طبیعیات خوبصورتی ہے

مجالس:

طبیعیات خوبصورتی ہے
لِنڈسے لیبلانک
Physics is beauty
Lindsay LeBlanc

یہ ترجمہ لِنڈسے لیبلانک کی اجازت کے ساتھ یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔ اصل تحریر اس پتے پر دیکھی جا سکتی ہے۔
http://www.theglobeandmail.com/life/facts-and-arguments/physics-is-beaut...

رات کے دو بجے ہیں اور میں جاگ رہی ہوں۔ یونیورسٹی آف ٹورانٹو کی طبیعیات کی عمارت کے تہہ خانے میں موجود بصریات کی تجربہ گاہوں کی اس زیرِ زمین دنیا میں انسان کا وقت کا ہوش جاتا رہتا ہے۔

یہ تجربہ 20 سیکنڈ کی ایک ترتیب رکھتا ہے، انتہائی احتیاط سے کنٹرول کیا گیا ایک سلسلہ لیزر بیم کے لیے شٹروں کے کھلنے اور بند ہونے کا، میکانکی سوئچز کے مقناطیسی میدان کے کوائلوں کو برقی رو بھیجنے کا، ریڈیو فریکوینسی کے میدان میں جوڑ توڑ سے آسیلوسکوپ کی سکرین پر سبز رنگ کی موجی شکل ظاہر ہونے کا۔

اس کمرے کو ان مشینوں سے بھرنے پر بہت سے لوگ کام کر چکے ہیں جن کی ان 2,000 روبیڈیم ایٹموں کو اتنا ٹھنڈا کرنے میں ضرورت پڑتی ہے کہ یہ کوانٹم میکانکی دنیا میں داخل ہو جائیں۔ ایک بار اس حالت میں پہنچ جانے پر یہ ایٹم اپنا انفرادی برتاؤ ترک کر کے ایک اجتماعی برتاؤ اپنا لیتے ہیں، جیسے ایک برادری کا حصہ ہوں، مادے کی ایک نئی حالت میں جسے ہم بوس-آئنسٹائن مکثف (Bose-Einstein Condensate) کہتے ہیں۔

چار گھنٹے قبل، میں نے کچھ آثار دیکھے کہ یہ برتاؤ تب بھی جاری رہتا ہے جب میں اس بادل کو دو حصوں میں تقسیم کر دوں، جو کہ بہت شاندار ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو کوانٹم میکانیات میں انڈرگریجویٹ طلباء و طالبات کو پڑھاتی ہوں وہ واقعی کام کرتی ہے۔ اور میں اس سے بھی زیادہ دیکھنا چاہتی ہوں۔

میں اکثر تعجب سے سوچا کرتی ہوں کہ میں یہاں کیسے پہنچ گئی۔ اس کا سبب وہ باریک اور سیدھا راستہ نہ تھا جو میرے ماضی سے واقف کسی شخص کو عیاں نظر آئے گا۔ میں غالباً اپنی کنڈرگارٹن کی جماعت کی بہترین طالبہ تھی۔ میں اپنی جونئیر ہائی کلاس کے سب سے اوپری درجے میں فارغ التحصیل ہوئی، اور دوبارہ ہائی سکول میں بھی۔ سکول میں میں اچھی تھی، اور ریاضی اور سائنس کو میں سب سے زیادہ پسند کرتی تھی۔ میرے والد صاحب کا اثر اور ایک حقیقی ملازمت کی عملی اہمیت مجھے انجنئیرنگ کی انڈرگریجویٹ تعلیم کی طرف لے گئے، جہاں میں نے اپنے رفقائے کار کی نسبت امتحان لکھنے میں بہتر رہنے کی روش جاری رکھی۔ اور جامعہ سے بھی میں اپنی جماعت کے اول درجے میں فارغ التحصیل ہوئی۔

اپنی انڈرگریجویٹ کی تعلیم ختم کر لینے کے بعد، میں منجمد ہو گئی۔ میں نہیں جانتی تھی کہ مجھے اپنی زندگی کے ساتھ کیا کرنا ہے۔ میں نے وہ سب کچھ کر لیا تھا جس کی میں نے کبھی امید کی تھی، جو کہ تھا جامعہ جانا۔ میرے سامنے دو راستے تھے: میں گریجویٹ کی سطح پر تعلیم جاری رکھ سکتی تھی یا میں دوسروں کو ان چیزوں کی تعلیم دینا شروع کر سکتی تھی جن کو میں نے سب سے زیادہ دلچسپ پایا تھا، جو کہ غالباً ہائی سکول کی سطح پر ہوتا۔

میں جانتی تھی کہ پہلا انتخاب میری سیکھنے کی بھوک کو تو سیراب کر دیتا لیکن مجھے اس احساس کے ساتھ چھوڑ دیتا کہ جیسے میرا وقت محض علم کے ایک چھوٹے سے قطعے کی خودغرضانہ جستجو میں خرچ ہو گیا جو کہ کسی کی زندگی کے معیار پر بہت کم اثر رکھتا تھا۔ اور دوسرا انتخاب، میں جانتی تھی کہ، اطمینان بخش ہوتا اور مجھے ایک رول ماڈل بننے کا موقع عطا کرتا، لیکن مجھے ڈر تھا کہ اس طرح میں خود کو دیا گیا کچھ ٹیلنٹ ضائع کر رہی ہوتی۔ اس تنازعے، اس فیصلے نے مجھے مفلوج کر کے رکھ دیا، اور آخر کار میں نے کچھ بھی نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے اتنے طویل عرصے سے "کچھ نہیں" نہیں کیا تھا اور اس کے ایک پورے سال کی مجھے سخت ضرورت تھی۔

