"فوق ارضی سیاروں کی زندگی" از دیمیتر سیسی لوف

فوق ارضی سیاروں کی زندگی: کس طرح سے اجنبی دنیاؤں کی تلاش اور مصنوعی خلیہ کی تالیف ہمارے سیارے پر حیات میں انقلاب برپا کردے گی

دیمیتر سیسی لوف

 

تمہید

حیات کا بھید

 

صرف چند ہی ایسے عظیم سوالات ہیں جو اس سوال  کا مقابلہ کر سکتے ہیں مثلاً حیات کیا ہے اور اس کی شروعات کیسے ہوئی ؟ یہ ہمیشہ سے صرف اکیلی سائنس کے لئے ہی نہیں بلکہ عمومی طور پر بھی  ایک عظیم سوال رہا ہے ۔ اس کے جواب میں ہمیشہ سے کئی  نمونے  ، منظر نامے ،  قیاس آرائیاں  اور مفروضات پیش کئے گئے  جس میں سے افسوس کہ زیادہ تر ناکام ہی ہوئے ۔ انیسویں صدی کا وسطی حصّہ بھی  کچھ زیادہ مختلف نہیں تھا ۔ لیکن شمالی بحر اوقیانوس کی گہرائی میں ٹیلی گراف کے تاروں کے پہلو سے نکلی  ہوئی چکنی کیچڑ  شاید کچھ  تبدیلی کا عندیہ دے سکتی تھی۔

 

١٨٥٧ء کو ایک ایسے موقع کی مناسبت سے منایا جا سکتا ہے جب انسانیت اپنا پہلا عملی قدم اس سیارے پر عالمگیریت کی جانب اٹھا رہی تھی  - ایک عالمگیر  باخبر دنیا کی طرف  جس میں ہم آج رہتے ہیں ۔ تاروں کے گچھوں سے لدے ہوئے  برطانوی اور امریکی  جنگی جہاز پہلا بین البر اعظمی ٹیلی گراف  بحر اوقیانوس کی تہ میں یورپ اور امریکہ کے درمیان بچھا رہے تھے ۔ان خبروں کا عہد اب ختم ہونے کو تھا جو ننگے پاؤں  یا پھر گھوڑوں کی پیٹ پر بیٹھ کر یا کبوتروں کے ذریعہ بھیجی جاتی تھیں۔ پیغام رسانی کے طریقوں کو بالآخر روشنی کی رفتار سے سفر کرنے والے ذرائع ابلاغ سے بدل دیا جانا تھا جو خبر کو فوری طور پر پہنچا سکتے تھے ۔دن اور ہفتے گھنٹوں اور منٹوں میں بدل گئے ۔ ایسا لگتا تھا کہ جن  سمندروں نے انسانوں کو ہزار ہا برسوں تک ایک دوسرے سے دور رکھا تھا "یکدم  سوکھ گئے تھے ۔"

 

ٹیلی گراف کے تاروں کو بچھا نے  کی تیاری میں بحری جہاز جیسا کہ ایچ ایم ایس  سائیکلو پس  اور یو ایس ایس آر کٹک  بحر اوقیانوس کی تہ میں سمندری مٹی کے نمونے جمع کر رہے تھے ۔ ١٨٦٨ء میں ایک برطانوی ماہر حیاتیات تھامس ہنری ہگزلی  نے بحر اوقیانوس سے لئے جانے والے نمونوں میں ایک  بے رنگ و شکل کا مادّہ   جیلا ٹین  دریافت کیا  جس کو اس نے ایک نئے حیات کی شکل کے طور پر لیا ۔اس برطانوی ماہر حیاتیات  کی تقابلی تشریح  الاعضا  میں کافی نمایاں کاوشیں ہیں (اگرچہ آج وہ ڈارون کے نظریئے ارتقاء کو پھیلانے والے انسان کے طور پر زیادہ پہچانا جاتا ہے )۔  ہگزلی  نے جیلا ٹین  کو قدیمی  بے ہئیت پروٹوپلازم  نامیاتی مادّہ سمجھا   جس سے اس کے خیال میں حیات جنم لیتی ہے ۔

 

یہ ایک جرت مندانہ خیال اس تند و تیز دور  کے لئے تھا جس میں حیات اور اس کے ماخذ کو سمجھنے کی مہمات شروع ہو گئیں  تھیں  اور ہگزلی   اس دور کے  وسط  میں موجود تھا ۔ پہلے ١٨٥٩ ء میں چارلس ڈارون  کا  منوی انواع کے ماخذ اور نظریئے ارتقا  کی اشاعت  کی ، اور نظریہ ارتقاء  ایک گرما گرم بحث  کا موضوع بن گیا تھا ۔ ١٨٦٠ ء اور ١٨٦٣ ء کے درمیان ، لوئیس پاسچر ،  نے اپنا شہرہ آفاق تجربہ  "جراثیم کشی " کو مکمل کیا ۔ اس عرصے کے دوران  لمبے عرصے تک  حکومت کرنے والے  حیات کے ماخذ کی حکمرانی کا تختہ الٹا  جا چکا  تھا۔

 

ڈارون اور پاسچر سے پہلے ، مغربی سائنس  حیات کے ماخذ کو ازخود  اور روحیت کے مجموعہ کی حیثیت سے بیان کرنے کی کوشش کرتی تھی ۔ ازخود پیدا ہونے والے  نسل کے نظریئے کا خیال تھا کہ حیات  گلنے سڑنے والے مادّے سے نمودار ہوئی ہے ،  اور پھر بعد میں روح (جو تمام نامیاتی مادّے اور ہوا میں عام ہے ) اس میں پھونک دی گئی تھی ۔ روح کو کیمیا کی جانب سے پہلے ہی سے مخالفت کا سامنا ہے ۔ اپنی ابتدائی پیش رفت میں ، کیمیا نے  غیر نامیاتی مادّوں کو نامیاتی مادّوں سے الگ کرلیا تھا ۔ موخّرالذکر  کو غلط طور پر فرض کر لیا جاتا ہے کہ وہ زندہ چیزوں سے حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔ ١٨٢٨ ء میں ایک مرتبہ جب  نامیاتی مرکبات  کو تجربہ گاہ میں تالیف کرلیا گیا تو روح کی ضرورت باقی نہیں رہی (ہرچند کے نامیاتی کیمیا میں اس کا نام اب تک موجود ہے )۔

 

ازخود حیات کی پیداوار میں پائے جانے والے  مغالطوں  کا بھانڈا ان تجربات میں پھوڑا گیا  جس میں گوشت کے شوربے کو جراثیم سے پاک کرنے سے پہلے خوب ابالا  گیا تھا ، لیکن  خوش اسلوبی سے کئے گئے ان  تجربات  میں ہوا  کو  رسائی دی گئی اس طرح سے ثابت ہوا کہ حیات صرف حیات سے ہی نمودار ہو سکتی ہے ۔ لمبے ہنس کی گردن  جیسا جار  جس کا استعمال اس نے  شوربے کو ابلنے کے لئے کیا تھا  اس  جار نے جراثیم  (جرثوموں اور  تخمک ) کو جراثیم سے پاک محلول میں داخل ہونے سے روک دیا تھا لیکن ہوا کو اندر آنے دیا تھا ۔ ایسا لگتا تھا کہ پاسچر نے سب کو  قائل کرلیا تھا ۔

 

ان میں سے کسی بھی چیز نے سائنس دانوں کو حیات کے ماخذ کو سمجھنے میں مدد نہیں دی بجز اس کے کہ وہ مسئلہ پر اپنا سوال واضح طور پر  پیش کر سکیں ۔ پاسچر اور ڈارون دونوں نے  ماخذ کو بطور اکلوتا غیر حیاتی تولیدی عمل کے طور پر بیان کیا : یعنی کہ  حیات کی پہلی شکل بے جان بے روح مادّے سے نمودار ہوئی  اور ایسا صرف ایک ہی دفعہ ہوا تھا ۔ پاسچر کے مطابق یہ ایک خدائی عمل تھا  جبکہ ڈارون نے اپنے  ١٨٧١ء میں لکھے گئے خط کے مطابق اس کو  "گرم چھوٹے تالاب " پر چھوڑ دیا تھا ۔

 اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ہگزلی  نے اس طریقے کے  بر خلاف سوچا تھا کہ شاید  اس کے ہاتھ کوئی بڑا ثبوت لگ گیا ہے ۔ درحقیقت اس نے اس دریافت کا نام "بیتھیبیس  ہیکیلی " (Bathybius haeckelii)ایک جرمن حیات دن ارنسٹ ہیکل کے نام پر رکھا تھا جس نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ تمام حیات  ایک قدیمی کیچڑ سے پیدا ہوئی ہے  جس کا نام اس نے جرمن میں "اورشلیم" رکھا تھا     جس کا مطلب "قدیمی کیچڑ" ہے ۔ درحقیقت ہگزلی  کو اس بات پورا یقین تھا کہ اس نے قدیمی کیچڑ کی دریافت کر لی ہے ، اس دریافت نے ایچ ایم ایس چیلنجر کو  دنیا کے سمندروں کی گہرائی کی منظم کھوج کے لئے بروقت بھیجنے میں مدد کی ۔ قدیمی کیچڑ کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ؛ جہاز پر موجود کیمیا دانوں نے ہگزلی  کے پرتجسس مادّے کو ایک سادہ سا  غیر حل پذیر کیمیکل(آبیدہ کیلشیم سلفیٹ ) پایا۔ ۱۸۷۵ء میں ہگزلی  نے اپنی غلطی تسلیم کر لی ۔

 

ہگزلی  کی غلطی کے باوجود حیات کی ابتداء کی کھوج کبھی رکی نہیں۔ بیسویں صدی کانظریاتی دریافتوں کا کچھ  سنگ میلوں  کو حاصل کرنے میں اپنا حصّہ ہے لیکن بہرحال  اکثر ایسا لگتا ہے جیسے کہ  انیسویں صدی کو  ہی بس سالماتی پیمانے پر  دہرایا  جا رہا  ہے یعنی کہ  جرثومے اور خرد بینی حیات سالماتی حیات سے بدل گئی ہے ، لیکن حیات کے گرد لپٹی ہوئی پراسراریت ویسی ہی موجود ہے ۔

 

١٩٥٣ء میں اسٹینلے ملر  نے ہیرالڈ یوری  کی تجربہ گاہ میں کام کرتے ہوئے  اس بات کا مظاہرہ کیا کہ تمام پروٹین کو بنانے والے امینو ایسڈ  اور ڈارون کے "چھوٹے گرم تالاب " میں کیمیائی طور پر بن جانے والے پروٹین کے مرکبات  کی تالیف ایک ایسے  جار  میں کی جا سکتی تھی جس میں امونیا ، میتھین ، پانی اور برقی بار موجود ہو ۔ یہ  پہلا بہترین قدم تھا ! اسی برس واٹسن اور کرک نے ڈی این اے سالمہ  کی ساخت کو حل کر  لیا تھا ۔ بحیثیت مجموعی یہ بیسویں صدی کی حیاتیات  کا نقطہ عروج تھا لیکن اس وقت بھی حیات کے ماخذ کی جانب ہونے والی تحقیق نہ ہونے کے برابر تھی یعنی کہ  کس طرح سے قدیمی حیات اتنے پیچیدہ سالمات کے ساتھ وجود میں آ گئی تھی ؟

 

 اگلا تحفہ  من و سلویٰ کی طرح آسمان سے اس وقت  نازل ہوا  جب ستمبر ١٩٦٩ء میں آسٹریلیا میں ایک شہابیہ گرا ۔ نظام شمسی کے اولین دور میں بنے ہوئے اس ان چھوٹے قدیمی مادّے کے ٹکڑوں کے فوری تجزیئے نے زرخیز نامیاتی سالموں  اور ان میں موجود کئی امینو ایسڈ کو ڈھونڈ لیا  - یہ ملر اور یوری  کے تجربات میں حاصل کئے گئے تالیفی امینو ایسڈ سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھے ۔ یہاں  ہمارے پاس وہ چٹانی مادّہ تھا جس نے کبھی  کسی بڑے سیارے یا سیارچے کی صورت اختیار  نہیں کی تھی ، بہرصورت یہ اتنا بڑا ٹکڑا تھا  جو بس اتنا گرمایا ہو گا  کہ   اس میں موجود پانی کچھ عرصے کے لئے مائع کی شکل اختیار کر سکے  اور اس قدیمی مادّے نے پروٹین کو بنانے والے اجزاء کو خالص کیمیا کے ذریعہ بنایا تھا۔ ٢٠٠٨ء اور ٢٠١٠ء میں ہونے والی تحقیق نے لگ بھگ چودہ ہزار مختلف نامیاتی مرکبات  کو   ظاہر کیا ہے  جس میں دو  مرکزے اساس (نیوکلو بیس) بھی شامل ہیں ۔

 

یہ دریافتیں چاہے جتنی بھی دلچسپ ہوں لیکن یہ اب بھی ہمارے بڑے سوال کا جواب دینے سے  قاصر ہیں ۔ زمین پر حیات کا اصل ماخذ اب بھی ویسا ہی پوشیدہ ہے جیسے ہمیشہ سے تھا اور ہم اس سے اب بھی کافی دور ہی ہیں ۔ بہرصورت یہ ایک ایسا تاریخی سوال ہے جس کا جواب حاصل کرنے کے لئے اس ماحول کو جاننے کی ضرورت ہے جو زمین کے ارضیاتی نامچہ میں درج نہیں ہے ۔ مزید عمومی سوال  - کیمیا سے حیات  کے ممکنہ راستے کے بارے میں  - عصر حاضر کی سائنس کی پہنچ میں دکھائی دیتے ہیں ۔

 

فلکیات اور ماورائے شمس سیاروں(Exoplanet) – جو دوسرے ستاروں کے گرد چکر کاٹتے ہیں  -  کی تلاش   مسئلے کو  حل کرنے کا  طریقہ پیش کرتی ہے۔ دوسرے ارضی سیاروں  (Rocky Planets)کی کھوج ہمیں اس بات کا موقع دیتی ہے  ہم حیات  کے نمودار ہونے سے پہلے ان سیاروں کے حالات  کی جانچ کر سکیں جو ہماری کرہ ارض سے ملتے جلتے ہیں ۔ یہ طریقہ فلکیات کی دنیا میں وسیع پیمانے پر استعمال کیا  جا رہا ہے ۔ ہم ستاروں کی تحقیق  بطور نائب کے کرتے ہیں ، ہم سورج  کی حیات کے مرحلے اس جیسے دوسرے ستاروں کا تجزیہ کرکے جانتے ہیں ۔ لہٰذا ایک طرح سے  ہم حیات کے ماخذ کے عمومی سوال کا جواب دے سکتے ہیں کہ حیات کیا ہے  اور ماحول اس کی صورت گری پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے ۔ اس کے لئے ہمیں صرف یہ پوچھنا ہے کہ کیا دوسرے سیاروں پر حیات موجود ہے ؟ کائنات میں ستاروں کی تعداد زمین کی ساحلی ریت کے ذرّوں کی تعداد سے  بھی کہیں زیادہ ہے ۔ کم از کم اتنی تعداد میں سیارے موجود ہیں جتنے کہ ستارے ۔ اگر ان میں سے صرف ایک فیصد بھی زمین جیسے ہوئے  تو کیا وہاں پر حیات کا پایا جانا ناگزیر نہیں ہوگا؟

 

  فلکیات ہمیشہ سے بڑے اعداد -  فلکیاتی اعداد  - اور بڑے اعداد  کے تجربے  کا کھیل رہا ہے۔ اس نے ہمیں سیکھا دیا ہے کہ ناگزیر ہونے کی کوئی گارنٹی نہیں ہے ۔ ہمیں خود سے جانا اور ڈھونڈنا ہوگا۔  ان تمام باتوں کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ زمین جیسے دوسرے سیاروں پر ہم حیات کے نشان پا لیں گے ۔ جب ہم نئی دنیا دریافت کریں گے  - ایک ایسا سیارہ جس کو ہم اپنا گھر کہہ سکیں  -  تو کثیر جہانوں کا سوال ہمارے سامنے اٹھ کھڑا ہوگا اور ہمیں اس بات کا احساس دلائے گا کہ ہماری کائنات میں کیا اہمیت ہے ۔ کوپرنیکن کے انقلاب نے یہ کام پہلے ہی کر دیا ہے جس میں زمین کے بجائے سورج کو ہمارے سیارگان کے نظام کے مرکز میں رکھا گیا تھا ۔ اس تبدیلی نے ہی جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی داغ بیل ڈالی ہے ۔آج   کے دور میں کی جانے والی دو کوششوں نے ہمیں کوپرنیکن کے انقلاب کی معراج  پر بیٹھا کر اس کو مکمل کر دیا ہے ۔ ایک تو نئی دنیا کی دریافت ہے ۔ دوسری تالیفی حیاتیات کا دور ہے ۔ یہ دونوں سنگ میل ہمیں کائنات میں ہماری جگہ اور اہمیت بتانے اس طرح سے جا رہے ہیں جس کا ہم نے  کبھی تصوّر بھی نہیں کیا ہوگا۔ کیا آپ ان واقعات کو جاننے کے لئے صف اول میں بیٹھنا چاہتے ہیں؟ تو چلئے  ہمارے ساتھ بیٹھ جائیں ہم اسی طرف جائیں گے ۔      

 

باب اوّل- ماورائے شمس سیارے

یہ اکتوبر ١٩٩٥ء کی بات ہے جب میں  اطالوی شہر فلورینس میں ایک کانفرنس میں شرکت کر رہا تھا۔ یہ وہی شہر ہے جہاں سترویں صدی کے دوران میڈیچی فلکیات کے مربّی و سرپرست تھے۔ میرا اس کانفرنس میں شرکت کا مقصد اپنے  کچھ  رفقائے کاروں کے ساتھ کچھ نئی چیزوں کے بارے میں تبادلۂ خیال اور غور و فکر تھا۔ جیسا کہ اکثر اس قسم کی کانفرنسوں میں ہوتا ہے کہ لوگ غیر رسمی گفتگو شروع کر دیتے ہیں ، اسی قسم کی  ایک غیر رسمی گفتگو کے دوران  ایک نیا اچھوتا  خیال میرے گمان کی گہرائیوں سے نکل کر سامنے کھڑا ہو گیا۔

 

دن کے اختتام پر ،  کانفرنس کے شرکاء میں سے کچھ سوئس ماہر فلکیات "مچل میئر" (Michel Mayor) کی دریافت کے بارے میں گفت و شنید  کر رہے تھے۔ انہوں نے ایک چھوٹا  سا  ساتھی سیارہ جو لگ بھگ مشتری کے حجم کا تھا؛ ایک ستارے  جس کا نام پگاسی  ٥١ تھا اس کے  گرد دریافت کیا تھا۔ یہ دعویٰ کوئی ایسا بھی حیرت انگیز نہیں تھا۔ ایسے  کئی دعوے پچھلی دہائیوں میں کئی آئے اور گزر گئے تھے۔ اصل بات جس نے مجھے حیرت زدہ کیا تھا وہ  اس سیارے کا مدار کے گرد  وقت  تھا جو مچل اور اس کے طالبعلم  دیدیر  کیو لوز نے امیدوں کے برخلاف برسوں کے بجائے دنوں میں ناپا تھا۔ نیا سیارہ اپنے مورث  یا مرکزی ستارے کے گرد صرف ٤٠٠ دنوں میں ایک چکر مکمل کر رہا تھا۔

 

میں یہ بات سن  کر  تذبذب  کی کیفیت  میں تھا۔

 

یہ بات ٹھیک ہے کہ میں سیاروں کے بجائے ستاروں کا ماہر تھا  لیکن مجھے سیاروں کے بارے میں بھی بنیادی چیزیں معلوم تھیں اور اس علم کی بنیاد پر یہ بات  مجھ سے ہضم نہیں ہو رہی تھی۔ میں اپنے کالج کے آخری سال کے وقت سے ہی کانٹ –لا پلاس  کے نظام شمسی کے تشکیل کے نمونے کو جانتا تھا۔ اگرچہ آپ ایما نیول کانٹ کو ایک فلسفی کے طور پر جانتے ہوں گے مگر نوجوانی کے دور میں وہ ایک ماہر فلکیات اور آئزک نیوٹن کے رفقائے کاروں میں سے ایک تھا۔ وہ یونیورسٹی آف  کوئنگس برگ میں تھا۔ اس یونیورسٹی  کا نام تبدیل ہو کر اب کیلن انگارڈ  ہو گیا ہے جو بحیرہ بالٹک میں واقع ہے ، اور اس نے نیوٹن کے تازہ بنائے ہوئے علم الا احصاء  اور نظری میکانیات کی مدد سے نظام شمسی کا ایک واضح مگر ناقابل بیان خاصیت کو دریافت کیا تھا۔

 

کانٹ سے پہلے کے تمام ماہرین فلکیات یہ بات درج  کر چکے تھے  کہ تمام سیارے سورج کے گرد ایک ہی سطح  اور ایک ہی سمت  میں چکر لگاتے ہیں  اور یہ وہی سمت ہے جس میں سورج خود گھوم رہا ہے۔ زیادہ تر سیارے بھی اسی طرح سے گھومتے ہیں۔ کانٹ نے اس کا ایک نفیس حل  زحل کے حلقوں کی مماثلت سے پیش کیا تھا۔ سیارے ان ذرّات سے بنے تھے جو سورج کے گرد ایک چپٹی قرص میں گھوم رہے تھے  اور بقائے زاویائی معیار حرکت  اس کے چپٹے ہونے کی وجہ بیان کرتا ہے۔(معیار حرکت ، کمیت ، سمتی رفتار اور گھومتے ہوئے جسم کے حجم کا حاصل ضرب ہوتا ہے  جواس میں باقی رہ جاتی  ہے ، جسم اپنی معیار حرکت کا بچا لیتا ہے۔ اگر اس جسم کا حجم گھٹنا شروع ہو جاتا ہے تو وہ جسم تیزی سے گھومنا شروع کر دیتا ہے  تاکہ حجم میں کمی کا ازالہ کر سکے۔ گرد و غبار کی کمیت جو کسی نوجوان ستارے کے گرد موجود ہوتی ہے  اس  کے گرد چکر لگاتے ہوئے  سکڑتی ہے  اور ایک چپٹی قرص کی شکل حاصل کر لیتی ہے۔)

 

[کانٹ کا ناشر  دیوالیہ ہو گیا تھا اس وجہ سے   اس دور میں  اسے اس کھوج کا سہرا نہیں دیا گیا ، یہ حقیقت  میرے پرانے استاد چارلس وہائٹنی  نے" دی ڈسکوری آف آورگیلیکسی" میں  بیان کی ہے ] پیئری سائمن لا پلاس   نے ریاضی کے اصول کو کانٹ کے پیش کردہ خیال میں ١٧٩٦ء میں شامل کر دیا۔ کانٹ -لا پلاس کا پیش کردہ خیال  ٢٥٠ برسوں کی تنقید ، تبدیلی  اور بہتری کے ساتھ  اپنے بنیادی ستونوں کو بچانے میں کامیاب رہا ہے۔

 کچھ اور بھی ایسا تھا جس کے نتیجے میں مچل کی دریافت پر بھروسہ کرنا میرے لئے کافی مشکل تھا۔ کانٹ –لا پلاس  کے جدید ورژن کے مطابق زمین کے سورج سے  فاصلے کے دو سے تین گنا دور ایک ایسا خم موجود ہوتا ہے جہاں ستارے کے گرد موجود گیس کی قرص کا درجہ حرارت ١٧٠ کیلون  یا صفر فارن ہائیٹ سے  ١٥٠ ڈگری نیچے  تک گر جاتا ہے جس نقطے پر اس کمیاب ماحول میں پانی اور امونیا کے سالمات  برف کے ذرّات اور گالوں  میں ڈھل جاتے ہیں۔ یہ دونوں ہلکے مادّے ، ہائیڈروجن کے ساتھ مل کر  گرد کے ذرّات  سے جڑ کر گیسی دیو ہیکل سیاروں کی شکل اختیار کرنا شروع کر لیتے ہیں  جو سورج کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ خود ساختہ  برف کے خط کے اندر  موجود گرد کے ذرّات  ، برف کے دانوں اور گالوں کے بغیر ہی ان سیاروں کی بڑھوتری  میں اضافہ کرنے کا سبب بن گئے تھے۔ انہوں نے چھوٹے سیاروں کے ساتھ مل کر کثیف سیارے بنانے شروع کر دیئے تھے۔(ملاحظہ کیجئے خاکہ نمبر ١۔١ )۔ ہمارے نظام شمسی کی تخلیق  کی یہ بہت ہی خوبصورت اور سادہ سی  توضیح ہے  جس میں گیسی دیو سورج سے دور مدار میں چکر کاٹ رہے ہیں اور اپنے اس سفر کو مکمل کرنے میں برسوں کا وقت لیتے ہیں  جبکہ چھوٹے چٹانی سیارے سورج کے اندرونی مدار میں چکر کاٹ رہے ہیں۔ ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ کیوں میں مچل کے دعوے کے بارے میں تذبذب کا شکار تھا۔ کوئی بھی ایسی صورت نہیں تھی جس میں مشتری کے جیسے گیسی دیو سیارے  اس برفیلی خط کے اندر تشکیل پا سکیں۔ پگاسی  ٥١ جو ہمارے سورج کے جیسا ہی سیارہ تھا اس جیسے کسی سیارے کے اتنے قریب صرف ٤٠٠ دنوں میں مدار میں چکر لگانا بظاہر ناممکن نظر آتا تھا۔

 

اگلی صبح پریس کانفرنس میں مجھے معلوم ہوا کہ میں نے ٤٠٠ دنوں کے بارے میں غلطی کی ہے۔

 

وہ چار دن تھے !

 

اصل میں کسی طرح سے میرا دماغ اس ناقابل یقین عدد میں الجھ گیا تھا اور میں نے اس کو سو سے ضرب دے دیا تھا۔ اس کے باوجود مچل  اپنے تمام تر ثبوتوں سے  اپنے دعوے میں ثابت قدم تھا  اور اس نے  نئے سیارے کے مدار کا چکر4.2دن بیان کیا !

 

میری پہلے سے قائم کی ہوئی رائے  ایسے ہوا میں تحلیل ہوئی جیسے کہ برف کے ذرّات اور گالے سورج میں گر جانے کے بعد تحلیل ہوں۔ یہ ایک طاقتور اور منکسر المزاج بنانے والا سبق تھا جو میں نے حاصل کیا تھا۔

 

پگاسی  ٥١ ب  کی طرح دوسرے اور سیاروں کی دریافت  کی بھی خبریں آنی شروع ہو گئی تھیں۔ مچل کی پہلی کھوج  کے کچھ ہی مہینوں بعد کیلی فورنیا میں موجود  جیفری مارسی  اور پال بٹلر اس قسم  کے پہلے ہی سے موجود  ایک منصوبے اور فنی مہارت  کی مدد سے کئی دلچسپ ماورائے شمس نظام ہائے سیارگان میں دریافت کر چکے تھے  جس کے نتیجے میں وہ شکوک و شبہات  کافی کم ہو گئے تھے  جس میں سیارہ ٥١ پگاسی ب  اپنے مرکزی  ستارے کی غیر معمولی خاصیت سمجھا جاتا۔ یہ بھی ایک آسان سی بات تھی کہ ماضی میں جا کر پہلے  سے موجود ایک کھوج  کو HD 114762 ستارے کا ممکنہ سیارہ مان لیا جائے  جس کو  میرے ایک رفیق اور ممتاز سیارہ کھوجی ڈیوڈ لاتہم  نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ  ١٩٨٩ء  میں تلاش کیا تھا۔ اس بات اندازہ لگانا بھی ممکن تھا کہ آیا کیوں وہ  کینیڈا کی یونیورسٹی آف وکٹوریا  کے گورڈن واکر کی سربراہی میں  اس تیکنیک کا استعمال کرتے ہوئے ایک بھی ماورائے شمس سیارے کو ڈھونڈھنے میں ناکام ہو گئے تھے۔ انہوں نے ایک  انتہائی منظم طریقے سے ١٩٨٦ء سے لے کر ١٩٩٥ء تک  سیاروں کی تلاش کی تھی مگر ان کا ہدف وہ سیارے تھے جن کے مدار کا وقت دس برس  یا اس سے بھی زیادہ لمبا ہوتا  اور اسی بات نے ان کے ستاروں کی تعداد کو محدود کر دیا تھا۔ وہ قسمت کے ہاتھوں مجبور تھے اور اس طرح سے  یہ تلاش خالی ہی ثابت ہوئی۔

 

دوسرے ستاروں کے گرد چکر لگانے والے سیارے جن کو اب ہم ماورائے شمس سیارے کہتے ہیں ، ان کی دریافت شدہ تعداد یہ کتاب لکھنے کے وقت تک ٦٠٠ کے لگ بھگ ہو گئی ہے۔ یہ تمام کے تمام ہماری کہکشاں  ملکی وے میں ہی پائے گئے ہیں ، اس میں زیادہ تر ہم سے کافی نزدیک  صرف ٥٠٠ نوری برس کے فاصلے پر واقع ہیں  اگرچہ کافی تعداد میں سیارے پانچ ہزار نوری برس کے فاصلے پر بھی موجود ہیں۔ ان میں سے ٦٠ سے زیادہ سیارے پگاسی  ٥١ ب جیسے ہی ہیں  جن کو اکثر تپتے ہوئے مشتری کہا جاتا ہے۔  دریافت شدہ ماورائے ارض سیاروں  کی یہ تعداد اس بات کا عندیہ دے  رہی ہے کہ سیارے تلاش کرنا ایک آسان سی بات ہے۔ یہ سیارے جو شروعات میں خلاف قاعدہ لگ رہے تھے ( کیسے یہ اپنے مورث ستارے کے نزدیک اتنی گرمی میں تخلیق ہو سکتے ہیں ؟) انہوں نے اپنی وجود کی توضیح پیش کردی تھی جس کے نتیجے میں کانٹ – لا پلاس کے نمونے کو رد کرنے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ تپتے ہوئے مشتریوں نے ہماری آنکھیں سیاروں کی ہجرت کے مظہر کے بارے میں کھول دیں ، یہ ہجرت  نئے تشکیل پائے ہوئے سیارے کے مدار میں  اس کے گرد و گیس کے قرص کے تعامل کے نتیجے میں سست رفتار تبدیلی کا نتیجہ تھی۔ مدار میں چکر لگاتے ہوئے سیارے کی قرص میں بڑھتی کثافتی  موجوں  کے ساتھ  اس کا مدار اندرونی یا بیرونی طرف مرغولے کھاتا ہوا بدلنا شروع ہو جاتا ہے۔ زیادہ تر موقعوں میں نتیجہ اندرونی تبدیلی کی طرف  تپتے ہوئے مشتریوں کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔

پہلے تپتے ہوئے مشتری کا مدار جس کا نام پگاسی ٥١ ب ہے۔ دونوں مداروں کو ایک ہی پیمانے پر دکھایا گیا ہے۔ سورج سے زمین کا فاصلہ نو کروڑ تیس لاکھ میل ہے ، جبکہ پگاسی ٥١ کا فاصلہ پگاسی ٥١ ب سے صرف پچاس لاکھ میل تک  ہی ہے۔

اس خوبصورت پرانے میڈ یچی کے شہر نے اپنے آپ میں غرق کرنے میں میرا کچھ وقت  لے لیا تھا  اس کے باوجود میں ان  سوالات  کے جوابات کی کھوج میں گہری سوچ میں غلطاں تھا ۔ان سوالات کو میں   کچھ دن پہلے تک میں انتہائی ہلکا  ہی لیتا تھا۔

 

تیرا سال بعد میں اور مچل اسی کانفرنس میں ملے۔ اس دفعہ مچل نے ان  چھوٹے زمین جیسے سیاروں کو بیان کیا جو اس نے دریافت کئے تھے۔ میں نے کمپیوٹر کے کچھ حساب کتاب کی مدد سے اس امکان کو ظاہر کیا کہ ممکن ہے کہ ان میں سے کچھ عجیب دنیائیں زمین جیسی ہی ہوں۔ یہ چھوٹے سیارے کافی تعداد میں اور ہماری امید سے بھی زیادہ انتہائی متنوع فیہ اقسام کے تھے۔ کچھ تو اتنے گرم تھے کہ وہاں پر لوہے کی برسات ہو رہی تھی ، ایک ہزار میل فی گھنٹے کی رفتار سے ان کے کرۂ فضائی میں ہوائیں چل رہی تھیں ، دو ستاروں والے سیاروی نظام بھی تھے ، ایک ایسا سیارہ بھی تھا جو درحقیقت اپنے مورث ستارے کی ہر تین مہینے کے بعد ایک مہین سی پرت اتار لیتا تھا  اور اسی طرح کے مزید کچھ عجیب برتاؤ والے سیارے تھے۔

 

آج ہم ایک ایسے جہاں کی سرحد پر کھڑے ہیں  جس کو ہم اپنا گھر کہہ سکیں ، وہ سیارے جن کو شاید کوئی اور ہم سے پہلے ہی اپنا گھر کہہ  چکے ہوں۔ ان کی تلاش نے ایک نئی خلائی دوڑ شروع کردی ہے۔ ایک ایسی دوڑ جس میں کرۂ ارض کا جڑواں سیارہ دریافت کیا جا سکے۔ ممکن ہے کہ اس ضمن میں ہونے والی کوششیں اور جوش عجیب اور  بلا جواز لگے۔ یہاں تک کہ سائنس دانوں کے مطابق زمین کے جیسے جڑواں سیارے کی تلاش کا کوئی  فوری فائدہ نہیں ہوگا  کیونکہ زمین جیسے سیارے کی خاصیت کا تجزیہ کرنے کے لئے ان کو بڑے سیاروں پر انحصار کرنا ہوگا  جن کی تلاش کافی آسان ہے۔  ان تمام باتوں کے باوجود ہر شخص اس بات کو مانتا ہے کہ ایسی کوئی بھی دریافت ایک تاریخی لمحہ ہوگی۔

 

اس دوڑ میں غیر معمولی جوش و جذبات انسانی چاہت کی منشاء اور یکجہتی کے عکاس ہیں۔ یہ اکیسویں صدی کے   پرانے دور کا سوال "دوسروں " کے بارے میں ہے مگر یہ سوال کافی بڑے پیمانے پر ہے۔

 

 دوسروں کے بارے میں سوال  یہ ہے کہ ایک شعوری انسان کس طرح سے اپنی شناخت کا ادرک کرتا ہے : میں کون ہوں اور میں کس طرح سے دوسرے  سے تعلق رکھتا ہوں ؟ یہ سوال اوّلین اور پہلی بحث میں ہی پیدا ہو جاتا ہے۔ انسانی تاریخ ایسے مباحثوں  سے بھری ہوئی ہے۔ ہومو  سیپین  کا ٹکراؤ ہومو نیندرتھل  سے آج کے یورپ کے کسی حصّے میں ہوا تھا ، مایا ؤں  کا ٹکراؤ  ہسپانوی فاتح سے وسطی امریکہ میں  ہوا تھا اور اسی طرح کے دوسرے ٹکراؤ۔ ہمارے سیارے پر پہلے ٹکراؤ کا وقت گزر چکا ہے۔ یہ بات چاہئے اچھی ہو یا بری ہو ، ہم انسان آپس میں ایک دوسرے کو جان گئے ہیں۔ بنی نوع انسان کی موجودہ نسل  ایک عالمگیری واقفیت ، ایک معاشرتی  جڑاؤ کا احساس  اور مشترکہ موروثیت کی سوجھ بوجھ رکھتی ہے۔ بیسویں صدی کے اختتام نے اس طرح کے کئی دروازے وا کر دئیے ہیں۔

 

دور دراز ستاروں کے گرد چکر لگانے والے ان جہانوں کی دریافت نے  پہلے ٹکراؤ کے بارے میں غور و فکر کرنے کے لئے ہمیں تازہ موقع فراہم کیا ہے۔ جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے کہ  انسان بے صبر تجسس اور خوف کی حالت میں  زبردست جذبات کے ساتھ ایسے ٹکراؤ سے نمٹتا آیا ہے۔ جیسا کے ماضی میں – حیرت انگیز طور پر  ہماری تمام جدید تیکنیکی صلاحیتیں  اور اسٹار ٹریک سے حاصل کردہ  مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت کے باوجود  - نئے جہانوں کو ہم نے ابھی دریافت کرنا شروع کیا ہے  یہ نئے جہاں مکمل طور پر اسراریت  اور حیرت سے بھرپور ہیں۔ اور ہم کبھی بھی ان کی تلاش نہیں روکیں گے جیسا کہ ٹی ایس ایلیوٹ نے مشہور زمانہ فقرہ لکھا ہے " ہمیں کبھی بھی کھوج کو ختم نہیں کرنا چاہئے۔ ہماری تمام جستجو اسی جگہ پہنچے گی جہاں سے ہم نے شروعات کی تھی  اور ہم پہلی دفعہ اس جگہ کے بارے میں جانیں گے۔"    

باب دوم - سیاروں کی دنیا

نوے کی دہائی کے وسط میں ، سیاروں کی دنیا بہت ہی چھوٹی  اور صرف نظام شمسی کے نو سیاروں پر مشتمل تھی ؛ پلوٹو کی سیاروی حیثیت کو ابھی تک کسی نے نہیں للکارا تھا ۔ اس چھوٹی سی دنیا کے باوجود  یہ سیارے جس قسم کے متنوع فیہ قسم کے ماحول رکھتے تھے اس کا ہم تصوّر بھی نہیں کر سکتے تھے۔ خلائی جہازوں کے بیڑوں پر نصب کیمرے نظام شمسی کی کھوج کرتے ہوئے ہم پر اجنبی دنیائیں آشکار کر تے ہوئے  ہمیں سیارہ شناسی سکھا رہے تھے۔ حیات کی تو بات ہی چھوڑ دیں ، ہم تو کائناتی پیمانے پربھی   اس وقت سیاروں کی اہمیت   ہی سے آگاہ نہیں تھے۔ دور حاضر میں پہلی دفعہ سائنس دان سیاروں اور حیات کو کائنات  اور اس کی تاریخ کا لازم و ملزوم حصّہ سمجھ کر دیکھ رہے ہیں ۔ اس کھوج میں ہم سے جو کچھ  بن پڑ رہا ہے وہ ہم کر رہے ہیں ۔

 

ہمارے نظام شمسی میں سیارے دو قسم کے گروہ کو بناتے ہیں  - گیسی دیو  اور ارضیاتی سیارے ۔ مشتری  اپنے نام اور جسمانی ساخت کے بل بوتے پر تمام سیاروں پر حکمرانی کر رہا ہے ۔ قدیمی لوگوں نے نہ جانے اس بات کو کیسے سمجھا تھا یہ اب تک ایک راز ہی ہے، کیونکہ سائنس دانوں کو اس کی کمیت اور حجم  کی تصدیق کرنے میں لگ بھگ ڈھائی ہزار برس کا عرصہ لگ گیا تھا ۔ چار سو برس پہلے پڈووا   (Padua)میں گلیلیو گلیلی  نے پہلی دفعہ اپنے  غیر معمولی بصری آلے یعنی کہ دوربین  کا استعمال کرتے ہوئے مشتری کی طرف دیکھا تھا ۔ گلیلیو  نے کونے نکلے ہوئے ستارے کے بجائے ایک سیارہ دیکھا تھا  جس کے گرد چار چاند گردش کر رہے تھے ۔ اس نے انہیں میڈیچین(Medicean)  ستارے کا نام دیا۔ یہ نام اس نے اپنے فلورینٹین کے مربی  میڈیچی  کے نام پر دیا تھا۔ اس وقت تک ستاروں اور سیاروں کے درمیان فرق واضح نہیں تھا ۔ اب ہم ان کو مشتری کےگلیلائی   مہتابوں  کے نام سے جانتے ہیں ؛ ان مہتابوں  کے مداروں نے ہمیں سیاروں کے جاذبی کھنچاؤ اور ان کی کمیت کو ناپنے میں مدد کی ہے ۔(یہاں میں نے لفظ کمیت کا استعمال کیا ہے ۔ کسی بھی جسم کی کمیت  اس میں موجود مواد (ایٹموں یا مادّے ) سے ناپی جاتی ہے ۔کمیت اور قوّت ثقل ایک دوسرے سے متصل ہیں :قوّت ثقل کی طاقت کا انحصار کمیت پر ہوتا ہے  - زیادہ ضخیم جسم قوی قوّت (یا کھنچاؤ )پیدا کرتا ہے ۔ عام بول چل میں ہم اکثر وزن یا بھاری کے الفاظ  کمیت یا ضخامت کے لئے استعمال کر لیتے ہیں ۔ یہ درست نہیں ہے اور اس کے استعمال سے پیچیدگی پیدا ہو سکتی ہے ، لہٰذا میں کمیت یا ضخامت کے لفظوں کا ہی استعمال کروں گا ۔ ) یہ ناپ تول آئزک نیوٹن کے قوّت ثقل کے قانون کی جیت تھی جو  ان نسل کے سائنس دانوں کے لئے رہنما تھی  جنہوں نے گلیلیو کی پیروی کی  تھی۔ اسی نے نوجوان ایما نیول کانٹ(Immanuel Kant) کو سیاروں کی تشکیل کے عمل کو سلجھانے میں مدد کی تھی۔ اس کے ذریعہ ہمیں معلوم ہوا کہ مشتری کی کمیت تین سو زمینوں یا  تمام سیاروں کی کل کمیت سے بھی دو گنی ہے ۔ مشتری واقعی میں ایک دیوہیکل سیارہ ہے  اس کے مد مقابل صرف  دور دراز واقع حلقوں والا سیارہ زحل ہے ۔

 

 مشتری ایک گیسی دیو ہے  یہ بات ہم اس کی اوسط  کثافت کی بدولت جانتے ہیں ۔ اس کا نصف قطر زمین سے دس گنا زیادہ ہے  جس کی وجہ سے مشتری کا  حجم ایک ہزار گنا زیادہ بڑا ہے ۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ  مشتری کی کمیت زمین سے صرف تین سو گنا زیادہ ہے ،  اندازہ لگایا گیا کہ یہ لازمی طور پر ایسے مادّے سے بنا ہوگا جو ہماری چٹانی زمین سے ہلکے ہوں گے ۔ درحقیقت مشتری اور زحل زیادہ تر ہائیڈروجن اور ہیلیئم سے بنے ہیں  جو کائنات میں سب سے وافر مقدار میں موجود ہیں اور یہ سب سے ہلکے عنصر بھی ہیں ۔ یہ کافی حد تک سورج اور ستاروں جیسے مادّے سے بنے ہیں ۔(خاکہ نمبر 2.1 )۔

ہمارے نظام سیارگان کے  سب سے بڑے سیارے  ایک اور طرح سے سورج سے مماثلت رکھتے  ہیں   -  ان کی کوئی ٹھوس سطح  یا جغرافیہ  نہیں ہے۔ ہمیں آنکھوں سے دکھنے والے  کرۂ فضائی سے نیچے اترتے ہوئے صرف بادل اور بادل  ہی ہیں جو گہرائی میں جاتے ہوئے کثیف اور گرم تر ہوتے جاتے ہیں ۔ مشتری کے اندرون میں اکثر  ہائیڈروجن اور ہیلیئم اس فضائی دباؤ کو زمین کے مقابلے میں  دس لاکھ گنا زیادہ طور برداشت کرتے ہیں ۔ اس قدر زبردست دباؤ کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ جتنا بڑا سیارہ ہوگا اس کی کھینچنے کی طاقت بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ میرا وزن مشتری پر2.4 گنا زیادہ ہوگا ۔ اگر ہم سیارے کی گہرائی میں جانے کا جوکھم اس طرح اٹھائیں جس طرح سے سمندر میں ڈبکی مارتے ہیں  تو دباؤ بھی بڑھ جائے گا۔ اس بات میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہونی چاہئے کہ مشتری کے اندر چیزیں ہمارے قابو سے باہر ہو جائیں گی ۔یہاں ہائیڈروجن گیس دھاتی  مائع میں بدل جاتی ہے  ۔یہ برق کی موصل ہے  اسی لئے ہم اسے دھاتی مائع ہائیڈروجن کہتے ہیں؛  ورنہ تو  اس مادّے  کی شباہت  آپ کے بغل میں رکھے چراغ کے تانبے کی تاروں جیسی بالکل بھی نہیں ہے۔ اس طرح کے کسی بھی اجنبی مادّے کی خصوصیات کو تجربہ گاہ میں جانچنا ایک بڑا مسئلہ بنا رہتا ہے ۔ زمین پر اس کو آج سے دس سال پہلے بنا لیا گیا تھا ۔کمپیوٹر سے لگائے گئے تخمینا جات کی مدد سے  آج ہم مشتری اور زحل کے اندرون  میں پائے جانے والے مادّے کی خصوصیات  کو اعتماد کے ساتھ بیان کرنے کے لئے کافی حد تک جان چکے ہیں نتیجتاً ہم تپتے ہوئے مشتریوں مثلاً پگاسی ٥١ ب جیسے سیاروں کے اندرون کو بھی بیان کر سکتے ہیں ۔

 

 مشتری اور زحل دونوں کا قلب چھوٹا ہے ( چھوٹا ان کی کے حجم کی مناسبت  سے ہے ، ورنہ  زمین کے لحاظ سے  وہ بہت بڑا ہے ) جو ایسے عناصر سے بنا ہوا ہے جو ہائیڈروجن ، ہیلیئم اور نیون  سے بھاری ہیں۔ کسی بھی سیارے کا قلب اس کی پیدائش اور شروع کے برسوں کے بعد بچ جانے والے مادّے سے ہی بنتا ہے ۔ سیاروں کی بہ  نسبت ستارے بغیر کسی قلب کے پیدا ہوتے ہیں اور اس کے بغیر بھی ایک لمبے عرصے تک جی سکتے ہیں ۔ بڑھتی عمر کے ساتھ ستاروں میں بھی قلب بننا شروع ہو جاتا ہے  کیونکہ ہلکے عنصر بھاری عناصر میں ڈھلتے ہوئے  اس کے  قلب میں جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں ۔ حیرت انگیز طور پر ، زحل کا قلب جو زمین کی کمیت کا پندرہ گنا ہے وہ مشتری کے قلب سے تین سے دس زمینی کمیت کے برابر  بڑا ہو سکتا ہے۔ کم از کم ہمارا اندازہ تو یہی ہے۔ مشتری اتنا بڑا ہے اور اس میں اتنی زیادہ  دھاتی ہائیڈروجن ہے  جو اس کے قلب کے بارے میں اندازہ لگانے میں مشکل کا سبب بنتی ہے۔ اگر اس کا قلب زحل سے چھوٹا  ہوا تو وہ پیدائشی چھوٹا ہوگا  یا پھر وہ وقت کے ساتھ بتدریج چھوٹا ہوتے ہوئے اوپری پرتوں کے ساتھ گھل مل گیا ہوگا ۔ اہم بات یہ ہے کہ مشتری اور زحل دونوں میں بھاری عناصر کی تعداد سورج میں موجود بھاری عناصر کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ سیاروں کی نسل سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔

     

یورینس اور نیپچون  کی کہانی مختلف ہے ۔ سورج کی طرح مشتری اور زحل دونوں زیادہ تر ہائیڈروجن اور ہیلیئم سے بنے ہیں ، یورینس اور نیپچون  کی کل کمیت میں صرف دس فیصد ہی  ہائیڈروجن اور ہیلیئم ہے  ،دونوں کی باقی مانندہ  کمیت میں  بہت زیادہ  آکسیجن ، کاربن اور نائٹروجن ؛ منجمد پانی ، امونیا اور کاربن ڈائی آکسائڈ کی صورت میں موجود ہے ۔ اگرچہ یہ دونوں دس سے بیس فیصد مشتری اور زحل سے کم ضخیم ہیں اس کے باوجود وہ زمین کے مقابلے میں دیوہیکل سیارے ہیں  اسی وجہ سے وہ برفیلی دیو کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔ پلوٹو بھی کافی حد تک یورینس اور نیپچون جیسا  ہی ہے بس  فرق صرف اتنا ہے کہ وہ بہت ہی چھوٹا ہے ۔

 

سورج سے کافی نزدیک ارضیاتی سیاروں کا علاقہ ہے  جہاں زمین (نیز  خاک ) اپنے حجم اور کمیت کی بدولت  عطارد ، زہرہ اور مریخ پر حکمرانی کر رہی ہے ۔ یہاں پر ہائیڈروجن-  کل کمیت کا صرف 0.1فیصد- یعنی نہ ہونے کے برابر ہے    جب کہ ہیلیئم تو مجازی طور پر ہے ہی نہیں ۔ ارضیاتی سیاروں پر زیادہ تر آکسیجن ، لوہا اور سلیکان  موجود ہے ، عطارد پر اگرچہ لوہے کا غلبہ ہے ۔ زیادہ تر لوہا سیاروں کے قلب میں موجود ہے ۔ سیاروں کی تشکیل کے دور میں لوہا (اور چند دوسری دھاتیں  جیسا کہ نکل  جو چٹانوں کا حصّہ نہیں بن سکتے تھے ) بڑے قطروں کی صورت میں سیارے کے قلب میں ٹپک گئے تھے ۔ ان کے برخلاف پانی کچھ تو چٹانوں میں پھنس گیا تھا جبکہ زیادہ تر غرق ہونے کے بجائے سطح پر ہی موجود رہا تھا ۔ اگر درجہ حرارت اور ماحولیاتی دباؤ درست ہو تو ارضیاتی سیاروں پر مائع پانی کے سمندر موجود ہوں گے۔

 

ان مختلف نظر آنے والے سیاروں کے گروہ کو مد نظر رکھتے ہوئے سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب ایک ہی ذخیرے سے وجود میں آئے ہیں ۔ جدید کانٹ – لاپلاس (Kant-Laplace) کا نمونہ ہمیں یہ بات سکھاتا ہے کہ سیارے ستارے کے پیدا ہونے کے بعد بچ جانے والے مادّے سے بنتے ہیں  نتیجتاً ان  میں بھاری اور ہلکے عناصر اسی مقدار میں موجود ہونے چاہئیں۔ ہبل خلائی دوربین  اور زیریں سرخ  اشعاع والی اسپٹزر  خلائی دوربین سے حاصل ہونے والی تصاویر اس بات کی جانب اشارہ کر رہی ہیں کہ سیاروں کی تشکیل کرنے والی قرص صرف اپنے ستارے کی بہ  نسبت ایک فیصد ہی زیادہ ضخیم ہے  اور ہائیڈروجن اور ہیلیئم سے بھاری تمام عناصر  کی  کمیت اس قرص کی صرف دو فیصد سے بھی کم ہے ۔ لہٰذا چھوٹے سیاروں میں ہائیڈروجن اور ہیلیئم کیوں نہیں ہوتی ؟ ان کی کمیت کی وجہ سے ۔ ان دونوں ہلکی گیسوں کو  پکڑے رہنے کے لئے بہت بڑے سیاروی بیج کی ضرورت ہوتی ہے۔ چھوٹے سیارے جیسا کہ زمین اور پلوٹو  ان کو پکڑ کر نہیں رکھ سکتے اور درمیانی کمیت کے برفیلے دیو قرص سے اتنی دور  پیدا ہوتے ہیں کہ انہیں اپنی نشوونما میں کافی وقت لگتا ہے۔ جب  تک جب وہ اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ ہائیڈروجن اور ہیلیئم کو پکڑ  میں رکھ سکیں اس وقت تک کافی دیر ہو چکی ہوتی ہے اور ہائیڈروجن اور ہیلیئم منتشر ہو چکی ہوتی ہیں ۔

 

اب ہم اپنے سیاروں سے حاصل کردہ معلومات کو  بنیاد  بنا کر  دوسرے ستاروں کے گرد چکر لگانے والے دریافت شدہ سیاروں پراس کا  استعمال کر سکتے ہیں ۔ان سیاروں کے درمیان  ہم مشتری اور زحل کو دیکھ چکے ہیں، چھوٹے اور بڑے  قلب والے سیاروں کو بھی دیکھ لیا ہے ، جبکہ ہم نیپچون کو بھی جان چکے ہیں ۔ اور ہم نے سیاروں کی دنیا میں جتنی تنوع دیکھی ہے اس کا ہم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے تھے ۔ جس طرح سے ہم اپنی دریافت کرنے والی ٹیکنالوجی کو ترقی دے رہے ہیں  اور چھوٹے سیاروں کا مطالعہ اور مشاہدہ کر رہے ہیں ویسے ہمارے سامنے اور مزید حیرت کدے انتظار میں پلکیں بجھائے بیٹھے  ہیں ۔

 

کائنات میں موجود اجسام اور ساختوں کے درجات میں سیارے اس سلسلے میں نچلی سطح پر پائے جاتے ہیں جس کی شروعات کہکشاؤں کے جھرمٹ سے ہوتی ہوئی کہکشاؤں اور ستاروں کے درمیان چلتی ہے ۔ یہ تمام ساختیں  قوّت ثقل کی کھینچ کے زیر اثر اکٹھی اور ارتقاء پذیر  ہوتی ہیں اور ان کا وزن ہی ان کو آپس میں جوڑے رکھتا ہے ۔ ماسوائے سیاروں کے ان تمام ساختوں  میں ہائیڈروجن اور ہیلیئم کا غلبہ ہے۔ لہٰذا سیاروں نے اس یکسانیت کو توڑتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ وہ قوّت ثقل کے زیر اثر بننے والی دوسری تمام چیزوں سے کچھ بڑھ کر ہیں : وہ ان تمام عناصر سے پر ہیں  جس کی بنیادی کیمیا کو ضرورت ہوتی ہے ۔ ایک ایسے سیارے کا تصوّر کریں جو زمین سے تو  بڑا اور ضخیم ہو تاہم یورینس سے چھوٹا ہو ۔ کیا ایسے کسی سیارے پر گہرے سمندر اس کو پانی کا جہاں بنا رہے ہوں گے یا پھر وہ ایک خشک سیارہ ہوگا جس کے جسیم آتش فشاں اپنے  دھوئیں کو اس کی مہین فضاء میں اڑا رہے ہوں گے ؟ اسی چیز کی ہم تلاش کریں گے ۔ سب سے پہلے تو ہمیں خود انہیں  ڈھونڈنا ہے ۔

باب سوم - کوپرنیکن انقلاب کی تکمیل

باب سوم

 

کوپرنیکن انقلاب کی تکمیل

 

١٥٤٣ء میں نکولس کوپرنیکس  (Nicolaus Copernicus)نے کچھ ایسی چیزوں کی بنیاد ڈالی جس نے سائنس ، ٹیکنالوجی اور انسانی سماج پر گہرے اثرات ڈالے۔ اس کی بصیرت نے کائنات کی بناوٹ کو انتہائی سادہ کر دیا تھا  جس میں نظام ہائے سیارگان میں  زمین کے بجائے سورج  کو مرکزی حیثیت حاصل تھی ۔ اس کی یہی  بصیرت آنے والے سائنس دانوں کی دو نسلوں(خاص طور پر گلیلیو اور نیوٹن ) کے لئے مشعل راہ بننی تھی اور اسی نے آگے چل کر جدید طبیعیات کی بنیاد ڈالنی تھی ۔ کوپرنیکن انقلاب سیدھا اس سوال کے قلب میں جا کر اترتا تھا جس میں کائنات میں  بنی نوع انسان کی حیثیت  کے بارے  سوال کیا  گیا تھا ۔کافی سارے  مفکرین  خاص طور پر مشہور ڈچ طبیعیات دان  کرسچن ہائیگنز (١٦٢٩ء – ١٦٩٥ء ) [Christiaan Huygens]نے کوپرنیکن کے زمین کے بطور ایک سیارے کے  تصوّر  سے آگے چھلانگ لگاتے ہوئے دوسرے سیاروں پر زندگی کے امکانات  کا خدشہ ظاہر کیا ۔١٦٨٦ء میں برنارڈ ڈی فونٹنیلی (Bernard de Fontenelle)نے ماورائے ارض حیات کے خیال  کو کثیر جہانوں کی بحث میں کافی مقبول بنا دیا تھا۔  یہ  تمام کام تین صدیوں بعد کہانیوں اور فلموں کی شکل میں جیسا کہ اسٹار وارز اور اسٹار ٹریک میں جا کر منتج ہوا ۔

 

امیدوں کے برخلاف دوسرے سیاروں کی موجودگی کے ان خیالات نے  ساڑھے چار صدیوں تک حقیقت کا روپ نہیں دھارا ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ قریبی ستارے بھی ہم سے بہت ، بہت دور واقع ہیں  ؛ ان ستاروں کے گرد چکر کاٹتے  چھوٹے سیاروں کی تمیز کرنے کے لئے چار صدیوں پر محیط  ٹیکنالوجی  میں ترقی و جدت درکار تھی ۔ آخر کار اب ہم  کوپرنیکن کے انقلاب کو مکمل کرنے کے دوراہے پر پہنچ ہی گئے ہیں  جس میں ہم زمین جیسے سیاروں اور دوسرے نظام ہائے شمسی کی دریافت  کر سکیں۔

        

ماورائے شمس سیاروں کو ڈھونڈنے میں سب سے بڑا مسئلہ ان کا زبردست فاصلہ  اور اس حقیقت کا سامنا ہے کہ وہ اپنے سے کئی گنا زیادہ بڑے  اور روشن ستاروں کے گرد چکر لگا رہے ہیں ۔ کم از کم بصری روشنی  میں کوئی بھی ستارہ  اپنے سیارے سے ایک ارب سے لے کر دس ارب گنا  زیادہ تک روشن ہو سکتا ہے۔ یہ تناسب بہت ہی زیادہ بڑا ہے ۔ فاصلے کی وجہ سے کیونکہ شاہد بہت دور ہوتا ہے لہٰذا دوربین سے دیکھنے پر  ستارہ اور سیارہ  آپس میں بہت زیادہ نزدیک  نظر آتے ہیں اس لئے مصیبت اور بڑھ جاتی ہے ۔ ستارے اور سیارے کی قربت  اور دونوں کا بلند تقابلی فرق کا  تناسب اگر علیحدہ علیحدہ لیں  تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے ۔ دونوں ایک دوسرے کے  ساتھ مل کر  ناقابل شناخت ہوتے ہیں ۔

 

