(امیر سیف اللہ سیف)
پاکستان دنیا کے ان خوش نصیب ممالک میں سے ایک ہے جہاں سال کےبیشتر حصے میں سورج کی روشنی اور اس کی حرارت سے فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ایک جائزے کے مطابق پاکستان میں سورج کی روشنی اور حرارت سال کے 250 سے 320 دن تک دستیاب رہتی ہے۔ یہ وہ ان مول اور بیش قیمت توانائی ہے جو ہمیں قدرت کی طرف سے بلاقیمت دستیاب ہے لیکن اسے ہم ضائع کر دیتے ہیں۔
سورج سے خارج ہونے والی توانائی صرف حرارت اور روشنی ہی کی شکل میں نہیں ہوتی بلکہ اس سے نکلنے والی شعاعیں، فریکوئنسی اسپیکٹرم کے تقریبا" چالیس فیصد حصے کا احاطہ کرتی ہیں۔ فریکوئنسی اسپیکٹرم میں مختلف حدود کے طول موج (ویو لینتھ) کی حامل لہروں کی درجہ بندی کی گئی ہے۔ سورج سے نکلنے والی شعاعیں الٹرا وائلٹ، انفرا ریڈ، ایکس ریز، گاما ریزغیرہ جیسی خصوصیات کی حامل ہوتی ہیں۔
ایسی ہی خوبیوں کے باعث سورج سے حاصل ہونے والی توانائی بیش قیمت، انمول لیکن بالکل مفت ہے لیکن انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے ہاں اس طرف سے اس طرح آنکھیں بند کی گئی ہیں جیسے اس کی کوئی اہمیت ہے ہی نہیں۔
ایک مرتبہ راقم الحروف کی ملاقات اس وقت کے مرکزی وزیر تعلیم سے ہوئی تو انہیں سائنس و ٹیکنالوجی کی اہمیت اور اس کی ترویج کی ضرورت کے حوالے کچھ کہنے کی جسارت کر دی۔ وزیر موصوف نے حیران کن طور پر سچائی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی کے نصف سے زیادہ ممبران زیور تعلیم سے آراستہ نہیں ہیں، میں جب ان سے تعلیم کے موضوع پر بات کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ اچھل کر دس قدم پیچھے ہٹ جاتے ہیں، سائنس و ٹیکنالوجی تو بہت بعد کی بات ہے۔ آج اس ملاقات کو بیس سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے لیکن صورت حال جوں کی توں ہے۔ یہ وجہ ہے کہ ہم قدرت کی طرف سے مہیا کردہ اس عظیم ذریعہ توانائی سے کوئی بھی فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں بلکہ میں تو یہاں تک بھی کہنے کو تیار ہوں کہ ارباب اختیار میں سے کسی کو اس نعمت خداوندی سے استفادہ کرنے کا شعور تک نہیں۔
سورج سے حاصل ہونے والی توانائی کو شمسی توانائی کہا جاتا ہے۔ یہ اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے جو اللہ تعالی نے اپنی مخلوق کے لئے فراہم کی ہے۔ اپنے طور پر تو یہ اہالیان ارض کے کام براہ راست آ ہی رہی ہے لیکن اس سے مزید فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا ہے جیسا دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک میں اٹھایا جا رہا ہے۔
