(امیر سیف اللہ سیف)
جاپان میں یہ واقعہ زبان زد عام ہے کہ پانچویں صدی عیسوی کے وسط میں ایک ممتاز بدھ راہب ہر وقت گیان دھیان میں مصروف رہتا تھا۔ اس کا نام کیمپفر تھا۔ اس نے ہر طرح کا آرام اپنے اوپر حرام کر لیا تھا۔ کم کھانا، کم بولنا اور کم سونا۔ وہ مسلسل کئی کئی راتیں جاگ کر گزارتا تھا، مگر ایک دفعہ وہ فطری نیند کے ہاتھوں ایسا مجبور ہوا کہ نفس کشی کا ماہر ہونے کے باوجود، وہ نیند پر قابو نہ پا سکا اور خود بخود اس کی پلکیں بند ہوتی چلی گئیں۔ جب آنکھ کھلی تو اپنے نفس کی اس عیاشی پر بہت جھنجھلایا اور اسے سزا دینے کے لیے اپنی دونوں پلکیں اکھاڑ کر زمین پر پھینک دیں۔ پلکوں کا زمین پر پھینکنا تھا کہ وہاں ایک پودا پھوٹ پڑا۔ بدھ راہب نے اس کے پتے توڑے اور چبانے کے لیے منہ میں رکھ لیے۔ اس کی حیرانی کی انتہا نہ رہی جب اسے ان کے چباتے ہی اپنے جسم میں ایک نئی قسم کی توانائی محسوس ہوئی اور ’’نیند بی بی‘‘ اس سے کوسوں دور چلی گئی۔ بعد میں اس بدھ راہب نے نیند بھگانے کا یہ نسخہ اپنے شاگردوں کو بھی بتا دیا۔
آج سے دو سو سال قبل لکھی جانے والی معروف طبی کتاب مخزن الادویہ، میں پرانی عربی کتب سے حکیم مرزا قاضی کے حوالے سے ایک واقعہ درج ہے کہ زمانۂ قدیم میں چین کا ایک شہنشاہ اپنے ایک مصاحب سے ناراض ہو گیا اور اسے دیس نکالا دے دیا۔ وہ غریب مدتوں جنگلوں، ویرانوں اور پہاڑوں میں در بدر ٹھوکریں کھاتا رہا۔ کھانے پینے کی کوئی چیز اس کے پاس باقی نہ رہی۔ ایک دن بھوک پیاس سے نڈھال ہو کر وہ ایک پہاڑ کے دامن میں ہمت ہار کر گر گیا۔ کچھ دیر بعد ہوش آئی تو بھوک نے پھر تڑپا کر رکھ دیا۔ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے وہاں پر اُگی ہوئی ایک گھاس کے پتے توڑ توڑ کر کھانا شروع کر دیئے، مگر اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی جب اس نے محسوس کیا کہ صرف اس کی بھوک کی تسکین ہی نہیں ہوئی بلکہ اس کے جسم میں نئی قوت بھی آ گئی ہے۔ کئی روز تک وہ دامن کوہ میں مقیم رہا اور اس گھاس کو بطور غذا استعمال کرتا رہا۔ جس سے اس کی صحت قابل رشک ہو گئی۔ وہ وہاں سے شہر لوٹ آیا اور بادشاہ کے مصاحبین اس سے عجیب و غریب گھاس کا ذکر کیا جو اس کی حیات نو کا سبب بنی۔ مصاحبین سے یہ بات بادشاہ تک پہنچی۔ اس معتوب درباری کو طلب کیا گیا اور بادشاہ اس کی قابل رشک صحت دیکھ کر حیران رہ گیا۔ شاہی طبیبوں کو اس کے ساتھ بھیجا گیا اور پہاڑوں سے وہ گھاس منگوا کر تجربہ کیا گیا تو وہی فوائد ظاہر ہوئے جو اس مصاحب نے بیان کیے تھے۔ چنانچہ اس وقت سے اس گھاس، یعنی چائے کا استعمال شروع ہو گیا۔ عرصہ دراز تک وہ بطور ٹانک شاہی خاندان اور امرائے حکومت تک محدود رہی۔ پھر عام لوگ بھی اسے استعمال کرنے لگے اور آہستہ آہستہ چین کے لوگوں کا قومی مشروب بن گئی۔
چائے کا پودا چین سے دوسرے تمام ملکوں میں مسلمان سیاحوں کے ذریعے پہنچا۔ ایک مسلمان سیاح سلیمانی سیرانی، جس نے ابو زید سیرانی کے ساتھ کئی مرتبہ چین کا سفر کیا تھا اپنی تالیف سلسلۃ التاریخ (مطبوعہ ۸۵۱ء) میں لکھا ہے : ’’چین میں ایک قسم کی گھاس پائی جاتی ہے۔ جسے وہاں کے لوگ جوش دے کر پیتے ہیں اور تمام شہروں میں بڑے وسیع پیمانے پر وہ گھاس بکتی ہے اس سے چینی حکومت کو بڑی آمدنی ہوتی ہے۔ وہاں کے لوگ اس گھاس کو ساخ (چاہ) کہتے ہیں۔ اس میں قدرے تلخی پائی جاتی ہے۔ اسے کھولتے ہوئے پانی میں ڈال کر پیتے ہیں اور بہت ہی مفید اور مقوی ٹانک سمجھتے ہیں جس کا کوئی دوسرا مشروب مقابلہ نہیں کر سکتا۔‘‘ ساخ دراصل چائے ہی کا بگڑا ہوا نام ہے کیونکہ عرب ’’چ‘‘ کا تلفظ ادا نہیں کر سکتے اس لیے ’’چاہ‘‘ سے ساخ بن گیا۔ سلیمانی سیرانی مزید لکھتا ہے کہ چین کے سرکاری خزانوں میں آمدنی کے تین ذریعے تھے۔ عرب تاجروں سے وصول کیا جانے والا ٹیکس، نمک اور یہ گھاس۔ چین کے سرکاری گزٹ میں اس کا تذکرہ موجود ہے کہ ۷۹۳ء میں چائے بطور ٹیکس سرکاری خزانوں میں جمع کرائی جاتی تھی۔ صدیوں تک چائے بہت مہنگے داموں بکتی رہی۔ تبت کے تاجروں کے پاس جب کوئی چائے کا گاہک آتا تھا تو سوائے کستوری کے کسی اور چیز سے اس کا تبادلہ نہیں کرتے تھے۔ وہ اسے شراب کی مضرت دور کرنے کے لیے استعمال میں لاتے تھے۔
جاپان میں اس کا باقاعدہ استعمال پندرھویں صدی عیسوی میں شروع ہوا۔ روس میں پہلی بار چاہئے ۱۶۳۸ء میں وسطی منگولیا میں مقیم روسی سفیر ستارکوف کے ذریعہ ماسکو پہنچی۔ منگولیا کے حکمران التین خاں نے زار روس کو بطور تحفہ چائے کے دو سو پیکٹ ارسال کیے۔ ستارکوف اسے بیکار چیز سمجھتا تھا اور بادلِ نخواستہ اسے ماسکو لے گیا تھا، لیکن زارِ روس اور اس کے مصاحبوں کو اتنی پسند آئی کہ اسے قومی مشروب کا درجہ دے دیا گیا۔
سولہوی صدی کے آخر میں اہل پرتگال اس گھاس کو یورپ لائے۔ ۱۶۳۵ء میں پہلی بار پیرس پہنچی اور جلد ہی اس نے وہاں کے حکمرانوں کے دل میں گھر کر لیا۔ حتیٰ کہ ۱۶۵۸ء میں شاہی باغات میں اس کی کاشت شروع کر دی گئی۔
سترھویں صدی میں ایک عیسائی مشنری جیوٹ ٹراگالٹ نے اپنے سفرنامے میں چائے کا تذکرہ کیا اور یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ یورپ کو چائے چکھانے کا سہرا ولندیزی ایسٹ اینڈیا کمپنی کے سر ہے۔ ۱۶۶۶ء میں لارڈ آرلنگٹن کے ذریعے براستہ ہالینڈ انگلستان پہنچی۔ اسی سال برطانوی پارلیمنٹ نے چائے کے متعلق ایک بل پاس کیا، جس کی رو سے تیار شدہ چائے کے ایک گیلن پر آٹھ پنس ٹیکس لگا دیا گیا۔ اہل یورپ جو اپنے آپ کو عقل و دانش کا سرچشمہ سمجھتے ہیں، مدتوں اس کے طریق استعمال کو نہ سمجھ سکے۔ وہ چائے کو پانی میں پکا کر اس کا عرق پھینک دیتے اور پتیاں چبا لیتے تھے۔ سالہا سال کے بعد انہیں اپنی اس حماقت کا احساس ہوا۔ ملکہ این کے زمانہ میں وہ، اس کے تمام وزراء و امراء سب اس کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہو گئے اور پھر اس کی دلنواز خوشبو اور نظر نواز رنگت نے ہر چھوٹے بڑے کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی اور پھر یہ بازار کی زینت بن گئی۔