پچھلے بیس برسوں میں استعمال ہونے والی دوربینیں  بشمول ہبل خلائی دوربین میں اس بات کی صلاحیت و قابلیت موجود ہے کہ وہ قریبی روشن ستارے  سے دس ارب گنا دھندلے اجسام کی روشنی کو جمع کر سکتی ہیں ۔ یہ بعینہ ایسے ہی کام کرتا ہے جیسے فوٹوگرافر  شام کے دھندلکے میں کیمرے کے شٹر کو دیر تک اٹھا کر رکھتا ہے ۔ زیادہ دیر تک شٹر کھلا رکھنے سے  کیمرے کے اندر موجود سراغ رساں  کو روشنی کو زیادہ  جمع کرنے کا موقع ملتا ہے  جس کے نتیجے میں دھندلے اجسام کی تصویر حاصل ہو جاتی ہے ۔ ہبل ڈیپ فیلڈ سے حاصل کردہ شہرہ آفاق  تصویر کو حاصل کرنے میں تینتیس گھنٹے لگے تھے جس کے دوران اس نے بصری روشنی  کو جمع کرکے ہزار ہا دور دراز کی کہکشاؤں کی تصویر حاصل کرکے ان کو ہم پر منکشف کیا تھا۔

 

آج جانے والے کئی  ماورائے شمس سیاروں کا سراغ بھی اسی طرح کے لمبے عرصے تک لی جانے والی تصاویر کے نتیجے میں لگا تھا بس اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی تصویر کے بیچ میں ستارہ بہت ہی روشن دھبہ لگ جاتا ہے ۔ فوٹوگرافر کی زبان میں ستارہ زیادہ ایکسپوز ہو جاتا ہے  اور اس کی روشنی پوری تصویر پر پھیل جاتی ہے ۔ حقیقت میں یہ سراغ رساں آلے کو نقصان بھی پہنچا سکتی ہے ۔ نجمی منتشر روشنی میں کہیں سیارے کی مدھم سی روشنی بھی کھوئی ہوئی ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کسی عام ستارے کے گرد چکر لگاتے ہوئے سیارے کو ڈھونڈھنا اتنا بڑا چیلنج ہوتا  ہے ۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لئے کچھ حل بھی پیش کئے گئے ہیں ۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ستارے اور اس کے سیارے کا مشاہدہ الگ قسم کی روشنی کے طیف میں کیا جائے ۔ ستارے کی سیارے کی بصری روشنی کے مقابلے  میں نسبت ایک ارب کے مقابلے میں ایک یا دس ارب کے مقابلے میں ایک ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ روشنی  مختلف رنگوں اور مختلف طول امواج  کا مجموعہ ہوتی ہے ۔ ان موجوں کو جب طول موج کے مطابق پھیلایا جاتا ہے  (مثال کے طور پر جیسا کہ منشور ( پرزم) میں کیا جاتا ہے ) تو روشنی ہمیں طیف پر مشتمل نظر آتی ہے ، بعینہ جیسے پانی کی بوند سورج کی روشنی کو قوس و قزح میں توڑ دیتی ہے ۔ نتیجتاً پرزم کا استعمال کرتے ہوئے ستارے اور سیارے سے آنے والی طول موج کا استعمال کیا جا سکتا ہے جس میں ستارے اور سیارے کی روشنی میں اتنا زیادہ نسبتی فرق نہیں ہوگا اور یہ بات ہمارے لئے سیارے کا سراغ لگانے میں  مددگار ثابت ہو سکتی ہے ۔

    

کچھ موقعوں پر یہ کام کر جاتی ہے ۔ بہت زیادہ گرم سیارے جیسا کہ پگاسی ٥١ ب ہے ، اس ضمن میں جب اسے زیریں سرخ اشعاع  میں دیکھا جاتا ہے تو  ستارے اور سیارے کی نسبت ایک ہزار گنا تک بہتر ہو جاتی ہے(اور فرق صرف دس لاکھ گنا تک رہ جاتا ہے)۔ زیریں سرخ اشعاع طویل اور طویل تر طول موج ہوتی ہیں  اس کے بعد ہماری آنکھیں سرخ روشنی دیکھتی  ہیں ، جبکہ ہماری جلد اس کو حرارت کی صورت میں محسوس کرتی ہے۔ ایک گرم سیارہ ، زیریں سرخ اشعاع میں اپنے ستارے کے سامنے ہونے کے باوجود ہمیں اس بات کا بہتر موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اس کا مشاہدہ کر سکیں کیونکہ  وہ اپنی گرمی سے بھی چمکتا ہے ۔ تپتے ہوئے مشتری(Hot Jupiter) کا درجہ حرارت پندرہ سو سے دو ہزار کیلون ہو سکتا ہے  جو زمین کے٢٨٧ کیلون کے  مقابلے میں کہیں زیادہ ہے  تاہم  اس  درجہ حرارت کا مقابلہ سورج کے درجہ حرارت  ٥٨٠٠ کیلون  سے کیا جا سکتا ہے۔ ان تمام باتوں سے قطع نظر 107 کی  نسبت اب بھی بہت زیادہ ہے ۔ حالیہ دنوں میں زیریں سرخ اشعاع میں کئی پہلے سے دریافت شدہ سیاروں کا مشاہدہ کرنے سے کچھ مخصوص  حالتوں میں کامیابی تو حاصل ہوئی ہے تاہم ان سے کسی قسم کی تصاویر حاصل نہیں ہو سکیں اور یہ طریقہ اب بھی نئے سیاروں کی دریافت کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا ۔

  

دوسری وہ کونسی ستارے اور سیاروں کے درمیان موجود نسبتیں ہیں جن کا ہم استعمال کر سکتے ہیں ؟ پہلی چیز تو کمیت اور حجم ہے ، دونوں کی ستارے اور سیارے کی نسبت روشنی کی نسبت سے کافی سود مند ہے ۔ مثال کے طور پر سورج ، مشتری سے ١٠٥٠ گنا زیادہ ضخیم ہے ، ان دونوں کا ستارے اور سیارے کے حجم کی نسبت 103 ہے ۔ یہ 107 کی گنا تھوڑی بہتر ہے ۔ حجم کے ساتھ چیزیں اور بہتر ہو جاتی ہیں ۔ سورج ، مشتری کے حجم سے صرف دس گنا زیادہ ہے (اور زمین کے حجم سے صرف ١٠٣ گنا زیادہ  ہے)! یہ نظری طور پر تو سننے میں کافی اچھا لگتا ہے ، تاہم  اس کا  عملی دنیا میں کس طرح سے استعمال کیا جا سکتا ہے؟

 

 چلیں ستارے اور سیارے  کی کمیت کی نسبت کو دیکھتے ہیں، کیونکہ یہ اب تک استعمال ہونے والا سب سے  مقبول و کامیاب  طریقہ ہے ۔ کسی بھی جسم کی کمیت اس کی قوّت ثقل کی قوّت کا تعین کرتی ہے  ۔ جو جسم جتنا زیادہ ضخیم ہوگا اس کی اتنی زیادہ مضبوط قوّت (یا کھینچنے کی طاقت )ہوگی ۔ لہٰذا یہی  وجہ ہے کہ مشتری سورج کے گرد ابد تک چکر لگاتار ہے گا ۔ لیکن ذرا رکیے ! کیا مشتری سورج کے گرد کسی گمنام غلام کی طرح چکر کاٹ رہا ہے  یا سورج اور مشتری ملکی وے کہکشاں میں ڈگمگاتے  اپنے مقررہ راستے پر رواں دواں ہیں؟

 

وہ سنگ میں رقص کرتے ہوئے اپنے راستے پر رواں دواں ہیں ! ہر طاقت کے لئے ایک برابر کی مخالف طاقت موجود ہوتی ہے ، لہٰذا سورج اور مشتری ایک دوسرے کو  مرکز کمیت(Center of Mass) کے گرد سہارا دیئے ہوئے ہیں ۔ مرکز کمیت ایک ایسا مجازی نقطہ ہے  جو اس خط پر موجود ہے جو ان دونوں کو ایک دوسرے سے باندھ کر رکھتا ہے ۔ وہ دونوں اپنے مرکز کمیت کے گرد ایک محو رقص جوڑے کی طرح چکر لگاتے ہیں۔ سورج ہزار ہا گنا زیادہ ضخیم ہونے کے باوجود ، اپنا مرکز کمیت اپنے آپ سے کافی قریب تو  رکھتا ہے ، اس کے باوجود وہ مرکزی کمیت سورج کے اندر موجود نہیں ہے ۔سورج اور مشتری کا مرکز کمیت سورج کے نصف قطر کا لگ بھگ ٧ فیصد  ہے جو سورج کی سطح سے اوپر واقع ہے ۔  دور دراز کے ستارے پر موجود ایک لا پرواہ شاہد کے لئے یہ بات ناقابل شناخت ہو سکتی ہے  کہ مشتری صرف سورج کے گرد چکر لگا رہا ہے ۔لیکن ایک ماہر اور  تیز نظر فلکیات دان اس مقررہ راستے پر ان کو  اس وقت ڈگمگاتا ہوا  دیکھ سکتا ہے جب سورج  مشتری کے ساتھ مرکز کمیت کے گرد چکر لگا رہا ہو ۔ اس طریقے کی خوبصورتی یہ ہے کہ فلکیات دان سورج کی ڈگمگاہٹ کا اس وقت بھی مشاہدہ کر سکتا ہے جب وہ مشتری کو کسی بھی طرح سے دیکھنے کے قابل بھی نہ ہو! کسی بھی سیارے کی دریافت کا  یہ ایک بلا واسطہ طریقہ ہے ۔

 

کئی عملی طریقے موجود ہیں جس کے نتیجے میں ستارے اور سیارے کی کمیت کی نسبت کی مدد سے ماورائے شمس سیاروں کو دریافت کیا جا سکتا ہے ۔ ان طریقوں میں سے تین ایسے ہیں جو مرکزی یا مورث ستارے کی ڈگمگاہٹ کا سراغ لگاتے ہیں جبکہ ایک کمیت  کی نسبت  کا فائدہ اٹھاتا ہے ۔کسی  ستارے کی ڈگمگاہٹ  کا سراغ دوسرے ستاروں کی نسبت سے اس  کے محل و وقوع کا  احتیاط کے ساتھ براہ راست مشاہدہ کرکے لگایا جا سکتا ہے ۔ اس مشاہدہ کے لئے درکار وقت لازمی طور پر  فرضی سیارے کے مدار میں چکر لگانے کے وقت سے زیادہ ہونا چاہئے ۔ نجوم پیمائی(astrometry) کا یہ طریقہ  ہماری اس طرح  مدد کرتا ہے کہ بجائے ہم  کائنات کو بڑے پیمانے پر ناپیں  ہم فرضی سیارے کے اپنے مورث ستارے کے برتاؤ  پر پڑنے والے اثر کو الگ کر لیں۔ اس طریقے کا استعمال کافی عرصے سے کیا جا رہا ہے  کم از کم بیسویں صدی کی شروعات سے تو اس کا استعمال ہور ہا ہے  لیکن اب اس طریقے کے استعمال کی مانگ کافی بڑھ گئی ہے ۔ حال ہی میں ناسا کی  جیٹ پروپلشن لیبارٹری نے ایک طریقہ ایجاد کیا ہے  ۔ یہ ایک ایسا طریقہ ہے جس میں نجوم پیمائی کرتے ہوئے انتہائی درستگی کے ساتھ سیاروں کی کھوج کی جا سکتی  ہے لہٰذا یہ  طریقہ مستقبل میں کافی اچھے نتائج دے سکتا ہے ۔

      

ایک اور ڈگمگاہٹ والا طریقہ موجود ہے جس کی مدد سے پہلے ماورائے شمس سیارے کو تلاش کیا  گیا تھا ۔ یہ ستارے سے آتی ہوئی روشنی کے طیف پر  ڈوپلر اثر پر انحصار کرتا ہے ۔ ڈوپلر اثر جس کو ١٨٤٢ء  میں ایک آسٹریا  کے طبیعیات دان کرسچین ڈوپلر(Christian Doppler) نے بیان کیا تھا  اور اس اثر  کو یقینی طور پر آپ نے بھی اکثر و بیشتر محسوس کیا ہوگا ۔ یہ اثر  اس وقت واقع ہوتا ہے جب کوئی جسم  بیک وقت حرکت کرتے ہوئے آواز کی لہریں خارج کرے ۔ آواز کی موجیں ہوا میں سے گزر کر ہمارے کانوں سے ٹکراتی ہیں جس سے ہمیں آواز سنائی دیتی ہے ۔ لہٰذا گزرتی ہوئی گاڑی (یا ایمبولینس کا سائرن )  کی آواز اپنی  اوج کو ڈوپلر کے اثر کی وجہ سے تبدیل کرتی ہے یعنی کہ سائرن کی آواز ہمیں اس وقت زیادہ تیز  سنائی دیتی ہے جب ایمبولینس ہماری قریب آتی ہے اور اس کے دور جانے کے ساتھ ہی اس کی آواز بھی آہستہ ہوتی جاتی ہے ۔ مزید براں حرکت کی نسبت   ہی اہم چیز ہے۔ لہٰذا اگر رکی ہوئی ایمبولینس کا سائرن بج رہا ہے  اور آپ اس کے پاس سے گزریں گے تو بھی آپ کو وہی ڈوپلر اثر ملے گا ۔ ڈوپلر کے اثر کو عملی طور پر اجسام کی رفتار کو ناپنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے  ، مثال کے طور پر جب موٹر وے کی پولیس تیز رفتاری کرتے ہوئے  کسی بھی ڈرائیور کو اپنے ریڈار  کی مدد سے پکڑ لیتی ہے  یا جب  ماہر موسمیات طوفان کا سراغ لگانے کے لئے ہوا کی رفتار میں ہونے والے  بدلاؤ کو ناپتے ہیں ۔

 

روشنی برقی مقناطیسی موجوں پر بھی مشتمل ہوتی ہے  جو آواز کی موجوں سے چھوٹی ہوتی ہیں ۔ لہٰذا روشنی پر بھی ڈوپلر کا اثر ایسے ہی پڑتا ہے جیسا کہ آواز  پر ،  اس طرح سے ہم  ستاروں ، کہکشاؤں اور دوسری چیزوں کی اضافی رفتار کو ناپ سکتے ہیں۔ اس بات کی فلکیات کی دنیا میں بہت زیادہ اہمیت ہے  جہاں ہمارے پاس ان دور دراز کے اجسام کی حرکت  کو ناپنے کا کوئی اور دوسرا طریقہ نہیں ہے ۔

  

ڈوپلر اثر کو جاننے کے لئے سائنس دان دوربین ، پرزم اور ایک کیمرے کا استعمال کرتے ہیں تاکہ ستارے سے آتی ہوئی روشنی کے طیف کو درج کر سکیں۔ پھر وہ طیف میں نشان کو دیکھتے ہیں ۔ اگر جس ستارے کا آپ مشاہدہ کر رہے ہیں اس سے آتی ہوئی روشنی کے طیف لمبی طول موج (سرخ روشنی )کی طرف ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ستارے آپ سے دور جا رہا ہے ۔ جتنی تیز رفتاری سے ستارہ آپ سے دور جا رہا ہوگا اتنا ہی اس کا طیف سرخ روشنی کی جانب مائل ہوگا ۔ اگر ستارہ ہماری طرف آ رہا ہوگا  تو اس کا الٹ ہور ہا ہوگا ۔ ستاروں سے آنے والی زیادہ تر بصری روشنی بعینہ  تاباں روشنی کے بلب جیسی ہی ہوتی ہے  اور جب وہ طیف میں تقسیم ہوتی ہے تو قوس و قزح کی ہی طرح دکھائی دیتی ہے ۔لیکن جب سائنس دان اس کوپرزم کے ساتھ  دیکھتے ہیں تو اس میں ان کو کئی اور  نشان  بھی نظر آتے ہیں۔ زیادہ تر ستاروں کے طیف میں یہ نشان تو تنگ تاریک  خطوط کی شکل میں دکھائی دیتے ہیں جو اس جانب اشارہ ہوتا ہے کہ مخصوص طول موج اس میں سے غائب ہے ۔ یہ خطوط ،  طیفی جذبی لکیریں ستارے کی سطح کے قریب موجود   جوہروں اور برق پاروں کی وجہ سے پڑتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب روشنی جوہروں سے بنی گیس میں سے گزرتی ہے تو  جوہر اس کی کچھ روشنی کو جذب کر لیتے ہیں ؛ یہ مظہر ہم اپنے روز مرہ زندگی میں بادلوں کے ساتھ دیکھتے رہتے ہیں ۔ ہرچند کہ  ہم اپنی چشم عریاں  سے اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتے کہ روشنی مخصوص طول موج یا رنگوں  میں جذب ہوتی ہے۔ یہ جذبی لکیریں اور ان کا طول موج؛  جوہر(برق پاروں اور سالموں ) کے گرد چکر لگانے والے الیکٹران کی بدولت ایسا برتاؤ کرتا ہے۔ الیکٹران کی کئی مخصوص توانائی کی حالتیں اور مدار ہوتے  ہیں اور یہی وہ جگہ ہوتی ہے جہاں روشنی غائب ہوتی ہے ۔ کیونکہ توانائی کی یہ حالتیں بہت ہی مخصوص ہوتی ہیں  اسی لئے جذبی لکیریں اور  ان کا طول موج بھی بہت ہی مخصوص ہوتا ہے ۔ اسی لئے ہر معلوم عنصر ، ہلکے ترین ہائیڈروجن سے لے کر بھاری ترین معلوم دھات تک ، ان کے جوہر ایک مخصوص  اور ناقابل تردید  انفرادی خصوصیت جو  ہزار ہا جذبی لکیروں کی صورت میں ہوتی ہے  رکھتے ہیں ۔

 

یہی طیف  کی جذبی لکیریں وہ نشان ہیں جن کے استعمال سے ہم ستاروں میں ڈوپلر کا اثر ناپتے ہیں ۔ ایسا کرتے ہوئے ہم ستاروں کی رفتار میں معمولی تبدیلی میں بھی امتیاز کر سکتے ہیں۔ اس میں ستاروں کی ڈگمگاہٹ بھی شامل ہے۔ مزید براں ڈوپلر کے  اثر کو  اس طرح سے ناپنے میں ہم ستارے کی اصل رفتار کا بھی اندازہ کر سکتے ہیں جس کے ذریعہ  وہ اپنے مدار میں رہ کر مرکز کمیت کے گرد چکر کاٹ رہا  ہوتا ہے۔  یہ مدار کی رفتار ، مدار کے وقت کے ساتھ مل کر  - جو ستارے اور سیارے دونوں کی ایک ہی ہوتی ہے کیونکہ  وہ اپنے مرکز کمیت کے گرد چکر لگا رہے ہوتے ہیں  - ہمیں  دونوں کی  کمیت معلوم کرنے کے قابل کرتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کسی بھی ستارے کی کمیت کس طرح سے اس کے طیف کو دیکھ کر کی جا سکتی ہے ؛ یہ جذبی لکیریں معلومات کا بھنڈار ہوتی ہیں ۔ لہٰذا ہم سیارے کی کمیت معلوم کر سکتے ہیں ۔ بہرحال اس میں ایک قباحت ہے : ہم اس زاویہ کو نہیں ناپ سکتے جس زاویے پر وہ مدار ہماری طرف جھکا ہوا ہے  کیونکہ ڈوپلر کے اثر سے ہم صرف اضافی حرکت ہی ناپ سکتے ہیں  نتیجتاً کمیت کے اندازے کے بارے میں کچھ بے یقینی اپنی جگہ موجود رہتی ہے ۔ اس بے یقینی کا خاتمہ کرنے کے لئے  ہمیں سیاروں کی دریافت اور ان کا مطالعہ کرنے کے لئے  دوسرے طریقوں کو استعمال کرنا پڑتا ہے مثال کے طور پر عبوری طریقہ (اس کے بارے میں ہم مزید تفصیلات آگے چل کر دوسرے باب میں فراہم کریں گے۔)    

 

ڈگمگاہٹ کے سراغ لگانے کا تیسرا عملی طریقہ وقت  کا دورانیہ ہے ۔اگر کچھ مخصوص وقتی اشاروں اور وقت  کو ہم  انتہائی درستگی کے ساتھ ناپ لیں ، تو سیارے کی وجہ سے ستارے کی چال میں ہونے والی  ڈگمگاہٹ اشارے کے وقت  کے دوران مخصوص مدت  میں  ظاہر ہوگی ۔ ایسے مخصوص مدت کے  گردشی اشارے کیا  ہو سکتے ہیں ؟ یہ اشارے   نابض] (پلزار )[Pulsar –ایک نیوٹران ستارہ  جو انتہائی تیزی کے ساتھ گھومتا ہوا ریڈیائی  لہریں چھوڑ رہا ہوتا ہے  - سے بھی نکل سکتے ہیں یا دو ستاروں سے بھی آ سکتے ہیں جو ایک دوسرے کے گرد مدار میں بہت ہی نزدیک چکر لگا تے ہوئے ایک دوسرے کو وقفے وقفے سے گرہن لگا رہے ہوتے ہیں (یہ گرہن کا وقفہ چند گھنٹوں یا دنوں کا ہو سکتا ہے )۔ یہی وجہ ہے کہ ١٩٩٢ء میں ریڈیائی فلکیات دانوں اے وولز چن(A. Wolszczan) اور ڈی فریل(D. Frail)    نے  PSR 1257112 نابض کے گرد چکر لگاتے ہوئے سیاروں کو دریافت کیا تھا ۔  یہ ایک غیر معمولی دریافت تھی مگر اس کو وہ توجہ نہیں ملی جو ١٩٩٥ء میں پگاسی ٥١ ب  کو ملی تھی اس کی دو وجوہات تھیں ۔ پہلی وجہ یہ تھی کہ نابض سیارے ، دونوں طرح سے بطور سیارہ اور نظام ہائے سیارگان اجنبی تھے ۔ دوسرے نابض سیارے بہت ہی کمیاب تھے ۔ ہم صرف چند ہی ایسے نظاموں کو جانتے ہیں ، ان کا مطالعہ کرنے کے لئے کچھ زیادہ مواد نہیں تھا اور وہ اپنے ماخذ کو سمجھنے میں ہماری بہت ہی تھوڑی سی مدد کر سکتے تھے ۔

 

میعادی ٹیکنالوجی کو بھی اس وقت بھی استعمال کیا جا سکتا ہے جب ایک سیارہ اپنے قریب میں موجود دوسرے سیارے کی وجہ سے کھینچا اور دھکیلا جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر اگر کسی نظام میں کوئی تپتا ہوا مشتری ہوتا اور ہم اس تپتے ہوئے مشتری پر اس وقت  مستقل نظر رکھے ہوئے ہوتے  جب وہ اپنے مورث ستارے کے گرد مدار میں قاعدے سے چکر لگا رہا ہوتا (جیسا کہ گرہن یا عبوری مرحلے  کے مواقع کو نشان زدہ کر لینا ؛ مزید تفصیلات کے لئے اگلا باب ملاحظہ کیجئے )، تو ہم اس کے  باضابطہ مدار میں کچھ تبدیلی محسوس کرتے جو دکھائی نہ دینے والے سیارے کی وجہ سے ہوتی ۔بعض اوقات  اس قسم کی وقتی تبدیلیوں سے دوسرے سیارے کا سراغ لگانا ستارے کی ڈگمگاہٹ کو دیکھنے کی نسبت زیادہ آسان ہوتا ہے۔ سیاروں کی کھوج کا یہ طریقہ کیپلر سیارے کی کھوج کے منصوبے  کے شروع میں انتہائی کامیاب رہا ہے ۔ مثال کے طور پرکیپلر ١١ کے نظام میں  پانچ گزرتے ہوئے سیاروں کی تصدیق کی جا سکتی تھی  اور ان کی کمیت صرف عبوری وقت کی تبدیلیوں سے ہی حاصل کی جا سکتی تھی ۔

 

سیاروں کی کھوج کا ایک اور ایسا طریقہ موجود ہے جو ستارے اور سیارے کی کمیت کی نسبت کا فائدہ اٹھا تا ہے  - ثقلی عدسے کا اثر، ایک ایسا اثر   جس کی پیش گوئی  آئن سٹائن نے کی تھی اور جس کو اس نے  عمومی نظریہ اضافیت کی تصدیق کے لئے بھی استعمال کیا تھا ۔ نظریاتی کام کے پہل کار ، پرنسٹن  کے آنجہانی فلکی طبیعیات دان بودن پیکزنسکی (Bohdan Paczynski)نے آئن سٹائن کی پیش گوئی کو عملی طور پر کرکے دکھایا  یوں  کئی بین الاقوامی منصوبے،  ستاروں کے ثقلی عدسے کے اثر  کی نگرانی کے لئے شروع ہوئے ۔ اس اثر کو دیکھنے  کے لئے روشنی کے منبع کی ضرورت  ہوتی ہے، جو عام طور سے دوسرا ستارہ مہیا کرتا ہے   جو مذکورہ ستارے کے پیچھے موجود ہوتا ہے ۔ جب ہم اس پیچھے والے  ستارے کی روشنی کی  طرف دیکھتے ہیں تو اس سے آتی ہوئی روشنی  آگے والے ستارے کی ثقلی قوّت کی وجہ سے خم کھاتی ہے ۔ اگر آگے والے ستارے کے ساتھ کوئی سیارہ بھی موجود ہے  تو وہ عدسی  اثر کو قابل ذکر طور پر تبدیل کر دے گا۔ ٢٠٠٥ء میں جے پی بولیو(J. P. Beaulieu) اور ان کے رفقائے کاروں نے ایک سیارہ  دریافت کیا جو زمین کی کمیت کے مقابلے میں پانچ سے چھ گنا زیادہ کا تھا  جس کو ہم "فوق ارض"(Super Earth)  کہتے ہیں ۔ اس سیارے کا نام انتہائی مشکل  OGLE-2005-BLG-390Lb تھا ، اور یہ ایک چھوٹے سے ستارے کے گرد  کم از کم زمین کے سورج کے فاصلے کے مقابلے میں تین سے چار گنا زیادہ دور چکر کاٹ رہا تھا ۔ صرف یہی بات ہم OGLE-2005-BLG-390Lb سیارے کا بارے میں اب تک جانے ہیں کیونکہ ثقلی عدسے کے اثر کے طریقے کے استعمال سے ہمیں صرف ایک ہی  مرتبہ موقع ملتا ہے کہ اس میں جھانک کر   فوری تصویر حاصل کر سکیں۔ اپنی نوعیت کی بدولت مشاہدے کو دہرایا نہیں جا سکتا۔

 

بہرحال ثقلی عدسے کے طریقے کی اہمیت ماورائے شمس سیاروں کی دریافت میں شماریات کی شکل میں موجود ہے ۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس طریقے میں  فوق مشتری اور فوق ارض  دونوں  کے دریافت ہونے کا امکان برابر ہوتا ہے ۔ اگرچہ ابھی تک اس طریقے کا استعمال کرتے ہوئے چند  ہی سیارے دریافت ہوئے ہیں ، مگر شماریات کی زبان میں دیکھا جائے تو یہ لہر واضح طور پر نظر آتی ہے کہ چھوٹے سیارے بھی اتنی ہی تعداد میں موجود ہیں جتنی تعداد میں بڑے سیارے  اور ممکن  ہے کہ وہ بڑے سیاروں کی نسبت زیادہ تعداد میں موجود ہوں ۔

 

ماورائے شمس سیاروں کی کھوج  کی پہلی دہائی میں دریافت کے کئی طریقوں میں بالیدگی نظر آئی ہے۔ ان میں سے کچھ طریقے  ایک دوسرے کی مدد کرتے اور ہمیں دریافت شدہ سیاروں کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں ۔ یہ ہماری اس مہم کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل اس لئے ہیں کہ ان کے ذریعہ ہم جان سکیں گے کہ کیا ہمارا نظام شمسی ، کرۂ ارض ، اور ارضی حیات  منفرد اور نایاب ہیں یا پھر یہ کائنات میں عام پائی جانے والی چیزیں ہیں ۔ ایک دفعہ ہمیں یہ بات معلوم ہو جائے تو ہم کوپرنیکن انقلاب کی تکمیل کر لیں گے ۔ان طریقوں کے آخری طریقے کا نام "عبوری طریقہ"(Transiting Method) ہے  جس میں ہم ستارے اور سیارے کے حجم کی نسبت کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ طریقہ  اب تک کا سب سے آسان طریقہ نظر آتا ہے ۔ بہرصورت ستارے اور سیارے کے حجم میں واضح فرق  کافی نمایاں ہوتا ہے  جو حجم کی نسبت  دس سے سو گنا تک ہو سکتا ہے۔ درحقیقت ہماری مہم  میں عبوری طریقہ ایک خاص کردار ادا کرتا ہے ۔ لیکن جیسا کہ اکثر ہوتا ہے اس طریقے  میں بھی ایک قباحت ہے ۔          

باب چہارم - عبور کا تعاقب

 یہ کوئی پانچ بج کر تیس منٹ ہوئے تھے اور میں تیزی کے ساتھ ایک خالی جگہ پہنچنے کی جلدی میں تھا ۔  مجھے چارلس ریور  جو کیمبرج ،میسا چوسٹس  میں واقع ہے   اس کے ساتھ موجود جگہ پر پہنچنا تھا ۔ ہارورڈ اسکوائر کے پل کو پار کرتے ہوئے میں بے چینی سے مشرقی افق پر نظریں گاڑھے ہوئے تھا  جہاں پر ابھرتا ہوا سورج آسمان کے ایک ٹکڑے پر بادلوں سے نبرد آزما تھا ۔ میری منزل  - ہارورڈ سائنس سینٹر کے پاس تھی  جو بالکل ہی ہارورڈ کے شمالی پچھواڑے میں واقع تھی،  ایک عجیب میلہ سا لگا ہوا تھا ۔ داخلے کے ساتھ ہی ، ہارورڈ کا مارچنگ بینڈ ایک غیر معروف دھن بار بار بجا رہا تھا  جبکہ سینکڑوں لوگ چھت پر پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ ہر کوئی یہاں پر وہ نظارہ کرنے کے لئے بیتاب تھا جو بنی نوع انسان نے پچھلے ١٢٢ برسوں سے نہیں دیکھا تھا ۔ وہ ٨ جون ٢٠٠٤ء کا دن تھا اور وینس سورج کو عبور کر رہا تھا ۔

 اس عبوری مرحلے جس میں زہرہ ایک کالی قرص کی شکل میں سورج کی عظیم درخشانی  قرص کے سامنے سے گزر رہا تھا  ، ان شاندار نظاروں میں سے ایک تھی  جس میں ہم نظام شمسی کے اندرونی حصّہ کو ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔ زہرہ  کا سورج کو عبور کرنے کا یہ واقعہ  شاندار لیکن انتہائی نایاب بھی ہے ۔یہ نسل خوش قسمت تھی : زہرہ کا یہ عبوری مرحلہ اس مرتبہ دو مرتبہ جوڑے کی صورت  میں ہونا تھا ۔ دوسرا عبوری مرحلہ اب ٦ جون ٢٠١٢ء کو ہونا تھا ۔

دور حاضر  میں زہرہ کے اس عبوری مرحلے کی اہمیت فلکیاتی محققین کے لئے کچھ زیادہ نہیں ہے ، لیکن اس جڑواں عبوری مرحلے کے مشاہدے کی سائنس کی دنیا میں ١٧٦٩ء اور اس سے پہلے کے دور میں کافی اہمیت تھی ۔ ولیم شیہان(William Sheehan) اور جان ویسٹ فال (John Westfall) کے مطابق سترویں صدی میں زہرہ کے عبوری مرحلے کا مقابلہ بیسویں صدی میں چاند پر قدم رکھنے سے کیا جا سکتا ہے ۔ سورج کے سامنے سے زہرہ کے گزرنے کے اس عبوری  مرحلے سے سائنس دانوں کو  زمین سے سورج کے درست فاصلے کو ناپنے کا ایک نایاب موقع ملتا  ہے اور یوں  وہ پورے نظام شمسی کا فاصلہ ناپنے کے قابل ہو سکتے ہیں ۔ اس بات کی اہمیت صرف سائنس کی دنیا میں ہی نہیں ہے ، برٹش ٹرانزٹ کمیٹی نے ایک رقعہ ١٧٦٧ء میں  بادشاہ جارج سوم کے نام لکھا  جس میں اس کی اہمیت کو  راستوں  کو سمجھنے کے لئے بیان کیا گیا تھا ۔ اس کی اہمیت اتنی تھی کہ بادشاہ نے اس مہم  کی تائید کی تھی ۔ ٢٥ مئی ١٧٦٨ء، کپتان جیمز کک(James Cook) کو اس کام کی ذمہ داری سونپی گئی  جس سے اس کے جنوبی بحرالکاہل کے شہرۂ آفاق سفر کا آغاز شروع ہوا ۔

اصل میں عبور کرنے کا مرحلہ ایک طرح سے سورج گرہن ہوتا ہے ۔ اس گرہن کو عطارد یا زہرہ لگاتا ہے ،بہرصورت  یہ واقعہ  اتنا ڈرامائی نہیں ہوتا جتنا کہ سورج گرہن چاند کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ سیاروی عبور سورج سے آتی ہوئی روشنی پر بہت معمولی انداز میں  اثر انداز ہوتے ہیں ، یہ سورج کی روشنی کے ایک فیصد کے بھی کچھ حصّے کو کم کر پاتے ہیں ، یہ اتنا کم ہوتا ہے کہ ہم اس کو زیادہ اہمیت ہی نہیں دیتے ، اس کے باوجود یہ ہمارے اور ستارے  کے درمیان  سے گزرتے ہوئے ایک کالا سا نقطہ بنا تے ہیں ۔ تاریخ میں عبور کی اصطلاح صرف عطارد اور زہرہ کے لئے استعمال کی جاتی تھی ، مگر دور حاضر میں دوسرے ستاروں کے گرد  سیاروں کی کھوج میں اس اصطلاح کا اطلاق کافی وسیع ہو گیا ہے ۔ جیسا کہ عطارد اور زہرہ  سیارے صرف ایک فیصد سے بھی کم سورج کی روشنی کو ہمارے پاس پہنچنے سے روک پاتے ہیں (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر 4.1 )۔

4.1 ایک تصوری عبوری سیاروی نظام کا خاکہ ۔ عبوری سیارہ اپنے مدار میں تین مختلف جگہوں پر نظر آ رہا ہے ۔ جب وہ عبور کر رہا ہوتا ہے ، تو سیارے کا تاریک حصّہ ہماری جانب ہوتا ہے ، لیکن ہم اس کے کرۂ فضائی میں نجمی روشنی کی مدد سے اس کے گزرتے وقت جھانک سکتے ہیں۔ جب سیارہ اس طرف ہوتا ہے (الٹی طرف )، تو اس کی رویت ہمیں نظر آتی ہے ، جس طرح سے ہم چاند کی رویت کرتے ہیں ۔ عبور کے آدھے حصّے کو مدار میں طے کرنے کے بعد سیارہ اپنے ستارے کے پیچھے سے گزرے گا جس کو ہم گرہن کے نام سے جانتے ہیں ۔

جیسے ہی وہ اپنے مورث ستارے کی قرص کے سامنے سے گزرتے ہیں ، سیارہ  اپنے ستارے کی روشنی کو مدھم کر دیتا ہے  روشنی میں یہ کمی سیارے کے عکس ڈالنے والے حصّے کے مقابلے میں سورج کے روشن  حصّے کی کسر کے برابر ہوتا ہے ۔ دائرے کا رقبہ اس کے نصف قطر پر انحصار کرتا ہے  یعنی رقبہ اس کے نصف قطر کے مربع کے برابر ہوتا ہے ۔ لہٰذا ستارے کی روشنی   (rp/rs)²  کلیہ کے مطابق ہی مدھم ہوگی جس میں rp اور rs  سیارے اور ستارے کے بلترتیب نصف قطر ہیں ۔ کوئی سیارہ جو مشتری جتنا بڑا ہو اور  کوئی ستارہ جو سورج کے حجم کا ہو، تو اس صورت میں  سیارے کا ستارے کی روشنی کو مدھم کرنے کا یہ اثر ایک فیصد ہوگا جس کو آسانی سے شوقیہ آلات کی مدد سے بھی معلوم کیا جا سکتا ہے ۔ بہرحال زمین جو سورج سے ١٠٩ گنا چھوٹی ہے ، وہ سورج کے سامنے اس کو عبور کرتے وقت اس  کی روشنی کو صرف 1/(109)² یعنی کہ صرف0.008فیصد تک ہی کم کر پائے گی۔ اس  معمولی اثر کو دیکھنا مشکل  ضرور  ہے تاہم  ناممکن نہیں ہے ۔

 

سیاروں کی دریافت میں عبوری طریقہ اس لئے کام  کرتا ہے کیونکہ سیارے کی وجہ سے ستارے کی روشنی میں ہونے والی  کمی کو ستارے کی تابانی ناپ کر کی جا سکتی ہے جس کو ضیا پیمائی ](ضیا ئیوں یعنی فو ٹونوں کو ناپنا )[Photometryکہتے ہیں۔ ضیا پیمائی ، طیف بینی (Spectroscopy)  سے مختلف ہوتی ہے۔ طیف بینی میں روشنی کے رنگوں کی پیمائش کی جاتی ہے ۔ ضیا پیمائی کے لئے کیمرے کی ضرورت ہوتی ہے جو اکثر چھوٹی دوربین کے ساتھ لگا دیا جاتا ہے ۔ اس میں سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ سیاروں کے مدار کو ستارے کے مشاہدے کے وقت بالکل ابھار  پر ہونا چاہئے ، جس کا امکان بہت ہی کم ہوتا ہے ۔ ہماری کہکشاں میں موجود نظام ہائے سیارگان اٹکل پچو تمام ممکنہ سمتوں میں بکھرے ہوئے ہیں  (خاکہ نمبر4.2)۔ لہٰذا ہماری فوقیت والی جگہ سے کسی سیارے کو ستارے کو عبور کرتا ہوا  دیکھنے کا امکان  نجمی نصف قطر  کا سیارے کے مدار کے حجم کی  نسبت کے برابر ہوگا۔ یہ  عام طور پر ایک فیصد سے بھی کم ہوتا ہے ۔

4.2 سیاروی نظام اٹکل پچو زاویوں پر موجود ہیں ۔ جب ہم زمین سے ان کو دیکھتے ہیں تو ان میں سے صرف چند ہی ہماری طرف ترتیب میں ایسے موجود ہوتے ہیں کہ ہم ان کے عبور کو دیکھ سکیں ۔ جتنا زیادہ سیارہ اپنے ستارے سے قریب ہوگا ، اس کے عبور کے وقت میں دیکھے جانے کا امکان اتنا ہی زیادہ ہوگا۔

اتنے کم امکان کے ساتھ ، ہزار ہا ستاروں کی نگرانی انتہائی صبر کے ساتھ کرنی ہوگی تاکہ سیاروں کی وجہ سے روشنی کی میعادی کمی کو عبوری وقت میں آسانی سے پکڑا جا سکے۔ عبوری مرحلے کا مقابلہ صرف ثقلی عدسے کا طریقہ ہی  کر سکتا ہے ۔ عبوری مرحلے کو بے عیب بنانے کے لئے  اور اس کے عملی استعمال کے لئے بہت زیادہ سعی کرنی پڑتی ہے ، لیکن یہ تمام تر جدوجہد اس طریقے سے حاصل کردہ فوائد کے مقابلے میں کافی نتیجہ خیز ہوتی ہے: جب  ہم عبوری اور ڈوپلر  ڈگمگاہٹ  دونوں طریقوں کے ذریعہ پیمائش کرتے ہیں  تو ہم سیارے کا نصف قطر ، کمیت اور اس طرح سے اس کی اوسط کثافت بھی اخذ کر سکتے ہیں ۔ لیکن یہ تو صرف ایک اضافی معلومات ہوتی ہے ! عبوری طریقہ عظیم ارض یا ارض جیسے چھوٹے سیاروں کی دریافت کے لئے بہت ہی بہترین طریقہ ثابت ہوا ہے ۔

 

١٩٩٩ء تک ٢٥ سے زیادہ ماورائے شمس سیارے ڈوپلر تبدیلی کے طریقے سے دریافت کیے جا چکے تھے جن میں سے زیادہ تر تپتے ہوئے مشتری تھے ۔ کیونکہ تپتے ہوئے مشتری اپنے مورث ستارے کے گرد انتہائی نزدیک ہوتے ہیں لہٰذا ان کا ستارے کو عبور کرنے کا امکان بڑھ جاتا ہے ۔ خاکہ نمبر 4.2 اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح سے اندرونی حصّے میں موجود سیارہ ستارے کو دور دراز میں واقع سیارے کی بہ نسبت زیادہ دفعہ عبور کر سکتا  ہے۔ کسی بھی ستارے کے نزدیک موجود  ایسے سیارے کو عبوری طریقے میں  پانے کا موقع پانچ سے دس فیصد ہوتا ہے۔ با الفاظ دیگر ڈوپلر تبدیلی کے طریقے سے دریافت ہوئے ان بیس سے زیادہ تپتے ہوئے مشتری میں سے کم از کم  ہم کسی ایک کو اپنے مورث ستارے کو عبور کرتا ہوا دیکھ سکتے تھے ۔ عبوری سیارے کو کھوجنے کا نسبتاً زیادہ امکان  ان کی کھوج کو زیادہ  مسابقتی بنا دیتا ہے ۔ سیارہ شناس(Planet Hunter) ٹیمیں جو نئے سیاروں کی کھوج میں لگی رہتی ہیں ، وہ اپنے دریافت شدہ سیاروں کو اس وقت تک راز میں رکھتی ہیں  جب تک ان کی تسلی نہیں ہو جاتی  کہ سیارہ ستارے کو عبور کر رہا ہے ۔

 

خوش قسمت تپتا ہوا مشتری HD 209458b نکلا ، جو ایک عام سے نظام ہائے سیارگان کا حصّہ تھا جو سورج جیسے ستارے کے گرد 3.5 دن میں زمین سے ١٥٠ نوری برس کے فاصلے پر چکر لگا رہا تھا ۔ یہ سیارہ ڈوپلر منتقلی  کے طریقے سے ١٩٩٩ء کی موسم گرما میں جنیوا رصدگاہ  اور ہارورڈ – سمتھ سونین  سینٹر  فار ایسٹرو فزکس کے سیارہ شناسوں کے اشتراک سے دریافت کیا گیا تھا ۔١٩٩٩ء تک انہوں نے اپنے اعداد و شمار ہارورڈ کے سند یافتہ طالبعلم ، ڈیوڈ  شر بونو (David Charbonneau) کے حوالے کیا جو اس وقت بولڈر ، کولوراڈو   میں اپنا وقت چھوٹی ضیا پیمائی دوربینوں کے ساتھ گزار رہے تھے  جس کو ان کے لئے نیشنل سینٹر فار ایٹموسفیرک  ریسرچ کے ٹم براؤن(Tim Brown) نے بنایا تھا ۔ ڈیوڈ اور ٹم نے عبور کا سراغ لگا لیا تھا  اور اسی طرح سے جیوف مارسی(Geoff Marcy) اور پال بٹلر (Paul Butler) کی ٹیم نے بھی اس کا پتا چلا لیا تھا  یہ دونوں بھی اسی دوڑ میں شامل تھے ۔انہوں نے اپنا ڈوپلر منتقلی  کا مواد ٹینیسی اسٹیٹ یونیورسٹی کے گریگوری ہینری (Gregory Henry) کے حوالے کیا جو ضیا پیمائی کو ایریزونا میں واقع خودکار دوربینوں کے ذریعہ ناپ رہے تھے ۔

 

 یہ کامیابی دو طرح سے ایک سنگ میل ثابت ہوئی تھی : اس نے بغیر کسی شک کے ان  ماورائے شمس سیاروں کی موجودگی کی تصدیق  کی تھی جن کو ڈوپلر منتقلی  کے طریقے سے  ١٩٩٥ء سے بالواسطہ طور پر دریافت کیا گیا تھا ، اور اس نے عبوری طریقے سے  سیاروں کو  دریافت کرنے کے لئے حوصلہ افزائی بھی کی تھی ۔

 

٢٠٠٠ء کی شروعات میں ، عبوری طریقے نے واضح طور پر سیاروں کی دریافت کے لئے ایک مقام بنا لیا تھا :(١) اس طریقے کے استعمال سے  دسیوں ہزار ستاروں کی بیک وقت ضیا پیمائی ہو سکتی تھی اور (٢) اس وقت تک کا انتظار کرنا ہوتا تھا جب  تک آپ کو کوئی ستارہ ایک مستقل صورت میں جھلملاتا ہوا نظر نہیں آتا تھا ۔ اگر ستارے کی روشنی کئی گھنٹوں تک، کچھ دنوں کے بعد لگاتار  لگ بھگ ایک فیصد تک کم ہو جاتی، تو آپ نے ایک عبوری تپتا ہوا مشتری مثلاً HD 209458b جیسا سیارہ ڈھونڈھ لیا ہے ۔ اس میں دو چیزیں بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہیں :کافی زیادہ تعداد میں ستاروں کو بیک پیمائش کرنا اور اس پیمائش کو ایک فیصد سے بھی بہتر انداز میں انتہائی درستگی  کے ساتھ ناپنا ۔ اول الذکر کا مطلب ہے کہ چھوٹی دوربین کا استعمال کرنا جو آسمان کا زیادہ تر حصّہ دیکھ سکے یا پھر عام دوربین کا استعمال کرتے ہوئے  انتہائی مدھم ستاروں کی پیمائش کرنا ۔ موخر الذکر کا مطلب یہ کہ سافٹ ویئر اور ضیا پیمائی کی جزئیات کو بہتر بنانا ۔

 

کئی فلکیات دان عبوری طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سیارے کی دریافت میں انتہائی جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ ان کی امیدیں کافی زیادہ ، اور پیش گوئیاں کافی خوش گمان ہوتی ہیں ۔ روشنی میں کمی کو ناپنا ہی سیارے کی دریافت کی تصدیق سمجھ لیا جاتا ہے ۔ نتیجتاً وہ ٹیمیں جن کے ذرائع انتہائی محدود ہوتے ہیں  وہ جنیوا میں موجود مچل میئر(Michel Mayor) کی ٹیم اور کیلی فورنیا میں موجود جیوف  مارسی کی ٹیم کا مقابلہ نئے سیاروں کی دریافت میں کر سکتی ہیں ۔ نسخہ  بہت ہی آسان ہے ؛ لیکن حقیقت اس سے کہیں زیادہ تلخ ہے۔ HD 209458b کی دریافت ہونے کے بعد تین سال کا عرصہ گزر گیا اور کوئی دوسرا سیارے ستارے کو عبور کرتا ہوا دکھائی نہیں دیا ۔

 

مسئلہ یہ تھا کہ چند ستارے جھلملاتے تو تھے تاہم ان کی وجوہات دوسری ہوتی تھیں ۔ مثال کے طور پر دو ستارے جو ایک دوسرے کے نزدیک مدار میں موجود ہوں وہ ایک دوسرے کو گرہن لگاتے ہیں  اور اسی وقت ایک تیسرا ستارہ  اس اثر کو کم کر دیتا تھا جس کے نتیجے میں اس گہرے گرہن کا اثر کم ہو جاتا تھا  اور وہ مہین ہو کر ایک سے دو فیصد رہ جاتا تھا  بعینہ جیسے کہ چھوٹے سیارے کے اپنے مورث ستارے کے عبوری وقت میں ہوتا ہے ۔ہم اپنی  بہترین دوربینوں کا استعمال کرنے کے باوجود ان   تینوں ستاروں کو  زمین سے روشنی کے ایک نقطہ کی مانند  دیکھتے  ہیں ۔ یا ایک بہت ہی چھوٹا ستارہ ہمارے سورج سے تھوڑے سے بڑے ستارے کے گرد چکر لگا سکتا ہے  جس کے نتیجے میں گرہن دو فیصد تک گہرا ہو سکتا ہے  اور اس گرہن کو سیارے کے گرہن سے ممتاز کرنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے ۔ اسی طرح مختلف صورتحالوں  کی ایک لمبی فہرست موجود ہے ۔ یہ احساس بتدریج نمودار ہوا کہ ایسے غلط اشارے کافی آسانی سے اثر انداز ہو سکتے ہیں ۔ہارورڈ – سمتھ سونین  سینٹر فار ایسٹرو فزکس  کے ڈیوڈ لاتھم(David Latham)   جو سیارے شناسی کے اختراع اندازوں میں سے ایک ہیں ، وہ  بہت ساری ان ٹیموں کی مدد کر رہے ہیں جنہوں نے ممکنہ عبوری امیدواروں  کی تصدیق کی ہے ۔ یہ ان کی مدد تیزی سے دیکھنے والی  چھوٹی دوربین کے ذریعہ   ضیا پیمائی  سے کر رہے ہیں ۔ وہ سیاروں کے بجائے عبوری ضیا پیمائی  میں سے غلط امیدواروں کی نشاندہی کر رہے ہیں ۔

 

مسئلہ ٢٠٠٢ء میں سامنے آیا ۔ اوگلی ](او جی ایل ای )[OGLE ٹیم  جس سے ہم پہلے ملے تھے انہوں نے چلی میں واقع اپنی دوربین کو  نئے بڑے کیمرے سے ایک برس پہلے ہی  لیس کیا تھا۔ کہکشاں میں نجمی ثقلی عدسے  کی تلاش کرنے سے پہلے جو ان کا  بنیادی مقصد تھا انہوں نے اپنی دوربین کا رخ جنوبی آسمان کی جانب کیا جو ستاروں سے لبریز تھا اور سیاروں کے ستاروں کو عبور کرنے کے سراغ کو حاصل کرنے کی امید میں  انہوں نے لگا تار چار ہفتے بغیر کسی  وقفے کے ہر رات اس کا مشاہدہ کرنا شروع کیا۔ چند مہینے تک اس دوران  کچھ گیگا بائٹ مواد انہوں نے جمع کرلیا  تھا۔ جب اس حاصل کردہ اعداد و شمار کی چھان بین کی تو  اس میں سے انہوں نے ساٹھ  کے قریب جھلملاتے ستارے ملے ۔ جھلملاہٹ دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے کہ سیارے ستاروں کو عبور کر رہے ہوں ، کیونکہ ستاروں کی روشنی  صرف ایک سے تین فیصد کے قریب کم ہو رہی تھی ، اصل مرحلہ اس بات کا یقین کرنا تھا کہ اس میں سے کون سے اشارے غلط تھے ۔

 

 اوگلی دوربین سے حاصل کردہ ضیا پیمائی کا مواد بذات خود اس قابل نہیں تھا کہ وہ  ان ستاروں کی نشاندہی کر سکے جو باقاعدہ روشنی کو ہلکا کرتے ہیں ۔ مزید معلومات جیسا کہ نجمی ضیا پیمائی کے اعداد و شمار یا زمین سے فاصلہ دستیاب نہیں تھا  کیونکہ یہ تمام ستارے بہت ہی مدھم  اور دور تھے اور ہم ان کو پہلے سے نہیں جانتے تھے ۔ اوگلی کی ٹیم نے عبوری امیدواروں کی پوری فہرست انٹرنیٹ پر(کسی بھی جریدے میں چھپنے سے پہلے ہی ) شایع کردی اور دنیا بھر کے فلکیات دانوں اور سیارہ شناسوں کو دعوت دی کہ وہ ان میں سے سیاروں کو تلاش کریں ۔ مقابلہ شروع ہو گیا تھا ۔

 

 جیسے ہی اوگل کی پہلی فہرست انٹرنیٹ پر نمودار ہوئی ، میرے نوجوان رفیق کار کرس اسٹانیک  (Kris Stanek)چلتے ہوئے میرے دفتر تشریف لائے  اور مجھے ستاروں کے گرد چکر لگاتے ہوئے سیاروں کی دریافت کا چیلنج دیا ۔ ان کا خیال تھا کہ یہاں یہ کام ہو سکتا ہے کیونکہ ہارورڈ –ا سمتھ سونین سینٹر فارایسٹرو فزکس  کے پاس شاید ذرائع بھی تھے بلکہ  زیادہ اہم ان  کا تجربہ تھا۔ تجربے کے معاملے میں تو میں نے ان کی تائید  کی تھی  کیونکہ صرف دو سال قبل  ہی پہلے  عبوری سیارے   HD 209458b کی دریافت ہماری مقامی کھوج ہی تھی ۔ ان تمام باتوں کے باوجود اوگل کی فہرست میں موجود سیاروں کی تصدیق کے لئے ایک بالکل نئی طریقے کی ضرورت تھی ۔ درحقیقت عبوری طریقے  سے سیارہ شناسی کو مکمل طور سے از سر نو  ترتیب دینا تھا ۔ ١٩٩٠ء کے عشرے کے اس  سادہ طریقہ جس میں ضیا پیمائی کا استعمال کرتے ہوئی ستاروں کی جھلملاہٹ کو تلاش کیا جاتا تھا کوئی قابل ذکر نتیجہ فراہم نہیں کر سکا تھا۔

 

سب سے پہلا کام جو کرنے کا تھا وہ اس فہرست نے خود ہی بتا دیا تھا ۔ ان میں سے کچھ عبوری امید وار  اپنی روشنی میں یکے بعد دیگر جھلملاہٹ  میں تبدیلی دکھا رہے تھے ۔ میں اس جھلملاہٹ کو اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ دیکھ چکا تھا ، مگر ان کا  سیاروں سے کوئی لینا دینا نہیں تھا ۔ جب دو ستارے جن کو ہم ثنائی ستارے بھی کہتے ہیں اور جن کا حجم اور مدار مکمل کرنے کا وقت بھی تپتے ہوئے مشتری سیاروں جتنا ہی ہوتا ہے؛ ایک دوسرے کے گرد انتہائی نزدیک مدار میں چکر لگاتے ہیں تو درحقیقت وہ ایک دوسرے کو کھینچتے ہوئے آڑو کی شکل کا کر دیتے ہیں ۔ ان کی غیر متشاکل(Asymmetric) ساخت  کا مطلب  یہ ہوتا ہے کہ ایک دور دراز شاہد کے لئے ان کی سطح کی شکل مدار میں چکر لگاتے ہوئے  مختلف ہو سکتی ہے یوں  ان سے آنے والی روشنی بھی تبدیل ہوتی نظر آسکتی ہے ۔ مزید براں ستارے ایک دوسرے کو  منور بھی کرتے ہیں  جس کے نتیجے میں بھی ان سے آتی روشنی میں فرق آ جاتا ہے ۔ اب اگر اتفاق سے  مدار میں چکر لگاتے ہوئے دو ستارے ایک دوسرے  کی بالکل صحیح ترتیب میں آ گئے ہوں تو ہمیں ستارے ایک دوسرے کو گرہن لگاتے ہوئے نظر آئیں گے ۔ صرف ایک مسئلہ یہ ہے کہ ستارے بڑے ہوتے ہیں اور ان کے گرہن کافی گہرے ہوتے ہیں (اتنے گہرے کہ پہلا ثنائی ستارہ چشم عریاں  سے ١٧٨٢ء میں جان گڈریک[John Goodricke] نے دریافت کیا تھا )۔ اوگل گرہن اس سے دس گنا زیادہ چھوٹا ہوتا ہے ؛ ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟

 

اس جگہ پر  میرا نجمی طبیعیات کا پیش منظر  بہت کام آ سکتا تھا ۔ یہ اوگل امیدوار یقینی طور پر گرہن لگتے ہوئے ستارے تھے ،  ممکنہ طور پر یہ ثنائی ستاروں سے دو طرح سے مختلف ہو سکتے تھے ۔ یا تو ایک تیسرا ستارہ ان کے درمیان موجود تھا ، یا پھر کوئی بہت ہی چھوٹا ستارہ کسی بہت بڑے ستارے کے مدار کے ساتھ موجود تھا ۔ پہلی صورت میں تیسرا ستارہ گرہن کی گہرائی کو صاف کر دیتا تھا  جس کے نتیجے میں وہ دھندلا ہو جاتا تھا ؛ دوسری صورت میں گرہن اتھلا ہو کر شروع ہوتا ہے ۔اوگل کی فہرست میں موجود ایک یا دو ستارے  ،ستاروں کے بے جوڑ نشان کے غماز بھی تھے، کیونکہ چھوٹے ستارے کی وجہ سے اس میں مشکل سے ہی کوئی گرہن تھا ۔ مسئلہ اس بات کی تلاش کا تھا کہ کیا اوگل کی فہرست میں موجود باقی ستارے بھی گرہن لگے ہوئے ثنائی ہیں یا نہیں ۔

 

ہمارے  بنیادی مسئلے کا حل  یعنی غلط امیدواروں کو اصل عبوری سیاروں سے الگ کرنا، ستاروں کے کام کرنے کے طریقے کی سمجھ کے پچاس سالہ  تجربے میں موجود تھا جس کو نظریہ نجمی ارتقاء کہتے ہیں ۔ مختلف کمیت کے ستاروں کا درجہ حرارت   اور ان کی تابانی کا اندازہ ان کے ارتقاء کے  مختلف ادوار میں  کافی درستگی کے ساتھ لگایا جا سکتا ہے  اور ثنائی ستارے بھی اسی عمر کے ہوتے ہیں ۔ اس یقین ہو جانے کے بعد کہ یہ نجمی ارتقاء کا بنیادی  علم ہی اس مسئلہ کا حل ہو سکتا  ہے ، میں نے  مرحلے وار اقدام اٹھانے کی منصوبہ بندی کی  جو جھلملاتے ستاروں کی روشنی میں، عبوری سیاروں کی وجہ سے ہونے والی، کمی کی  تصدیق کے لئے ضروری تھی ۔

 

 میں ستاروں کا  نظریہ کار تھا  اور اگرچہ مجھے دوربین اور اس کے ذیلی آلات کے استعمال میں بہت سرور حاصل ہوتا تھا  تاہم میں اوگل  چیلنج سے نمٹنے کے لئے خود سے انتظام نہیں کر پا رہا تھا ۔ مسئلہ کو حل کرنے کے لئے ایک ٹیم کی ضرورت تھی ۔ گئیےمو ٹورس ](عرف عام  میں ولی)[Guillermo Torres، جو ثنائی ستاروں اور ضیا پیمائی کے مشاہدے کے ماہر تھے وہ اس کام کو کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور ہم اس بات پر بھی رضا مند ہوگئے تھے کہ اپنے کسی ایسے سند یافتہ طالبعلم سے بات کریں گے جو دھندلے ستاروں کی ضیا پیمائی  یا پھر ستاروں کے پھٹتے وقت ان  سے خوب اچھی طرح واقف ہو۔ وہ طالبعلم سورابھ جھا(Saurabh Jha)  تھا ، جو اس وقت دور دراز سپرنووا کی جاسوسی میں لگا ہوا تھا تاکہ  تاریک توانائی کو سمجھ سکے ۔ سورابھ ماورائے شمس سیاروں کے بارے میں پہلے سے ہی کافی  پرجوش تھا ؛ اس نے ہمارے سینیئر سند یافتہ طالبعلم ڈیوڈ چر بونو کے ساتھ HD 209458b کے عبوری مشاہدے میں تعاون کیا تھا ۔ اسی دوران ڈیو نے  کالٹک میں رہتے ہوئے عبوری سیاروں کو دیکھنے کے لئے اپنی دوربین خود بنانی شروع کردی ۔

 

ولی ، سورابھ اور مجھے تو فوراً کام شروع کرنا تھا ۔ ہمارے اس نئے طریقے میں کئی درجے تھے ۔ ممکنہ عبور  کی شناخت کی ضیا پیمائی کرنے کے بعد  ہم نے اکلوتے ہلکے یا درمیانی ریزولوشن کے ستارے کا طیف لیا  تاکہ اس بات کا پتا لگا سکیں کہ آیا وہ کوئی ضخیم ستارہ تو نہیں ہے ۔ اگر وہ ضخیم ستارہ ہوتا تو ہم اس کو چھوڑ دیتے ۔ اگر وہ ضخیم نہیں نکلتا تو ہم اس کا مزید طیف حاصل کرتے  تاکہ ایک بڑے ڈوپلر منتقلی  کا اثر اس میں دیکھ سکیں ۔ ایک بڑی ڈگمگاہٹ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ "عبور " سیارے کے بجائے ستارے کی وجہ سے وقوع پذیر ہوا ہے ۔ اس چیز کو حاصل کرنے کے لئے دنیا کی سب سے بڑی دوربین کی ضرورت تھی  جس  کے ذریعہ سب سے بہتر ضیا پیمائی ہو سکتی ہو۔ اگر ہمیں چھوٹی ڈگمگاہٹ ملتی ، تو اگلے قدم کے طور پر ہم طیف کا تجزیہ کرتے تا کہ دیکھ سکتے کہ آیا  جذبی طیفی خطوط مسخ تو نہیں ہو رہے تھے۔ اگر ایسا کوئی بگاڑ موجود نہ ہوتا اور نہ ہی کوئی دوسرے طیفی خطوط  نظر آتے  تو ہم تمام مشاہدات کو ایک ساتھ جمع کرتے  اور پھر ان کا مقابلہ مختلف نجمی ارتقائی نمونوں سے اندازہ لگائے ممکنہ پیش منظر اور پس منظر کے ستاروں سے پیدا ہوئے بگاڑ سے کرکے دیکھتے۔  سب کچھ کر لینے کے بعد اگر یہ غیر متزلزل طور پر متحد نظر آتے تو  نہ صرف سیارے کی تصدیق ہو جاتی بلکہ  اس کا حجم اور کمیت بھی  کافی درستگی کے ساتھ معلوم ہو سکتی تھی ۔ ولی اور مجھے ایک نجمی اور ثنائی ستارے کا نمونہ بنانا تھا تاکہ ہم نظام کا تجزیہ کرکے اس بات کا تعین کریں کہ آیا   وہ ستارے ہیں کہ سیارے۔

 

تاہم ہارورڈ میں ہمارے پاس ایسی  بڑی دوربین تک رسائی نہیں تھی   جس کا استعمال کرکے ہم انتہائی درستگی کے ساتھ اوگل کے بہت ہی دھندلے ستاروں کی  ضیا پیمائی اور  ڈوپلر منتقلی  کے طریقے کو ناپنے سکتے۔ صرف سب سے بڑی دوربین کیک ہی ایسا کر سکتی تھی  مگر اس کے استعمال کا زیادہ تر وقت معاون اداروں یعنی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا اور کالٹک  کے پاس تھا جنہوں نے اسے بنایا تھا ۔ خوش قسمتی سے میرا چلتا ہوا   اشتراک کیک کی دونوں دوربینوں کے رفقائے کاروں  سے تھا جو  کالٹک میں موجود تھے  اور وہ بصری فلکیات کے جادوگر تھے ۔ کالٹک میں ،   ماچی کوناکی (Maciej Konacki) – ایک نوجوان محقق جو میرے رفیق کار شری کلکرنی  (Shri Kulkarni)کے ساتھ کام کر رہے تھے اور پول (Pole)بھی (اوگل کی باقی ٹیم کی طرح ) -  بہت زیادہ پرجوش تھے اور کیک کو اس مہم کے آخری مرحلے  میں شامل کرنے کے لئے تیار تھے۔ کیک کا آلہ  - پرانا قابل بھروسہ ہائرس (ایچ آئی آر ای ایس )ضیا پیما اسٹیو ووگٹ(Steve Vogt) نے بنایا تھا اور اس کا استعمال کرتے ہوئے  جیوف مارسی نے  بہت سے ماورائے شمس سیارے ڈوپلر منتقلی  کے طریقے کے ذریعہ سے دریافت کیے تھے ، یہ ہمارے لئے  استعمال کے لئے دستیاب  تھا  اور ماچی نے اس بات کا پورا اطمینان کرلیا تھا کہ ہم سیاروں کی دریافت کے آخری اور اہم مرحلے کو یقین کے ساتھ  مکمل کر سکیں ۔

 

موسم گرما بہت مصروف گزرا ، پہلے ہم نے چلی اور ہوائی میں مشاہدے کیے ، جہاں کیک رصدگاہ موانا کیا کے بڑے جزیرے کی چوٹی  پر نصب ہے ، اور اس کے درمیان حاصل ہونے والے مواد کا تجزیہ جتنا جلدی ممکن ہو سکا کیا ۔ ہم صرف اس لئے جلدی میں نہیں تھے کہ ہم جانتے تھے کہ یہاں پر ایک دوڑ لگی ہوئی ہے  اور مقابلے کانٹے کا ہے ، بلکہ اس لئے تھے کہ ہمارے کام کا مقصد صحیح طرح سے ان مرحلوں کو پورا کرنا تھا  جس میں ہمیں غلط اشاروں کو شناخت کرکے ساتھ ساتھ الگ کرنا  اور کیک میں ملے قیمتی وقت کا درستگی سے استعمال کرنے کا تھا ۔چلی میں ملنے والے  شروع کے ابتدائی مرحلوں سے حاصل کردہ نتائج بہت ہی زبردست تھے :اوگل کے امیدواروں میں سے اکثریت عبوری نہیں تھے یعنی کہ وہ سیارے نہیں تھے  جس کے نتیجے میں نوے فیصد اوگل کی فہرست سے امیدوار خارج ہو گئے تھے ۔

 

 خوش قسمتی سے ہمارے پاس پانچ امیدوار کیک میں مشاہدے کے لئے باقی بچ گئے تھے ۔ ہم خوش گمان تھے ، لیکن یہ بات پہلے ہی واضح ہو گئی تھی کہ شروع کی ہماری  بلند توقعات   جس میں ہم سمجھ رہے تھے کہ آدھے سے زیادہ عبوری سیارے ہو سکتے ہیں ، بری طرح سے مجروح ہو چکی تھیں۔ اب بھی مزید کم از کم دو امتحان باقی تھے جس میں سے ان بچے ہوئے امیدواروں کو گزرنا تھا ۔ یہ بات ممکن نہیں تھی کہ تمام ہی امیدواروں کو فہرست سے خارج کر دیا جائے ۔ یاد ماضی میں ہم اس بات پر کافی خوش تھے کہ ہمارا  عبوری طریقہ ابھی تک کام کر رہا تھا  اور  پہلی مرتبہ مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ ہمیں دوسرے لوگوں  پر سبقت حاصل ہے  اور ہم ان سب سے آگے ہیں ، دوسرے لوگ غلط اشاروں کی دلدل میں پھنسے ہوئے تھے ۔ اگر غلط  اشارے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوتے ، تو  لازمی طور پر مقابلے کی دوڑ میں شامل دوسرے لوگ فہرست میں موجود کسی سیارے کو قسمت سے پا لیتے اور ہمیں  کم از کم ایک مہینے یا اس سے بھی کم میں مات دیتے ہوئے سیارے کی دریافت کا اعلان  کر دیتے!

