13۔ متوازی کائناتیں

ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو - حصّہ دوم
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
١٣۔ متوازی کائناتیں (پہلا حصّہ)
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

"جناب ، کیا واقعی آپ کا یہ مطلب ہے "پیٹر نے پوچھا ،"کیا ہر جگہ دوسرے جہاں بھی ہو سکتے ہیں ، اس طرح کے کونے کی گرد بھی ؟"
"اس سے زیادہ اور کس چیز کا امکان ہے ،"پروفیسر نے جواب دیا۔۔۔۔جبکہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائے "سمجھ میں نہیں آتا کہ ان ا سکولوں میں انھیں آج کل کیا پڑھایا جا رہا ہے۔"

- سی۔ایس۔ لوئس ، دی لائن ، دی وچ اینڈ دی وارڈروب 

سنو :پڑوس میں بے تحاشا شاندار کائناتیں موجود ہیں۔ چلو وہاں چلتے ہیں۔

- ای۔ای کمنگس 

کیا واقعی متبادل کائناتیں وجود رکھتی ہیں ؟ یہ موضوع فلموں کے مصنفین کے لئے سب سے پسندیدہ ہے جیسا کہ اسٹار ٹریک کی ایک قسط "مرر مرر " (Mirror Mirror) میں دکھایا گیا ہے۔ کپتان کرک حادثاتی طور پر ایک اجنبی متوازی کائنات میں بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا جہاں ہوتا ہے جہاں پر وفاقی سیارگان ، ایک شیطانی حکومت ہوتی ہے جس کے حکمران وحشی فاتح ، لالچی اور لٹیرے ہوتے ہیں۔ اس کائنات میں سپوک نے عجیب سی داڑھی رکھی ہوئی ہوتی ہے جبکہ کپتان کرک ایک بھوکے قزاقوں کا سردار ہوتا ہے جو اپنے دشمنوں کو غلام بناتا ہوا اپنے سے برتر لوگوں کو غارت کر رہا ہوتا ہے۔

متبادل کائناتیں ہمیں ان جہانوں کو کھوجنے کے قابل کر سکیں گی جہاں "اگر ایسا ہوتا تو کیا ہوتا " کے مزیدار اور حیرت انگیز امکانات کا جائزہ لیا جا سکتا ہے ۔ مثال کے طور پر سپرمین کی بچوں کی کہانیوں میں کئی ایسی کائناتیں موجود ہوتی ہیں جہاں سپرمین کا اصل سیارہ کریپٹون کبھی بھی نہیں پھٹتا یا جہاں سپرمین آخر میں اپنی شناخت ایک عام آدمی کلارک کانٹ کے نام سے بتا دیتا ہے اور پھر لوئس لین سے شادی کرکے سپر بچوں کا باپ بن جاتا ہے۔ مگر کیا متوازی کائناتیں صرف ٹوائی لائٹ زون ریرن کا ہی خاصا ہے یا پھر جدید طبیعیات میں ان کی کوئی ٹھوس بنیاد بھی ہے ؟

تاریخ میں پیچھے قدیمی سماجوں تک دیکھا جائے تو اس حقیقت کا اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ دوسرے جہانوں کے وجود پر یقین رکھتے تھے جو عموماً دیوتاؤں یا بھوتوں کی دنیا ہوتی تھی۔ گرجا جنت ، دوزخ اور برزخ پر یقین رکھتا ہے۔ بدھ مت میں نروانا اور دوسری شعوری حالتیں موجود ہیں۔ جبکہ ہندو تو مختلف جنموں پر یقین رکھتے ہیں۔

عیسائی خانقاہیں جنّت کے محل وقوع کو بیان کرنے میں ناکام ہو گئیں ، اکثر وہ اس بات کی قیاس آرائی کرتی ہیں کہ شاید خدا بلند آسمانوں میں رہتا ہے۔ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ اگر ایک اضافی جہت اپنا وجود رکھتی ہے تو وہ کافی ساری خصوصیات جو دیوتاؤں میں پائی جاتی ہیں ہو سکتا ہے کہ وہ واقعی میں موجود ہوں۔ کوئی بھی ہستی جو اضافی یا بلند جہتوں میں رہتی ہو وہ اپنی مرضی سے حاضر ،غائب ہونے پر قادر ہوگی یا وہ دیواروں میں سے بھی گزر سکتی ہوگی یعنی کہ وہ ایک ایسی خاصیت کی حامل ہو گی جو اللہ والوں کی نشانی ہے۔