جہاں تک برصغیر میں چائے کے تعارف کا تعلق ہے وہ انگریز بہادر کے ذریعہ ہوا، جو تجارت کی آڑ میں ہندوستان میں قابض ہو گئے۔ جہاں جہاں ان کے قدم پہنچے وہاں وہاں چاہے بھی پہنچی۔ ۱۸۵۷ء میں جنگ آزادی کے بعد فرنگیوں نے جب پورے ملک پر قبضہ کر لیا تو چائے نے بھی اپنا تسلط جما لیا۔ انگریز تو ۱۹۴۷ء میں رخصت ہو گیا لیکن چائے کی گرفت اور بھی مضبوط ہو گئی۔ برصغیر والوں نے چائے نوشی میں یورپ اور چین کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ اس کے بغیر اب نہ کوئی تقریب مکمل ہوتی ہے، نہ مہمان نوازی کے تقاضے پورے ہوتے ہیں۔
شروع شروع میں برصغیر اور خصوصاً پنجاب کے لوگوں نے چائے کی بے حد مخالفت کی، لیکن چائے کمپنیوں نے گاؤں گاؤں جا کر مفت چائے پلا کر اس کا ایسا چسکہ ڈالا کہ وہ غیر رسمی طور پر یہاں کا قومی مشروب بن کر رہ گئی۔ عام لوگوں کی تو بات ہی کیا، مولانا ابوالکلام آزاد جیسے عالم بھی اس کی تعریف میں رطب اللسان نظر آتے ہیں۔
مختلف نام
اُردو، ترکی، چینی اور روسی میں چائے، فارسی میں چائے خطائی، پنجابی میں چاء، سندھی میں چانھ، پشتو میں ساؤ، عربی میں شائی، انگریزی میں ٹی (TEA) فرانسیسی میں تھائے اور لاطینی میں کوملیا تھیفرا (Commllia Thefera) کہتے ہیں۔
لفظ چائے، دراصل چینی زبان کا لفظ ہے، جو دو لفظوں سے مرکب ہے ’چا‘ اور ’ئے‘۔ چاء اس مشروب کو کہتے ہیں جس میں یہ بوٹی ڈال کر گرم کر کے اس کا عرق نکالا جاتا ہے اور ’ئے‘ پتی کو کہتے ہیں، جو پینے کے لیے نہیں بلکہ پھینکنے کے لیے ہوتی ہے۔ لغوی معنوں میں سبز گھاس کو کہا جاتا ہے لیکن اصطلاحاً اس پودے کے لیے استعمال ہونے لگا جس سے ’’چاء‘‘ بنائی جاتی ہے۔ دنیا کی تقریباً ہر زبان میں اس کے لیے بولا جانے والا لفظ تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ یا من و عن چینی زبان ہی سے اخذ کیا گیا ہے۔
مقام پیدائش
چین، تبت، نیپال، سری لنکا، انڈونیشیا، برازیل، کینیا، ارجنٹائن، زمبابوے، آسام، اور بنگال۔
انگریز کا بنیا ذہن چین کی درآمدی تجارت کو برداشت نہ کر سکا۔ اس نے انیسویں صدی کے آخر میں چائے کے باغات اپنے مقبوضات میں لگانے شروع کیے اور ۱۹۲۶ء تک آسام اور بنگال کے ۲۰۳۲۰۰ مربع ایکڑ پر چائے کی کاشت کی گئی تھی۔
ماہیت
چائے، ایک جھاڑی نما پودے کی پتیاں ہیں، جس کی اونچائی ایک گز یا اس سے کچھ زیادہ ہوتی ہے۔ اس کا پودا بڑی حفاظت اور احتیاط کے ساتھ پرورش پاتا ہے۔ اس کے پودوں کو پہلے گملوں میں بویا جاتا ہے چھ ماہ بعد جب پنیری تیار ہو جاتی ہے تو بڑے بڑے قطعات زمین پر قطار اندر قطار بو دیا جاتا ہے۔ اس کی کاشت سطح سمندر سے پانچ ہزار فٹ بلند ایسی پہاڑی ڈھلوانوں پر کی جاتی ہے، جہاں بارش کی اوسط 56،60 انچ سالانہ ہو۔ اس کی پتیاں مہندی یا انار کے پتوں جیسی ہوتی ہیں، جن کے کناروں پر چھوٹے چھوٹے دندانے ہوتے ہیں۔ شروع میں ان کا رنگ بھورا ہوتا ہے جو پختہ ہونے پر سبز ہو جاتا ہے۔ اس کا پھول سفید رنگ کا ہوتا ہے اور اتنا خوشبودار کہ میلوں تک اس کی مہک جاتی ہے۔ اس کے پتوں میں تلخی ہوتی ہے لیکن ابالنے سے زائل ہو جاتی ہے۔ چائے کی پتیاں تین سال بعد چننا شروع کی جاتی ہیں اور سال میں تین بار توڑی جاتی ہیں۔
چائے کی اقسام
چائے کی ایک ہزار سے زیادہ اقسام ہیں۔ جن میں سے زیادہ تر خود رو ہیں، لیکن بلحاظ رنگت تین قسمیں زیادہ مشہور ہیں۔ سفید، سبز اور سیاہ۔ سب سے بہتر وہ سفید چائے ہے جو خوشبودار ہو اور جن کی پتیاں ادھ کھلی ہوں لیکن یہ قسم کم یاب ہے۔ اس کے بعد سبز چائے کا نمبر آتا ہے مگر اس میں خشکی زیادہ ہوتی ہے۔ سب سے گھٹیا قسم سیاہ رنگت والی ہے جو ہمارے ہاں زیادہ تر استعمال کی جاتی ہے۔ آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ اعلیٰ سے اعلیٰ اور گھٹیا سے گھٹیا چائے ایک ہی پودے سے تیار کی جاتی ہے۔ سبز چائے ان پتیوں پر مشتمل ہوتی ہے جنہیں تھوڑی دیر سکھا کر فوراً ہی اکٹھا کر لیا جاتا ہے۔ اس میں چائے کی تمام خصوصیات موجود رہتی ہیں۔ کالی چائے زیادہ دیر تک پڑے رہنے والے سوکھے پتوں سے تیار ہوتی ہے۔ زیادہ دیر تک پڑے رہنے سے ان کا قدرتی سبز رنگ سیاہی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
کالی چائے کے جن برانڈوں نے عالمی شہرت حاصل کی ہے ان میں ہائی سن، ہائی سن سکن، ینگ ہائی سن، ٹوانکی، امپیریل اور گن پاؤڈر شامل ہیں۔ بہت سے برانڈوں میں مختلف پھولوں اور پھلوں کی خوشبو شامل کر دی جاتی ہے۔ مثلاً گلاب، چنبیلی، زیتون، سنگترہ وغیرہ۔ بعض چائے کمپنیاں اپنی برانڈ کو کسی ایسے نشے کی پٹھ دے دیتی ہیں جس سے پینے والا اسی کا عادی بن جاتا ہے۔ بازاروں میں بکنے والی سبز چائے کا بیشتر حصہ عموماً مصنوعی طور پر رنگا جاتا ہے اور اس مقصد کے لیے جپسم، نیل اور ہلدی وغیرہ استعمال کی جاتی ہے۔
عمدہ چائے کے بارے میں پرانی طبی کتب میں بے شمار واقعات ملتے ہیں۔ ایک واقعہ کچھ اس طرح سے ہے۔ ’’خطا‘‘ کے علاقہ میں کچھ لوگوں نے شکار کیا اور اس کا گوشت چائے کی پتیوں سے ڈھانپ کر رکھ دیا۔ چند گھنٹوں بعد جب اسے نکالا گیا تو سارا گوشت گل چکا تھا۔ چنانچہ اس سے یہ نتیجہ برآمد کیا گیا کہ عمدہ چائے کھانے کو، خصوصاً گوشت کو بہت جلد ہضم کر دیتی ہے۔
کیمیائی تجزیہ
امریکہ میں کیمیا دانوں نے چائے کی اڑھائی ہزار کے مختلف برانڈوں کا تجزیہ کر کے جو رپورٹ دی ہے اس کے مطابق اس کے اجزاء کی تفصیل درج ذیل ہے۔
* | فیصد | اوسط فیصد |
تھی این | 1.88 تا 3.24 | 2.56 |
ٹے نین | 13.04 تا 18.86 | 14.32 |
ناقابلِ حل پتیاں | 47.12تا 55.87 | 50.19 |
راکھ کی مقدار | 5.05 تا 6.02 | 5.13 |
ست چائے | 37.8 تا 40.35 | 37.84 |
نمی | 5.83 تا 6.35 | 5.38 |
تھی این کیفین سے ملتا جلتا ایک مرکب ہے، جسے ۱۸۳۸ء میں دریافت کیا گیا تھا۔ کیفین کافی میں ہوتی ہے اور تھی این چائے میں۔ جس طرح کیفین کی وجہ سے کافی نے مقبولیت حاصل کی اسی طرح تھی این چائے کو مقبول بنانے کا سبب بنی۔ اس کی موجودگی اعصابی تھکن کو دور کرنے کا کام کرتی ہے۔ ٹے نین چائے کا انتہائی ضرر رساں جزو ہے۔جس کی وجہ سے عادی چائے نوش دائمی قبض، خشکی، بے خوابی اور فم معدہ کے درد میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ چائے کی پتی کو جتنا زیادہ جوش دیا جائے ٹے نین اتنی ہی زیادہ مقدار میں نکل کر نقصان پہنچاتا ہے۔ ان کے علاوہ ایک اور مرکب زینتھین بھی موجود ہوتا ہے جو معدہ میں فساد برپا کرنے کا سبب بنتا ہے۔
