ساکن برق

صدیوں پہلے یہ دریافت ہو چکا تھا کہ کچھ مخصوص مادے آپس میں رگڑےجانے کے بعد ایک دوسرے کو کھینچتے ہیں۔ مثلاً ریشم اور شیشے کو آپس میں رگڑنے کے بعد ان کے درمیان کشش کی قوت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ قوت ان دونوں مادوں کو جدا کر دینے پر بھی برقرار رہتی ہے۔

شیشہ اور ریشم اکیلے ایسے مادے نہیں جن میں یہ قوت پیدا ہوتی ہو۔ جس کسی نے بھی لچکدار ربڑ کے غبارے کو اپنے بالوں سے رگڑنے کا تجربہ کیا ہے، اس نے اس کے نتیجے میں غبارے میں پیدا ہونے والی کشش کا مشاہدہ کیا ہوگا۔ ابتدائی زمانے کے تجربات کے نتیجے میں اونی کپڑے اور موم (Paraffin Wax) کے درمیان بھی ایسے ہی خواص دریافت ہو چکے تھے۔

یہ معاملہ تب اور بھی زیادہ دلچسپ ہو گیا جب معلوم ہوا کہ ایک جیسے مادے، اپنے اپنے کپڑے کے ساتھ رگڑنے پر ایک دوسرے کو دفع کرتے ہیں۔ یعنی جب شیشے کے دو الگ الگ ٹکڑوں کو ریشمی کپڑے کے دو الگ ٹکڑوں کے ساتھ رگڑا جائے تو شیشے کے یہ دونوں ٹکڑے ایک دوسرے کو دفع کرتے ہیں۔

یہ بھی مشاہدہ کیا گیا کہ جب ریشم کے ساتھ رگڑے گئے شیشے کو اون کے ساتھ رگڑے گئے موم کے ٹکڑے کے قریب لایا جائے تو وہ ایک دوسرے کو کھینچتے ہیں۔

مزید یہ بھی مشاہدہ کیا گیا کہ کشش یا دفع کی قوت پانے والے تمام مادوں کو دو زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ شیشے کو کھینچنے اور موم کو دفع کرنے والے یا شیشے کو دفع کرنے اور موم کو کھینچنے والے۔ یا تو کوئی مادہ پہلے زمرے میں آئے گا یا دوسرے میں۔ ایسا کوئی مادہ بھی معلوم نہیں تھا جو کہ شیشے اور موم دونوں کو کھینچتا یا دفع کرتا ہو یا پھر ایک کے ساتھ ردِ عمل ظاہر کرتا ہو اور دوسرے کے ساتھ نہیں۔
جب رگڑنے کے لیے استعمال ہونے والے کپڑوں پر مزید توجہ دی گئی تو معلوم ہوا کہ شیشے کے دو ٹکڑوں کو ریشمی کپڑے کے دو ٹکڑوں کے ساتھ رگڑنے کے بعد نہ صرف وہ شیشے کے ٹکڑے ایک دوسرے کو دفع کرتے ہیں بلکہ کپڑے کے ٹکڑے بھی ایک دوسرے سے دور بھاگتے ہیں۔ یہی معاملہ موم کو رگڑنے کے لیے استعمال ہونے والے اونی کپڑوں میں بھی دیکھا گیا۔

یہ معاملہ اس وقت کے لوگوں کے لیے کافی عجیب و غریب تھا۔ کیونکہ ان مادوں میں سے کسی بھی چیز کی ساخت ظاہری طور پر تبدیل نہیں ہوئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود یہ اشیاء رگڑنے سے پہلے کے مقابلے میں بالکل مختلف طرزِ عمل کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔ وہ جو بھی تبدیلی تھی جو ان اشیاء کے ایک دوسرے کو کھینچنے یا دفع کرنے کا سبب بن رہی تھی، نظروں سے بالکل غائب تھی۔
