گھریلو بائیو گیس پلانٹ

مجالس:


درمیانے سائز کا گھریلو پلانٹ جس میں باورچی خانے کا کچرا استعمال کیا جا سکتا ہے

(امیر سیف اللہ سیف)


تفریظ

سردیوں میں عموماً قدرتی گیس کی قلت ہو جاتی ہے اور سوئی گیس بڑے شہروں کے کئی علاقوں میں سرے ہی سے غائب ہو جاتی ہے۔ ہمارے ایک جاننے والے ہیں گزشتہ سردیوں کے آغاز ہی کے دنوں میں ان سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ صبح کے وقت ہنڈیا چولہے پر رکھی تو شام کے چار بجے تک جا کر ہنڈیا پکی اور بچوں نے کھانا کھایا۔ میں نےکہا کہ بھابی نے شاید پائے پکائے ہوں۔ کہنے لگے نہیں بھئی صرف آلو پکانے کے لئے اتنا انتظار کرنا پڑا، پائے تو شاید ایک ہفتے میں پکتے۔ تو جناب سردیوں میں تو گھریلو گیس سپلائی کا یہ عالم ہو جاتاہے۔

بجلی کی عدم دستیابی ہو یا گیس کی قلت، یہ کوئی نئی بات نہیں۔ پاکستانی عوام گزشتہ کئی سالوں سے بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا کر رہے ہیں۔ اکثر لوگ تو اب اس کے عادی ہو چکے ہیں تاہم قومی درد رکھنے والے اہل دل اب بھی اس صورت حال پر خون کے آنسو روتے نظر آتے ہیں۔ ارباب اختیار کی مجرمانہ بے حسی اور قومی سوچ کا فقدان جس قدر المناک ہے اس کا اندازہ ایک عام سے جاہل پاکستانی کو بھی بخوبی ہو چکا ہے۔ اب لوگ کھلم کھلا یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت کو ایک منظم اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بتدریج ختم کرنے کے غیر ملکی منصوبوں میں اہم ملکی ارباب اختیار میں سے چند ایک بھی شامل ہیں اور اسی پر عمل پیرا ہیں ورنہ پاکستان میں نہ تو وسائل کی کمی ہے اور نہ ہی افرادی قوت کی۔ خیر اس موضوع پر تو بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے تاہم چونکہ ہم بے اختیار اور بے بس ہیں چنانچہ محض جلنے کڑھنے کے سوا اور کر ہی کیا سکتے ہیں۔

قومی بے حسی کے اس المناک دور میں عام آدمی نے تو زندگی گزارنے کے لئے ہاتھ پیر مارنے ہی ہیں اور وہ مار رہا ہے۔ لوڈ شیڈنگ کے اثرات کو کم کرنے کے لئے لوگ اب متبادل توانائی کے مختلف ذرائع کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ضروری ہے کہ توانائی کے ایسے متبادل ذرائع کی تلاش کیئے جائیں جو نہ صرف آسانی سےدستیاب ہو سکیں بلکہ ان کی لاگت بھی عام آدمی کے لئے قابل برداشت حد کے اندر ہو۔ (کیونکہ خواص کے لئے اس طرح کے مسائل وجود ہی نہیں رکھتے، فی الحال تو عام آدمی ہی ان مسائل بلکہ مصائب کا شکار ہے)۔

بائیو گیس، نوانائی کے ایسے ہی متبادل ذرائع میں سے ایک ہے۔اس مضمون میں بائیو گیس بنانے کے لئے ایک سادہ سے پلانٹ کی تشکیل کا طریقہ بتایا جا رہا ہے۔ امید ہے کہ یہ مضمون متلاشی حضرات کے لئے نقطہء آغاز ثابت ہوگا۔

تعارف

بائیو گیس پیدا کرنے کے لئے کسی بہت بڑی ٹیکنالوجی یا قیمتی خام مال کی ضرورت نہیں۔ یہ نامیانی کچرے سے پیدا ہوتی ہے جو عام طور پر ضائع کر دیا جاتا ہے۔ نامیاتی کچرے سے مراد ایسی فالتو اور غیر ضروری اشیاء ہیں جو جلد گل سڑ جاتی ہیں۔ جانوروں کا گوبر، بچی کھچی غذا، غذائی کچرا اور ایسی ہی بے کار اور فالتو چیزیں جنہیں ہم روزانہ کچرے میں پھینک دیتے ہیں، قیمتی توانائی حاصل کرنےکے لئے استعمال کی جا سکتی ہیں۔

بائیو گیس پلانٹ میں عام طور پر جانوروں کا گوبر، گلے سڑے پودے، گھاس، پتے، سبزی منڈی کی گلی سڑی اور ضائع شدہ سبزیاں اور پھل، قصابوں اور ذبیحہ خانوں سے حاصل کردہ ضائع شدہ گوشت اور باقیات، ہوٹلوں اور شادی ہالوں میں بچنے والا یا ضائع شدہ کھانا، مرغی خانوں کی ضائع شدہ خوراک، مرغیوں کی بیٹ وغیرہ بطور خام مال استعمال کیا جاتا ہے۔اسی طرح گھریلو نوعیت کے چھوٹے بایو گیس یونٹ میں بچا کھچا کھانا، سبزیوں اور پھلوں کے چھلکے، بھوسی ٹکڑے، گوشت سے الگ کردہ اضافی یا ناقابل استعمال اجزاء، باورچی خانے سے حاصل شدہ فاضل اور ناقابل استعمال خوراک اور اسی قسم کے دوسرے نامیاتی اجزاء استعمال کئے جا سکتے ہیں۔


