سائنسی علوم کے حصول میں زبان کا کردار

مجالس:

کمپیوٹر سائنس سے کچھ نہ کچھ واقفیت رکھنے والے تو انٹرپرٹر اور کمپائلر کے فرق سے واقف ہوں گے ہی۔ جن کی واقفیت "کچھ نہ پُچھ" ہے، ان کی سہولت کے لیے پہلے ان دونوں کا مختصر تعارف:
کمپیوٹر کے پروگرام دو طرح کی زبانوں میں لکھے جاتے ہیں۔ زیریں سطحی زبانیں (لو لیول لینگویجز) جنہیں کمپیوٹر براہِ راست سمجھ لیتا ہے۔ اور بلند سطحی زبانیں (ہائی لیول لینگویجز) جن کو کمپیوٹر براہِ راست نہیں سمجھ پاتا اور ان کے لیے اسے مترجم سافٹ وئیر کی ضرورت پڑتی ہے جو اسے کمپیوٹر کی اپنی زبان میں تبدیل کر دیں۔ بلند سطحی زبانوں کی کچھ مثالیں سی، سی پلس پلس، پائتھن، پی ایچ پی، روبی اور پرل ہیں۔
یہ مترجم سافٹ وئیر بنیادی طور پر دو اقسام کے ہوتے ہیں۔ انٹرپرٹر (Interpreter) اور کمپائلر (Compiler)۔
انٹرپرٹر کا طریقۂ کار یہ ہوتا ہے کہ سورس کوڈ کو لے کر اس کی ایک ایک ہدایت کو کمپیوٹر کی "مقامی زبان" میں ترجمہ کر کے چلاتا جاتا ہے۔ یہ عمل ہر بار پروگرام کو چلانے پر ہوتا ہے۔ یعنی ترجمے اور ہدایات پر عمل کا کام ہر بار دہرایا جاتا ہے۔
کمپائلر کا طریقۂ کار یہ ہوتا ہے کہ ایک ہی بار میں سورس کوڈ کو لے کر اسے ترجمہ کر کے اکٹھا ایسی صورت میں محفوظ کر دیتا ہے کہ کمپیوٹر اسے دوبارہ ترجمے کی زحمت کیے بغیر براہِ راست چلا سکے۔ اس طرح ترجمے کی زحمت صرف ایک بار کرنی پڑتی ہے اور کمپائل کیے گئے پروگرام کو اس کے بعد جتنی بار چلایا جائے، ترجمے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ صرف ہدایات پر عمل کرنے کا کام ہی باقی رہ جاتا ہے جس سے پروگرام کی کارکردگی کافی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

تو اس ساری بحث کا سائنسی علوم کے مقامی یا غیر مقامی زبان میں ہونے سے کیا تعلق بنتا ہے؟
بات یہ ہے کہ جب سائنسی علوم کو کسی غیر مقامی زبان میں پڑھایا جاتا ہے تو اس کے سمجھے جانے کا طریقۂ کار انٹرپرٹر سے مشابہ ہوتا ہے۔ یعنی ایک ایک جملہ پڑھتے جاؤ، ذہن کے اندر ترجمہ کرتے جاؤ اور پھر اس سب کا مفہوم سمجھو۔ یعنی کہ اس طریقے میں سمجھنے کے ساتھ ساتھ ترجمے کا اضافی بوجھ بھی پڑھنے والے کے دماغ پر ڈال دیا جاتا ہے۔
اس کے برعکس اگر اسی مواد کو ایسی زبان میں پڑھایا جائے جسے دماغ براہِ راست سمجھتا ہو، یعنی مادری یا مقامی زبان، تو دماغ کو ترجمے کے بوجھ سے چھٹکارا مل جائے گا اور سمجھنے کے عمل میں کم محنت لگے گی۔
لیکن کیا کیا جائے اگر سائنسی مواد مقامی زبان میں دستیاب نہ ہو؟ جواب آسان ہے کہ اسے مقامی زبان میں "کمپائل" کر دیا جائے۔ یعنی کچھ لوگ تھوڑی سی اضافی محنت کر کے اجنبی زبانوں میں موجود سائنسی مواد کو ترجمہ کر لیں اور کروڑوں لوگوں کو اس اضافی مشقت سے بچا لیں۔ اس طرح توانائی کی خوب بچت ہوگی اور اس بچنے والی توانائی کو پھر کسی بہتر مصرف میں لگایا جا سکے گا۔ مثلاً اجنبی زبان میں اگر کوئی شخص ایک دن میں دو موضوعات کا احاطہ کر لیتا ہے تو مقامی زبان میں کم از کم تین کا احاطہ آسانی سے کر لے گا۔ اب اگر کارکردگی میں یہ اضافہ کروڑوں کے پیمانے پر واقع ہو تو آپ اندازہ لگائیں کہ مجموعی طور پر یہ کتنا فائدے کا سودا ہے۔ جبکہ ترجمہ کرنے میں صرف تھوڑے سے ہی وسائل خرچ ہوں گے۔