دور حاضر میں متوازی کائناتوں کا تصوّر طبیعیات کی دنیا میں گرما گرم مباحثوں کا باعث بنا ہوا ہے۔ حقیقت میں کافی قسم کی متوازی کائناتیں موجود ہیں جو ہم کو یہ بات سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں کہ "حقیقت "سے ہماری کیا مراد ہے۔ متوازی کائناتوں کی اس بحث میں سوائے "حقیقت "کے معنی کے بذات خود کوئی اور چیز داؤ پر نہیں لگی ہوئی ہے۔ کم از کم تین قسم کی مختلف متوازی کائناتیں موجود ہیں جو سائنسی دنیا میں زبردست مباحثوں کا موجب بنی رہتی ہیں :

الف۔ اضافی خلاء (ہائپر ا سپیس ) یا بلند جہتیں
ب۔ کثیر کائناتیں
ج۔ کوانٹم متوازی کائناتیں

اضافی خلاء یا بلند جہت

متوازی کائناتیں جو تاریخ میں مباحثوں کے سب سے لمبے سلسلے کا عنوان رہی ہیں ان میں سے ایک بلند جہتیں ہیں۔ اس حقیقت کا ادراک کرنا ہمیں آسان لگتا ہے کہ ہم تین جہتوں کی دنیا میں رہتے ہیں (لمبائی ، چوڑائی اور اونچائی )۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم کسی بھی جسم کو خلاء میں کیسے بھی حرکت دے دیں اس کا ہر محل وقوع ان تین جہتوں کے ذریعہ ہی سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ حقیقت میں ہم ان تین چیزوں سے کائنات میں موجود کسی بھی چیز کا، یہاں تک کہ اپنی ناک کے کونے سے لے کر سب سے دور دراز کی کہکشاں تک ہر چیز کا محل وقوع بیان کر سکتے ہیں۔

چوتھی مکانی جہت ، ہمیں اپنی عقل کے خلاف لگتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر دھوئیں کو کمرے میں بھر نے دیا جائے تو ہم دھوئیں کو کسی اور جہت میں غائب ہوتا نہیں دیکھیں گے۔ اپنی کائنات میں ہم کسی بھی جسم کو اچانک سے غائب ہوتا دیکھ کر کسی دوسری کائنات میں تیر کر جاتا ہوا نہیں دیکھتے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر بلند جہتیں موجود بھی ہیں تو لازمی طور پر وہ کسی بھی جوہر سے چھوٹی ہوں گی۔

یہ سہ جہتی مکانی ہی یونانیوں کیبنیادی جیومیٹری کی اساس ہے۔ مثال کے طور پر ارسطو نے اپنے مضمون "فلک پر "لکھا "ایک لکیر کی صرف ایک ہی جہت ہے ، ایک سطح کی دو جہتیں ہیں جبکہ کسی بھی ٹھوس چیز کی تین جہتیں ہوتی ہیں اور اس سے آگے کسی بھی قسم کی کوئی جہت نہیں ہے کیونکہ بس یہی تین جہتیں ہوتی ہیں۔" اسکندریہ کے بطلیموس نے ١٥٠ بعد مسیح میں پہلی مرتبہ بلند جہتوں کے ناممکن ہونے کا ثبوت دیا ۔ اپنے مضمون "فاصلوں پر " اس نے وجوہات اس طرح سے بیان کیں۔ تین لکیروں کو ایک دوسرے کے عمودی کھینچیں (جیسے کہ کسی کمرے کے کونے میں ہوتی ہیں۔) واضح طور پر چوتھی لکیر کو ان تین لکیروں کے عمودی نہیں کھینچا جا سکتا لہٰذا چوتھی جہت کا ہو ناممکن نہیں ہے۔(اس نے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہمارا ذہن چوتھی جہت کو تصوّر میں لانے سے قاصر ہے۔ آپ کی میز پر رکھا ہوا ذاتی کمپیوٹر ہر وقت اضافی جہتوں میں حساب کتاب کرتا رہتا ہے۔)