بائیوگیس پلانٹ کی اقسام

بائیو گیس پلانٹ متعدد اقسام کے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کی ضروریات اور استعمالات الگ الگ ہیں۔ اسی طرح گنجائش اور استعمال کے مقام کے اعتبار سے ان کی ساخت اور طریقہ تشکیل الگ الگ ہے۔عام طور پر بائیو گیس پلانٹس کو تین اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

1- گھریلو استعمال کا پلانٹ
2- زرعی اور درمیانہ، تجارتی نوعیت کا پلانٹ اور
3- صنعتی اور مکمل تجارتی نوعیت کا پلانٹ

اگرچہ ان تینوں اقسام کے بائیو گیس پلانٹس کی اپنی اپنی انفرادی ضروریات موجود ہیں اور مقام، حجم، ساخت اور شکل کے اعتبار سے تینوں اقسام کے پلانٹس ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں، تاہم ان سب کا کام کرنے کا بنیادی طریقہ تقریباً ایک جیسا ہے۔

بائیوگیس پلانٹ کےاہم حصے

اصولی طور پر ایک بائیو گیس پلانٹ مندرجہ ذیل اہم اور بنیادی حصوں پر مشتمل ہوتا ہے:

1- نامیاتی کچرے کے لئے ٹینک
2- گیس اکٹھی کرنے کے لئے ٹینک
3- گیس کی ترسیل کے لئے مناسب بندوبست (پائپ اور اس کی تنصیبات وغیرہ)
4- استعمال شدہ نامیاتی کچرا الگ کرنے کا بندوبست

ذیل کے خاکے میں گھریلو بائیو گیس پلانٹ کے اہم حصے دکھائے گئے ہیں۔


بائیو گیس پلانٹ کےاہم حصے

ان بنیادی حصوں کے علاوہ بڑے اور تجارتی مقاصد کے بائیو گیس پلانٹس میں دیگر اضافی حصے بھی ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر نامیاتی کچرا جمع کرنے کے لئے جگہ، نامیاتی کچرے کو پانی میں ملانے کے لئے مکسنگ ٹینک، تازہ پانی کی فراہمی کا باقاعدہ انتظام،نامیاتی مرکبات کو بائیو گیس پلانٹ میں قابل استعمال بنانے (Fermentation)کے لئے تیار کردہ تالاب، خالص اور غیر ضروری اجزا سے پاک گیس حاصل کرنے کے لئے فلٹر کرنے کا بندو بست، سارے نظام کو کنٹرول کرنے کے لئے اضافی کمرہ، پلانٹ سے خارج ہونے والے مواد کو اکٹھا کرنے کے لئے نیز خشک کرنے اور پیک کرنے کے لئے مناسب انتظامات وغیرہ وغیرہ۔

بائیو گیس پلانٹ کے جس حصے میں یہ کچرا ڈالا جاتا ہے اسے ڈائجسٹر کہا جاتا ہے۔ ڈائجسٹر میں نامیاتی کچرا اکٹھا ہونے کے بعد بیکٹیریا اس میں خمیری عمل پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں اور اس خمیر کے باعث گیسیں پیدا ہوتی ہے جن کا بڑا حصہ میتھین گیس پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہی میتھین گیس ہمارے کام کی ہوتی ہے جسے ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر اوسط درجےکے ایک گھر میں ایک ڈائجسٹر اور گیس اکٹھی کرنے کا سادہ سا بندوبست کر لیا جائے تو گھر ہی کی فالتو اور بچی کھچی خوراک وغیرہ کی مدد سےقابل استعمال بائیو گیس آسانی سے پیدا کی جا سکتی ہے۔

بائیوگیس پلانٹ کی تشکیل

جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے، گھر ہی کی فاضل خوراک، خراب یا ضائع ہونے والے سالن، دودھ، سبزی اور پھلوں کے چھلکوں وغیرہ کو استعمال کر کے گیس گھر میں بھی تیار کی جا سکتی ہے۔عام طور پر جانوروں کے فضلے اور گھر کے باورچی خانےکا بچا کھچا کھانا، کچرا اور دیگر اشیاء جنہیں نامیاتی فضلہ کہا جا تا ہے، عام طور پر ضائع کر دیا جاتا ہے لیکن اسے ہم متبادل ایندھن یا توانائی کے دوسرے ذرائع کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ ذیل میں ایک چھوٹا سا بائیو گیس پلانٹ بنانے کا طریقہ بتایا جا رہا ہے جس میں استعمال ہونے والا سامان آسانی سے دستیاب ہے۔ اس پر زیادہ لاگت بھی نہیں آتی اور استعمال میں بھی کم خرچ ہے کیونکہ گھرہی کی بچی کھچی خوردنی اشیاء، فالتو خوراک، سبزی اور پھلوں کے چھلکے اور ایسی ہی دوسری اشیاء ضائع کرنے یا کوڑے میں پھینکنے کی بجائے اس گھریلو پلانٹ میں استعمال کی جاتی ہیں۔ اس پلانٹ سے حاصل ہونے والی گیس کو بائیو گیس کہا جاتا ہے۔

یہاں پر پیش کردہ بائیو گیس پلانٹ خاص طور پر شہری علاقوں کے رہائشی حضرات کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے جس میں گھر کا بچا کھچا کھانا اور باورچی خانے کا کچرا استعمال کیاجا سکتا ہے۔ اس بایو گیس یونٹ کی مدد سے اتنی گیس حاصل کی جا سکتی ہے جس سے ایک برنر والا چولہا جل سکے۔

ہمیں گھریلو بائیو گیس پلانٹ کے لئے جو سامان درکار ہوگا اس کی تفصیل ذیل میں دی گئی تصاویر میں واضح کی گئی ہے۔ ان تصاویر میں گھریلو بائیو گیس پلانٹ کی درجہ بدرجہ تشکیل کا طریقہ واضح کیا گیا ہے۔