 

کیک سے کئے گئے مشاہدے زبردست رہے ، اور ہمیں واضح طور پر ایسا لگ رہا تھا کہ  جن  چار امید واروں  کا ہم نے مشاہدہ کیا تھا ان میں سے ایک صاف طور پر سیارہ ہی تھا: OGLE-TR-33۔ اس کو یہ عجیب نام اس لئے ملا تھا کہ فہرست میں موجود کوئی بھی ستارہ اس سے پہلے نہیں دیکھا گیا تھا ، لہٰذا اس  کو فہرست میں ملی جگہ کی مناسبت سے نام دے دیا گیا۔ یہ فہرست اس ٹیم کی تیار کی تھی جس نے اس کا سب سے پہلے مشاہدہ کیا تھا ۔ ستارہ ٣٣ میں واضح ڈگمگاہٹ موجود تھی  جس کا حیطہ یا فراز موج کافی بڑے سیارے  یا شاید ایک بھورے بونے سے  مطابقت رکھتی تھی۔ بھورے بونے  ناکام ستاروں کو کہتے ہیں ۔ عبوری بھورے بونے کو تلاش کرنا بھی اتنا ہی جوش سے بھرا تھا جتنا کہ ایک بڑے سیارے کو ۔ لہٰذا ہم نے OGLE- TR-33 کو جلدی  سے جانچنا شروع کیا ، تاکہ یہ معلوم کر سکیں کہ آیا یہ ہمارے آخری مرحلہ امتحان میں بھی کامیاب ہوگا یا نہیں ۔ ہمیں یقین نہیں آیا  - ہم نے تو نیچر جریدے کے لئے ایک مقالہ بھی اپنی جانچ کے دوران  لکھنا شروع کر دیا تھا ۔ اب ہمیں اس کو چھوڑنا پڑا تھا ۔ اسی دوران ، ایک اور امید وار جو سر فہرست تھا  وہ بھی تمام امتحانات سے سرخ رو ہو گیا تھا ۔ شروع میں ہم نے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی تھی  کیونکہ OGLE- TR-33 میں ہمیں واضح طور پر ایک بڑی ڈگمگاہٹ نظر آئی تھی  اور وہ ایک آسان ہدف لگ رہا تھا ۔ یہ دوسرا ستارہ OGLE-TR-56 تھا  اور یہ مشتری کی کمیت جتنا لگ رہا تھا ۔

 

نومبر ختم ہونے کو تھا ، ہم نے آخر کار OGLE-TR-33 کی نوعیت جان لی : یہ تین ستاروں پر مشتمل نظام تھا ، جس میں سے دو ایک دوسرے کے مدار میں انتہائی نزدیک چکر لگاتے ہوئے ایک دوسرے کو گرہن لگا رہے تھے ، جبکہ ایک بڑا قریبی ستارہ ، جو اس نظام میں جسیم اور زیادہ روشن تھا ، وہ ان گہرے گرہن کی شدت کو کم کر رہا تھا ۔ تیسرے ستارے کی اپنی کوئی ڈگمگاہٹ نہیں تھی ، لیکن نظام میں موجود ایک دوسرے ستارے کی  بڑی ڈگمگاہٹ (جس کے طیفی خطوط میں زیادہ ڈوپلر منتقلی  کا اثر تھا ) تیسرے ستارے کے طیفی خطوط میں گڑبڑ کر رہی تھیں ۔ کیونکہ تیسرا ستارہ بہت تیزی سے گھوم رہا تھا اور اس کے طیفی خط  کافی چوڑے تھے ، لہٰذا یہ تھوڑی سی گڑبڑ ہی اتنی تھی کہ ہمیں  ایک ایسی چھوٹی ڈگمگاہٹ کا تاثر دیتی جو کوئی سیارہ ہی دے سکتا تھا  یہ اثر  گرہن کو دھو کر اتھلا کرنے جیسے ہی تھا۔ OGLE-TR-33 ایک بہت ہی چالباز قسم کا غلط اشارہ تھا !

 

اب ہم نے اپنی پوری توجہ صرف OGLE-TR-56 پر مرتکز رکھی ہوئی تھی ۔ یہ ہمارے لئے ہوئے تمام امتحانوں سے سرخ رو ہو کر نکل گیا تھا ، جس میں طیفی خطوط کی جانچ بھی شامل تھی  جو ہم نے OGLE-TR-33 کے غلط اشارے سے حاصل کی تھی ۔ ہمیں اس بات پر پورا اعتماد تھا کہ OGLE-TR-56b ایک سیارہ ہی تھا  کیونکہ ہمارا OGLE-TR-33 اور دوسرے غلط اشاروں سے حاصل کردہ تجربہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا ۔ ہمارا طریقہ کام کر رہا تھا  اور ہمارے لکھے ہوئے مقالے کو جلد ہی نیچر جریدے نے  قبول کرلیا تھا ۔ جنوری ٢٠٠٣ء کے پہلے ہفتے میں ، سیٹل میں  امریکن ایسٹرو نومیکل سوسائٹی میں اپنی دریافت کو دکھانے کے لئے میں نے جہاز لیا ۔ ٢٣٥ برس پہلے کپتان جیمز کک کی طرح  جب ہم نے بحرالکاہل کو پار کرتے ہوئے ، عبور میں جھانکا تھا  اور ہم کامیاب ہوئے تھے ۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ OGLE-TR-56b ایک اجنبی سیارے تھا  - اس کے پاس کئی طرح کے امتیازات تھے : سب سے کم مدار میں چکر لگانے کا وقت (صرف ٢٩ گھنٹوں کا )، سب سے گرم سیارہ (٢ ہزار کیلون کے لگ بھگ درجہ حرارت )، جبکہ یہ سب سے دور کا ماورائے شمس سیارہ بھی تھا (زمین سے پانچ ہزار نوری برس کے فاصلے پر )۔ اس کی اجنبی خصوصیات نے ذرائع ابلاغ کی توجہ حاصل کر لی تھی ، جبکہ ہمارے اور سیارہ شناسوں کے لئے سب سے بڑی خوشی سیاروں کی دریافت کے لئے عبوری طریقے کا آخر کار وضع ہونا تھا ۔ مختصراً  غیر متوقع بڑے غلط اشارے سب سے بڑا مسئلہ تھے ، اور ہمارے جانچنے کے مراحل اور نجمی نمونوں نے ان مسائل کو حل کر دیا تھا ۔ اگلے تین برسوں میں  ہمارے ساتھ دوسری کئی ٹیموں نے ، ہماری وضع کیے ہوئے طریقے کو استعمال کرتے ہوئے کامیابی کے ساتھ ایک درجن سے زائد عبوری نئے سیارے دریافت کیے تھے ۔ ایک اصلی کرۂ ارض جیسے سیارے کی تلاش کا راستہ اب کھلا ہوا تھا ۔ کھوج کا ایک نیا دور کھل گیا تھا ۔

 

تلاش کا پہلا دور پندرہویں صدی میں شروع ہوا تھا ۔ ١٤٨٤ء میں ایک آدمی جس کی کوششوں نے اس دور کو ممتاز مقام دلوایا  وہ جینووا کا کرسٹوفر کولمبس(Christopher Columbus)  تھا  جس نے ولندیز یوں کے بادشاہ جوا   دوم (João II)کو اس بات پر  قائل کر لیا تھا  کہ وہ اس کی بحر اوقیانوس کو پار کرنے کی مہم  میں مالی تعاون  کرے۔ بادشاہ تذبذب کا شکار تھا ، اس وجہ سے نہیں کہ وہ زمین کو چپٹا سمجھتا تھا ، بلکہ اس لئے کہ کولمبس اس بات پر مصر تھا کہ زمین خط استواء پر صرف دس ہزار میل  پر پھیلی ہوئی ہے  اور پچھم کی طرف ہندوستان اور مصالحوں کے جزیرے کی طرف  جانے والا راستہ مختصر ہے ۔ ولندیزی ملاحوں  (جن کو شہزادہ ہنری کا شکر گزار ہونا چاہئے ، جواس  صدی کے شروع کے  جہازراں تھے۔  انہوں نے افریقی ساحل کے ساتھ اوپر اور نیچے کی جانب بحر اوقیانوس میں جہاز چلایا تھا ) نے  قطب سے قطب تک  کرۂ ارض کے حجم کا بہت زیادہ اندازہ لگایا تھا۔ لیکن ان کا  حاصل کردہ  حجم  قریب قریب ٢٥ ہزار میل تھا جو اصل کے آس پاس ہی تھا ۔(تین صدی قبل مسیح پہلےایراتوستینیز (Eratosthenes)، جو ایک یونانی ریاضی دان تھا ، اس نے بھی اسی حجم کا اندازہ پہلے سے لگا لیا تھا ۔) اسی لئے جب کولمبس نے اسپین کو چھوڑا تو  بادشاہ جوا  نے اس  کو روپیہ نہیں دیا۔ اس کے پاس غلط اعداد و شمار تھے  مگر قسمت کی دیوی اس پر مہربان تھی اور اس نے ایک نئی دنیا کھوج لی تھی ۔ اسی دوران پرتگالی افریقہ سے گھومتے ہوئے ہندوستان پہنچ گئے۔

 

ایک نئے ارض جیسے سیارے کی تلاش کی  بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی ۔ ١٩٩٠ء کی دہائی کے اواخر سے سیاروں کو کھوجنے کے لئے ہمارے پاس علم اور فن دونوں ہی موجود تھے۔ اب ہم سفر پر روانہ ہو گئے تھے اور اس بات کا انتظار کر رہے تھے کہ وہ دن کب آئے گا جب ہم میں سے کوئی ایک نئی "ارض" کو تلاش کر لے گا!

 

پرتگالی ملاحوں کی طرح جنہوں نے شروع میں آس پاس کی جگہوں  کو کھنگالا تھا ، سیارہ شناسوں کو بھی ایسا ہی کرنا تھا ۔ ملاحوں نے بحر اوقیانوس کا جوکھم اٹھا کر آزورس (Azores)جیسے جزیرے کو تلاش کیا تھا یا افریقہ کے ساحل سے دور ، یا شاید ایک ابتدائی جھلک جنوبی امریکہ کی برازیل کے ساحل کی صورت میں  دیکھ لی تھی۔ ہماری ٹیم نے بھی شروع میں "سونے کی تلاش " کی طرح سیاروں کی دریافت  کی جانب قدم اٹھایا ۔ سب سے زیادہ خاص ہماری ہنگری کی بنی ہوئی  خود کار دوربین ، جو ہیٹ منصوبے کے نام سے یا نیٹ ورک (یا مختصراً ہیٹ نیٹ) سے جانی جاتی ہے ۔ ہیٹ نیٹ کو میرے ایک نوجوان رفیق نےایک ساتھ جوڑ کر بنایا  جس کا نام گسپر باکوس (Gaspar Bakos)تھا ۔ گسپر ہارورڈ –اسمتھ سونین سینٹر فار ایسٹرو فزکس  میں بطور سند یافتہ طالبعلم کے طور پر آیا تھا  جس کی سفارش  پرجوش طور پر میرے استاد محترم (جو گسپر کے بھی استاد تھے ) یعنی پرنسٹن کے  بو دان پیک زنسکی(١٩٤٠-٢٠٠٦ء)  نے کی تھی۔ اس کی سفارش کے پیچھے جو وجہ یہ تھی کہ  گسپر وہ شخص تھا جو ڈیجیٹل انقلاب(جیسا کہ کسی بھی ڈیجیٹل کیمرے میں موجود سستی سی سی ڈی ) اور تصویروں کو پراسیس کرنے  کا فائدہ اٹھانا جانتا تھا ۔ ان دونوں ٹیکنالوجیوں  کے استعمال کا مطلب ہے  کہ ہم "ہر وقت سارے آسمان "کو دیکھ سکتے تھے ۔ یا کم از کم کافی سارا آسمان تو اکثر  دیکھ ہی سکتے تھے ۔ بودان کو یقین تھا کہ اس سے فلکیات کی دنیا میں انقلاب برپا ہو سکتا ہے ۔ پہلے کی طرح  اس دفعہ بھی اس کا اندازہ ٹھیک ہی نکلا ۔

"تمام آسمان ہر  وقت "  طریقے کو اختیار کرکے کافی کام کی چیزیں کی جا سکتی ہیں مگر عبوری طریقے سے سیاروں کی ڈھونڈنے کا تو اپنا ہی مزہ ہے ۔ میرا اور میرے رفیق کار  رابرٹ نویز(Robert Noyes)  کا تو یہی خیال تھا  اور گسپر بھی کسی حد تک ہم سے متفق تھا ۔ لہٰذا ہیٹ نیٹ کی پیدائش دو بر اعظموں میں انتہائی قلیل بجٹ سے  شروع ہوئی ۔ اس میں دوربین کے لئے تصویر کشی کے آلات اور شوقیہ درجے کی سی سی ڈیز  مگر پیشہ ور صورت گری اور مشین ہارڈویئر ( جو ہنگری  گسپر کے  آبائی وطن میں بنی  ہے ) اور سافٹ ویئر موجود ہے ۔

 

ہیٹ نیٹ چھ چھوٹی دوربینوں پر مشتمل ہے (یہ دوربینیں ان بڑے کیمروں سے زیادہ الگ نہیں ہیں جس میں پیشہ ور فوٹوگرافر  زوم کرنے کے لئے عدسے استعمال کرتے ہیں )، ان میں سے چار جنوبی ایریزونا میں ماؤنٹ ہوکینس میں نصب ہیں  اور دو موانا کیا میں ۔ یہ خود کار ہیں ، جو ایک انتہائی ہوشیار لکھے ہوئے کمپیوٹر پروگرام کے احکامات کو مانتی ہیں ۔ کمپیوٹر پروگرام میں ان پٹ (جیسا کہ ،اس بات کو  اولیت دینا کہ کس چیز کا مشاہدہ کرنا چاہئے ) دن کے دوران فلکیات دانوں سے حاصل کیا جاتا ہے ؛ پھر وہ پوری رات روبوٹ کی طرح کام کرتی ہیں ۔  ہیٹ نیٹ اس وقت کام کرنا بند کر دیتی ہے  جب بہت زیادہ بادل یا   درشت قسم کا موسم ہوتا ہے اور ایریزونا اہم معلومات ہوائی کو دیتی رہتی ہے ۔ لہٰذا ہیٹ نیٹ کی دو دوسری دوربینیں  جو ہوائی میں موجود ہیں وہ اپنا کام رات میں شروع کرکے اس کے کام کو آگے بڑھاتی ہیں  جو ایریزونا کی دوربینیں اس وقت نہیں دیکھ سکتی ہیں ۔ ایریزونا اور ہوائی میں نظریں جمائے ہوئے ، ہیٹ نیٹ موثر طور پر اپنا کام بارہ سے پندرہ گھنٹے تک کرتی ہیں  جس کے نتیجے میں وہ زیادہ عبوری سیاروں کو دیکھ اور پکڑ سکتی ہیں ۔ہیٹ نیٹ کو مشتری اور زحل کے حجم کے سیاروں کو ڈھونڈنے کے لئے بنایا گیا ہے  جو قریبی ستاروں کے گرد چکر لگا رہے ہیں ۔ ابھی تک اس نے  تیس  کے قریب سیارے دریافت کئے ہیں  ، جس میں سے کچھ (مثال کے طور پر HAT-P-11b) نیپچون کے حجم کے ہیں؛ اس سے زیادہ اور کیا چاہئے ، ہیٹ نیٹ  اور اس جیسے دوسرے منصوبوں نے سیاروں کو عبوری طریقے سے ڈھونڈنے کا "سونے کی تلاش " جیسا  رجحان جنم دے دیا ہے ۔

 

جس طرح کوئی بھی کھرپی اور مٹی چھاننے کا برتن (جس سے مٹی میں سے سونا نکالا جاتا ہے) لے کر کیلی فورنیا پہنچ جاتا ہے اسی طرح  فلکیات دان بننے کے شوقین  مکمل کامیابی کے ساتھ اپنے کریڈٹ کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے سیاروں کی کھوج کر لیتے ہیں (تفنن برطرف  کوئی بھی ایسا نہیں کرتا)۔صرف قلیل بجٹ کی بات نہیں تھی ، اگرچہ بڑے مرغے جیسا کہ ناسا اور یورپین اسپیس ایجنسی  اس دوڑ میں شامل ہونے کے لئے زیادہ انتظار نہیں کر سکتے تھے ۔ اگرچہ  عبوری شکار کا طریقہ محدود بجٹ میں رہ کر بھی بنایا جا سکتا ہے ، بڑے اداروں کو اصل فائدہ یہ ہے کہ  وہ اپنے آلات کو خلاء میں لے جا سکتے ہیں ۔ ستارے زمین پر سے مشاہدہ کرتے ہوئے ٹمٹماتے ہوئے نظر آتے ہیں کیونکہ ہوا مستقل حرکت میں رہتی ہے ، اور وہ صرف ایک ہی سمت میں حرکت نہیں کرتی ، ہوا کی رو مختلف بلندیوں پر مختلف ہوتی ہے ۔ ہوا کی رو ایک طرح سے کثیر عدسوں کی طرح سے کام کرتی ہے  جو نقطے نما ستاروں کی شکل کو بدل دیتی ہے ، بعینہ ایسے جیسے کہ سورج کی روشنی سوئمنگ پول کی تلی میں کھیل کرتی ہے ۔ زیادہ تر جھلملاہٹ بلند تعدد ارتعاش (High Freuqncy)پر ہوتی ہے  - ایک سیکنڈ کے سینکڑویں  حصّہ میں ایک دفعہ ۔ اور جیسا کہ ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ کسی بھی زمین جیسے سیارے کا سورج جیسے ستارے کو عبور کرتے وقت پتا چلانا  عملی طور پر بڑی دوربینوں کا استعمال کرتے ہوئے بھی ناممکن ہے ۔ خلاء میں موجود دوربین کے اپنے مسائل ہیں  (اگرچہ ہبل خلائی دوربین نے ہمیں  یہ بتا دیا ہے کہ وہ  مشکلات بھی ناقابل تسخیر نہیں ہیں )، مگر چھوٹے سیاروں کو تلاش کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے ۔

 

 یوروپی پہلے سے ہی ایک منصوبہ بنائے ہوئے ہیں جو با  آسانی سیاروں کی تلاش میں کام آ سکتا ہے ۔ایصال حرارت(Convection) اور ستارے کے گھماؤ کو دیکھ کر  (جس کو کوروٹ یعنی سی او آر او ٹی  بھی کہتے ہیں ، اور یہ شہرہ آفاق تاثراتی مصوّر کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے )، دوربین ستاروں کی ہزار ہا تصاویر حاصل کر سکتی ہے ، جو تاثراتی تصاویر جیسے ہوں گی ، تاکہ ان کی سبک روشنی میں ہونے والی تبدیلی  کا مطالعہ کیا جا سکے۔ یہ ستاروں کے بارے میں بنیادی باتیں سمجھنے میں ہماری مدد کریں گی  جیسا کہ ان کا گھماؤ اور ان کے اندرونی ایصال حرارت ۔ ظاہر سی بات ہے کہ کوروٹ اس عمل کے دوران عبوری سیاروں کا سراغ لگانے کے لئے بہترین کام کر سکتی ہے اس کا نام  اب ایصال حرارت، گھماؤ اور عبور  کے الفاظ کا مخفف ہو گیا ہے جس کو انگریزی میں "سی او آر او ٹی"(  یعنی کوروٹ ) کہتے ہیں۔

 

اسی دوران شروع میں ہی  ناسا   نے ایک خلائی دوربین کی   مالی معاونت کرنے  کا موقع گنوا دیا تھا یہ دوربین صرف عبوری سیاروں کو دریافت کرنے کے لئے مخصوص ہوتی ، ایک ایسی دوربین جس کا مقصد زمین جیسے چھوٹے سیاروں کی دریافت کرنا ہوتا  اور یہ اس بات کا تعین بھی کرتی کہ ہمارے جیسے سیارے کائنات میں کتنے عام ہیں ۔ کیلی فورنیا میں واقع ناسا ایمز ریسرچ سینٹر کے ولیم بوروکی  (William Borucki) نے ادارے کو کافی قائل کرنے کی کوشش کی کہ اس کا تجربہ کامیاب ہوگا ۔ یہاں تک کہ اگر ہم کوئی زمین جیسا سیارہ دریافت بھی نہ  کر پائے تب بھی اس مہم کا فائدہ ہی ہوتا ۔ یعنی زمین  جیسے  عبوری سیارہ کی  دریافت نہ ہونے کا مطلب  اس بات کا ثابت ہونا ہوتا کہ  ہمارے جیسے سیارے کائنات میں نایاب ہیں۔ ناسا کے پینل نے اس کی تجویز کو رد کر دیا تھا، لیکن ١٩٩٩ء میں بل بوروکی نے دوبارہ سے اپنے عملے کو جمع کرکے اس کی تجویز پیش کی ؛ اس نے مجھے اور دوسرے درجنوں رفقائے کاروں کو اپنے ساتھ مل جانے کی دعوت دی ۔ڈوپلر منتقلی کے طریقے کو استعمال کرتے ہوئے کئی ماورائے شمس سیاروں کی کامیاب دریافت  ایک زبردست تحریک تھی ۔

 

ہرچند کہ  اس وقت میں نے اس مسئلہ پر کچھ زیادہ کام نہیں کیا تھا ، میں نے سب سے پہلے ایسے سیاروں کی دریافت پر١٩٩٩ء میں  اس وقت توجہ دی تھی ، جب ہمارے گروہ نے  مل کر ناسا کو ایک اختراعی قسم کی خلائی دوربین  بنانے کی تجویز پیش کی تھی  جس کا مقصد سیاروں کی کھوج تھا ،یہ گروہ زیادہ تر ہارورڈ –اسمتھ سونین سینٹر فار ایسٹرو فزکس  پر مشتمل تھا،  اور اس  میں زیادہ تر شاہد اور انجنیئر تھے ۔ اس دوربین میں گول کے بجائے مربع کی شکل  میں آئینے لگے ہوئے تھے ۔ میرے رفیق کار کوسٹاس پاپا لیولیوس(Costas Papaliolios) اور  پیٹر نیسن سن(Peter Nisenson) نے اس عجیب دوربین کو ڈیزائن کیا تھا تاکہ نجمی چمک کو زیادہ سے زیادہ حاصل کیا جا سکے   اس طرح سے  ستارے کے نزدیک سمٹے ہوئے سیارے کی جھلک مل سکتی ہے ۔ بیس ماہرین کی ٹیم کے ساتھ ہم نے ایک مفصل سائنٹفک انجینئرنگ کی تجویز پیش کی جس کی رہنمائی ہمارے تجربہ کار خلائی مہم کے سائنس دان گیری میلنک  (Gary Melnick) کر رہے تھے ۔

 

اس ٹیم میں میری ذمہ داری  اس بات کی تلاش تھی کہ ہماری دوربین کس قسم کے سیاروں کو دریافت کر سکتی ہے ۔ اس وقت ایسا لگتا تھا کہ عظیم ارض ہماری پہنچ میں ہیں ۔(میں مختصراً ان کو عظیم ارض اور عظیم زہرہ کہنا پسند کرتا تھا، کیونکہ فلکیات کی دنیا میں "عظیم " صفت نئی دریافت یا کسی ایسے جسم کا تصوّر کرنا جو حجم میں بہت ہی زیادہ بڑا ہو یا توانائی جو معلوم توانائی سے کہیں زیادہ ہو کے آگے لگانے کی ریت تھی  ۔ مثال کے طور پر ستارے جو جسیم ستاروں سے بڑے ہوتے ہیں  ان کو عظیم دیو ہیکل کہتے ہیں ، اسی طرح سے وہ دھماکے جو نوتارے سے بڑے ہوں ان کو عظیم نوتارا (یا سپرنووا ) کہتے ہیں اور اسی طرح علی ہذا القیاس۔) یہ مختصر نام چپک ہی گیا جیسا کہ آپ نے پہلے ہی اندازہ لگا لیا ہوگا۔

 

آخر کار دسمبر ٢٠٠١ء، ایک مشن جو اب کیپلر مشن کے نام سے جانا جاتا ہے  منظور ہوا۔ مارچ ٢٠٠٩ء میں سات سال کے بعد کیپلر کو کیپ کنویرل سے خلاء میں بھیجا گیا  جو فلوریڈا میں واقع ہے جس نے دو مہینے بعد زمین پر تصویروں  کو بھیجنا اور انتہائی نفاست سے  ان ستاروں اور سیاروں کو ناپنا شروع کیا   جو ہم سے سینکڑوں برس کی دوری پر تھے۔ کیپلر ناسا کا پہلا مشن تھا جس میں اس بات کی اہلیت تھی کہ وہ زمین کے حجم اور چھوٹے سیاروں کو سورج جیسے  ستاروں کے گرد قابل رہائش حصّوں میں ڈھونڈ سکے (یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر ہم بعد میں بات کریں گے )۔ یہ ایک  مناسب اوسط درجے کی دوربین ہے ، اس کا حجم ہبل سے آدھا ہے ، مگر اس میں موجود عدسے زیادہ بڑی منظر کشی  سب سے بڑے کیمرے کی مدد سے کر سکتے ہیں ۔ یہ کیمرہ  ناسا کی  کسی بھی سائنسی مہم میں استعمال ہونے والا  اب تک کا  سب سے بڑا کیمرہ ہے  - ایک ٩٥ میگا پکسل کا عفریت جو لاکھوں ستاروں کی تصویر ایک ہی دفعہ اتار سکتا ہے ۔

  

ناسا کا کیپلر مشن عبوری طریقے کو استعمال کرتے ہوئی زمین جیسے حجم کے اور اسی جیسے مدار میں موجود سیاروں کو دریافت کرے گا ۔ اس مہم کا مقصد منظم اور جامع  طریقے سے کام کرنا ہے تاکہ ہم اس بات کی تلاش کر سکیں کہ کتنے ستاروں کے گرد زمین جیسے سیارے موجود ہیں ۔ اس مہم کو اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ معیاری عبوری طریقے کو    غیر متوقع چیزوں سے بچاتے  ہوئے  ایک جامع اور انتہائی محتاط دو لاکھ ستاروں پر مشتمل فہرست کو سیاروں کی تلاش کے لئے کھنگالا جائے ۔ اس دوربین کو بنانے کے لئے کئی برسوں کی کڑی محنت کی گئی ہے تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل ہوں ۔ شروع  کے چند مہینوں میں ان میں سے زیادہ تر کو دیکھ لینے کے بعد، کیپلر کو ایک لاکھ سے ایک لاکھ بیس ہزار ستاروں کو دیکھنے کے لئے تقریباً تین سے چار برسوں کے لئے   ٹھہرا دیا۔ تمام جدید کام کا مطلب تھا کہ کیپلر کی ضیا پیمائی کے نتیجے میں حاصل ہونے والے امیدوار سیاروں کے ہمیں بہت ہی کم غلط اشارے ملیں گے ؛ کیپلر کی ٹیم میں موجود ہم لوگوں نے ایک منصوبہ ترتیب دیا تھا کہ کس طرح سے ہم غلط اشاروں کو اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے الگ کریں گے جو ہم نے اوگل فہرست کے لئے اپنایا تھا ، جیسا کہ میں لکھ رہا ہوں ہمارے طریقہ کار کامیاب ہو رہا تھا ؛ ہماری ابتدائی آزمائش نے بتایا کہ غلط اشاروں کی تعداد بہت ہی کم تھی ۔

 

 آخر کار عبوری طریقہ سیاروں کی دریافت کے لئے انتہائی کامیاب ثابت ہو رہا تھا ، ان سیاروں میں زمین جیسے قابل قدر سیارے بھی شامل تھے ۔ عبوری سیارے ہمارے لئے کم عرصہ  میں تجزیہ کرنے کے لئے  سب سے زیادہ بہترین تھے۔ ان کی درست کمیت اور حجم معلوم ہونے کی وجہ سے  ہم ان کے انبار کے اجزاء کو ان کی اوسط کمیت سے نکال سکتے تھے ۔ مزید براں یہ کہ عبور کا مشاہدہ کرتے ہوئے  ہم دور بیٹھ کر بھی سیارے کے ماحول کا تجزیہ کر سکتے تھے ۔عبوری مدت کے دوران ، ستارے کی روشنی سیارے کے ماحول سے رنگدار ہو جاتی ہے ؛ ہم اس وقت کے طیف کو  سیارے کے اس وقت کے طیف سے مماثل کر سکتے تھے جب وہ ستارے کو عبور نہیں کر رہا ہو  اور ہم طیف نگار کے فن کے استعمال سے سیارے کے ماحول میں موجود  کیمیائی اجزاء جیسا کہ  پانی ، میتھین یا کاربن ڈائی آکسائڈ   کو شناخت کر سکتے تھے ۔

 

تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ۔ اہمیت کے اعتبار سے  پراسرار متوازیت سترویں صدی میں پہلے پہل  مشاہدے کیے گئے عطارد اور زہرہ کے عبور اور آج کے دور کے  پہلے ماورائے شمس سیارے کے عبور کے مشاہدے میں موجود ہے ۔آج، جیسا کہ سترویں صدی میں  ہوا تھا کہ  پہلے عبوری مشاہدے نے ایک بڑے نئے تصوّر پر کسی بھی باقی رہنے والے شک  کو زائل کیا تھا۔ آج ، جیسا کہ سترویں صدی میں ہوا تھا ،  ویسے بھی پہلے  عبوری مشاہدے نے غیر معمولی نتائج دیئے تھے ۔ آج ، جیسا کہ سترویں صدی میں ہوا تھا، پہلے عبوری مشاہدے نے عبور طریقے کے مستقبل کے استعمال کے نئے دریچے کھول دیئے ہیں ۔ شاید فرق صرف اتنا ہوگا  کہ  پچھلے دور میں عبوری طریقے کا فائدہ اٹھانے میں پوری ایک صدی  لگ گئی تھی جبکہ ، ہم نے پہلے ہی سے فائدہ اٹھانا شروع کر دیا ہے ۔

  

یہ کوئی اتفاق نہیں تھا  کہ جو ہا نز کیپلر (Johannes Kepler)جو ایک فلکیات دان ، ریاضی دان ،  پیش گو  اور  صوفی تھا اس کا نام نئی دنیاؤں کی کھوج کی  اس مہم کو دیا گیا ۔ اس نے ان قوانین کو دریافت کیا تھا جو سیاروں کی حرکت کو بیان کرتے ہیں ، اس کے لکھے ہوئے قوانین کو ہم آج بھی ناسا کی کیپلر دوربین سے دریافت کیے ہوئے سیاروں کے مداروں کا  حساب لگانے میں استعمال کرتے ہیں۔ لیکن بس یہ ہی کافی نہیں ہے ۔ ایک حقیقت جو زیادہ تر لوگ نہیں جانتے وہ یہ ہے کہ جو ہا نز کیپلر  وہ پہلا شخص تھا  جس نے انتہائی درستگی کے ساتھ عطارد اور زہرہ کے عبور کی پیش گوئی کی تھی ۔

 

جو ہا نز کیپلر نے یہ عبور کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ وہ اپنے پہلے عبور کی پیش گوئی کو دیکھنے سے صرف ایک سال پہلے ہی وفات پا گیا تھا ، جو عطارد کا ١٦٣١ء میں ہوا تھا ۔ لیکن کم از کم ایک فلکیات دان ، پیری گیسنڈی  (Pierre Gassendi)نے کیپلر کی پکار پر توجہ دی  اور پیرس سے اس نے ٧ نومبر ١٦٣١ء میں اس عبور کا مشاہدہ کیا ۔

 

پیرس میں نومبر کا  مہینہ اکثر ابر آلود رہتا ہے ، ایک دن پہلے ہی  گیسنڈی کو بارش اور بادلوں نے گھیر لیا تھا ۔ اس نے سورج کا مشاہدہ کرنے کا منصوبہ عبور کی   پیش گوئی کیے ہوئے وقت سے پہلے اور بعد میں کرنے کا فیصلہ کیا ، کیونکہ کیپلر نے اپنے حساب کتاب میں کافی زیادہ غیر یقینی کو درج کیا ہوا تھا ۔ ٧ نومبر کی صبح تھوڑی دیر کے لئے مطلع صاف ہوا اور گیسنڈی نے چھوٹا کالا عطارد کا نقطہ شمسی قرص پر دیکھا ۔ وہ سورج کا عکس ایک سفید اسکرین پر ڈال رہا تھا  بعینہ ایسے جیسے کہ آج کل عوام الناس  گھر پر سورج کو دیکھنے کے لئے کرتے ہیں ۔ گیسنڈی اس بات سے باخبر تھا کہ کس طرح سے سورج کے تاریک دھبوں کو عطارد کے گہرے دھبے سے الگ کیا جاتا ہے ۔ صرف بیس برس قبل ہی گلیلیو گلیلی نے اپنی نئی دوربین سے سورج کے ان دھبوں کو دریافت کیا تھا  کہ وہ کسی طرح سے حرکت کرتے اور تبدیل ہوتے ہیں ؛ گیسنڈی گلیلیو اور اس کے تجرباتی طریقوں  کا ایک پرجوش پیرو  تھا  اور اس بات کو جانتا تھا کہ عطارد کے ننھے نقطے کو اس کے مدار کا پیچھا کر کے دیکھا جا سکتا ہے ۔

 

١٦٣١ء میں ہونے والی عطارد کا عبور کافی ساری وجوہات کی وجہ سے  اہم تھا۔ اگرچہ زیادہ تر عالموں نے کوپرنیکن انقلاب  کو  قبول کر لیا تھا  تاہم پھر بھی کچھ لوگ ایسے تھے  جنہوں نے  ایسا نہیں کیا تھا ۔  الغرض روم میں  ہوئی جیورڈانو  برنو(Giordano Bruno) کی موت کے صرف تیس برس ہی گزرے تھے،  جبکہ گلیلیو کی سرکاری تفتیش تو ابھی تازہ تازہ تھی ۔ عبور  شمس مرکزی نظام کے ایک اور کامیاب  ثبوت تھا، اسی طرح سے گلیلیو کا مشاہدہ زہرہ  کی  ١٦٠٩ء میں رویت  تھا ۔ کیپلر کے عبور کے وقت سے متعلق پیش گوئی  گھنٹوں کے حساب سے انتہائی درست تھی ، جو اس دور کے لحاظ سے ایک انتہائی حیرت انگیز بات تھی  اور کوپرنیکن کے نظام کی کامیابی  اور اس کے پیش بینی کی طاقت کا مظہر تھی ۔

 

بہرحال ، جو حیرت انگیز بات کیپلر اور گیسنڈی کے عطارد اور زہرہ کے عبور کی تھی وہ براہ راست ان سیاروں یا کسی بھی دوسرے سیاروں کے حجم کو ناپنے کا موقع تھا اور یہ بہت اہم  بات تھی ۔ کیپلر سمجھتا تھا کہ اس نے ایک اور قانون دریافت کر لیا تھا  یعنی کہ سیارے کی ضخامت  اس کے سورج کے فاصلے کی نسبت سے راست تناسب سے  ہوتی ہے ۔ سیاروں کے مدار میں حرکت کے قانون کے برخلاف  یہ کسی شہادت پر مبنی نہیں تھا  بلکہ  یہ راست تناسب کی ہم آہنگی  پر انحصار کرتا ہے  جو کیپلر کے عالمگیری منظر نامے ، کرۂ کی ہم آہنگی کا حصّہ تھا ۔

 

گیسنڈی  اس بات سے باخبر تھا اور ننھے سے عطارد کو دیکھ کر بہت زیادہ حیرت زدہ تھا ۔ بہرحال وہ پہلے سے ہی تیار تھا  اور اس نے انتہائی درستگی کے ساتھ اس کی پیمائش کی  اور اس کو انتہائی ذمہ داری کے ساتھ متشکک  سامعین کے سامنے گوش گزار کردی ۔ کیپلر کے سیاروں کے ضخامت کے قانون ہم آہنگی  نے عطارد اور زہرہ کے حجم کا تخمینہ  بہت زیادہ  جبکہ مشتری اور زحل  کے حجم کا  تخمینہ بہت کم لگایا تھا لیکن  اس دور کے عالم کیپلر کے لگائے گئے حساب کو غلط ماننے کو تیار نہیں تھے ۔ آٹھ سال بعد جب زہرہ کو پہلی دفعہ عبور کرتے ہوئے پایا گیا  تو وہ ہی حیرت زدہ چیز ویسے ہی موجود تھی ۔ وہ امیدوں کے برخلاف بہت ہی چھوٹا پایا گیا  اور اس وقت کے عالموں نے جان لیا کہ سیاروں کے حجم اور مدار سختی کے ساتھ ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے ۔

 

جب تپتے ہوئے  مشتری سیارہ HD 209458b کو اپنے ستارے کو عبور کرتے وقت  ١٩٩٩ء میں مشاہدہ کیا گیا، تو کچھ متشکک لوگوں نے اس بات کی بحث کی تھی کہ نئے ڈگمگاتے ہوئے ستارے شاید سیاروں کے بجائے کسی دوسری چیزوں کے مظہر ہوتے ہیں ۔ مگر HD 209458b سیارے کے عبور نے ایک ہی دفعہ سارے شکوک و شبہات کو ہمیشہ کے لئے  ختم کر دیا۔ لیکن مشاہدہ  نے ایک حیرت زدہ حقیقت(جیسے کہ ١٦٣١ء میں عطارد  نے ) سیارے کے حجم  کے بارے میں منکشف کی ، سیارے کا حجم اس کی امید سے کہیں زیادہ تھا یعنی کہ وہ مشتری کے حجم کا تھا ۔

 

دس برس بعد پھولا ہوئے  قطر  کےسیارے HD 209458b اور دوسرے درجن بھر سیاروں کا ، ایک معمہ بنا رہا ۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا تھا کہ مشتری کے وزن جیسے سیارے ہائیڈروجن اور ہیلیئم سے بنے ہوتے ہیں ۔ ہائیڈروجن اور ہیلیئم جو کائنات کی سب سے ہلکی گیسیں ہیں ، ان کو لے کر کوئی بھی سیارہ ایک خاص حد تک اپنا  حجم ، گیسوں کو اپنے وزن سے دبا کر حاصل کر سکتا  ہے ۔ کسی بھی بھاری عنصر کی موجودگی جیسا کہ آکسیجن یا دھاتیں  سیارے کو سکڑنے پر مجبور کر دیتی ہیں ۔

 

مشتری اور زحل اس نظریہ کے تابع ہیں ، لہٰذا یہ بات نہایت ہی حیرت انگیز تھی کہ کئی ماورائے شمس سیارے جو مشتری جیسے ہیں وہ اس سے ٣٠ سے لے کر ٥٠ فیصد  حجم میں بڑے ہیں ۔اگرچہ ایک غیر متوقع صورتحال میں جب وہ خالص ہائیڈروجن سے بنے ہوں ، ان کا یہ حجم صرف ایک مسلسل اندرونی حرارت کے منبع کی بدولت ہی بیان کیا جا سکتا ہے۔ تپتے ہوئے مشتری  بہت ہی زیادہ گرم ہوتے ہیں  لیکن سائنس دان اس بات کی وجہ بیان کرنے میں ناکام رہے ہیں  کہ ان کی توانائی کا منبع آخر  کہاں پر ہو تا ہے ۔ ایک دفعہ ہم عبوری مشتریوں کو کیپلر کی دوربین کے ذریعہ مختلف قسم کے مداروں میں اپنے ستاروں سے دور تلاش کر کے ان کے نصف قطر کو ناپ لیں  اس کے بعد ہم اس سراغ کے بارے میں خوشہ چینی کر سکیں گے  جو ان تپتے ہوئے مشتریوں  کو اس طرح سے اتنا زیادہ پھلاتا  ہے۔

جوہانز کیپلر نے  عطارد اور زہرہ کے عبور میں ایک اور غلطی کی تھی : اس نے صرف ایک زہرہ کے عبوری جوڑےکا  سترویں صدی میں اندازہ لگایا تھا۔ کیپلر نے زہرہ کے عبور کا اندازہ ٦ دسمبر ١٦٣١ء کو لگایا تھا  جو عطارد کے نقش قدم پر ایک مہینے کے بعد تھا ۔ ہمارے پیرس میں موجود دوست پیری گیسنڈی  نے لگا تار تین دن تک سورج کا مشاہدہ کیا  مگر سب بیکار گیا ۔ یہ اس کی غلطی نہیں تھی : یہ عبور صرف مغربی نصف کرۂ میں دکھائی دیتا  جیسا کہ کیپلر نے ٹھیک اندازہ لگایا تھا ۔ جس چیز کا کیپلر اندازہ لگانے میں ناکام رہا تھا  وہ یہ تھا کہ آٹھ سال کے بعد ٤ دسمبر ١٦٣٩ء  میں زہرہ ایک دفعہ پھر سے عبور کرتا اور اس دفعہ یہ  یورپ میں دکھائی دیتا۔ ایک نوجوان انگریز  جیرمیاه  ہوروکس(Jeremiah Horrocks)  نے کیپلر کی غلطی کو پکڑا اور زہرہ کو عبور کرتے ہوئے سب سے پہلے دیکھا ۔

 

 ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک سولہ برس کا ہوروکس  کیپلر سے ایک بہتر سیاروی حساب  لگا سکتا تھا جو بابائے  قوانین مدرتھا ، ؟ اس کا جواب  فلکیاتی اکائی (سورج سے زمین کا فاصلہ )کی پیمائش  میں موجود تھا  جو زہرہ کے عبور کے ایک صدی بعد دریافت ہوا تھا۔ کیپلر کے دور میں یہ فاصلہ معلوم نہیں تھا ، صرف تخمینہ جات موجود تھے اور کیپلر نے ایک مختصر فاصلہ لے کر حساب لگایا تھا ۔ لہٰذا زمین پر موجود  ایک شاہد کے لئے  ٤ دسمبر ١٦٣٩ء کو زہرہ کا مخالف زاویہ بہت زیادہ بڑا تھا اور کیپلر نے اندازہ لگایا کہ زہرہ سورج   کے سامنے سے گزرنے کے بجائے اس سے ہلکا سا دور ہوتا ہوا گزر جائے گا۔ ہوروک نے نئے چھپے ہوئے جدول کی مدد سے دوبارہ حساب لگایا  جس میں سورج سے زمین کا فاصلہ زیادہ  لمبا بیان کیا ہوا تھا ۔ یوں اس طرح  اس نے عبور کو پا لیا تھا !

 

اس چھوٹی سی حکایت نے ایک اہم حقیقت کو بیان کیا ہے  - کیپلر کے قوانین درست اور ٹھیک تھے ،  تاہم یہ  وہ نسبت دیتے ہیں کہ ایک سیارے  کے مدار  سے کس طرح  سے دوسرے سیارے کا مدار ناپا جا سکتا ہے ۔ اصل (مطلق) فاصلے کو  حاصل کرنے کے لئے  (مثلاً  جیسے کہ کلومیٹر ) ہمیں کم از کم ایک مدار کو اسی قدر میں جاننا لازمی ہے ۔ لہٰذا اگر ہم فلکیاتی اکائی کو جانتے ہیں، تو اس کا استعمال کرتے ہوئے ہم نظام شمسی میں موجود تمام سیاروں کا فاصلہ جان سکتے ہیں۔ آج  فلکیاتی اکائی کی درست پیمائش کو جاننا بہت اہم ہے کیونکہ اس سے ہم دوسرے ستاروں اور ان کے سیاروں کا فاصلہ ناپ سکتے ہیں ۔

               

ہوروک کےزہرہ کے عبور کے  مشاہدے کے پچیس سال بعد ، اسکاٹ لینڈ میں موجد جیمز گریگوری (James Gregory) نے فلکیاتی اکائی کو درستگی سے ناپنے کے لئے عبور کو استعمال کرنے کی تجویز دی ۔ اسی دوران ، درست راستے کی نشاندہی  اس دور کی شاہی قوّت کے لئے تزویراتی  اہمیت کی حامل بن گئی تھی۔ فلکیاتی جدول  کی درستگی فلکیاتی اکائی پر منحصر ہے اور فلکیاتی جدول  کی حیثیت  درست راستے کو ناپنے کے لئے مرکزی ہے ۔١٧٦١ء اور ١٧٦٩ء میں زہرہ کے عبور کا معاملہ پیرس کے اپارٹمنٹ میں  موجود  وقتی فلکیات دان یا انگلستان کے کسی گاؤں کے گھر والے کے ہاتھ میں نہیں رہا تھا ۔ زہرہ کے عبور کا تعاقب کرنا اب بین الاقوامی مقابلہ بن گیا تھا ۔

  

اٹھارویں صدی میں زہرہ کے عبور کی اہمیت  کا احساس کرنے کے لئے  ان لوگوں کو دیکھیں جو  اس میں ملوث تھے اور ان کی مہمات   کو عالمگیر سطح پر مالی تعاون حاصل تھا ۔ چارلس میسن(Charles Mason) اور جیرمیاه ڈکسن(Jeremiah Dixon) ، جو بعد میں شہرہ آفاق میسن –ڈکسن سرحد پنسلوانیا اور میری لینڈ  کے درمیان  کھنچنے کے لئے گئے ، انہوں نے برطانیہ کی عبور کو ناپنے کی پہلی مہم کی رہنمائی کی۔ کپتان جیمز کک نے دوسرے برطانوی عبور کو ناپنے کی رہنمائی کی  اور بعد میں بحرالکاہل کے کافی حصّے کی کھوج کی مہم پر گیا ۔

 

 عطارد اور زہرہ کے عبور نے اپنی عملی اہمیت اکیسویں صدی میں کھو دی ۔ بہرحال ہمارے جہاز اب بھی بندرگاہیں چھوڑتے وقت اور  اوپر خلاء میں خلائی سیاروں کے لئے بھی  عبور کا تعاقب کرتے ہیں۔ جوہا نز کیپلر اس بات کو جان کر یقینی طور پر خوش ہوتا کہ ان  خلائی دوربینوں میں سے ایک اس کے نام پر رکھی گئی ہے ۔ کپتان کک اس کو شاباش اور ہمیں نئے جہانوں کی کھوج کے لئے ترغیب دیتا ۔ 

باب پنجم - فوق ارض - ایک نئی قسم کا سیارہ

باب پنجم

 

فوق  ارض  - ایک نئی قسم کا سیارہ

 

ہمیں اپنے کرۂ ارض سے الفت ہے ۔ ہمیں ہونی بھی چاہئے  - یہ ہمارا گھر ہے  اور اس جیسی کوئی بھی دوسری جگہ نہیں ہے۔ کوئی بھی جگہ کرۂ ارض سے بہتر نہیں ہو سکتی۔ اس قسم کے نظریوں کی زبردست جذباتی انداز میں حمایت کرتا ہوا سنجیدہ سائنسی مواد بھرا ہوا ہے۔ اس کو اکثر "گولڈی لاکس کا نظریہ"(Goldilocks hypothesis)کہتے ہیں : کرۂ ارض بالکل مناسب  حجم کی ہے (نہ زیادہ بڑی ، نہ زیادہ چھوٹی ) اور اس کا درجہ حرارت بھی بالکل مناسب ہے (نہ زیادہ گرم ، نہ زیادہ سرد ) تمام چیزیں حیات کی شروعات کے لئے انتہائی ضروری ہیں۔ حیات ایک نایاب چیز ہے۔ ہمارے چھوٹے سیارے پر زیست کے  بسیرے کے علاوہ ہم نے ابھی تک کوئی بھی دوسری جگہ نہیں دیکھی ہے جہاں ہم یقین کے ساتھ حیات کے  موجود ہونے  کا کہہ سکیں۔ تو کیا  زمین کا کائنات میں مرکزی حیثیت  کا نظریہ درست ہے۔ کیا ایسا ہی ہے ؟

حیات ایک دفعہ کل پرزے نکال لے تو اس کے بعد وہ بہت ہی زیادہ لچک دار بن جاتی ہے ، لیکن پہلی مرتبہ نمو  کے لئے اس کو زرخیز کیمیا، توانائی کے بڑے ذرائع اور تسلسل  کی ابتداء ہی سے  ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے نظام شمسی کی سیارہ شناسی کرنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ ابتدائی حالت کا سازگار ہونا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ کرۂ ارض بے عیب لگتی  ہے جبکہ دوسرے سیاروں میں نقائص پائے جاتے ہیں۔ مریخ چھوٹا ہے ، پانی اور کرۂ فضائی کی کمی ہے  اور انتہائی سرد بھی ہے (اگرچہ ہم اب بھی پرامید ہیں کہ وہاں پر کسی قسم کی حیات کا پا لیں گے )۔ مشتری بہت زیادہ بڑا ہے ، اس کا کچل دینے والا دباؤ اور  عناصر کی کمی والا ماحول  دلچسپ کیمیا کو بنانے سے یکسر قاصر ہے۔ ایسے کسی بھی مماثلت والے تجزیہ کے ساتھ جو مسئلہ  جڑا ہے وہ یہ ہے   کہ یہ ان اہم سیاروں کی جماعت کو چھوڑ دیتے ہیں  جو خالص   اتفاق سے وجود میں آ جاتے ہیں اور ایسے سیارے ہمارے نظام شمسی میں موجود نہیں ہیں۔

فوق ارض  موجود ہیں ، جن کو ہم اگلے باب میں تفصیل سے زیر بحث کریں گے۔ فوق ارض ایک ایسا سیارہ ہوتا ہے  جو کرۂ ارض کے مقابلے میں زیادہ ضخیم اور بڑا ہوتا ہے، وہ چٹان سے ہی بنا ہوا ہوتا ہے  -  اور شاید اس میں بر اعظم ، سمندر  اور کرۂ فضائی بھی موجود ہوتا ہے۔ ایسا کوئی بھی سیارہ ہمارے نظام شمسی میں موجود نہیں ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ دوسرے نظام ہائے شمسی میں عام پائے جاتے ہیں۔مزید براں نظریہ اس بات کا عندیہ دے رہا ہے کہ ایسے  کسی سیارے میں کرۂ ارض کی تمام اچھی خصوصیات موجود ہو سکتی ہیں ، بلکہ درحقیقت اس کی سطح پر ہم سے زیادہ پائیدار ماحول موجود ہوگا۔ وہ  اصلی فوق ارض ہوں گے!