طبیعت
دوسرے درجہ میں گرم خشک ہے۔ اسی لیے گرم مزاج لوگوں کو نقصان دیتی ہے۔
مصلح
دودھ اور بالائی گرم مزاجوں کے لیے۔
دارچینی، سونٹھ، لونگ اور بادیان خطائی سرد مزاجوں کے لیے۔
چائے تیار کرنے کا طریقہ
چائے کے شائقین نے بڑے بڑے مشکل طریقے لکھے ہیں۔ چین کے مشہور ادیب لن یوتانگ نے اپنی تالیف ’’جینے کی اہمیت‘‘ میں یہاں تک لکھا ہے کہ پینے والا خود ہی اپنے لیے چائے بنائے اور ایک وقت میں ایک برتن میں دو سے زائد کپ نہ بنائے جائیں، لیکن اس مصروف دور میں ہر شخص تو اس شغل چائے نوشی کے لیے وقت نہیں نکال سکتا۔ اس لیے ایک ایسی ترکیب درج کی جا رہی ہے جس پر ہر شخص عمل کر سکتا ہے۔
چائے کی پتی کا ایک چمچ چائے دانی میں ڈالیں اور ایک دفعہ جوش دیا ہوا، کھولتا ہوا پانی جو چار پیالی کے لگ بھگ ہوا اس میں ڈال کر چائے دانی کو سرپوش سے بند کر کے ٹی کوزی سے ڈھانپ دیں یا کوئی موٹا کپڑا لپیٹ دیں۔ پانچ منٹ بعد مناسب مقدار میں دودھ اور چینی شامل کر کے نوش فرمائیں۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ پتی کو جوش نہ دیا جائے، یہ نقصان دہ ہے۔ دودھ اور بالائی کا زیادہ استعمال کیا جائے، یہ مضر اثرات کی اصلاح کرتی ہے۔
چائے کے فوائد
طبیعت میں فرحت و انبساط پیدا کرتی ہے۔ مقوی اعصاب ہے۔ پیاس کو بجھاتی ہے۔ درد سر کو دور کرتی ہے۔ پسینہ آور ہے، اس لیے بخار کو بھی اتارتی ہے۔ مصفی خون ہے۔ جسم اور رخساروں کی رنگت نکھارتی ہے۔ ریاح اور ورموں کو تحلیل کرتی ہے۔ چائے کی پتی کو گرم کر کے سخت پھوڑوں پر باندھیں تو انہیں نرم کرتی اور پھوڑتی ہے۔ بواسیر کا درد رفع کرتی ہے۔ کھانا کھانے کے بعد استعمال کرنا اکثر حالتوں میں ہاضم اثر رکھتی ہے۔ ایسی خواتین جنہیں ایام کی بندش ہو مفید ہے۔ اعصاب رحم کو تحریک دے کر اس شکایت کا ازالہ کرتی ہے۔ زکام کے مریض کے لیے نافع ہے۔ ضعفِ قلب کی وجہ سے ہونے والی حالت نزع میں اگر چائے کی ایک پیالی میں لونگ اور تھوڑی سی دار چینی ڈال کر دیں تو آب حیات کا کام کرتی ہے۔ دم کشی کی ایسی صورت میں جب بلغم پتلی ہو گئی ہو چائے کا قہوہ پینے سے خارج ہو جاتی ہے۔ آنکھیں دکھتی ہوں تو چائے کی پتی گرم کر کے پوٹلی بنا کر آنکھوں پر باندھنے سے درد دور ہو جاتا ہے اور تڑپتا ہوا مریض سکون سے سو جاتا ہے۔ سرد بلغمی مزاج والے افراد کے لیے ہر موسم میں اور گرم مزاج والوں کے لیے کسی حد تک موسم سرما میں مفید ہے۔
نقصانات
چائے کا بکثرت استعمال جدید طبی تحقیقات کی رُو سے بے شمار نقصانات کا باعث بھی بنتا ہے۔ یہ طبیعت میں گرمی پیدا کر کے گرم امراض پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔ بہت گرم چائے پینا یا چائے نوشوں کی لغت میں لب سوز چائے، پینا یا نہار منہ (Bed Tea) استعمال کرنا مضر صحت ہے۔ اس کی زیادتی سے بعض افراد کو رعشہ کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔ بلڈ پریشر میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ نیند اُڑ جاتی ہے۔ پیشاب زیادہ لاتی ہے۔ دانت کمزور ہو جاتے ہیں۔ معدہ میں خراش پیدا کرتی اور بعض حالتوں میں ہاضمہ کو خراب کر دیتی ہے۔ قبض کی شکایت کا سبب بھی بنتی ہے۔ جگر خراب ہونے سے خون کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ یہ خون کو فاسد کرتی ہے۔ بعض مردانہ امراض بھی اس کے کثرت استعمال سے لاحق ہو جاتے ہیں۔ خونی بواسیر کے مریضوںکے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ دیر تک استعمال کرنے سے نظر کو کمزور دیتی ہے۔ اس لیے چائے کو صرف ضرورت کے وقت استعمال کیا جائے، کیونکہ اس میں غذائیت بالکل نہیں ہوتی۔ صرف تازیانے کا کام کر کے وقتی طور پر چاق و چوبند کرتی ہے۔
(بحوالہ : قدرتی غذاؤں کا انسائیکلوپیڈیا، صفحہ نمبر 254)
چائے سے جان چھڑائیے،چائے کا مزا بھی لیجئے
آج سے تقریباً دس سال پہلے کی بات ہے ایک معروف ادیب کا خط موصول ہوا جس میں انہوں نے مجھ سے فرمائش کی تھی کہ استاذ الحکماء حکیم محمد عبداللہ سے کہوں کہ وہ دیگر اشیاء کے خواص کی طرح چائے کے خواص بھی لکھیں۔ میں نے والد صاحب سے عرض کیا تو والد مرحوم نے کہا : ’’اس کے نقصانات فوائد سے زیادہ ہیں۔ میں کوشش کروں گا ایسی چیزوں کی ایک فہرست تیار کروں جو چائے کے فوائد سے تو مالا مال ہو، لیکن اس کے نقصانات اس میں نہ ہوں۔ سستی ہوں، عام ملنے والی ہوں۔‘‘
پھر فرمایا : ’’مشرقی پاکستان کے سانحہ کے بعد جب بھی چائے پینے لگتا ہوں، وہ زخم ہرا ہو جاتا ہے۔ اگر یہ بازو پاکستان ہی کا حصہ ہوتا تو اپنے ملک کی پیداوار پر کچھ لکھتا، لیکن اب میں اپنے میں ہمت نہیں پاتا۔‘‘ اس کے بعد چائے کے نعم البدل کے طور پر استعمال کی جانے والی اشیاء پر ریسرچ شروع کی۔ خیال تھا پچاس کے قریب ایسے بدل دریافت ہوں تو انہیں کتابی شکل میں پیش کر دیا جائے، لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور یہ مسودہ اُدھورا ہی رہ گیا۔ بہرحال اس توقع کے ساتھ انہیں قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں کہ یہ قوم کی امانت ہے اور حق دار تک پہنچانا امانت داری کا تقاضا۔
میرے بدوِ شعور میں چائے کا استعمال برائے نام ہی کیا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ میرے زاد بوم روڑی ضلع حصار (مشرقی پنجاب) میں، جس کی آبادی اس وقت چار پانچ ہزار تھی چائے پینے والے صرف دو تین افراد تھے۔ تقریباً سبھی لوگ دودھ، دہی، گھی، مکھن اور لسی کا استعمال کیا کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے ان کی صحت قابل رشک تھی۔ اس وقت اگر چائے کا رسیا کوئی مہمان آ جاتا تو چائے کی پتی تلاش کرنا مسئلہ بن جاتا تھا۔ مانگ نہ ہونے کی وجہ سے دکانیں اس سے خالی ہوتی تھیں لہٰذا کسی چائے نوش کے گھر سے ہی یہ مسئلہ حل ہوتا تھا، اب تو سماں ہی اور ہے۔ چائے نہ پینے والے خال خال ہی ملتے ہیں۔ جب اس ’’کالی بلا‘‘ کا ہمارے ملک پر حملہ نہیں ہوا تھا، اس وقت لوگ بہت صحت مند، با حوصلہ اور متحمل مزاج ہوا کرتے تھے۔ اب چائے، کافی اور کھاد زدہ اناج نے ہمارے آنے والی نسلوں کی صحت کا دیوالیہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ مادی اور روحانی قوتیں فی الواقع مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ یوں لگتا ہے ان لوگوں پر جوانی نام کا کوئی زمانہ آتا ہی نہیں۔ سرخی سے محروم مریل اور خشک چہرے، قوتِ ہاضمہ نے نہ ہونے کے برابر، چند قدم چلنے سے سانس پھولنا، ہاتھ پاؤں کے تلووں کا جلنا، ٹائیفائیڈ، تپ دق، کینسر جیسے امراض میں روز بروز اضافہ، جنسی امراض کی کثرت۔ میں حلفاً کہتا ہوں کہ تبخیر معدہ اور ضعف باہ کے جتنے مریض میں ایک سال میں دیکھتا کرتا تھا، اتنے اب ہفتے میں آ جاتے ہیں۔ چائے اور دوسری مضر صحت اشیاء کے بار بار استعمال نے نوجوانوں کی صحت ہی برباد نہیں کہ بلکہ ٹھنڈے دل و دماغ، قوت، حوصلہ اور بردباری کو شدید متاثر کیا ہے۔ چڑچڑا پن، بات بات پر لڑائی جھگڑا ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑنا یہ سب انہی چیزوں کے ثمرات ہیں۔ ایک اور اہم بات جس کی طرف میں آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ اکثر چائے کمپنیاں اپنے برانڈ کو دھتورہ، بھنگ یا کسی اور زہریلی چیز کی پٹھ دے دیتی ہیں، جس کی وجہ سے پینے والا اسی خاص قسم کی چائے کا عادی ہو جاتا ہے اور دوسری کمپنیوں کی چائے سے اس کی تسکین نہیں ہوتی۔ پٹیالہ سے شائع ہونے والے ایک معروف طبی رسالے امرت، نے اپنی مارچ ۱۹۲۹ء کی اشاعت میں لکھا تھا کہ چند سال پہلے اخبارات میں اس بات کا کافی چرچا رہا کہ انگلینڈ میں ایک دفعہ باہر سے چائے نہ آئی اور لوگوں نے اپنے ملک کی چائے استعمال کرنا شروع کر دی، جو بیرونی ملکوں میں بھیجنے کے لیے پیک کی گئی تھی۔ لیکن انہیں اس کے استعمال سے یہ کہہ کر روک دیا گیا کہ چونکہ اسے زہریلی اور نشہ آور چیزوں کی پٹھ دی گئی ہے۔ اس لیے یہ آپ لوگوں کے لیے نہیں ہے۔ اپنی بات کی تصدیق میں دو واقعات عرض کروں گا۔
حافظ محمد یوسف گکھڑوی ایک نامور اہل حدیث عالم ہیں۔ میں ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ان کے ایک دوست نے جو ایک معروف چائے کمپنی میں مینجر تھے، بیان کیا کہ ہر کمپنی اپنی چائے کی پتیوں کو کسی نہ کسی زہر میں تر کر کے تیار کرتی ہے تاکہ اس کو کچھ عرصہ استعمال کرنے والا اس نشے کا عادی ہو جائے اور پھر اس خاص کمپنی کی چائے استعمال کیے بغیر اسے سکون حاصل نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ چائے کے ’’عادی مجرم‘‘ جس چائے کا شوق فرماتے ہیں پھر اسی کے گن گاتے نظر آتے ہیں۔
قیام پاکستان سے پیشتر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ پونچھ روڈ مبارک پارک میں مقیم تھے۔ انہوں نے ایک نجی مجلس میں اپنے محلہ کی ایک کہانی سنائی اور فرمایا ’’سرمایہ داری کی لعنتوں میں ایک لعنت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے سرمایہ کے بل پر بعض غیر ضروری بلکہ مضر صحت اشیاء کو بھی اشتہار بازی کے ذریعے ضروریاتِ زندگی میں شامل کر دیتے ہیں۔ اور قوم اپنا سرمایہ بھی لٹا دیتی ہے اور صحت بھی۔‘‘ مثال کے طور پر انہوں نے بیان فرمایا ’’ہمارے اس محلہ میں ایک ماہ سے زیادہ عرصہ ایک مشہور چائے کمپنی کا ایجنٹ بالالتزام بلا ناغہ آتا رہا اور اپنی کمپنی کی تیار کردہ چائے کا ایک پیالہ سب کو مفت پلاتا رہا اور لوگ مالِ مفت سمجھ کر خوب پیتے رہے۔ اس نے دیکھا کہ اب لوگ اس چائے کے عادی ہو گئے ہیں تو وہ ایک دن غائب ہو گیا۔ اب لوگ اس کی تلاش میں مارے مارے پھرنے لگے ان کی تسلی نہیں ہوتی تھی جب تک خرید کے پی نہ لیتے۔
یہ مضمون اس لیے لکھا جا رہا ہے کہ اپنی قوم کو چائے اور اس کی آڑ میں دی جانے والی نشیلی چیزوں سے بچایا جائے اور ان چیزوں کی ترغیب دی جائے جو مفید بھی ہیں، صحت بخش بھی اور ملک کا سرمایہ بچانے والی بھی۔ چائے کے ایسے بے شمار نعم البدل آج کی مجلس میں پیش کر رہا ہوں۔
سیب کے چھلکے کی چائے
سیب کے چھلکے جنہیں ہم ضائع کر دیتے ہیں۔ ان میں بھی قدرت نے غذائیت، لذت اور بے شمار فوائد رکھے ہیں۔ ان کو تازہ یا خشک شدہ لے کر حسب دستور کھولتے ہوئے پانی میں ڈال کر چائے تیار کریں۔ اگر دودھ اور چینی کی بجائے شہد اور لیموں کا رس ملا کر نوش فرمائیں تو اور بھی مفید ہے۔ جسمانی طور پر کمزور افراد اور بوڑھوں کے لیے حد درجہ صحت بخش ہے۔ پیچش اور ٹائیفائیڈ کی کمزوری دور کرنے کے لیے اوولٹین سے بڑھ کر ہے۔ جوڑوں کا درد رفع کرنے کے لیے اس کا مسلسل استعمال نہایت مفید ہے۔
آم کے پتوں کی چائے
آم کے پتے سایہ میں خشک کر کے بطور چائے استعمال کریں۔ دودھ اور چینی بھی شامل کریں۔ نزلہ، زکام، ضعفِ دماغ، کھانسی، ہچکی، خونی بواسیر، سل، لیکوریا اور کثرت حیض کے لیے شافی ہے۔ پیچش، دشت اور سنگرہنی میں بھی دودھ ملائے استعمال میں لائیں۔
بادام کی چائے
میرے ایک دوست نے اپنا ذاتی تجربہ بیان کیا جس کے استعمال سے انہیں تبخیر معدہ اور عینک دونوں سے نجات مل گئی۔ صبح شام چائے بناتے وقت بجائے دودھ کے اکیس عدد باداموں کو پانی میں پیس کر اس میں شامل کریں۔ سرد مزاج والے چینی کی بجائے شہد کا اضافہ کر لیں اور حسب دستور چائے بنا کر استعمال کریں۔ غذا کی غذا اور دوا کی دوا۔
لیموں کی چائے
یورپ اور امریکہ میں عرصۂ دراز سے عام چائے میں دودھ کی بجائے لیموں اور برف ڈال کر پینے کا رواج ہے۔ اعصابی کمزوری کے لیے یہ بے حد مفید ہے۔ اگر برف ڈالے بغیر چائے میں لیموں نچوڑ کر گرم گرم مریض کو پلا دیں تو ان شاء اللہ درد سر فوری طور پر دور ہو گا۔
سونف کی چائے
نزلہ، زکام اور نظر کی کمزوری کے لیے سونف کی چائے بڑی عجیب چیز ہے۔ ایک تولہ سونف کو آدھ سیر پانی میں جوش دیں جب چوتھا حصہ پانی باقی رہ جائے تو چھان کر چینی آمیز کر کے صبح شام ایک ایک کپ پئیں۔ اگر اس میں ۳، ۴ لونگ ڈال لیں تو اور بھی مفید ہے۔
لہسن کی چائے
فالج ایک خوفناک مرض ہے جس کے لیے بہت طویل علاج اور کثیر رقم کی ضرورت ہوتی ہے، مگر قدرت نے لہسن کو اس کے لیے اکسیر بنا کر بھیجا ہے۔ جب اس مرض کا آغاز ہو تو مریض کو کھانے کے لیے کوئی چیز نہ دیں۔ صرف چائے پکا کر اس میں دودھ کی بجائے لہسن کا پانی نکال کر ۳ ماشہ اور شہد شامل کر کے پلائیں۔ بھوک برداشت کر کے ۴، ۵ دن صرف لہسن والی چائے استعمال کریں۔ تو بحکم خدا اکثر فائدہ ہو جاتا ہے۔
برگد کی چائے