سب سے پہلے پی وی سی کے دو ٹینک درکار ہوں گے۔ اس مقصد کے لئے پانی کا ٹینک بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور مطلوبہ گنجائش رکھنے والا کوئی دوسرا ٹینک بھی۔ ہمیں جو ٹینک درکار ہوں گے ان میں سے ایک1500 لٹر گنجائش کا اور دوسرا 1000 لٹر گنجائش کا ہو گا۔ زیر نظر تصاویر میں پانی کے ٹینک استعمال کئے گئے ہیں۔ آپ کو جو بھی مناسب ٹینک دستیاب ہو سکیں ، استعمال کر لیں۔ٹینک کی گنجائش بھی دستیاب جگہ اور ضرورت کے مطابق تبدیل کی جا سکتی ہے۔


1500 لٹر والے ٹینک کا بالائی حصہ دکھائے گئے طریقے سے کاٹ لیں۔

1500 لٹر والا ٹینک جس کا بالائی کاٹ دیا گیا ہے۔

63 اور 75 ملی میٹر کے دو دھاتی پائپ قریبا ایک سے دو فٹ لمبے لے کر انہیں چولہے پر گرم کر نے رکھ دیں۔ جب یہ مناسب حد تک گرم ہو جائیں تو پلاس کی مدد سے پکڑ کر ٹینک میں سوراخ کر لیں۔ ٹینک کے جن مقامات پر سوراخ کرنا ہے وہاں پہلے مارکر وغیرہ سے نشان لگا لیں تاکہ پائپ پر صحیح جگہ سوارخ ہو۔بہتر ہوگا کہ ٹینک کو لٹا کر یہ سوراخ کریں، جیسا کہ تصویر میں دکھایا گیا ہے۔ پائپ گرم ہو گا اور ٹینک میں سوراخ کرنے کےلئے نہایت احتیاط سے مقررہ نشانات پر کافی زور لگا ناہوگا۔ اس سلسلے میں خاص احتیاط سے کام لیں۔ زور لگانے پر گرم پائپ پھسلے گا اور اگر آپ نے بے احتیاطی سے کام لیا تو نہ صرف آپ جل جائیں گے بلکہ ٹینک کو بھی نقصان پہنچے گا۔


ٹینک کی بالائی جانب 63 ملی میٹر کا ایک سوراخ کر دیں۔اس سوراخ میں بیرونی اخراجی پائپ نصب کیا جائے گا۔

1500 لٹر والا ٹینک جس کی بالائی جانب سوراخ کیا گیا ہے۔

گرم دھاتی پائپ کی مدد سے ٹینک کی بالائی جانب 63 ملی میٹر کا سوراخ کرنے کے بعدٹینک کو سیدھا کر لیں۔ اس کے بعد 63 ملی میٹر والے سوراخ میں پی وی سی کاپائپ نصب کر دیں۔یہ بیرونی اخراجی پائپ ہے۔

اب اخراجی پائپ کے لئے کئے گئے سوراخ کی مخالف جانب، ٹینک کے پیندے کے قریب 75 ملی میٹر کا سوراخ کریں۔ اس میں نامیاتی کچرا ڈالنے کے لئے پائپ اور قیف نصب کی جائے گی۔ جیسا کہ آپ شکل میں دیکھ رہے ہیں، دھاتی پائپ کو گرم کر کے، پلاس سے پکٹر کر ٹینک میں سوراخ کیا جا رہا ہے۔ آپ بھی یہی طریقہ استعمال کر سکتے ہیں لیکن احتیاط لازمی ہے، گرم پائپ جسم سے نہ لگنے پائے۔ اگر آپ اسی سائز کا سوراخ کسی دوسرے طریقے سے بہتر طور پر کر سکتے ہیں تو آپ وہی طریقہ استعمال کریں۔

اخراجی پائپ کے لئے ہمیں اس شکل میں دکھائی گئی 63 ملی میٹر کی پی وی سی فٹنگ اور پی وی سی پائپ کے دو ٹکڑے درکار ہوں گے۔ پائپ کے ٹکڑوں کی لمبائی دکھائی گئی نسبت سے ہو گی۔ پورا مضمون پڑھنے اور تمام تصاویر کا بغور جائزہ لینے کے بعد آپ ان کی لمبائی کا تعین آسانی سے کر لیں گے۔ چونکہ ان کی لمبائی کا انحصار استعمال کردہ ٹینک کے سائز اور ساخت پر ہے چنانچہ ان کا سائز استعمال کردہ ٹینک کی مناسبت سے رکھنا پڑے گا۔

ڈائجسٹر ٹینک پر اخراجی پائپ نصب کرنے کے لئے پہلے دکھائے گئے طریقے سےمختلف حصوں کو آپس میں جوڑ کر فٹنگ مکمل کریں۔ پی وی سی کے تمام حصوں پر پی وی سی سلوشن لگا کر جوڑیں ۔فٹنگ کے دوران تمام جوڑوں پر پی وی سی سلوشن لگانے سےجوڑ کے مظبوط اور لیک پروف ہونے کا اطمینان رہے گا۔تمام فٹنگ مکمل کرنے کے بعداسے ڈائجسٹر ٹینک پر نصب کریں۔


سوراخ کرنے کے بعد بیرونی اخراجی پائپ نصب کیا جا رہا ہے۔


اخراجی پائپ نصب شدہ حالت میں

اخراجی پائپ کے مختلف حصوں کو آپس میں جوڑ کر ٹینک پرنصب کر دیا گیا ہے۔مکمل تنصیب اس شکل میں واضح ہے۔