امید ہے کہ میری بات ان کی سمجھ میں آ گئی ہوگی جنہیں لگتا ہے کہ انگریزی میں سائنس پڑھانا زیادہ آسان ہے۔

باقی جہاں تک باہر جا کر کسی اور زبان میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کی بات ہے تو مجموعی کارکردگی کے حساب سے یہ زیادہ بہتر ہے کہ جسے کوئی اور زبان سیکھنے کی ضرورت ہو اسی کو سکھائی جائے، بنسبت اس کے کہ پورے ملک کی سطح پر ایک اجنبی زبان کو مسلط کر کے طلباء کی اکثریت کے لیے مشکلات پیدا کی جائیں۔ ویسے بھی ابتدائی تعلیم سے اعلیٰ تعلیم تک کے سفر میں کافی وقت لگتا ہے اور کسے پتہ کہ اتنے عرصے میں کون سا ملک علم کے میدان میں آگے نکل جاتا ہے اور کون سا پیچھے رہ جاتا ہے۔

مولانا، اس میں سائنسی و غیر سانسی کی بات نہیں ہے۔ میں کل ایک پروگرام میں بلکل اس بات پر بحث کررہا تھا کہ زبان بزات خود علم نہیں ہے البتہ علم کی ترسیل کا ایک ذریعہ ضرور ہے ۔ اگر آپ جانتے ہیں تو صرف ایک زبان بھی کافی ہے اور اگر نہیں جانتے تو دوسو زبانیں جاننے کے باوجود نیوٹن کے قانون حرکت کو بیان کرنے سے قاصر رہین گے۔

ماہریں کا یہ بھی تجزیہ ہے کہ زیادہ زبانیں سیکھنے سے علم کے حصول اور معلومات کو پراسس کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے مگر آپ کی کمیونیکیشن کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے
علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے

سیف's picture

مجھے آج تک ایک بات کی سمجھ نہیں آئی
کیا دنیا میں کوئی ایک مثال بھی موجود ہے کہ کسی بھی قوم نے علم، سائنس اور ٹیکنالوجی کو اپنی زبان میں منتقل کئے بغیر تعلیم مہیا کی ہو اور ترقی کی ہو؟
ترقی کا دارو مدار محض تعلیم ہی پر نہیں اس میں دیگر عوامل بھی کار فرما ہوتے ہیں جن میں سے سب سے اہم قومی ترجیحات اور منصوبہ بندی ہے جس کا ہمارے ہاں فقدان ہے لیکن اس بحث سے قطع نظر، دنیا میں جس طرف بھی نظر دوڑائیں آپ کو وہی اقوام ترقی یافتہ نظر آئیں گی جنہوں نے علوم کو اپنی زبان میں منتقل کیا اور اپنی قوم کے نونہالوں کو اپنی ہی زبان میں زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔

آج تک ہم اپنی قوم کو انگریزی تو سکھا نہیں سکے تو سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم وہ بھی انگریزی میں کیسے دیں گے۔ اکا دکا مثالوں سے یہ اصول نہیں اخذ کیا جا سکتا کہ انگریزی ذریعہ تعلیم ہی سے ترقی ممکن ہے۔ دنیا میں کسی قوم نے اس وقت تک ترقی نہیں کی جب تک ذریعہ تعلیم اپنی زبان کو نہیں بنایا۔ اگر کوئی مثال موجود ہے تو انگریزی کے طرف دار اسے پیش کریں میں اپنے اس نظریئے سے توبہ کر لوں گا۔

سعد کی یہ بات بالکل درست ہے کہ پہلے ترجمہ کیا جائے پھر اسے سمجھا جائے اور ایسا ہر بار کیا جائے۔ یہ دانشمندی تو کسی طور نہیں البتہ ترقی سے دور رکھنے کا ایک کامیاب حربہ ضرور ہے۔ ایک ہی مرتبہ علوم کا ترجمہ کر کے قوم کو اس کی تعلیم دی جائے۔ ایک مرتبہ ضیاالحق کوریا کے دورے پر گئے تو انہیں ایک سات منزلہ عمارت دکھائی گئی۔ اس میں ہر طرف لوگ کتابوں کا ترجمہ کرنے میں مصروف تھے۔ پروٹوکول افسر نے بتایا کہ دنیا بھر میں سائنس و ٹیکنالوجی پر کوئی بھی کتاب شائع ہوتی ہے تو وہ یہاں پہنچ جاتی ہے اور ایک ماہ کے اندر اندر اس کا ترجمہ مقامی زبان میں شائع کر دیا جاتا ہے۔ یہ عمارت اسی مقصد کے لئے استعمال ہو رہی ہے۔

میرا خیال ہے کہ یہی ایک مثال ہی کافی ہے اس ضمن میں کہ ترقی کا راز کیا ہے۔