تانبے کا کھیل - پرانے سکے نئے اور چمک دار بنائیں

بچی محلول تیار کرتے ہوئےمجھے کیا سامان چاہیے؟

اس تجربے کے لیے آپ کو چاہیے:

  • 20 تانبے کے ایک روپے کے سکے
  • چوتھائی کپ سرکہ
  • ایک چمچ خوردنی نمک
  • ایک صاف، کم گہرا پیالہ جس میں دھاتی اجزاء استعمال نہ ہوئے ہوں
  • دو صاف سٹیل کے بنے کیل
  • ایک صاف سٹیل کا پیچ
  • "کاغذی تولیے" (پیپر ٹاول) (جنہیں ٹشو پیپر بھی کہتے ہیں)

طریقۂ کار
۱۔ سرکے کو پیالے میں ڈال کر اس میں نمک کو اچھی طرح حل کر لیں۔
۲۔ ایک سکے کو اس محلول میں آدھا ڈبو کر دس سیکنڈ تک پکڑے رکھیں اور پھر نکال لیں۔ کیا آپ کو اس میں کوئی فرق محسوس ہوا؟
۳۔ اب تمام سکوں کو محلول میں ڈال دیں۔ ابتدائی کچھ سیکنڈ میں آپ ان کو اپنا رنگ بدلتے ہوئے دیکھ سکیں گے۔ اس کے بعد کوئی خاص تبدیلی محسوس نہیں ہوگی۔
۴۔ پانچ منٹ کے بعد ان میں سے آدھے سکوں کو نکال کر کاغذی تولیے پر خشک ہونے کے لیے رکھ لیں۔
۵۔ باقی نصف سکوں کو نکال کر پہلے پانی سے اچھی طرح دھو لیں۔ پھر انہیں بھی کاغذی تولیے پر خشک ہونے کے لیے رکھ دیں۔ دھلے ہوئے سکوں کے ساتھ ایک طرف کوئی علامت لگا دیں جس سے آپ کو یاد رہے کہ یہ دھلے ہوئے ہیں۔
سرکے میں ڈالنے سے پہلے اور بعد میں
۶۔ اب سرکے کے اس محلول میں ایک کیل اور پیچ ڈال دیں۔ ایک اور کیل کو پیالے کی دیوار کے سہارے اس طرح کھڑا کر دیں کہ اس کا آدھا حصہ محلول میں ڈوبا ہوا ہو اور آدھا باہر ہو۔
پیالہ
۷۔ دس منٹ کے بعد کیلوں کو دیکھیں۔ کیا ان کے رنگ میں کوئی تبدیلی آئی ہے؟ کیا محلول میں آدھا ڈوبا ہوا کیل دو مختلف رنگ کا ہو گیا ہے؟ اگر نہیں تو انہیں یوں ہی پڑا رہنے دیں اور تقریباً ایک گھنٹے کے بعد دوبارہ دیکھیں۔
۸۔ پیچ کو کیا ہو رہا ہے؟ شاید آپ کو پیچ کی چوڑیوں میں سے بہت سے چھوٹے چھوٹے بلبلے بھی اٹھتے ہوئے نظر آئیں۔ کیا پیچ کا رنگ تبدیل ہو رہا ہے؟ کچھ دیر کے لیے اسے سرکے کے محلول میں یوں ہی پڑا رہنے دیں اور دیکھیں کہ کیا ہوتا ہے۔
۹۔ تقریباً ایک گھنٹہ گزر جانے کے بعد سکوں کو دیکھیں۔ ان سکوں کو کیا ہوا جنہیں آپ نے دھویا تھا؟ دوسرے سکوں کو کیا ہوا؟ نہ دھلے ہوئے سکوں کے نیچے موجود کاغذ کا رنگ کیا ہے؟