کچھ محققین نے یہ تصور پیش کیا کہ رگڑنے کے عمل کے دوران ان اشیاء میں کچھ "مائعات" کا تبادلہ ہوتا ہے اور یہ مائعات کچھ فاصلے تک ایک طبیعی قوت لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ Charles Dufay ان ابتدائی محققین میں سے ایک تھا جنہوں نے یہ واضح کیا کہ مخصوص اشیاء کے جوڑوں کو رگڑنے کے نتیجے میں حاصل ہونے والے چارج دو اقسام کے ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت، کہ ان اشیاء میں ایک سے زائد اقسام کے چارج موجود ہوتے ہیں، اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ رگڑنے کے نتیجے میں دو طرح کی قوتیں پیدا ہوتی ہیں: کشش کی قوت اور دفع کی قوت۔ مائعات کے اس فرضی تبادلے کو لوگوں نے چارج کا نام دیا۔
اولین محققین میں سے ایک، بینجمن فرینکلن، اس نتیجے پر پہنچا کہ دراصل ان مادوں کے دوران صرف ایک ہی مائع کا تبادلہ ہوتا ہے۔ اور دونوں مختلف چارج اس مائع کی کمی یا زیادتی کے سوا اور کچھ نہیں ہیں۔ اون اور موم پر اپنے تجربات کی بنیاد پر بینجمن فرینکلن نے یہ تصور پیش کیا کہ کھردرا اونی کپڑا، نرم ہموار موم سے اس مائع کا کچھ حصہ ہٹا دیتا ہے جس کے نتیجے میں اون پر اس کی مقدار بڑھ جاتی ہے جبکہ موم پر کم ہو جاتی ہے۔ مقدار کے اس عدم توازن کے نتیجے میں کشش کی قوت پیدا ہوتی ہے کیونکہ یہ مائع اپنا پہلے کا سا توازن واپس پانے کی کوشش کرتا ہے۔
ایک ایسے "مائع" کا تصور، جو کہ رگڑنے کے دوران یا تو حاصل کیا جاتا ہے یا کھو دیا جاتا ہے، عام طور پر دیکھے گئے طرزِ عمل کی بہترین تشریح کرتا تھا۔ اور تمام مادے رگڑنے کے بعد ان دونوں میں سے کسی ایک زمرے (“مائع" کی کمی یا زیادتی) میں ہی آتے تھے۔ اور سب سے اہم بات یہ، کہ آپس میں رگڑے جانے والے دو مادے ہمیشہ مخالف زمروں (یعنی ایک مثبت تو دوسرا منفی) میں ہی آتے تھے جو کہ ان کے درمیان پائی جانے والی کشش سے بھی واضح تھا۔ یا بہ الفاظِ دیگر، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپس میں رگڑے جانے والے دو مادے، دونوں ہی یا تو مثبت چارج اختیار کر گئے ہوں، یا منفی۔
فرینکلن کے اس تصور کی بنیاد پر، کہ کھردرا اون نرم موم سے کوئی چیز جذب کر رہا ہے، رگڑے گئے موم پر آنے والے چارج کو منفی چارج کا نام دیا گیا (کیونکہ اس نظریے کے مطابق اس میں مذکورہ مائع کی کمی ہونی چاہیے تھی) اور رگڑے گئے اون پر آنے والے چارج کو مثبت قرار دیا گیا (کیونکہ اس پر مذکورہ مائع کی زیادتی ہونی چاہیے تھی)۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کا یہ معصومانہ قیاس مستقبل میں برقیات کے طلبائے علم کے لیے کس قدر پریشانی کا سبب بنے گا۔
برقی چارج کی باقاعدہ مقدار بندی 1780ء کی دہائی میں ایک فرانسیسی طبیعیات دان چارلس کولمب نے، Torsional Balance نامی ایک آلے کی مدد سے، دو برقی چارج کے حامل اجسام کے درمیان پیدا ہونے والی قوت کی پیمائش کرتے ہوئے کی۔ کولمب کی اس تحقیق کی بنیاد پر برقی چارج کی ایک اکائی مقرر کی گئی، جسے اس کی خدمات کے احترام میں "کولمب" کا نام دیا گیا۔ اگر دو "نقطوں" پر ایک ایک کولمب کا چارج ہو، اور ان کے درمیان ایک میٹر کا فاصلہ ہو، تو وہ تقریباً 9 بلین نیوٹن کی قوت لگائیں گے۔ یہ قوت یا تو کشش کی ہوگی یا دفع کی، جو کہ چارج کی اقسام پر منحصر ہے۔ اس تعریف کے مطابق ایک کولمب چارج کی وہ مقدار ہے جو کہ لگ بھگ 6,250,000,000,000,000,000 الیکٹرانوں پر موجود مجموعی چارج کے برابر ہے۔ اسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ایک الیکٹران پر 0.00000000000000000016 کولمب کا چارج ہوتا ہے۔ اور چونکہ الیکٹران ابھی تک معلوم چارج کے انتقال کا سب سے چھوٹا ذریعہ (carrier) ہے، چنانچہ الیکٹران پر موجود چارج کی اس مقدار کو بنیادی چارج (elementary charge) بھی کہا جاتا ہے۔
یہ بات بہت طویل عرصے کے بعد معلوم ہوئی کہ یہ "مائع" دراصل مادے کے انتہائی مختصر ذرات پر مشتمل تھا۔ ان ذرات کو "الیکٹران" کا نام دیا گیا (عنبر کا یونانی نام۔ عنبر بھی کپڑے کے ساتھ رگڑنے پر برقی خواص کا مظاہرہ کرتا ہے۔)۔ اب تک کے مختلف تجربات کے نتیجے میں معلوم ہوا ہے کہ دراصل تمام مادی اشیاء انتہائی مختصر "تعمیراتی بلاکس" پر مشتمل ہوتی ہیں جنہیں ایٹم کا نام دیا گیا، اور یہ ایٹم مزید چھوٹے ذرات پر مشتمل ہوتے ہیں جنہیں بنیادی ذرات (elementary particles) کا نام دیا گیا۔ تین بنیادی ذرات جو کہ زیادہ تر ایٹموں کو تشکیل دیتے ہیں، پروٹان، نیوٹران اور الیکٹران ہیں۔ اگرچہ زیادہ تر ایٹم پروٹان، نیوٹران اور الیکٹران، تینوں پر مشتمل ہوتے ہیں، لیکن ہر ایٹم میں نیوٹران نہیں پائے جاتے۔ ایک مثال ہائیڈروجن کا ہم جاء (isotope) پروٹیم (1H1) ہے، جو کہ ہائیڈروجن کی سب سے ہلکی اور عام پائی جانے والی شکل ہے جس میں صرف ایک پروٹان اور ایک الیکٹران موجود ہوتے ہیں۔
ایٹم اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ انہیں دیکھا نہیں جا سکتا۔ لیکن اگر ہم انہیں دیکھ سکتے تو یہ کچھ یوں نظر آتے:

اگرچہ کسی مادے میں موجود ہر ایٹم ایک اکائی کے طور پر یکجا رہتا ہے، لیکن دراصل اس کے الیکٹرانوں اور مرکز میں موجود پروٹانوں اور نیوٹرانوں کے مجموعے کے درمیان اچھی خاصی خالی جگہ موجود ہوتی ہے۔
یہ سادہ سا نقشہ کاربن کے ایک ایٹم کا ہے جو کہ 6 الیکٹران، 6 پروٹان اور 6 نیوٹران پر مشتمل ہے۔ کسی بھی ایٹم میں پروٹان اور نیوٹران انتہائی مضبوطی سے آپس میں جڑے ہوئے ہوتے ہیں، جو کہ ایک اہم خاصیت ہے۔ مضبوطی سے جڑے پروٹانوں اور نیوٹرانوں کا یہ مجموعہ ایٹم کا "مرکزہ" کہلاتا ہے۔ اور کسی عنصر کے ایٹم کے مرکزے میں موجود پروٹانوں کی تعداد پر ہی اس عنصر کی شناخت کی بنیاد ہوتی ہے۔ یعنی اگر ہم کسی ایٹم کے مرکزے میں موجود پروٹانوں کی تعداد تبدیل کر دیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم نے اس ایٹم کی قسم یا نوعیت ہی تبدیل کر دی ہے، یعنی اب یہ کسی اور عنصر کا ایٹم بن گیا ہے۔ بلکہ اگر آپ سیسے کے کسی ایٹم سے تین پروٹان نکالنے میں کامیاب ہو جائیں، تو آپ پرانے کیمیا دانوں کے سونا بنانے کے دیرینہ خواب کو پورا کر لیں گے۔ یہ مرکزے میں پروٹانوں کے درمیان موجود یہی زبردست قوت ہے جو کہ ایٹم کی قیام پذیر شناخت اور پرانے کیمیا دانوں کے سونا بنانے کی کوششوں کی ناکامی کا سبب ہے۔