شمسی توانائی کو شمسی گیزر میں پانی گرم کرنے، شمسی چولہوں میں کھانا پکانے، سولر سیل کی مدد سے بجلی پیدا کرنے، پانی کو بھاپ میں تبدیل کر کے اس سے مشینیں چلانے اور اس جیسے کئی دیگر مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اگر ہمارے ملک میں شمسی توانائی کو استعمال کرنے کا کام سنجیدگی سے کیا جاتا تو آج ملک میں نہ تو بجلی اور توانائی کی بحران ہوتا اور نہ ہی ملک میں موجودہ معاشی مسائل ہوتے۔ اللہ تعالی کی عظیم نعمتوں سے روگردانی کرنے کا جو انجام ہو سکتا ہے آج ہمارا ملک اس سے دوچار ہے۔ اب سننے میں آرہا ہے کہ شاید ارباب اختیار کو شمسی توانائی کی اہمیت کا اندازہ ہو گیا ہے اور وہ اس سے کام لینے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔
سائنس دان کہتے ہیں کہ اس وقت دنیا بھر میں پیدا ہونے والی توانائی کی جو مقدار ایک سال میں استعمال کی جاتی ہے سورج سے توانائی کی وہی مقدار صرف ایک گھنٹے میں حاصل کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح سائنسی جائزے بتاتے ہیں کہ کرہ ارض پر موجود جتنے بھی صحرا ہیں اگر ان کے کل رقبے کا صرف نصف فی صد بھی شمسی توانائی کے حصول کے لیئے استعمال کیا جائے تو پوری دنیا کی توانائی کی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں۔ یہ صرف سائنسی جائزے یا کتابی باتیں ہی نہیں ہیں بلکہ عملی طور پر بھی دنیا بھر میں شمسی توانائی سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔شمسی توانائی کا استعمال ان کی روز مرہ زندگی میں شامل ہے۔ دور کیوں جائیں پڑوسی ملک بھارت ہی کی مثال لے لیں۔ اس میں شمسی توانائی کے کئی قومی منصوبے کام کر رہے ہیں۔ فوٹو سیل تیار کرنے والے کئی کارخانے موجود ہیں جن میں ایک ہزار واٹ سے پچیس سو واٹ تک کی توانائی فراہم کرنے والے سولر پینل بنائے جا رہے ہیں۔ بجلی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ شمسی واٹر ہیٹر، شمسی چولہے اور شمسی توانائی استعمال کرنے والے متعدد دیگر آلات تیار کئے جا رہے ہیں۔
امریکہ میں سولر پینل کا استعمال ایک عام سی بات ہے۔ کئی میگا واٹ تک کی بلیا ان سے پیدا کی جا رہی ہے۔ خاص قسم کے شمسی خانے تیار کئے گئے ہیں جن میں سورج سے آنے والی حرارت کو جمع کیا جاتا ہے اور اسے کام میں لایا جاتا ہے۔
تائیوان میں سولر پینلز کا بےتحاشا استعمال ہے۔ وہاں ایک اسٹیڈیم تعمیر کیا گیا ہے جس میں نو ہزار کے قریب سولر پینل نصب کر کے بجلی کی جملہ ضروریات پوری کی گئی ہیں۔ یہ سولر پینل 1400 میگاواٹ بجلی پیدا کرتے ہیں۔
اسی طرح فرانس میں سورج کی حرارت کو عدسوں اور آئینوں کی مدد سے ایک مقام پر مرتکز کر کے بھٹیاں بنائی گئی ہیں۔ ان میں سے کچھ بھٹیاں اتنی بڑی ہیں کہ وہ ایک گھنٹے میں 60 کلو گرام لوہا پگھلا دیتی ہیں۔روس میں شمسی توانائی سے بہت کام لیا گیا ہے۔ صرف ایک مثال سے اندازہ ہو جائے گا کہ روسی اس عطیہء خداوندی کو کس قدر مہارت سے استعمال کر رہے ہیں۔ اسی فٹ بلند ایک مینار بنا کر اس کے ارد گردبڑے بڑے آئینے لگائے گئے ہیں جو سورج کی روشنی کو منعکس کر کے ایک بوائلر پر مرتکز کر دیتے ہیں۔ یہ روشنی حرارت پیدا کرتی ہے اور اس حرارت سے بوائلر میں موجود پانی گرم ہو کر بھاپ پیدا کرتا ہے۔ اس بھاپ کو ایک ہزار کلو واٹ (ایک میگا واٹ) بجلی پیدا کرنے والا جنریٹر چلانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