چوڑیوں والے تمام حصوں پر سفید پلمبنگ ٹیپ (ٹیفلون ٹیپ) استعمال کریں تاکہ لیکیج کا امکان نہ رہے۔

ٹینک کی بیرونی جانب پی وی سی پائپ پر نٹ کسا گیا ہے۔ نوٹ کریں کہ نٹ اور ٹینک کے درمیان لیکیج کو روکنے کے لیے مناسب سیل استعمال کی گئی ہے اور پائپ کی چوڑیوں پر سفید پلمبنگ ٹیپ (ٹیفلون ٹیپ) لگا کر نٹ کو کسا گیا ہے۔ اگر ضرورت محسوس ہو تو جوڑ کو مزید مظبوط اور لیک سے محفوظ رکھنے کے لئے نٹ اور ٹینک کےدرمیان کسی اپوکسی سیمنٹ (مثلاً میجک) کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔بہتر ہو گا کہ ٹینک سے جڑنے والے تمام حصوں پر اپوکسی سیمنٹ لگا کر ان کی مظبوطی اور لیک پروف ہونے کا یقین کر لیا جائے۔ اس وقت تنصیب کے کام میں آپ جتنی احتیاط کریں گے اور تمام ضروری اقدامات اٹھائیں گےاتنا ہی بہتر ہے کیونکہ یہ احتیاط بعد میں آپ کے لئے بڑی پریشانی سے بچنے کا موجب ہو گی۔ اگر تنصیب کے دوران کسی بے احتیاطی یا عدم توجہی سے کام لیا گیا تو بعد میں کسی نقص کی صورت میں آپ کو بہت پریشانی ہو گی۔ لہذا ضروری ہے کہ شروع ہی سے سارا کام مکمل توجہ اور احتیاط سے کیا جائے اور تمام ضروری امور کا خیال رکھاجائے تاکہ بعد کی پریشانی سے نجات ملے۔


ٹینک کی نچلی جانب 75 ملی میٹرکا سوراخ

ڈائجسٹر ٹینک میں نامیاتی کچرا ڈالنے کے داخلی پائپ کے لئے 75 ملی میٹر کی فٹنگ۔


داخلی پائپ کو ڈائجسٹر ٹینک پر نصب کرنے کا طریقہ تصاویر میں مرحلہ واردکھایا گیا ہے۔ ترتیب وار سارے کام کو مکمل کریں۔ تمام جوڑوں پر پی وی سی سلوشن لگائیں۔ چوڑیوں والے حصوں پر پلمبنگ ٹیپ لگائیں اور سکون سے ساری فٹنگ مکمل کریں۔ اس کے بعد چار فٹ کے لگ بھگ ایک پی وی سی پائپ اس فٹنگ سے جوڑ دیں اور اس کے اوپر ایک قیف نصب کر دیں۔ یہ قیف اور پائپ نیز نچلی فٹنگز مل کر نامیاتی کچرا ڈائجسٹر ٹینک میں پہنچانے کا کام سرانجام دیں گی۔

دکھائے گئے طریقے سے گیس اکٹھی کرنے والے ٹینک کا بالائی حصہ کاٹ دیں۔ اس طرح ایک طرف سے یہ ٹینک کھلا رہے گا۔ اس ٹینک کو ڈائجسٹر ٹینک کےاندر الٹا کر کے لگایا جائے گا تاکہ اس میں گیس اکٹھی ہو سکے۔ اس ٹینک کی دوسری جانب ذیل میں دکھائی گئی گیس فٹنگ اور گیس پائپ نصب کیا جائے گا۔


12.5 ملی میٹر کی گیس فٹنگ جو گیس اکٹھی کرنے والے ٹینک پر نصب کی جائے گی۔

گیس اکٹھی کرنے والے ٹینک کو آپ ایک طرف سے کاٹ چکے ہیں۔ دوسری طرف گیس فٹنگز کے لئے ہمیں ایک سوراخ کرنا ہے۔ یہ سوراخ کنارے کے قریب کرنا ہے۔ اس مقصد کےلئے 12.5 ملی میٹر (نصف انچ) کا دھاتی پائپ چولہے پر گرم کریں اور پلاس سے پکڑ کر ٹینک میں سوراخ کر دیں۔ اگر آسانی سے دستیاب ہو سکے تو آپ یہ سوراخ برقی ڈرل مشین کی مدد سے بھی کر سکتے ہیں۔
گیس اکٹھی کرنے والے ٹینک کی اندرونی جانب ایک اڈاپٹر اس سوراخ میں نصب کر دیں۔ یہ پی وی سی ایڈاپٹر ہو گا۔ اس کو نصب کرتے وقت اوپر بتائی گئی تمام ضروری ہدایات کو مد نظر رکھیں۔

گیس فٹنگز کو اس شکل کےمطابق نصب کریں اور ساری فٹنگ کو اچھی طرح جانچنےکے بعد اسے گیس اکٹھی کرنے والے ٹینک پر نصب کر دیں۔ ہر چیز کو اچھی طرح جانچ لیں اور تسلی کر لیں کہ ساری فٹنگ درست ہے۔ اس کے بعد گیس فٹنگز سے گیس پائپ منسلک کر دیں۔ گیس پائپ کو نوزل پر لگانے کے بعد اس کو دکھائے گئے طریقے سے اچھی طرح لاک کر دیں۔
تمام فٹنگز کا بغور جائزہ لینے اور ہر جوڑ کی درستگی کا یقین کر لینے کے بعد چند گھنٹے تک سارا سامان اسی طرح چھوڑ دیں تاکہ سلوشن اور اپوکسی سیمنٹ وغیرہ خشک ہو جائیں اور تمام جوڑ وغیرہ پختہ ہو جائیں۔