دو ہزار سال تک جس ریاضی دان نے بھی چوتھی جہت کی بات کی اسے ممکنہ طور پر تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ ١٦٨٥ میں ریاضی دان جان ویلس (John Wallis) کو چوتھی جہت کے سلسلے میں متنازع کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ یہ "قدرت کا عفریت ہے اور اس کے ہونے کا امکان بد خلقت مخلوق یا آدھے گھوڑے اور آدھے انسان کے جیسی کسی چیز کے ہونے سے بھی کم ہے۔" انیسویں صدی میں کارل گاس ، (Karl Gauss) "ریاضی کے شہزادے "، نے چوتھی جہت پر ریاضی میں کافی کام کیا م تاہم وہ اس کی مخالفت کے ڈر سے اس کو شایع کرنے سے خوفزدہ تھا۔ ذاتی طور پر گاس نے اس بات کو جانچنے کے لئے تجربات کئے کہ کیا یونانی سہ جہتی جیومیٹری حقیقت میں کائنات کو بیان کر سکتی ہے۔ ایک تجربے میں اس نے اپنے مدد گاروں کو تین پہاڑیوں کی چوٹیوں پر کھڑا کیا جن میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں لالٹین تھی اس طرح سے اس نے ایک بہت بڑا تکون بنا لیا تھا۔ گاس نے پھر تکون کے ہر زاویہ کو ناپا۔ اس نے مایوس کن طور پر تمام اندرونی زاویوں کا حاصل جمع ١٨٠ درجہ کا پایا۔ اس نے نتیجہ اخذ کیا کہ اگر یونانیوں کے معیار کی جیومیٹری میں کسی قسم کا فرق ہوگا تو وہ اتنا کم ہوگا کہ ان لالٹینوں سے ناپا نہیں جا سکے گا۔

گاس نے اضافی جہتوں کی بنیادی ریاضی کو اپنے شاگرد گورگ برن ہارڈ ریمین(Georg Bernhard Riemann) پر چھوڑ دیا تھا۔(اس کے کام کو مکمل طور پر عشروں بعد آئن سٹائن کے نظریئے اضافیت میں درآمد کیا گیا )۔ مشہور زمانہ لیکچر جو اس نے ١٨٥٤ میں دیا تھا ریمین نے ایک ہی وار میں یونانیوں کی دو ہزار سالہ جیومیٹری کرسی اقتدار کو اٹھا کر پھینک دیا اور اضافی خم دار جہتوں کی ریاضی کے بنیادی اصول وضع کیے جن کو ہم آج بھی استعمال کرتے ہیں۔

ریمین کی شاندار دریافت ١٨٠٠ کے آخر میں کافی مشہور ہوئی ، چوتھی جہت فنکاروں، موسیقاروں ، مصنفین ، فلاسفروں اور مصوروں میں کافی مقبول ہوئی۔ فنی مؤرخ لنڈا ڈال ریمپل ہنڈریسن(Linda Dolrymple Henderson) کے مطابق پکاسو کا "کیوب ازم" چوتھی جہت سے کافی حد تک متاثر ہو کر بنایا گیا تھا۔(پکاسو کی عورت کی بنائی ہوئی اس تصویر میں آنکھیں سامنے کی جانب جبکہ ناک اطراف میں موجود ہے۔ یہ تصویر اس کوشش کا حصّہ تھی جس میں چوتھی جہت کو بیان کیا گیا تھا کیونکہ جو کوئی چوتھی جہت سے اس عورت کو دیکھے گا وہ ایک ساتھ ہی اس چہرہ ، ناک اور سر کا پچھلا حصّہ دیکھ سکے گا۔) ہنڈریسن لکھتی ہے "بلیک ہول کی طرح چوتھی جہت پراسرار خصوصیات رکھتی ہے جس کو مکمل طور پر سائنس دانوں نے بھی ابھی تک نہیں سمجھا۔ اس کے باوجود اس کا اثر١٩١٩ء کے بعد سے بلیک ہول یا کسی بھی اور حالیہ سائنسی نظریئے سے (اضافیت کو چھوڑ کر ) سب سے زیادہ ہے۔