اسپین میں ایک علاقہ ایسا بھی ہے جہاں توانائی کے قدرتی وسائل مثلا" کوئلہ، گیس، تیل وغیرہ موجود نہیں ہیں۔ توانائی کے ان قدرتی وسائل کی غیر موجودگی کے باعث اسپین کی حکومت نے وہاں شمسی توانائی کے منصوبوں سے کام لیا ہے اور پورے علاقے میں شمسی توانائی سے بجلی مہیا کی جاتی ہے۔
اگر ہمارے اربا ب اختیار قومی درد رکھتے تو ان کے لئے توانائی کے اس ذریعے کو استعمال کر کے ملک کو توانائی کے بحران سے نکالنا مشکل نہ ہوتا۔ پاکستان میں سورج کی روشنی اور حرارت سال کے بیشتر حصے دستیاب رہتی ہے اور اس سے فی مربع میٹر حاصل ہونے والی توانائی 19MJ یعنی انیس میگا جول ہے۔ یہ توانائی کی وہ مقدار ہے جس کو استعمال میں لایا جائے تو پاکستان کے تمام دیہاتوں کو بجلی فراہم کی جا سکتی ہے۔ اس طرح نہ صرف ملک میں توانائی کے بحران کا خاتمہ ہو گا بلکہ صنعتیں چلنے اور زراعتی پیدا وار میں اضافے سے ملکی معیشت میں بہت بہتری آئے گی۔
(تازہ ترین)
امریکی ریاست کولوریڈو کی وادی سین لوئیس ایک ریگستانی علاقہ ہے جہاں سال میں 340 دنوں سے زیادہ سورج اپنی روشنی بکھیرتا رہتاہے۔ ان دنوں وہاں سورج کی کرنوں کو شمسی توانائی میں تبدیل کرنے کے ایک بڑے منصوبے پر کام ہورہا ہے۔ نک تھیل اس پلانٹ کے منتظم ہیں۔ان کا کہناہے کہ 220 ایکڑ کےرقبے پر شمسی توانائی کے ایک لاکھ سےزیادہ پینلز لگائے گئے ہیں جو سورج کے ساتھ ساتھ اپنا رخ بدلتے رہتے ہیں۔ صبح کو ان کا رخ مشرق جبکہ شام کو مغرب کی جانب ہوتاہے۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ پلانٹ ساڑھے سات ہزار گھروں کو بجلی فراہم کر سکتا ہے۔
شمسی توانائی کے پینلز کی تعداد میں روز بروز اضافے کی وجہ سے ریاست نیو جرسی اور کیلی فورنیا کے بعدیہ علاقہ امریکہ میں شمسی توانائی حاصل کرنے کا تیسرا بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔
مگر صرف سورج کی روشنی کا ہونا کافی نہیں، ریاست کولوریڈو کے ایک علاقے ایلموسا میں شمسی توانائی کے چھ بڑے پلانٹس ہیں۔ ایک سرکاری اہل کار ڈیریس ایلن کہتے ہیں کہ شمسی توانائی کے حصول کے لیے شہر کے بنیادی ڈھانچے میں چند تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔کیونکہ سین لوئیس ایک زراعی علاقہ ہے جہاں آلو، اناج اورمویشیوں کے لیے چارہ کاشت کیا جاتا ہے۔ مقامی کسانوں کے نزدیک شمسی توانائی کے لیے بڑے پیمانے پر زمین کے حصول سے زرعی شعبے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ علاقے کی نہریں اور آبی وسائل تیزی سے ختم ہونے کی وجہ سے زراعت کے شعبے کو خطرات درپیش ہیں۔ جبکہ پانی کی عدم دستیابی شمسی توانائی کے حصول میں بھی رکاوٹ بن سکتی ہے۔