گیس اکٹھی کرنے والے ٹینک کو ڈائجسٹر ٹینک کے اندر ڈالا جائے گا۔ گیس اکٹھی کرنے والے ٹینک کاجو سرا آپ کاٹ چکے ہیں وہ نیچے کی طرف رہے گا۔ ڈائجسٹر ٹینک کے اندر چار اینٹیں یا سیمنٹ کے بلاک برابر فاصلوں پر رکھ دیں۔ ان کے اوپر گیس اکٹھی کرنے والا ٹینک رکھا جائے گا۔یہ فاصلہ اس لئے بھی ضروری ہے تاکہ ڈائجسٹر ٹینک کا داخلی پائپ بھی گیس اکٹھی کرنے والے پائپ سے فاصلے پر رہے۔ جب آپ ڈائجسٹر ٹینک میں نامیاتی مواد (گوبر اور دوسری اشیاء جن کا ذکر کیا جا چکا ہے) ڈال لیں تب گیس اکٹھی کرنے والے ٹینک کو ڈائجسٹر ٹینک کے اندر نصب کریں۔



گیس اکٹھی کرنے والے ٹینک سے آنے والے گیس پائپ چولہے سے جوڑ دیں۔

جب گیس اکٹھی کرنے والے ٹینک میں گیس جمع ہونے کا عمل شروع ہو گا تو گیس جمع ہونے کے ساتھ ساتھ یہ آہستہ آہستہ اوپر کو اٹھنا شروع ہو جائے گا۔ جب گیس اکٹھی کرنے والا پائپ اوپر اٹھنا شروع ہو گا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اب گیس کی پیداوار شروع ہو گئی ہے۔

چھوٹے ماڈلز

اوپر دئے گئے گھریلو بائیو گیس پلانٹ کا سائز اتنا ہے کہ کہ اس سے حاصل ہونے وا لی بائیو گیس سے پانچ چھ افراد کے گھرانے کیے لئے کھانا پکایا جا سکتا ہے۔تاہم یہ ضروری نہیں کہ ابتدا ہی میں آپ ایک ہزار اور پندرہ سو لٹر والے بڑے ٹینک لےکر تجربہ کریں۔ اگر آپ محض تجرباتی بائیو گیس پلانٹ بنانا چاہتے ہیں تو چھوٹے ٹینک بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ بازار میں دستیاب، استعمال شدہ، نیلے رنگ کے چھوٹے ٹینک آسانی سے حاصل کر سکتے ہیں۔ ان کی لاگت بھی کم ہے اور ان کی تنصیب بھی آسان ہوگی۔ یہ ٹینک مختلف سائز میں دستیاب ہیں۔ آپ 240 اور 220 لٹر کے دو ٹینک لے لیں۔ چھوٹے اور بڑے ٹینک کے قطر میں فرق ایک سے دو انچ کے درمیان ہو سکتا ہے۔ دونوں میں سے چھوٹا ٹینک گیس اکٹھی کرنے کے لئے اور بڑا ٹینک ڈائجسٹر کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔۔ تیاری کے بعد چھوٹے ڈائجسٹر میں اسی مناسبت سے نامیاتی کچرا بھی کم مقدار میں ڈالا جائے گا۔ اگر آپ 240 لٹر کا ٹینک بطور ڈائجسٹر استعمال کر رہے ہیں تو اس میں ابتدائی طور پر پانچ سے دس کلو گرام تک گوبر (اتنے ہی پانی میں ملا کر) استعمال کریں۔

مذکورہ چھوٹے ٹینک استعمال کرنے کی صورت میں کچرا ڈالنے والے داخلی پائپ کی لمبائی اتنی رکھیں کہ یہ ڈائجسٹر ٹینک کی اونچائی کی نسبت چار پانچ انچ زیادہ بلند رہے۔ داخلی پائپ ڈائجسٹر ٹینک کے پیندے کی سطح سے نصف فٹ (چھ انچ) بلند نصب کریں۔ اس پائپ کا قطر چار انچ سے کم نہ رکھیں۔

بیرونی یعنی خارجی پائپ کا قطر دو انچ کے لگ بھگ ہو اور یہ کم از کم نصف فٹ لمبا ہو۔ اسے داخلی پائپ کی مخالف سمت میں ڈائجسٹر ٹینک کی بالائی سطح سے کم از کم دو انچ نیچے نصب کریں۔
گیس اکٹھی کرنے والے ٹینک سے گیس حاصل کرنے کے لئے اوپر بتائی گئی نصف انچ گیس پائپ فٹنگ ہی استعمال کی جا سکتی ہے۔

اگر آپ مزید چھوٹے پلانٹ میں دلچسپی رکھتے ہوں تو ذیل کے لنک میں دی گئی تفصیلات کے مطابق 21 لٹر والی منرل پانی کی بوتل بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔ زیر نظر مضمون اور ذیل کے لنک پر دیا گیا مضمون ملا کر پڑھ لیں۔ آپ کے پاس اتنی عملی معلومات موجود ہوں گی کہ آپ کے لئے چھوٹا سا تجرباتی بائیو گیس پلانٹ بنانا مشکل نہیں رہےگا۔

http://tajassus.pk/node/340

واضح رہے کہ اس نوعیت کےگھریلو اور تجرباتی بائیو گیس پلانٹ بنانے کے لئے کوئی لازمی نہیں کہ تمام ہدایات پر سو فیصد ہو بہو اور قطعی طور پر عمل کیا جائے۔ بنیادی اصولوں کو ضرور مد نظر رکھیں لیکن اپنی سہولت، دستیاب جگہ، حاصل ہونے والا سامان اور دیگر ضروریات کے مطابق آپ ان ہدایات میں ترمیم واضافہ کر سکتے ہیں۔