برگد ایک ایسا درخت ہے جو صحیح طور پر چائے کا نعم البدل ثابت ہو سکتا ہے اور اس کے ذریعے ہم ملکی زرمبادلہ بچا سکتے ہیں۔ اس کے ہر جزو کو جوش دینے سے چائے جیسا رنگ پیدا ہوتا ہے۔ اس کے نرم نرم پتے جو سرخ رنگ کے ہوتے ہیں سایہ میں خشک کر کے کوٹ کر ڈبوں میں پیک کر کے تجارتی پیمانے پر فروخت کیے جا سکتے ہیں۔ ۶ ماشہ یہ پتے آدھ سیر پانی میں جوش دیں جب آدھ پائو پانی باقی رہ جائے تو حسب دستور چینی اور دودھ شامل کر کے پئیں۔ نزلہ، زکام، کھانسی اور ضعف دماغ کے لیے بے حد مفید ہے۔ اگر برگد کے درخت کے چھلکے کو اس طرح خشک کر کے چینی کی بجائے نمک آمیز کر کے دن میں تین بار بطور چائے استعمال کرائیں تو ملیریا بخار دور ہو جاتا ہے۔ اس کی داڑھی کی چائے پیاس کی زیادتی، گرمی سے ہونے والے بخار، سن سٹروک، نزلہ، زکام اور مردوں کی تمام امراض کے لیے بے حد کار آمد ہے۔ ایک صاحب نے بیان کیا کہ جب سے میں نے برگد کی چائے کا استعمال شروع کیا ہے تب سے ہر مرض سے محفوظ و مامون ہوں۔
کیکر کی چائے
کیکر کے درخت کی چھال اتار کر سایہ میں خشک کریں اور بوقت ضرورت آدھ سیر پانی میں ڈال کر جوش دیں جب چوتھا حصہ رہ جائے تو صرف چینی شامل کر کے صبح شام گرم گرم پئیں۔ چند روز کے استعمال سے پرانی سے پرانی کھانسی رفع ہو گی۔ اگر کیکر کی گوند چھ ماشہ پانی میں جوش دے کر ذرا سرد ہونے پر چینی ملا کر چائے کی طرح گھونٹ گھونٹ پئیں تو پیچش رفع کرنے کے لیے اکسیر ہے۔
پیپل کی چائے
پیپل کے درخت کی چھال، نرم پتے یا کونپلیں بطور چائے استعمال ہو سکتے ہیں۔ ان کو تازہ یا خشک کر کے رکھ لیں اور جو چیز بھی میسر ہو ۴ ماشہ لے کر پاؤ بھر پانی میں جوش دیں۔ آدھا پانی خشک ہونے کے بعد کھانڈ اور دودھ ملا کر بطور چائے استعمال کریں۔ حافظہ کی کمزوری، نسیان اور ضعفِ دماغ کے لیے بے حد مفید ہے۔ خاص طور پر اساتذہ، طلبا، علماء، وکلاء، صحافیوں اور ادیبوں کے لیے کام کی چیز ہے۔
گل بنفشہ کی چائے
کھولتے ہوئے پانی کو آگ سے اتار کر چائے دانی میں ڈالیں جس میں ۲، ۳ ماشہ فی کپ کے حساب سے گل بنفشہ پہلے سے ڈال رکھا ہو۔ پانچ منٹ تک دم دے کر اسے چھان لیں اور اس میں حسب مرضی چینی اور گرم دودھ شامل کر کے پئیں۔ بلا دودھ بطور قہوہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ گل بنفشہ کو جوش دینے سے اس کے فوائد میں کمی آ جاتی ہے۔ اس لیے مندرجہ بالا طریقہ پر ہی تیار کرنا چاہیے۔ اس میں ذائقہ، خوشبو اور دل لبھانے والی رنگت، ہر چیز موجود ہے۔ بنا بریں دل اور دماغ کو فرحت بخشتی ہے۔ بھوک لگاتی ہے۔ قبض کشا ہے۔ نزلہ زکام، کھانسی، دمہ، ورم حلق، منہ اور زبان کے پکنے، خناق، پیشاب کی بندش، نیند کی کمی، نظر کی کمزوری اور ضعف دماغ وغیرہ کے لیے بہت اچھی دوا ہے۔
اس کے کچھ مدت کے استعمال سے چائے کی عادت بھی چھوڑی جا سکتی ہے۔ اس موقعہ پر ایک آپ بیتی بھی سن لیجئے۔ مارچ ۱۹۵۳ء میں اپنے ایک دوست سردار سید زمان خان مرحوم ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر کے گاؤں کلا بساند جانے کا اتفاق ہوا، جہاں آج کل اسلام آباد کا خوبصورت شہر واقع ہے ۔موسم کی تبدیلی کی وجہ سے جاتے ہی نزلے کی لپیٹ میں آ گیا۔ انہوں نے تازہ تازہ، اُودے اُودے پھول بنفشہ منگوا کر ان کا قہوہ تیار کیا اور اس کی ایک پیالی پلا دی۔ یقین جانیئے رات کو یہ خوش ذائقہ چائے پی کر لیٹا اور صبح بالکل تندرست تھا۔ اس کے بعد مزید تجربات ہوئے۔ گل بنفشہ میں برابر وزن گندم ملا کر بطور چائے استعمال کیا تو پرانے نزلہ و زکام کے لیے تیر بہدف علاج ثابت ہوا۔
گندم کی چائے
گندم اور اس کی بھوسی کی چائے سے کافی اور چائے کا اتنا اچھا کام لیا جا سکتا ہے کہ پھر ہمیں کسی چائے، کافی کو یا قہوہ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ سستی بھی، مفید بھی۔ خوش ذائقہ بھی اور چائے اور کافی کی مضرتوں سے سراسر پاک بھی۔ گندم کے چھلکے سے تیار ہونے والی چائے کے بارے میں مولانا محمد علی جوہرؒ نے فرمایا تھا اگر یہ نسخہ مجھے عالم جوانی میں میسر آ گیا ہوتا تو میں سرے سے بوڑھا ہی نہ ہوتا۔ گندم سے تیار ہونے والی کافی کا نسخہ مہاتما گاندھی نے اپنی سوانح میں تحریر کیا اور اسے اپنا معمول بتایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اچھی قسم کی گندم لے کر اسے آگ پر اس حد تک رکھیں کہ وہ سرخی مائل سیاہ ہو جائے۔ اسے اتار کر باریک پیس لیں اور بوقت ضرورت کھولتے ہوئے پانی میں کافی کی طرح ڈال کر کیتلی کو ذرا دیر دم دیں اور چینی ملا کر نوش فرمائیں۔ گندم کی چائے کے بارے میں طریقہ یہ ہے۔ ڈیڑھ پاؤ پانی میں نصف چھٹانک گندم کو جوش دیں۔ جب تیسرا حصہ پانی رہ جائے تو اس میں ایک ماشہ نمک ملا کر چھان کر گرم گرم بطور چائے پئیں۔ چند روز کے استعمال سے کھانسی دور ہو جائے گی۔ نزلہ زکام دفع ہو جائے گا اور اعصاب مضبوط ہو جائیں گے۔
کھجور کی چائے اور کافی
کھجور ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پیارے وطن کا تحفہ ہے۔ اسے بطور چائے ناشتہ کے وقت استعمال کر کے دیکھئے۔ یہ تمام مضرات سے پاک اور غذائیت سے بھرپور ہے۔ موسم سرما میں معمول بنا لیجئے۔ ماء اللحم اور وٹامنز کی کمی محسوس نہیں ہو گی۔ کھجور عمدہ قسم ۷ عدد لے کر اسے ٹکڑے ٹکڑے کریں اور پیالہ بھر پانی میں ڈال کر آگ پر پانچ منٹ تک کھولائیے۔ بعد ازاں اتار کر اچھی طرح پھینٹ لیجئے اور دوبارہ جوش دے کر مناسب مقدار میں دودھ شامل کر کے نوش جان فرمائیے۔ اس کی گٹھلیوں کو بھی ضائع نہ کریں۔ وہ کافی کے لیے کام آ سکتی ہیں۔ گٹھلیوں کو لوہے کے تابہ پر رکھ کر نیچے آگ جلائیں اور کسی کھرچنے وغیرہ سے اُلٹتے جائیں۔ جب یہ جلنے کے قریب ہو جائیں تو اتار کر باریک پیس لیں اور بطور کافی استعمال کریں۔
السی کی چائے
اگرچہ اس چائے کو روزانہ پینے والی چائے کا درجہ تو نہیں دیا جا سکتا، البتہ اطباء نے اسے بعض امراض میں مبتلا مریضوں کے لیے تجویز کیا ہے اور وہ نزلہ زکام کھانسی کے مریضوں کے لیے بے حد مفید ثابت ہو گی۔ اگر اسے نیم گرم حالت میں پلایا جائے تو پہلی ہی خوراک سے پیشاب کی جلن میں تخفیف ہو گی۔ نسخہ تیاری یہ ہے۔
ایک تولہ السی لے کر ہاتھوں میں مل کر پھونک سے اس کی مٹی دور کریں اور اسے چائے دانی میں ڈال کر اوپر سے آدھ سیر ابلتا ہوا پانی ڈال کر ڈھانپ دیں اور پندرہ منٹ تک پڑا رہنے دیں۔ بعض ازاں حسب ضرورت چینی ڈال کر ایک کپ پئیں۔