شمسی توانائی کے پینلز پر جمنے والی دھول کو پانی سے دھویا جاتا ہے۔ پینلز کو پانی کی فراہمی کے منصوبوں سے مستقبل میں نہ صرف پانی کے وسائل بلکہ زراعت کے لیے زمین کی دستیابی پر بھی متاثر ہوسکتی ہے۔
اسٹیوکہتے ہیں کہ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جا ری رہا تومستقبل میں 60 سے 80 ہزار ایکڑ کا رقبہ زراعت کے قابل نہیں رہے گا۔
جارج وائٹنز اور ان کا خاندان تین نسلوں سے زراعت سے وابستہ ہے۔ حال ہی میں انہوں نے، اپنی اہلیہ ، جو ماحولیات کے تحفظ کی ایک سرگرم کارکن بھی ہیں، اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر اپنے علاقے میں 800 ایکڑ رقبے پر بنائے جانے والے شمسی توانائی کے پلانٹ کے خلاف مقدمہ لڑا۔ وہ یہ مقدمہ جیت گئے۔
وائٹنز کے مطابق شمسی توانائی جیسی صنعتیں زراعت کا متبادل ثابت نہیں ہو سکتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکیوں کو توانائی حاصل کرنے کی جستجو کی بجائے توانائی کی بچت کے طریقے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ (بحوالہ وائس آف امریکہ)
ایک گھر کو شمسی بجلی فراہم کرنے کی لاگت تقریباً چالیس ہزار روپے
پاکستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں سارا سال سورج چمکتا ہے۔ چنانچہ یہاں آسانی سے بڑی مقدار میں شمسی توانائی حاصل کی جاسکتی ہے
پاکستان اپنی بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے زیادہ تر تیل پر انحصار کرتا ہے۔ گذشتہ چند برسوں سے عالمی سطح پر تیل کی قیمتو ں میں مسلسل اضافہ ہورہاہے جس کے باعث ایک طرف جہاں بجلی مہنگی ہوتی جاری ہے ، دوسری جانب بجلی کی بڑھتی ہوئی مانگ پوری کرنے کے لیے زرمبادلہ پر دباؤ بڑھ رہاہے۔
موجودہ صورت حال میں پاکستان کے لیے توانائی کے متبادل ذرائع تلاش کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ پاکستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں سارا سال سورج چمکتا ہے۔ چنانچہ یہاں آسانی سے بڑی مقدار میں شمسی توانائی حاصل کی جاسکتی ہے۔
پاکستان میں اس شعبے میں پیش رفت ہورہی ہے۔ عام افراد اپنی بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے شمسی توانائی سے کس طرح فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ اس موضوع پر گفتگو کے لیے وائس آف امریکہ نے اپنے اسٹوڈیوز میں ایک مذاکرے کا اہتمام کیا ، جس میں ٹیلی فون کے ذریعے اسلام آباد سے پاکستان آلٹر نیٹ انرجی بورڈ کے چیئر مین عارف علاؤالدین صاحب ، کراچی سے یو این ڈی پی کے پاکستان میں جاری سمال گرانٹس پروگرام کے نیشنل کوآرڈی نیٹر مسعود لوہار، لاس اینجلس کیلی فورنیا سے سولر انرجی کے ماہر اور دنیا بھر میں ایل ای ڈی لائٹنگ سے متعلق صف اول کی ایک کمپنی لیڈٹرانکس کے فاؤنڈر اور سی ای او، جناب پرویز لودھی ، اور کراچی سے پاکستان میں سولر پینل بنانے والی ایک ممتاز کمپنی شان ٹکنالوجیز کے سولر ایکسپرٹ شاہد صدیقی شریک ہوئے۔