دوسرے مصوروں نے بھی چوتھی جہت کو بنانے کی کوشش کی ہے۔ سلواڈور ڈالی(Salvador Dali) کی کرسٹس ہائپر کوبئیس(Christus Hypercubius)، میں حضرت عیسی کو ایک عجیب تیرتے ہوئے سہ جہتی صلیب پر چڑھایا جا رہا ہے جو اصل میں ایک "ٹیسسر ایکٹ " کھلا ہوا چوتھی جہت کا مربع ہے۔ اپنی مشہور "دائمی یاد" (پرسسٹنس آف میموری ) میں اس نے وقت کو چوتھی جہت سے بتانے کی کوشش کی تھی لہٰذا اس نے پگھلی ہوئی گھڑی سے اس کو تشبیہ دی۔ مارسیل ڈویکیم(Marcel Duchamps) کی " اترتی ہوئی سیڑھی سے برہنہ " میں ایک برہنہ کو سیڑھی سے اترتے ہوئے بہتے ہوئے وقت سے تشبیہ دے کر وقت کو ایک چوتھی جہت بتانے کی کوشش کی تھی۔ چوتھی جہت آسکر وائلڈ (Oscar Wilde)کی کہانی "دی کینٹرول گھوسٹ " میں بھی موجود تھی جس میں گھر پر طاری ہوا بھوت چوتھی جہت میں رہتا تھا۔

چوتھی جہت ایچ۔ جی۔ ویلز کی کافی کہانیوں میں موجود ہے جس میں "پوشیدہ آدمی"(دی انوزیبل مین)، دی پلانر ا سٹوری ، اور دی وونڈر فل وزٹ شامل ہیں۔ آخری کہانی تب سے ہی ہالی ووڈ کی فلموں اور سائنسی قصصی ناولوں کی بنیاد بنی ہوئی ہے ، جس میں ہماری کائنات متوازی کائنات سے ٹکرا جاتی ہے۔ دوسری کائنات کا ایک بیچارہ فرشتہ ہماری کائنات میں کسی شکاری سے حادثاتی طور پر زخمی ہو کر گر جاتا ہے۔ ہماری کائنات کی زبردست لالچ ، کمینے پن اور خود غرضی کی وجہ سے آخر کار وہ فرشتہ خود کشی کر لیتا ہے۔)

متوازی کائنات کا خیال رابرٹ ہینلین(Robert Heinlein) کی منافقت کے موضوع پر لکھی ہوئی کہانی دی نمبر آف دی بیسٹ میں بھی موجود ہے۔ ہینلین نے ایک چار بہادر مہم جوؤں کی جماعت کی کہانی کو بیان کیا ہے جو متوازی کائناتوں میں ایک پاگل پروفیسر کی بین الجہت ا سپورٹ کار میں اچھل کود کرتے پھر رہے ہیں۔

ایک ٹیلی ویژن سلسلے سلائیڈر میں ایک نوجوان ایک کتاب کو پڑھتا ہے اور ایک ایسی مشین بنانے کی کوشش کرتا ہے جو اس کو متوازی کائناتوں میں گرا سکے۔(وہ نوجوان لڑکاجوکتاب پڑھتا ہے وہ اصل میں میری کتاب "اضافی جہت "[Hyperspace]تھی۔)

تاریخی طور پر چوتھی جہت طبیعیات دانوں کے لئے صرف ایک پر تجسس چیز سے زیادہ نہیں رہی ہے۔ فی الحال ابھی تک تو کسی بھی قسم کا کوئی ثبوت اضافی جہتوں کا نہیں مل سکا ہے۔ تبدیلی کا آغاز ١٩١٩ء میں اس وقت ہوا جب ایک انتہائی متنازع مقالہ تھیوڈور کلوز ا(Theordor Kaluza) نے لکھا جس میں اس نے اضافی جہتوں کا اشارہ دیا تھا۔ اس نے آئن سٹائن کی عمومی نظریہ اضافیت سے شروع کیا ، تاہم اس نے اس کو پانچ جہتوں میں رکھا۔(ایک جہت وقت کی اور چوتھی جہت خلاء کی ، کیونکہ وقت ایک مکان و زمان کی چوتھی جہت ہے ، طبیعیات دان اب چوتھی مکانی جہت کو پانچویں جہت کہتے ہیں )۔ اگر پانچویں جہت کو چھوٹے سے چھوٹا کر دیا جائے تو مساوات جادوئی طریقے سے دو حصّوں میں بٹ جاتی ہے۔ ایک حصّہ آئن سٹائن کی معیاری نظریہ اضافیت کو بیان کرتا ہے جب کہ دوسرا حصّہ میکسویل کی روشنی کا نظریہ بن جاتا ہے !