فوق ارض ایک ایسا سیارہ ہوتا ہے  جس کو اس کی کمیت کے حساب سے بیان کیا جاتا ہے  - جو ایک سے لے کر دس ایم ای (جس میں ایم ای ، زمینی کمیت کا مخفف ہے )۔زمین کی کمیت ٦٣١٠ ^٢٤ کلوگرام یا ٦ کے ساتھ ٢٤ صفر لگا دیں ، تو  اتنی ہے۔ یہ واقعی بہت زیادہ ہے ، مگر سورج کی کمیت زمین سے دس لاکھ گنا زیادہ ہے۔ یہ اتنی زیادہ کمیت ہے کہ ہماری عقلیں جواب دے جاتی ہیں۔

 

میں فوق ارض  کو زمین کی کمیت کے دس گنا تک محدود کرتا ہوں اس  کی کافی  ساری وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے تو ہم نے ابھی تک اس حد سے بڑا کوئی بھی فوق ارضی سیارہ نہیں دیکھا ہے۔ ہمیں درجنوں چھوٹے ماورائے شمس سیاروں کی اس حد سے زیادہ اوسط کمیت بھی معلوم ہے ، اس میں سے زیادہ تر گیس اور برف سے بنے ہوئے ہیں  جیسا کہ نیپچون۔ دوسرے جب سیارے کسی بھی ابتدائی سیاروی قرص میں بننے شروع ہوتے ہیں (جیسا کہ خاکہ 1.1 میں دکھایا ہے )، دس ایم ای ایک ایسی حد فاصل(Critical Limit) کی کمیت ہے  جس میں ہائیڈروجن گیس سیارے میں جمع ہوجاتی ہے اور بڑھتے ہوئے سیارہ میں ہی موجود رہتی ہے  یوں وہ سیارے کو نیپچون جیسا دیو ہیکل سیارہ بنا دیتی ہے۔ بلاشبہ  اس وقت یہ حد ابھی تک صرف تخمینہ جات ہی ہیں  اور اوپری حد فوق ارض کی کمیت کے دس سے بیس ایم ای کے درمیان ہو سکتی ہے۔

 

پہلا فوق ارض ٢٠٠٥ء میں یوجینو  ریورا (Eugenio Rivera)، جیک لیزور(Jack Lissauer)  اور کیلی فورنیا – کارنیگی  ٹیم کی مشترکہ کاوشوں سے خوش قسمتی سے دریافت ہو گیا تھا۔ وہ ایک چھوٹے ستارے گلیز ٨٧٦ کے گرد چکر لگا رہا تھا اور لگ بھگ زمین سے سات گنا زیادہ ضخیم تھا۔ وہ بہت زیادہ گرم تھا کیونکہ اس کا مدار اپنے ستارے سے بہت ہی زیادہ نزدیک تھا  صرف نجمی نصف قطر کے ٧ گنا یا  سترہ لاکھ کلو میٹر دور !(سورج سے عطارد کے فاصلے کے مقابلے میں یہ صرف تین فیصد ہے۔) ایک اور تھوڑا ٹھنڈا فوق  ارض جو پانچ ایم ای کا تھا وہ جے پی بیولیو(J. P. Beaulieu)  اور اس کی پیرس انسٹیٹیوٹ آف ایسٹرو فزکس کی ٹیم نے ثقلی عدسے کے طریقے کا استعمال کرتے ہوئے  کیا تھا۔ اس طریقے کو ہم باب سوم میں بیان کر چکے ہیں۔ ٢٠٠٧ء کے شروع میں جنیوا میں مچل میئر کی ٹیم نے کم از کم تین سیارے جو گلیز ٥٨١ کے گرد مدار میں موجود تھے ان کو دریافت کیا ، ان میں سے دو فوق ارض تھے  جن میں سے ہر ایک کی کمیت کم سے کم پانچ اور آٹھ ایم ای  تھی  اور یہ زمین کے سورج کے فاصلے کے مقابلے میں ساتھ فیصد سے لے کر پچیس فیصد تک کے فاصلے میں بلترتیب   چکر لگا رہے تھے۔ ایک سال کے بعد ہی اسی ٹیم نے کئی اور فوق ارضی سیاروں کی دریافت کا اعلان کیا جن میں سے کچھ اتنے بڑے اور گرم ستاروں کے گرد چکر لگا رہے تھے جتنا کہ ہمارا سورج ہے۔ سب سے پہلا عبوری فوق ارض سیارہ کوروٹ خلائی مہم نے ٢٠٠٩ء میں دریافت کیا :کوروٹ  ٧ ب ، بہت ہی چھوٹا گرم سیارہ شاید گلیز ٨٧٦ جیسا ہی تھا۔

  

ایسے سیاروں کے براہ راست مشاہدے  کا بہت ہی کم موقع ملتا ہے ،اور جب موقع ملتا ہے  تب بھی  سیارے کی کمیت اور مدار کے ساتھ دوسری چیزوں کے بارے میں حسیاتی طور پر بہت ہی کم معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ لہٰذا سائنس دانوں نے ان  سیاروں کی ساخت کے بارے میں نظریوں کی مدد سے جواب حاصل کرنے شروع کر دیئے۔ فلکی طبیعیات دان اور سیاروی   سائنس کے عملی سائنس دان "نظریہ " اس کو کہتے ہیں  جس میں تجربات اور مشاہدات سے حاصل کردہ نتائج  کو بیان کرنے اور ان دیکھے اجسام و مظاہر کے بارے میں پیش گوئی کرنے کی تحقیق کی جاتی ہے ۔(یہ ایک مختصر راستہ ہوتا ہے اور اس کو سائنسی نظریہ کے ساتھ ملا کر  گڈ مڈ نہ کیا جائے ، جس میں نیوٹن کے میکانیات کے قوانین  استعمال کیے جاتے ہیں جو اتنے مستحکم ہیں  کہ ہم ان کو قدرتی قوانین کے ہم پلہ ہی  سمجھتے ہیں۔) نظری وہ سائنس دان ہوتے ہیں جو نہ تو تجربات اور نہ ہی مشاہدہ کرتے ہیں۔ ماضی میں وہ پنسل اور کاغذ سے کام چلاتے تھے ، تاہم  حالیہ دور میں وہ کمپیوٹر کی اسکرین پر نظریں جمائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ وہ کسی عمل کا نمونہ بناتے ہیں یا ریاضی کی مساوات کو حل کرکے کسی بھی جسم کی خصوصیات کا حساب لگاتے ہیں اور پھر اسے بیان کرتے ہیں۔ سائنس کی تاریخ میں ، البرٹ آئن سٹائن  (Albert Einstein)اور اسٹیفن ہاکنگ(Stephen Hawking)  نظری ہیں ، ارنسٹ ردر فورڈ(Ernest Rutherford)  تجرباتی سائنس دان تھا ، ایڈون ہبل (Edwin Hubble)ایک شاہد تھا۔ کبھی کبھی ان کے درمیان  یہ تمیز کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

      

اگرچہ مشاہدات کی ایک حد ہوتی ہے ، سائنس دان نظریاتی نمونوں کو کمپیوٹر کی مدد سے تیار کرکے فوق ارض پر تحقیق کر سکتے ہیں ، تاکہ بعد میں اپنی اس تحقیق کو مشاہدے کی کسوٹی پر پرکھ سکیں۔ تخمینے اور مشاہدے کا مقابلہ کرکے  ہم اپنے نمونے کو اور بہتر کر سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ہم غیر معمولی سیاروں کے بارے میں زیادہ بہتر طور پر جان سکتے ہیں۔ جس طرح سے سائنس نے  زمین کے اندرون  اور نظام شمسی کے دوسرے سیاروں کے بارے میں پچھلے سو برسوں سے بھی کم عرصے  میں مطالعہ کیا ہے یہ اس  سے کچھ زیادہ الگ نہیں ہے۔ در حقیقت  ہماری مشتری جیسے ماورائے شمس سیاروں کے بارے میں حاصل کردہ معلومات ، ١٩٥٠ء کے عشرے میں مشتری کے بارے میں موجود معلومات کے برابر ہے۔

 

نظریہ کاروں نے ٢٠٠٤ء سے  اس قسم کی جدوجہد فوق ارض کے بارے میں شروع کی ہے۔ ٢٠٠٤ء  سے پہلے نظریاتی طور پر اس کا مطالعہ نہ کرنا صرف ان کی کوتاہی سے زیادہ کچھ اور نہیں ہے۔ نظریہ کار عام طور پر ان اجسام اور مظاہر کے اوپر کام کرتے ہیں جو پہلے سے موجود ہوں۔ وہ کیوں ایسی چیزوں پر وقت ضائع کریں جو فوری طور پر موجودنہ  ہوں؟

 

میں کیونکہ ایک نظریہ کار ہوں ، لہٰذا میں اپنی ذمہ داری کو قبول کرتا ہوں۔ جب ہارورڈ کے سیاروی سائنس دان رچرڈ او کونیل(Richard O’Connell) اور میں نے پہلی دفعہ کرۂ ارض جیسے کسی سیارے کے کمپیوٹر نمونے کے بارے میں بات کی تو وہ کوئی زیادہ مشکل کام نہیں لگا۔ ہم صرف متجسس ہی تھے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ ہم کچھ زیادہ ناامید نہیں ہوئے  - اس قسم کے بڑے چٹانی سیاروں کے نمونے تو درحقیقت میں بہت ہی  دلچسپ رہے تھے  اور سال کے آخر میں ڈائنا  ویلنشیا (Diana Valencia)، جو ایک سند یافتہ طالبعلم تھیں اور جن کو رک(Rick) نے اس منصوبے پر کام کرنے کے لئے رکھا تھا ، وہ ہمیں ایک مختصر جائزہ  امریکن جیو فزیکل یونین کی میٹنگ میں  دینے کے لئے تیار تھیں۔ مجھے اس وقت بھی شک تھا کہ کسی نے اس سے پہلے اس قسم کے نمونے پر زیادہ کام نہیں کیا ہوگا ، لہٰذا میں نے ڈائنا سے کہا کہ پریزنٹیشن دینے کے بعد اپنے رفقائے کاروں سے گفتگو کے دوران  زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ وہ بہت زیادہ  حوصلے کے ساتھ واپس آئی۔ لوگ اس میں کافی دلچسپی لے رہے تھے اور ابھی تک کسی کے پاس بھی ایسا کوئی نمونہ موجود نہیں تھا۔ واقعی ہم ایک نئی دنیا میں قدم رکھ رہے تھے!

 

فوق ارض کو تلاش کرنے کی میری  مسلسل تحریک تجرباتی کامیابی کے نتیجے میں اور زیادہ بڑھ گئی۔ اس تجربے میں وہی طریقہ استعمال کیا جس طریقے کو  عبوری سیاروں کو مرکزی ستاروں کو عبور کرنے کے دوران تلاش کرنے میں استعمال  کیا تھا۔ ماورائے شمس سیاروں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔  اور کیپلر کی آمد نے تو اس کام کو اور دلچسپ بنا دیا تھا۔

 

کیپلر کے مشن کی تیاری میں ٹیم کے ایک رکن کی حیثیت سے میں اس بات سے باخبر تھا کہ ہم نیپچون سے چھوٹے اور زمین سے بڑے سینکڑوں سیارے دریافت کرنے جا رہے ہیں ، اس کے باوجود ہمیں ان کی کمیت  اور نصف قطر کے بارے میں ابھی کچھ نہیں معلوم تھا کہ کیسے وہ ایک دوسرے سے نسبت  رکھتے ہیں۔( یہی وہ  مسئلہ تھا جو  مجھے رک او کونیل  کے پاس شروع میں  لے گیا جو  میرے رفیق تو تھے مگر اس سے پہلے وہ ہارورڈ ارتھ اینڈ پلانٹری سائنسز  ڈیپارٹمنٹ  میں تھے۔)

 

 کسی بھی چیز کو فوق ارض کہلانے کے لئے  دو پیمانے  جو ڈائنا، رک اور میں نے بنائے  وہ یہ تھے (١) ان کو ایک اور دس ایم ای کے درمیان ہونا چاہئے تھا (٢) ان کو زیادہ تر  ٹھوس چیزوں سے بنا ہونا چاہئے تھا (جیسا کہ برف اور چٹان )۔ یہ بوقلمونی کے لئے کوئی  بہت ہی  زبردست اجزائے ترکیبی نہیں تھی  اور یہ بات بھی سچ تھی کہ ہمارے بنائے گئے کچھ نمونے کافی زیادہ شناسا بھی تھے۔ بہرحال اکثریت ہم نے ایسے سیاروں کی  دیکھی  جو نئے اور اجنبی تھے۔

 

 چلیں شروعات ایک شناسا  سیارے سے کریں اس کے لئے ہمیں   زمین کے قلب تک کا سفر کرنا ہوگا ۔ چٹانی فوق ارض جیسا کہ خاکہ نمبر5.1 الف  میں دکھایا گیا ہے ایک اچھا خاکہ ہے جو بتا رہا ہے  کہ آگے کیا ہوگا۔

1فوق ارض کا اندرون۔ الٹی طرف کی تصویر (الف) چٹانی فوق ارض کے اندرون کے بارے میں بتاتی ہے جو ہمارے کرۂ ارض کے اندرون سے ملتا جلتا ہے ؛(ب) سمندری یا پانی کا فوق ارضی سیارہ  جہاں پر زیادہ تر پانی ٹھوس شکل میں ہے ۔

باہری پرت زیادہ تر ٹھوس ہوگی۔ وہ کس چیز سے بنی ہوگی اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ ہم کس جگہ پر موجود ہے۔ ہمارے اپنے سیارے  پر  ہم اگر اپنے سفر کا آغاز کیلی فورنیا سے شروع کریں ، تو پرت سیلیکا سے بھرپور ہوگی ، جیسا کہ گرینائیٹ  جو لگ بھگ بیس کلو میٹر گہری  ہوگی ۔ اگر ہم اپنا سفر بحرالکاہل  کی تہ سے شروع کریں جو  ہوائی کے جزیروں کے قریب ہے ، تو قشر  سنگ سیاہ کی چٹانیں ہوں گی ، جو سیلیکا سے کثیف    زبرجد  جیسی اور صرف پانچ کلو میٹر تک گہری ہو گی۔ زمین کے قشر کی اوسط خشکی میں تیس کلو میٹر  دبیز ہوتی ہے  جبکہ جیسا کہ ہم نے دیکھا سمندر میں مہین اور  بر اعظمی پہاڑوں پر گہری ہوتی ہے۔ ہمارا سفر  قلب تک صرف چھ ہزار چار سو کلومیٹر لمبا ہے  لہٰذا تیس کلومیٹر کی قشر تو صرف  مختصر سا تعارف ہی ہے۔

 

جتنا ہم گہرائی میں جائیں گے تو اتنا ہی  درجہ حرارت متواتر بڑھتا چلا جائے گا ، کان کن یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں ، کیونکہ چٹانوں  کا دباؤ  اس بات کا سبب ہوتا ہے۔ نتیجتاً قشر کے نیچے ایک ایسا جزوی علاقہ ہوتا ہے  جو پگھلا ہوا ہوتا ہے (آتش فشانوں کے زیادہ تر لاوا یہاں سے جنم لیتے ہیں ) یہ تیزی سے  غلاف (Mantle)بن جاتا ہے ، جو ایک گرم چٹانوں کی کثیف پرت ہوتی ہے جسے اکثر پگھلا ہوا بتایا جاتا ہے۔ حقیقت میں یہ نام کا غلط استعمال ہے۔ یہ بات درست ہے کہ زمین کی سطح پر دو ہزار ڈگری درجہ حرارت پر چٹان آتش فشانوں سے کسی سیال کی طرح بہتی ہیں ، لیکن گہرائی میں موجود غلاف کے اندر  زبردست دباؤ سے  وہی چٹانیں ایسی ہو جاتی ہیں جیسا کہ ٹھنڈا شہد  : لوچ دار اور بہنے کے لئے حد درجہ آہستہ۔ غلاف اس طرح کی حالت میں ہوتا ہے جیسا کہ وہ آہستگی سے حرکت کرتا ہوا ابل رہا ہو  (جس کو ایصال حرارت [convection]کہتے ہیں ) – غلاف اتنا  چپچپا ہوتا ہے کہ اس میں بلبلے اوپر آنے کے  لئے لاکھوں سال لے لیتے ہیں۔ بہرحال یہ زمین کے عرصہ حیات کے مقابلے میں کافی کم ہے ، لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ارضیاتی (یا سیاروی ) وقت کے پیمانے پر کافی ساری چیزیں بلوئی اور  مکس کی جاتی ہوں گی۔ زمین کی تہ میں موجود غلاف کا درجہ حرارت ٣،٧٠٠ ڈگری ہوتا ہے ؛ یہ حرارت سطح کی جانب بہتی ہے۔ اسی دوران ، ٹھنڈی اور کثیف چٹان جو سطح کے قریب ہوتی ہے  وہ تہ میں ڈوب کر نیچے جاتی ہے  اور اس عمل کے دوران مکمل طور پر تحلیل ہو جاتی ہے۔ ہم اس کے کچھ اثر کو سطح پر دیکھ سکتے ہیں جب ایصال حرارت  قشر کے ٹوٹے ہوئے حصّوں کو دھکیل کر  آہستگی کے ساتھ براعظموں کو از سر نو ترتیب دیتی ہے۔ جن کو ہم  ٹیک ٹونک پلیٹ(ارضی سختائے ہوئی پرتیں) کہتے ہیں۔

 

غلاف زمین کی سب سے بڑی پرت ہے ، جو لگ بھگ ٢،٨٦٠ کلو میٹر دبیز ہے  اور سیارے کی  ٨٤ فیصد ضخامت بناتی ہے۔ غلاف بر اعظمی چٹانوں سے کہیں زیادہ دبیز ہے  اور زیادہ تر ایک معدن پروف اسکائیٹ(Perovskite)  پر مشتمل ہے :یہ معدن ایک گہری کثیف چٹان ہے  جس  میں لوہے اور میگنیشیم  کی مقدار٥٠ فیصد  سے زیادہ ہوتی ہے  اور یہ گرینائیٹ سے زیادہ  کثیف ہوتی ہے۔

 

غلاف کے نیچے ، لگ بھگ ٢٩٠٠ کلومیٹر سطح سے نیچے ، ہمیں قلب ملتی ہے  جو خالص لوہے اور  لوہے کی کچ دھات پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہاں پر درجہ حرارت کافی بلند ٥ سے ٧ ہزار کیلون تک ہوتا ہے  جو سورج کی سطح پر موجود درجہ حرارت کے مقابلے کا ہے۔ یہاں دباؤ بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ قلب کثافت میں غلاف کی دبازت جتنی ہی ہوتی ہے  لیکن مرکز میں رہتے ہوئے یہ سیارے  کی کل ضخامت کا صرف ١٥ فیصد ہی ہوتی ہے۔ زمین کا قلب دو حصّوں پر مشتمل ہے : ایک باہری جو مائع لوہے کا قلب ہے جبکہ دوسرا  اس کے نیچے ایک ٹھوس  قلب ہوتا  ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ باہری قلب اسی طرح کے مائع کی طرح ہے جیسا کہ غلاف کا مائع ہوتا ہے۔

 

یہ تمام باتیں ہم نے زلزلے پر تحقیق کرکے حاصل کی ہیں۔ اندرونی حصّے کا سب سے بہترین نظارہ زلزلے کی موجوں کے راستوں کے تجزیہ سے حاصل ہو سکتا ہے   جو زمین میں سفر کرتی ہیں۔ پورے سیارے پر زلزلہ پیما اس بات کو درج کرتے رہتے ہیں کہ کہاں اور کتنی تیزی سے زمین کے اندر اچھلتے ہوئے ایک زلزلے سے  مختلف موجیں  بنتی ہیں۔(یہ باہر سے انسانی جسم کی اندرونی  تصویر کو بالائے صوتی موجوں(Ultrasound Waves) کا استعمال کرکے حاصل کرنے سے زیادہ کچھ الگ نہیں ہے۔) مکمل تصویر اس وقت حاصل ہو جاتی ہے جب ہم اپنا زمین کے مقناطیسی میدانوں ، حرارتی بہاؤ  اور ثقلی قوّت کا علم اس میں ڈالتے ہیں۔ یہ علم ہم نے خلائی جہازوں اور تجربہ گاہوں میں چٹانوں پر اونچے دباؤ کو ڈال کر حاصل کیا ہے۔

 

میں نے  کچھ ساختوں کے بارے میں باب دوم میں تھوڑا سا اشارہ کیا تھا ، لیکن مکمل بات جو ذرا زیادہ پیچیدہ ہے وہ میں نے ابھی تک بیان نہیں کی ہے۔ سیارے بننے سے پہلے سیارے کی ساخت  - جس کو ہم سیارے کا بیج کہ سکتے ہیں  - ٹھوس (زیادہ تر سلیکٹ ) اور  طیران پذیر(جیسا کہ پانی اور امونیا ) جیسی چیزوں پر مشتمل ہوتی ہے ، جس میں قلیل مقدار میں ہائیڈروجن اور  غیر عامل گیسیں  بھی موجود ہوتی ہیں۔ پرت دار قرص (Accretion Disk)بننے کے عمل میں پیدا ہونے والی توانائی اور تسلسل کے ساتھ بڑے اجسام سے  تصادموں کی وجہ سے یہ سیاروی بیج پوری طرح سے پگھل جاتا ہے۔(کرۂ ارض کی کچھ اندرونی حرارت اسی عمل کی باقیات ہے۔) اسی حالت میں ساخت  امتیاز حاصل کر لیتی ہے۔ لوہے  اور  فولاد کی کمی کے حامل عناصر (اونچے درجے کی کثافت کی  عبوری دھاتیں جو  لوہے کے ساتھ بند باندھنے کو پسند کرتے ہیں ) سلیکٹ کے ملغوبے سے بہہ کر اپنے ہی وزن کے زیر اثر مرکز کے قلب میں جا کر بیٹھ گئے۔ جبکہ باقی بچی ہوئی سلیکٹ غلاف میں کم کمیت والوں کے ساتھ اوپر کی سطح سے نزدیک باقی رہ گئی۔ غلاف کے معدنیات کی آبیدگی ہونے کے بعد بچ جانے والے طیران پذیر مادّے سطح اور ماحول پر اوپر اٹھ گئے تھے۔

         

سیاروی امتیاز(Planetary Differentiation)  کہلانے والا یہ عمل ارضیاتی اصطلاح میں بہت ہی تیز تھا  اور بڑے اور چھوٹے(جیسا کہ چند میل پر محیط سیارچے ) دونوں اقسام کے سیاروی اجسام پر یکساں لاگو تھا۔ لوہے کے شہابیے  - جو لوہے  کی کچ دھات کے خالص ٹکڑے ہوتے ہیں اور سورج کے گرد اس وقت تک چکر لگاتے ہیں  جب تک ایک دن زمین پر گر کر ہمیں مل نہیں جاتے  - یہ  سیارچوں کے لوہے کی مختلف امتیازی ساخت  والی قلب میں پیدا ہوئے تھے اور بعد میں دوسرے سیاروں کے ساتھ ٹکرا کر  تہس نہس ہو گئے تھے۔ لہٰذا اگرچہ ہمارے پاس زمین کے قلب کا کوئی نمونہ موجود نہیں ہے اور مستقبل میں بھی اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ہم اس کو حاصل کر پائیں گے ۔ لوہے پر مشتمل شہابیے  زمین کے قلب کی زبردست نیابت کرتے ہیں۔ امتیاز کا عمل ایک منظم اور  قابل پیش گو ہے  ، ہمیں اپنی کیمیا اور دباؤ میں  معدنیات کی خصوصیات  کے علم کا شکر گزار ہونا چاہئے۔

 

کچھ فوق ارضی چٹانی سیارے  اسی طرح سے ارتقاء پاتے ہیں ، اگرچہ غلاف میں موجود دباؤ کچھ دس گنا زیادہ ہوتا ہے  یوں  مختلف قسم کی معدنیات پیدا ہوتی ہیں۔ جبکہ دوسرے  فوق ارضی سمندری سیارے  مکمل اجنبی سیارے ہیں  جہاں ایک سو کلومیٹر گہرے سمندر موجود ہیں  جن کی گہرائی میں کثیف گرم ٹھوس پانی اس شکل میں موجود ہے جو برف VII کہلاتی ہے۔

 

ایسے پانی کو برف کا نام دینا عجیب سا لگتا ہے ، جبکہ اس کا درجہ حرارت جھلسا دینے والا ایک ہزار کیلون ہوتا ہے ، لیکن یہ  اتنے دباؤ پرہی  بنتی ہے۔ پانی جس کا کیمیائی فارمولا H2O اس کی ساخت اور فارمولا وہی شناسا ہوگا۔ لیکن ہماری اس سے عمومی  شناسائی  اس حقیقت پر پردہ ڈال سکتی ہے کہ یہ بہت زیادہ پیچیدہ ہے۔ ایک اہم خاصیت تو یہ ہے کہ آکسیجن کا پانی کے سالمات  میں موجود جوہر اپنا الیکٹران دو ہائیڈروجن کے جوہروں کے ساتھ مساوی طور پر   شریک نہیں کرتا ؛ جس کی وجہ سے سالمہ ایک  غیر متشاکل برقی بار کی تقسیم پر منتج ہوتا ہے۔ پانی کے ننھے سالمے کو ایک چھوٹے  مقناطیس کی طرح سمجھیں  بس اس کے تین قطب ہوتے ہیں (ایک منفی "O" اور دو مثبت "H"۔) پانی کے سالمے ایک دوسرے سے  تعامل کرتے ہیں کیونکہ ایک سالمے کے ہائیڈروجن کے جوہر کے قریب مثبت بار کمزور بند،  دوسرے سالمے کے آکسیجن کے جوہر کے قریب منفی بار ،سے باندھتے ہیں۔ ایسے کوئی کمزور بند مل کر مضبوط ساخت بنا سکتے ہیں بشرطیکہ  درجہ حرارت  اس قدر کم ہو جو ان کو ایسا کرنے کی اجازت دے۔ اسی طرح سے عام پائی جانے والی برف بنتی ہے  جس کو برف  آئی ایچ  یا مسدسی برف (Hexagonal Ice)  کہتے ہیں۔ عام پائی جانے والی برف میں سالموں کے درمیان کمزور بند سالموں کو حلقے بنانے پر مجبور کرتے ہیں (جو زیادہ تر مسدسی ہوتے ہیں ) جس کے نتیجے میں کافی ساری خالی جگہ ان کے درمیان چھوٹ جاتی ہے۔ خالی جگہ کی وجہ سے اس کی کثافت مائع پانی سے ہلکی ہوتی ہے  لہٰذا یہ پانی پر تیرتی ہے۔ اس بات کا مظاہرہ آپ نے بھی پانی کے گلاس میں برف  کو تیرتے ہوئے  دیکھا ہوگا۔

اونچے دباؤ پر پانی کی کثافت بڑھ جاتی ہے کیونکہ سالموں پر آپس میں قریب آنے کے لئے طاقت لگتی ہے ؛ جس کے نتیجے میں یہ  بند اور تنگ حلقے بناتے ہیں  جو آپس میں ایک دوسرے میں گھس بھی جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں پانی ٹھوس بن جاتا ہے  صرفِ نظر کہ اس کا درجہ حرارت کیا ہے  اور اس کی کثافت بھی مائع والی حالت سے کہیں زیادہ ہو جاتی ہے۔ اونچے درجے کی برف  جو بلند  درجے حرارت پر بھی قائم رہتی ہے اس کو ہم برف VII، X اور XI سے جانتے ہیں ؛ یہ برف کے وہ  مرحلے ہیں جن کی ہم فوق ارض کے سمندروں میں پائے جانے کی امید کرتے ہیں۔ برف اب بھی چٹان سے ہلکی ہوتی ہے ، بہرحال ، سمندری فوق ارضی سیارے  اپنے چٹانی ہمعصر   جیسی کمیت والے سیارے کی بہ  نسبت کم کثیف ہوں گے۔

 

یہ بہت ممکن ہے کہ سمندری سیارے کائنات میں بہت ہی زیادہ عام ہوں کیونکہ پانی  کم درجے حرارت والے ماحول والی جگہوں  پر کافی عام ہیں جہاں پر سیارے بنتے اور ارتقاء پاتے ہیں ۔ یہ بات فوق ارض کے معاملے میں بھی لاگو ہو سکتی ہے  جو طیران پذیر مادوں کو اپنی بڑی کمیت اور سطحی ثقل کی بدولت  آسانی کے ساتھ روک کر رکھ سکتا ہے۔ کسی بھی سیارے کے لئے جو سمندری سیارے بننا چاہتا ہے ضروری ہے کہ وہ  یا تو بنتے وقت یا پھر بننے کے بعد کم از کم اپنی کمیت کا دس فیصد حصّہ پانی سے حاصل کرے۔ امونیا بھی اس میں مل سکتی ہے ، مگر پانی زیادہ غالب طیران پذیر کیمیائی مادّہ  ہوتا ہے جو ہم نے ابتدائی  سیاروی قرص میں دیکھا ہے۔ تقابل کے طور پر زمین کے سمندر صرف0.002 فیصد زمین کی کل   کمیت کے ہیں۔ بہرحال بہت زیادہ پانی کی مقدار زمین کے غلاف  میں ڈالی جا سکتی ہے۔ اسی لئے میں نے پانی کی کافی زیادہ مقدار کو فرض کیا ہے (10 فیصد سے بھی زیادہ ) تاکہ سیارے کے گرد ایک تہ بلا روک پانی کی بن سکے (خاکہ5.1 ب )۔

 

 اس بات سے صرف نظر کہ اس کی سطح کا درجہ حرارت کیا ہے ، ایک سمندری سیارے کے اندر وہی پرتیں ہونی چاہئیں  : ایک لوہے کا قلب  جس کے گرد سلیکٹ  سے بھرپور غلاف  اس کو گرم پانی کی برف سے الگ کر رہا ہوگا۔ موخّرالذکر سطح کے قریب پہنچ کر (آخری سو کلومیٹر  یا اس کے آس پاس ) مائع پانی میں بدل گیا ہوگا۔ مائع پانی کی سطح عام برف سے ڈھکی ہوگی ، بشرطیکہ  سیارہ اپنے ستارے سے کافی دور اور سرد ہے ، جیسا کہ مشتری کا چاند یوروپا۔ اگر سیارہ اپنے ستارے سے قریب ہے اور سطح پر کافی درجہ حرارت موجود ہے ، تو مائع سمندر ایک دبیز گرم بھاپ میں بدل جائے گا۔ اگر سیارے کا درجہ حرارت مناسب ہوگا  جیسا کہ ہماری زمین کا ہے ، تو پانی کے سمندر ہمارے جیسے ہی لگیں گے ، لیکن وہاں  اس کے نیچے کوئی بر اعظمی   یا سنگ سیاہ کی ٹیکٹونک پلیٹ موجود نہیں ہوں گی۔ سمندری سیارے کا اندرون سیارے کی اندرونی گرمی کے ذخیرہ کے قابو میں ہی رہے گا۔ سلیکٹ کے غلاف اور گرم پانی کی برف  کے درمیان  منتقلی میں صرف کثافت میں تھوڑا سا فرق ہوگا مگر درجہ حرارت میں کوئی فرق نہیں ہوگا ، اور دونوں مادوں میں ایک جیسی ہی اونچے درجے کی  چپچپاہٹ ہوگی۔ سلیکٹ کے غلاف کی طرح ، گرم پانی کی برف کا غلاف حرارت کا ایصال آہستگی کے ساتھ کرے گا۔

 

فوق ارض کے دو سیاروی گروہ حجم اور پانی کی مقدار کے لحاظ سے بہت ہی تنوع سے بھرپور ہیں۔ ان کی خصوصیات کا انحصار اس بات پر ہوتا کہ سیارے کے بنتے وقت کون کون سے عنصر موجود تھے۔ ستاروں کے طیف کا تجزیہ کرنے کے بعد  ہم جانتے ہیں کہ لوہے اور دوسرے بھاری عناصر مختلف سیاروی نظام میں مختلف  ہوتے ہیں۔ یہ بات ہم پہلے ہی جان چکے ہیں کہ سیارے ،سیاروی قرص کے کس مقام پر بن رہے ہیں یہ امر بھی  ان کے بننے میں کافی زیادہ اثر ڈالتا ہے۔ لہٰذا چٹانی سیاروں کے درمیان ہمیں فوق عطارد بھی مل سکتے ہیں   - وہ سیارے جن کے لوہے کا  قلب کل سیارے کی کمیت کا 70 فیصد تک ہو سکتے  ہیں  جیسا کہ ہمارا سیارہ عطارد ہے۔ یا ہمیں فوق چاند بھی مل سکتے ہیں  - وہ سیارے جن کے قلب میں لوہا نہیں موجود ہوتا ، صرف لوہے سے بھرپور غلاف  اور شاید پانی کی تہ ہوتی ہے۔

 

ایک تیسری ممکنہ فوق ارضی  اور میدانی سیاروں کی قسم بھی ہو سکتی ہے  - کاربنی سیارے۔ یہ بہت ہی نایاب ہوں گے ، کیونکہ ان کو بننے کے لئے آکسیجن سے زیادہ کاربن کی ضرورت ہوگی۔ عام طور سے کاربن آکسیجن کے مقابلے میں آدھی مقدار میں کائنات میں پایا جاتا ہے  جیسا کہ ہم نے خاکہ نمبر2.1 میں دیکھا تھا۔ لیکن فلکیات دانوں نے ایسے ستاروں کا مشاہدہ کیا ہے جس میں آکسیجن کی با نسبت کاربن کی مقدار زیادہ تھی۔ کوئی بھی سیارہ جو اس طرح کے ملغوبے سے وجود میں آئے گا  وہ کافی مختلف ہوگا  - اس کے غلاف میں سلیکان کار بائیڈ  اور گریفائٹ موجود ہوں گے۔ اس میں سے لوہا  بہتا ہوا قلب میں ضرور جا سکتا ہے ، لیکن اس کی سطح اور قشر کی  بحیثیت مجموعی حجم اور کیمیائی ترتیب  بہت ہی الگ ہوگی۔ سلیکان کار بائیڈ   ایک بہت ہی سخت قسم کا عنصر ہوتا ہے  - ہم اس کو لمبے عرصے چلنے والے سفال ،  دوڑ کاروں کے بریک  اور اونچے دباؤ کے ماحول میں کام کرنے والے اوزار بنانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ لہٰذا آتش فشاں ، ٹیکٹونک اور موسم کی حرکات کا ربنی سیارے پر انتہائی کم ہوں گی۔ کاربنی سیاروں میں پانی کی بھی کمی ہوگی۔

 

خاکہ نمبر 5.2 کچھ تصوراتی اشکال  فوق ارض کے خاندان  کی بتا رہا ہے اور اس کا مقابلہ زمین اور نیپچون سے بھی دکھا رہا ہے۔ فوق ارضی سیاروں کا نسبتی حجم ہمارے نظری نمونے کے بہترین اندازوں کے قریب تر ہے۔ کاربنی سیارے  خاکہ5.2میں نہیں دکھائے گئے ہیں۔ ان کے حجم چٹانی اور سمندری سیاروں کے درمیان میں کہیں پر ہوں گے۔ نیپچون جیسے دیو ہیکل سیارے جو گلیز ٤٣٦ کے گرد مدار میں چکر لگا رہے ہیں ، موازنے کے لئے خاکے میں دکھائے گئے ہیں۔

5.2مختلف حجم کے فوق ارضی سیاروں  اور دیو ہیکل سیاروں کا موازنہ۔

آخر کار ، فوق ارض کے تخمینہ جاتی کمیت  سے ہم نے  ان چھوٹے سیاروں کو دریافت کر لیا  جن میں نسبتاً زیادہ مقدار میں ہائیڈروجن اور ہیلیئم – شاید جو ان کی کمیت کا دس فیصد تک ہو سکتی ہے  - جس طرح  ہم نیپچون کی حالت میں دیکھتے ہیں ۔ بحیثیت مجموعی سیارے نیپچون سے چھوٹے ہو سکتے ہیں : جن کو  چھوٹے  نیپچون کہتے ہیں۔ اس بات سے ابھی تک پردہ فاش نہیں کیا جا سکا کہ وہ کون سی حد ہے جہاں سے ٹھوس سیارے بڑھتے ہوئی کمیت  کے ہائیڈروجن اور ہیلیئم میں ملفوف سیارے  بن جاتے ہیں۔ نظریہ ہمیں اس مسئلے کے کافی ممکنہ جواب دیتا ہے  مگر کوئی واضح پسند فراہم نہیں کرتا  لہٰذا قدرت کی پسند کو جاننے کے لئے ہمیں مشاہدے پر بھروسہ کرنا ہوگا ، ناسا کی کیپلر اسی راستے پر اچھی طرح سے گامزن ہے  تاکہ وہ ہمیں ایسے مشاہدے فراہم کر سکے۔ خوش قسمتی سے ایسا لگتا ہے کہ ان سیاروں کے رنگوں کا تجزیہ (ضیا پیمائی ) کرنے سے ہم چھوٹے نیپچونوں  کو فوق ارضی سیاروں سے الگ کر سکیں گے۔

 

اس کے باوجود  کائنات میں پائے جانے والی میدانی سیاروں کی ممکنہ اقسام ختم نہیں ہوئیں ہیں۔ سیاروں کی ایک اور ممکنہ صورت مکمل لوہے کا قلب بھی ہو سکتا ہے! زیادہ تر عوامل کے زیر اثر ہم ایسے کسی سیارے کو پانے کی امید نہیں کرتے کیونکہ سیاروی جسم کو پہلے ترتیب پانا ہوتا ہے (اس نقطہ پر وہ زیادہ تر سلیکٹ پر مشتمل ہی ہوتا ہے ، جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے ) اور اس کے بعد ہی وہ امتیاز حاصل کر پاتا ہے ، اور پھر  لوہے قلب میں بہ کر نکلتا ہے۔ سیلیکا کے غلاف  (جس کے بغیر لوہے کا قلب بن نہیں سکتا )کو صرف لوہے کے قلب کو چھوڑنے کے لئے اس سے الگ ہونا ہوگا۔ اس طرح  کا عمل چھوٹے اجسام پر وقوع پذیر ہونا  تو آسان ہوتا  ہے  مثال کے طور پر ایک بارہ میل چوڑے سیارچے پر۔ فوق ارض دوسری طرح کے ہوتے ہیں ، وہ اتنے ضخیم ہوتے ہیں کہ اگر دو فوق  ارض آپس میں براہ راست بھی ٹکرائیں  تو ریزہ ریزہ نہیں ہوں گے بلکہ  صرف  خالص لوہے کے قطروں میں تبدیل ہو جائیں گے۔ اتنے زبردست دباؤ میں بھی  ان کا ثقلی اثر سطح سے بہت دور تک ہوگا جس کے نتیجے میں وہ چٹانوں کو واپس کھینچ لے گا۔ درحقیقت ہمارے اپنا سیارہ عطارد ، جو زمین سے مقابلے میں چھوٹا ہے (صرف ایک بٹا اٹھارہ کی زمین کی کمیت سے نسبت ہے ) بھی  ایک براہ راست ٹکراؤ کے  باوجود میں اپنی  ابتدائی تاریخ میں  بچ چکا ہے  اور ابھی تک اپنے قلب کا زیادہ تر حصّہ محفوظ رکھا ہوا ہے۔ ان تمام باتوں سے قطع نظر  لوہے کا فوق ارضی سیارہ امکانی طور پر موجود ہو سکتا ہے ، اور شاید ہم نے اس کو پہلے ہی دریافت کر لیا ہے  -  نابض  سیارے۔

 

   نابض  سیارے ایلکس وولز یشن(Alex Wolszczan)  اور ڈیل فرائل (Dale Frail)نے ١٩٩٢ء میں دریافت کیے تھے  جس کے نتیجے میں ماورائے شمس سیاروں کی دوڑ شروع ہو گئی تھی۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ سیارے  ایک نابض ستارے  کے گرد چکر لگاتے ہیں  - نباض  ایک انتہائی درجے کا ضخیم (ہمارے سورج سے بھی زیادہ )، تیز گھومنے والا نیوٹران ستارہ ہوتا ہے ؛ جو عظیم نوتارے یا سپرنووا کی باقیات ہوتا ہے۔ ہم ان کے حجم کے بارے میں نہیں جانتے (اور کوئی ایسا بظاہر طریقہ موجود نہیں ہے  کہ ہم مستقبل قریب میں ان کو ناپ بھی سکیں ) نہ ہی ہمیں کوئی اچھا اندازہ ہے کہ یہ بنتے کیوں ہیں۔ نابض  سیارے لوہے سے بھرپور ملبے سے بنتے ہیں جو سپر نووا کے دھماکے کے  بعد بچ جاتا ہے۔ بھاری دھاتی سیارے !

 

بہرحال حدود موجود ہیں۔ ہم اس بات کی امید نہیں کر سکتے کہ کوئی خالص پانی کا سیارہ ہوگا۔ یہاں تک کہ ہم اگر امونیا کو پانی میں ملنے کی بھی اجازت دیں  اور دوسری کم مقدار میں کثافتیں بھی شامل کر لیں تو بھی ایک خالص فوق برفیلی گیند کے  بننے کا امکان اتنا ہی  ہے جتنا کہ برفیلے زہرہ غبارے کا۔ خالص فوق ارض  کے بننے کا مسئلہ سیاروں کے بننے میں ہی موجود ہے۔ کوئی بھی ایسا طریقہ موجود  نہیں ہے جو ملبے کی قرص میں موجود گرد کو برف کے گالوں سے الگ کر دے  یا پھر کسی پانی سے بھرے سیارے کو پرتی  چٹانی اجسام سے بچا لے۔ تصادم بھی مدد کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے  اور فوق ارض کے  بہت زیادہ ضخیم ہونے کی وجہ بھی یہی ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے اپنے نظام شمسی میں ، سب سے زیادہ پانی سے بھرپور اجسام سیارچے اور پلوٹو کے دور دراز کے رشتے دار ہیں  ان  کی چٹان اور پانی کی نسبت ایک سے ایک کی ہے۔ اگر کیپلر نے کوئی ایسی چیز دریافت کر لی جس کی اوسط کثافت پانی کی ہوئی  تو میں اس بات پر شرط لگانے کے لئے تیار ہوں کہ وہ کوئی ماورائے اراضی تہذیب کے  پانی کا ذخیرہ ہوگا۔۔۔۔یا شاید ہائیڈروجن گیس ، پانی اور چٹانوں کا ملغوبہ ہوگا  - ایک چھوٹا نیپچون سیارہ۔

 

جب ہم نے اس قسم کے سیاروں کی جماعت کو زیر بحث کر لیا ہے تو آپ شاید اس بات پر حیران ہو رہے ہوں کہ ہم نے اپنے اس خوبصورت سیارہ ارض کا نام کیوں ایسی اجنبی جگہوں کے بھنڈاروں  کے لئے استعمال کیا ہے۔ اگرچہ ان دوسرے سیاروں کے نمونوں کو ہم نے اپنے علم کی بنیاد پر بنایا ہے۔ میرے لئے تو اس کا جواب ہاں میں ہے۔ ہمارا کرۂ ارض  ایک فوق ارض ہے ، ایک بڑے خاندان کا حصّہ ہے اور اس کی  کچھ عمومی اور گہری مماثلت  ان دوسرے سیاروں سے ہے۔ یہ مماثلت اتنی گہری ہے کہ حقیقت میں آپ زمین کی گہرائی میں اس کے غلاف میں بھی اس کو پا لیں گے۔ چلیں دیکھتے ہیں کہ وہ کیا ہے۔

باب ششم - فوق ارضی سیارے - کائنات کی سخت ترین چٹانیں

باب ششم 

 

فوق ارضی سیارے  - کائنات کی سخت ترین چٹانیں

 

چٹانوں کی چھان بین کرنا ایک مزیدار کام ہے : ہتھوڑا ، چھینی اور ایک رہنما کتاب لے کر کسی پہاڑی کی طرف روانہ ہو جائیں۔ اگر آپ خوش قسمت  (اور ثابت قدم )رہے ، تو آپ کو اپنے گھر میں غلاف کے  جمع کئے  مجموعہ کے لئے کافی سارے نمونے مل جائیں گے۔ آپ کو اس  قدر بوقلمونی ملے گی کہ ایسا لگے گا کہ یہ تو ختم ہی نہیں ہوگی۔ ایک اوسط چٹان شناس تو صرف زمین کی سطح ہی کریدتا ہے۔ اگر ہم زمین کے اندر جھانک سکیں تو سوچیں کہ وہاں کیا کیا عجوبے موجود ہوں گے ؟اصل میں اگر آپ زمین کی گہرائی میں جا سکیں  تو معدنیات کی بوقلمونی بہت ہی تیزی کے ساتھ کم ہو جائے گی  صرف چند ایک ہی رہ جائیں گے اور اس میں سے ایک پروف اسکائیٹ  ہمارے سیارے کے زیادہ تر جسم کا حصّہ ہوگا (اس کی کمیت کا40 فیصد )۔

 

پروف اسکائیٹ کی سیاروی کثرت کے باوجود  اس کو ماہرین ارضیات نے  ١٨٣٧ء میں ہی درج اور درجہ بند کیا ہے۔ اس کی دریافت کی شروعات اس وقت ١٨٢٠ء کے عشرے میں ہوئی ، جب روس کے سیزار نیکولس اول(Czar Nicolas I) سائبیریا کی زرخیزی کی نقشہ کشی کے مشتاق ہوئے  اورایک  جرمن قدرتی ماہر  الیگزینڈر  وان ہمبولڈت(Alexander von Humboldt) کو دعوت دی کے وہ اس علاقے کی  مہم کو سر کرنے کے رہنما  بن جائیں۔ ہمبولڈت نے مشرق میں موسم بہار میں اپنے ساتھ دو مدد گار لئے اور مہم شروع کردی ۔وہ  یورل پہاڑیوں  اورجھیل کیسپین کی چھان بین کرتے ہوئے وسطی ایشیاء میں الٹا ئی پہاڑیوں تک جا پہنچے جہاں روس، چین اور منگولیا ملتے ہیں ۔

 

ذرائع کے مطابق ہمبولڈت کو اس مہم میں کچھ خاص مزہ نہیں آیا ۔ اس کا ایک مدد گار ، گستاف روز  (Gustav Rose) ماہر ارضیات تھا ۔ وہ جو معدنیات جمع کرکے لیا تھا اس میں ایک بھاری گہرا ٹکڑا بھی تھا جو اس کو  سلاٹسٹ  قصبے کے قریب یورل کے علاقے سے ملا تھا ۔ اس سے پہلے وہ فہرست میں شامل نہیں تھا ، لہٰذا روز کو اس کا نام رکھنے کا اختیار مل گیا  تھا ۔ اس نے اس کا نام پروف اسکائیٹ ، روسی ماہر ارضیات کاؤنٹ لیو ایلیزیوچ وان پروفسکی(Count Lev Alexeevich von Perovski) کے اعزاز  میں ان کے نام پر رکھا جو ماسکو میں اس مہم کی میزبانی کر رہے تھے۔ گستاف روز کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ اس نے کرۂ ارض کی  سب سے وافر مقدار میں  پائی  جانے والی  معدن کی دریافت کی ہے!

  

چٹانیں ایک یا کئی معدن پر مشتمل مجموعہ ہوتی ہیں ۔ معدنیات غیر نامیاتی ٹھوس ہوتے ہیں جن کی مخصوص کیمیائی ترکیب ہوتی ہے ۔ وہ ایک عنصر (جیسا کہ سونے ) سے لے کر انتہائی پیچیدہ سیلیکا  تک ہو سکتے ہیں ۔ سیاروں پر سب سے زیادہ غلبہ ان معدنیات کا ہے جو آکسائڈ ہوتی ہے  - یعنی  ایک یا ایک سے زیادہ آکسیجن  کا جوہر سلیکان ، لوہے ، میگنیشیم، المونیم اور اس طرح دوسرے عنصر کے ساتھ بندھا ہوا ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر سیلیکا  کو کوارٹز کے طور پر بھی جانا جاتا ہے  جو ایک سلیکان اور دو آکسیجن کے جوہروں پر مشتمل ہوتا ہے ۔سیلیکا معدنیات چٹانوں میں سب سے زیادہ عام پائی جاتی ہے  ، ایک سلیکان کا جوہر کافی سارے آکسیجن کے جوہروں میں گھرا ہوا ہوتا ہے ۔قلموں کی مختلف ممکنہ ساختوں کے بننے کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ  جوہر اپنے آپ کو کس طرح سے  لگا تار نمونوں میں ترتیب دیتے ہیں۔

 

پروف اسکائیٹ معدن جو روس میں گستاف روز نے دریافت کی تھی وہ ٹائٹینیم اور کیلشیم کا آکسائڈ تھا ۔ ایک کافی زرخیز گروہ  معدنیات کا  ایسا بھی موجود ہے (جس کو پروف اسکائیٹ کا گروہ کہا جاتا ہے ) جس میں سب کے سب ایک منفرد قلمی ساخت رکھتے ہیں، سلیکان اور ٹائٹینیم  جو آکسیجن کے چھ جوہروں سے بند باندھ کر ایک جڑی ہوئی  ہشت سطحی ساخت بناتے ہیں ۔ اس بات کے باوجود کہ روز نے ٹائٹینیم پروف اسکائیٹ کو سب سے پہلے دریافت کیا تھا ، زمین کے نچلے غلاف میں مقدار کے حوالے سے زیادہ تر جگہ سلیکان پروف اسکائیٹ معدن نے ہی گھیری ہوئی ہے۔

 

پروف اسکائیٹ معدنیات میں زمین کی  نایاب دھاتیں موجود ہیں (جیسا کہ لینتھینم ، نیوڈیمیئم، اور نیوبیئم)۔ طبیعیات دانوں میں پروف اسکائیٹ ایک ایسے معدن کے طور پر جانا جاتا ہے جس میں اونچے درجے پر فوقی موصلیت پہلی دفعہ ١٩٨٦ء میں الیکس مولر  (Alex Muller) اور جارج بیڈنورز  (Georg Bednorz)نے دریافت کی تھی ۔ اس بات سے صرف نظر ، زیادہ تر لوگوں نے اس کے بارے میں کبھی سنا بھی نہیں ہوگا  اور اس کا ذکر  شاذونادر  ہی چٹانوں اور معدنیات کی عمومی میدانی رہنما  کتابوں میں ملتا ہے ۔(ایک اور زیادہ عام معدن  جس کو  انسٹاٹائیٹ کہتے ہیں ، جو پروف اسکائیٹ  جیسی ہی ہوتی ہے ، وہ بھی مختلف چٹانوں میں پائی جاتی ہے ۔)مشہور ہونے کے لئے اہمیت کا حامل ہونا ضروری ہے ۔

 

یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ  پروف اسکائیٹ  - خاص طور پر اونچے درجہ حرارت پر اس کے  برتاؤ کو جاننا  - فوق ارض  کے تجزیہ کے لئے  بہت زیادہ اہم ہے۔ درحقیقت  یہ ہی وہ رابطہ ہوگا جو ہمارے اور دوسرے سیاروں  کو آپس میں ایک دوسرے سے ارضیاتی طور پر جوڑے گا ۔ ٢٠٠٤ء میں ایک اہم دریافت ہوئی ، جب زمین کے قلب میں موجود ایک لمبے عرصہ تک رہنے والے  اسرار کو بیان کیا گیا ۔ زلزلہ شناس اور دوسرے سائنس دانوں نے دیکھا کہ ایک مہین سی پرت غلاف کے نیچے موجود ہے ، جو صرف قلب کی سرحد سے تھوڑا سے ہی اوپر تھی ، اور اس کا غیر متوقع  اثر زلزلے کی ان موجوں پر ہوتا ہے جو اس میں سے گزرتی ہیں ۔ اس پرت کا نام "ڈی "  رکھا گیا اور یہ صرف ایک سو پچاس کلومیٹر گہری تھی  اور کسی کو بھی اس بات کا اتا پتا نہیں تھا کہ یہ کیوں زلزلے کی موجوں پر اثر انداز ہوتی ہے ۔اونچے درجے پر کچھ مختلف ملے جلے تجربات  مروکامی(Murukami) اور ان کے رفقائے کاروں نے کئے ، جبکہ نظریاتی تخمینا جات اگانوف (Oganov) اور اونو (Ono)نے کئے اور اس سبب کو پیدا کرنے والے  مجرم  -  یعنی اونچے درجہ حرارت پر پروف اسکائیٹ کے برتاؤ کو پکڑ لیا ۔ اتنی گہرائی میں جہاں دباؤ فضائی دباؤ سے تیرہ لاکھ گنا زیادہ ہوتا ہے  - پروف اسکائیٹ کی انتہائی قریبی بند ساخت ، بگڑ کر  نینو پیمانے پر پرت کی چادریں سی بنا دیتی ہے   - ایک نئی ہئیت  جس کو دریافت کنان مابعد پروف اسکائیٹ کہتے ہیں ۔

 

جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا گیا  ہے کہ یہ پرت ہمارے سیارے پر بہت چھوٹی صرف ١٥٠ کلومیٹر تک ہوتی ہے  - تاہم   یہ فوق ارضی سیاروں میں ان کا اہم جز ہوگی! کوئی بھی فوق ارض جو لگ بھگ ٢ ایم ای یا اس سے زیادہ ہوگی ،  اس کے زیادہ تر غلاف کے اندر دباؤ  زمینی دباؤ سے تیرہ لاکھ گنا زیادہ ہوگا ، لہٰذا فوق ارض چاہئے وہ چٹانی ہوں یا  سمندری  وہ مابعد پروف اسکائیٹ سیارے ہی ہوں گے۔

 

آپ نے شاید اس غیر اہم نئے معدن کے نام پر توجہ دی ہوگی ۔ یہاں پر اس کو کوئی نام نہیں دیا جا رہا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مابعد پروف اسکائیٹ  زمین کی سطح پر موجود چٹانوں میں نہیں پایا جا سکتا ، لہٰذا ابھی تک کسی نے بھی اس کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیا اور ناہی لے سکے گا ۔(اس کی بظاہر وجہ معدنیات کو نام دینے کے لئے قرون وسطیٰ کے ارضیاتی سوسائٹیوں کے اصول ہیں۔) ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ مابعد پروف اسکائیٹ کی ساخت اس کو ایک توانائی سے بھرے ہوئے اسپرنگ کی طرح بنا دیتی ہے ؛ اگر ایصال حرارت کے نتیجے میں وہ سطح کے قریب آئے  گا تو وہ اپنی پروف اسکائیٹ کی شکل میں واپس آ جائے گا ۔

 

مابعد پروف اسکائیٹ کی دریافت بالکل صحیح وقت پر ہوئی تھی کیونکہ اس کی وساطت سے ہی آنے والے دور میں فوق ارض کا تجزیہ کیا جا سکتا تھا ، مگر ہم نے اپنے اس کام کو شاید ابھی تک ختم نہیں کیا ۔ مسئلہ یہ ہے کہ سب سے ضخیم فوق ارض کے غلاف میں دباؤ، فضائی دباؤ سے  ایک کروڑ گنا زیادہ  ہوتا ہے ، یہ دباؤ اس سے کہیں زیادہ ہے جو پروف اسکائیٹ کو مابعد پروف اسکائیٹ میں تبدیل کر دے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ معدنیات کے دوسرے مرحلے بھی اس کے اندر موجود ہوں  - ہو سکتا ہے کہ مابعد مابعد پروف اسکائیٹ مرحلہ بھی موجود ہو  ؟

  

نظریہ اور تجربات دونوں پہلے ہی اس بات کا اشارہ  دے چکے ہیں کہ  مابعد پروف اسکائیٹ کا  مقدر اونچے درجہ حرارت پر کیسا ہوگا۔ اونچے درجہ حرارت پر اہم کردار آکسیجن کے جوہر کا ہوگا۔ دو قلمی ترتیب حاصل کرنے کے بعد ، جس کو  سنگوانا   یا باندھنا(Packing) کہتے ہیں ،پٹی کی  مزید تنگی  آکسیجن کے جوہروں کو دوبارہ خود سے از سرنو ترتیب دے دیتی ہے ۔ یہ اثردار بندھائی  ایک اور ممکنہ قلمی ساخت  بناتی ہوئی لگتی ہے  - ایک ١٢ نقطے کی ہئیت۔

 

اس کا سراغ  ایک غیر معروف قلم کے تجزیہ سے حاصل ہوا ہے جس کو  گیڈولینم  گیلیئم یاقوت (Gadolinium Gallium Garnet) - یا جی جی جی کہتے ہیں ۔ جی جی جی  اونچے دباؤ پر ایک شفاف اور بہت ہی سخت قسم کا عنصر بن جاتا  ہے  - وہ سائنس دان  جو ہائیڈروجن کو  لاکھوں گنا فضائی دباؤ پر دبانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں تاکہ  تھرمو نیوکلیائی توانائی  کو تجارتی پیمانے پر قابل عمل بنا سکیں  ان کے لئے یہ اپنی اس خاصیت کی بدولت کافی کام کا ہے ۔ ہائیڈروجن  کو طاقتور لیزر کی مدد سے دبایا  جاتا ہے  ،  تاہم یہ  بہت تیزی سے دب کر جلد ہی واپس اپنی  پرانی حالت پر آ جاتی ہے ۔اس طرح سے اس حالت کو دیکھنے کے لئے وقت کا انتہائی مختصر لمحہ ملتا ہے۔ اونچے دباؤ پر یہ اتنی جلدی واپس اپنی حالت پر نہیں پلٹتی ۔ ٢٠٠٥ء میں جاپان اور امریکہ کے سائنس دانوں نے طاقتور لیزر ضربوں کے استعمال سے جی جی جی کو بارہ لاکھ گنا زیادہ فضائی دباؤ پر بھینچا، خلاف توقع  وہ قلم ایک ایسے حالت میں بگڑ گئی  جو  ہیرے سے بھی زیادہ سخت تھی (کم دبنے والی )۔ یہ ایک عالمی ریکارڈ تھا ۔ لہذا جی جی جی  ایک بہتر مادّے کے طور پر نمودار ہوئی جس کو اونچے درجہ حرارت کے تجربوں میں ہائیڈروجن پر استعمال کیا جا سکتا تھا اس طرح سے اس نے نیلم اور ہیرے  کی جگہ لے لی  جو اس وقت تک تجزیہ کے لئے انتہائی کم وقت مہیا کرتے تھے ۔

 

جی جی جی تجربے نے اس بات کو ثابت کیا کہ آکسیجن کے جوہروں کی زیادہ کثیف بندھائی مابعد پروف اسکائیٹ مادوں میں ممکن ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ وہ آخری بگاڑ ہو جس کی ہمیں فوق ارض کے اندرون کو جاننے کے لئے ضرورت ہو ۔خوش قسمتی سے ہم تجربہ گاہ میں تجربے کر سکتے ہیں  ، اگرچہ وہ مہنگے تو ہوتے ہیں ، لہٰذا اس راز سے پردہ اٹھنے میں اب کچھ زیادہ دیر ہمیں انتظار کرنا نہیں پڑے گا ۔ اسی دوران ہمیں یہ بھی معلوم ہو چکا ہے کہ فوق ارض کائنات میں معلوم سخت ترین مادّے سے بنے ہوئے ہیں :مابعد پروف اسکائیٹ  نے چٹانی ، پانی ، اور ہیرے والے  کمیاب کاربنی سیارے  کو بنایا ہوگا ۔ حقیقت میں یہ بات فوق ارض کی تحقیق  کی خوبصورتی بیان کرتی ہے جو نئے ثمر آور اجنبی مادّوں کو جدولوں اور تجربہ گاہ میں لے کر آئے ہیں ۔ گرم پانی کی برف VII ، X ، اور XI  ہمارے جہاں کے لئے اور کائنات کے لئے اتنی ہی غیر معمولی ہیں جتنی کہ مابعد پروف اسکائیٹ اور جی جی جی ۔ دباؤ میں پانی کی ٹھوس حالت اور زیادہ  دبی ہوئی مکعبی قلمی شکل اختیار کر لیتی ہے ۔ برف VII قلمی چٹانی نمک جیسی ہی ہوتی ہے  کیونکہ وہ اسی طرح سے بنتی ہے اور اتنی ہی اوسط کثافت بھی ہوتی ہے ۔ کیا کیا حیرت کدے موجود  ہیں!     