پودینہ کی خوشبودار چائے
یہ نسخہ مجھے مولانا عبدالقادر صاحب گجراتی نے ۱۹۳۰ء میں عطا فرمایا تھا۔ اس کے چند روز کے مسلسل استعمال سے خون کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ پھوڑے پھنسی، خارش کو دور کرتی ہے اور چہرے کے رنگ و روپ کو نکھارتی ہے۔ ہیضہ اور پیٹ درد کے لیے بھی مفید ہے۔ پودینہ خشک پاؤبھر۔ مجیٹھ عمدہ پانچ تولہ۔ مرچ سیاہ ایک تولہ۔ تینوں کو کوٹ کر محفوظ کرلیں اور بوقت ضرورت ۳ ماشہ ایک کپ پانی میں ڈال کر پکائیں۔ جب رنگ حسب خواہش سرخ ہو جائے تو چینی اور دودھ ملا کر پی لیں۔
تلسی کی چائے
تلسی ایک ایسی بوٹی ہے جسے مجموعۂ اوصاف کہنا چاہیے۔ یہ خوش رنگ، خوش ذائقہ اور خوشبودار ہے اور تنہا یہ بوٹی بے شمار بیماریوں کے لیے مفید ہے۔ اسی بنا پر ہندو لوگ اس کو ہر مندر میں رکھتے اور اس کی پوجا کرتے ہیں۔ اس کے باقی فوائد کو چھوڑ کر ہم اس کی چائے کا تذکرہ کرتے ہیں جو ملیریا کے لیے تریاق ہے۔ اگر وباء کے دنوں میں تمام اہل خانہ تلسی کی چائے پئیں تو حافظ حقیقی کی مہربانی سے بخار کی وبا سے محفوظ رہیں گے۔ تلسی کی پتیاں حسب ضرورت سایہ میں خشک کر کے رکھ لیں بوقت ضرورت ایک ماشہ پتیاں فی پیالی کے حساب سے جوش دے کر اتار لیں اور پن چھان کر دودھ چینی شامل کر کے صبح و شام پئیں۔ اگر ملیریا کا حملہ ہو چکا ہو تو بخار اتارنے کے لیے تلسی کے ایک ماشہ خشک پتوں کے ساتھ گندم کا چھان چھ ماشہ، مرچ سیاہ پانچ عدد اور نمک ایک ماشہ ڈال کر جوش دیں اور چینی دودھ شامل کر کے گرم گرم پلائیں اور کپڑا اوڑھا دیں۔ بفضلہ پسینہ آ کر فوراً بخار اُتر جائے گا۔ تلسی میں قادرِ مطلق نے یہ خوبی بھی رکھی ہے کہ جہاں اس کی کاشت ہوتی ہے وہاں مچھر نہیں آتا۔
گورکھ پان کی چائے
گورکھ پان ایک مشہور بوٹی ہے جو برصغیر پاک و ہند میں تقریباً ہر علاقہ میں پائی جاتی ہے۔ یہ بوٹی زمین پر بچھی ہوتی ہے۔ اس کے چھوٹے چھوٹے پتے اور پیالی کی طرح گول چھوٹے چھوٹے سفید پھول، ذائقہ پھیکا اور بو سبز چائے سے ملتی جلتی ہوتی ہے۔ برسات کے موسم میں مینارِ پاکستان لاہور کے ارد گرد عام ہوتی ہے۔ اس کی چائے نظر کو تیز، خونی اور بادی بواسیر کو رفع کرتی ہے۔ جگر کی اصلاح کے لیے، صالح خون پیدا کرتی ہے اور فاسد خون کی اصلاح کر کے آتشک، کوڑھ، خنازیر اور سوزاک کو دور کرتی ہے۔ مقوی معدہ ہے، بھوک لگاتی ہے۔ پیشاب کی جلن دور کرتی ہے۔ بعض مردانہ امراض کا شرطیہ علاج ہے۔ تھکاوٹ دور کرنے کے لیے عام چائے کی نسبت بہت زیادہ مفید ہے۔ اگر چائے میں ہم وزن شامل کر کے پئیں تو چائے کے ضرر رساں اثرات کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ گورکھ پان کے پھول یا پتیاں تازہ یا خشک ۱ تا ۲ ماشہ فی پیالی کے حساب سے چائے دانی میں ڈالیں اور پانچ سات منٹ تک پانی کو جوش دیں۔ جب سرخی مائل رنگ جھلکنے لگے تو اتار لیں۔ موسم سرما میں اگر اس میں دارچینی، لونگ اور الائچی کلاں شامل کر لیں تو اور بھی مفید ہے۔ میرے شاگرد پنڈت کرشن کنوردت شرما مصنف ’’عرب کا چاندؐ‘‘ نے اس نسخہ کی بہت پبلسٹی کی تھی۔
ترپھلہ کی چائے
جولائی ۱۹۳۰ء میں وید دھجا رام نے اپنی زیر ادارت شائع ہونے والے طبی رسالے امرت پٹیالہ میں چائے کے مضر اثرات اور اس کے بدل کے طور پر ترپھلہ کی چائے پر ایک مضمون شائع کیا تھا، جو ہندی زبان میں تھا۔ اس کی تلخیص پیش خدمت ہے۔ چائے پہلے پہل دل، دماغ اور دیگر اعضائے جسمانی میں کسی قدر اکساہٹ پیدا کرتی ہے مگر جوں ہی اس کا اثر زائل ہوتا ہے تمام اعضاء بالکل سست پڑ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ چائے کا عادی انسان بار بار چائے پی کر ہی کام کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ اس موقعہ پر چائے کے صرف ایک بدل کا ذکر کرنے لگا ہوں جو چائے سے بدرجہا بہتر ہے۔ میری مراد ترپھلہ سے ہے۔ ترپھلہ کے معنی ہیں تین پھل یعنی ہرڑ، بہیڑہ، اور آملہ۔ ان تینوں دواؤں کو آیورویدک کے عالم رسائن کا درجہ دیتے ہیں یعنی ہر مرض کا تریاق۔ اس کے استعمال سے دائمی قبض، بدہضمی، کھٹے مٹھے ڈکار آنا، دائمی نزالہ، دائمی سر درد، پیٹ میں ہوا بھرنا، تبخیر معدہ، نیند نہ آنا، کھانسی، ابتدائی دمہ، اونچا سننا، دماغ اور آنکھوں کی کمزوری، خونی اور ابدی بواسیر، آنتوں کا دق، ہسٹیریا، پاگل پن، وسواس، وہم، جنون، گردہ، تلی اور جگر کے امراض۔ گردہ اور مثانہ کی پتھری، ان سب بیماریوں کے لیے اکیلی یہ چائے مفید ہے۔ علاوہ ازیں بالوں کو قبل از وقت سفید ہونے سے بھی روکتی ہے۔ بحالت تندرستی اس کا استعمال بہت ساری وبائی بیماریوں سے بچائے رکھتے ہے خصوصاً وبائی نزلہ انفلوئنزا اور ملیریا کی وبا کے دنوں میں اسے ضرور استعمال کرنا چاہیے۔ نیز وہ لوگ جو کسی نشہ کے عادی ہوں مثلاً بھنگ، چرس، افیون وغیرہ۔ اس چائے کے عوض ان بد عادتوں سے جان چھڑا سکتے ہیں۔ اگر آدمی وطن چھوڑ کر کہیں چلا گیا ہو اور وہاں کی آب و ہوا موافق نہ ہو تو اس چائے کے پینے سے وہاں کی آب و ہوا راس آ جائے گی۔ نسخہ درج ذیل ہے۔ ہرڑ، بہیڑہ، آملہ کا چھلکا برابر برابرلے کر موٹا موٹا کوٹ لیں اور بوقت ضرورت اس میں سے چھ ماشہ لے کر آدھ سیر پانی میں پکائیں۔ جب آدھا پانی باقی رہ جائے تو چھان کر تھوڑا سا دیسی گھی کڑکڑا کر لونگ یا زیرہ سیاہ کا بگھار دے کر چائے میں ڈالیں اور بقدر ضرورت نمک ملا کر چائے کی طرح نوش کریں۔ موسم گرما ہو تو چھ ماشہ سفوف ترپھلہ مٹی کے کورے کوزے میں ڈال کر آدھ سیر پانی میں بھگو کر رات پڑا رہنے دیں۔ صبح اس کو آگ پر دو چار جوش دے کر اتار لیں اور پن چھان کر نمک شامل کر کے پئیں۔
انفلوئنزا کے لیے ایک بیش بہا چائے