گیس کی پیداوار

ہم نے بائیو گیس پلانٹ کی تشکیل مکمل کر لی ہے ۔ اب ہم گیس کی پیداوار شروع کرنے کے لئے اپنے بائیو گیس پلانٹ کو تیار کریں گے۔اس مقصد کے لئے ڈائجسٹر ٹینک میں نامیاتی کچرا ڈالنا ضروری ہے۔ ڈائجسٹر ٹینک میں جو نامیاتی کچرا ڈالا جاتا ہے اسے سلری Slurry کہا جاتا ہے۔

نئے ڈائجسٹر ٹینک میں نامیاتی عمل کا آغاز کرنےکے لئے سب سے ضروری جزو گوبر ہے۔ سب سے بہتر گائےکا گوبر ہے۔ اگر یہ دستیاب نہ ہو تو دودھ دینے والے جانوروں کا گوبر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ابتدا میں آپ کو گوبر ڈالنا پڑے گا تاہم بعد میں آپ گھرمیں بچنے والی ناقابل استعمال خوراک، گلنے سڑنے والے نامیاتی اجزا، باورچی خانے میں بچنے والی بے کار اشیاء وغیرہ ڈال سکتے ہیں۔خیال رہے کہ انڈے کے چھلکے اور پیاز یا پیاز کے چھلکے ڈائجسٹر میں نہ ڈالیں۔ یہ گیس پیدا کرنے کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے کا باعث بن سکتے ہیں۔

نئے ڈائجسٹر ٹینک میں گیس بننے کا عمل شروع کرنے کے لئے ابتدا میں کم از کم 20 کلو گرام کے قریب جانوروں کا گوبراور ضائع شدہ آٹا وغیرہ درکار ہو گا۔ صرف گوبر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔20 کلو گرام گوبر کو 20 لٹر پانی میں ملا کر ڈائجسٹر میں ڈالیں۔ جانوروں کی آنتوں سے گوبر میں شامل ہونے والے بیکٹیریا ہی نامیاتی اجزا کو میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس میں تبدیل کرنے کا عمل شروع کرتے ہیں۔ دو ہفتے کے انتظار کے بعد گیس بننے کا عمل شروع اور گیس اکٹھی کرنے والا ٹینک اوپر کی جانب اٹھنا شروع کر دے گا۔ بائیو گیس پلانٹ میں گیس بننے کا عمل، موسم، مقام، درجہ حرارت اور کچھ دیگر عوامل پر منحصر ہے۔ ابتدا میں گیس کی تیاری میں دو سے چار ہفتے کا وقت لگ سکتا ہے۔ استعمال کردہ ٹینک سیاہ رنگ کے ہوان یا ان پر سیاہ رنگ کر دیا جائے۔ اگر موسم سرد ہو تو زیر بحث پلانٹ کے اوپر شفاف پلاسٹک کی چادر لگا دیں تاکہ پلانٹ کو مناسب حرارت ملتی رہے۔ پلانٹ کو براہ راست دھوپ سے بچانے کا مناسب بندوبست بھی ضروری ہو گا۔

ضروری نہیں کہ ابتدا ہی میں ہمیں میتھین گیس حاصل ہو۔ ابتدائی طور پر بننے والی گیس میں جلنے والی گیس کی مقدار بہت کم ہو گی۔ اس میں زیادہ مقدار دوسری گیسوں کی ہو گی جن میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن اور کچھ ہائیڈروجن سلفائیڈ گیسیں شامل ہوں گی۔جب بیکٹیریا ساری آکسیجن ختم کر لیں گے تو میتھین یعنی جلنے والی گیس بننے کا عمل شروع ہو گا جسے بطور ایندھن استعمال کیا جا سکے گا۔
آغاز میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار زیادہ ہوگی۔ خیال رہے کہ اگرچہ یہ جلنے کے قابل نہیں ہو گی تاہم اس میں میتھین گیس کی مقدار اتنی ضرور ہو گی کہ براہ راست شعلہ دکھانے پر ساری گیس دھماکہ پیدا کرنے کا باعث بنے چنانچہ احتیاط ضروری ہو گی۔

یہ جانچنے کے لئے کہ میتھین گیس اتنی مقدار میں بننا شروع ہو گئی ہے کہ وہ جلنے کے عمل کا آغاز کرے، ہمیں گیس کو جلا کر دیکھنا ہو گا۔ گیس پائپ کو چولہے سے منسلک کرنے کے بعد گیس والو کو کھول دیں چند منٹ انتظار کرنے کے بعد چولہے کا والو کھولیں اور برنر سے نکلنے والی گیس کو دیا سلائی سے جلانے کی کوشش کریں۔ اگر کوشش کامیاب نہیں ہوتی تو گیس کو خارج ہونے دیں۔ چند منٹ بعد دوبارہ گیس کو جلانے کی کوشش کریں۔ورنہ دو چار دن مزید انتظار کریں۔برنر سے نکلنے والی گیس محفوظ مقدار میں ہوگی اور اگر یہ ابھی جلنے کے قابل نہیں ہوئی تو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ یعنی اس سے دھماکہ ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہوگا۔