باب ہفتم- حیات کا پیمانہ

شیکسپیئر نے ایک دفعہ کہا تھا کہ دنیا ایک اسٹیج ہے اور تمام مرد و عورتیں صرف کھیل کے کردار ہیں ۔ شیکسپیئر کے اس قول کو میں اس طرح سے کہتا ہوں ، سائنس دان ایک ایسے کھیل کا حصّہ ہیں جس کا اسکرپٹ (اگر وہ موجود ہے تو )وہ نہیں جانتے ہیں اور نہ ہی اس بات کی خبر رکھتے ہیں کہ سامعین میں سے بھی کوئی ان کو دیکھنے کے لئے موجود ہے ۔ اور یقینی طور پر یہ اسٹیج ہمارے حجم کے لئے نہیں بنا ہے۔ یہ طلسماتی دنیاؤں سے بھی بہت زیادہ بڑا ہے۔ ہم انسان چھوٹی شوخ مخلوق ہیں - ہم دنیا کی وسعت کے حساب سے قابلیت اور توجیہ رکھنے کے قابل ہیں۔

میں جب کالج میں تھا تو میرے پاس ایک چھوٹی دوربین تھی۔ میرے والد نے مجھے اس کا استعمال سکھایا؛ وہ زیادہ تر دن میں سکھاتے تھے ؛ گھر کے پچھواڑے میں رات کے پہر میں، میں خود سے گھنٹوں آسمان کو دیکھتا تھا۔ جس جگہ میں پلا بڑھا تھا وہ ایک چھوٹی جگہ تھی ، ہمارے اسکول میں نہ تو کوئی رصدگاہ تھی نہ ہی کوئی دوربین تھی۔ یہ ضرور تھا کہ میں نے کتابیں پڑھ رکھی تھیں جس میں سے کچھ میں تصاویر بھی موجود تھیں ، لیکن دوربین کے ذریعہ دیکھنے کا اپنا الگ ہی مزہ تھا۔ تجربہ انتہائی رونگٹے کھڑا کر دینے والا ہوتا تھا - جب میں اپنی دوربین کو ستاروں کی جانب لے جاتا تھا تو ایک سنسنی کی لہر میرے ریڑھ کی ہڈی سے گزر جاتی تھی۔ بالآخر وہ احساس تو غائب ہو گیا لیکن وہ سنسی کی لہر مجھے اب تک یاد ہے۔ جب میں ستاروں کے درمیان تاریکی پر نظر ڈالتا تھا تو مجھے ایسا لگتا تھا کہ جیسا میں اس اندھیرے میں ڈوب جاؤں گا۔ جیسا کہ اونچائی سے گرنے کا خوف ہوتا ہے یہ خوف اس کا الٹ تھا۔ جیسا کہ چکر آنے میں ہوتا ہے۔

میں نے ایک کتاب کئی مرتبہ پڑھی تھی اور میں چیزوں کا تصوّر کافی واضح طور پر کرتا تھا۔ الغرض میں نے ستاروں کے درمیان موجود خالی خلاء کی وسعت کے بارے میں اپنی کتابوں میں کافی پڑھا ہوا تھا۔ لیکن اگر ہمیں اس بات کا احساس ہو جائے کہ کائنات کس قدر بڑی اور عظیم ہے ، تو شاید ہماری ریڑھ کی ہڈی میں ہونے والی سنسنی ساری زندگی برقرار رہے گی۔ کائنات کی وسعت سے پاگل ہونے سے بچنے کے لئے ، فلکیات دان ریاضی کا استعمال کرتے ہیں ، بلکہ کافی زیادہ استعمال کرتے ہیں اور یہ ہی وجہ ہے کہ وہ سارا مزہ کرکرا کر دیتے ہیں۔ اگرچہ اس مشکل کام سے نمٹنے کا یہ ہی ایک سنجیدہ طریقہ ہے۔ قدیم یونان کے ایراٹوستھینس (Eratosthenes) کے عہد سے، جس نے زمین کا حجم ناپا تھا ، انسان ریاضی (جیومیٹری ) کا استعمال کائنات کو ناپنے کے لئے کر رہا ہے۔ ہر مرتبہ نئے حاصل کردہ علم نے ہماری حیرت میں اضافہ ہی کیا ہے۔ کئی سائنس دان (جس میں سے ایک میں بھی ہوں ) آپ کو بتائیں گے کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ 

حیرت انگیز طور پر یہ وسعت - جو ہمارے ننھے پیمانے سے بالکل بھی میل نہیں کھاتی - شاید حیات کے ظاہر ہونے کے لئے لازمی ہے۔ تو چلیں اس میں سے کچھ کی ہم چھان بین کرتے ہیں۔ میں یہاں سے لفظ "پیمانہ " اکثر استعمال کروں گا ؛ جس کا مطلب ہوگا کشادگی یا کسی چیز کا نسبتی حجم ، چاہئے وہ مکان ہو یا زمان۔ جب یہ وقت کے لئے استعمال ہوگا تو میں "وقت کا پیمانہ "کہوں گا۔ چلیں پہلے خلاء سے نمٹ لیں۔

ہم ایک کہکشاں - ملکی وے - میں رہتے ہیں۔ جو ستاروں اور گیس کا ایک جزیرہ ہے اور یہ مرکز کے گرد مرغولے نما بازوں کے ساتھ گھوم رہا ہے۔ دوربین کے ذریعہ نظر آنے والی کائنات کہکشاؤں سے لبریز ہے۔ حالیہ اندازہ لگ بھگ دو کھرب کہکشاؤں کا ہے۔

کالج کے ایک نوجوان کی حیثیت سے میں رات کے آسمان میں مختلف قسم کی کہکشاؤں کو دیکھتا تھا۔ یہ ایک مشکل کام تھا کیونکہ زیادہ تر کہکشاؤں کو دیکھنے کے لئے اندھیرا ، صاف آسمان اور بڑی دوربین کی ضرورت ہوتی تھی۔ بہرحال ایک ایسی کہکشاں تھی جو خالی آنکھ سے دیکھی جا سکتی تھی ، اور دوسری کہکشاؤں کے برعکس اس کا نام بھی تھا :اینڈرومیڈا۔ اگر آپ خط استواء کے شمالی حصّے کی جانب رہتے ہیں تو آپ اس کو دیکھنے کی کوشش کر سکتے ہیں - ایک دھندلا سے سحابیہ جیسا اینڈرومیڈا مجموعہ نجوم میں - جو موسم گرما کی راتوں کے آخری پہر میں مشرق سے طلوع ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے ، اور خزاں اور سردیوں کے موسم میں عین سروں پر نظر آتا ہے۔ میں آپ کو اس بات کا مشورہ دوں گا کہ اس کو دیکھنے کے لئے کافی زیادہ کوشش کیجئے گا کیونکہ دوربین یا کسی اور چیز کی مدد کے بغیر یہ خالی انسانی آنکھ سے نظر آنے والا دور دراز کا جسم ہے۔ اینڈرومیڈا کہکشاں پچیس لاکھ نوری برس دور ہے ، یعنی اس کا فاصلہ ان ستاروں سے لگ بھگ دس ہزار گنا زیادہ ہے جن کو ہم رات میں دیکھتے ہیں۔

اینڈرومیڈا کہکشاں ہماری ملکی وے کہکشاں سے بہت زیادہ ملتی ہے۔ اینڈرومیڈا بھی ایسی ہی چپٹی ستاروں اور گیس کی قرص ہے ، جس میں زیادہ تر اس کے مرغولہ نما بازوں میں موجود ہیں اور لگ بھگ اس کا حجم بھی اتنا ہی ہے۔ اگر قسمت کی دیوی آپ پر مہربان ہو ، اور تاریک صاف رات آپ کو مل سکے تو آپ کو اینڈرومیڈا کا ایک دھندلا دھبہ لمبوترے بیضوی شکل کا نمودار ہوتا دکھائی دے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی قرص کے اطراف ہماری سمت میں ہیں۔

کہکشائیں زیادہ تر آپس میں ایک دوسرے کے قریب ہوتی ہیں ؛ آپ ملکی وے کے پڑوس کا ایک کہکشانی نمونہ پیمانے کے حساب سے اپنے کمرے میں بنا سکتے ہیں۔ فرض کریں کے ہماری کہکشاں ایک کھانے کی پلیٹ ہے ، تو اینڈرومیڈا ہم سے بارہ فٹ دور ایک دوسری کھانے کی پلیٹ ہوگی ، مثلث کہکشاں (ایک دوسری پڑوسی کہکشاں جس کو ایم ٣٣ بھی کہا جاتا ہے ) وہ ہم سے پندرہ فٹ دور اور اینڈرومیڈا سے کچھ قریب ایک سلاد کی پلیٹ ہوگی۔ ایسا ہماری کائنات میں عام ہے۔ کہکشائیں جو دیوار سے دیوار تک لگی ہوئی ہیں وہ ایک دوسرے سے اپنے حجم کی نسبت سے الگ ہوئی ہیں۔ یہ فاصلہ اتنا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو زیادہ تنگ نہیں کرتیں۔
 

ستارے کے معاملے میں تصویر کا رخ ڈرامائی طور پر بالکل ہی تبدیل ہو جاتا ہے اور اسی طرح سے سیاروں کے بارے میں ہوتا ہے۔ آپ سورج کے پڑوسیوں کا کوئی نمونہ فاصلے کے پیمانے پر نہیں بنا سکتے - ستارے اپنے درمیان موجود فاصلوں کے مقابلے میں بہت چھوٹے ہیں۔ کہکشاؤں کے لئے حجم اور فاصلے کی نسبت لگ بھگ 1:50 یا 1:10 کی ہوگی (جیسا کہ ایم اینڈ ایم کی چاکلیٹ کی گولیوں سے کھانے کی پلیٹ کی نسبت ہے)، ستاروں کے لئے یہ نسبت 1:100,000,000 یا اس سے بھی زیادہ کی ہے (بعینہ ایسے ہی جیسے کہ انسانوں کا موازنہ جوہروں سے کیا جائے )۔ سیاروں کی نسبت سے بھی یہ عظیم تر ہے اگرچہ ستاروں کی بہ نسبت کم ہے۔ جی ہاں یہ کائنات ایسی ہی ہے !

کیا ان لمبے فاصلوں کا حیات سے کوئی تعلق ہے ؟

ایک جواب ہو سکتا ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔ یہ مختلف پیمانے اس لئے ہیں کہ انہوں نے ایسا ہی ہونا تھا ، اور بس۔ یا شاید نہیں۔ حیات ایک ایسا نظام - ایک کیمیائی نظام - جو ، کم از کم ہمارے علم کے مطابق ، صرف چھوٹے پیمانوں پر ہی کام کرتا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ حیات کیا ہے ، لیکن ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ اس کی کچھ بنیادی باتیں کیا ہیں۔ حیات نے جو پیمانہ لیا ہوا ہے اس کے بارے میں کچھ خاص بات تو ہے جو اس بات کو یقین بناتی ہے کہ حیات کو ایک پائیدار ماحول مل سکے جہاں پر وہ کام کر سکے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے چلیں واپس بڑی تصویر کی جانب چلتے ہیں۔

کہکشائیں کائنات میں ایک دوسرے کی نسبت حرکت میں ہیں جو لگ بھگ ٥ سو کلو میٹر فی سیکنڈ ہے۔ کہکشاں میں موجود ستارے بھی لگ بھگ اسی رفتار سے اپنے مدار میں رواں دواں ہیں اور ایک دوسرے کی نسبت تھوڑا سا ہلکے (٥٠ سے ٢٠٠ کلومیٹر فی سیکنڈ ) چکر لگا رہے ہیں۔ ہمارا روز مرہ واسطہ پڑنے والی رفتار کے مقابلے میں یہ رفتار دماغ کی چولیں ہلا دینے والی ہے۔ مثال کے طور پر گولی کی رفتار اس سے سو گنا زیادہ سست ہے۔

اب یہاں پر مسئلہ یہ ہے : یہ رفتار کہکشاؤں کے فاصلے کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اینڈرومیڈا کی کہکشاں سیدھی ہماری طرف ٤ سو کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے دوڑی چلی آ رہی ہے لیکن ہمارے قریب آنے(اور ہو سکتا ہے کہ ہم سے ٹکرانے ) کے لئے اسے تین ارب سال درکار ہیں۔ ستاروں کے معاملے میں ایسا نہیں ہے ! اس رفتار سے ، اگر ستاروں کا حجم ان کے درمیان فاصلے کی نسبت سے ہو ، تو وہ ایک دوسرے کے اندر ہر وقت گھسے رہتے - ان کے گرد چکر لگانے والے سیاروں کے مقدر کے بارے میں تو بات کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ خوش قسمتی سے ستارے اس پیمانے پر وجود نہیں رکھتے جس کی وجہ سے ان کے درمیان تصادم کا کوئی خطرہ موجود نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اگر اینڈرومیڈا کہکشاں آج سے لگ بھگ تین ارب سال بعد ملکی وے میں گھس بھی جائے تو دونوں کہکشاؤں کے ستارے پھر بھی آپس میں نہیں ٹکرائیں گے۔ اینڈرومیڈا کے ستارے ملکی وے کے ستاروں سے دور سے گزر جائیں گے ، اور پھر مل کر اپنے مداروں کو نئی بننے والے کہکشاں کے گرد بنا لیں گے۔

لہٰذا سماوی پیمانے پر ، پائیداری نسبتاً تھوڑی زیادہ ہے جو حیات کے لئے نہایت ضروری ہے۔ لیکن کتنی پائیداری کی ضرورت ہے ؟ کیونکہ جو پائیداری جرثومے کے لئے کافی ہوگی وہی پائیداری ڈائنوسارز کے لئے تباہی ہو سکتی ہے۔

یہ مسئلہ اسی قسم کے شہرہ آفاق مسئلہ جیسا ہے جس کو شروڈنگر نے ١٩٤٤ء میں اٹھایا تھا ، کیوں حیات جوہر کے مقابلے میں اس قدر بڑی ہے ؟میں اس سوال کو الٹا کرکے پوچھتا ہوں : حیات سیارے کے مقابلے میں اتنی ننھی کیوں ہے ؟ اس سوال کا جواب دینے کے لئے شروڈنگر نے اس نقطے کی جانب اشارہ کیا تھا کہ کیسے بڑے کیمیائی پیچیدہ جوہروں سے بنے سالمے حیات کی بنیادی اکائی ہیں۔ بڑے سالمے اور ان کے درمیان جاری رہنے والے کیمیائی تعامل حیات سے جڑے ہر عمل کی اصل روح ہیں۔ وہ توانائی کا ذخیرہ بھی کرتے ہیں اور اس کو خارج بھی کرتے ہیں ، وہ اطلاعات اٹھائے پھرتے ہیں جس کو موروثی خاصہ بھی بنایا جا سکتا ہے اور یہ ریشوں ، دیواروں ، مختلف ساختوں اور دوسری چیزوں میں بھی اپنے آپ کو ڈھال سکتے ہیں۔

شروڈنگر نے اس نقطے کی جانب بھی اشارہ کیا تھا کہ جوہروں کے چھوٹے پیمانے - ایک ایسا جہاں جس کو کوانٹم میکانیات کے اصولوں سے بیان کیا جاتا ہے - وہ ہر وقت تبدیل ہوتے ناقابل پیش گوئی ہیں (بلکہ کافی تتربتر ہوتے ہیں )۔

ایک ایسے صائب الرائے سائنس دان کے طور پر جس نے کوانٹم میکانیات کو بنانے میں مدد کی تھی ، وہ جانتا تھا کہ یہ اس کلاسیکل میکانیات سے کس قدر مختلف ہے جو تین صدی قبل آئزک نیوٹن نے بنائی تھی۔ کلاسیکل میکانیات بڑے پیمانے اور بڑے اجسام کے حرکت کے اصول بیان کرتی ہے جیسا کہ ستارے ، سیارے ، ان کے مدار ، پل ، گاڑیوں کے انجن وغیرہ وغیرہ۔ حیات کا پیمانہ کلاسیکل میکانیات میں پوری طرح بیٹھنے کے لئے کافی بڑی تھا ، اور اسی طرح سے اس کی بنیادی اکائیاں – بڑے سالموں کے لئے بھی وہ بہت ہی بڑی تھی۔

اپنے سوال کا جواب دینے کے لئے شروڈنگر نے خیال ظاہر کیا کہ حیات کے سالمے اور خلیے اس لئے کافی بڑے ہیں تاکہ وہ جوہروں کے غیر یقینی اور تباہی کے بے سروپا پیمانے سے جان بچا سکیں – یعنی کوانٹم کی طبیعیات کے جہاں سے۔ اور دوسری طرف حیات جوہروں کے خاصے یعنی کہ کیمیائی بندھوں کی ثمر آوری کا فائدہ بھی اٹھا سکے۔ میرے نقطہ نگاہ سے ، حیات کے پیچیدہ سالمے اور کیمیائی جالوں نے اپنے مسکن بڑی کائنات کی شدید تباہی سے بچنے کے لئے ایسے پیمانوں پر بنائے ہیں جو اتنے چھوٹے ہیں کہ ان کو پائیدار ماحول میسر کر سکیں۔ 

لہٰذا ایسا لگتا ہے کہ حیات کے سکونت کے پیمانے کچھ خاص طرح کی خصوصیات رکھتے ہوں گے۔ کائنات کے پیمانے پر خلاء میں دیکھنے سے ہم دلچسپ چیزیں کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ کہکشائیں جسیم کچھووں کی مانند آہستگی کے ساتھ حرکت کر رہی ہیں ، ان میں موجود ستارے مکھیوں کی طرح سے بھنبھنا رہے ہیں ، ستاروں کے گرد سیارے اور تیز ی سے چکر کاٹ رہے ہیں ، اور اسی طرح دوسری چیزیں یہاں تک کہ ہم جہاں صغیر - جوہروں اور الیکٹران کی کوانٹم کی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں۔ پیمانہ جتنا چھوٹا ہوگا اتنی ہی زیادہ تعجب انگیز چیزیں وقوع پذیر ہوں گی۔ حقیقت میں یہ مخبوط الحواس ہوگی اور جدید طبیعیات کے پاس اس کو بیان کرنے کی ایک اچھی توجیہ ہے۔ اس کو اور آسان بنانے کے لئے، بڑی چیزیں آہستہ حرکت کرتی ہیں، جبکہ چھوٹی چیزیں تیز حرکت کرتی ہیں۔ ایک ٹرک اور سائیکل کے بارے میں سوچیں جو ٹریفک کے اشارے پر رکے ہوئے ہیں اور اس وقت حرکت میں آتے ہیں جب اشارے میں ہری بتی جلتی ہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ کمیت اور رفتار مل کر توانائی دیتی ہیں اور توانائی باقی رہتی ہے۔ کمیت میں اضافہ کی وجہ سے رفتار میں کمی ہوگی۔ الغرض اس بات میں ایک نظم پوشیدہ ہے۔

حیات کے پیمانے کے لئے پائیدار ماحول کی کثرت کے علاوہ بھی اشیاء درکار ہیں۔ حیات کے پیمانے کی خصوصی خاصیت کو جاننے کے لئے پہلے غیر حیاتی مادوں کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔

جیسا کہ قدیم یونانیوں نے اندازہ لگایا تھا کہ جوہر اور جوہری پیمانے عام مادّے کی بنیادی اینٹیں ہیں۔ کم از کم خالص جدولی عناصر کے لئے ہم اب بھی یہی سمجھتے ہیں جیسا کہ کاربن ، لوہا یا سونا اگرچہ ہمیں اس بات کا اندازہ ہے کہ عام مادّہ اصل میں جوہروں کا مرکب ہوتا ہے۔ بہرحال بیسویں صدی میں جو بات عیاں ہوئی وہ یہ تھی کہ عام مادّہ چھوٹے ذرّات پر مشتمل ہوتا ہے۔ جن کو بنیادی ذرّات کہا جاتا ہے اور جوالگ الگ چار ذرّات (اور چار ضد ذرّات )کے تین خاندانوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان ذرّات میں سب سے زیادہ عام اور شناسا پہلے خاندان کا ہلکا ذرّہ ہے : یعنی الیکٹران ، اوپر کوارک ، نیچے کوارک اور چھوٹا الیکٹران نیوٹرینو۔

آپ اور میں، ہمارا سیارہ ، ستارہ سب کے سب اسی سے بنے ہیں ، خاص طور پر الیکٹران ، اوپری کوارک ، نچلے کوارک سے۔ کوارک کی دو اقسام مل کر پروٹونوں (دو اوپری اور ایک نچلا ) اور نیوٹرا نوں (دو نچلے اور ایک اوپری )کو بناتی ہیں، اور یہ مل کر جوہر کا مرکزہ بناتے ہیں اور اسی طرح کسی بھی عنصر کی کیمیائی شناخت بنتی ہے۔ ہلکا الیکٹران مرکزے کے گرد چکر لگاتا ہے اور جوہروں کو سالمات میں بندھنے کی صلاحیت ودیعت کرتا ہے۔ جوہر کا مرکزہ وہ جگہ ہوتی ہے جہاں پر کمیت موجود ہوتی ہے ، اس کے گرد چکر لگاتے ہوئے الیکٹران نہایت ہی ہلکے ہوتے ہیں تاہم ان ہی کی بدولت کیمیا ممکن ہوتا ہے۔ جب آپ اپنے باورچی خانے میں کھانا بناتے ہیں تو آپ الیکٹران سے کھیل رہے ہوتے ہیں - جو کیمیائی بند توڑتے اور دوبارہ سے بناتے ہیں۔ اگر کھانے کے نتیجے میں آپ کا وزن بڑھتا ہے تو اس کی وجہ ہوتی ہے کہ آپ نے اپنے جسم میں مزید کوارکوں کو جمع کر لیا ہے۔

کہانی ابھی مکمل نہیں ہوئی ہے۔ ہم بنیادی قوّتوں کو بھول نہیں سکتے۔ ایک ذرّہ دوسرے کو متاثر کر سکتا ہے ؛ مثال کے طور پر ہائیڈروجن کے جوہر کا مثبت پروٹون اپنے مدار میں منفی الیکٹران کو پکڑ کر رکھتا ہے۔ مادّے کا ایک ٹکرا دوسرے ٹکڑے پر ان قوّتوں کی صورت میں اثر انداز ہوتا ہے۔ بنیادی قوّتیں چار ہیں – ثقلی قوّت ، برقی مقناطیسی قوّت ، مضبوط قوّت اور کمزور قوّت۔ ہماری روزمرہ زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں ہم شروع کی دو قوّتوں سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ قوّت ثقل ہمیں زمین پر ٹکے رہنے میں مدد کرتی ہے (جس کا اثر ہم وزن کی صورت میں محسوس کرتے ہیں ) اور برقی مقناطیسی قوّت ہمیں ہلنے جھلنے میں مدد کرتی ہے (رگڑ کی صورت میں )۔ ان تمام قوّتوں کی ایک عام خاصیت یہ ہے کہ یہ سب ایک مشترکہ ذرّہ سے پہچانے جاتے ہیں(جس پر حالت سکون میں کوئی کمیت نہیں ہوتی ) اور جو طاقت کے سب سے چھوٹے کوانٹم (یا بنڈل ) رکھتے ہیں۔ برقی مقناطیسی طاقت کا ذرّہ فوٹون کہلاتا ہے۔ ہم فوٹون کو روشنی کے ذرّے یا پھر حرارت کی صورت میں دیکھتے ہیں یا مثال کے طور پر ہم اس کو موبائل فون پر بات کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ذرّے کی ثقلی طاقت کو گرویٹون کہتے ہیں۔ ان تمام ذرّات میں موج کی خصوصیت ہوتی ہے۔

اب اس پیمانے پر غور کریں جو بہت زیادہ بڑا ہے - کہکشائیں ، ستارے اور نظام ہائے سیارگان۔ یہ وہ دنیا ہے جہاں قوّت ثقل کی حکمرانی ہے۔ یہاں پر کوئی رگڑ یا برقی مقناطیسی قوّت نہیں ہے جو ان اجسام کو ان کے مدار سے کج رو یا آہستہ کر دے اور کیمیائی بند جو حیات کے شروع ہونے کے لئے ضروری ہیں وہ اس پیمانے پر یہاں وقوع پذیر نہیں ہو سکتے تھے۔ دوسری انتہاء پر جو پیمانہ ہے وہ ہمارے لحاظ سے بھی بہت چھوٹا ہے یعنی کہ کوانٹم کا پیمانہ۔ قوّت ثقل کا یہاں کوئی عمل دخل نہیں ہے ؛ انفرادی ذرّات کی کمیت اتنی کم ہوتی ہے کہ یہاں پر برقی مقناطیسی قوّت کی حکمرانی ہے۔ دونوں بڑے اور چھوٹے پیمانوں پر حیات کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں موجود ہے۔ کائناتی پیمانے پر اشعاع کا سمندر ہے اور اس کے باہر منجمد کر دینے والی ٹھنڈ کسی بھی اس چیز کو ختم کر دے گی جو اتصال کے لئے برقی مقناطیسیت پر انحصار کرتی ہے۔ چھوٹے پیمانے پر اشیاء بہت ہی تیز اور ناقابل پیش گو حرکت کرتی ہیں اور کسی بھی حیات جیسی منظم چیز کو اس پیمانے پر کھڑے ہونے کا موقع ہی نہیں ملے گا۔ کرۂ ارض پر حیات آسانی کے ساتھ ان دونوں کے درمیان ہی قائم رہ سکتی ہے - جس کو ہم بڑے سالمات کا پیمانے کہہ لیتے ہیں۔ ان کا درجہ ستاروں سے شروع ہوتا ہے جو کوانٹم پیمانے سے کچھ درجے اوپر (١٠٢٩ ایم ) سے کر ہمارے گھر کے درجے سے قریب (١٠٢٥ ایم )پر ختم ہوتا ہے۔
حیات کا پیمانہ

بڑے سالمات کا پیمانہ ہی اس حیات کا اصل پیمانہ ہے جس کو ہم جانتے ہیں۔ تمام ضروری حیاتی عمل ، اطلاعات لے جانے والے سالمے اور زیادہ تر جاندار (جرثومے ) آسانی کے ساتھ اس پیمانے میں سما سکتے ہیں (خاکہ نمبر7.1 کو دیکھیں ) حیات کے پیمانے کا اطلاق بہت ہی موزوں طریقے سے سیارے پر بھی لاگو ہو جاتا ہے۔ بڑے پودے اور جانداروں جن کی نشو نما بڑے سالمات کے پیمانے پر ہوئی ہے - یہ حالیہ دور کی ہی پیش رفت ہے۔

7.1مماثل حجم :حیات کے سالمے پانی کے سالمات (H2O)کے مقابلے میں بہت بڑے ہوتے ہیں؛ یہ بڑے سالمی پیمانے کو بیان کرتے ہیں۔

بڑے سالمات کے پیمانے میں ایسی کیا خاص بات ہے ؟ قوّت ثقل اب بھی کمزور ہے ، لیکن بڑے سالمات کی کمیت اب نظر انداز کر دینے کے قابل نہیں ہے۔ لہٰذا قوّت ثقل کا رد عمل قابل پیمائش ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ پانی کا محلول جس میں یہ سالمے اور ان کی ساخت قائم رہ کر کام کرتی ہیں اس پر قوّت ثقل کا اثر ہوتا ہے۔ قوّت ثقل اس پیمانے پر ایک استحکام بخش عامل کے طور پر کام کرتی ہے - برقی مقناطیسی قوّت کے خلاف بطور دافع کام کرکے توازن قائم رکھتی ہے۔ سیارہ زمین اس کی ایک اچھی مثال ہے : یہ اتنا ضخیم ہے کہ اپنی قوّت ثقل کے زیر اثر سکڑ اور بھینچ سکے۔ جیسا کہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس کی چٹانیں بہت ہی زیادہ دباؤ میں آ کر بھینچی ہوئی ہیں جس کے نتیجے میں آکسیجن ، سلیکان اور لوہے کے جوہر ایک دوسرے کے قریب آ گئے ہیں۔ ان کے درمیان موجود برقی مقناطیسی طاقت جو بطور دافع کام کر رہی ہے اس نے قوّت ثقل کو مادّے کو بھنچ کر ایک دوسرے کے قریب کرنے کی ایک حد قائم کردی ہے ؛ لہٰذا زمین اسی حالت میں ارب ہا سال سے پائیداری سے جمی ہوئی ہے اور آنے والے لمبے عرصے تک ایسی ہی قائم رہے گی۔ یہی توازن ہمارے سورج کو بھی ارب ہا برسوں تک چمکنے کے لئے قائم رکھے گا۔

چھوٹی چیزیں – مثال کے طور پر ہمارے جسم - بھی اسی طرح کے دباؤ کے توازن میں ایک ساتھ قائم ہیں لیکن یہ توازن قوّت ثقل اور برقی مقناطیسی طاقتوں والا توازن نہیں ہے۔(ہمارے جسم میں کمیت اتنی زیادہ نہیں ہے کہ قوّت ثقل اس کو ایک ساتھ جوڑ کر رکھ سکے )۔ اس کے بجائے ہمیں زمین کی قوّت ثقل کھینچ کر رکھتی ہے اور ساتھ ہی ہمارے اوپر ہوا کا دباؤ بھی موجود رہتا ہے - جو پندرہ پونڈ فی مربع انچ کا ہوتا ہے۔ ہوا کو بھی قوّت ثقل نیچے کی جانب کھینچ رہی ہوتی ہے۔ جتنے چھوٹے پیمانے پر ہم جاتے ہیں برقی مقناطیسی قوّت اسی قدر توانا ہوتی جاتی ہے اور قوّت ثقل اس پیمانے پر مقابلے سے باہر ہو جاتی ہے۔ برقی مقناطیسی قوّت جو کیمیائی بندھ کے ذریعہ اپنا مظاہرہ کرتی ہے ہمارے بافتوں کی ساخت کو مضبوط بناتی ہے اور خلیوں کو ایک ساتھ جوڑ کر ملا کر بڑے کثیر الخلوی اجسام بناتی ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ ہر چیز اپنے مناسب اور موزوں طاقت و جسامت کے ساتھ ایک قاعدے میں ہے – جیسا کہ جے بی ایس ہیلڈن (J. B. S. Haldane) - جو ابتدائی ماہر جینیات اور سائنس کو عام لوگوں میں پھیلانے والے تھے - ١٩٢٨ء میں اپنے ایک مضمون کو لکھتے ہوئے اس بات سے انگشت بدنداں تھے۔ وہ اس سوال کا جواب دیتے تھے جو ہم اپنے لڑکپن سے ہی پوچھتے ہیں: کیڑے اس طرح سے کیسے بنے ہیں کہ وہ اپنی جسامت سے کئی گنا بلندی سے گرتے ہیں اور پھر بھی انھیں کچھ نہیں ہوتا ؟ کچھ کیڑے پانی کی سطح پر کیسے چل لیتے ہیں جبکہ دوسرے اس میں ڈوب جاتے ہیں ؟

ہیلڈن نے عام فہم طور سے صحیح جواب دیا تھا۔ ایک سابقہ رفیق کار ، بل پریس(Bill Press) نے زیادہ ریاضیاتی طریقے سے اس کا جواب دیا اور انسانی جسم کے حجم کا صحیح جواب حاصل کر لیا۔ صحیح جواب حاصل کرنے کے لئے ہمیں تین باتیں فرض کرنی ہوں گی :کہ انسانی جسم (١) غیر قلمی ہئیت کے بجائے پیچیدہ سالمات جو دھاگے (کثیر سالمی مرکب ) سے بنے ہیں، (٢) ان کو ایک ایسے ماحول کی ضرورت ہوتی ہے جو ہائیڈروجن اور ہیلیئم سے مل کر نہ بنا ہوا (٣) اور اپنے بڑے دماغ کو جسم میں رکھنے کے لئے جتنا ممکن ہو سکے بڑی جسامت حاصل کر لے، وہ ٹھوکر کھانے اور گرنے والا تو ہو تاہم ایسا کرتے ہوئے اس کو ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہونا چاہئے۔ اس طرح سے اس نے ایک تندرست جاندار کا صحیح حجم بتا دیا جو ٹھوس زمینی سطح پر رہ سکے۔ اس میں وہ درجہ حرارت بھی شامل ہے جس پر انسان (اور زیادہ تر جانور ) جی سکیں - اور اس بات پر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ - وہ درجہ حرارت ان کے کیمیائی بندھوں کی توانائی کے قریب ہونا چاہئے۔ جیسا کہ بل نے اشارہ کیا ہے کہ یہ حقیقت ہی خوراک کو بنانا ممکن کر پاتی ہے۔

عظیم کائنات بلاشبہ ہمارے انسانی پیمانے پر نہیں بنی ہے اور مسئلہ خلاء کی وسعت کا ہی نہیں ہے یہاں تو ناقابل فہم وقت کا بھی بڑا مسئلہ اپنی جگہ بدرجہ اتم موجود ہے۔ جیسا کہ ہم نے بیسویں صدی کی طبیعیات سے سیکھا ہے کہ زمان و مکان لاینفک طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، لہٰذا اس بات میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کسی ایسی بڑی جگہ میں چیزیں بدلنے کے لئے بہت لمبا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ میری کہانی کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ آپ کو ان تمام باتوں کا احساس ہو۔ اس بات سے قطع نظر کہ کائنات بحیثیت مجموعی انسانی پیمانے پر نہیں بنی ہے ، لیکن یہ بات ظاہری طور پر ممکن ہے کہ یہاں پر کوئی ایسی جگہ موجود ہو جیسا کہ ہمارا اپنا سیارہ ہے اس کو تلاش بھی کیا جا سکتا ہے ۔ یہ بات کوئی حادثاتی بات نہیں ہے جیسا کہ میں اگلے باب میں زیر بحث کروں گا۔ حیات کو سیارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے۔

باب ہشتم - سیارے ہی کیوں؟

عہد وسطیٰ کے دوران جب ہر بر اعظم کی ایک اپنی ہی الگ دنیا تھی ، لوگوں کے جد امجد کو سنجیدگی کے ساتھ الگ الگ سمجھا جاتا تھا۔ نشاط الثانیہ کے دور میں زمین دوسرے سیاروں کی طرح ایک سیارہ سمجھا جاتا تھا ، جبکہ دوسرے سیاروں میں بلکہ یہاں تک کہ چاند پر بھی مختلف النسل لوگوں کے رہنے کا سنجیدگی سے یقین رکھا جاتا تھا۔ لہٰذا میں ایک قدیمی سوال کے ساتھ ہی جوان ہوا اور اس سوال کو میں نے دوبارہ نئے جہانوں کی دریافت کے ثبوتوں کے ساتھ ملا کر دیکھا کہ حیات کو نمودار اور قائم رہنے کے لئے کس چیز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں سے کچھ ثبوتوں کو میں نے پہلے بھی بیان کیا ہے لیکن اب میں یہاں ان سب کو جمع کرنے کی کوشش کروں گا تاکہ حیات کے ظہور پذیر ہونے پر بحث کر سکوں کہ یہ صرف سیاروں پر ہی پائی جائے گی۔

لہٰذا ہمیں پھر سے کچھ قدم پیچھے جانا ہوگا اور کائناتی نقطۂ نظر سے چیزوں کو دیکھنا ہوگا۔ سیارے ہی کیوں ؟ کیا کائنات میں دوسری جگہیں موجود نہیں ہیں جو حیات کو پالنے کے لئے اتنی ہی اچھی ہوں جتنا کہ اچھے سیارے ہوتے ہیں ؟

یہاں پر اس جواب دینے کا ایک طریقہ ہے :کائنات میں ہم دوسری جگہوں کے بارے میں معلومات کو حاصل کریں اور اس کو اپنی حیات کے متعلق معلومات سے ملا کر دیکھیں کہ کیا کوئی نتیجہ خیز چیز نکلتی ہے۔ پہلا جز تو حاصل کرنا سب سے زیادہ آسان ہے۔ پچھلے پچاس برسوں میں فلکیات دانوں نے ہماری قابل مشاہدہ کائنات کے بارے میں سوجھ بوجھ کو بدل کر رکھ دیا ہے بہرحال اس بارے میں تو سب لوگ زیادہ تر متفق ہیں کہ کائنات میں کیا موجود ہے - بہت ساری کہکشائیں ، مزید ستارے اور سیاروں کی ایک فہرست جو دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔

حیات کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں یہ ایک مشکل بات ہے - بیک وقت ہم کافی باتیں جاننے کے باوجود بھی بہت کم جانتے ہیں۔ سائنس دانوں نے بنیادی اینٹوں اور حیات کی اشکال اور باہمی ربط کے بارے میں ہماری سوچ میں انقلاب برپا کر دیا ہے ، اس کے باوجود وہ حصّے ایک نظام میں موجود ہیں (نظام کی تعریف ، پیچیدہ چیز کو نسبتی عناصر کے امتزاج میں ڈھالنے سے کی جا سکتی ہے ۔ یہی وہ تعریف ہے جو میں نظام کے لئے یہاں پیش کروں گا کیونکہ نظام کی اس سے بہتر تعریف پیش کرنے کو میرے پاس نہیں ہے ۔)جو ایک جال سا بناتے ہیں ،(جال شاخوں کا ایک ایسا نمونہ ہوتا ہے جو ایک دوسرے سے خطوں، سرکٹ، چیزوں اور اسی طرح سے دوسری چیزوں سے جڑا ہوتا ہے، نمونے کو کسی ترتیب کی ضرورت نہیں ہوتی۔) اور یہاں پر کوئی ایسی چیز بھی موجود ہے جو لازمی تو ہے پر مغالطے میں ڈال دینے والی ہے۔

میں شروع مشکل والے حصّے سے کروں گا اور ان چیزوں کی فہرست بیان کروں گا جو ہم حیات کے بارے میں جانتے ہیں - حیات کی تعریف نہیں بیان کروں گا ، صرف اس کے چند لازمی خواص ہی بتاؤں گا:
1. حیات اپنی روح میں کیمیائی ہے۔
2. حیات ایک ایسا نظام ہے جو توازن میں نہیں ہے۔
3. حیات مطابقت رکھنے والی اور خود اصلاحی ہے۔
4. حیات الگ الگ اور ممیز حصّوں میں بٹی ہوئی ہے - اس کو خلیوں ، ملفوفات اور تھیلیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
5. حیات وہ سالمے استعمال کرتی ہے جو پانی سے موزونیت رکھتے ہوں۔

فہرست کو مرتب کرنا آسان ہے ؛ اصل مشکل اس بات کا تعین کرنا ہے کہ اس میں سے کیا چیز غائب ہے ، کیونکہ ہم حیات کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں وہ صرف ایک ہی مثال - یعنی کہ زمین پر حیات کی مدد سے جانتے ہیں۔دلچسپ طور پر پانچ میں سے ہر ایک نقطہ جداگانہ طور پر ایک غیر حیاتیاتی نظام کو بیان کر سکتا ہے ، ایسا لگتا ہے کہ حیات کے ظہور پذیر ہونے کے لئے ان تمام پانچوں نکات کا ہونا لازمی ہے۔

پہلی خاصیت تو عیاں ہے لیکن بڑی تصویر کو بیان کرنے کے لئے انتہائی ضروری ہے کیونکہ یہ کائنات میں حیات کے کسی بھی ماخذ کے لئے مطلق ضروری ہے۔ مادّے کی کوئی دوسری شکل یا نظام ایسا موجود نہیں ہے جو اتنے منظم جال رکھتا ہو ؛ کیمیائی بند قدرتی ماحول میں حیرت انگیز کام سر انجام دے سکتے ہیں۔ ہم اس بات کے امکان کو رد نہیں کر سکتے جس میں حیات ایک نظام کو تشکیل دے (یا نظام کی شکل میں ڈھل جائے )جو سالموں پر انحصار نہ کرے ، لیکن یہ وہ سوال نہیں ہے جو میں پوچھ رہا ہوں۔ میری دلچسپی تو اس عمل میں ہے جس میں حیات ظاہر ہوتی ہے اور اس ماحول میں ہے جو اس کو نمو کرنے کی اجازت دیتا ہے ؛ یعنی کہ ، میں اس عبوری کائناتی مرحلے میں دلچسپی رکھتا ہوں جس میں کیمیا ، حیات کی شکل اختیار کرتی ہے۔ لوگ غیر سالمی (غیر حیاتیاتی ) حیات کی شکل کو بیان کر چکے ہیں (جیسا کہ ہینز مورویک(Hans Moravec)، رے کرزویل (Ray Kurzweil) اور اسٹیون ڈک (Steven Dick)کی کہانیوں میں ملتا ہے )، لیکن اس کا ماخذ یا ارتقاء ہمیشہ سے سابقہ حیاتیات ہی ہوتی ہے اور اس کی بنیاد جزوی طور پر ہی سالموں یا سالماتی بندھوں پر ہی ہوتی ہے۔ ہم انسان منظم جال سلیکان میں بنانے کے اہل ہو سکتے ہیں لیکن یہ لمبے عرصے پر محیط ٹیکنالوجی میں پیشرفت کی وجہ سے ممکن ہو سکا ہے بغیر حیات کے سیارے کے اصلی ماحول کی وجہ سے نہیں۔
 

سیارے اس بات کو ممکن بناتے ہیں کہ وہ طبعی طور پر خلائی اشعاع کے خلاف اپنے وزن اور کرۂ فضائی کی بدولت ہمیں حفاظتی مدد فراہم کر سکیں۔ سیارے اوسط وقتی پیمانے پر پائیداری فراہم کرتے ہیں جو اتنے لمبے برسوں پر محیط ہوتی ہے کہ کیمیائی جال کی نشوونما ہو سکے۔ مثال کے طور پر بین النجمی سالماتی بادل (کسی بھی دوسرے بادل کی طرح ) صغیر یا کبیر ماحول نہیں فراہم کر سکتے جو پائیدار ہو۔ یہ ہمیں کائنات کی تباہ کن اشعاع سے وقت کے اس پیمانے پر تحفظ فراہم کر سکے جبکہ سیارے ایسا کر سکتے ہیں۔

دوسری خاصیت بھی ایک مطلق ہے : توازن میں پایا جانے والا نظام ایک مردہ نظام ہوتا ہے جس میں کوئی چیز وقوع پذیر نہیں ہوتی ؛ آپ کو کچھ بھی کرنے کے لئے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ کو ایک منظم جال بنانے کے لئے کیمیا یا توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ کو کسی بھی چیز کو ترتیب میں رکھنے کے لئے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے ، اندرون کو بیرون سے الگ رکھنے کے لئے بھی توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ 

تیسری خاصیت جو ارض پر موجود حیات یا شاید کسی بھی حیات کے بارے میں دل موہ لینے والی ہے - وہ اس کی تیز اور سست تبدیلیوں سے مطابقت پذیری ہے۔ چارلس ڈارون نے اس خاصیت کی روح کو دیکھ لیا تھا ، جو جزوی طور پر اس عمل پر انحصار کرتی ہے جس کے نتیجے میں نئے اور مختلف جاندار جنیاتی مادے تبدیلی کے نتیجے میں نشوونما پاتے ہیں۔ جس کو ارتقاء کہتے ہیں یا ڈارون کو اعزاز دینے کے لئے ڈارونی ارتقاء بھی کہتے ہیں۔ زیادہ تر سائنس دان اس بات کو اتنا اہم سمجھتے ہیں کہ وہ اس کے ذریعہ سے حیات کو بیان کرتے ہیں۔ اسکریپس انسٹیٹیوٹ کے جیرالڈ جوائس(Gerald Joyce) نے ناسا کی کمیٹی میں پیش کی جانے والے تجویز کے خلاصے میں ١٩٩٤ء میں حیات کی شہرہ آفاق مختصر ترین تعریف میں بیان کی " ایک خود کو قائم رکھنے والاکیمیائی نظام جو ڈارونی ارتقاء کا اہل ہو "، اس کو اکثر ناسا کی تعریف سے بھی جانا جاتا ہے۔ اگرچہ ڈارونی ارتقاء ایک عیاں طریقہ ہے جس سے تبدیل ہوتے ماحول کے جواب میں اور دوسرے جاندار اشیاء کے ساتھ میل کھا کر بوقلمونی حاصل کی جا سکتی ہے، لیکن اصل میں صرف یہ ہی ایک ایسی چیز نہیں ہے۔

اس کا متبادل ایک ایسے ماحول کی موجودگی ہے جو ایک تسلسل کے ساتھ حیات کی تخلیق کو بغیر کسی مورثی سالمے کے بننے کی اجازت دے ، لیکن اس میں بھی کچھ غیر متوقع تبدیلی کے ساتھ حیات بنتی رہی۔ ایسی کسی بھی حیاتی کیمیا کی بقاء کا انحصار اس ماحول کی موجودگی پر ہوگا جس نے تسلسل کے ساتھ حیات کی شکل کو تالیف کیا ہوگا۔ ارتقاء ایک سادہ اور سیدھا طریقہ کار پیش کرتی ہے اور اس بات کا کافی امکان ہے کہ یہ کائناتی خاصیت مختلف حیات کے ماخذوں اور حیاتیاتی کیمیا کا خاصہ ہو۔

کائنات میں کیمیا کے حیات میں بدلنے کے عبوری وقت میں سالموں اور ان کے کام کرنے کا کوئی متبادل نہیں ہے؛ صرف ایک دوسری لازمی خاصیت جو توانائی کی پراگندگی کو بیان کرتی ہے - صرف وہی سالموں کے بغیر کام کر سکتی ہے۔ دوسری کسی بھی چیز کے لئے پیچیدہ سالموں خاص طور پر بڑے سالمات جن کو کثیر سالمی مرکب (Polymers) کہتے ہیں ان کے بغیر ایسا کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ کثیر سالمی مرکب بہت لمبے سالمے ہوتے ہیں جو چھوٹے حصّوں جن کو یک سالمی مرکب (Monomers)کہتے ہیں۔(دیکھیں خاکہ نمبر7.1)۔ حیات کے بنیادی خامرے جو حیاتی کثیر سالمے کہلاتی ہیں وہ پروٹین ہوتے ہیں - یہ امینو ایسڈ اور نیوکلک ایسڈ کو باہم مربوط کرکے بنتے ہیں - جو نیوکلیوٹائیڈز سے بنتے ہیں۔

شاید ہم یہ بات نہیں جانتے کہ کونسا کیمیائی جال اور خواص حیات کے لئے لازمی ہیں ، لیکن جہاں تک ہمیں یقین ہے کہ ان میں سے کچھ ضرور ایسے ہیں جو حیات کے لازمی ہیں۔ سالمے بنیادی اینٹیں بن سکتے ہیں اور ان کے بغیر ایسا نہیں ہو سکتا۔ مزید براں اگرچہ لاکھوں کی تعداد میں سالمے موجود ہیں ، ان کو بنانے کے اوزار بہت ہی محدود ہیں ، اس طرح سے ہم آسانی کے ساتھ اپنے آپ کو ان چیزوں تک محدود کر سکتے ہیں جو ہمارے خیال میں حیات کے ارد گرد موجود ہونا لازمی ہونی چاہئیں۔ یہ اچھی بات ہے کیونکہ یہ ہمیں اسے سمجھنے کے لئے ایک اچھا موقع فراہم کرتا ہے۔

جیسا کہ ہم ملاحظہ کر چکے ہیں کہ حیات کو اس پیمانے پر ہونا چاہئے جس میں قوّت ثقل اور برقی مقناطیسی قوّت دونوں قابل توجہ ہوں ، اس کے علاوہ حیات کو خلائی ماحول سے تحفظ کی بھی ضرورت ہے۔ درجہ حرارت کو دیکھیں۔ کائنات میں اس کے بہت ہی زیادہ درجے ہیں - انتہائی منفی (مطلق صفر )سے لے کر کچھ دسیوں لاکھوں ڈگری تک۔ سب سے ٹھنڈی جگہیں وہ گیس کے بادل ہیں جو ستاروں سے دور چھوٹی کہکشاؤں کے مضافات میں واقع ہوتے ہیں۔ کئی سیارے بھی بہت سرد ہیں۔ ہمارے نظام شمسی میں بونے سیارے سیڈنا اور ایرس نیپچون کے سورج کے فاصلے سے تین گنا زیادہ دور ہیں اور ان کی سطح کا درجہ حرارت کبھی بھی ہڈیوں کے گودے تک کو جما دینے والے ٣٠ کیلون (منفی ٤٠٠ فارن ہائیٹ ) سے اوپر نہیں جاتا۔ حالیہ دور میں حاصل کی جانے والی ان گیسی دیوہیکل سیاروں کی تصاویر جو ستارے HR 8799 اور فومل ہوٹ(Fomalhaut) کے گرد چکر کاٹ رہے ہیں وہ بھی یہ بتا رہی ہیں کہ ان سیاروں کا اپنے ستارے سے اتنا ہی عظیم فاصلہ ہے۔ لہٰذا اس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ اور بھی کافی زیادہ سیارے اتنے ہی سرد ہوں گے۔

انتہائی شدید درجے حرارت کے علاقے ضخیم سیاروں اور کہکشاں کے مرکز کے قریبی علاقے ہیں۔ ہم سالموں کے ٹوٹنے کی برداشت کو جانتے ہیں ، اور زیادہ تر اونچے درجہ حرارت ان کی برداشت سے باہر ہوتے ہیں۔ اگرچہ ان میں سے کچھ بہت زیادہ سخت جان ہوتے ہیں جیسا کہ کاربن مونو آکسائڈ جو اونچے نجمی درجہ حرارت (کم کثافت میں وہ ٦ ہزار کیلون پر بھی بچے رہ سکتے ہیں )، کوئی بھی سالمہ جو تین جوہروں سے زیادہ پر مشتمل ہو وہ صرف اسی درجہ حرارت پر قائم رہ سکتا ہے جو ستاروں کے درجہ حرارت سے بھی کم ہو۔ کہکشاؤں کے مرکزی علاقوں میں موجود بادلوں میں بھی سالمے باقی نہیں رہ سکتے۔ ستاروں سے نکلنے والی ایکس ریز اور بالائے بنفشی شعاعیں اور عظیم نوتارے کے دھماکے سے نکلنے والی توانائی کہکشاؤں کی گیس کو اچھا خاصا گرم رکھتی ہے۔ 

کم درجہ حرارت کے اپنے مسائل ہیں - خامرے باقی تو رہتے ہیں لیکن اپنے کیمیائی عمل کو کھو دیتے ہیں۔ جیسا کہ ہم اپنے ذاتی تجربے کی بدولت جانتے ہیں ( اور اس کا استعمال ریفریجریشن کے ذریعہ کرتے بھی ہیں )، کہ نچلے درجہ حرارت پر کیمیائی عمل بہت ہی سست پڑ جاتا ہے۔ اگر بہت ہی زیادہ سخاوت کا مظاہرہ کریں تو درجہ حرارت ١٠٠ کیلون سے ٦٠٠ کیلون تک ٹھیک ہے لیکن اگر ہم زمین کی اس حیاتیات کی بات کریں جو ہم دور حاضر میں جانتے ہیں تو درجہ حرارت کا پیمانہ اور تنگ ہو جائے گا۔

یہ ایک غیر معمولی نتیجہ ہے ۔ ایک ایسی کائنات جہاں درجہ حرارت دسیوں لاکھوں ڈگری کا ہونا ایک عام سی بات ہو ، حیات ایک کم درجہ حرارت پر وقوع پذیر ہونے والا مظہر ہے۔ اتنے نچلے درجہ حرارت پر کائنات میں صرف چند ہی ایسی بڑی چیزیں ہیں جو لمبے عرصے قائم رہ سکتی ہیں – جیسے ستاروں کے درمیان گیس کے بادل جن کو سالماتی بادل کہتے ہیں اور سیارے (اس کے علاوہ ان کے سیارچے اور دوسرے چھوٹے سیاروی اجسام )۔

توانائی تک رسائی ایک اور اہم ماحولیاتی شرط ہے۔ درج بالا درجہ حرارت کے پیمانے میں صرف دو خفیف ، پائیدار اور لمبے عرصے تک قائم رہنے والی توانائی کے ذرائع ہیں : ستاروں کی روشنی اور سیاروں کی اپنی اندرونی حرارت۔ ستارے سے اتنا دور رہنا جیسا کہ زمین سورج سے فاصلے پر ہے ایک اچھی جگہ ہے۔ توانائی کا بہاؤ تسلسل کے ساتھ اور لمبے عرصے چلنے والا ہونا چاہئے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بڑے سالموں کے اجسام کو تباہ کیے بغیر ان کی توانائی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس نجمی توانائی تک رسائی کے لئے حیات کو صرف سیاروں پر ہونا لازمی نہیں ہے۔ دوسری طرف سیاروی ہائیڈرو تھرمل ریخیں جیسا کہ یلو اسٹون نیشنل پارک میں یا آئس لینڈ میں موجود ہیں ، یا پھر سمندر کی تہ میں موجود ہیں ، یہ اس اندرونی حرارت کی اچھی مثال ہیں جو ویسی ہی توانائی مقامی اور عالمگیر سطح پر سیارے کو دیتی ہے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ ستارے سے کتنی دور ہے۔ سیارے آہستگی کے ساتھ ٹھنڈے ہوتے ہیں ، خاص طور پر بڑے عظیم ارضی سیارے اور ان کا توانائی کا یہ منبع ایک کافی لمبے عرصے تک تسلسل کے ساتھ قائم رہ سکتا ہے۔ حرارت کے علاوہ ، یہ ریخیں زرخیز کیمیا کے منبع کے طور پر بھی کام کرتی ہیں جو توانائی کے ذرائع کے طور پر کام میں آسکتی ہے۔ مثال کے طور پر ہائیڈروجن سلفائڈ ایک ایسا کیمیا ہے جو میرے اور آپ کے لئے زہریلا ہو سکتا ہے ، لیکن ریخ میں رہنے والا ایک جرثومہ اس کو ایک ایسے عمل کے ذریعہ استعمال میں لاتا ہے جس کو کیمیائی تالیف کہتے ہیں اور جس کے نتیجے میں وہ اپنے خلیوں کو توانائی فراہم کرتا ہے۔

کیمیا کی بات کرتے ہوئے ، ایک تیسری اہم ماحولیاتی شرط ہے – بظاہر حیات کو ایک ایسے ماحول کی ضرورت ہے جو کیمیائی تعاملات کرنے کی اجازت دے۔ کائنات میں موجود زیادہ تر ماحول رقیق ہیں۔ نسبتاً پیچیدہ سالموں کو سالمی بادلوں میں بننے کا مشاہدہ کیا گیا ہے لیکن ان کی مرکزیت ہمیشہ بہت ہی رقیق رہی ہے۔ یہ بات انتہائی خطرناک طریقے سے سالموں کی پیچیدگی اور ان کے آپس میں ایک دوسرے سے برتاؤ کو محدود کر دیتی ہے۔ گیسی دیو ہیکل سیارے جیسا کہ مشتری اور زحل ہیں وہ بھی ایک دوسری ایسی مثال ہیں جو کیمیائی طور پر انتہائی مہین جگہیں ہیں۔ ان کے ابر آلود ماحول اور چمکیلے رنگ ہی وہاں موجود ہیں - کوئی ٹھوس یا مائع سطح وہاں پر موجود نہیں ہے۔ جیسے ہی بادلوں کی گہرائی میں اتریں ، گیس کثیف اور گرم تر ہوتی جائے گی اور چھوٹے سالموں کو چھوڑ کر سب تباہ ہو جائیں گے۔ زمین پر حیات کو خلیوں اور تھیلیوں کی صورت میں ملفوفات درکار ہوتے ہیں تاکہ وہ اپنے کیمیائی اجزاء کو کام کی جگہوں پر استعمال کر سکیں ؛ اس قسم کے عدم توازن کو قائم رکھنے کے لئے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔

نسبتاً نچلے درجہ حرارت ، تسلسل کے ساتھ توانائی اور کیمیائی ارتکاز مل کر ایک ایسی جگہ ہی چھوڑتے ہیں جو سیارے کی شکل میں بہترین ہو سکتی ہے ، اگرچہ صرف یہ واحد جگہ نہیں ہے جہاں حیات کے سالمے اور ان کے باہمی تعاملات ظہور پذیر ہو کر قائم رہ سکتے ہیں۔ کسی دوسری جگہ میں یہ تمام شرائط پوری نہیں ہوتیں۔ اور کچھ دوسرے سیارے جیسا کہ گیسی دیو ہیں وہ بھی اچھی جگہ نہیں ہو سکتے۔ میدانی سیارے منفرد ہوتے ہیں جو زرخیز مرتکز کیمیائی عمل ، توانائی کے ذرائع اور محفوظ ماحول فراہم کرتے ہیں۔ یہ ایک عمیق فہم ہے !
 