میرے بدوِ شعور میں جبکہ میری عمر بمشکل بارہ تیرہ سال تھی یہ بیماری وباء کے طور پر پھیلی۔ غالباً ۱۹۱۶ء کی بات ہے۔ میں ان دنوں مدرسہ خیر العلوم سرسہ ضلع حصار میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ اس بیماری کی وجہ سے ہمیں رخصت دے دی گئی۔ اپنے گاؤں روڑی پہنچا تو گھر کے گھر اوندھے پڑے تھے۔ اور یہ خدا کی عجیب مصلحت تھی کہ ہر گھر میں ایک دو آدمی اس موذی مرض سے بچے ہوئے تھے جو تمام گھر والوں کی تیماری داری کرتے تھے۔ چنانچہ ہمارے گھر میں صرف والد بزرگوار تندرست تھے جو گھر میں صاح ب فرش مریضوں کی خبر گیری اور دارو درمن کر رہے تھے۔ مرض کا حملہ اس شدت کا تھا کہ ہمارے چھوٹے سے گاؤں میں بھی روزانہ دسیوں اموات ہو جاتی تھیں۔ اس کے بعد متعدد مرتبہ اس مرض کا حملہ ہوا، مگر اب یہ جن کافی حد تک قابو میں آ گیا ہے۔ اس مرض کو زیر دام لانے کے لیے جو تدابیر کارگر ثابت ہوئیں۔ ان کے ذکر سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف ایک نسخہ بیان کیے جانے کے قابل ہے جو دورہ مرض میں بفضل ایزدی مفید ثابت ہوا ہے۔ اور وبا کے زمانہ میں اگر تندرست افراد کو یہ چائے صبح شام پلائی جائے تو وہ اس کے حملے سے محفوظ رہتے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ چائے بدمزہ ہرگز نہیں بلکہ بے حد لذیذ اور پسندیدہ مشروب ہے۔
سبز چائے کی پتی ۳ ماشہ، سونف رومی (انیسوں) ۶ ماشہ، الائچی خورد سبز ۳ عدد، دار چینی ایک ماشہ، ان چیزوں کو معمولی سا کوٹ لیں اورپاؤ بھر پانی میں جوش دیں۔ تین چار جوش آنے کے بعد اسے خوب پھینٹ کر رنگ نکالیں اور چھان کر قدرے چینی آمیز کر کے بلا دودھ ملائے قہوہ کے طور پر صبح و شام پئیں۔ ان شاء اللہ حالت مرض میں بھی مفید ثابت ہو گی اور مرض کے حملہ سے محفوظ و مامون رہنے کے لیے تندرست اشخاص کو پلایا کریں۔
دمہ کے لیے خصوصی چائے
اطباء کی ایک مجلس میں چائے کے نعم البدل کے طور پر اپنی تحقیقات کا ذکر کیا تو حاضرین میں سے ایک صاحب نے مجھے بتایا کہ لاہور میں ایک صاحب دمہ کا شرطیہ علاج چائے سے کرتے ہیں مگر اس احتیاط سے کہ چائے کے اجزاء کو اخفاء میں رکھ کر اپنے ہاتھ سے چائے تیار کرتے ہیں اور مریض کو کہتے ہیں کہ ۴۰ روز تک روزانہ آ کر چائے پیو۔ نہ وہ کسی کو نسخہ بتاتے ہیں اور نہ بنا کر دیتے ہیں۔ چنانچہ نسخہ موثر ہے اس لیے خود ان کے ہاں جاتے ہیں اور چائے کی چسکیاں لے کر آتے ہیں۔ کافی تگ و دو کے بعد بالآخر نسخہ ہاتھ آ گیا جو پیش خدمت ہے۔
برگد کی داڑھی سوا تولہ، سونف چھ ماشہ، عام چائے پانچ ماشہ، مرچ سیاہ چار عدد۔ برگد کی داڑھی کو کوٹ کر باقی چیزیں شامل کر کے چائے کی طرح پکائیں اور دو کپ چائے بنا کر آمیز کر کے سوا ماہ تک روزانہ استعمال کریں۔ ان شاء اللہ دمہ جڑ سے اکھڑ جائے گا۔
مقوی بدن چائے
اس چائے کا نسخہ ہمیں ایک بہت پرانے رسالے ماہنامہ ’’تجارت‘‘ شاہ جہان پور کے دسمبر ۱۹۱۹ء کے ایک خاص شمارہ سے حاصل ہوا۔ اس میں تجارت کے خاص خاص گر اور تجارتی نسخہ جات درج تھے۔
چائے کے ہم وزن دارچینی کا سفوف شامل کر لیں اور اس مقوی چائے کی تجارت کریں۔ آپ دیکھیں گے کہ اس چائے کے استعمال سے پورے بدن کو طاقت حاصل ہو گی ، خاص طور پر مردانہ قوت میں اچھا خاصا اضافہ ہو گا۔‘‘ میری رائے میں یہ چائے مذکورہ بالا فوائد کے علاوہ مقوی معدہ ہے۔ آواز کو سریلا کرتی ہے اور نزلہ و زکام کے لیے مفید ہے۔ گرم مزاج والے افراد اس میں دودھ زیادہ مقدار میں شامل کریں۔
قبل از وقت بڑھاپے سے بچنے کے لیے ایک بہترین چائے
جن بچوں یا نوجوانوں کے عین عالم طفولیت یا عالم شباب میں بال سفید ہونے لگیں ان کے لیے اس چائے سے بہتر شاید ہی کوئی اور دوا ہو۔ ان شاء اللہ قبل از وقت ہونے والے سفید بال نکلنا بند ہو جائیں گے اور تین ماہ کے مسلسل استعمال سے سفید بال بھی پھر سے سیاہ ہونے لگیں گے۔ علاوہ ازیں قوت حافظہ میں روز بروز اضافہ ہوتا جائے گا۔ بھولی ہوئی باتیں یاد آنے لگیں گی۔ ہلی ہلکی کھانسی اور نزلہ سے نجات مل جائے گی۔ نظر کو تقویت ہو گی۔
بھنگرہ سفید عام ملنے والی بوٹی ہے۔ پانی کے کنارے چھوٹے چھوٹے سفید پھولوں کی شکل میں ہر جگہ مل جاتا ہے۔ اسے سایے میں خشک کریں اور روزانہ ایک ماشہ پتیاں ایک کپ چائے کے حساب سے حسب دستور چائے تیار کریں۔ اگر شہد میسر ہو تو چینی کی جگہ استعمال کریں۔
خونی امراض سے بچنے کے لیے چائے
حکیم عبدالغفور حویلی کابلی مل ایک شریف الطبع اور منکسر المزاج شخص ہیں۔ ان کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا تو انہوں نے ایک نہایت خوش رنگ اور خوش ذائقہ چائے پیش کی۔ نسخہ پوچھا تو فرمانے لگے یہ لاہور کے ایک معروف شیخ گھرانے (مٹ والے) کا نسخہ ہے وہ اپنے تمام گھرانوں میں یہی چائے استعمال کرتے ہیں، اور اس کا فائدہ یہ ہے کہ اگر مریض کے گلے یا اندرونی اعضاء سے خون آ رہا ہو، خونی بواسیر کی شکایت ہو، خواتین کو ایام کی زیادتی کی تکلیف ہو سب کے لیے بے خطا چیز ہے۔ انفلوئنزا کی وبا کے دنوں میں بطور حفظ ما تقدم اس کا استعمال بہتر ہے۔ گلا بیٹھا ہوا ہو تو اس تکلیف کو بھی رفع کرتا ہے۔ صاحب نسخہ نے تو دو ہی اجزا بتائے تھے، انجبار کی جڑ اور پان کی جڑ۔ لیکن میں نے اس میں الائچی خورد کا اضافہ کر لیا ہے۔ ان تینوں چیزوں کو ہم وزن لے کر موٹا موٹا کوٹ لیں اور آدھ سیر پانی میں ایک ماشہ دوا ڈال کر جوش دیں۔ رنگ نکل آنے پر پھینٹ لیں اور دودھ چینی شامل کر کے نوش فرمائیں۔
مقوی دماغ چائے
کپاس سبز یا مہندی کے پتے لے کر سایہ میں خشک کر لیں اور ترپھلہ (ہرڑ، بہیڑے، آملہ) کے جوشاندہ میں تر کر کے انہیں خشک کر لیں اور بطور چائے ایک ماشہ فی کپ کے حساب سے استعمال کریں۔ تقویت دماغ، تصفیہ خون اور اصلاح معدہ میں مفید ہے۔ نزلہ زکام کو رفع کرتی ہے۔ اگر ترپھلہ کی بجائے کیکر کی چھال کے جوشاندے میں تیار کریں تو لیکوریا اور جریان و احتلام کے لیے مفید ثابت ہو گی۔
امراض جگر کے لیے گولڈن چائے
قیام پاکستان سے چھ عرصہ پہلے کی بات ہے۔ لاہور کے ایک معروف طبیب ڈاکٹر محمد شریف آئی سپیشلسٹ نے مجھے چائے پر بلوایا اور کہا آج کی یہ دعوت ایک خاص غرض کے تحت ہے اور وہ یہ کہ جو چائے میں آپ کو پیش کر رہا ہوں میری اپنی مجوزہ ہے اور میں نے اس کی پبلسٹی کر کے لاکھوں روپے اس سے کمائے ہیں۔ اس کی خاص صفت یہ ہے کہ جگر اور معدہ کی اصلاح کرتی ہے۔ صالح خون پیدا کر کے چہرے پر سرخی لاتی ہے۔ فاسد خون کی اصلاح کرتی ہے اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ اس کی تلاش میں دقت نہیں ہوتی۔ بازار میں ہر جگہ عام ملتی ہے اور وہ بھی بہت سستی۔ مقدار خوراک ایک رتی فی پیالی ہے۔ رنگت نہایت دلربا یعنی سنہری ہے۔ اس لیے میں نے اس کا نام گولڈن ٹی رکھا ہے۔ غرض اس قسم کی لمبی چوڑی تقریر کرنے کے بعد انہوں نے پانی ابالا اور نہایت نفیس قسم کی تین پیالیوں میں ایک ایک رتی سفوف ڈال کر کھولتا ہوا پانی ڈال دیا اور چمچی سے ہلایا۔ بس فوراً ہی ایک خوش رنگ چائے تیار ہو گئی۔ پینے پر ذائقہ میں ایک خوشگوار سی تلخی محسوس ہوئی۔ گپ شپ ختم ہوئی اور راز سے یہ کہہ کر پردہ اٹھایا کہ آپ حیران ہوں گے یہ صرف سفوف ریوند چینی ہے۔