پروٹان کے برعکس نیوٹران ایٹم کے کیمیائی خواص پر اثر انداز نہیں ہوتے، اگرچہ وہ بھی اتنی ہی مضبوطی سے جڑے ہوتے ہیں اور انہیں شامل کرنا یا ہٹانا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے جتنا کہ پروٹان۔ اگر کسی ایٹم میں نیوٹران کی کمی یا اضافہ کر دیا جائے، تو وہ اپنی کیمیائی شناخت اور خواص برقرار رکھے گا۔ لیکن اس کی کمیت (وزن) میں تھوڑا سا فرق آ جائے گا اور بعض صورتوں میں اس میں عجیب و غریب نیوکلیائی خصوصیات، مثلاً تابکاری، پیدا ہو جائیں گی۔
البتہ الیکٹران ایٹم میں پروٹان یا نیوٹران کی نسبت کہیں زیادہ آزادانہ طور پر حرکت کر سکتے ہیں۔ بلکہ انہیں اپنی جگہ سےاس کی نسبت کہیں کم توانائی استعمال کرتے ہوئے ہٹایا، یہاں تک کہ ایٹم ہی سے نکالا جا سکتا ہے، جس کی پروٹان یا نیوٹران کو نکالنے کے لیے ضرورت پڑتی ہے۔ اگر کسی ایٹم سے ایک یا ایک سے زائد الیکٹران نکال دیے جائیں، تو وہ اپنی کیمیائی خصوصیات تو برقرار رکھتا ہے، لیکن اس میں ایک اہم عدم توازن پیدا ہو جاتا ہے۔ الیکٹران اور پروٹان اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ یہ فاصلے کی ایک خاص حد تک ایک دوسرے کو کھینچتے ہیں۔ یہی کچھ فاصلے تک رہنے والی قوت ہے جو کہ اشیاء کو رگڑنے پر ان کے درمیان کشش کا باعث بنتی ہے، کیونکہ الیکٹرانوں کو اپنے ایٹموں سےنکال کر دوسری شے کے ایٹموں کے گرد گھومنے پر مجبور کیا گیا ہوتا ہے۔
الیکٹران کچھ فاصلے تک دوسرے الیکٹرانوں کو دفع کرتے ہیں۔ اسی طرح پروٹان بھی کچھ فاصلے تک دوسرے پروٹانوں کو دفع کرتے ہیں۔ پروٹانوں کے آپس میں اتنی مضبوطی سے جڑے ہونے کی وجہ ایک اور قوت ہے جسے "طاقتور نیوکلیائی قوت" کہتے ہیں اور جس کا اثر بہت ہی کم فاصلے تک محدود ہوتا ہے۔ انفرادی ذرات کے درمیان اسی کشش و دفع کے برتاؤ کے باعث کہا جاتا ہے کہ الیکٹران اور پروٹان پر مخالف چارج ہوتے ہیں۔ یعنی ہر الیکٹران پر منفی چارج ہوتا ہے جبکہ ہر پروٹان پر مثبت چارج ہوتا ہے۔ ایٹم میں برابر تعداد میں ہونے کی صورت میں یہ ایک دوسرے کی موجودگی کا اثر ختم کر دیتے ہیں چنانچہ ایٹم کا مجموعی چارج صفر ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کاربن کے ایٹم کی تصویر میں 6 الیکٹران ہیں: یعنی مرکزے میں موجود 6 پروٹانوں کے مثبت چارج کو متوازن کرنے کے لیے۔ اگر الیکٹران نکالے جاتے ہیں یا اضافی الیکٹران آتے ہیں، تو ایٹم کا کل چارج غیر متوازن ہو جائے گا اور ایٹم مجموعی طور پر "چارج" ہو جائے گا، جس کے نتیجے میں وہ اور آس پاس موجود دیگر چارج شدہ ذرات اور ایٹم ایک دوسرے پر اثر انداز ہوں گے۔ نیوٹران نہ تو الیکٹران، پروٹان، حتیٰ کہ دوسرے نیوٹران کو کھینچتا ہے، اور نہ ہی دفع کرتا ہے۔ لہٰذا اسے بغیر کسی چارج کے زمرے میں ڈالا جاتا ہے۔