یہ سب کیا ہو رہا ہے؟

سرکے میں ڈالنے سے پہلے سکے میلے کیوں نظر آ رہے تھے؟
آپ کے آس پاس کی تمام چیزیں انتہائی چھوٹے چھوٹے ذرات سے بنی ہوتی ہیں۔ ان ذرات کو ایٹم کہا جاتا ہے۔ کچھ چیزیں صرف ایک ہی قسم کے ایٹموں سے بنی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ان سکوں کا تانبا صرف تانبے ہی کے ایٹموں سے بنا ہوتا ہے۔ جبکہ بعض اوقات مختلف اقسام کے ایٹم آپس میں مل کر سالمات (molecules) بناتے ہیں۔ تانبے کے ایٹم ہوا میں موجود آکسیجن کے ایٹموں کے ساتھ جڑ کر ایک سالمہ بناتے ہیں جسے تانبے کا آکسائیڈ (Copper Oxide) کہتے ہیں۔ سکے اس لیے میلے کچیلے نظر آ رہے تھے کیونکہ ان پر تانبے کے آکسائیڈ کی تہہ جمی ہوئی تھی۔

نمک اور سرکے میں ڈالنے سے سکے صاف کیوں ہو گئے؟
تانبے کا آکسائیڈ خوردنی نمک اور کسی کمزور تیزاب کے محلول میں بہ آسانی حل ہو جاتا ہے۔ سرکہ بھی ایک تیزاب ہے۔ آپ اپنے سکوں کو نمک اور مالٹے کے رس یا نمک اور لیمو کے رس کے محلول میں بھی صاف کر سکتے ہیں کیونکہ یہ دونوں رس بھی تیزاب ہی ہیں۔

نہ دھلے ہوئے سکوں کا رنگ نیلا مائل سبز کیوں ہو گیا؟
جب سرکے اور نمک کا محلول سکے پر سے تانبے کے آکسائیڈ کی تہہ کو حل کر لیتا ہے، تو تانبے کے ایٹموں کے لیے آس پاس کے ایٹموں کے ساتھ جڑنا زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔ اور پھر چونکہ آپ نے ان سکوں کو نہیں دھویا تھا، اس لیے ان پر محلول ابھی لگا ہوا ہے جس میں نمک کے ذرات بھی شامل ہیں۔ چنانچہ تانبے کے ایٹم ہوا میں موجود آکسیجن، اور نمک میں موجود کلورین، دونوں کے ساتھ جڑ کر ایک نیلا مائل سبز مرکب بناتے ہیں جسے Malachite کہا جاتا ہے۔ سکوں کا رنگ اسی مرکب کی موجودگی کی وجہ سے تبدیل ہوا۔