زکام اور کھانسی کے لیے بانسہ کی چائے
بانسہ یا اڑوسہ، جسے کشمیر میں بھیکڑ کہا جاتا ہے عام ملنے والا پودا ہے۔ اس کے تین ماشہ خشک پتے ایک پاؤ پانی میں جوش دیں جب ایک چھٹانک پانی باقی رہ جائے تو اس میں دو تولہ مصری، چینی یا شہد ملا کر صبح شام استعمال کریں۔ ان شاء اللہ تین دن میں زکام اور کھانسی رفع ہو جائے گی اور بلغم خارج ہو کر سینہ صاف اور ہلکا ہو جائے گا۔
جوڑوں کے درد اور زیادتی بلغم کے لیے سنیاسیانہ چائے
میرے ایک ملنے والے مسمی صدر الدین بیان کرتے ہیں کہ میں جوڑوں کے درد اور بلغمی کھانسی میں ایسا مبتلا ہوا کہ دونوں تکلیفیں ناقابل برداشت ہو گئیں۔ گاڑھی گاڑی بلغم خارج ہوتی تھی۔ خوش قسمتی سے ایک سادھو مہاتما تشریف لائے انہیں تلخ کدوؤں کی ضرورت تھی اور وہ میرے کھیت میں موجود تھے۔ کسی نے میرا ذکر کر دیا تو سادھو نے مجھے بلوا کر کہا مجھے کدوؤں کی ضرورت ہے۔ میرے ساتھ چلو۔ میں نے جوڑوں کے درد کی بناء پر معذوری کا اظہار کیا لیکن سادھو نے کہا تمہارے دُکھ کا درماں بھی وہیں موجود ہے۔ چنانچہ بمشکل تمام میں ہمراہ گیا تو انہوں نے اسگندھ کے سرسبز پودے کے پاس جا کر کہا۔ ڈیڑھ تولہ پتے لے کر بطور چائے پانی میں پکاؤ۔ جب نرم ہو جائیں تو پن چھان کر چینی ملا کر پیو۔ یہی تمہارا علاج ہے۔ تین دن میں نے یہ علاج کیا۔ سچ کہتا ہوں کہ بلغم کا نام و نشان بھی نہ رہا اور جوڑوں کے درد سے بھی بالکل نجات مل گئی۔
وائٹ جیسمین چائے گھر میں تیار کیجئے
وائٹ جیسمین انتہائی خوش ذائقہ، خوش رنگ اور خوشبودار چائے ہے۔ جو چین سے نہایت گراں قیمت پر آتی ہے اور کروڑوں روپے کا زرمبادلہ اس پر ضائع ہو جاتا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزادؒ بھی اس کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ یہ انتہائی فرحت بخش اور مقوی دل و دماغ ہے۔ ایک دن اپنے گاؤں میں باغیچہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ چنبیلی کے پودے پر لگے ہوئے خوشنما اور سفید پھولوں نے میری توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ معاً ذہن میں خیال آیا وائٹ جیسمین سفید چنبیلی ہی کا انگریزی نام ہے۔ فوری طور پر چند پھول توڑے اور اپنے ایک عزیز سے کہا انہیں پانی میں دو تین جوش دیں۔ چنانچہ تجربہ شروع ہوا اور میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ جب ان سفید پھولوں سے سنہری شوخ رنگ برآمد ہوا۔ چینی ملا کر نوش کیا تو ذائقہ بھی وائٹ جیسمین سے کچھ بہتر ہی پایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس جنگل میں مہمان نوازی کے لیے ایک سستا اور مزیدار تحفہ فراہم کر دیا تھا۔ پورا موسم اس سے فائدہ اٹھایا اور اس کے بعد چنبیلی کے خشک پھولوں سے کام لیا تو وہی نتائج برآمد ہوئے یعنی یہ فصلی چائے نہیں بلکہ اسے تجارتی پیمانے پر بھی تیار کیا جا سکتا ہے۔ خشک پھول ایک پیالی چائے کے لیے دو رتی کافی ہیں۔ ایک طویل عرصہ تک اسی پر عمل کرتا رہا پھر پھولوں کی بجائے چنبیلی کے پتوں پر تجربہ کیا۔ انہیں تازہ بھی اور خشک بھی پانی میں ڈال کر جوش دیا اور چائے تیار کی تو فوائد اور مزے میں قریباً قریباً ویسا ہی پایا۔ اس سلسلہ میں آخری تحقیق یہ ہے کہ اگر عام چائے کے ایک پاؤ کے ڈبے میں اس کے چند پھول ملا کر رکھ دیئے جائیں وہی مزہ وہی ذائقہ اور اس سے ملتی جلتی رنگت والا مشروب تیار ہو گا۔
موتیا کے پھولوں کی چائے
حکیم محمد اسماعیل امرتسری بیان کرتے ہیں کہ لاہور کے ایک سماجی کارکن بشیر مجاہد کو سفید موتیا اُتر آیا۔ ڈاکٹروں کے نزدیک موتیا پکنے پر آپریشن ہی اس کا واحد علاج ہے۔ نظر کی کمزوری میرے لیے بہت بڑا مسئلہ بن گئی تھی۔ اسی پریشانی میں کسی نے بتایا کہ موتیا بند کا علاج سفید موتیا کے پھولوں سے کرو۔ میں نے روزانہ صبح و شام سات سات پھول فی کپ کے حساب سے قہوہ بنا کر چینی آمیز کر کے پینا شروع کیا۔ خدا کی قدرت کے قربان جائیے چالیس روز کے استعمال سے موتیا بند کی شکایت دور ہو گئی اور میری نظر بحال ہو گئی۔
ایک مخفی راز
لاہور کے ایک بڑے تاجر اپنے مہمانوں کی خاطر مدارت ایک خاص قسم کی چائے سے کرتے تھے۔ جو ایک دفعہ اس چائے کو پی لیتا وہ ہمیشہ کے لیے اسی کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہو جاتا۔ ذائقہ اور خوشبو میں قیمتی سے قیمتی چائے بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔ بڑے بڑے رؤسا، نواب اور سیاسی لیڈر ھی اسی چائے کے معترف تھے۔ اگر ان سے کوئی چائے کا برانڈ پوچھتا تو ٹال دیتے۔ زیادہ اصرار کرتا تو کہتے یہ ہمارا خاندانی راز ہے۔ جب کبھی اس کی یاد ستائے تو بلا تکلف آ کر اس کی فرمائش کریں چائے تیار ملے گی۔ ایک دن شہید ملت لیاقت علی خان کے برادر اکبر نوابزادہ سجاد علی خان ان کے مہمان ہوئے تو صاحب خاقنہ نے فوری طور پر اپنے ایک ملازم سے کہا فوری طور پر دو چھوٹی الائیچیاں اور ایک لونگ بہت باریک پیسو حتیٰ کہ وہ سفوف بن جائے۔ دوسرے ملازم سے چائے تیار کروائی چائے دانی میں ڈلوائی اور یہ پسا ہوا سفوف اس میں ڈال کر پانچ منٹ دم دیا اور پھر نواب صاحب کو پیش کر دی۔ شیخ عبدالحمید صاحب مکتبہ تعمیر انسانیت والے کہتے ہیں میں ان دنوں اس فرم میں ملازم تھا۔ چائے کا ذوق رکھنے کی وجہ سے اس نسخہ کا خواہاں تھا لیکن اپنے عزیز ترین دوستوں سے پوشیدہ رکھنے والے مجھے بھلا کیوں بتاتے۔ اتفاق سے اس دن میری معرفت یہ چیزیں منگوائی گئیں اور پینے پر وہی لذت حاصل ہوئی تو میری من کی مراد بر آ ئی۔ اس کے بعد شیخ محمد قمر الدین صاحب مرحوم ناشر تفہیم القرآن اپنے عزیز دوستوں کے لیے بڑے اہتمام سے یہ چائے تیار کرواتے تھے۔ اس کے مداحوں میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، نواب فتح الدین خاں ممدوٹ اور ملک نصراللہ خاں عزیز جیسے نابغائے روزگارلوگ شامل ہیں۔
(بحوالہ : حکیم عبدالوحید سلیمانی، قومی ڈائجسٹ۔ فروری 1982)