باب نہم - حیات بطور سیاروی مظہر

 

باب نہم

 

حیات بطور سیاروی مظہر

 

جنوبی افریقہ میں کیپ آف گوڈ ہوپ  سے شمال مغرب میں آدھے دن کے سمندری سفر  کے بعد کیپ ٹاؤن ہے ۔ آج بھی یہ  شہر ایک فوجی چوکی کے ہونے کا احساس دلاتا ہے ، ایک آرام دہ لیکن مضطرب بندرگاہ جو دنیا کے کنارے پر موجود ہے۔ الغرض جنوب میں انسانی آنکھ کو دیکھنے کے لئے صرف برف کے علاوہ کوئی دوسری چیز موجود نہیں ہے ، ایک منجمد جنوبی سمندر کرۂ ارض کی سب سے کم قابل رہائش  زمین کو گھیرے ہوئے ہے۔

 

اجنبی جدولی پہاڑ کے سائے میں ،نومبر ١٨٧٣ء میں ایک غیر معمولی برطانوی جنگی جہاز جس کا نام ایچ ایم چیلنجر تھا اس نے ایک لمبے صبر آزما سفر کا آغاز انٹارکٹکا کے برفیلے ساحل سے آسٹریلیا اور دنیا کے گرد شروع کیا۔ ایچ ایم ایس بیگل کے  چارلس ڈارون کے ساتھ شہرہ آفاق سفر کے چالیس سال بعد ، ایچ ایم ایس چیلنجر پھر سے ایک چار سال کے سفر پر روانہ ہوا تاکہ نئے جہانوں کی کھوج سمندری دنیا کی گہرائی میں جا کرکر سکے۔ ایچ ایم ایس چیلنجر کے اس سفر میں جہاز کے عملے کے ساتھ چھ سائنس دان زاد سفر تھے اور جہاز کے عرشے پر آلات کی بھرمار تھی :جن کا کام سمندر کا درجہ حرارت ، گہرائی اور رو کو ناپنا ، سمندر کے نمونے حاصل کرنا  اور جو بھی  سمندری مخلوق ہاتھ لگتی اس  کے  زندہ نمونے جمع  کرنے تھے ۔

 

نتیجوں نے سائنس دانوں اور عام آدمی دونوں کے ایک جیسا ہی حیرت زدہ کیا۔ مکمل تاریکی اور زبردست دباؤ جو آٹھ یا اس سے زیادہ  کلومیٹر نیچے سمندر کی گہرائی میں موجود تھا ، وہاں سے ایم ایس چیلنجر نے چھ سو سے زائد نمونوں کو جمع کیا۔ ثمر آ ور نتیجے نے اس بات کو ثابت کیا کہ سمندر کے اندر پانی کی دنیا کوئی ویران صحرا نہیں ہے۔ سیارے کی سطح پر ہر جگہ حیات موجود تھی۔

 

حالیہ دور میں پچھلے بیس برسوں میں ہونے والی تحقیق نے دو مزید حیرت انگیز چیزوں کا ادراک فراہم کیا۔ پہلا  صرف زمین نے  حیات کو گھر مہیا نہیں کیا بلکہ وہ حیات کے ذریعہ پوری طرح بدل گئی جو اس کے ساتھ لگ بھگ 4.5 ارب سال پہلے اس کی تخلیق کے ساتھ  سے ہی چپکی ہوئی ہے۔ مزید یہ کہ حیات  سطح سے چپکی ہوئی جس قدر نازک لگتی ہے جس کو  شدید کائناتی واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ اتنی نازک نہیں ہے ۔ ہم نے جو سیکھا ہے اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ  کرۂ ارض پر حیات  کو مجازی طور پر تباہ نہیں کیا جا سکتا ۔ ثبوت اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ یہ ایسی طرح سے کافی لمبے عرصے سے ہے شاید ٣ ارب سال پہلے سے۔ زمین پر موجود تمام حیات کے خاتمے کے لئے لازمی ہے کہ  زمین کو سورج کا قلب پگھلا دے۔ حیات کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ ناصرف  زمین کے گرد گھومنے والے تمام خلائی جہازوں کی تعدیم کی جائے بلکہ ان خلائی جہازوں کو بھی فنا کیا جائے جن کو ہم خلاء میں دوسری جگہیں کھوجنے کے لئے بھیج چکے ہیں۔ اگرچہ اس بات کی امید تو نہیں ہے کہ مریخ کو ہم نے کچھ جرثوموں کے ساتھ بسا دیا ہوگا ؛ لیکن کچھ انتہاء درجے کے لچک دار جرثومے پچھلے تیس برسوں میں دریافت کیے جا چکے ہیں  اور کچھ  مثلاً ڈینوکوکس ریڈیو ڈورنس(Deinococcus radiodurans)  اتنے  سخت جان ہیں کہ مریخ کے سفر تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ اصلی خلائی مسافر !

 

ارضی حیاتی کرۂ کا اپنے آپ کو تباہی سے بچانے کا راز بے میل بوقلمونی اور ان جانداروں کی اختراعیت  ہے جو ہمارے سیارے پر حکمرانی کرتے رہے ہیں  - یعنی کہ جرثومے۔ ان میں سب سے زیادہ سخت جان  ایکسٹریمو فائلز (Extremophiles)کہلاتے ہیں  جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ انتہائی شدید ماحول میں بھی بس جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو ٢٥٠ فارن ہائیٹ (١٢٢ سینٹی گریڈ ) میں گرم موسم بہار میں اور سمندر کی تہ میں موجود"بلیک –سموکر " گرم آتش فشانی ریخوں  میں بھی بچے رہے تھے۔ جبکہ کچھ  دوسرے اونچے دباؤ پر بھی زندہ رہے ہیں ، مثال کے طور پر جب سنگترے کے رس کی جراثیم ربائی(Sterilizing) کی گئی یا  بحرالکاہل میں موجود مریانا کھائی کے قدرتی مسکن میں آٹھ سو گنا زیادہ دباؤ میں رہنے والے جرثومے۔ ان کے علاوہ بھی دوسرے جرثومے اپنا گھر چٹانوں کے ننھے  سوراخوں میں زمین کی سطح سے چار کلومیٹر کی گہرائی میں بناتے ہوئے دریافت ہوئے۔ تاریخ اپنے آپ کو پھر دہرا رہی تھی ، اکیسویں صدی کے جنگی بیڑے نے  چیلنجر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سمندر کی سطح میں سوراخ کیا۔

 

 سائنس دان شاید ابھی تک زمینی حیاتی کرۂ کی تہ تک نہیں پہنچ سکے۔ جرثومے جو زمین کی پرت کی گہرائی میں رہتے ہیں ان کو اکثر سیلائم (ایس ایل آئی ایم ای  - سب سرفیس لیتھو اوتھو ٹروپک  مائکروبل ایکو سسٹم )سماج کہتے ہیں۔ ان کا انحصار سطح کی کسی بھی چیز پر نہیں ہوتا۔ حرارت سیارے کی گہرائی سے آتی ہے ، کیمیائی چیزیں اور پانی پہلے سے ہی وہاں پر موجود ہے  اور سورج کی روشنی کی ان کو ضرورت نہیں ہوتی۔ اگرچہ ماحول کافی شدید ہوتا ہے لیکن پھر بھی  ان  کے لئے وہ محفوظ ہوتا ہے۔

 

یہ کوئی خلاف معمول مخلوق نہیں ہیں۔ تہ زمین کی وہ جگہ ہے  جہاں حیات بظاہر آج کے دور میں ناقابل معدوم ہے کیونکہ سطح کے نیچے کا یہ ماحول  سیارے کی کافی زیادہ حیات  کو اپنے اندر رکھتا ہے۔ کچھ سائنس دان جیسا کہ کورنیل یونیورسٹی کے آنجہانی تھامس گولڈ کہتے تھے کہ حقیقت میں حیوی کمیت (Biomass)کی اکثریت سطح کے نیچے ہے۔ حالیہ تخمینوں کے مطابق تین کھرب ٹن کاربنی  حیوی کمیت  کا مقابلہ پورے بر اعظم  کی سطح پر موجود حیوی کمیت سے کیا جا سکتا ہے یہ  زیادہ تر نباتاتی حیات ہے۔ اس گہرے حیاتی کرہ میں موجود جراثیمی سماج چٹانوں اور سمندری گاد  میں رہتے ہیں جو لگ بھگ سمندر کی تہ کے پانچ سو سے ایک ہزار میٹر کی گہرائی میں موجود ہیں ؛ ایک کیس میں تو بحر اوقیانوس کی تہ سے سولہ سو میٹر نیچے بھی حیات کو پایا گیا ہے۔ سیارے کی سطح کا ستر فیصد سمندر کی سطح نے ڈھکا ہوا ہے ، اور تہ کی نیچے کی گاد کے ہر مکعب سینٹی میٹر  میں دس لاکھ خلیے پائے گئے ہیں  اور جو زمین پر پائے جانے والے تمام جرثوموں سے آدھے سے بھی زیادہ ہیں۔

 

حالیہ دور میں ، حیاتی کرۂ کی گہرائی کی کھوج کرنے والوں نے پہلی  غیر جرثومی حیات کو ایک سے ساڑھے تین کلو میٹر کی گہرائی میں جنوبی افریقہ میں دیکھا ہے  - ایک ننھا کیڑا جو سطح کے نیچے رہنے والے جرثوموں کو بطور خوراک استعمال کرتا ہے۔ یہ بات  زمین کی گہری پرت میں موجود حیات کی زرخیزی کے بارے میں بیان کرتی ہے۔

 

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جرثومے  سورج کی روشنی اور  آکسیجن کے بغیر  میلوں کی گہرائی میں موجود چٹانوں میں زندہ رہ سکیں جہاں غذا  اور پانی کی قلت ہے ؟سوراخ کرکے حاصل کردہ نمونوں سے معلوم ہوا کہ وہاں پر ایسے جرثوموں کا غلبہ ہے  جو نہ صرف زبردست دباؤ کو برداشت کر سکتے ہیں بلکہ  خاص طور پر بقائے توانائی کے اصول پر کاربند رہتے ہوئے انتہائی آہستگی کے ساتھ صدیوں پر محیط وقت کے پیمانے پر پھلتے پھولتے (تعداد کو دوگنا کرتے)ہیں ! اگر ان کو کوئی ذمہ داری  بھی ہوتی ہے تو وہ کم از کم سطح پر رہنے والے ہم جانداروں کے بارے میں نہیں ہوتی۔ اگرچہ یہ بات واضح طور پر عیاں ہے کہ کروڑوں سال پہلے  ان کے آباؤ اجداد بھی سمندر کی تہ میں اور سطح پر رہنے والے تھے۔ یہ بات ان کے جینیاتی  نقشے سے معلوم ہوئی ہے۔ الغرض یہ کوئی بہت ہی غیر معمولی نہیں ہیں۔

 

زمین پر حیات کی تاریخ بہت ہی تیز رفتار مطابقت پذیری دکھاتی ہے  اور اس بات کا عندیہ دیتی ہے کہ جہاں کہیں بھی پانی ہے وہاں حیات اپنا مسکن بنا لیتی ہے ، چاہئے وہاں جو بھی درجہ حرارت ، دباؤ یا ترشی ہو۔ گہرے پانی کا چکر  - سطح کا پانی جو سمندر کی سطح کے نیچے زمین کی پرت کی گہرائی میں پہنچتا ہے – اپنے ساتھ حیات کو لے کر جاتا ہے   شاید یہ اس وقت سے ہی  ہے جب سے حیات سیارے پر نمودار ہوئی۔

 

حیات کے لئے زیادہ تر خطرات آسمان سے ہی نازل ہوئے۔ سب سے زیادہ ڈرامائی خطرہ کائناتی ہی ہیں : سیارچوں اور دم دار ستاروں کے تصادم ، اور کبیر ماحولیاتی تبدیلیاں  جس میں پورے کرۂ فضائی کا خاتمہ بھی شامل ہے۔  جی ہاں ڈرامائی ، ضروری نہیں  ہے کہ  وہ سیارے کی حیات کو مکمل طور پر  معدوم کر دینے والے ہوں۔

 

سیارچوں کے تصادم سیاروی نظام میں کی  حیات کا لازمی حصّہ ہیں۔، سیارچے ، ایک میل کے حجم کے (اکثر کئی میل کے حجم کے بھی ) چٹانی سیاروں کے بچے ہوئے ٹکڑے ہوتے ہیں  ان کے مدار ایسے ہوتے ہیں کہ بڑے سیاروں کے زیر اثر آتے رہتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ان میں سے کئی  بڑے سیاروں سے جا ٹکراتے ہیں یا  وہ انہیں دور اٹھا کر پھینک دیتے ہیں ، جیسا کہ نظام شمسی میں موجود مشتری  ہے۔ لیکن ان میں سے زیادہ تر اس پٹی میں موجود ہیں جو مشتری اور مریخ کے درمیان واقع ہے۔ لمبے عرصے میں سیاروں کے  ثقلی اثرات  ان سیارچوں  پر اس قدر پڑتے ہیں کہ  وہ ان کو  آپس میں یا دوسرے سیاروں سے تصادم کی راہ پر گامزن کر دیتے ہیں۔

 

دو کلومیٹر کے  سیارچے سے زمین کا ٹکراؤ انسانیت کے لئے تباہی ہو سکتا ہے لیکن گہرے حیاتی کرۂ میں موجود زیادہ تر جرثوموں کو تو اس تصادم کا پتا بھی نہیں چلے گا۔ کوئی بھی عطارد جتنا جسم اگر زمین سے ٹکرائے تب ہی زمین کی پرت اور سمندر تباہ ہوں گے اور شاید تب ہی جرثوموں کی تمام بستیاں جو سطح سے میلوں دور ہیں ختم ہو سکیں گی۔ بہرحال اکیسویں صدی کی ابتداء میں ہی ہمارے فلکیات دانوں نے نظام شمسی میں موجود ان سیارچوں کا مکمل شمار کرلیا ہے جو زمین کے مدار میں سے گزریں گے۔ ہم ان تمام اجسام کو جانتے ہیں جن کا حجم دو کلومیٹر سے زیادہ ہے اور جو ہم سے ٹکرا سکتے ہیں۔ فلکیات دان ابھی تک کسی بھی ایسے سیارے کے بارے میں نہیں جانتے جو زمین کے لئے خطرہ ثابت ہو سکے۔

    

سیارچوں اور سیارے کے درمیان تصادم  ، سیاروں کی تشکیل کے  دور میں بہت ہی  زیادہ عام ہوں گے اور یہ سلسلہ  سیاروں کے بننے کے ٥٠ کروڑ سال بعد تک بھی جاری رہا ہوگا۔ ہمیں یہ بات دوسرے نظام ہائے شمسی کو بنتے دیکھنے کے دوران معلوم ہوئی ہے۔ اگر بڑے سیاروی تصادم زیادہ عام ہوتے  تو سیاروں کے مدار کے درمیان گھومنے والے چھوٹے ذرّات  ہمارے جانے پہچانے سیاروں کے مداروں میں اتنی  زیادہ تعداد میں ہوتے کہ ہماری  نظروں سے چھپ نہیں سکتے تھے۔ ایسی "ملبے کی ٹکیائیاں"(Debris Disks) کہلانے والی  چیزیں کافی جانی پہچانی ہوتی ہیں  اور آسانی کے ساتھ ہماری جدید زیریں سرخ ٹیکنالوجی کے ذریعہ دیکھی جا سکتی ہیں۔ اسپٹزر خلائی دوربین ، جو زیریں سرخ  دوربین ہے اور ہبل خلائی دوربین کی دور کی رشتے دار ہے ، اس کی فراہم کردہ معلومات سے  معلوم ہوا ہے کہ ہمارا نظام شمسی دوسرے نظام ہائے شمسی سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔

 

تو پھر قیامت خیز ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں کیا خیال ہے  - زمین کے مکمل کرۂ فضائی کے خاتمے  اور باقی بچے ہوئے سمندروں کے منجمد ہونے  کا۔ یہ صرف  اس صورت میں ہو سکتا ہے جب  چاند کے حجم کا کوئی  ضخیم سیارچہ زمین سے آ کر ٹکرا جائے یا  پھر قریب میں کوئی نجمی دھماکا ہو : کسی عظیم نو تارے کا دھماکہ یا پھر گیما شعاعوں کی بوچھاڑ۔

 

گیما شعاعیں سب سے زیادہ قوی برقی مقناطیسی موجیں ہوتی ہیں۔ گیما شعاعوں کی بوچھاڑ ان تمام واقعات جن سے ہم باخبر ہیں اس میں سب سے زیادہ پر تشدد واقعہ  ہوتی ہیں اور کسی بھی کہکشاں میں  کبھی کبھار وقوع پذیر ہو جاتی ہیں۔ اس بات سے صرف نظر ، فلکیات دان  دن میں ایک کا سراغ پھر بھی لگا لیتے ہیں۔ اس کی وجہ ان کی انتہاء درجے کی تابانی اور سرایت کرنے کی خوبی ہے۔ ہم پورے قابل مشاہدہ کائنات میں ان کی بوچھاڑ کو دیکھ سکتے ہیں۔ یہ اس حتمی دھماکے کے نتیجے میں خارج ہوتی ہیں جو بہت ہی وزنی ستارے (عظیم نو تارے کے  خصوصی دھماکے ) اور دو مرغولہ کھاتے نیوٹران ستارے پیدا کرتے ہیں۔ بہرحال یہ دونوں واقعات نایاب اور دور دراز کائنات  میں وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ ایک عام شرح اور اوسط فاصلے سے جو  ہمیں پریشان کرنے والا اثر یہ ڈال سکتے ہیں وہ اوزون کی تہ ہے۔ کسی بھی ایسے دور دراز امکان میں جس میں ہم سے پچاس نوری برس کے فاصلے پر  کوئی ایسی بوچھاڑ ہو جائے تو ہم مصیبت میں آ سکتے ہیں۔ زمین کا کرۂ فضائی مکمل طور پر ختم ہو جائے گا اور  سطح پر موجود تمام حیات معدوم ہو جائے گی۔ لیکن وہ حیات معدوم نہیں ہوگی جو پرت کے اندر  موجود ہوگی۔

 

 ایک اچانک  ہونے والے واقعہ میں کرۂ فضائی کا نقصان زمین کے لئے ارضیاتی وقتی پیمانے پر عارضی طور پر ہوگا۔ کیونکہ زمین کی اندرونی ساخت  زیادہ تبدیل نہیں ہوگی، بنیادی ٹیکٹونک پلٹیں اور آتش فشانوں کے ذریعہ سیارے کے اندرون سے نکلنے والی گیسیں  آتش فشانی حرکت میں نکلتی رہیں گی۔ آتش فشانوں سے نکلنے والا کاربن ڈائی آکسائڈ کرۂ فضائی کو دوبارہ سے بھر دے گا  کیونکہ کاربن ڈائی آکسائڈ ایک سبز نباتاتی خانے  کی گیس ہے  جو منجمد سمندروں(یا اس میں سے جو بھی کچھ باقی بچا ہوگا اس ) کو پگھلا دے گی۔ اگر  اس نے اسے جزوی طور پر بھی پگھلا دیا تو پانی کی کرۂ فضائی میں تبخیر کاربونیٹ  سیلیکٹ کے چکر کو دوبارہ شروع کر دے گا۔

 

کاربونیٹ  سلیکیٹ کا چکر بالکل اس سے ملتا جلتا ہے جسے آج ہم  غیر نامیاتی کاربن کا چکر یا کاربن ڈائی آکسائڈ کا چکر کہتے ہیں۔ یہ بنیادی سیاروی چکر  اس کثیر گیس کاربن ڈائی آکسائڈ کا ہے  جو زمین کے اندرون سے اوپر اٹھ کر  سطح اور سمندر کے اوپر موجود  کرۂ فضائی میں جا کر تبدیل ہوتی ہے اور پھر آخر میں واپس زمین کے اندر چلی جاتی ہے۔ کاربونیٹ  سلیکیٹ  چکر کے مخصوص  چکر کا ایک خاص وقت کا پیمانہ ہے  -   ایک خاص وقت  جو تبدیلی  کو رونما کرتا ہے۔ سیارے زمین کے لئے یہ وقت کا پیمانہ چار لاکھ سال ہے۔ لہٰذا اگر گیما شعاعوں کی بوچھاڑ نے زمین کا کرۂ فضائی تباہ کر دیا ، تو  اس کو واپس اپنی پائیدار حالت میں آنے کے لئے صرف چند دسیوں لاکھ سال درکار ہوں گے یا شاید اس سے بھی کم۔ کوئی بھی جرثومہ جو پرت کی گہرائی میں بچا رہ جائے گا  - اور ایسے کئی ہوں گے  - اس کے پاس کافی موقع ہوں گے کہ وہ زمین کی سطح پر دوبارہ سے بس جائے۔ مثال کے طور پر جرثوموں کے وہ سماج جو ٹیکساس میں گہری کھدائی کے دوران پائے گئے ہیں  ایسا لگتا ہے کہ ان کا سطح سے رابطہ  ٨ کروڑ سال پہلے منقطع ہو گیا تھا یہ وقت اس سے کہیں زیادہ ہے   جو دسیوں لاکھ سال سطح کو دوبارہ  بسانے کے لئے درکار ہیں۔

 

بیشک اگر کوئی بھی ایسی آفات نازل ہوئی تو زمین کا کرۂ فضائی ڈرامائی طور پر تبدیل ہو جائے گا :آج   کرۂ فضائی میں موجود  گیسوں میں سے  دو اہم گیسیں  نائٹروجن اور آکسیجن  فضا سے غائب ہو جائیں گی اور آتش فشانوں اور سمندر کی تبخیر سے دوبارہ نہیں بھریں گی۔ بلاشبہ   یہ سطح کے نیچے رہنے والے خرد بینی جانداروں  کے لئے جو دوبارہ سے سطح پر ہجرت کر رہے ہوں گے  کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوگا؛ ان کو اپنی حالیہ جگہ پر آکسیجن کی کوئی ضرورت نہیں ہے  اور وہ پرانی دنیا میں بننے والے نئے جہاں میں اچھے طریقے سے اس وقت تک رہ لیں گے جب تک ان کو پرت میں موجود نائٹروجن کی باقیات کے منبع  تک رسائی ہوگی۔ ہو سکتا ہے کہ اگر انھیں ایک ارب سال کا عرصہ ملے تو  وہ ان گیسوں کو واپس کرۂ فضائی میں پہنچا دیں  کیونکہ یہ گیسیں ان خرد بینی حیات کی ضمنی پیداوار ہوتی ہیں  بعینہ  جیسے کہ انہوں نے زمین پر دو ارب سال  پہلے کیا تھا۔

           

یہ تو صرف انسان اور پیچیدہ حیات کی شکلیں ہیں  جن کی بقاء کائنات کی تبدیلیوں کے  نازک توازن پر قائم ہے۔ زمینی حیات جو کہ زیادہ تر بیشمار اور قدیمی خرد بینی جانداروں پر  مشتمل ہے  وہ  ہمارے چھوٹے سیارے پر اس وقت تک مورچہ بند رہے گی جب تک سورج اپنی زندگی پوری کرکے زمین کو پوری طرح سے ڈھانک نہیں لیتا۔ ذرا  اس بارے میں سوچیں کہ اگر زمین کا مدار غیر متوازن ہو  کر مشتری سے تصادم کی جانب گامزن ہو جائے اور  مشتری زمین کو اٹھا کر نظام شمسی سے باہر  دور پھینک دے تو کیا ہوگا۔ سننے میں ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ ختم ہو جائے گا ، کیونکہ تاریکی اور گہری ٹھنڈ سطح کو  پوری طرح سے ڈھک لے گی۔ بہرحال ہائیڈرو تھرمل  سرگرمی بغیر کسی تعطل کے  جاری رہی گے۔ کالا دھواں پینے والی زیادہ تر حیات تو کافی عرصے تک زندہ رہے گی۔ پرت ایک بہترین کمبل کی طرح کام کرے گی  جو زمین کے اندرون سے نکلنے والی  اس حرارت کو قید کر لے گی جو زمین نے بنتے وقت حاصل کی تھی۔ اس کے علاوہ وہ حرارت بھی قید ہو جائے گی جو زمین تابکاری کے نتیجے میں ان عناصر سے خارج کرتی ہے جیسے کہ یورینیم ،  پوٹاشِيَم ٤٠ اور تھوریم۔ حقیقت میں اندرونی خارج ہونے والی حرارت کو آج ٨٧ ملی واٹس فی مربع میٹر ناپا گیا ہے۔ یہ توانائی  گھر میں استعمال ہونے والے روشنی کے قمقمے میں استعمال ہونے والی توانائی سے  قریباً ایک ہزار گنا زیادہ کم ہے ، ایک ٢٥ واٹ روشنی کے بلب کو روشن کرنے کے لئے ایک کالج کی جماعت سے بھی زیادہ جگہ کی توانائی کو جمع کرکے اس بلب  کو جلایا جا سکے گا۔ اکیسویں صدی میں انسانی سماج کی  درکار  توانائی کے پس منظر میں یہ  سمندر میں صرف ایک قطرے کی مانند لگتا  لیکن یہ ان خرد بینی جانداروں کے لئے کافی ہوگا جو زمین کی گہری پرت  اور سمندر کی تہ میں ہائیڈرو تھرمل ریخوں کے پاس  رہتے ہیں۔ خلاء میں بھٹکتی ہوئی زمین اندرونی حرارت کو حالیہ شرح سے خارج کرنے کے بعد  بھی کم از کم ٥ ارب سال تک اپنے رہائشیوں کو اس حرارت کے بل بوتے پر  زندہ رکھ سکتی ہے۔

 

 زمین پر حیات کافی لچک دار ہے  اور یہ بات اس نے اپنی تاریخ سے بھی ثابت کی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ خود کو ماحول کے مطابق ڈھال لینا  اور بدلتی صورتحال کا فائدہ  کر یہاں تک کہ شدید ماحول میں بھی  رہ لینا ہے۔ اس عمل کے دوران نہ صرف یہ ماحول کو تبدیل کرتی ہے بلکہ نیا ماحول بھی بنا لیتی ہے  جو آخر کار پورے سیارے کی سطح کو بدل دیتا ہے۔ سیارہ زمین اس سیارے سے بہت مختلف ہے جس پر شروع میں حیات نمودار ہوئی تھی  اس کی وجہ نمودار ہونے والی حیات ہی تھی۔

 

مزید براں زمین نہایت  سخت طریقے سے ارب ہا سال تک اپنے  پر نمودار ہونے والی  نئی حیات کے لئے ناسازگار بھی رہی ہے ،جس کی وجہ اس دور کی حیات اور اونچے درجے کی  تکسیدی تیزابی ماحول کا ماحول تھا۔ حیات اصل میں سیاروی مظہر ہی ہے اور سیاروں کا ارتقاء ، متحرک پن  اس کے ساتھ سختی سے جڑا ہوا ہے۔ سیارے حیات کے دوام کے لئے ایک اچھی جگہ ہو سکتے ہیں  لیکن ہمیں ابھی تک اس بات کا جواب نہیں مل سکا  کیا زمین حیات کے نمودار ہونے کے لئے ایک مثالی جگہ ہے ؟

  

باب دہم - وہ ٹھکانے جنہیں ہم اپنا گھر کہہ سکتے ہیں

باب دہم

 

وہ ٹھکانے جنہیں ہم اپنا گھر کہہ سکتے ہیں

 

بہت عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ایک ہمارے  ہی جیسی کہکشاں میں ایک ستارہ پیدا ہوا ۔ جلد ہی سیارے بھی پید ا ہونے شروع ہو گئے۔ جن میں سے تین سیارے اپنے ستارے کے قریب پیدا ہوئے ۔ وہ بہت زیادہ بڑے نہیں تھے اور پورے کے پورے چٹانی سیارے تھے۔

 

ان میں سے سب سے چھوٹے اور سرد ترین سیارے کے کرۂ فضائی میں آتش فشانوں سے پیدا ہوئی  کاربن ڈائی آکسائڈ اور سلفر ڈائی آکسائڈ موجود تھی۔ انہوں نے نباتاتی خانے کے اثر (Greenhouse Effect)کے طور پر اپنی سطح کو گرم کرنا شروع کیا  جس کے نتیجے میں کسی طرح سے سطح پر موجود پانی کی تھوڑی مقدار مائع میں بدل گئی۔ کرۂ فضائی اور سمندروں نے مل کر سیارے کی سطح پر مختلف قسم کے  کیمیائی عمل کو شروع کیا  - اور حیات کو نمودار ہونے کا ایک اچھا موقع فراہم کیا۔ یہ سکھی دور چند کروڑ سال کے بعد ختم ہو گیا۔ ارضیاتی پیمانے پر اگر دیکھا جائے تو اس دور کا دورانیہ  الاسکا میں پڑنے والی گرمی کے موسم سے زیادہ نہیں تھا ۔  چھوٹے سیارے ہونے کی بدولت اس کو اپنے کرۂ فضائی کو سنبھال کر رکھنا  اور دوبارہ سے اس ارضیاتی سرگرمی کے چکر کو جاری رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ اپنے آپ کو اندر یا باہر سے گرم نہیں رکھ سکا۔

 

دوسرے دونوں سیارے کیونکہ   تیسرے سے بڑے تھے لہٰذا ان میں کافی پانی اور معقول کرۂ فضائی موجود تھا اگرچہ وہ بھی اندر سے پورے چٹانی تھے۔ ان میں سے ایک ستارے سے قریب سیارہ اپنے دور کے چھوٹے رشتے دار کی طرح سے تیزی سے تبدیل ہونے والا تھا  اگرچہ یہ تبدیلی اس سے بالکل متضاد  قسم کی تھی۔ اس کے سمندروں نے ستارے کی گرمی کے زیر اثر  تبخیر ہو کر اڑنا شروع کر دیا تھا  یوں اس کے کرۂ فضائی میں پانی بھی شامل ہو گیا تھا   جہاں پر اس نے ایک زبردست نباتاتی خانے کے اثر کے طور پر کام کیا  - اس طرح  ایک بے قابو نباتاتی اثر نے باقی بچے ہوئے پانی کو ضائع کر دیا اور آخر میں اپنے پیچھے صرف ایک چٹانی بنجر زمین چھوڑ دی۔

 

ہرچند کہ دونوں سیاروں پر شروع میں تو کیمیائی عمل میں تنوع تھا لیکن ارضی کیمیا بہت تیزی کے ساتھ محدود ہو گیا  اور بتدریج ایک غیر عامل توازن میں جم گیا۔ ایسے سیاروں کے  مستقبل کے بارے میں پیش گوئی نہایت  آسانی کے ساتھ کی جا سکتی ہے  - یعنی ان کے مستقبل کو  طبیعیات اور کیمیا کے بنیادی قوانین کی رو سے آسانی سے  بیان کیا جا سکتا ہے۔ جلد ہی انہوں نے  کہکشاں کے دوسرے اجسام- گیسی دیو سے لے کر ستاروں کی باقیات تک  - سے  گھل مل گئے – ایک آہستہ اور  کند عمل کے ذریعہ ٹھنڈے ہوتے گئے  ان میں اب مزید کوئی کیمیائی تبدیلی رونما نہیں ہوگی اب صرف وہ قوّت ثقل کے بل بوتے پر ہی ادھر ادھر گھومتے رہیں گے۔

تیسرا سیارہ  ذرا خوش قسمت نکلا تھا – یہ اتنا بڑا اور گرم تھا کہ اپنے کرۂ فضائی کو دوبارہ سے بھرکر اس کو قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ  اپنی سطح پر موجود مادّے کی باز یافتگی بھی کر سکے۔ ان تمام باتوں کے باوجود وہ بہت زیادہ گرم نہ تھا لہٰذا وہ اپنی سطح پر موجود زیادہ تر پانی کو  پکڑ کر رکھ سکتا تھا۔ اس سیارے پر موجود کیمیا بھی بہت تنوع کی حامل اور دلچسپ تھی  اور یہ اپنے چھوٹے رشتے داروں سے کہیں زیادہ عمل پذیر تھی۔ پہلے سے موجود کاربن ڈائی آکسائڈ کے  ارضی کیمیائی چکر نے جلد ہی سیارے کی بالیدگی کی سمت کا تعین  اس توازن سے دور سے دور کر دیا۔ کچھ ہٹ کر ہونا شروع ہو گیا۔ اس چکر میں دو ارب سال گزر گئے جس کے دوران کرۂ فضائی اور سمندر بہت ہی زیادہ عامل آکسیجن سے بھرتے چلے گئے۔ کیمیا کا اصل کام تو  اب شروع ہوا تھا!

 

اگرچہ کند توازن نے بہت سختی کے ساتھ پہلے دو سیاروں کو جکڑ لیا تھا، لیکن  تیسرا ذرا زیادہ وحشی ہو گیا تھا اور  اس نے باہری آفات مثلاً کسی وقت  علی التواتر سے سیارے کی سطح پر برسنے  والے سیارچوں کے تصادم کا سامنا پیچیدہ طریقوں سے کرنا شروع کر دیا ۔ یہ سلسلہ چار ارب سال تک چلتا رہا ، اگرچہ سیارچوں کے تصادم تو  بالآخر اس وقت اختتام پذیر ہو گئے تھے جب  پیچیدہ کیمیا نے اچھی خاصی  مقامی توانائی کو قابو کرلیا  تاکہ سطح کے  چھوٹے ٹکڑے (اور اپنے آپ کو ) مدار میں چھوڑ سکے،  بالآخر وہ  اپنے چاند پر پہنچی اور پھر واپس آئی ۔ آخر میں وہ  اپنے ستارے سے دور ہوتی ہوئی اپنی کہکشاں سے بھی دور ہو گئی۔      

 

مذکورہ بالا منظر  کے نقطہ نگاہ سے ان تین سیاروں کی بیان کردہ قسمت کو اگر  دور دراز کے ستارے سے بیٹھ کر دیکھا جائے تو یہ بہت ہی قدرتی سا  لگے گا۔ ستارے سیاروں کی با نسبت کہیں زیادہ سادہ لیکن  ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ، بعینہ  سیارے بھی  ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور ان میں سے کچھ پیچیدہ کیمیا اختیار کر لیتے ہیں۔ ستاروں سے دیکھی جانے والی حیات کو کسی بھی کیمیائی عمل سے الگ کرکے  نہیں دیکھا جا سکتا اگر کچھ دیکھا جا سکتا ہے تو وہ  اس پیچیدہ  عمل کا  ماحصل ہی ہے۔  بعینہ جیسے ہم پانی کے سیارے بارے میں اس کے  کیمیائی ماحصل سمندر کی وجہ سے بات کریں تو ہو سکتا ہے کہ ہم نجمی شعور میں سیارے کی زندگی کے بارے میں بات کریں  کیونکہ   اگر ہم اس کے اجزاء اور اس کے نظام شمسی میں مقام کو مد نظر رکھیں تو یہی وہ چیز ہے جو اس کی کیمیا کی رہنمائی کرتی  ہے۔ اور جس طرح  مائع سمندر کسی بھی قسم کے سیارے  کی تاریخ کا حصّہ ہو سکتے ہیں ، تو حیات کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے۔

 

یہ جان کر آپ کو زیادہ حیرت نہیں ہوگی  کہ جن تین سیاروں کے بارے میں اوپر بیان کیا  گیا ہے آپ ان کو بہت اچھی طرح سے  - مریخ ، زہرہ اور زمین کے نام سے جانتے ہیں۔ اس منظر نامے میں صرف زمین ہی حیات کے لئے  ایک موزوں  جگہ ہو سکتی ہے۔ لیکن کیا زمین حیات کے لئے مثالی  جگہ ہے ؟ میں اس سوال پر واپس آتا ہوں جو میں کتاب کے شروع میں اٹھایا تھا۔ اب میں اس کا جواب دینے کی کوشش کروں گا۔ اور جواب ہے نہیں۔ فوق  ارض  کافی بہتر ہیں۔

 

جس سیارے کو بھی ہم پاتے ہیں چاہئے وہ فوق  ارض ہو یا نہ ہو ، ہم اس کے قابل رہائش ہونے  کی جانچ کرتے ہیں۔ یہ ذرا مشکل بات ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم کسی بھی جگہ کو قابل رہائش اس لئے بیان کریں کہ ہم انسان وہاں بغیر کسی خصوصی حفاظت کے رہ سکیں  تو زمین پر کئی ایسی جگہیں ہوں گی جو ایسا ماحول مہیا کرنے میں ناکام ہوں گی۔ اگر ہمیں اس بات کی اجازت ہو کہ ہم اپنی بہترین ٹیکنالوجی  کے ساتھ زندہ رہ سکیں تو مریخ کا خط استواء  بھی قابل رہائش جگہ ہو سکتی ہے تاہم آگ کی بھٹی زہرہ نہیں۔ زمین کے کچھ خرد بینی جاندار اتنے سخت جان ہوتے ہیں کہ وہ مریخی مٹی میں بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔ واضح طور پر  کسی  بھی سیارے کی سکونت پذیری اس کے محل وقوع  پر منحصر ہوتی ہے :سورج سے بہت زیادہ دور وہ  سیارہ بہت ٹھنڈا ہوگا ، اور قریب ہونے کی صورت میں بہت گرم ہوگا۔ یہ اطمینان بخش فاصلہ سکونت پذیر علاقہ(Habitual Zone) کہلاتا ہے  اور اس کی پہچان یہ ہے کہ  پانی سطح کے اوپر موجود ہوتا ہے۔ ہر ستارے کے پاس ایک ایسا علاقہ ضرور ہوتا ہے۔

 

میں ایسے ماحول کی تلاش میں ہوں جو پیچیدہ سالماتی کیمیائی عمل کے لئے مناسب ہو۔ میری دلچسپی کائنات میں حیات کے راستے(اس کے اصل ماخذ ) میں ہے ، لہٰذا میں ایسے سیاروں کی تلاش کر رہا ہوں جو سطح کے درجہ حرارت پر مائع  پانی کو باقی  رکھ سکیں تاکہ اس میں بڑے سالمے زندہ رہ کر  کیمیائی  ارتکاز  حاصل کر کے وقت کے دوران پائیدار بھی رہ سکیں۔ اگرچہ قابل سکونت تصوّر درجہ حرارت کے لحاظ سے تو مدد گار ہو سکتا ہے  لیکن صرف یہ ہی کافی نہیں ہے۔ کئی دوسرے ایسے بھی عوامل ہیں جو سیارے کی سکونت پذیری میں اپنا  حصّہ ڈالتے ہیں۔ فوق  ارض سے متعلق اپنے انتہائی قلیل  علم کو مد نظر رکھتے ہوئے اس وقت  تک جب  ہم مستقبل کے کسی دن وہاں کا سفر نہیں کر لیتے  میں ان کے سکونت پذیری  کی قابلیت کے بارے میں ہی بات کرنا پسند کروں گا۔

 

پہلے دریافت شدہ ہوئے فوق  ارضی سیاروں میں کتنی  سکونت پذیری کی صلاحیت موجود ہے ؟ چلیں ان میں سے کچھ کو دیکھتے ہیں۔ گلیز ٨٧٦ ڈی  ایک چھوٹے بونے ستارے کے گرد ہر دو دن میں ایک  چکر مکمل کر رہا ہے ! اس کا مطلب ہے کہ اس کا مدار سورج سے  زمین کے فاصلے کا صرف دو فیصد ہی ہے۔ اگرچہ اس کا مرکزی  ستارہ سورج کے وزن اور حجم کے مقابلے میں ایک تہائی ہے  اور یہ  سورج کے مقابلے میں آدھا گرم ہے ،اس کے باوجود  ستارے سے نزدیکی کا مطلب  یہ ہے  کہ گلیز ٨٧٦ ڈی کی سطح کا درجہ حرارت زہرہ کے تپش دار درجہ حرارت (لگ بھگ ٧٣٠ کیلون ) سے بھی زیادہ ہوگا۔ فوق  ارض گلیز ٨٧٦ ڈی سکونت پذیر علاقے میں نہیں ہے اور اس میں فی الوقت سکونت پذیری  کی کوئی قابلیت نہیں ہے۔(خاکہ10.1)۔

10.1 دو سیاروی نظام اور ان کے سکونت پذیر علاقے۔ گلیز ٨٧٦ میں اندرونی سیارہ ڈی ایک فوق ارض ہے۔ گلیز ٥٨١ کا اندرونی سیارہ ب اصل میں ایک تپتا ہوا نیپچون ہے۔ سیارے گلیز ٥٨١ ڈی صرف وہ فوق ارض ہے جو بمشکل اس مدار میں موجود ہے جہاں سکونت پذیری ممکن ہے، اس کا مدار تھوڑا سا کج رو ہے  گلیز ٥٨١ ای ، چوتھا سیارہ ہے جو یہاں نہیں نظر آ رہا ہے اس کا حجم زمین کے حجم کا بمشکل دوگنا ہے لیکن وہ ستارے کے سیارے ب کے مدار کے بھی اندر گردش کر رہا ہے اور بہت زیادہ گرم ہے۔

اس ماورائے نظام شمسی  میں  دو اورمشتری جیسے  سیارے موجود ہیں۔ ان کو ٢٠٠٠ء میں جیف مارسی اور کیلی فورنیا کارنیگی ٹیم نے دریافت کیا تھا اور ان کا نام گلیز ٨٧٦ ب اور ٨٧٦ ج دیا تھا  ان کی کمیت بالترتیب  لگ بھگ ٢ اور ٠۔٦ مشتری کے تھی۔ سکونت پذیر علاقے میں موجود ہونے کے باوجود  یہ سیارے گیسی دیو ہیں  جس میں کسی بھی قسم کی ٹھوس سطح نہیں ہے  لہٰذا ان میں کسی بھی قسم کی سکونت پذیری کی قابلیت موجود نہیں ہے۔ بہرحال ان میں سے کسی کے بڑے چاند بھی  ہو سکتے ہیں  جن میں زبردست سکونت پذیری کی صلاحیت موجود ہو سکتی ہے۔ بدقسمتی سے یہ دونوں مشتری جیسے سیارے ایک دوسرے کے کافی نزدیک ہیں اور آپس میں ثقلی طور پر کافی تعامل کرتے ہیں جس کی وجہ سے غالب امکان ہے کہ وہ بڑے چاند نہیں رکھتے ہوں گے۔

 

 ایک اور ایم بونا ستارہ ، گلیز ٥٨١ کے بھی تین عظیم ارضی سیارے ہیں (خاکہ 10.1) ایک تپتا ہوا نیپچون  جو ٢٥ ایم ای کے برابر ہے اور (گلیز ٥٨١ ب) کہلاتا ہے جس کو ہم ٢٠٠٥ء سے جانتے ہیں ، یہ اپنے ستارے کے گرد صرف5.4  دن میں ایک چکر مکمل کر لیتا ہے۔ بعد میں مچل میئر کی جنیوا کی ٹیم نے دو چھوٹے سیارے  جو  فوق ارض سے کافی ملتے جلتے تھے دریافت کیے  اور یہ  بمشکل سکونت پذیر علاقے میں مدار میں چکر لگاتے ہوئے لگتے تھے۔ کیونکہ گلیز ٥٨١ اور ٨٧٦  ایک جیسے ستارے ہیں ، لہٰذا ان کے نظام سیارگان اور قابل سکونت علاقوں  کا موازنہ کرنا بہت آسان ہے۔ یہ سادہ خیال کہ فوق  ارضی سیاروں کا کرۂ فضائی ضرور موجود ہونا چاہئے  ۔  خاکے میں دکھائے گئے سکونت پذیر علاقوں کو فرینک سیلسیس اور اس کے رفقائے کاروں کے کام سے ہی بنایا گیا ہے۔ فوق  ارض سیارہ جس میں سب سے زیادہ سکونت پذیری کی صلاحیت موجود ہے وہ گیلز ٥٨١ ڈی  ہے جس کا حجم زمین کے مقابلے میں آٹھ گنا زیادہ ہے  اور یہ  اپنے ستارے سے کافی  دور ہے ، تاہم اس کا کرۂ فضائی اس کو گرم رہنے میں کافی مدد دے گا۔ گلیز ٥٨١ سی کی کمیت زمین سے پانچ گنا زیادہ ہے  وہ کافی گرم لگتا ہے اور  اس سے بھی گرم تر فوق  ارض ای ، ب کے مدار میں موجود ہے۔

 

گلیز ٥٨١ نظام ہائے سیارگان ایک اور طرح سے انتہائی دلچسپی کا حامل ہے :تمام تو  نہیں تاہم  زیادہ تر سیارے اپنے  مرکزی ستارے سے  کافی دور پیدا ہوئے ہوں گے۔ اس کی وجہ ہے ، سب سے پہلے تو ابتدائی سیاروی قرص میں اتنا مادّہ موجود نہیں ہوتا ہے کہ ضخیم سیارے جیسا کہ تپتا ہوا نیپچون ہے بن سکے  ، گلیز ٥٨١ ب جیسے حجم کے سیارے اپنے ستارے سے دور بنتے ہیں۔ دوسری وجہ قرص میں ضخیم سیاروں کو زیادہ  مادّہ جمع کرکے بننے کے لئے درجہ حرارت بہت زیادہ ہوگا۔  لہٰذا غالب گمان یہ  ہے کہ تپتے ہوئے نیپچون ، تپتے ہوئے ان مشتریوں کی طرح جن کو پہلے بیان کیا جا چکا ہے،  قرص کے   دور دراز علاقے  میں پیدا ہوئے اور پھر قرص نے ان کو دھکا دے کر ستارے سے قریب کر دیا۔ اگر یہ قیاس درست ہوا  تو یہ دونوں ارضی سیارے بھی ستارے سے کافی دور سیاروی قرص میں پیدا ہوئے ہوں گے۔ وہ سمندری سیارے بھی ہو سکتے ہیں  کیونکہ وہ اس خط سے باہر پیدا ہوئے ہوں گے جس کو برفیلا خط کہتے ہیں  جہاں پانی آسانی سے منجمد ہو کر جم جاتا ہے۔ جب سیارے ستارے سے نزدیک آئے ہوں گے تو سطح پر موجود اس پانی میں سے کچھ ضرور مائع بن گیا ہوگا۔ الغرض ممکن ہے کہ وہ گیسوں سے لبریز سیارے ہوں  جیسا کہ حالیہ دریافت شدہ سیارہ  جی جے ١٢١٤ ب ہے جس کو ڈیوڈ چاربونو  نے  دریافت کیا تھا یا وہ  سیارے جو کیپلر ١١ نظام میں موجود ہیں۔ ان تمام کی ایک جیسی کمیت ہے  - صرف زمین سے چند گنا زیادہ اور ان میں سب کی کثافت انتہائی کم ہے  جس کے نتیجے میں انھیں چھوٹے یورینس اور نیپچون کہا جاتا ہے۔

 

دو  چیزیں ایسی ہیں جو فوق  ارضی سیاروں کو ہمارے جیسے سیارے جیسی جسامت والے کسی بھی سیارے سے زیادہ قابل سکونت بناتی ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ  زیادہ ضخیم ہونے کی وجہ سے یہ سیارے اپنے کرۂ فضائی کو آسانی سے قائم رکھ کر  پانی کو بھی بخارات بن کر اڑنے سے روک سکتے ہیں۔ یہ ان سیاروں کے لئے بہت ہی اہم بات ہے جو اپنے ستارے سے نزدیک مدار میں موجود ہوتے ہیں۔ یوں کہہ لیں کہ جتنا مریخ سورج سے قریب ہے اتنا  قریب۔ دوسری وجہ  ہمارے نظریاتی نمونے کے مطابق  اگر وہ چٹانی فوق  ارضی سیارے ہوں گے تو ان کی ٹیکٹونک پلیٹ  کی سرگرمی زمین جتنی یا اس سے بھی زیادہ ہوگی۔ یہ بات حیات اور اس کے ماخذ کے لئے بہت ضروری ہے۔ ہمارے نظام شمسی میں مریخ کی کبھی بھی حرکی پلٹیں نہیں رہیں  جبکہ زہرہ  کی پلٹیں بہت ہی خفیف ہلتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری زمین بھی بمشکل پلیٹوں کو ہلا پائی ہے !

 

ٹیکٹونک پلیٹوں کی  سرگرمی کا  ہم بر اعظمی بہاؤ کی صورت میں مشاہدہ کرتے ہیں۔ جدید جی پی ایس ٹیکنالوجی  ہمیں اس حرکت کو  ناپنے کا موقع دیتی ہے۔ لیکن یہ حیات کے لئے فائدہ مند کیوں ہیں ؟ مختصراً اس کا جواب  تسلسل اور کیمیائی ارتکاز کی صورت میں دیا جا سکتا ہے۔ ارب ہا سال گزر جانے کے باوجود زمین نے اپنی سطح کا درجہ حرارت قائم رکھا۔ مثال کے طور پر سمندر ہمیشہ سے مائع ہی رہے۔ ہم اس چیز کو  ارضیاتی ثبوتوں کی مدد سے جانتے  ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ سورج اپنی پیدائش سے لے کر اب تک تیس فیصد سے زیادہ تاباں ہو گیا ہے۔ اس معمے کو عالمگیری ارضی کیمیائی چکر حل کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ زمین ایک بڑی گیند کی مانند ہے  جو بہت گرم اور اندر سے کھول رہی ہے۔ سطح پر یہ توانائی چٹانی براعظم  اور سمندری پلیٹوں کو حرکت دیتی رہتی ہے۔ سیاروی ٹیکٹونک پلیٹوں کے بارے میں ضروری چیز ان کا آپس میں تبادلہ  کرنا ہے۔ پگھلا ہوا اندرون بصورت معکوس  کیمیائی عناصر کو سطح اور کرۂ فضائی سے ادل بدل کر سکتا ہے عناصر اس چکر میں صرف بازیافتہ نہیں ہوتے  بلکہ ان کی تبدیلی اور ارتکاز توانائی کو ایک زرخیز متحرک توازن  میں تبدیل  کرتے ہیں۔ اس کا متبادل بہت ہی غریب حالت ہے  - ایک ساکن توازن جو اندرون  اور سطح میں بغیر مقامی توانائی کے بیٹھ جائے۔ لہٰذا  ٹیکٹونک پلیٹ سیارے کو نیا ، متحرک  اور حیات بخش بناتی ہیں۔ جیسا کہ وارڈ اور براؤن لی نے لکھا  ہے کہ ٹیکٹونک پلیٹیں ماحول کی پیچیدگی کو بڑھوتری دیتی ہیں۔ یہ تبادلہ عالمگیری چکر کے نتیجے میں ہوتا ہے۔

10.2 کاربن ڈائی آکسائڈ کا چکر (جس کو عرف عام میں کاربونیٹ سلیکیٹ کا چکر بھی کہتے ہیں) جو آتش فشانوں سے شروع ہوتا ہے جن کو بائیں جانب دکھایا ہے یہ کاربن ڈائی آکسائڈ مہیا کرتے ہیں ، جو کرۂ فضائی میں پانی کے ذریعہ جذب ہو جاتی ہے ، پھر بارش کے ذریعہ سطح پر برستی ہے ، بر اعظموں کو کاٹتی ہے اور بازیافتہ ہو کر ٹیکٹونک پلیٹوں کے ذریعہ زمین کے گرم اندرون میں واپس باہر نکلنے کے لئے آ جاتی ہے ۔

سب سے جانا پہچانا اور غالب عالمگیری سیاروی چکر کاربونیٹ سلیکیٹ کا چکر ہے (خاکہ10.2 دیکھیں )۔ یہ چکر اس وقت شروع ہوتا ہے جب آتش فشاں کاربن ڈائی آکسائڈ کو کرۂ فضائی میں چھوڑتے ہیں  جہاں وہ پانی کے قطروں میں آسانی سے جذب ہو جاتی ہے۔ پھر یہ زمین کی  سطح پر بارش کے قطروں میں مل کر برستی ہے ، کاربونیٹیڈ پانی چٹانوں اور مٹی کو سمندر میں بہنے میں مدد کرتا ہے ، جہاں یہ کاربن سے لبریز چٹانوں مثلاً  چونے کے  پتھر میں جذب ہو جاتی ہے ۔ ٹیکٹونک کی پلیٹیں کاربن کو پھر زمین کی پرت میں لے جاتی ہیں ، جہاں وہ پگھل کر ، مل کر ،بازیافتہ ہو کر کرۂ فضائی میں آتش فشانوں کے ذریعہ دوبارہ پہنچ جاتی ہے۔ جیسا کہ ہم نے پچھلے باب میں دیکھا ہے ، یہ چکر ہمارے سیارے کے کرۂ فضائی کی بقاء کے لئے انتہائی ضروری ہے ، لیکن یہ چکر اس سے بھی کچھ زیادہ کام کرتا ہے :یہ ایک تھرموسٹیٹ کی طرح کام کرتا ہے  کیونکہ کاربن ڈائی آکسائڈ ایک نباتاتی خانے کے اثر کی حامل  گیس ہے  اور اس کے چکر میں ایک فیڈبیک حلقہ بھی شامل ہوتا ہے  جو زمین کے درجہ حرارت کو اوسط درجہ حرارت پر لے آتا ہے (خاکہ10.3 ملاحظہ کیجئے )۔ نباتاتی خانے کے اثر والی گیس سورج کی روشنی کی حرارت کو اندر سطح پر آنے کی اجازت دیتی ہے اور اس حرارت کو کمبل کی طرح روکنے میں مدد کرتی ہے۔ پانی کے قطرے اور میتھین بھی ایک طرح سے نباتاتی خانے کے اثر کی حامل  گیسیں ہیں۔ اگر زمین کا درجہ حرارت ذرا سا  بھی بڑھتا ہے ، تو کاربن ڈائی آکسائڈ کا  فضا میں تناسب کم ہو جاتا ہے کیونکہ گیس بڑھتے ہوئے عمل تبخیر کے نتیجے میں پانی میں زیادہ حل ہو جاتی ہے  اور بارش اس کو سطح پر لے جاتی ہے یوں  چٹانوں میں ٹوٹ پھوٹ اور سمندر میں اس کو دوبارہ جمع کرنے کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔ اس سے کرۂ فضائی میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی مقدار کم ہو جاتی ہے اور نباتاتی خانے کا اثر کمزور ہو جاتا ہے اور زمین کا درجہ حرارت کم ہو جاتا ہے۔ جب سطح کا درجہ حرارت کم ہوتا ہے تو  بارش کم ہونے کے سبب سے  کاربن ڈائی آکسائڈ کا کرۂ فضائی میں حصّہ بڑھ جاتا ہے۔ نتیجے میں مزید کاربن ڈائی آکسائڈ نباتاتی خانے کے اثر کو مضبوط کرتی ہے اور گرمی بڑھ جاتی ہے جس کے نتیجے میں زمین کا درجہ حرارت واپس معمول پر آ جاتا ہے۔  واقعی کیا ایک بے عیب درجہ حرارت کو قابو  کرنے والا آلہ ہے یہ !