لیڈٹرانکس کے فاؤنڈر اور سی ای او پرویز لودھی نے کہا کہ شمسی توانائی کا استعمال گزشتہ کچھ برسوں میں پوری دنیا میں بڑھ رہا ہے لیکن اس کے بارے میں عام لوگوں کو زیادہ معلومات نہیں ہیں ۔ جس کی وجہ سے اس سسٹم سے لوگوں کی توقعات بڑھ جاتی ہیں اور وہ کئی غلط فیصلے کر بیٹھتے ہیں ۔انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سولر پینلز سورج سے بہت سی روشنی کو لے کرقلیل مقدار میں بجلی پیدا کرتے ہیں ، اس لیے اس کا استعمال احتیا ط سے کرنا چاہیے اور روشنی کے لیے ایل ای ڈی بلب استعمال کرنے چاہیں۔
اسد محمود نے کہا کہ صرف ایل ای ڈی بلب ہی نہیں بلکہ گھر کی دوسری چیزیں بھی سولر انرجی سے مطابقت رکھنے والی ہونی چاہیں ۔ سولر انرجی ڈی سی کرنٹ پیدا کرتی ہے اس لیے اس پر وہی مشینیں چلانی چاہییں جو ڈی سی کرنٹ پر چلیں اور سولر سسٹم کی لاگت کو کم کرنے کے لیے سسٹم کے ساتھ منسلک دوسرے آلات بھی انرجی ایفیشنٹ ہونے چاہییں۔ انہوں نے تجویز دی کہ سولر سسٹم کی موجودہ لاگت کے پیش نظر پریکٹیکل یہ ہے کہ گھر کا پورا سسٹم سولر پر نہ کریں بلکہ صرف اسے بیک اپ کے طور پر استعمال کریں۔بالکل اسی طرح جیسے بجلی چلے جانے کی صورت میں جنریٹر کو بیک اپ کے طور پر رکھا جاتاہے۔
شاہد صدیقی صاحب نے بتایا کہ پاکستان کے کسی بھی علاقے میں لوڈ شیڈنگ کے وقت یا بجلی چلے جانے کی صورت میں یا جن علاقوں میں بجلی نہیں ہے ، گھر کا ایک کمرہ روشن کرنے کے لیے سولر پینل کے سب سے چھوٹے سسٹم کو انسٹال کرنے پر چار سے پانچ ہزار یا زیادہ سے زیادہ دس ہزار روپے خرچ ہو سکتے ہیں ۔ا ور اسی طرح اگر اس کے ساتھ ایک پنکھا بھی چلانا چاہیں تو یہ لاگت اسی حساب سے بڑھتی جائے گی لیکن یہ سب سرمایہ کاری صرف ایک بار کی ہوگی ا ور اس کے نتیجے میں بجلی کے بل کی جو بچت ہو گی و ہ بہت جلد آپ کا خرچہ آپ کو واپس کر دے گی۔ لیکن ضروری ہے کہ روشنی ایل ای ڈی ہو پنکھا ڈی سی کرنٹ پر چلتا ہو۔ انہوں نے بتایا کہ مارکیٹ میں لوگ سولر سسٹم لگانے کے لیے موجود ہیں لیکن یہ سولر پینل الیکٹریکل کی تھوڑی بہت سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص انسٹال کر سکتا ہے۔
متبادل توانائی کے بورڈ کے چئیر مین عارف علاؤالدین نے جنریٹر اور سولر انرجی کا تقابل کرتے ہوئے کہا کہ سولر سسٹم زیادہ سستا پڑے گا لیکن اس وقت سسٹم میں استعمال ہونےوالی بیٹری مہنگی ہے ۔ سولر پینل 21سے 25 سینٹ فی گھنٹہ کی بجلی پیدا کر سکتا ہے۔
عارف علاؤالدین نے بتایا کہ بڑے پیمانے پر سولر انرجی پیدا کرنے والے نجی اداروں سے حکومت بجلی خرید سکتی ہے اور ایک کلو واٹس یااس سے کچھ کم یا کچھ زیادہ سولر انرجی پیدا کرنے والے آلات درا ٓمد کرنے کے لیے حکومت نے کسٹم ڈیوٹی معاف کر دی ہے ۔ا نہوں نے مزید کہا کہ اگر آپ سولر پینل کے ساتھ بجلی پیدا کررہے ہیں اور اگر آپ کے پاس زائد بجلی ہے اور آپ کسی وجہ سے اس بجلی کو استعمال نہیں کر رہے اور اسے گرڈ میں ڈال دیں تو حکومت وہ اضافی سولر بجلی خرید سکتی ہے۔
