (nebula) کا ستارہ سمجھا۔ اس کی شناخت میں اسے تقریباً ایک سال کا عرصہ لگا کہ یہ دراصل مشتری کے پار کوئی سیارہ ہے۔ یہ اس وقت تک دریافت ہونے والا سب سے دور سیارہ تھا۔
William Herschel
ویلیم ہرشل
آئندہ سالوں کے دوران یورینس کا مشاہدہ کرتے فلکیات دانوں کو ایک عجیب بات نظر آئی۔ انہوں نے پایا کہ اس کے مدار میں کچھ فرق تھا۔ اس کا راستہ ویسا نہیں تھا جیسا کہ کیپلر کے قوانین پیشن گوئی کرتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ امکان بھی کم ہوتا گیا کہ شاید اصل راستے میں فرق کے بجائے مشاہدے میں ہی کوئی غلطی ہوئی ہو۔ اس کی وجہ کیا ہو سکتی تھی؟ اگر کیپلر کے قوانین ناکام ہو گئے تھے تو اس کا مطلب نیوٹنین میکانیات کی بھی ناکامی تھا۔ آخر کار یہ معمہ کیمبرج میں جان کاؤچ ایڈمز (John Couch Adams)، اور اس سے الگ اپنے طور پر کام کرتے ہوئے پیرس میں اربائن جیان لیویرئیر (Urbaine Jean Leverrier) نے حل کیا۔ دونوں نے یہ پیشن گوئی کی کہ یورینس کے مدار میں پائے جانے والے فرق کا سبب ممکنہ طور پر اس کے آس پاس ایک نئے سیارے کی موجودگی تھا جس کا ثقلی میدان یورینس کے مدار پر اثر انداز ہو رہا تھا۔ نیوٹن کے قوانین کا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے اس اثر کی وجہ بننے والے سیارے کے ممکنہ مقام کا حساب بھی لگا لیا۔ اگر وہ (اور نیوٹن کے قوانین) درست تھے تو اس سمت میں اس سیارے کو نظر آ جانا چاہیے تھا۔
دونوں میں سے ایڈمز پہلا تھا جس نے انگلستان کے بڑے فلکیات دانوں، رائل، جارج ائیری، اور کیمبرج رصدگاہ کے ڈائریکٹر جیمز چیلس، کو اطلاع کی۔ اگرچہ ان میں سے ایک نے بھی حساب لگائی گئی سمت میں اس سیارے کی تلاش میں پہل نہیں کی۔ اسی دوران لیویرئیر بھی اسی طرح کے نتائج پر پہنچا اور اس نے فرانسیسی فلکیات دانوں کو ان کی اطلاع کی۔
فرانس کے بڑے فلکیات دانوں نے بھی اس تجویز کو سنجیدگی سے توجہ نہیں دی، چنانچہ لیویرئیر نے پھر برلن رصدگاہ سے رابطہ کیا۔ وہاں پر جوہان جی گیل (Johann G. Galle) نامی ایک نوجوان فلکیات دان نے اس کو ضرور اہمیت دی۔ اس نے تجویز کردہ سمت میں اس سیارے کو ڈھونڈنے کی کوشش کی اور اسے ڈھونڈ لیا۔ یہ نیپچون کی دریافت تھی۔
یہ خبر پیرس سے نشر ہوئی اور لیویرئیر کو نیپچون کے مقام کی پیشن گوئی کا کریڈٹ دیا گیا۔ تب کہیں جا کر برطانوی جغادریوں کو ہوش آیا کہ اگر انہوں نے پہلے ایڈمز کی تجویز کو اہمیت دی ہوتی تو یہ کریڈٹ اسے مل جاتا۔ بہرحال، ایڈمز کو بھی بعد میں سیارے کی پیشن گوئی کا کریڈٹ ملا۔ بہرصورت، برطانویوں اور فرانسیسیوں دونوں کو اپنے نوجوان فلکیات دانوں کی بات نہ سننے کی قیمت چکانی پڑی۔
John Couch AdamsUrbaine Jean Le Verrier
جان کاؤچ ایڈمز اور اربائن لیویرئیر
Johann Gottfried Galle
جوہان گاٹفرائیڈ گیل
پس نوشت کے طور پر اس بات کا اضافہ کرتے چلیں کہ جب لیویرئیر کا پیغام برلن رصدگاہ پہنچا، تو رصدگاہ کا ڈائریکٹر چھٹی پر تھا کیونکہ وہ اپنی سالگرہ منا رہا تھا۔ چنانچہ گیل نامی نوجوان فلکیات دان اس کی جگہ تعینات تھا۔ جس سے یہ خیال ذہن میں آتا ہے کہ اگر ڈائریکٹر اس دن ڈیوٹی پر موجود ہوتا، تو کیا وہ بھی نئے سیارے کا مشاہدہ کرنے کی اس درخواست کو نظر انداز کر دیتا؟

ماخذ:
Facts and Speculations in Cosmology
by Jayant V. Narlikar
and Geoffrey Burbidge

Chapter 03: Reaching out to the Milky Way