10.3کاربن ڈائی آکسائڈ کا چکر زمین، اور اس جیسے کسی بھی سیارے کے کرۂ فضائی کے لئے ایک تھرموسٹیٹ کی طرح کام کرتا ہے۔ اگر درجہ حرارت بہت زیادہ گرم ہوگا (بائیں طرف) تو نباتاتی خانے کے اثر والی زیادہ گیس اس میں سے نکل جائے گی اور درجہ حرارت واپس گر جائے گا ؛ اگر یہ بہت زیادہ گر جائے گا (دائیں طرف) ، تو کاربن ڈائی آکسائڈ جمع ہو کر سیارے کو پھر سے گرم کر دے گی۔

ہو سکتا ہے کہ مکمل بے عیب کہنا کچھ زیادہ  بڑی بات ہو جائے گی  کیونکہ زمین نے برفیلے دور کو بھی برداشت کیا ہے۔ کاربن ڈائی آکسائڈ کا چکر  جس کے نتیجے میں درجہ حرارت قابو میں آتا ہے اس کا عرصہ کافی لمبا (چار لاکھ سال  کا ) ہوتا ہے۔ بہرحال برفانی دور زمین پر موجود حیات کے لئے چھوٹی موٹی پریشانی تھی۔ یہاں تک کہ بنی نوع انسان بھی پچھلے دس ہزار سال سے زندہ رہے ہیں  جبکہ چھوٹے جاندار جیسا کہ زمین دوز خرد بینی حیات  کو تو پتا بھی نہیں چلا کہ  سطح کے اوپر ہوا کیا ہے۔ کاربن ڈائی آکسائڈ کے چکر نے ہمارے سیارے کو ارب ہا سال سے کسی بھی سنجیدہ مسئلے سے محفوظ رکھا ہوا ہے  اور یہ اس عمل  کو  اس وقت تک مزید اگلے دو سے تین ارب  برس تک جاری رکھے گی جب تک سورج زیادہ روشن نہیں ہو جاتا۔ اگر شمسی حرارت بڑھتی رہے گی تو   ایک وقت ایسا آئے گا (زہرہ بھی ماضی میں اس وقت اس صورتحال سے گزر چکا ہے )جب  تھرموسٹیٹ ٹوٹ جائے گا۔

 

متشکک قاری کو  کاربن ڈائی آکسائڈ کے تھرموسٹیٹ کا چکر ہمارے سیارے کی مخصوص خاصیت لگے گی۔ لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ کاربن اور آکسیجن کائنات میں بہت ہی عام پائے جانے والے عنصر ہیں ، لہٰذا ہماری کہکشاں میں موجود وہ سیارے جو زیادہ تر ستاروں کے گرد چکر کاٹ رہے ہیں  ان کے پاس کافی زیادہ کاربن ڈائی آکسائڈ موجود  ہوگی۔ آتش فشاں ان کے کرۂ فضائی کو ٹیکٹونک پلیٹوں کی حرکت کے بغیر بھی دوبارہ سے  بھر رہے ہوں گے۔ ہمارے نظام شمسی میں زہرہ اور مریخ کے کرۂ فضائی میں کاربن ڈائی آکسائڈ کا ہی غلبہ ہے۔ ہماری زمین پر بھی اس کا غلبہ ہوتا ، وہ تو بھلا ہو چھونے کے پتھر اور سمندروں کا  جنہوں نے اس کے  زیادہ تر حصّے کو قید کر لیا ہے۔ اور ممکن ہے  کہ حیات  نے (جو زیادہ تر سمندری سیپیوں کی شکل میں تھی ) کاربن ڈائی آکسائڈ کے چکر میں   کافی اہم کردار ادا کیا ہو  لیکن یہ چکر ان کے بغیر بھی آسانی کے ساتھ رواں دواں رہ سکتا ہے۔ کاربن ڈائی آکسائڈ کے تھرموسٹیٹ چکر کو مائع پانی اور ٹیکٹونک پلیٹ کی سرگرمی کی ضرورت ہے۔ مریخ اور زہرہ بظاہر اتنے چھوٹے لگتے ہیں کہ وہ اپنا پانی فرار ہونے سے نہیں روک سکتے  اور نہ ہی ان میں ٹیکٹونک پلیٹوں کی سرگرمی جاری رہ سکتی ہے۔ زمین نے بھی یہ کام بمشکل کیا ہے ! فوق  ارضی سیاروں کے لئے یہ کام بہت آسان ہوگا  لہٰذا وہ ایک لمبے عرصے تک پائیدار ماحول فراہم کر سکتے ہیں۔

 

تائیدی نقطہ نظر  ہمیں بتاتا ہے کہ زمین ایک ایسا سیارہ ہے جس نے بمشکل ٹیکٹونک پلیٹ کی سرگرمیوں کو جاری رکھا  ہے  یہ ایک ایسی تحقیق ہے جو ارضیاتی تاریخ کے دوران سرگرمی کی سست رفتاری یا لمبے عرصے کے جمود کا عندیہ بھی دے رہی ہے ۔ کئی عناصر زمین کے غلاف سے نکل کر ختم ہو گئے ہیں  جن کو ٹیکٹونک پلیٹ کی حرکت کے نائب کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔ زمین کی بڑھتی عمر اور سرد ہونے کے ساتھ  اس کا اندرون بتدریج حل پذیری اور   تحتی تداخل(قشر زمین کے کسی بھی تختے یا قطعے کا نیچے اور پہلو کی طرف کھسک کر کسی دوسرے تختے کے نیچے گھسنے ) کے عمل میں  کئی عناصر کو کھوتا جا رہا ہے۔ زمین کے اندرون  میں چاندی کی تقابلی نسبت نیوبیئم   سے تھوریم اور ہیلیئم  کے  دو ہم جاؤں (4He/3He)  کا موازنہ  کریں تو زمین کی تخلیق کے وقت سے لے کر اب تک  گردشی چکر میں تبدیلی(بجائے بتدریجی عمل )کے نظر آتی  ہے۔ ان کے مطابق ٹیکٹونک کی پلیٹوں کی سرگرمی  گزرے وقت کے دوران سست ہو گئی ہے  بلکہ اکثر اوقات تو رک بھی گئی تھی اور پھر  بعد میں دوبارہ شروع ہوئی۔ یہ چکر پچھلے تین سے چار ارب سال میں کئی دفعہ ہوتا ہوا نظر آیا ہے۔

 

ڈائنا ویلنشیا  اور رک ا و کونیل کے ساتھ کام میں ہم نے اس بات کی تفتیش کی تھی کہ کیا ٹیکٹونک پلیٹوں کی سرگرمی فوق  ارضی سیاروں میں زیادہ ، کم یا پھر زمین کے جتنی ہی ہوگی۔ اس بارے میں اب تک کوئی چیز زیادہ واضح نہیں تھی   - جب ٹیکٹونک پلیٹوں کی بات آتی ہے تو کوئی بھی چیز سادہ نہیں لگتی ہے۔ ایک طرف ہم یہ کہتے ہیں کہ فوق  ارضی سیارے اپنے اندرون میں(ارب ہا برس گزرنے کے بعد  ) بہت گرم ہوں گے کیونکہ وہ بڑے ہیں۔ اندرون میں زیادہ درجہ حرارت کا مطلب زیادہ ابال ہے یوں  زیادہ حرکت اور غلاف میں زیادہ  توانائی پیدا ہوگی جو زیادہ دباؤ، دھکیل اور پرت پر نیچے کی جانب سے زور لگائے گی ۔ قدرتی طور پر اس کے نتیجے میں توڑ پھوڑ ہوگی  کیونکہ ان کو اوپر نیچے سے  دھکا لگے گا  جس کے نتیجے میں تحتی تداخل وقوع پذیر ہوگا اور ہلکے عناصر  بھاری اور کثیف عناصر  سے اوپر آ جائیں گے۔ بدقسمتی سے اس کا ایک اور بھی اثر ہوگا جس کو ہمیں مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے ، بہتے ہوئے غلافی مادّے کی چپچپاہٹ کا درجہ حرارت پر کافی زیادہ انحصار ہوتا ہے  - جیسا کہ شہد  کو جب ہم گرم کرتے ہیں تو وہ آسانی کے ساتھ بہہ کر گرتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے : اگرچہ فوق  ارضی سیارے گرم تو  ہوتے ہیں  اور ان کا غلاف بھی تیزی سے ابلتا ہے ، تاہم گرم غلاف کم چپچپا ہوتا ہے اور ٹھوس پرت  کو کھسکائے بغیر   خود آسانی کے ساتھ کھسک سکتا ہے۔ جیسا کہ سائنس دان کہتے ہیں کہ دونوں اثر ایک دوسرے کو زائل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں  جو سب سے اہم بات ہے۔ جب ہم مزید احتیاط کے ساتھ اس سرگرمی کا جائزہ لیتے ہیں  تو ہمیں ایک تیسرا اثر ملتا ہے  جو سب کچھ بدل ڈالتا ہے۔ بلند درجہ حرارت فوق ارض کو دبیز پرت بنانے دیتا ہے۔ بالآخر ہمارے پاس تمام فوق  ارضی سیاروں کے بارے   ایک بہت ہی طاقتور نتیجہ نکلتا ہے  - کم ہوتی پرت کی دبازت اور بڑھتا ہوا غلافی دباؤ مل کر توانا اور صحت مند ٹیکٹونک پلٹوں کی سرگرمی پیدا کرتے ہیں۔

 

زمین کا موازنہ  اگر ہم مختلف  حجم کے نظریاتی فوق  ارضی سیاروں  سے کریں تو ہمیں زمین جیسے پائیدار سیاروی ماحول کی کافی زرخیز  بوقلمونی ملے گی۔ حقیقت میں ہم ایسے سیاروں کے خاندان کو پاتے ہیں  جس میں زمین بمشکل شامل ہے ۔ یہ سیارے   اس گروہ میں اپنی کمیت ، ٹیکٹونک سرگرمی  اور لمبے عرصے تک درجہ حرارت کی پائیداری کی وجہ سے شامل ہیں۔ چھوٹے ہونے کی وجہ سے زمین کئی قسم کے کائناتی حادثوں کا زیادہ شکار ہو سکتی ہے۔ اپنے مادری سیارے کے تعصب سے قطع نظر زمین اس سیاروی خاندان میں کوئی بہت ہی ہونہار بچہ نہیں ہے ! یہ زمینی وطن پرستی  کرنے والوں کے لئے ایک بری خبر   ہوگی ، تاہم یہ کائنات میں حیات کی موجودگی کے لئے ایک بہت ہی زبردست خبر ہوگی  -   کائنات میں حیات کے لئے کافی اچھی جگہیں موجود ہیں جہاں اس کا ظہور ہو سکتا ہے اور وہاں وہ ایک لمبے عرصے تک قائم و دائم بھی رہ سکتی ہے۔

 

ہمارے لئے سوال یہ ہے کہ فی الوقت سیاروں  کا کیا شمار ہے ؟ حیات کا خاندان کتنا بڑا ہو سکتا ہے ؟

 

*ایک ہم جا اس وقت بنتا ہے جب ایک ہی عنصر کے جوہری مرکزے میں (اتنی ہی تعداد میں پروٹون ) مختلف تعداد میں نیوٹران ہوتے ہیں۔

 

 

 

 

باب یازدہم - وقت کا سفر (کائنات نوخیز ، حیات نوخیز تر ہے۔)

باب یازدہم 

 

وقت کا سفر

 

کائنات نوخیز ، حیات نوخیز تر ہے۔

 

ہماری کہانی میں وقت کے سفر کو سمجھنا بہت ضروری ہے  تاکہ حیات کو کائنات کے پس منظر میں سمجھا جا سکے۔

 

جہاں میں کام کرتا ہوں اس کی عمارت کے برابر میں ہارورڈ کالج رصد گاہ واقع ہے جو ١٨٣٩ء میں تعمیر ہوئی  تھی۔ یہ ہارورڈ صحن کے اوپر پہاڑی کی چوٹی پر واقع ہے۔ یہاں سے  پہاڑی بمشکل نظر آتی ہے۔ اس کے چہار اطراف میں اونچے درخت اور عمارتیں موجود ہیں۔ بننے کے وقت سے لے کر اب تک کافی چیزیں  ،آبادی ، ترقی، عمارتوں اور  ارضی منظروں کی وجہ سے بدل چکیں ہیں۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود جو چیز نہیں بدلی ہے وہ پہاڑی کی قدیمی گرینائیٹ کی چٹانیں ہیں۔

 

خوش قسمتی سے ہمارے سیارے پر موجود ٹیکٹونک سرگرمی نے اصل میں ان چٹانوں کو جب سے یہ رصد گاہ میسا چوسٹس کی باقی چیزوں   اور پورے شمالی امریکہ کے ساتھ بنی ہے، مغرب میں 3.2 میٹر تک (میرے کار کی لمبائی جتنا) دھکا دیا ہے۔ اس حرکت کے بارے میں عام طور پر  ہم نہیں جانتے ہیں۔

 

براعظم اس شرح سے حرکت کرتے ہوئے مکمل طور پر بیس کروڑ سال میں  از سر نو ترتیب پا سکتے ہیں۔ مزید براں ہم اس حرکت کی  آزاد ذرائع سے حاصل ہونے والے ثبوتوں سے بھی  تصدیق کر سکتے ہیں ۔ یہ ثبوت ہمیں دنیا میں موجود چٹانوں کی پرتوں کی جانچ سے حاصل ہوتے ہیں۔ یہ ہمہ وقت بدلتے سیارہ زمین کے  ارضیاتی نقشے  براعظموں  کی از سرنو ترتیب کے چکر کے ساتھ بناتے ہیں۔

 

میں جب بظاہر اس غیر متغیر  امر واقعہ کو دیکھتا ہوں  مثال کے طور پر زمین کے پہاڑوں کی ارضیات کو  -  تو میں کوشش کرتا ہوں کہ اپنے دماغ میں یہ بات ڈال سکوں کہ  میں ایک ایسی مخلوق بن گیا ہوں  جو ارب ہا برس سے زندہ رہ رہی ہے۔ ان کے دل کی ایک دھڑکن ہمارے ایک ہزار برس کے برابر ہے جبکہ ان کا ایک منٹ ہمارے اسی ہزار برس کے برابر ہوگا۔ میں زمین سے اوپر ارضی ساکن مدار میں محو گردش موسمی سیارچوں میں معلق ہوں۔ مجھے زمین کیسی دکھائی دے رہی ہے ؟ جب میں دیکھتا ہوں تو   براعظم مکمل طور پر از سر نو ترتیب  پائے ہوئے نظر آتے  ہیں  - بڑے چھوٹوں میں بٹ گئے ، اور ایک دوسرے سے بہہ کر دور جا رہے ہیں  اور اس چکر میں ایک  دوسرے سے شائستگی کے ساتھ ٹکرا کر ضم ہوتے ہوئے پہاڑوں کی صورت میں نمودار ہو رہے ہیں، تہ ہور ہے ہیں اور اس عمل میں کٹ پھٹ بھی رہے ہیں۔ میرے ان نئی آنکھوں کے سامنے نیا سیارہ اب ٹھوس اور غیر متغیر نہیں رہا بلکہ ایک بہتا  ہوا  اور متحرک بن گیا جس طرح سے چولہے  پر کوئی برتن رکھ کر گرم کیا جاتا ہے۔

 

ایسا کوئی بھی منظر وقت کے سفر میں اتنا زیادہ دلفریب  نہیں ہوگا۔ ایک پتنگا بن کر سوچیں جس کی حیات صرف ایک دن کی ہی ہے۔ ممکن  ہے اس کی نظر میں ہری بھری چراگاہ  اور سبز جنگل ابدی ہو۔ جب بات سیارہ ارض کے چکر کی آتی ہے  تو ہم انسان اس پتنگے کی طرح پتیوں کو ہوا میں گرتا ہوا دیکھتے ہیں تاہم  موسم کے گزرنے کا احساس نہیں کرتے۔ زمین پر حیات چار ارب سال پہلے سے موجود ہے اور ارضیاتی" موسموں "اور سیاروی تقلب  کے تابع ہے۔

 

اگر ہم حیات کی تاریخ کے بارے میں اپنے وقت کے پیمانے کے بجائے  حیات کے وقت کے پیمانے پر سوچیں  تو اہم عوامل سامنے ابھر کر آئیں گے۔ مثال کے طور پر حیات زمین پر پچھلے چار ارب سال سے موجود اور نشو نما پا رہی ہے  ۔ حیات کی اس عمر کا کائنات کی لگ بھگ ١٤ ارب سال کی عمر سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک بہت ہی اہم حقیقت ہے  جس کو سائنس دان "غیر معمولی حقیقت "کہتے ہیں۔ اس سے ہمیں معلوم ہوتا  ہے کہ حیات کی نمو اور ارتقاء سیاروی، ستاروی  یہاں تک کہ کہکشانی  نظام کی تشکیل و  ارتقاء کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ کئی طریقوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کہ حیات کی ارتقاء کا عمل ایک "عام " کائناتی عمل ہو۔

 

دوسری طرف ہم یہ بات بنی نوع انسان کے لئے نہیں کہہ سکتے  کیونکہ وقت کا پیمانہ  دونوں کے لئے ایک جیسا نہیں ہے۔ سب سے قدیم انسانی باقیات صرف بیس لاکھ سال پہلے کی ہیں۔ انسان کو جس چیز نے مختلف بنایا ہے وہ ہے  زبان اور ٹیکنالوجی جو دونوں حال ہی میں   شاید صرف چالیس ہزار برس پہلے ہی نمودار ہوئی ہیں۔

    

انسان اور کائناتی وقت کے پیمانے پر موجود تفاوت بہت ہی زیادہ ہے۔ جبکہ حیات کی تاریخ اور انسانی تاریخ میں ایک اور ایک لاکھ  کی نسبت ہے۔ اس نسبت کی بھی اپنی انتہائی اہمیت ہے۔ یہ  دو باتوں کی جانب اشارہ کرتی ہے :(١) یا تو بہت ہی مختصر عمل (انسانی سماج کا ارتقاء ) بہت ہی طویل عمل کے دوران نمودار ہوا ہے ؛(٢)یا پھر ہم کچھ زیادہ ہی خوش قسمت واقع ہوئے ہیں کہ ایک انتہائی مختصر عرصے کے عمل کی ابتداء میں موجود ہیں۔ موخّرالذکر کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس پیش بینی کی بہت ہی مختصر صلاحیت ہے۔

 

 پیش خبری کی صلاحیت کا حامل ہونا سائنس کی دنیا میں انتہائی اہم ہوتا ہے کیونکہ زیادہ تر حالات میں  اس کا مطلب رواں حالات کی  ٹھوس  سمجھ بوجھ ہے۔ کیونکہ ہم قانون ثقل کو سمجھ سکتے ہیں  لہٰذا مستقبل میں چاند کے مدار میں اس کی جگہ  کی پیش بینی کر سکتے ہیں  اور اس کے بعد ہم خلائی جہاز کو بھیج کر اس کی سطح پر انتہائی درستگی کے ساتھ اتر سکتے ہیں۔ دوسری شرط وقت کا موازنہ واضح طور پر اپنی محدودیت کی وجہ سے ایک بدقسمت انتباہ  ہوگا۔

 

دوسری طرف  پہلی حالت کافی ترسا دینے والی ہے ! یہ ہمیں بتاتا ہے کہ سیاروی عمل (حیات بذات خود) حیات  کی اشکال (انسان)کے ارتقاء کے لئے سیاروی وقت کے پیمانے پر لازمی ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ شاید حیات ایک کائناتی مظہر ہے جو سیاروں پر سیاروی وقت کے پیمانے پر  ارتقاء پاتی ہے  لیکن یہ ایک ایسی شکل اختیار کر لیتی ہے  جو سیاروی  پیمانے پر   دوسرے سیاروں سے جداگانہ طور پر نمو پانا شروع کر دیتی ہے یعنی کہ یہ کسی مخصوص سیاروی وقت    پر انحصار نہیں کرتی  بلکہ اپنا ہی علیحدہ سیاروی وقت بنا لیتی ہے جس کے ساتھ ساتھ یہ ارتقاء پاتی ہے یا کم از کم اپنا ماحول بدل دیتی ہے۔ بہر کیف یہ عمل اس سطح پر پہنچنے کے لئے ایک طویل سفر کرتا ہے۔ دوسری  حالت اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ انسان جیسی حیات  سیاروی  وقت کے پیمانے کا حصّہ ہے اور بالآخر یہ  اس عمل کے  آخری  حصّے میں نمودار ہوتا ہے  تاہم یہ عمل لمبے عرصے تک قائم رہنے والی کائنات کی  ساتھ چلتا نہیں  ہے۔

 

 کم از کم اس بات کا امکان موجود ہے کہ یہ عمل کائنات کے ساتھ چلنے کے قابل تو ہے  - انسانوں نے یہ بات چاند کی سطح پر اتر کر  تو ثابت کی۔ کیلی فورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں موجود میرے ایک رفیق  اس بات کو اکثر دہراتے ہیں  کہ اگر قانون طبیعیات کسی عمل کی اجازت دیتا ہے   تو کائنات میں وہ عمل کہیں پر وقوع پذیر ہو رہا ہوگا۔ تفنن برطرف ، لیکن ہمارے امکان اور معقولیت  کو جانچنے میں  ایک گہری سچائی موجود ہے۔ میرے مطابق  صرف سیارے  کے وجود  کے موافق قابلیت کے بھروسے پہلے ہی      آج سیارہ زمین پر ہمارا وجود اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ ایسا  کائنات میں کہیں اور بھی ( کسی اور وقت !) ہو سکتا ہے  چاہے ہم اپنا وجود برقرار رکھ سکیں یا نہیں۔ اس  موافقت پذیری کے وقوع پذیر ہونے کا انحصار اس بات پر ہے کہ کیا ہماری کائنات  میں حیات کے مستقبل کو دوام  دینے کی صلاحیت ہے۔ کیا حیات کے ماخذ کا دور اپنے جوبن پر ہے یا اپنے اختتام  کی جانب گامزن ہے ؟ یا شاید اس کی ابھی شروعات ہی ہوئی ہے ؟

 

 سائنس دان اس سوال کا جواب دینے کے لئے بالکل بے بس ہیں ، بہرکیف اب وہ تھوڑا بہت  حیات کے مہربان ماحول کے ارتقاء  کے بارے میں جانتے ہیں۔ حیات  کو بطور سیاروی مظہر سمجھنے کا عمل  سائنس دانوں کو مستقبل کے بارے میں نئی  پیش گوئیاں کرنے کے قابل بناتا ہے۔ حیات سے متعلق وقت کے پیمانے کے مراتب  کافی دلچسپ ہیں اور یہ امکانی حیات کے پیمانے کے ساتھ  گندھے ہوئے ہیں۔ بڑا سالماتی پیمانہ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں  اوسطاً 10-7 میٹر ہوتا ہے  اور ایک ڈی این اے کا اپنی نقل بنانے کا کیمیائی عمل 10-3  سیکنڈ میں انجام پذیر ہو جاتا ہے۔ یہ جوہری پیمانے پر کافی سست رفتار ہے کیونکہ اس پیمانے پر ننھے حجم یعنی 10-7میٹر  پر پھیلے ہوئے جوہر بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ بہرکیف یہ کسی بھی سیاروی عمل کے مقابلے میں بہت ہی برق رفتار عمل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ حیات بطور  ایک عمل (یا اعمال کا مجموعہ ) ایسا  مظہر ہے جس کے پاس  ڈھلنے ، جماعت میں رہنے یا صرف قائم رہنے  کے لئے لمبے  ارضیاتی پیمانے مثلاً   عالمگیر درجہ حرارت میں اتار چڑھاؤ  یا براعظموں کی از سرنو ترتیب  ؛ کا وقت موجود ہے ۔ لیکن کیمیائی عمل تو کیمیائی عمل ہوتا ہے  اور سیاروی ارضی کیمیائی عمل  زیادہ تر درپردہ  دسیوں ہزار کیمیائی عمل  کا مجموعہ ہوتا ہے۔ لہٰذا تمام انفرادی ارضی کیمیائی عمل  ایک جیسے (مختصر) وقت کے پیمانے  پر بعینہ اس طرح جیسے  انفرادی  حیاتیاتی کیمیائی عمل نمودار ہوتے ہیں   جو حیات کے عمل کو تشکیل دیتے ہیں۔  

 

پھر کس طرح سے حیات کا عمل سیاروی ماحول کی تباہ کن کیمیا کے بل بوتے پر نمودار ہو گیا؟ اگر ان کو پورا کرنے کے لئے اتنا ہی وقت درکار ہوتا ہے  تو عام کیمیا اس میں جیت جائے گی۔ حیات اور اس کی حیاتیاتی کیمیا کو  غلبہ حاصل کرنے کے لئے اپنا وقت کا پیمانہ مختصر کرنا ہوگا۔  زمین پر حیات دو  ترکیبوں کی مدد سے مسابقت حاصل کرتی ہے۔ ایک ترکیب میں تو  اپنے  اس عمل کو اسراع دینے کے لئے خصوصی سالمات (عمل انگیز  خاص طور پر خامرے کہلانے  والے سالمات)سے حاصل شدہ  مدد ہے ؛ اور دوسری  ترکیب   ان کے کام کرنے کے انداز پر قابو رکھنا ہے۔ با الفاظ دیگر ، حیاتیاتی کیمیا ستھرے طریقے سے تعاملات کی  ترتیب کا  حکم دیتی ہے  جو اس عمل (جیسا کہ  توانائی کا ذخیرہ اور اس کا اخراج ، خول بنانا وغیرہ )کو بہت اچھی طرح اور تیز رفتاری سے سرانجام دیتا  ہے۔ مزید براں  ایک خاص سالمہ  ان احکامات  کے سلسلے پر نظر رکھتا ہے  تاکہ ان  احکام کو ہر مرتبہ   دوبارہ ایجاد نہ کرنا پڑے۔ ہم ان سالمات کو بہت اچھی  طرح  جانتے ہیں  - ہم سب کے پاس یہ موجود ہوتے ہیں اور ان کو ہم ڈی این اے اور آراین اے کہتے  ہیں۔

 

حیات پر موجود موروثی سالمات ، ڈی این اے  اور آراین اے بہت ہی   منفرد اور  ارضی حیاتی کیمیا  میں فراواں موجود ہیں۔ ان کی پیچیدگی  ایک طویل ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے۔ یہ بات انتہائی دلچسپی  کی حامل ہے کہ سالمہ  میں ایک رمزی سلسلے والی ساخت ہو سکتی ہے جو اس رمز کی  نقل کرکے  آگے موروثیت کی شکل میں  منتقل بھی کر سکتی ہے۔ بعینہ ایسے ہی آراین اے بھی  دلچسپی کا حامل ہے  اور یہ بات کئی مرتبہ  تجربہ گاہ میں ثابت ہو چکی ہے  کہ یہ اپنے عمل انگیزی کی نقل کرنے کے قابل ہے۔ ان دونوں کی ان خصوصیات  کے سبب حیاتی کیمیا کے وقت کا پیمانہ  بہت ہی مختصر ہو جاتا ہے  - تیز رفتار شرح  جو سیاروی ماحول کے تباہ کن کیمیا  کے سینے پر نمو پا سکتی ہے۔

     

 کائنات میں  طویل عرصے تک اپنی شناخت رکھ سکنے  والے اجسام یا تو کافی بڑے( مثلاً  کہکشائیں )  ہیں یا پھر کافی پائیدار (مثلاً ستارے اور سیارے ) ہیں۔ ہمارا سورج ایک ایسا ستارہ ہے جو اپنی 10 ارب سال کی عمر کے دوران انتہائی کفایت شعاری سے اپنا ایندھن خرچ کرے گا؛ درحقیقت یہ انتہائی پائیدار ستارہ ہے۔ لیکن حیات  ان دو ترکیبوں کے طفیل  ایک تیسری چیز پیش کرتی ہے۔ اپنے  انفرادی  ، مختصر دورانیے کی  حیات اور مقامی  جاندار اکائیوں کی بدولت، جو بدلتی فضا سے تیز  کیمیا گیری کرتے ہوئے  ماحول کے مطابق ڈھلنے کی صلاحیت کی لچک رکھتے ہیں ،  حیات   ثابت قدم اور دیرپا رہتی ہے۔ ان تمام باتوں سے قطع نظر یہ مقامی اور مختصر عرصے والی حیات  لمبے عرصے زندہ رہنے والی حیات اور عالمگیر  موجودات  مثلاً پوری آبادی  یا  نوع سے  متوازن رہتی ہے۔ یہ بڑی جماعتیں کافی لچک دار ہوتی ہے اور اپنے اراکین کو زندہ رہنے کے لئے مختلف چیزوں کی کوششوں کو  جاری رکھنے کی اجازت دیتی ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی ایجاد ہے !ہم صرف یہ بات جانتے ہیں کہ اس کے وسیلے سے حیات ایک ایسا کائناتی مظہر ہو سکتی ہے جو ایک دفعہ نمودار ہو جائے تو پھر  ایک غیر معین وقت تک جاری رہ سکتی ہے۔

 

انسانی حیات کا وقفہ نہایت مختصر ہے ، لیکن بطور نوع ہم ہمیشہ مستقبل بعید کے بارے میں سوچتے اور منصوبے بناتے ہیں۔ ماضی میں اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا تھا  کہ اپنی اس نسل کی فکر کرنا جو ہم سے زائد مدت تک سیارہ زمین  کو اپنا مسکن بنائے  رکھے،  ہم  مستقبل کے منصوبے  بطور سماج بناتے ہیں۔ مکان و زمان کے افق سے بھی دور تک پرواز کرتے  ہمارے مجرد خیالات کو سوچنے کی قابلیت ہی ہماری سب سے منفرد اور اہم  خاصیت ہے۔ خرد بینی حیات  کائنات کی جانب سے پھینکے جانے والے اکثر ہتھیاروں  سے بچ کر اپنا وجود برقرار رکھنے کے قابل ہے  لیکن جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ سورج ایک دن اس سیارے پر حیات کے خاتمے کا سبب بن جائے گا۔ اگر ماضی میں محدود سیاروی حیات میں کوئی چیز ثابت قدم رکھ سکی ہے  تو وہ صرف ہماری سوچنے کی صلاحیت ہی ہے۔   

حیات بطور سیاروی مظہر کے استدلال کے علاوہ  دوسرے اہم مضمرات بھی ہیں۔ اکثر ہم کائنات میں اپنا مقام ایسا سمجھتے ہیں جیسا کہ ہم اپنی زندگی  کا مشاہدہ  اور اپنے رہنے والی جگہ کا سمجھتے ہیں۔ اسی لئے ہار ورڈ کالج رصدگاہ   کے چٹانوں کے ٹکڑوں کو دائمی سمجھنا ہمارے لئے انتہائی آسان ہے ، ہم ایک ایسی دائمی  اور جامد کائنات کا تصوّر کرتے ہیں جہاں ہم اور حیات پیدا ہوئے ہیں ، پروان چڑھے ہیں اور  عمر کی منزلیں طے کی ہیں ؛ ہم تو صرف کئی نسلوں میں سے ایک ہیں، لیکن کائنات بذات خود  ہمارے وہم و گمان سے بھی کافی زیادہ عمر کی ہے۔

 

 یہ بہت ہی جھوٹی بات ہے! ہم جانتے ہیں کہ کائنات ایک محتاط اور اب تک کے بہترین لگائے ہوئے اندازوں کے مطابق لگ بھگ چودہ ارب برس پرانی ہے  جبکہ زمین پر حیات صرف چار ارب سال پرانی ہے : حیات اور کائنات قریب قریب ہم عصر ہی ہیں۔ اس بات کو ہم اپنے سمجھنے کے لئے کچھ ایسے کہے دیتے ہیں ، اگر کائنات کی عمر ٥٥ برس کی ہے ، تو حیات کی عمر سولہ سال کی ہو گئی۔ مزید  براں یہ کہ کائنات  میں کچھ بھی مستقل  یا  دوامی نہیں ہے۔

 

یہ تمام باتیں گھما پھرا  کر ہمیں پھر اسی سوال کی جانب لے جاتی ہیں ، ہمارا اس نوجوان دنیا میں کیا مقام ہے ؟ یہ ایک نہایت ہی عمیق سوال ہے، اور بہت سارے ایسے طریقے موجود ہیں جس میں یہ بات پوچھی جا سکتی ہے۔ ان میں سے ایک تو سادہ طور پر یہ سوال ہے کہ کیا ہم اکیلے ہیں ؟ میں اس سوال  کا ایک ہی حصّہ زیر بحث کروں گا  جو زیادہ تر کائنات کے متعلق ہماری حالیہ سمجھ بوجھ   کے ارد گرد گھومے گا جس سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ کائنات ابھی تو اپنے عہد شباب میں ہے  اور یہ اب بھی تبدیلیوں کے عمل سے گزر رہی ہے۔

 

 کئی وجوہات کی بنا پر اس سوال کا جواب مثبت ہو سکتا ہے۔ ان میں سے ایک بات تو یہ ممکن ہے کہ ہم (صرف انسان نہیں بلکہ حیات ) اکیلے ہی  ہوں کیونکہ حیات ایک انتہائی عنقا چیز ہو سکتی ہے  اور کائنات کی تیرہ ارب ستر کروڑ برس کی تاریخ میں  صرف ہم نے ہی جنم لیا ہو۔ دوسری طرف  ہم اس لئے بھی اکیلے ہو سکتے ہیں  کہ ہم بعد میں اس جہاں میں آئے ہیں۔ ہمارے سورج اور زمین کے  جنم سے پہلے نو ارب سال کا عرصہ گزر چکا تھا ، لہٰذا یہ امکان اپنی جگہ موجود ہے کہ ہمارے علم میں آئے بغیر  حیات  کائنات میں کسی جگہ پہلے ہی نمودار ہو کر اپنی عمر تمام کر چکی ہے۔ یا ہو سکتا ہے کہ ہم پہلے ہوں!

 

اس بحث  کا اہم حصّہ  خود ساختہ فرمی کا تناقض ہے ، اس کو ایک شہرہ آفاق طبیعیات دان اینریکو فرمی کے نام پر یہ سوال اٹھانے کی وجہ سے رکھا  تھا "وہ کہاں ہیں ؟" اس سوال کے پیچھے یہ قیاس موجود ہے کہ  اگر جدید تہذیبیں موجود ہیں  تو فلکیات دانوں کو ان کا مشاہدہ کرنا چاہئے۔ کیونکہ یقینی طور پر کسی  بھی جدید تہذیب  کو  اس قدر قوّت کا  حامل ہونا چاہئے کہ وہ  کہکشاں کو اس حد تک بدل سکے  کہ ہم اس کا مشاہدہ کر لیں۔ فرمی دلائل دیتا ہے کہ کائنات کی لمبی  عمر  اور انسانی ٹیکنالوجی  کو مختصر وقت کے پیمانے پر  ترقی حاصل کرنے  کے امکان کو  مد نظر  رکھتے ہوئے، ہماری کہکشاں میں موجو ہم سے عمر میں برتر د دوسری  تہذیبیں اور حیات کے ماخذ غیر معمولی طور پر ہم سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہوں گے۔ زیادہ ترقی یافتہ ہونے کی صورت میں ان کی توانائی کی ضرورت  نجمی اور کہکشانی سطح  کی ہو گی جس کا ہم صرف مشاہدہ کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں کر سکتے۔ اگر ہم نے ابھی تک کسی چیز کا مشاہدہ نہیں کیا ہے  تو اس بات کا غالب امکان ہے کہ ہم اپنی کہکشاں میں اکیلے ہی ہیں  اور ٹیکنالوجی کی حامل  تہذیبیں بہت ہی نایاب ہوں گی۔( مجھے یہاں پر آرتھر کلارک  کا وہ جملہ یاد آتا ہے : کسی بھی جدید تہذیب  کی ٹیکنالوجی  کو جادو سے علیحدہ کرنا مشکل ہوگا ،" یہ جملہ مجھے میرا اعتماد اس بات پر کم کر دیتا ہے  ہمیں معلوم ہی نہیں ہوگا کہ ہمیں کیا دیکھنا ہے ۔)

 

١٩٩٠ء میں ہار ورڈ کی طبیعیات کے شعبے کے پال ہوروویٹز(Paul Horowitz) نے ہرب یارک (Herb York)اور فل موریسن(Phil Morrison)  کے  فرمی کے مشہور سوال کے ماخذ کے یاد داشتی  کام کو  قلمبند کیا۔ لوس الاموس  میں ١٩٥٠ء کی گرمیوں کا موسم تھا جب متعدد امریکی طبیعیات دان جمع ہوئے تھے، یہ مین ہٹن منصوبے کے چند برسوں بعد کی بات ہے جس میں ہائیڈروجن بم بنایا گیا تھا۔ فرمی  کو طبیعیات دانوں سے  کھانے کے دوران کے وقفے میں  اپنے اس خطیبانہ سوال کا  پوچھنا اور پھر اس کا جواب دینا نہایت پسند تھا۔ یارک کے یاد داشتی کام کو قلمبند کرنے کے مطابق کسی ایک ایسے ہی موقع پر اس نے اپنی میز کے گرد  موجود بیٹھے لوگوں سے پوچھا ،" آپ لوگوں کو کبھی  حیرت نہیں ہوئی کہ سب لوگ  کہاں ہے ؟" فرمی نے کہکشاں میں موجود ستاروں اور ان میں موجود نظام ہائے سیارگان کی کثرت و فراوانی اور ان کی قدیمی عمر   کو مد نظر رکھتے ہوئے دلائل دیے ،  اگر حیات کہیں  اور پروان چڑھ گئی اور اس نے ٹیکنالوجی  بھی حاصل کر لی تو وہ ہم سے کہیں زیادہ جدید ہوگی  اور ایسی کسی تہذیب نے کہکشاں میں اپنی بستیاں قائم کر لی ہوں گی۔

 

١٩٧٠ء کی دہائی  میں مائیکل ہارٹ نے  ثابت کیا کہ فرمی کے نتائج شماریات کے حوالے سے نہایت ٹھوس تھے۔ بہرکیف شماریاتی دلائل صرف اس وقت ہی مضبوط ہوتے جب پیچیدہ حیات  کا ظہور کائنات کی عمر سے کہیں زیادہ نوخیز ہوتا۔ اگر دونوں کی حیات ایک دوسرے کے مماثل ہوتی تو پھر یہ دلیل کام نہیں کرتی تھی۔

 

فرمی نے اپنا نقطۂ نظر ١٩٥٠ء  جبکہ ہارٹ نے ١٩٧٠ء کے عشرے میں دیا تھا۔ ان دونوں ادوار میں ہمارے رفیق ماہرین فلکیات  کا اس بات پر اجماع تھا کہ کائنات کی عمر ١٠ سے ١٥ ارب سال سے کہیں زیادہ ہے۔ اس وقت کائنات کی عمر کا تخمینہ کچھ بیس سے پچیس ارب برس کا تھا  جبکہ کچھ تو کائنات کو مستقل حالت کی دائمی کائنات مانتے تھے۔ جبکہ اس دور میں ارضیاتی وقت کا پیمانہ اچھی طرح سے چار ارب سال کا سمجھا جا چکا تھا۔

 

تب سے لے کر بیسویں صدی کے اختتام تک طبیعیاتی  فلکیات میں بے نظیر انقلاب کی بدولت بہت سارے رازوں سے پردہ فاش ہو چکا تھا۔ پچھلے دس پندرہ بر سوں میں سائنس دانوں  نے اس انقلاب کی بدولت جو رائے قائم کر لی تھی   وہ فرمی کے تناقض  اور کائنات میں حیات کے مستقبل کے بارے میں کافی مدد کر سکتا ہے۔ تاریخ کی کافی چیزیں بہت ہی سلیقے سے استوار کر لی گئی ہیں  جن میں سے زیادہ تر کے براہ راست ثبوت بھی مل چکے ہیں۔ کہانی کچھ اس طرح ہے :

 

روشنی اپنی محدود رفتار کے باوجود ایک عظیم ٹائم مشین ہے ؛ فلکیات دان اپنی دوربینوں کا رخ دور دراز اجسام کی طرف کرکے ان کے ماضی میں جھانک سکتے ہیں۔ لہٰذا جب ہم فلک کے ماضی میں جھانکتے ہیں  تو ہم تیرہ ارب ستر کروڑ سال پہلے کے وقت میں جھانک رہے ہوتے ہیں  جب تمام قابل مشاہدہ کائنات  گرم ہائیڈروجن اور ہیلیئم گیس  کا ملغوبہ تھی جس میں کہیں کہیں لیتھیم بھی موجود تھی۔ رات کے آسمان میں موجود ہمارے شناسا اجسام  - کہکشائیں ، ستارے ، سیارے  کچھ بھی وجود نہیں رکھتے تھے۔ مزید براں دوسرے کیمیائی عناصر بھی موجود نہیں تھے۔

 

فلکیات دان اس دور کا براہ راست مشاہدہ  اپنی حساس  حرارت  ناپنے والی دوربینوں کے ذریعہ کر سکتے ہیں جو انہیں کائناتی پس منظر کی شعاعوں یا  عرف عام "سی بی ایم"   کا مشاہدہ کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ جب  پہلے پہل فوق توانا ذرّات  جوہروں کی صورت میں جڑ کر کائنات میں موجود تمام ہائیڈروجن کو بنا رہے تھے تو اس وقت روشنی کا  جو اخراج ہوا سی بی ایم اس کی باقیات ہیں ۔  روشنی کو اس طرح سے خارج کرنے کے پورے عمل میں صرف بیس ہزار برس لگے۔ اس روشی کا زیادہ تر حصّہ  جب سے ہمارے پھیلتی اور سرد ہوتی کائنات میں محو سفر ہے۔ دور  حاضر میں یہ  مہین ہو کر لمبی طول موجوں کی طرف تبدیل ہو گئی ہیں ۔ اس طرح سے جو  بصری روشنی تھی وہ   خرد اور ریڈیائی امواج میں تبدیل ہو گئی ہیں۔           

 

سی بی ایم نے بذریعہ حرارت ، حرارتی بدلاؤ  اور تقطیب  - ایک  لطیف پیمانہ جو سی بی ایم امواج کے خم کو ناپتا ہے ، اطلاعات کا خزینہ  اپنے اندر چھپا رکھا ہے۔ ان کی پیمائش حاصل کرنا ایک مشکل اور دقیق عمل ہے ۔ ماضی کے چند عشروں میں ہونے  والی دونوں  زمینی اور خلائی مثلاً کوبی،  ڈبلیو میپ اور پلانک ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیش رفت کی بدولت  ان پر تحقیق کرنا ممکن  ہو سکا    ہے۔ اس سے حاصل کردہ براہ راست نتیجوں  نے واضح طور پر یہ بات ثابت کی ہے کہ کائنات میں آج سے تیرہ ارب ستر کروڑ سال پہلے حیات کے آمیزے   کے لئے تو کیا بلکہ سیاروں کے لئے بھی  کسی بھی قسم کے اجزاء موجود نہیں تھے اگر کچھ موجود تھا تو وہ ہائیڈروجن اور ہیلیئم ہی تھی۔

 

کہانی کو آگے بڑھانے سے پہلے ضرورت اس بات کی ہے کہ ابتدائی کائنات میں ہونے  والے کچھ مختلف واقعات  کا تسلسل بیان کیا جائے۔ کائنات کی عمر  کا تخمینہ تیرہ ارب  چھتر کروڑ (دس کروڑ برس کی کمی بیشی کے ساتھ )لگایا گیا ہے، مطلب یہ ہے کہ ہم قطعیت کے ساتھ یہ بیان نہیں کر سکتے کہ کائنات کی عمر تیرہ ارب ساٹھ کروڑ ہے یا تیرہ ارب اسی کروڑ ہے یا پھر ان دونوں کے درمیان کہیں پر ہے۔ اس کے باوجود کچھ واقعات کے وقت کو انتہائی درستگی کے ساتھ اضافی اصطلاح میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا اس طرح سے مختلف واقعات  کے وقوع پذیر ہونے والے وقت کا حوالہ اس وقت سے  آسانی کے ساتھ  دیا جا سکتا ہے جب وقت کا آغاز ہوا تھا جس کو بگ بینگ کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر سی بی ایم بگ بینگ کے آغاز کے کچھ تین لاکھ اسی ہزار سال کے بعد خارج ہونا شروع ہوئیں۔ سی بی ایم کا وقت ایک پیمائش ہے  اور اس سے پہلے کی چیزیں تبدیل نہیں ہوں  گی چاہے کائنات کی عمر (یعنی کہ بگ بینگ کی شروعات ) تیرہ ارب ساٹھ کروڑ سال ہو، تیرہ ارب ستر کروڑ سال ہو یا تیرہ ارب اسی  کروڑ سال ہو۔ متبادل طور پر اگر ہم بگ بینگ کی عمر تیرہ ارب ستر کروڑ  فرض کر لیں تو یہ واقعہ (جو بعد میں سی بی ایم کی تخلیق کہلایا ) تیرہ ارب انہتر کروڑ ستانوے  لاکھ برس پہلے رونما ہوا ہوگا۔

 

چلیں اب اپنے قصے کی طرف واپس چلتے ہیں۔ ہمیں اس  واضح سوال کا جواب درکار ہے، تمام اجزائے ترکیبی  - تمام کیمیائی عناصر جیسا کہ کاربن ، آکسیجن ، سلیکان  اور لوہا کہاں سے آئے ؟ اس کا جواب سب کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ یہ عناصر ستاروں سے بعد میں بنے۔ یہ بات ہمیں کائنات میں ہونے  والے دوسرے اہم واقعے کی طرف لے جاتی ہے  یعنی کہ ستاروں کی تخلیق۔ یہ ایک ایسا واقع ہے جس کا ہم نے براہ راست مشاہدہ نہیں کیا ہے ، اگرچہ ہبل خلائی دوربین  کی جانشین  اس کام کو انجام دینے کے لئے بنائی جا رہی ہے۔ اس بات سے قطع نظر سائنس دانوں کے پاس بالواسطہ کافی سارے شواہد  موجود ہیں جو اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ ایسا آج سے تیرہ ارب دس کروڑ سال پہلے ہوا تھا۔

 

جب ہم  بڑے منظر نامے کو دیکھتے ہیں تو ستارے بشمول اولین ستارے بہت ہی غیر معمولی اجسام  نظر آتے ہیں۔ وہ  عام مادے یا ابتدائی مادّے  کے مرتکز، پائیدار اور طویل العمر اجسام ہیں۔ اس بات میں کوئی غیر معمولی چیز نہیں ہے۔ عام مادّہ پوری کائنات میں (ارب ہا ارب کہکشاؤں کی صورت میں )  بڑے اور چھوٹے لوتھڑوں میں بکھرا ہوا ہے۔ یہ  کائنات میں ایسی حالت میں اس وقت تک رہتا ہے جب تک ان میں سے کچھ لوتھڑے  اپنے وزن تلے بھینچ کر دب کر ستاروں کی شکل اختیار نہیں کر لیتے۔ ستارے کے اندر  قوّت ثقل کے کھنچاؤ اور مادّے کے پھیلاؤ  میں توازن  اس درجہ حرارت اور کثافت پر حاصل ہوتا ہے جس میں ہائیڈروجن اور ہیلیئم کے مرکزے  ضم ہو کر نئے عناصر بناتے ہیں۔ جب کسی بھی جوہری مرکزے میں گداخت کا عمل ہوتا ہے تو  اس کے دو اہم نتیجے نکلتے ہیں: بہت ساری توانائی کا اخراج ہوتا ہے ، بھاری مرکزہ بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا سورج چمکتا ہے۔

 

 ستارے گداخت کے شہزادے ہوتے ہیں۔ اس عمل کو یہ بہت ہی جانفشانی سے انجام دیتے ہیں ! سچ میں یہ کائنات کو روشن کرتے ہیں اور اس بے رنگ سادہ گیس سے بھری کائنات کو عناصر کی زرخیزی سے لبریز کر دیتے ہیں۔ یہ عمل انتہائی منظم ہوتا ہے : پہلے ہائیڈروجن ، ہیلیئم میں بدلتی ہے، جو ہائیڈروجن سے بھاری ہوتی ہے  یہ  سکڑ کر اور گرم ہو جاتی ہے۔ ہیلیئم اس وقت تک گرم ہوتی رہتی ہے جب تک  گداخت کی سرحد کو پار نہیں کر جاتی اور اس وقت کم از کم داخلی طور پر  ستارے کی زندگی میں ایک نیا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔

           

ہائیڈروجن کی گداخت سے زیادہ تر تو ہیلیئم  ہی بنتی ہے ( عمل گداخت ایک ایسا عمل ہے جس میں آلودگی سے پاک صاف ستھری توانائی انسانیت کے لئے حاصل کی جا سکتی ہے  بشرطیکہ ہم اس کو کسی منضبط  طریقے سے کرنا سیکھ لیں )، ہیلیئم کے گداختی عمل میں دوسرے بھاری عناصر حاصل ہوتے ہیں جن میں زیادہ اہم کاربن اور آکسیجن ہے۔ ستارے  لوہے تک عناصر بنا سکتے ہیں۔ لوہے کو بنانے کے بعد وہ مزید کوئی عنصر گداختی عمل کے ذریعہ نہیں بنا سکتے  کیونکہ ان میں اتنی توانائی نہیں ہوتی جو لوہے کے عنصر میں گداختی عمل شروع کر سکے۔ یہاں تک کہ ستارہ  پھٹ پڑتا ہے۔ ایک ایسے سپرنووا میں  مزید گداختی عمل شروع ہوتا ہے  جو مزید دوسرے بھاری عناصر پیدا کرتا ہے  اور دوسرے پابند الیکٹران کو آزاد کرا دیتا ہے  جو بھاری جوہروں کے عناصر  اور تمام ثمر آور کیمیا کو پکا دیتے ہیں۔

 

ماہرین فلکیات ستاروں کو کائنات کو ثمرآور عناصر سے بھرنے کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ دس سے بیس برس پہلے ماضی میں بننے والی دوربینوں  کے ذریعہ وہ بارہ ارب سال پہلے تک دیکھ سکتے ہیں۔ وہ کچھ بھاری عناصر جیسا کہ لوہے کو دیکھ سکتے ہیں ؛ وہ  عناصر کو ثمرآور  ہوتے ہوئے  اور کس طرح سے ستارے انھیں بنا رہے ہیں دیکھ سکتے ہیں۔ ان تمام باتوں کو دیکھتے ہوئے جو صورتحال بنتی ہوئی نظر آتی ہے اس میں ستاروں کی ایک نسل نوجوان کائنات کی ہائیڈروجن اور ہیلیئم کو ایک تسلسل کے ساتھ  تمام بھاری عناصر میں تبدیل کر رہی ہے۔ 

ستارے کم کمیت کی گیس سے بنتے ہیں  جس کو (اپنے وزن تلے خود سے ) دبتے ہوئے ٹھنڈا ہونا ہوتا ہے  تاکہ ستارہ کثیف ہو سکے۔ ہائیڈروجن اور ہیلیئم دبتے ہوئے ٹھنڈے ہونے کی صلاحیت سے کافی زیادہ محروم ہوتی ہیں لہٰذا  اولین ستارے لازمی طور پر ہمارے سورج سے سینکڑوں گنا زیادہ بڑے ہوں گے۔ اولین ستارے ضخیم اور کم عمر تھے  جنہوں نے کچھ بھاری عناصر  بنائے تھے جو اب  نمو پذیر کہکشاؤں کے اندر  بکھرے ہوئے ہیں یہی وہ ستارے ہیں جنہوں نے چھوٹے اور کم ضخیم ستاروں کی پیدائش کو ممکن بنایا۔ ہائیڈروجن  اور ہیلیئم گیس  پر ان بھاری عناصر کے چھڑکاؤ  نے ان گیسوں کو بھی ٹھنڈا کرنے میں مدد کی  تاکہ دوسری نسل کے ستارے ایک متنوع فیہ قسم کی گیس کے ڈھیر  سے پیدا ہو سکیں۔ ہر نئی نسل کے ساتھ ، بتدریج چھوٹے ستارے پیدا ہو سکتے تھے اور ایسا ہی ہوا۔ آج ہماری کہکشاں میں سورج سے بھی چھوٹے ستارے موجود ہیں۔ اس کی ایک ذیلی وجہ یہ ہے کہ چھوٹے ستارے زیادہ عرصے تک زندہ رہتے ہیں کیونکہ وہ اپنا ایندھن کفایت شعاری سے  استعمال کرتے ہیں۔ تاہم زیادہ اہم بات یہ ہے کہ چھوٹے ستاروں کا جنم نہایت تیزی سے بڑے پیمانے پر  کائنات کے ارتقاء کے ساتھ ہوا ہے۔

 

 چھوٹے ستارے موت سے ہمکنار ہوتے ہوئے بھاری عناصر کی جماعت کو کائنات میں بکھیر دیتے ہیں  لہٰذا کائنات میں بھاری عناصر کی زرخیزی  سست رفتاری کے ساتھ تاہم  مسلسل رفتار سے جاری رہے گی۔ درحقیقت تیرہ ارب سال بعد صرف اصل کائناتی آمیزے کا صرف دو فیصد  بھاری عناصر میں بدلا گیا ہے ؛  فلکیات دان اس عمل کو افزود گی کہنا پسند کرتے ہیں۔ افزود گی کا یہ عمل درحقیقت نہایت ہی سست ہے۔   

 

کائنات کی مختصر تاریخ کچھ اس طرح سے ہے : تیرہ ارب سال پہلے صرف ہائیڈروجن اور ہیلیئم سے  ستاروں کی ایک ایسی نسل پیدا ہوئی جس نے کافی تعداد میں  آکسیجن، سلیکان  اور کاربن  اور وہ تمام دوسرے عناصر پیدا کیے  جس کے ذریعہ زمین یا فوق ارضی سیارے بن سکتے تھے۔ حیات کی کہانی سے حاصل ہونے والے کم از کم دو نتیجے حاصل ہوئے ہیں۔

 

 پہلا  تو یہ کہ کائنات میں کہیں پر بھی موجود ان ستاروں کے بننے میں کافی وقت لگا جن کے ارد گرد نظام ہائے سیارگان موجود ہو۔ عام کہکشاؤں میں وہ  مستحکم ماحول صرف نو ارب سال پہلے ہی وجود میں آیا  جس میں  کافی سارے سیارے  ستارے کے گرد بن سکیں ۔ اگر آپ بڑے ارضی سیاروں کے بارے میں بات کریں  جیسا کہ چٹانی فوق  ارضی سیارے  یا ارض  تو ان کے بننے کا ماحول صرف ساتھ سے آٹھ ارب سال پہلے قیام پذیر ہوا ہے۔ ہم اس بات کا تصوّر کر سکتے ہیں کہ کائنات کی تاریخ میں  حیات کو نمودار ہونے کے لئے  ہمیں اس وقت تک کا تو انتظار کرنا ہی ہوگا۔

 

دوسرے  افزود گی کا عمل  آج تک جاری ہے  اور ہم اس بات کا اندازہ کافی اچھی طرح سے لگا سکتے ہیں کہ ہماری کائنات کسی طرح سے  طویل اور  آنے والے لامحدود دور میں تبدیل ہو گی۔ مثال کے طور پر ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ضخیم ستارے پچھلے پانچ ارب سال کے دوران بننا کم ہو گئے ہیں  اس طرح سے مستقبل میں  چھوٹے ستاروں کا غلبہ  عناصر کو بنانے اور ان کو افزودہ کرنے میں بڑھ جائے گا۔ اس کا عام طور پر مطلب یہ ہوگا کہ آکسیجن کے مقابلے میں کاربن زیادہ بنے گی۔ دور حاضر میں ہماری کہکشاں میں اکثر جگہ  آکسیجن کے جوہر کاربن کے جوہروں کی نسبت تین گنا زیادہ ہیں لیکن ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب آکسیجن اور کاربن کے جوہر برابر کی تعداد میں موجود ہوں گے۔ جب کبھی بھی ایسا وقت آئے گا تو چٹانی سیاروں کی معدنیات بدل جائے گی۔ کاربائیڈ  سیلیکٹ  پر غالب آ جائے گا اور اس کے نہایت ہی اہم مضمرات ایسے سیاروں پر موجود  حیات کے ماخذوں پر ہوں گے جیسا کہ اس کتاب کے شروع میں بیان کیا گیا تھا کہ کاربنی  سیارے  نایابی سے فراوانی کی طرف ہو جائیں گے۔

    

وسیع تناظر میں اگرچہ حیات کا مستقبل بہت ہی شاندار دکھائی دے رہا ہے۔ تاوقتیکہ حیات بہت ہی نایاب مظہر ہو ، مستقبل میں  اس کی موجودگی کافی نہ  صرف کافی  زیادہ ہونی چاہئے بلکہ اس کو  بہت زیادہ متنوع فیہ بھی  ہونا  چاہئے۔ ممکن  ہے کہ  سیارے کائنات کا بہت ہی معمولی حصّہ ہوں کیونکہ وہ بہت ہی چھوٹے ہوتے ہیں اس کے باوجود یہ اس قدر وافر مقدار میں موجود ہیں کہ حیات کے موجود ہونے کی کافی زیادہ جگہیں دستیاب  ہیں۔ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ ہماری کائنات اس دور سے گزر رہی ہے جس  میں ستارے بننے کا عمل اپنی جوبن پر ہے ( جس کو ستاروں بھرا دور بھی کہتے ہیں ) لیکن ایسا بھی لگتا ہے کہ ساتھ ساتھ سیاروں کی پیدائش بھی اپنے عروج پر ہے۔

 

 اس کا مطلب یہ ہوا کہ فرمی کا تناقض  جو ماضی کے بارے میں ہے  وہ کائنات میں موجود کسی دوسری جگہ حیات کے بارے میں سوال کو غلط طریقے سے پوچھتا ہے۔ یہ تناقض اس بات کو فرض کرتا ہے کہ دوسرے کو  ہم سے پہلے نمودار اور پروان چڑھنے کے لئے کافی وقت مل چکا  ہے۔ نئے حاصل ہوئے شواہد اس فرض کی ہوئی بات  کی آسانی کے ساتھ تائید نہیں کرتے۔ بات جب خرد بینی حیات کے بجائے ٹیکنالوجی  کی ہو گی تو ہم  حالیہ دور میں زبردست رفتار سے حاصل  ہوئی اپنی ٹیکنالوجی  کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے پیش بینی کر سکتے ہیں۔ لہٰذا اگر ترقی کی اس رفتار کو بنیاد بنا کر ہم اندازہ لگائیں تو فرمی کا تناقض شماریاتی طور پر نہایت مضبوط رہے گا۔ لیکن حیات کے لئے جو منطقی سلسلہ میں دیکھوں گا وہ یہ ہے :(١) پیچیدہ کیمیا  حیات کے نمودار ہونے لے لئے لازمی ہے  -  کافی مقدار میں بھاری عناصر درکار ہوں گے ؛ (٢) مستحکم ماحول جو کیمیا کو مرتکز کر سکے وہ درکار ہو گی- ارضی سیارے  (ارض ، فوق  ارضی سیاروں) کی ضرورت ہو گی۔ ماضی میں یہ تمام شرائط ہماری کائنات نے کس دور میں پوری کی ہیں ؟

 

اس کا جواب ہے کہ سات سے نو ارب سال پہلے  یہ شرائط پوری ہو چکی تھیں۔ میں اس نتیجے پر دو مختلف آزاد ذرائع  سے پہنچا ہوں۔ پہلا  راستہ یا ذریعہ تو وہ ہے جس پر ہم ستاروں اور دور دراز کہکشاؤں میں موجود گیس پر انحصار کرتے ہوئے  قیاس کر رہے ہیں  جس میں ہم ستاروں اور گیس میں موجود بھاری عناصر (جو حیات کے ظہور کے لئے ضروری ہیں )کی فراوانی  کو  ناپتے ہیں، اس طرح سے ہم ان کی بڑھوتری کو وقت کے ساتھ ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ جب ہم ان ستاروں کو دیکھنا شروع کر دیتے ہیں جو ارض یا فوق  ارضی سیاروں  کو بننے  کے لئے درکار عناصر فراہم کر سکتے ہیں تو ہم  ماضی میں دیکھے جانے والے  اس وقت کی جانب اشارہ کر دیتے ہیں۔ مسئلہ صرف اس جگہ پر اٹکا ہوا ہے کہ ہم یہ بات کس طرح معلوم کریں کہ  بڑے ارضی سیاروں کو بننے کے لئے کتنی مقدار میں  بھاری عناصر درکار ہوتے ہیں۔ یہ سوال لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے۔ اگر ہمارے سیاروی تشکیل دینے والے کمپیوٹر نمونے درست ہیں  تب کسی بھی ایک   نظام شمسی کو  ہمارے سورج کے مقابلے میں ہزار کے نسبت ایک  جتنے بھاری عناصر درکار ہوں گے۔ ہماری کہکشاں اس حالت میں آج سے نو ارب سال پہلے پہنچ گئی تھی۔

   

جواب حاصل کرنے کا دوسرا ذریعہ یا راستہ سیدھا سیاروں کی جانب جاتا ہے۔ کیا ہم نے ستارے کے گرد چکر لگاتے سیاروں میں  ہلکے  عناصر کا تناسب گرتے ہوئے دیکھا ہے ؟ جی ہاں بالکل ایسا ہی ہے۔ یہ شہادت  سیاروں کی کھوج کے ابتداء میں ہی حاصل ہو گئی تھی۔ یہ شہادت اس قدر واضح تھی کہ زیادہ تر ٹیمیں  سیاروں کی کھوج کرتے وقت وہ ستارے چنتی تھیں جن میں بھاری عناصر کی تعداد زیادہ ہوتی تھی۔ اس رجحان پر کسی کو بھی حیرت نہیں ہوئی تھی کہ جتنی  زیادہ دھاتیں ستارے میں موجود ہوں گی اتنے ہی زیادہ سیارے موجود ہوں گے لیکن اس رجحان کی طاقت بہت زیادہ حیران کن تھی۔ یہ رجحان تیزی سے سیاروں کو ڈھونڈتے ہوئے گر گیا  یہاں تک کہ جو میں نے اوپر بھاری عناصر کی سورج کے مقابلے میں  ہزار کی نسبت ایک بتائی تھی وہ کافی فیاضانہ محسوس ہوتی ہے۔ نتائج سے ظاہر ہوا کہ سورج کے مقابلے میں بھاری عناصر کی نسبت سو کے مقابلے میں ایک کی ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ وقت جب ماضی میں سیارے حیات  کو پروان چڑھانے کے لئے سازگار ہوں گے کم ہو کر آٹھ سے سات ارب سال  پہلے تک کا ہو گیا ہے۔

  

ایک بات میں یہاں پر واضح طور پر بتانا چاہوں گا کہ زیادہ دھاتیں زیادہ سیاروں کا رجحان فی الوقت مشتری  اور زحل جیسے سیاروں  کے لئے بالعموم یا  پھر تپتے ہوئے مشتری کے لئے با الخصوص ہی دیکھا گیا ہے۔ میں نے فی الحال اس بات کو فرض کیا ہوا ہے کہ یہی رجحان ارضی سیاروں کے لئے بھی کارگر رہے گا  لیکن کیپلر کا منصوبہ اس کو درست طور سے جانچنے کے لئے کام کر رہا ہے۔

 