عارف علاؤالدین نے بتایا کہ پاکستان میں بہت سی این جی اوز سولر بجلی پیدا کر رہی ہیں اور ان کا ادارہ بھی مختلف مقامات پر اس حوالے سے کام کررہا ہے لیکن اس کا سب سے بڑاپراجیکٹ وہ تھا جس کے تحت مٹھی میں پچاس دیہاتوں میں تیس ہزار گھروں کو سولر انرجی فراہم کی گئی اور ہر گھر کو کو دو دو لائٹس اور ایک ایک پنکھا چلانے کے لیے سولر سسٹم لگا کر دیا تو اس پورے سسٹم پر ایک گھر میں چالیس ہزار روپے خرچ ہوئے اور اب جب کہ پینلز اور دوسرے متعلقہ آلات کی قیمتوں میں کمی ہو رہی ہے اس لاگت میں اور کمی ہو سکتی ہے۔ (بحوالہ وائس آف امریکہ)
بھارت: 12 برسوں میں 20 ہزار میگا واٹ شمسی توانائی پیدا کرنے کا منصوبہ
بھارت نے اگلے ایک عشرے کے دوران شمسی توانائی کو ترقی دینے کے لیے ایک پروگرام شروع کیا ہے۔ بھارت آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنے کے اپنے اقدامات میں شمسی توانائی کو مرکزی حیثیت دینا چاہتا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے پیر کے روز نئی دہلی میں شمسی توانائی کے لیے چلائی جانے والی اس قومی مہم کا افتتاح کیا جس کا مقصد اگلے 12 برسوں میں بجلی کی پیداوار 20 ہزار میگا واٹ تک بڑھانا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ اس مہم کے ذریعے معدنی ایندھن پر ان کے ملک کا انحصار کم ہو کر دیرپا ترقی کی راہ پر منتقل ہو جائے گا۔
بھارت اس وقت شمسی توانائی کے ذریعے صرف تین میگا واٹ بجلی پیدا کر رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ شمسی توانائی کی قیمتوں میں کوئلے جیسے روایتی ایندھن کی قیمت تک کمی، اس مشن کی کامیابی کے لیے انتہائی اہم ہو گی۔
وزیر اعظم سنگھ نے کہا ہے انہیں یقین ہے کہ بھارت کے پاس ایسی ٹیکنالوجیز بنانے کے لیے سائنس دان موجود ہیں جو شمسی توانائی کے حصول کو ممکن بنا دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ شمسی توانائی کا مشن بھی ملک کی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صنعت کی طرح کامیابی حاصل کر لے گا۔
بھارتی عہدے داروں کو توقع ہے کہ شمسی توانائی سے ملک میں توانائی کی بڑی کمی کو دور کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ بھارت کی ایک ارب سے زیادہ آبادی کی تقریباً نصف تعداد، جو زیادہ تر دیہی علاقوں میں رہتی ہے، ملک کے بجلی کے قومی نظام سے منسلک نہیں ہے۔
مسٹر سنگھ کہتے ہیں کہ شمسی توانائی دیہاتوں کو روشن کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شمسی بجلی کے نظام، شمسی توانائی سے چلنے والے پانی کے پمپوں اور شمسی توانائی پر مبنی دوسری ٹیکنالوجی کے اطلاق سے بھارت کی دیہی معیشت کا چہرہ تبدیل ہوسکتا ہے۔
توقع ہے کہ اس شمسی مشن پر 19 ارب ڈالر خرچ ہوں گے اور شمسی پینلز بنانے پر اٹھنے والے اخراجات مرحلہ وار کم ہونا شروع ہو جائیں گے اور ملک کے اندر ان کی تیاری شروع ہو جائے گی۔