کیلوں اور پیچ پر تانبے کی تہہ کہاں سے آئی؟
اس عمل کو سمجھنے کے لیے آپ کوایٹم کے بارے میں کچھ مزید باتیں جاننی ہوں گی۔ تمام ایٹم مزید چھوٹے ذرات سے بنے ہوتے ہیں۔ ان ذرات کو الیکٹران، پروٹان اور نیوٹران کہا جاتا ہے۔ الیکٹران اور پروٹان، دونوں پر برقی چارج ہوتا ہے۔ الیکٹران پر منفی چارج ہوتا ہے جبکہ پروٹان پر مثبت۔ مثبت اور منفی چارج ایک دوسرے کو کھینچتے ہیں اور اسی وجہ سے پروٹان اور الیکٹران کے درمیان بھی کشش پائی جاتی ہے۔
تانبے اور لوہے کے ایٹمجب آپ اپنے میلے سکوں کو سرکے اور نمک کے محلول میں ڈالتے ہیں تو اس پر موجود تانبے کا آکسائیڈ، اور ساتھ ہی تھوڑا سا تانبا بھی اس محلول میں حل ہو جاتا ہے۔ یعنی تانبے کے کچھ ایٹم سکے کو چھوڑ کر مائع میں تیرنا شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن جب تانبے کے یہ ایٹم سکے سے الگ ہوتے ہیں تو اپنے کچھ الیکٹران سکے پر ہی چھوڑ جاتے ہیں۔ یعنی آپ کے پاس اس مائع میں تانبے کے مکمل ایٹموں کے بجائے ان کے آئنز (ions) موجود ہیں۔ آئن (ion) ایسے ایٹم کو کہتے ہیں جس میں الیکٹرانوں کی کمی یا زیادتی ہو۔ تانبے کے آئن میں چونکہ مثبت چارج والے پروٹانوں کی تعداد منفی چارج والے الیکٹرانوں سے زیادہ ہوتی ہے، اس لیے اس پر مثبت چارج ہوتا ہے۔
اب آپ اس محلول میں سٹیل کے دو کیل اور ایک پیچ ڈالتے ہیں۔ سٹیل ایک دھاتی بھرت ہے جسے لوہے کے ساتھ کچھ دیگر دھاتوں اور کاربن کو ملا کر تیار کیا جاتا ہے۔ اور جیسا کہ آپ نے پہلے دیکھا، کہ آپ کا نمک اور سرکے کا یہ محلول دھاتوں اور ان کے آکسائیڈز کو بڑی آسانی کے ساتھ حل کر لیتا ہے۔ چنانچہ جب آپ سٹیل کے کیل کو اس محلول میں ڈالتے ہیں، تو اس سٹیل میں سے کچھ لوہا بھی اس میں حل ہو جاتا ہے۔ تانبے کے ایٹموں کی طرح ہر ایک حل ہونے والا لوہے کا ایٹم اپنے پیچھے دو الیکٹران چھوڑ جاتا ہے۔ چنانچہ آپ کے پاس اب اس مائع میں مثبت چارج والے تانبے اور لوہے کے آئن تیر رہے ہیں۔
شروع میں سٹیل کے ان کیلوں اور پیچ پر کوئی چارج نہیں تھا۔ لیکن جب لوہے کے ایٹم الگ ہوتے وقت اپنے الیکٹران پیچھے چھوڑ گئے تو ان پر منفی چارج آ گیا۔ اور جیسا کہ ابھی آپ نے پڑھا کہ مثبت اور منفی چارج ایک دوسرے کو کھینچتے ہیں، تو اس منفی چارج کی وجہ سے کیل اور پیچ اپنے آس پاس مائع میں تیرتے ہوئے مثبت چارج والے ذرات کو کھینچتے ہیں۔ لوہے اور تانبے دونوں کے آئنز پر مثبت چارج ہے۔ تانبے کے آئن منفی چارج کی طرف لوہے کے آئن کی نسبت زیادہ شدت سے کھنچتے ہیں۔ چنانچہ وہ منفی چارج والے کیلوں اور پیچ پر زیادہ مقدار میں چپک کر ان پر تانبے کی ایک تہہ بنا لیتے ہیں۔

سٹیل کے پیچ سے بلبلے کیوں اٹھ رہے ہیں؟
پانی کا ہر سالمہ (molecule) دو ہائیڈروجن کے اور ایک آکسیجن کے ایٹم سے بنا ہوتا ہے۔ کسی بھی تیزاب (مثلاً سرکہ یا لیمو کا رس) میں ہائیڈروجن کے بہت سے آئن (ہائیڈروجن ایٹم جن میں ایک الیکٹران کی کمی ہوتی ہے) تیرتے پھر رہے ہوتے ہیں۔ پیچ کی سطح پر ہونے والے کیمیائی تعاملات میں ان میں سے کچھ ہائیڈروجن آئن آپس میں مل کر ہائیڈروجن گیس بناتے ہیں۔ یہ بلبلے جو آپ دیکھتے ہیں، اسی ہائیڈروجن گیس کے ہیں۔
(اگر آپ غور کریں تو ایک چھوٹا سا امکان اس بات کا بھی موجود ہے کہ کیل کے اوپر بھی آپ کو انتہائی باریک بلبلے نظر آئیں گے۔ پیچ کی چوڑیوں کے درمیان بننے والے ہائیڈروجن کے سالمات چونکہ ایک دوسرے کے زیادہ قریب ہوتے ہیں، اس لیے وہ کیل کی سطح پر بننے والے بلبلوں کی نسبت تھوڑے بڑے حجم کے بلبلے بنا سکتے ہیں۔ اگر کیل پر بلبلے نظر نہیں آتے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں پر ہائیڈروجن نہیں بن رہی۔ تعامل وہاں بھی ہو رہا ہے لیکن ہائیڈروجن کے سالمات نسبتاً دور دور ہونے کے باعث اتنے بڑے بلبلے نہیں بنا سکتے جو ہم آسانی کے ساتھ دیکھ سکیں۔)

مضمون کا ماخذ۔
http://www.exploratorium.edu/science_explorer/copper_caper.html