یہ ایک شاندار دریافت تھی۔ شاید روشنی کا راز ہی پانچویں جہت میں چھپا ہوا ہے ! آئن سٹائن بھی اس حل کو دیکھنے کے بعد مبہوت رہ گیا جس نے روشنی اور ثقل کی ایک شاندار وحدت کو بیان کیا تھا۔(آئن سٹائن کلوز ا کی اس تجویز سے اس قدر بوکھلا گیا تھا کہ اس نے صرف دو سال اس بات کی غور و فکر میں ہی گزار دیئے اور اس کے بعد ہی وہ اس مقالے کو شایع کروانے پر راضی ہوا۔) آئن سٹائن نے کلوز ا کو لکھا "پانچ جہتی سلنڈر نما دنیا کا خیال ایک وحدتی نظریئے کے ذریعہ مجھ پر کبھی ظاہر نہیں ہوا۔۔۔۔پہلی نظر میں ہی ، مجھے تمہارا نظریہ بہت پسند آیا۔۔۔۔ با ضابطہ طور پر تمہارے نظریہ کی وحدت چونکا دینے والی ہے۔"

برسوں سے طبیعیات دان یہ سوال اٹھا رہے ہیں : اگر روشنی موج ہے ، تو وہ کس چیز کو خمیدہ کر رہی ہے ؟روشنی ارب ہا سال تک خالی خلاء میں سے گزر سکتی ہے ، مگر خلاء تو خالی ہے جس میں کسی بھی قسم کا کوئی مادّہ نہیں ہے۔ تو خلاء میں کیا چیز خمیدہ ہو رہی ہے ؟ کلوز ا کے نظریئے سے ہمیں اس مسئلہ کا ایک ٹھوس اور پائیدار حل مل گیا : روشنی کی لہریں پانچویں جہت پر سوار ہوتی ہیں۔ میکسویل کی مساوات جو نہایت درستگی کے ساتھ روشنی کی تمام خصوصیات کو بیان کرتی ہے وہ ایک ایسی مساوات کے طور پر نمودار ہوتی ہے جہاں موجیں پانچویں جہت میں سفر کرتی ہیں۔

کسی مچھلیکو اتھلے تالاب میں تیرتا ہوا تصوّر کریں۔ اس کو تیسری جہت کا شاید کبھی معلوم ہی نہیں ہو سکے گا ، کیونکہ ان کی آنکھیں اس کے اطراف میں لگی ہوئی ہیں اور وہ آگے، پیچھے ، سیدھی اور الٹی طرف ہی تیر سکتی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ ایک تیسری جہت ان کے لئے ناممکن ہو۔ مگر فرض کریں کہ تالاب کے اوپر بارش شروع ہو جاتی ہے ہرچند کہ وہ تیسری جہت کو نہیں دیکھ سکے گی تاہم تالاب کی سطح پر بنتی لہروں کو تو دیکھ ہی سکتی ہے ۔ بعینہ ایسے کلوز ا کا نظریہ روشنی کو پانچویں جہت میں لہروں پر سفر کرتے ہوئے بیان کرتی ہے۔

کلوزا نے اس کا جواب بھی دیا ہے کہ پانچویں جہت کہاں ہے۔ کیونکہ ہم نے پانچویں جہت کا کوئی ثبوت نہیں دیکھا ہے ، لہٰذا اس کو اس قدر چھوٹا حلقہ دار ہونا چاہئے کہ ہم اس کا مشاہدہ نہ کر سکیں۔(ذرا دو جہتی کاغذ کی شیٹ کا تصوّر کریں اور اس کو موڑ کر ایک سلنڈر کی طرح سے بنا دیں۔ دور سے سلنڈر ایک جہت کی لکیر نظر آئے گا۔ اس طرح سے موڑنے پر ایک دو جہتی چیز ایک جہتی بن جائے گی۔)

کلوزا کے مقالے نے شروع میں ایک سنسنی پھیلا دی تھی۔ مگر آنے والی دنوں میں اس نظریئے پر بھی اعتراض اٹھائے گئے۔ اس پانچویں جہت کا حجم کیا ہے ؟وہ کیسی مڑتی ہے ؟ان کا کوئی جواب نہیں دیا جا سکا۔

عشروں تک آئن سٹائن نے اس نظریئے پر بار بار کام کیا۔١٩٥٥ میں اس کے آنجہانی ہو جانے کے بعد، اس نظریئے کو جلد ہی بھلا دیا گیا جس کے نتیجے میں طبیعیات کے ارتقاء میں اس کی حیثیت ایک عجیب سے حاشیہ جیسی ہو گئی تھی ۔

جاری ہے۔۔۔۔۔