حکومت نجی شعبے سے بھی شمسی توانائی پر تحقیق، مصنوعات سازی اور اس کی ترقی پر سرمایہ کاری کے لیے کہہ رہی ہے۔ بھارت ملک کے اندر قابل تجدید توانائی کی مقدار میں اضافے میں مدد کے ساتھ ساتھ شمسی توانائی کی چین اور جاپان جیسی صنعت قائم کرنا چاہتا ہے۔
آب و ہوا کی تبدیلی کے ماہرین نے بھارت میں شمسی توانائی کے فروغ کے منصوبوں کا خیر مقدم کیا ہے اگرچہ اس بارے میں قیاس آرائیاں موجود ہیں کہ آیا یہ اہداف پورے بھی کیے جاسکتے ہیں یا نہیں۔
بھارت کو آب و ہوا کی تبدیلی کے مقابلے کی عالمی کوششوں کا ناقد سمجھا جاتا ہے کیونکہ توقع ہے کہ اس کی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں معیشت کی توسیع کے ساتھ تیزی سے اضافہ ہو گا۔ بھارت کو توقع ہے کہ وہ صاف توانائی اور شمسی توانائی کے حصول پر اپنی توجہ مرکوز کر کے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی کرسکتا ہے۔ (بحوالہ وائس آف امریکہ)
ترقی پذیر ممالک میں شمسی توانائی کی مقبولیت میں اضافہ
شمسی توانائی نہ صرف ماحول دوست ہے بلکہ وافر مقدار میں موجود بھی ہے۔ لیکن اگر اس کے آلات کی ترقی پذیر دنیا میں بڑے پیمانے پر تنصیب کا مرحلہ درپیش ہو تو اس کی افادیت اور مالیت کےحوالے سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔
ہانگ کانگ میں ان دنوں ایک عالمی تجارتی میلہ جاری ہے جس میں چین سے تعلق رکھنے والی درجنوں کمپنیوں نے شمسی توانائی سے چلنے والی اپنی تیار کردہ اشیاء اور مصنوعات نمائش کے لیے پیش کی ہیں۔
تاہم 'ہانگ کانگ الیکٹرونکس فیئر' کے نام سے جاری اس میلے میں پیش کردہ بیشتر مصنوعات دنیا کی ایک چوتھائی آبادی، یعنی لگ بھگ ایک ارب 60 کروڑ افراد، کے کسی کام کی نہیں جو اپنی زندگیاں بجلی کے بغیر بسر کر رہے ہیں۔
ان افراد کی اکثریت افریقہ اور جنوبی ایشیا سے تعلق رکھتی ہے اور ان علاقوں میں سورج کی تمازت اور دھوپ کی فراوانی کے باعث شمسی توانائی تیار کرنے کے ایسے پلانٹس کی اچھی کھپت ہوسکتی ہے جو سستے اور پائیدار ہوں۔
سولر پینلز، چارجرز اور دیگر برقی آلات تیار کرنے والی چین کے صوبے گوانگزو میں قائم ایک کمپنی کے سربراہ زونگ ژیاؤ جن کہتے ہیں کہ مارکیٹ کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے ان آلات کے تیار کنندہ اس سمت میں پیش رفت کر رہے ہیں۔
جن کا کہنا ہے کہ اپنی مصنوعات کی مسابقتی صلاحیت میں اضافے کی غرض سے ان کی کمپنی بیٹری کی کارکردگی کو بہتر بنانے پر کام کر رہی ہے۔ ان کے بقول وہ ایک جانب مخصوص سرکٹ بورڈز کے استعمال کے ذریعے توانائی کا زیاں کم سے کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو دوسری جانب ان کی کمپنی میں تیار کردہ سولر پینلز کی دھوپ کو توانائی میں ڈھالنے کی صلاحیت میں اضافہ کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