آج فلکیات دان  اس بات کو قطعیت کے ساتھ جان چکے  ہیں کہ کائنات کے ستارے اور سیارے پیدا کرنے کی قابلیت  میں تیرہ ارب سال سے کم کا عرصہ گزرا ہے  لہٰذا نجمی  سیاروی کائنات بہت زیادہ نوخیز ہے۔( کیونکہ ہم اپنی کہکشاں  اور باقی ماندہ قابل مشاہدہ کائنات  کو دیکھ سکتے ہیں، جس میں دو کھرب سے زیادہ کہکشائیں واضح طور پر اس سلسلے کو آگے بڑھانے کی قوّت رکھتی ہیں اگرچہ ہم ان کو آج ابد تک تو نہیں لیکن پھر بھی مزید ہزار ہا ارب سال تک  ایسے ہی دیکھیں گے  اس لئے میں  کائنات کو بیان کرنے کے لئے نوخیز کا لفظ بالکل درست سمجھتا ہوں۔) والدین اور بیٹی کی تشبیہی تمثیل نہایت خوبی سے   کائنات  کو سیاروں  اور زمینی حیات  کے ساتھ بیان کرتی ہے۔ زمین پر موجود حیات ہو سکتا ہے کہ خاندان میں موجود دوسرے بچوں میں سب سے بزرگ ہو۔

  

ابھی تک ہمارا دائرہ ذکر صرف خوردبینی حیات کے بارے میں تھا لیکن بڑے سوال کے بارے میں کیا خیال ہے : کیا ہم انسان اس کائنات میں اکیلے ہیں ؟ یہ اب تک کا پوچھا جانے والا سب سے مشکل سوال ہے۔ بہرکیف اگر سیارے اور حیات کائنات میں نوخیز تر ہیں تو شاید  ہمیں اس کائنات میں آنے میں دیر نہیں ہوئی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم اولین حیات میں سے ہی ہوں۔ شاید یہی چیز اس امر کو بیان کر سکے کہ ہم کسی بھی قسم کی دوسرے لوگوں کی موجودگی کی شہادت کو کیوں نہیں دیکھ پاتے ہیں۔ اس بات کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ کائنات میں دوسرا کوئی اور موجود نہیں ہے۔

   

ہر طرح سے فرمی کا تناقض ابھی تک حل نہیں ہو سکا ہے  اس کے کئی حیرت انگیز ممکنہ حل موجود ہیں  - جو انتہائی گہرائی سے لے کر کافی تفریح والے ہیں ، ان میں سے ہر ایک جتنی توجہ چاہتا ہے وہ میں اس کو یہاں پر دینے کا کوئی منصوبہ نہیں بنا رہا ہوں  لیکن بہرحال میں آپ کو اس بات کا مشورہ ضرور دوں گا کہ اس کو مزید پڑھئیے گا ضرور۔

11.1 زمین پر موجود تمام ساحلوں کی ریت کے ذرّوں جتنی تعداد میں ستارے اور سیارے ہماری کائنات میں موجود ہیں۔ روشن نقطے سورج کے آس پاس کچھ نظام ہائے سیارگان ہیں جو ہم پہلے ہی دریافت کر چکے ہیں۔

سردست فرمی کے تناقض کے جواب دینے کے لئے ہم اب اس بات کا تخمینہ لگا سکتے ہیں کہ قابل رہائش سیاروں کا خاندان کتنا بڑا ہے  اور اس کی آبادی کتنی ہے۔ اس کا جواب ہے ، بہت بڑا۔ ذرا اس پر توجہ دیں : کائنات میں زمین پر موجود تمام ساحلوں کی ریت کے ذرّوں سے کہیں زیادہ ستارے موجود ہیں  اور اتنے ہی سیارے ہیں (خاکہ 11.1ملاحظہ کیجئے)جیسا کہ اس کتاب کے شروع میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ فلکیاتی اعداد اس بات  پر اٹل دلالت نہیں کرتے   اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم اپنے نمونوں کے لئے جتنا بھی اچھا محسوس کریں۔ ہمیں خود سے ہی تلاش کرنا ہوگا۔ ناسا کا کیپلر منصوبے کے تحت ہونے والا سروے  یہ کام کرے گا۔

 

 اس دوران ابتدائی تخمینے لگانے کے لئے ہمیں حالیہ ماورائے شمس سیاروں کی دریافت کو بنیاد بنانا ہوگا۔ ٢٠١١ ء کی گرمیوں تک دریافت ہونے والے ماورائے شمس  سیاروں کی تعداد کو بنیاد بنا کر شروع کرتے ہیں۔ جو سینکڑوں کی تعداد میں(لگ بھگ چھ سو کے قریب ) ہیں  ان میں سے زیادہ تر کہکشاں میں ہمارے پڑوس میں ہی موجود ہیں (خاکہ نمبر 11.2ملاحظہ کیجئے)۔ یہ ایک مفید  حوالہ ہوگا۔

11.2 ابھی تک دریافت ہونے والے زیادہ تر ماورائے شمس سیارے ہمارے نظام شمسی سے قریب ہیں؛ تمام معلوم سیارے پانچ سو نوری برس کے دائرے کے اندر اور ملکی وے کہکشاں کے اور ا ئن بازو میں موجود ستاروں کے گرد ہی موجود ہیں۔

سب سے پہلے تو مجھے کہکشاں میں موجود ستاروں کی تعداد معلوم کرنا ہو گئی۔ یہ تعداد مستقل طور پر تازہ ہوتی رہتی ہے لیکن پچھلی کچھ دہائیوں سے اس میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے  اور اس کی بنیاد مختلف آزاد ہونے والے سروے پر ہے۔ کئی دسیوں لاکھ ستارے ، مختلف قسم کے اور ہماری  کہکشاں کے مختلف حصّوں میں گنے جا چکے ہیں۔ کہکشاں کی وسعت اور اس میں موجود ستاروں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے  ستاروں کی مکمل تعداد کو حاصل کرنے کے لئے  مجھے ضرب دینا ہو گی : جو مل ملا کر  دو کھرب ستارے  بنتے ہیں۔ ان میں سے نوے فیصد ستارے اتنی کم عمر کے ہیں کہ وہ کسی قسم کے سیاروں کو  تشکیل نہیں  دے پائیں گے۔ مزید براں صرف دس فیصد چھوٹے  ستارے ایسے ہیں جن میں  سیارہ زمین میں پائے جانے والے بھاری عناصر موجود  ہوں گے۔ ابھی تک ہمارا تخمینہ بہت ہی  محفوظ اور طاقتور  ہے۔ اب مجھے ضرورت ہے کہ یہ معلوم کروں کہ  ان دس فیصد ستاروں میں سے کتنے ایسے ہیں جو زمین جیسے سیاروں کو پیدا کر سکتے ہیں۔

 

اب میں واپس سیاروں کی تعداد پر آتا ہوں جیسا کہ ہم نے ستاروں کے ساتھ کیا تھا۔  میں اب اس کو گنتا ہوں کہ ہمارے اب تک کیے جانے والے سروے میں کتنے ارض اور فوق  ارضی سیارے جیسے سیارے دریافت ہوئے ہیں۔ یہ ایک مشکل مرحلہ ہے کیونکہ ابھی تک چند ہی فوق ارضی سیارے دریافت ہوئے ہیں (کوئی بھی زمین جیسا سیارہ دریافت نہیں ہو سکا ہے )؛ جیسا کہ ہم نے دیکھا تھا کہ ان کو ڈھونڈنا بڑے اور بھاری جسیم سیاروں کے مقابلے میں  جوئے شیر لانے کے برابر ہے لہٰذا  اس مشکل بات کو ہمیں اپنے اندازہ لگانے کے کام میں مد نظر رکھنا ہوگا۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ سیاروں کی دریافت کے دو مختلف  طریقوں  کا موازنہ کیا اور دیکھا جائے  کہ اس سے ہم  فوق  ارض  اور گیسی دیو کی نسبت سے  کس  نتیجے پر پہنچتے ہیں۔ ڈوپلر منتقلی  کے طریقے کا ثقلی عدسے کے طریقے کا مقابلہ کرتے ہوئے  یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ بھاری عناصر والے آدھے ستاروں میں کم از کم  ایک ارض یا فوق  ارض  جیسا سیارہ ضرور ہوگا۔ اگر ہم فرض کریں کہ  کوئی استحقاقی مدار  موجود نہیں ہے اور سب کے سب برابر ہیں  اور سیارے بننے کے بعد کسی بھی مدار میں ستارے کے گرد چکر لگا سکتے ہیں  تو صرف ایسے  ارضی اور فوق ارضی سیاروں میں سے دو فیصد سیارے ایسے ہوں گے جو ستارے کے قابل رہائش علاقے میں واقع ہوں گے۔ باقی ماندہ اٹھانوے فیصد سیارے یا تو ستارے سے بہت نزدیک ہوں گے یا پھر کافی دور۔ حتمی جواب تو کیپلر کا منصوبہ چند سال بعد ہی دے سکے گا لیکن ابتدائی مواد ہمارے لگائے ہوئے تخمینا جات سے بہت حد تک میل کھاتا ہے۔

 

اب میں اعداد کو جمع کرنے کے لئے تیار ہوں۔ ہماری کہکشاں میں موجود  ان دو کھرب  ستاروں کو محتاط اندازوں کے ساتھ کم کرنے کے بعد  میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ دس کروڑ ستارے ایسے ہیں جو قابل رہائش ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

 

یہ اعداد اگرچہ درست نہیں ہیں لیکن  ہم اس کے بڑے ہونے سے فرار حاصل نہیں کر سکتے۔ دوسری جانب ان میں سے زیادہ تر سیاروں کی تعداد عمر میں ہماری زمین کے برابر ہی ہے۔ ان میں سے کچھ ہم سے چھوٹے ہیں  جبکہ  حال ہی میں بننے ہونے والے بھاری عناصر کی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے ان میں سے چند کو ہم سے بڑا ہونا چاہئے۔ اس طرح کے وقت  کی روک  کے ساتھ ہمیں حیات کی ناگزیریت  کے بارے میں کافی محتاط رہنا چاہئے۔ جس بارے میں ہم قطعیت کے ساتھ کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ حیات کوئی نایاب مظہر نہیں ہے  -غالب گمان ہے کہ  لازمی طور پر یہ کم از کم دس کروڑ میں سے ایک سیارے میں تو ہو گی۔ یہ گمان کرنا کچھ ایسا بھی برا نہیں ہے ؛ ایسی شاذونادر واقع ضرور وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ مئی ٢٠١١ ء میں امریکہ کی میگا ملین لاٹری کا بڑا انعام اس سال میں چار دفعہ نکل آیا جس کا گمان سترہ کروڑ ساٹھ لاکھ میں سے ایک کا تھا۔ درحقیقت ثنائی تقسیم کے مطابق دس کروڑ میں سے اٹھارہ فیصد دو لگاتار  کامیابی کے مواقع موجود ہیں۔

 

جیسا کہ میں نے پہلے بھی گزرے ہوئے ابواب میں بیان کیا ہے ، ہم ایک نوجوان اور بدلتی ہوئی کائنات میں رہتے ہیں ، لہٰذا صرف ہماری اپنی کہکشاں میں  دس کروڑ قابل رہائش  سیاروں کا تخمینہ صرف سمندر میں ایک قطرے کی مانند ہے۔ ایک دفعہ جائیداد کی خرید و فروخت کرنے والے نے مجھ سے   قابل رہائش سیاروں کے رجحان کے بارے میں سوال کیا کہ آیا ان کی تعداد بڑھ رہی ہے یا گھٹ رہی ہے ؟ سوال بہت اچھا تھا !

 

ستارے اس کا جواب دیتے ہیں۔ صرف دس برس پہلے ، ہبل خلائی دوربین کی مدد سے کافی دور دراز موجود کہکشاؤں کو ناپنا  ممکن ہوا  اس عمل کے دوران وقت کے ماضی میں بھی جھانکا گیا۔ فلکیات دان کہکشاؤں کے رنگوں کو بھی دیکھ سکتے تھے۔ کہکشاں کے رنگ اصل میں ہزار ہا ستاروں کے رنگوں کا مجموعہ تھا۔ جب یہ کام انتہائی احتیاط کے ساتھ مکمل کر لیا گیا  اور فلکیات دانوں نے اس بات کا مکمل یقین کر لیا  کہ گرد کی وجہ سے  ہونے والی  سرخی  کتنی ہے  اور باقی کتنی تو ایک حیرت انگیز نمونہ ظاہر ہوا۔ کہکشاؤں کے رنگ ان کے ابتدائی وجود کے دور میں نیلے مائل  تھے ، لیکن آج سے سات ارب سال پہلے  ان کے سرخی مائل ہونے کی رفتار نہایت تیز ہونا شروع ہو گئی تھی۔

 

ان بدلتے رنگوں کا کیا مطلب ہے؟ کہکشاؤں کے رنگ ان کو بنانے والے ستاروں کے رنگ سے ہی بنتے ہیں لہٰذا ہمیں ستاروں کے رنگوں کو جاننا ہوگا۔ اپنی حیات کا  لگ بھگ ٩٠ فیصد یا اس سے بھی زیادہ حصّے کے دوران ستاروں کا رنگ ان کی ضخامت کا بتا سکتا ہے۔ جیسا کہ ہم آخری باب میں دیکھیں گے کہ جتنا زیادہ ضخیم ستارہ ہوگا اتنی ہی تیزی سے وہ  اپنا ہائیڈروجن کا ایندھن پھونک دے گا۔ اس طرح سے وہ ستارہ زیادہ گرم اور روشن ہو جائے گا۔ اس کی اضافی توانائی اس کو نیلی روشنی کے ساتھ منور کرنا شروع کر دے گی ، بعینہ جیسے کہ برقی قمقمے کا فلامنٹ بجلی کے اسٹوو ہیٹر کے مقابلے میں کرتا ہے۔ زیادہ تیزی سے جلنے کا مطلب یہ ہے کہ بڑے ستاروں کا دور حیات بھی کم ہوتا ہے۔      

 

لہٰذا اگر ہم نے نیلی کہکشاؤں کا مشاہدہ کیا ہے تو ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں  کہ ان میں سے اکثر میں بہت زیادہ بڑے اور بھاری ستارے ہوں گے  اور ایسے بڑے ستارے شرحاً  بہت تیزی کے ساتھ پیدا ہو رہے ہوں گے۔ اگرچہ بعد کے دور میں  نیلی کہکشائیں بہت ہی کمیاب ہوں گی۔ لہٰذا دور دراز کی کہکشاؤں کے رنگ ہمیں ستاروں کی شرح پیدائش کے بارے میں بتاتے ہیں۔

 

ہبل سے حاصل کردہ تصویر میں وقت کے ساتھ کہکشاؤں کے بدلتی رنگت  ہمیں ستاروں کی بدلتی شرح پیدائش کے بارے میں بتاتی ہے۔ ستارے اور کہکشائیں شروع میں بنے اور اس کے بعد ستاروں نے اگلے پانچ ارب سال تک مستقل تیزی سے اپنی پیدائش کی شرح کو جاری رکھا۔ کچھ ارب سال پہلے ماضی میں اس شرح میں کمی دیکھنے کو ملی ہے  جو ٢٠٠٨ء کو ہونے والی دنیا کی کساد بازاری سے بھی زیادہ خطرناک ہے کیونکہ اس شرح  میں بہتری کی کوئی امید نہیں ہے۔ بڑے ستاروں کا دور پورا ہو چکا ہے ! ہماری اور دور حاضر کی کائنات کی  دوسری کہکشاؤں میں دس سے پچاس گنا تک  کم ستارے موجود ہیں  جن میں سے زیادہ تر ستاروں کی تعداد چھوٹے ستاروں کی ہے۔

 

تاریخ کیمیا اور حیات دونوں کے لئے اچھی رہی ہے۔ کم عمر اولین ستاروں کی فراواں کھیپ نے کائنات اور اگلی نسل کے ستاروں (اور سیاروں ) کو ثمر آور  بھاری عناصر سے لبریز کر دیا ہے۔ چند بڑے نیلے ستاروں  والی کہکشاں  کیمیا اور حیات دونوں کے لئے بہتر ہے۔ ایکس ریز اور بالائے بنفشی روشنی  جو "نیلے " بڑے ستارے بڑی تعداد میں پیدا کرتے ہیں   حیات کے لئے پرخطر ہوتی ہیں۔ ماضی میں سات سے آٹھ ارب سال پہلے تک ہماری کائنات حیات کے لئے زیادہ  سے زیادہ مہربان  ہونا شروع ہوئی ہوگی   اور اس جانب اس کا ارتقاء  مستقبل میں ایک لمبے عرصے کے لئے جاری رہے گا۔

 

اسی دوران کم از کم دو ایسی وجوہات موجود ہیں جو ہمیں  اپنی کہکشاں میں کثیر جہانوں کے  بارے میں پرامید لگتی ہیں جہاں ہر جگہ حیات کا ماخذ الگ ہوگا۔ پہلی وجہ تو بظاہر حیات کے نمودار ہونے اور زمین کی سطح پر اس کے قدم جمانے کا عرصہ نہایت ہی کم لگتا ہے۔ دوسرے  اب ہم یہ جان گئے ہیں کہ قابل رہائش سیاروں کا خاندان  ہمارے وہم و گمان سے بھی کہیں زیادہ بڑا ہے  جس میں فوق  ارضی سیارے تو حیات کو پالنے پوسنے کے لئے نہایت ہی شاندار جگہ ہیں۔ 

باب دواز دہم - حیات کا مستقبل

باب دواز دہم

 

حیات کا مستقبل

 

زمین ہمارا سیاروی گھر  ہے۔ ہم اس کو حیات کا پالنا کہتے ہیں۔ اس تصوّر کی جڑیں بہت گہری  لیکن غلط ہیں۔ گھر ایک ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں ہم رہتے ہیں ، بڑھتے ہیں اور اس جگہ کو چھوڑ دیتے ہیں ؛ ہم اس کی خریدو فروخت بھی کر سکتے ہیں۔  کوئی بھی سیارہ  حیات کے لئے گھر نہیں ہو سکتا۔ اس  کے بجائے ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ  سیارہ اور اس پر موجود حیات دونوں ایک ہی چیز ہیں۔ اس بحث کو میں اگر اس جگہ پر چھوڑ دوں گا تو قارئین مجھ پر الزام لگائیں گے کہ میں نے  کوئی بہت ہی سطحی بات کی ہے  بالکل ان سیاست دانوں کی طرح جو ایک بات کو مختلف پیرائے میں بیان کرکے عوام کا خون مزید ٹیکس لگا کر نچوڑتے ہیں۔ بہرصورت  حیات ایک سیاروی مظہر ہے ، اگرچہ یہ ایسی کوئی عارضی چیز نہیں ہے جیسا کہ کوئی  طوفان یا  کوئی بے ربط  چیز  جیسا کہ ٹیکٹونک پلیٹ۔ اس کے باوجود ہمارے پاس فرد واحد موجود مثال  یہ بتاتی ہے کہ یہ (دوسرے "حیات سے محروم" سیارے پر  ) منتقل ہونے کی  خاصیت کی حامل ہے۔ یا کم از کم ہم تو ایسا سمجھتے ہیں۔

  

ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟جیسا کہ میں نے  تمثیلی طور پر تین سیارے کے بارے میں تجویز کیا تھا۔ ہم پہلے ہی اس بات سے خبردار ہیں کہ کیمیائی عمل  جس کو ہم حیات کے نام سے جانتے ہیں  وہ اتنا طاقتور ہے کہ حیات کو زمین سے چاند کی طرح منتقل کر سکتا ہے۔ اس بات کی بھی کافی امید ہے کہ ہم نے جرثوموں کو اپنے خلائی جہاز میں بیٹھا کر مریخ کی سطح پر مستقل اتار دیا ہو – شاید اس سے بھی آگے چاہئے وہ ٹائٹن ہو  جہاں پر ہم نے ہائے گنز  بھیجا تھا یا پھر وائیجر  جو اب پتا نہیں کہاں تک جا پہنچا ہے۔ لیکن اس قسم کی منتقلی خوردبینی حیات کی تخمک  شاید  ہمارے خلاء کو کھوجنے سے بہت پہلے ہی لمبے فاصلوں پر ہو گئی تھی۔ جب زمین پر اس کی تاریخ میں سیارچوں کی بارش ہوئی تھی  تو  اس میں آتا ہوا مادّہ اتنا ہی تھا جتنا خلاء میں جانے والا مادّہ تھا  اور اس بات میں کوئی حیرانی نہیں ہونی چاہئے کہ اس مادّے میں موجود کچھ حیات  نے گرد میں پیوستہ رہ کر یا پھر سیارچوں کی صورت میں بین النجمی سفر بھی کر لیا ہوگا یہاں تک کہ وہ کسی نئے گھر  یا دوسرے قابل رہائش سیارے پر پہنچ گئے ہوں ۔ اس طرح سے ہم سیارہ زمین کو گھر تصوّر کر سکتے ہیں یا پھر ایک ایسا پالنا  جو روایتی طور پر حیات کو پالتا پوستا ہو۔ یہ قدیم نظریہ "عالمگیر انتشار " (Panspermia)کہلاتا ہے۔

 

عالمگیر انتشار جس کا مطلب ہے' ہر جگہ بیچ " ہے ایک قدیم خیال ہے جو یونانیوں میں  سقراط کے دور تک جاتا ہے۔ سویڈنی کیمیا دان سونتے ارہینیس  (Svante Arrhenius)  نے اس خیال کو بیسویں صدی میں دوبارہ اٹھایا۔ ١٩٧٠ء کی دہائی میں اس کی موافقت میں مزید دلائل فریڈ هوئیل (Fred Hoyle)اور چندرا وکرم سنگھ (Chandra Wickramasinghe) نے دیئے، جس میں سیارچوں کو بطور تخمک پرداز(Spores) تسلیم کیا گیا  تاکہ حیات کو اشعاع کی تابکاری سے بچایا جا سکے۔(ہوئیل  اور وکرم سنگھ  ابدی  دائمی کائنات کے حامیوں میں سے تھے۔ جس میں کسی بھی تخمک نے ہماری کہکشاں میں کافی دفعہ سفر کرکے اس کو ستاروں میں اچھی طرح سے شامل کر دیا تھا۔)

 

اس قسم کی سوچ نے فرمی کے تناقض کو بہت ہی زیادہ قابل توجہ بنا دیا۔( ایک علاقائی مفروضہ  بھی موجود ہے جو بین السیارہ حیات کی منتقلی  جیسا کہ مریخ سے زمین  کو بیان کرتا ہے۔ اس  نظرئیے کا تصوّر کچھ اس طرح سے ہے : ایک بڑے  سیارچے نے گیلے مریخ سے ٹکر کھا کر گرد کو خلاء اور کچھ سورج کے گرد خودمختار مداروں میں بھیج دیا تھا۔ ہرچند کہ ان تصادموں  کی شکل کچھ ڈرامائی دھماکوں کی صورت میں تھی (جس میں چٹانیں پگھل کر فضا میں تحلیل ہو گئیں تھیں) اس کے باوجود کچھ چٹانوں کی باقیات مکمل طور پر حرارت کے اثر  اور ٹوٹنے سے بچ گئی تھی۔ اگر مریخ زندہ تھا ، اور اس کی گہرائی میں چٹانوں کے اندر جرثومے زندہ تھے ، تو جرثوموں کی کئی بستیاں چٹانی پتھروں کے اندر باقی رہ گئی ہوں گی۔       

 

کروڑوں برس گزرنے کے ساتھ  چھوٹی چٹانوں کے مداروں میں سیاروں کے بدلتے ہوئے ثقلی کھنچاؤ کی وجہ سے  کچھ  بے کلی ہوئی۔ اکثر یہ مدار ڈرامائی طور پر بدلتے ہوئے بڑے سیاروں کے مداروں کو پار کرنے لگے۔ ان میں سے کچھ کا سفر بطور  شہابیے پڑوسی سیاروں کی سطح پر جا کر ختم ہو گیا۔ زمین پر کئی مریخی شہابیے موجود ہیں ؛ ان کی شناخت آسانی کے ساتھ ان میں موجود معدنیات  اور چھوٹے مریخی فضائی بلبلوں سے کی جا سکتی ہے۔ یہ مفروضہ اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ  اگر مریخ پر کبھی حیات موجود تھی  تو وہ سیارہ زمین پر بھی پہنچ سکتی ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس سلسلے کی مخالفت میں دوسری جانب جانے کا امکان کم ہے  کیونکہ باہری نظام شمسی سے آنے والا ٹریفک سورج کی جانب آتا ہے۔ جب مدار بدلتے ہیں  تو اجسام سورج کی جانب آنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔

 

کیا ایسا کبھی ہوا تھا اس  سوال کا جواب  صرف مشاہدہ ہی بیان کر سکتا ہے کیونکہ اس کا نظام خود کافی قرین قیاس ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کچھ ایسے جرثومے ہیں جو اس قدر ڈھیٹ  ہوتے ہیں کہ خلاء میں سفر کرتے ہوئے اونچے اور نچلے دونوں قسم کے درجہ حرارت  اور اشعاع ریزی میں سے بھی زندہ بچ جاتے ہیں۔ ایک شہابیے کو مریخ سے زمین تک آنے میں  لگ بھگ دس سال سے زائد کا عرصہ لگتا ہے۔ ایسے بین النجم سفر ممکن تو ہیں  لیکن ایسے سفر میں درکار عرصہ بہت لمبا ہوگا۔ اگر تخمک ارب ہا برس کے سفر میں زندہ بھی باقی رہ گیا ہو (فی الوقت کوئی بھی ایسا تخمک  معلوم نہیں ہے )،  تو سوال اپنی جگہ قائم رہتا ہے کہ کیا ہماری کہکشاں کی تاریخ میں اس طرح کے سفر  کو مکمل کرنے کے لئے  کافی وقت موجود ہے۔ جیسا کہ پچھلے باب میں بیان کیا گیا ہے کہ ہماری کائنات کافی نوخیز ہے ، حیات کے لئے درکار اجزاء اس سے بھی نوخیز تر ہیں۔ جب حیات کے ارتقا اور اس کی نمو کے لئے موجود کائنات میں وقت اتنا نہیں گزر ا ، تو ہماری اتنی بڑی کہکشاں میں موجود دور دراز ستاروں کے لئے درکار تخمک  کے سفر  کے لئے وقت کہاں سے آیا ہوگا۔ ہرچند کہ آج حیات عالمگیر انتشار  کی وجہ سے نہیں پھیلی ہے ، لیکن یقینی طور پر مستقبل میں ایسا ہو سکتا ہے۔

 

عالمگیر انتشار  ایک لمبے عرصے پر وقوع پذیر ہونے والا مظہر ہے، لہٰذا حیات کا مستقبل کم از کم ہمارے سیارے پر  تو کافی تاریک لگتا ہے  ایک طرح سے ارتقاء  اسی اصول  پر انہی اوزاروں مثلاً ڈی این اے آراین اے کے ساتھ  جاری رہے گا۔ لیکن میرے خیال میں ایسا کوئی بھی منظر نامہ سچائی سے کہیں زیادہ دور ہوگا۔ در حقیقت ہم اکیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں جی رہے ہیں ، یہ وہ صدی ہے جہاں زمین کی تاریخ نے ایک شاندار موڑ لیا ہے۔ چار ارب سال میں پہلی دفعہ  نئی نوع  اس عملی  طریقے سے نہیں نمودار ہو رہی ہیں  جس نے سیارے پر موجود حیات کی بوقلمونی  کی تھی۔ اس کے بجائے ایک نوع  دوسری نوع کی ترکیب سازی کر رہی ہے  -  حیات کی شکل منفرد ہے  لیکن اس طرح سے نہیں کہ کوئی کتے کی نئی قسم پیدا ہو رہی ہے  یا کوئی جینیاتی  طور پر تبدیل شدہ بھٹے کا پودا   کچھ مختلف آرائشوں سے اپنے جد امجد سے منفرد ہو گیا ہے۔ وہ اس لئے نیا ہے کہ اس کی حیاتی کیمیا منفرد ہے ، ایک حیات کی نئی قسم جس کی جگہ  زمین پر موجود شجر حیات میں کہیں بھی نہیں بنتی ، ایک نئی حیات کی شکل  ایک نئی حیاتی شجر کی جڑ میں بن رہی ہے۔

 

میں ایک نئے میدان کے آغاز کو بیان کرنے جا رہا ہوں  - تالیفی حیات(Synthetic Biology)۔ زمین پر موجود تمام حیات میں ایک  قابل ذکر  شراکتی حیاتی کیمیا  موجود ہے  یہ ہی وجہ ہے کہ ہم ای کولی (E۔ Coli)،  پھل مکھی  اور چوہوں کو اپنے نائبین کے طور پر اپنی حیاتیاتی  تجربہ گاہ میں استعمال کرتے ہیں۔ خلوی نظام بھی کافی حد تک ایک جیسا ہی ہے۔ تالیفی لونیتی (Synthetic Genomics)] یا عام طور پر حیاتی انجینئرنگ کے طور پر جانے والے ]عمل کے ذریعہ سائنس دان اس وحدت کو استعمال کرتے ہوئے  افعال اور اشکال میں بوقلمونی حاصل کر لیتے ہیں۔ ذرا پرانے  افزائشی طریقوں کے بارے میں تصوّر کریں  یا پھر حالیہ امید افزا مکمل جرثوموں کے لونیہ  کی صورت گری سوچیں۔ تالیفی حیاتیات ، جس طرح سے میں اس میدان کا حوالہ  یہاں پر دے رہا ہوں ، وہ تالیفی لونیت سے تصوری  اور عملی دونوں اطوار پر کہیں زیادہ دور  جائے گی۔ یہ صرف کسی لونیہ کی تبدیلی تک یا پھر کسی نئے  لونیہ کو بنانے تک  محدود نہیں رہے گی بلکہ یہ تو ایک تالیفی حیاتی نظام  کو بنائے گی  جو قدرتی طور پر پایا نہیں جاتا اور اس طریقہ استعمال سے یہ حیات کے عمل کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکے گی۔ یہ بنیادی حیاتیاتی  کیمیا کو تبدیل کر دے گا اور اسی لئے حیات کی حاصل ہونے والی نئی شکل زمین پر موجود قدرتی شجر حیات سے تعلق نہیں رکھتی ہو گی۔

 

تالیفی حیاتیاتی  تحقیق  اپنی تعریف میں حیات سے  زیادہ کیمیا سے قریب ہے، جبکہ جینیاتی انجینئرنگ کیمیا سے زیادہ حیات سے قریب ہے۔[یہی وجہ ہے کہ ٢٠٠٧ء میں پئیر لوگی لوسی(Pier Luigi Luisi) نے "کیمیائی تالیفی حیات "(Chemical Synthetic Biology) کی اصطلاح گڑھی]۔ میں اس کے ایک مرکزی حصّے کی تحقیق کا مقصد مصنوعی خلیہ  اصغر کو دیکھتا ہوں جو ایک تھیلی میں ملفوف ایک مفروضی کیمیائی نظام  ہو اور حیات کے اہم افعال سرانجام دے سکتا ہو ۔ اس کے یک خلیہ ہونے کی وجہ ایک تھیلی ہے ؛ یہ اصغر اس لئے ہے کہ اس کو چھوٹا کرکے صرف اس میں وہ چیزیں باقی رکھی گئی ہیں  جو اپنے وجود کے خود کار دوام  اور اس کے ارتقاء  کے افعال  کو سرانجام دے سکے ، یہ مصنوعی  اس لئے ہے کہ ایسا کوئی بھی قدیمی نظام زمین پر پایا نہیں جاتا ، زمین پر سادے  سے سادہ  جرثومے بھی انتہائی پیچیدہ  اور گنجلک خلیوں  پر مشتمل ہیں اور ہر قابل تصور جگہ پر یہ پائے جاتے ہیں۔ اس کے برخلاف  لونیاتی انجنیئر  اسی طرح کے اونچے درجے کے پیچیدہ اجسام کے ساتھ کام کرتا ہے  جس میں نباتات اور جاندار دونوں شامل ہیں  اور وہ ان کو تبدیل کرنے میں جتے رہتے ہیں تاکہ وہ ان طریقوں سے کام کر سکیں جو قدرت کی ودیعت کردہ صلاحیتوں سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہیں۔

 

تالیفی حیات ایک ایسی وعید لے کر آئی ہے جس میں ایک متبادل حیاتی کیمیا ممکن ہے جو خودمختار طور پر دوسرے سیاروں (یا زمین پر موجود حیات )سے الگ بنایا جا سکتا ہے۔ اس عمل کی غیر معمولی بات بجائے مادّے کی نئی اقسام یا نئی طاقتوں کو دریافت  کئے جانے کے   اس میں عام کیمیا  کا استعمال کیا جاتا ہے۔ متوقع دریافتیں قدرت کے نئے بنیادی اصولوں (یا قوانین )کو جاننے میں ہی پنہاں ہیں۔ یہ اس لئے بھی غیر معمولی ہیں کیونکہ یہ ہمیں اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ ہم حیات کے ماخذ سے متعلق اس طرح سوال اٹھا سکیں   جو سائنس کو کسی زبردست دریافت کی جانب لے جائے : ابتدائی شرائط کا زمینی حیاتی کیمیا  کی اشکال  کو وحدت  دینے میں کیا کردار رہا ہے ؟ کیا سیاروی ماحول کی بوقلمونی  کو متبادل حیاتی کیمیا کی بوقلمونی پر نقش کیا جا سکتا ہے ؟

 

یہ عمل انتہائی اہمیت کا حامل ہے  کیونکہ یہ اس کتاب میں جگہ جگہ پروائے گئے ان تمام دھاگوں کو ایک ساتھ کھینچ کر  ایک ایسی ترکیب  میں بنے گا جو بمشکل اب جا کر ممکن ہوا ہے۔ تجربہ گاہ میں ہونے والے کام کے براہ راست مضمرات دور دراز سیاروں پر ہونے والی فلکیاتی حیات کی تلاش  پر بالعکس  پڑے ہیں: ان دور دراز پائی جانے والی چیزوں نے  تجربہ گاہ میں ہونے والی متبادل حیاتی کیمیا کی تلاش کو بڑھاوا دیا ہے۔ اس بات کی کھوج کرنے کے لئے  کہ ہم کائنات میں اکیلے نہیں ہیں ہمیں حیات کو سمجھنا ہوگا ، اور حیات کو سمجھنے کے لئے  ہمیں یہ بات جاننی ہو گئی کہ اس کی کیمیا کو کیسے بنایا جائے۔

 

جب ہم ان مشکلات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں  تو ارضی حیاتی کیمیا کی وحدت ہمیں اہم اور مدد گار  معلومات فراہم کرتی ہے۔ تمام کیمیا کے بارے میں -  اس کے کروڑوں سالمات اور ان  تعاملات کے بارے میں جو ان کے درمیان  مختلف ماحول میں وقوع پذیر ہوتے ہیں – بڑے پیمانے پر سوچیں۔ ریاضی کی زبان میں بات کریں  تو خلاء کی کافی جہتیں ہیں جو انسانی فہم و ادراک سے بالا تر ہیں ، لیکن اگر ہم کچھ معلوم چیزوں کو چن لیں اور کئی جہتوں کو صرف دو یا تین  جہتوں تک کم کر لیں، تو ہم  کچھ نمونوں کو دیکھ سکتے ہیں  جو اکثر و بیشتر پہاڑوں اور وادیوں کے جغرافیائی نقشے جیسے دکھائی دیں گے۔ سائنس دان اکثر ایسی خلاء کو "ارضی منظر"(Landscape) کہتے ہیں۔ کیمیائی  ارضی منظر خاکہ نمبر 12۔1میں دکھایا گیا ہے۔

      12.1یہاں پر پیش کیا جانے والا کیمیا میدان  ایک تمثیل ہے جو  تمام سالمات کی جگہ اور ان کے کیمیائی تعاملات  کو مثال کے طور پر سالماتی  تعاملیت  کی صورت میں پیش کر رہی ہے ۔ خالی جگہ کے ارد گرد سالماتی ترتیب (جوہروں سے پائی گئی ) کے داخلی راستے مختلف ماحول  میں  گھرے ہوئے ہیں ۔ ہم ان کو "ابتدائی شرائط " کہتے ہیں ۔ ایسی ابتدائی حالت جیسی کہ زمین پر شروع میں تھی اکثر قدرتی طور پر نمودار ہو سکتی ہے؛  اکثر اس کو تجربہ گاہ میں بھی حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ میدانی منظر میں دکھائی جانے والی سب سے اونچی چوٹی  کرۂ ارض کی حی  

کیمیائی  ارضی منظر کی  سب سے غیر معمولی خاصیت اس کی اونچی چوٹی ہے  - تنگ  اور اچھی طرح سے بیان کردہ  - جو تمام  ارضی حیات کی حیاتی کیمیا کا  احاطہ کئے ہوئے ہے۔ چوٹی اونچی اس لئے ہے کیونکہ  آج  حیات بہت زیادہ پر اثر کیمیائی نظام ہے ؛ ارتقاء نے اپنا جوبن گزرتے وقت کے ساتھ حاصل کیا ہے۔ دوسری طرح اس  کی تنگ بنیاد یہ بتاتی ہے کہ  حیات اپنی کیمیائی پسند میں کس طرح سے چناؤ کرتی ہے۔ وسیع کیمیائی ارضی منظر میں دستیاب کروڑوں میں سے یہ چن کر  صرف بیس امینو ایسڈ ، صرف الٹے ہاتھ والے ، صرف چند پروٹین ، صرف آر این اے اور ڈی این اے  اور اسی طرح دیگرے  کا استعمال کرتی ہے۔ کیا ارضی منظر میں دوسری اونچی چوٹیاں بھی موجود ہیں؟ اگر ہیں تو ان میں سے کون سی ایسی ہیں جو حیاتی کیمیا ("دوسری حیات")کے متبادل کے طور پر استعمال ہو سکتی ہیں؟ کیا ان میں سے کچھ کی رسائی  مناسب سیاروی ماحول تک ہو سکتی ہے ؟

  

ہم متبادل حیاتی کیمیا کے سوال  کا جواب مثبت  دے سکتے ہیں کیونکہ  جڑواں چوٹیاں  "عکسی حیات " کے مطابق ہوتی ہیں  - حیاتیاتی  سالمات کا وہی چناؤ لیکن متضاد تشاکل کے ساتھ [(ایک ہاتھ کو دُوسرے ہاتھ کی نِسبَت زیادہ اِستعمال کرنے کا رجحان )  خاکہ نمبر 12۔1 ملاحظہ کیجئے ]ہوگا۔ اس بات کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی کہ  عکسی حیاتیاتی  کیمیا  تجربہ گاہ  میں یا دوسرے سیارے پر مختلف برتاؤ کرے گی۔ اس دوران جب سائنس دان اس بات کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں آیا کیوں  حیاتیاتی  کیمیا کے مختلف آمیزے ناکام ہو جاتے ہیں ، سیدھے  اور الٹے ہاتھ کا تشاکل ہو سکتا ہے کہ صرف  اتفاق کی بات ہو۔ اس لحاظ سے بالعکس حیاتیاتی  کیمیا  غیر اہم ہے  - اصل متبادل حیاتی کیمیا ممکن ہے یا نہیں اس بارے میں یہ کوئی براہ راست  بصیرت  فراہم نہیں کرتا ہے۔ بہرصورت اگر اس کو تجربہ گاہ میں بنایا جا سکتا ہے  تو ایسا کوئی بھی حیاتیاتی  کیمیائی نظام حیات  کے بنیادی اصولوں کو سمجھنے کے لئے ایک طاقتور وسیلہ فراہم کرے گا۔ ایک طرح سے یہ کامیاب   اجتماع  اور اصغر خلیے کی پرورش  کرے گا جو انگنت جہانوں کے دریچے وا کر دے گا۔ عکسی فعال نظام کم از کم ابتدائی  شرائط(مثلاً مختلف سیاروی ماحول ) کی اہمیت کو جانچ لے گا ۔ 

 

عصر حاضر کے کیمیا دانوں کے پاس استعمال کے لئے وہ تجزیاتی آلات ہیں جس سے وہ  غیر مانوس داخلی کیمیائی میدان کے علاقے کے ڈھیر کی تلاش کر سکیں۔ اسی طرح سے تاریخ میں پہلی بار ، فلکیات دانوں کے پاس وہ آلات موجود ہیں جس سے  وہ زمین سے کہیں مختلف بلکہ نظام شمسی میں موجود دوسرے سیاروں کے  ماحول سے بھی الگ دوسرے   ماورائے شمس سیاروں پر موجود  ماحول کو دیکھ سکتے ہیں ۔ امید کی جاتی ہے کہ جلد ہی وہ کوئی زمین کے کاربونیٹ  سلیکیٹ عالمگیر   چکر جیسے دوسرے ماورائے شمس سیاروں  پر  جو دیگر ستاروں کے گرد چکر کاٹ رہے ہیں، کوئی متبادل نظام  ڈھونڈ لیں گے (ملاحظہ کیجئے باب دہم ) یہاں تک کہ وہ  اب تک کے نامعلوم  کیمیائی میدان کو گھیرے ہوئے ان علاقوں  کی نقشہ سازی کر لیں گے جہاں پر ابتدائی شرائط موجود تھیں۔ اجتماعی طور پر کام کرتے ہوئے ، کیمیا دانوں کے پاس وہ معلومات موجود ہیں جو انھیں سیاروی ماہرین فلکیات نے مہیا کی ہیں ۔ ان معلومات کے بل بوتے پر کیمیا دان بلند چوٹیوں(متبادل حیاتی کیمیا ) کے اندرون  کی تلاش کر سکتے ہیں ۔ کیا کوئی بھی فوق  ارضی سیارہ جہاں سلفر ((SO2  کے چکر کا غلبہ ہو ان کو ایک نئے سلفر   کے حیرت انگیز  حیاتی کیمیا کی دنیا میں لے جا سکتا ہے ؟ یا وہ کوئی متبادل راستہ ہماری اپنی ارضی حیاتی کیمیا کا حاصل کر سکتے ہیں ۔ جو بھی انھیں ملے گا وہ یقینی طور پر یادگار چیز ہوگی! شاید سب سے اہم چیز وہ یہ علم حاصل  ہوگا کہ کس طرح سے دور دراز سیاروں پر موجود حیات کی شہادتوں کو  ذہانت سے پرکھا جا سکتا ہے  بجائے اس کے کہ ہم  بھولے پن سے زمین کی حیاتی کرہ کی کاربنی  حیات کی نقل کو تلاش کریں ۔

 

بنی نوع انسان  کی تاریخ  میں کافی اہم سنگ میل آئے ہیں۔ زیادہ تر کو ہم جانتے ہیں جبکہ کچھ کو اب بھی تلاش کرنا باقی ہے ۔ ایک بات تو یقینی ہے : تمام سنگ میل ہماری اور حیات کی تاریخ  میں اہم ہیں۔ بہرصورت جس  سنگ میل کی میں امید کر رہا ہوں  - تالیفی  حیات  -  اس  کے خصائص مختلف ہیں  اور یہ سیارہ زمین اور اس پر بسنے والی بنی نوع انسان  کی  خصوصی صورت سے کہیں زیادہ آگے کی چیز ہوگی ۔ کیونکہ یہ ان واقعات کی کڑی کے سلسلے میں اہم ہے جو کائنات میں عام مادّے کی تشکیل کے بعد ہونا شروع ہوئے ہیں ۔زمین پر حیات  پیچیدہ کیمیا کی ایک اکلوتی مثال ہے جس کو حیاتیات کہتے ہیں ، جو  امکان پذیری  کا ثبوت ہے ۔ حیات  کا  وقوع پذیر ہونا ممکن ہے  لیکن اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اس  کے وقوع پذیر ہونے کا امکان کتنا ہے ۔ ایک دفعہ تالیفی حیاتیات  کی ضمن میں تحقیق مکمل کامیاب ہو جائے تو پھر وہ اس بات کو ثابت کر سکتی ہے کہ مادّے  میں  خود کو ترتیب دینے اور  اکلوتی  حیاتی کیمیا سے مختلف اقسام کو پیدا کرنے  کی جبلّت  یا تخلیقی  صلاحیت موجود ہے ۔(جو بات ہم نہیں جانتے وہ  اس  وسعت کی افزونی  ہے ۔)

 

آخری حصّہ تاریخ کا اہم موڑ ہوگا : ایک شجر حیات  دوسرے شجروں  کا بانی  ہوگا (یا دوسرے شجروں کی جڑیں  بنے گا )۔ یہ اہم موڑ اس لئے ہوگا کیونکہ یہ  بوقلمونی کو افزوں کرنے کی ترکیب  کہکشانی پیمانے پر  لمبے عرصے (ارب ہا سال ) کے لئے ہو سکتی ہے  اور کیونکہ یہ حیات کی نئی نسل کے وجود (حال یا مستقبل  ) کی جانب اشارہ کرتی ہے ۔ ہم اپنی آسانی کی خاطر اس کو حیات کی نسل دوم   کہے دیتے ہیں ۔ اس کو بیان کرنے کی خاصیت  یہ ہے کہ اس شجر کی جڑیں  حیاتیاتی  کیمیا سے پہلے نہیں جڑی ہوئی ہیں  بلکہ حیات کی نسل اوّل  اس کا ماخذ ہے ۔ زمین پر حیات کی نسل اوّل ہے ، اور "نسل " کی اصطلاح بالکل ایسے ہی استعمال کی گئی ہے جیسے کہ انسانی سماج میں استعمال ہوتی ہے ۔ یہ ہم پلہ قبیلے پر دلالت کرتے ہوئے  ایک مرحلے کو اپنے اجداد کے سلسلے میں بناتے ہوئے آگے بڑھاتا ہے  ہرچند اس کے لئے اسی وقت پیدا ہونا ضروری نہیں ہے ۔نسل اوّل  حیاتیاتی  کیمیا کے مجموعہ پر مشتمل ہو سکتی ہے  بشرطیکہ اس کا کوئی وجود ہو۔

 

ہم نہیں جانتے کہ ہماری اپنی حیاتیاتی  کیمیا سے کتنی دوسری اقسام کی حیاتیاتی  کیمیا (یا دوسرے حیات کے ماخذ ) بن سکتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ ہم یہ بات دریافت کر لیں کہ حیاتیاتی  کیمیا کا میدان محدود حیات کے ماخذ اور شاید حیاتیاتی  سالمات اور حیاتیاتی  کیمیا کے ایک جیسے خاندان بنانے  کی اجازت دیتا ہو ۔ اگر ایسا ہوا تو افزود گی  والا امکان  جو تالیفی حیاتیات  سے حاصل ہوگا وہ محدود سمجھا جائے گا لیکن تب بھی  یہ ایک افزودہ  عامل رہے گا ۔ اس بات کا مطلب ہوگا کہ کائنات کے  دور دراز مستقبل میں عام مادّے کی تقسیم میں اس کا کردار بڑھے گا ۔ اس بات کے پیش نظر کہ سیارے کیسے ہو سکتے ہیں یا کیسے ہوں گے  -  جب کاربائیڈ  سیارے  زمین جیسے سیلیکٹ سیاروں  کو تعداد میں پیچھے چھوڑ دیں گے  اس وقت کیمیائی میدان میں حیاتیاتی  کیمیا کے لئے کافی گنجائش اور وسعت ہوگی۔ ہو سکتا ہے کہ نسل دوم  کہکشاں میں پہلے ہی سے موجود ہو ۔

 

میری سوچ  کے مطابق تالیفی حیات کے  تین سنگ میلوں  میں سے ایک سنگ میل کی طرف ہمارا سفر جاری ہے ۔ وہ بظاہر ایک دوسرے سے الگ اور اتفاقی طور پر ایک ساتھ بھی وقوع پذیر ہو سکتے ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک انتہائی سرعت رفتار کی شرح سے پچھلی نصف صدی میں  ہونے والی  ہماری ٹیکنالوجی  میں ہونے والی   پیشرفت کا حاصل ہو سکتی ہے ۔ دوسرے دو، کوپرنیکن  انقلاب   کی تکمیل  اور عالمگیریت کا حیرت انگیز عمل ہو سکتے ہیں  ، پورے سیارے پر موجود انسان  نہ صرف ایک دوسرے سے حیاتیاتی طور پر جڑے ہوئے ہیں  بلکہ عملی طور پر اور شعوری طور پر عام زندگی میں بھی وہ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ ہیں۔

  

عالمگیریت کا عمل پہلے ہی شروع ہو چکا ہے اور یہاں اس پر بحث کرنا  غیر اہم بات ہوگی ، لیکن اس کا براہ راست تعلق جو کوپرنیکن انقلاب کی تکمیل سے ہے  (اول الذکر کی مدد سے بعد الذکر کو ممکن کیا جا سکتا ہے )  اس کا اثر زمین کی تمام حیاتیاتی کرہ پر مکمل طور پر مثبت نہیں پڑا ہے ۔ میں امید کرتا ہوں کہ کوپرنیکن انقلاب کی تکمیل ہمیں یہ دکھا کر کہ زمین ان دوسرے سیاروں میں سے صرف ایک سیارہ ہے  جو حیات کے لئے مسکن ثابت ہو سکتے ہیں،  ہمیں اس بات کو سوچنے میں مددگار ثابت ہوگی کہ ہم کوئی خاص نہیں ہیں ۔کسریٰ نفسی ہمارے لئے بہتر ثابت ہوگی ۔ حیات کو بطور سیاروی مظہر دیکھنے کے  جس کی بنیاد میں حیاتیاتی کیمیا خود سیارے سے گہرائی میں  پیوستہ ہے ، ہمیں اس  آگاہی دینے میں مدد کرے گی جس میں ہم  اپنی زمین کے ساتھ ایک ایسی منفرد حیاتیاتی کیمیا کا خلاصہ ہیں جو آج سے چار ارب سال پہلے نمودار ہوئی تھی  اور  قطعی طور پر زمینی ہے ۔ ہم یہاں پر موجود ایک اچھی چیز کا حصّہ ہیں اور شاید اس کے بارے میں سیکھ رہے ہیں   اور یہ بات ہمیں خراب کرنے کے بجائے شاید تحریک دے گی ۔

 

تالیفی حیات کا سورج ایک بہت ہی خوش نصیب وقت میں طلوع ہو رہا ہے : یہ ہمارے اس سوال کا جواب دے گا  کہ  آگے کیا ہے ؟ یہ کوپرنیکن انقلاب کی تکمیل کے بعد نمودار ہوگا ۔ یہ دنیا سے متعلق انسانی آگاہی کے سبق  پر ختم ہوگا جہاں سے دنیا میں انسان کے مقام  کا سبق شروع ہوگا ۔  

اس صفحات پر میں نے بہت ہی  رجائیت پسندانہ تصویر کا رخ دکھایا ہے  جہاں حیات بہت ہی طاقتور ہے اور آسانی کے ساتھ کائنات میں نمودار ہو جاتی ہے  جو ایسی جگہوں سے لبریز ہے جہاں یہ پروان چڑھ سکے ۔ ہم اصل میں نہیں جانتے کہ حیات آسانی کے ساتھ ظہور پذیر ہو سکتی ہے یا نہیں ۔ ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں  کہ اس نے یہاں پر زمین پر ایسا کیا ہے ۔ صرف ایک مثال سے نتیجوں کو اخذ کرنا کافی نہیں ہوگا ۔

 

میں نے عالمگیر انتشار کی  جانب بھی اشارہ کیا تھا جس میں چاہئے جان بوجھ کر یا اتفاقی طور پر ، بذریعہ پتھر ، شہابیے یا بین السیارہ  کھوجیوں کے  حیات کا منتشر ہونا بھی ممکن ہے ۔ یہی ایک وہ وجہ ہے جو یہ بیان کرتی ہے کہ حیات ایک عمل ہے ، ایک دفعہ یہ نمودار ہو گئی تو پھر لامحدود طور پر جاری رہ سکتی ہے ، یہ کبھی بھی  اپنے ماحول کے ساتھ نجمی پیمانے پر یا بین النجم پیمانے پر میزان نہیں بنا  پائے گی۔ اس بات کے ثبوتوں میں سے ایک ثبوت  تو ہم ہی  ہیں  - ہم  جانتے ہیں کہ ہم حیات کی شکل ہیں ، ہم اس قابل ہیں کہ اپنا  اصلی سیارہ چھوڑ کر دوسرے جگہوں کو کھوجنے نکل سکیں ۔ اگر ہم مستقل طور پر بھی اپنا سیارہ نہ  چھوڑیں ، تب بھی یہ حقیقت اپنی جگہ رہے گی کہ حیات ایک ایسا مظہر ہے جو کسی عام ستارے  مثلاً سورج کے دور حیات میں رفعت حاصل کرنے کے قابل ہوتی ہے۔

 

ایک اچھی بات بھی ہے ! اپنے سورج کو آج سے پانچ ارب سال بعد  چشم تصوّر سے دیکھیں ۔ سورج ہمارا مورث ستارہ ، روشنی کا منبع ، زندہ چیزوں کو حرارت اور توانائی  فراہم کرنے والا ، ہمارے سیارہ کو حیات کے لئے تبدیل کرنے والا  اپنے بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ رہا ہوگا  اور اس کا بڑھاپے کا سفر بہت ہی تیز رفتار ہوگا  اور زمین ؟ زمین کو تو جانا ہوگا ۔ زہرہ اور عطارد بھی نہیں بچیں گے  - سورج  کے غلاف میں ڈھکے یہ پگھل کر سرخ دیو کی  بتدریج پھیلتی ہوئی گیسی کرہ کی شکل میں تحلیل  ہو جائیں گے  ہمارا سورج اب متقاعد(Emeritus) بن چکا ہوگا ۔ سیارہ ارض اور اس کا نو ارب سال پرانا حیاتیاتی  کرہ مستقل طور پر ختم ہو چکا ہوگا! خرد بینی حیات کے پاس فرار کا کوئی منصوبہ نہیں ہوگا۔

 

پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ہے  کیونکہ پانچ ارب سال ایک ایسا عرصہ ہے  جس میں ہم میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا ۔ اس بات سے قطع نظر ، سورج کی موت ایک ایسی چیز ہے  جس کے بارے میں ہم اچھی طرح سے پہلے ہی سے منصوبہ بنا سکتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ جبلّی طور پر بنی نوع انسان اس راستہ پر پہلے ہی گامزن ہو چکی ہو ۔زمین پر موجود حیات کی روح کو سمجھنا ہمیں  کائنات میں دوسری جگہوں پر موجود حیات کے ماخذوں کو سمجھنے میں مدد دے گا ۔ اپنے اس علم کے ذریعہ ہم دوستانہ  ٹھکانے تلاش کر سکیں گے ۔ اور ایک دن ہم وہاں لنگر انداز بھی ہو جائیں گے ۔ یہ  انسانیت اور کرہ ارض پر موجود حیات کے لئے اپنے آپ کو آسمانی آفات  اور سورج سے آزادی دلانے کا یوم آزادی  کا دن ہوگا۔

 

ہم انسان اپنی مختصر تاریخ میں اس قسم کے کافی سفر کر چکے ہیں۔ یہاں پر صرف ایک مثال دی جا رہی ہے۔ لگ بھگ چار ہزار برس قبل جنوبی  وسطی یورپ میں قبیلوں نے گھوڑوں کو پالنا شروع کیا اور  گھوڑا گاڑی ایجاد کی ۔ اس کی مدد سے ان کے پورے کے پورے گاؤں ایک جگہ سے دور دراز – ہزار میل یا اس سے بھی زیادہ فاصلے پر  منتقل ہو سکتے تھے ۔ کئی نسلوں کے بعد  یورپی دشتوں  میں قابل رہائش ماحول باقی نہیں رہا  لہذا ایک دن انہوں نے اپنا بوریا بستر سمیٹا  اور مشرق کی سمت رخت سفر باندھ لیا  جہاں پر کم آبادی والی جگہوں نے ان کا استقبال کیا ۔ اگلی ایک صدی تک مزید  یا شاید اس سے بھی زیادہ  کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ  کتنے عرصے تک یہ لوگ مشرق کی طرف چلتے رہے یہاں تک کہ وہ آسمان سے باتیں کرتے ہوئے وسطی ایشیاء کے پہاڑوں تک جا پہنچے ۔ مقامی قبیلوں کے ذریعہ انہوں نے زرخیز وادی کے بارے میں جانا  جو پامیر اور تیان شان  کی پہاڑیوں کے جنوب مشرق میں واقع تھی  جہاں پہنچنا  تو بڑا کٹھن تھا لیکن اس کو بغیر کسی پریشانی کے حاصل کیا جا سکتا تھا ۔ میدانی علاقے کے ان لوگوں کو اونچے پہاڑوں  جس میں سے کچھ دس ہزار فٹ سے بھی بلند تھے سے گزرنے کا علم  بھی تھا اور ان کے پاس فنی مہارت بھی تھی۔ یہ دوسری جانب ان لوگوں کے لئے بالکل ایسی ہی تھی جیسے وہ اس دنیا کے باہر کی جگہ ہو ۔ آج  ایشیاء  کے قلب میں موجود یہ  خشکی سے محصور طارم  طاس زیادہ تر نمکین ریتی صحرا  - صحرائے تکلا مکان ہے ۔ لیکن ارضی ثبوت اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ کم از کم دو ہزار برس سے پہلے طارم میں پانی اور نباتات کی کثرت تھی ۔ یورپ کے قبیلے نہ صرف زندہ بچے رہے بلکہ پھل پھول بھی گئے۔ دور حاضر میں آج ہم ان کے  نفیس لباسوں ، خوبصورت  دستکاریوں  اور  بھرپور ثقافت کی تعریف کرتے ہیں  جو ہم نے حیرت انگیز مدفون کی صورت میں بے آب و گیا طارم کے صحرا میں پچھلی عشروں میں  دریافت کی ہیں ۔

 

یہ تو  صرف ایک کہانی ہے ۔کرہ ارض پر  اس طرح کی نقل مکانی اپنے انجام کو پہنچ گئی ہے ۔ آج سیارہ زمین کافی آباد اور عالمگیر ہو گیا ہے ۔ ہمارا سیارہ ایک خوبصورت جگہ ہے  اور ہم اگلے آنے والے ہزار ہا برسوں میں یہاں پر خوشی خوشی  زندگی گزر بسر کریں گے ۔ لیکن ہم یہ بات پہلے سے ہی جانتے ہیں کہ ایک دن ہماری نوع  کو ایک دفعہ پھر سے ویسا ہی سامنا کرنا پڑے گا جس کا سامنا  طارم  کے تارک وطن نے کافی برسوں پہلے کیا تھا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے مستقبل کے رشتے داروں کے پاس وہ علم اور فنی مہارت ہوگی کہ یہ ایسے کسی سفر کو بخیر خوبی انجام دے سکیں ؟