اس نوعیت کے چھوٹے گھریلو ماڈلز میں گیس اکٹھی کرنے والے ٹینک اور ڈائجسٹر ٹینک کے درمیان ہوا روک (ائر ٹائٹ) نوعیت کا بندوبست کرنا ضروری نہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈائجسٹر ٹینک کے کچرے سے پیدا ہونے والی گیس چھوٹے ٹینک میں جمع ہونا شروع ہو جائے گی اور اس کی مقدار اور دباؤ اتنا زیادہ نہیں ہو گا کہ وہ گیس اکٹھی کرنے والے ٹینک کے نیچے سے گزر کر ڈائجسٹر ٹینک اور دوسرے ٹینک کے درمیانی خلا سے باہر نکل کر ضائع ہوتی رہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گیس اکٹھی کرنے والے ٹینک میں جمع ہونے والی گیس کو بہت زیادہ اکٹھا ہونے اور نیچے سے نکل کر ضائع ہونے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ اس سےقبل ہی اسے استعمال کر لیا جاتا ہے۔

تاہم اگر زیادہ عرصے تک گیس استعمال نہ کرنی ہو تو اسے جمع کرنے کا مناسب بندوبست ضروری ہو گا۔ اس مقصد کے لئے عام طور پر بڑے سائز کی ٹائر ٹیوب استعمال کی جاتی ہے۔ ایک ٹیوب بھر جائے تو دوسری ٹیوب میں گیس اکٹھی کی جا سکتی ہے۔

بائیوگیس پلانٹ کو فیڈ کرنا

جب ہمارے بایو گیس گھریلو پلانٹ سے حاصل ہونے والی گیس جلنے لگے کی تو ڈائجسٹر میں مزید نامیاتی مواد(فیڈ) ڈالنا ضروری ہو جائے گا۔ اس میں روزانہ کی بنیاد پر 1 سے 1.5 کلو گرام ضائع شدہ یا ناقابل استعمال نامیاتی مواد 1 سے 1.5 لٹر پانی میں حل کر کے، صبح اور شام، دو وقت ڈالنا شروع کر دیں۔ ضائع شدہ یا ناقابل استعمال نامیاتی مواد میں ضائع شدہ آٹا، سبزیوں کے چھلکے اور باقی بچنے والے ٹکڑے، ضائع شدہ یا ناقابل استعمال خوراک، ضائع شدہ خوردنی تیل، پھلوں کے چھلکے، گلے سڑے پھل، سڑا ہوا اناج، کیلے کے ڈنٹھل (وہ شاخیں جن پر کیلے لگے ہوتے ہیں اور ان کو کیلے کے درخت سے کاٹ کر کیلے کے ساتھ ہی فروخت کیا جاتا ہے۔ بعد میں پھل فروش ان کیلوں کو ڈنٹھل سے کاٹ کر فروخت کرتا ہے)، املی کے چھلکے، آم کا گود اور ناقابل خوردنی بیج وغیرہ شامل ہیں۔ گیس پیدا کرنے کے لئے یہ اشیاء بہترین ثابت ہوئی ہیں۔ ان نامیاتی اجزا کے بڑے ٹکڑوں کو 20 ملی میٹر سے بڑا نہیں ہونا چاہیئے۔ بڑے ٹکڑوں کو کاٹ کرچھوٹا کرلیں اور ڈائجسٹر میں ڈالیں۔ اگر یہ نامیاتی اجزا کسی طریقے سے پانی میں اس طرح ملالئے جائیں کہ گاڑھی کریم سی بن جائے تو بہت بہتر ہوگا۔ اس سے یہ اجزا نہ صرف زیادہ گیس پیدا کرنے کا باعث بنیں گے بلکہ گیس کی پیداوار کم وقت میں ہو گی۔ یہ کریم جیسا مواد نہ تو زیادہ گاڑھا ہو اور نہ ہی زیادہ پتلا۔ اگر یہ مواد بہت پتلا ہو گا تو اس میں شامل ٹھوس اجزا تہہ میں بیٹھ جائیں گے اور اگر زیادہ گاڑھا ہو گا تو اس کے اندر سے گیس کو باہر نکلنے میں دشواری ہو گی ۔ ہر دو صورتوں میں گیس کی پیداوار کم رہے گی۔ تاہم گھریلو نوعیت کے بایو گیس پلانٹ کے لئے ایسا کرنا اضافی توانائی خرچ کرنے کا باعث بنے گا جس سے بذات خود گھریلو بائیو گیس پلانٹ کی افادیت کم ہو جائے گی۔ اگر کم خرچ میں ایسا کرنا ممکن ہو تو بہتر ہو گا تاہم یہ لازمی امر نہیں ہے۔

استعمال شدہ سلری

گھریلو بائیو گیس پلانٹ میں چونکہ نامیاتی مواد ڈالنے کا عمل مسلسل جاری رہے گا چنانچہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ ڈائجسٹر ٹینک بھرنے لگے۔ ایسی صورت میں کسی نہ کسی طریقے سے ڈائجسٹر کے نیچے اکٹھا ہونے والا مواد یعنی سلری کو باہر نکالنا ہوگا۔ یہ سلری بہترین کھاد کی صورت میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ کوئی ایسا بندوبست کر لیں کہ اس سلری کو خشک کرنے کے بعدمناسب پیکنگ میں لایا جا سکے تو اسے فروخت کر کے اضافی آمدنی بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ مقامی نرسری ، گھریلو باغیچے اور ایسے ہی دوسرے مقامات پر یہ بہترین کھاد کا کام دے گی۔۔

سلری کے کیمیائی اجزا

ایک مقامی تحقیقی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ڈائجسٹر سے خارج ہونے والے مواد میں مندرجہ ذیل کیمیائی اجزا شامل ہوتے ہیں:

کیمیائی جزوڈائجسٹر سے نکلا ہوا تازہ نامیاتی مواد خشک نامیاتی موادجانوروں کا گوبر
فاسفورس0.98 فیصد1.1 فیصد1.06 فیصد
نائٹروجن0.78 فیصد1 فیصد0.97 فیصد
پوٹاشیم1.09 فیصد1.17 فیصد1.23 فیصد
جست (زنک)147ملی گرام فی کلو گرام150 ملی گرام فی کلو گرام89 ملی گرام فی کلو گرام
تانبا48 ملی گرام فی کلو گرام51 ملی گرام فی کلو گرام46ملی گرام فی کلو گرام
لوہا3.8 گرام فی کلو گرام4 گرام فی کلو گرام2.9 گرام فی کلو گرام
مینگنیز485 ملی گرام فی کلو گرام500 ملی گرام فی کلو گرام460 ملی گرام فی کلو گرام


بائیوگیس کا استعمال

ضروری نہیں کہ آپ اس گیس کو صرف چولہے ہی میں استعمال کریں۔ آپ اس سے گیس لائٹ بھی جلا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ چھوٹے جنریٹرز میں اسے استعمال کرکے بجلی بھی پیدا کی جا سکتی ہے۔۔(بجلی پیدا کرنے کے لئے جنریٹر میں بائیو گیس کا استعمال تکنیکی طور پر کچھ ضروریات کا متقاضی ہے۔

تکنیکی اعتبار سے یہ ممکن ہے کہ بائیو گیس کی مدد سے چھوٹا برقی جنریٹر چلایا جا سکے لیکن عملی طور پر اس میں چند دشواریاں سامنے آتی ہیں۔ برقی جنریٹر کے انجن کو اسٹارٹ کرنے کے لئے پٹرول درکار ہوتا ہے۔ جب انجن اسٹارٹ ہو جاتا ہے تو پھر ایک والو کے ذریعے پٹرول کی بجائے اسے گیس فراہم کی جاتی ہے۔ سوئی گیس کی حد تک تو یہ طریقہ درست کام کرتا ہے لیکن بائیو گیس میں میتھین کے ساتھ دوسری گیسیں بھی شامل ہوتی ہیں جس کی وجہ سےپیدا ہونے والی بائیو گیس میں میتھین کی مقدار کا تناسب کم ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اسے صاف کرکے اس میں سے دوسری گیسوں کو ختم کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ صاف یعنی فلٹر کر کے ہی بائیو گیس کو جنریٹر چلانے کے لئے استعمال کرنا ممکن ہوتا ہے۔

ایک دوسرا پہلو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے۔ گھریلو نوعیت کے بائیو گیس پلانٹ سے ملنے والی گیس کی مقدار محدود ہوتی ہے جبکہ برقی جنریٹر میں گیس کا خرچ زیادہ ہوتا ہے۔ اگر گھریلو پلانٹ پر برقی جنریٹر چلایا جائے تو وہ ایک دو گھنٹے سے زیادہ نہیں چل پائے گا۔

یہی وجہ ہے کہ گھریلو بائیو گیس پلانٹ صرف چولہا جلانے یا روشنی حاصل کرنے کے لئے ہی سود مند ثابت ہوگا۔بڑے سائز کا پلانٹ نصب کرنا اور گیس کو فلٹر کرنے کا بندوبست کرنا، خاص طور پر شہری علاقوں کے گھروں کے لئے اضافی اخراجات کا باعث ہو گا جس سے پورے پلانٹ کی افادیت کم ہو جائے گی۔ اس طرح کا بندوبست نیم شہری اور دیہاتی علاقوں کے لئے سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔

ایک اور بات بھی ذہن میں رکھیں کہ عام ایل پی جی گیس، گھریلو سوئی گیس اور بائیو گیس کے لئے استعمال کردہ چولہے ایک جیسے نہیں ہوتے۔ ان کے جیٹ میں فرق ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر چونکہ ایل پی جی سلنڈر میں ملنے والی گیس کا دباؤ، سوئی گیس کے دباؤ کی نسبت کئی گنا زیادہ ہوتا ہے چنانچہ ایل پی جی گیس پر چلنے والے چولہوں میں استعمال کردہ جیٹ، سوئی گیس پر چلنے والے چولہوں میں استعمال ہونے والے جیٹ کی نسبت چھوٹے سوراخ کے حامل ہوتے ہیں یعنی ان کا سوراخ باریک ہوتا ہے۔ اسی طرح بائیو گیس کا دباؤ سوئی گیس کے دباؤ کی نسبت کم ہوتا ہے۔ اس کے لئے آپ کو مزید بڑے سوراخ والا جیٹ درکار ہو گا۔ اس مقصد کے لئے آپ کو کچھ تجربہ کرنا پڑے گا۔

کامیابی کے بعد

جب آپ اپنا گھریلو بائیو گیس پلانٹ کامیابی سے تیار کر کے اس سے گیس حاصل کر لیں گے تو آپ کے دوست احباب بھی اسے دیکھیں گے۔ توانائی کے موجودہ بحران کی وجہ سے وہ بھی ایسا ہی پلانٹ حاصل کرنا چاہیں گے۔ ایسی صورت میں آپ ایسے پلانٹ خود تیار کر کے مناسب منافع پر انہیں فروخت کر کے اضافی آمدنی بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر ایسی صورت حال پیدا ہو جائے تو ضروری ہو گا کہ آپ بائیو گیس پلانٹ کے بارے میں مزید مطالعہ کریں تاکہ آپ اپنے گاہکوں کو زیادہ سے زیادہ اور مفید معلومات مہیا کر سکیں۔

درخواست

محترم قارئین !
اگرآپ اس صفحے پر آئے ہیں تو مضمون کے بارے میں اپنے تاثرات، سوالات اور اشکالات سے ضرور آگاہ فرمائیں تاکہ اگر کوئی بات اس میں رہ گئی ہو یا مزید وضاحت کی متقاضی ہو تو اسے پیش کیا جا سکے اور مضمون کی افادیت میں اضافہ کیا جا سکے۔ شکریہ۔