یہ کچھ نہیں، پوری طرح سے کچھ نہیں بھی نہیں تھا۔ میں نے ایک سال رضاکارانہ طور پر صبح کے وقت ایلیمنٹری سکول کے طلباء و طالبات کے ساتھ اور سردیوں کی شاموں میں بے گھر افراد کے ساتھ گزارا۔ میں نے کچھ ماہ جزوقتی طور پر ایک ادارے کے ساتھ بھی کام کیا جو کہ سائنس اور انجنئیرنگ میں خواتین کی ترقی کے لیے وقف تھا۔

اس ادارے کی سربراہ ایک کمال کی خاتون تھیں۔ وہ ریٹائرمنٹ کے قریب ایک پروفیسر تھیں جنہوں نے اپنا بہت سا وقت اس ادارے کے لیے اور بچوں میں سائنس کے فروغ کے لیے وقف کر رکھا تھا اور ساتھ ہی اپنے شعبے کی ایک سائنس دان کی حیثیت سے بھی زبردست شہرت برقرار رکھی ہوئی تھی۔ اگرچہ اس وقت مجھے اس بات کا ادراک نہیں ہوا، لیکن میں سوچتی ہوں کہ یہ اس عورت کو اپنے لگاؤ کے لیے سعی کرتے اور ساتھ ساتھ اپنے جذبے میں اوروں کو شریک کرتے اور دوسروں کی حوصلہ افزائی کرتے دیکھنا ہی تھا جو مجھے ایک جمعرات کی رات 2 بجے تک اس تجربہ گاہ میں روکے رکھتا ہے۔

یہ فیصلہ ان عجیب فیصلوں میں سے ایک تھا۔ میں اپنے کچھ نہیں کے سال میں جنوری کی ایک سرد رات اپنے گھر میں بیٹھی تھی اور مجھے بس پتہ تھا، مجھے پتہ تھا کہ میں گریڈ سکول جانا چاہتی ہوں۔ میرا انتخاب اس دن اتنا واضح تھا کہ جتنا ہو سکتا تھا، اور اس لمحے کے بعد اس میں کبھی لغزش نہیں آئی۔ میں نے اپنی درخواست دو کینیڈین جامعات کو بھیجی، ایک کا انتخاب کیا اور، پانچ سال بعد، میرے پاس ایک ماسٹر کی سند ہے اور میں اپنی پی ایچ ڈی پر کام کر رہی ہوں۔

یہ سوال کہ آیا جو میں کر رہی ہوں، وہ مفید بھی ہے یا نہیں، ابھی بھی ہر کچھ عرصہ بعد میرے سامنے سر اٹھاتا ہے۔ لیکن اب یہ مجھے اس طرح تنگ نہیں کرتا جیسے ایک زمانے میں کیا کرتا تھا۔ میں نے اپنے مطالعے کی گہرائی بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ جانا ہے کہ یہ چیزیں جاننے کے لائق ہیں، چاہے میں ہی وہ تنہا شخص ہوں جسے ان کا علم ہو۔

طبیعیات جانے جانے کے لائق ہے کیونکہ یہ خوبصورت ہے۔ یہ ہر سائنس دان کا پوشیدہ راز ہے۔ ہم یہ دعویٰ کرتے ہوں گے کہ ہم کسی موضوع پر تحقیق کر رہے ہیں کیونکہ وہ "معاشرے کے لیے مفید ہے" یا یہ کسی ٹیکنالوجی میں انقلاب لے آئے گا لیکن، زیادہ تر معاملات میں، ہم محض دنیا کیسے کام کرتی ہے کی کسی چھوٹی سی جزء سے مسحور ہوتے ہیں اور ہم اس کے متعلق سوچتے رہنے سے خود کو روک نہیں پاتے جب تک کہ اسے بہتر طور پر سمجھ نہ لیں۔ ہم مستقلاً اس بات سے مبہوت رہتے ہیں کہ کس طرح چند بنیادی اصول ایک ساتھ کام کر کے اتنی ساری مختلف چیزوں کی وضاحت کرتے ہیں، اور دنیا کی خوبصورتی پر حیرت اور تعجب کی کیفیت میں بیٹھے رہتے ہیں۔ ایک آرٹسٹ کی طرح، میں اس خوبصورتی کو اوروں کے ساتھ بانٹنا چاہتی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ یہ جانیں کہ میری نگاہوں سے دیکھنا کیسا ہے۔

چنانچہ، اب جبکہ تقریباً رات کے 3 بجنے کو ہیں، یہ سوال کہ میں یہاں کیا کر رہی ہوں اتنا دلچسپ نہیں رہا۔ میرا تجربہ اپنی 20 سیکنڈ کی ترتیب کے ساتھ چلتا رہتا ہے جبکہ میرے کمپیوٹر وہ ڈیٹا جمع کرتے رہتے ہیں جو ایٹموں کے ایک ننھے سے بادل کا برتاؤ آشکار کرتا ہے، برتاؤ جو کہ میری دنیا کی فطرت کو سمجھنے میں میری مدد کرے گا۔ اور اگر یہ ٹھیک طرح سے کام نہ کرے، تو میرے ساتھی آئیں گے اور ہم کل دوبارہ کوشش کریں گے۔