یہی الیکٹرانوں کی آمد و رفت کا عمل ہے جو کہ اشیاء کے مختلف جوڑوں کو رگڑنے کے دوران وقوع پذیر ہوتا ہے۔ یعنی ایک مادے میں موجود الیکٹرانوں کو رگڑنے کے ذریعے اپنے ایٹم چھوڑ کر دوسرے مادے کے ایٹموں پر منتقل ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر، الیکٹران ہی وہ نظر نہ آنے والا "مائع" ہے جس کا بینجمن فرینکلن نے تصور پیش کیا تھا۔
اجسام کے درمیان اس "مائع" (الیکٹرانوں) کے عدم توازن کے نتیجے کو "ساکن برق" کہا جاتا ہے۔ اسے "ساکن" اس لیے کہتے ہیں کیونکہ بے دخل کیے گئے الیکٹرانوں میں ایک غیر موصل مادے سے دوسرے پر منتقل کیے جانے کے بعد ساکن رہنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ اون اور موم کے معاملے میں مزید تجربات کے نتیجے میں یہ معلوم ہوا کہ اصل میں اون میں موجود الیکٹران موم پر منتقل ہوتے ہیں، جو کہ فرینکلن کے قیاس کا بالکل الٹ ہے۔ فرینکلن کے موم کے لیے منفی اور اون کے لیے مثبت چارج کے تعین کی بنیاد پر الیکٹران کو منفی چارج کا حامل قرار دیا جاتا ہے۔ چنانچہ ایسی شے، جس کے ایٹموں میں اضافی الیکٹران آئے ہوں، کو "منفی چارج شدہ" کہا جاتا ہے۔ جبکہ ایسی شے، جس میں الیکٹرانوں کی کمی واقع ہوئی ہو، کو "مثبت چارج شدہ" کہا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ بات بڑی عجیب لگتی ہے، لیکن جس وقت تک اس برقی "مائع" کی اصل فطرت کا علم ہوا، تب تک فرینکلن کی مقرر کردہ مثبت و منفی کی اصطلاحات اس قدر عام ہو چکی تھیں کہ ان کو تبدیل کرنا کوئی آسان کام نہ رہا تھا۔ چنانچہ چارج کے لیے آج بھی وہی اصطلاحات رائج ہیں۔
مائیکل فیراڈے نے 1832ء میں ثابت کیا کہ ساکن بجلی بالکل وہی چیز ہے جیسے بیٹری یا جنریٹر کے ذریعے پیدا کی گئی بجلی۔
بیشتر معاملات میں ساکن بجلی کافی پریشانی کا سبب بنتی ہے۔ یہ حساس نیم موصل سرکٹ کو نقصان پہنچاتی ہے۔ بعض معاملات میں اس کے باعث پیدا ہونے والی چنگاریاں آگ بھڑکنے کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔ اگرچہ ساکن بجلی کی بلند وولٹیج اور کم برقی روانی (کرنٹ) کی خصوصیات کی بنیاد پر چلنے والی موٹریں بنانا ممکن ہے، لیکن یہ طریقہ معاشی اعتبار سے باکفایت نہیں ہے۔ ساکن برق کے کچھ عملی استعمالات میں xerographic printing، ہوا کا برق سکونی فلٹر اور بلند وولٹیج والا وان ڈی گراف جنریٹر (Van de Graaff generator) شامل ہیں۔

نظر ثانی:
تمام مادے "ایٹم" کہلانے والے چھوٹے چھوٹے "تعمیراتی بلاکس" پر مشتمل ہوتے ہیں۔
قدرتی طور پر پائے جانے والے تمام ایٹم الیکٹرانوں، پروٹانوں اور نیوٹرانوں پر مشتمل ہوتے ہین سوائے ہائیڈروجن کے ہم جاء پروٹیم (1H1) کے جس میں کوئی نیوٹران نہیں ہوتا۔
الیکٹران پر منفی (-) چارج ہوتا ہے۔
پروٹان پر مثبت (+) چارج ہوتا ہے۔
نیوٹران پر کوئی چارج نہیں ہوتا۔
الیکٹران کو اپنے ایٹم سے پروٹان یا نیوٹران کی نسبت کہیں زیادہ آسانی کے ساتھ نکالا جا سکتا ہے۔
کسی بھی ایٹم کے مرکزے میں پروٹانوں کی تعداد اس کی ایک منفرد عنصر کے طور پر شناخت کو طے کرتی ہے۔