جن کہتے ہیں کہ پینل کی تیاری میں خاص اور جدید قسم کے سامان اور تیکنیک کے استعمال سے ایسا ممکن بنایا جاسکتا ہے۔
تاہم شمسی توانائی کے حوالے سے کثرت سے اٹھنے والا ایک اہم سوال یہ ہے کہ آپ اس وقت کیاکریں گے جب دھوپ ہی میسر نہ ہو؟ ماہرین نے اس مسئلہ کے کئی تخلیقی حل ڈھونڈ نکالے ہیں۔ ان میں سرِ فہرست ایسے 'پینلز' کی تیاری ہے جو نہ صرف دھوپ بلکہ ہوا سے بھی بجلی پیدا کرسکیں۔
یہ حل قابلِ عمل ہے اور چین کے صوبے شین زین اور جرمنی میں سڑک کنارے نصب برقی قمقموں کے لیے اس نوع کے پینلز کا کامیابی سے استعمال کیا جارہا ہے۔
شمالی امریکہ اور یورپ میں کم سے کم جگہ گھیرنے اور زیادہ توانائی پیدا کرنے والے پینلز میں 'کرسٹلین سلیکان' نامی قدرے مہنگی ٹیکنالوجی کا استعمال ہوریا ہے۔
لیکن ماہرین ترقی پذیر ممالک کے لیے نسبتاً سستی 'تِھن فلم' ٹیکنالوجی کا استعمال زیادہ موثر قرار دیتے ہیں۔
مختلف کمپنیوں کی جانب سے متبادل توانائی سے چلنے والی ایسی سستی الیکٹرونک مصنوعات متعارف کرائی جارہی ہیں جو ان علاقوں میں بآسانی استعمال کی جاسکتی ہیں جو بجلی کے مرکزی نظام سے منسلک نہ ہوں۔
ہانگ کانگ کے تجارتی میلے میں ایسی 'فلیش لائٹس' بھی تھوک کے حساب سے فروخت کے لیے پیش کی گئی ہیں جن کی فی عدد قیمت صرف 35 سینٹ ہے۔
ان لائٹس کو بآسانی ہاتھ میں لے کر گھوما جاسکتا ہے اور مکمل طور پر چارج کیے جانے کی صورت میں یہ 20 گھنٹے تک روشن رہ سکتی ہیں۔
شمسی توانائی کی مقبولیت اور ترقی میں ہر گزرتے برس کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف گزشتہ ایک برس کے دوران دنیا بھر میں ریکارڈ تعداد میں سولر پینلز نصب کیے گئے جن سے حاصل ہونے والی مجموعی توانائی کا تخمینہ 18 گیگا واٹس لگایا گیا ہے۔
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان پینلز کی صرف ایک فی صد تعداد ترقی پذیر ممالک میں نصب کی گئی۔ (بحوالہ وائس آف امریکہ)
تازہ ترین
امریکہ میں شمسی توانائی کے دنیا کے سب سے بڑے پاور پلانٹ نے صارفین کو بجلی کی فراہمی شروع کردی
کیلی فورنیا ، امریکہ میں شمسی توانائی کے دنیا کے سب سے بڑے پاور پلانٹ نے صارفین کو بجلی کی فراہمی شروع کردی ہے۔ روزانہ 392 میگاواٹ بجلی پیداوار سے ایک لاکھ 40 ہزار گھر مستفید ہونے لگے ہیں۔ خلیج ٹائمز کے مطابق دنیا کے سب سے بڑے سولر پاور پلانٹ سے بجلی کی پیداوار شروع ہو چکی ہے ۔پلانٹ کے ترجمان جیف ہولینڈ نے بتایا ہے کہ امریکہ میں جتنے بھی سولر پاور پلانٹ موجود ہیں ان کی پیداوار کا 30 فیصد حصہ نئے سولر پلانٹ سے فراہم ہو رہا ہے۔ یہ سولر پلانٹ امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا میں لگایا گیا ہے۔ مذکورہ پاور پلانٹ تین ہزار 500 ایکڑ اراضی پر مشتمل ہے اس میں تین لاکھ 50 ہزار کمپیوٹر کنٹرولڈ مرر لگائے گئے ہیں۔ اس منصوبے کی شروعات 2010ءمیں ہوئی تھی جس میں ہزاروں افراد کو روزگار کے مواقع بھی حاصل ہوئے ہیں۔
بشکریہ اے پی پی مورخہ 18 فروری 2014