ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو - حصّہ دوم
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
11۔سریع از نور (پہلا حصّہ)
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
یہ بات کافی قابل ادراک ہے کہ (زندگی)کہکشاں اور اس سے آگے پھیلے گی۔ لہٰذا زیست کائنات میں غیر اہم آلودہ سراغ کی طرح ہمیشہ کے لئے نہیں رہے گی اگرچہ ہنوز ایسا ہی ہے۔ درحقیقت میں اس خیال کو کسی حد تک پسند کرتا ہوں۔
- خلا نورد رائل سر مارٹن ریس
روشنی کی رفتار سے تیز سفر کرنا ممکن نہیں ہے اور یہ بات مناسب بھی نہیں ہے کیونکہ اس سے ٹوپی گر جائے گی۔
- ووڈی ایلن
اسٹار وار میں جب " میلینیم فالکن" (Millennium Falcon) سنسان سیارے "ٹیٹو یئن " (Tatooine) کو اڑاتا ہے، جس میں ہمارے جوان مرد لیوک اسکائی والکر اور ہین سولو موجود ہوتے ہیں، تو جہاز کا ٹکراؤ سیارے کی گرد چکر لگانے والے جنگی خلائی جہاز امپیریل کے اسکواڈرن آف مینا نسنگ کے جہاز سے ہو جاتا ہے۔ سلطنت کا جنگی جہاز سزا دینے کے لئے لیزر کا سمندر ہمارے جانبازوں کے جہاز کی طرف پھینکتا ہے جو چشم فلک میں ان کی غیر مرئی ڈھال کو توڑتا ہوا اس میں سے گزر جاتا ہے۔ میلینیم فالکن مصیبت میں آ جاتا ہے۔ لیزر کی آگ سے پیدا ہونے والی تباہ کن صورتحال سے بچتے ہوئے ہین سولو چیختا ہے کہ اضافی خلاء (Hyper Space) میں کودنا ہی ان کے پاس بچنے کی آخری امید ہے۔ فوراً ہی اضافی ڈرائیو (Hyper Drive) کا انجن چالو ہو کر زندہ ہو جاتا ہے ان کے گرد موجود تمام ستارے ان کی اسکرین پر نظر آنے والے مرکز کی طرف دوڑ پڑتے ہیں جس کے نتیجے میں آنکھوں کو چندیا جانے والی روشنی پیدا ہوتی ہے۔ ایک سوراخ کھلتا ہے جس کے اندر دی میلینیم فالکن غائب ہو کر اضافی خلاء میں پہنچ کر آزادی حاصل کرتا ہے ۔
سائنس فکشن ؟ بے شک۔ لیکن کیا یہ سائنٹفک حقیقت پر مبنی ہو سکتی ہے ؟ شاید روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ تیز سفر سائنس فکشن کی دنیا میں ایک اہم جز ہے ، لیکن سچ تو یہ ہے کہ دور حاضر میں طبیعیات دانوں نے اس امکان پر کافی سنجیدگی سے غور کرنا شروع کر دیا ہے۔
آئن سٹائن کے مطابق روشنی کی رفتار کائنات میں سفر کرنے کی آخری حد ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے طاقتور ترین ذرّاتی اسراع گر جس میں جوہروں کو آپس میں ٹکرایا جاتا ہے۔ یہ ذرّاتی اسراع گر اس قسم کی توانائی کو پیدا کر سکتے ہیں جو صرف کسی پھٹتے ہوئے ستارے کے قلب میں ہی یا پھر بگ بینگ کے وقت پیدا ہو سکتی ہے اس کے باوجود یہ بھی ذیلی جوہری ذرّات کو روشنی کی رفتار سے تیز نہیں پھینک سکتے۔ بظاہر طور پر روشنی کی رفتار کائنات میں سفر کرنے کی آخری حد ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو دور دراز کی کہکشاؤں میں پہنچنے کی ہماری امید خاک میں مل جائے گی۔
اور ہوسکتا ہے کہ ایسا نہ ہو۔۔۔۔
ناکام آئن سٹائن
١٩٠٢ءمیں یہ بات کافی طور پر واضح تھی کہ نوجوان طبیعیات دان البرٹ آئن سٹائن اس منزل سے بہت دور ہے جہاں وہ آئزک نیوٹن کے بعد ایک عظیم ماہر طبیعیات کے طور پر جانا جائے گا۔ حقیقت میں وہ سال اس کی زندگی کا سب سے برا سال تھا۔ تازہ تازہ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد اس کو ان تمام یونیورسٹیوں میں استاد کی نوکری دینے سے انکار کر دیا گیا تھا جن میں اس نے نوکری کے لئے درخواست دی تھی۔ (اس کو بعد میں یہ بات پتا چلی کہ اس کے پروفیسر " ہینرچ ویبر" (Heinrich Weber) نے اس کی سفارش کے لئے انتہائی خطرناک خطوط لکھے تھے ، ہو سکتا ہے کہ اس نے آئن سٹائن سے اپنی کلاس میں غیر حاضری کا بدلہ لیا ہو۔) مزید براں آئن سٹائن کی ماں بہت شدت کے ساتھ اس کی محبوبہ "ملیوا میرک" (Mileva Maric) کے خلاف تھی، جوان دنوں میں امید سے تھی ۔ ان کی پہلی بیٹی "لیزرل" (Lieserl) ناجائز طریقے سے پیدا ہوئی تھی۔ نوجوان البرٹ اس معمولی ملازمت میں بھی ناکام رہا تھا جو اس نے کی تھی۔ یہاں تک کہ اس کی وہ کم آمدن والی پڑھانے والی نوکری بھی اس وقت ختم ہو گئی جب وہ اپنی ملازمت سے فارغ کیا گیا۔ اپنے مایوس کن خطوط میں اس نے اس بات کا بھی اظہار کیا تھا جس میں وہ زندہ رہنے کے لئے سیلز مین کی نوکری کرنے کو تیار تھا۔ اس نے اپنے خاندان کو ایک خط میں یہاں تک لکھا کہ کیونکہ وہ اپنے خاندان پر ایک بوجھ ہے اور اس میں ایک اچھے اور کامیاب مستقبل کو پانے کی صلاحیت موجود نہیں ہے لہٰذا اس کا پیدا نہ ہونا ہی بہتر تھا۔ جب اس کے باپ کا انتقال ہوا تو اس کو اس بات کا انتہائی غم تھا کہ اس کا باپ یہ سوچتے ہوئے مر گیا کہ اس کا بیٹا ایک ناکام انسان ہے۔
اس ایک سال کے بعد آئن سٹائن کی قسمت نے پلٹا کھایا۔ ایک دوست نے اس کو سوئس پیٹنٹ آفس میں کلرک کی جاب دلوا دی۔ اس انتہائی کم درجے کی نوکری پر رہتے ہوئے ہی اس نے جدید دور کے عظیم انقلاب کو برپا کیا۔ وہ بہت ہی تیزی سے اپنی میز پر موجود پیٹنٹوں کا تجزیہ کرکے طبیعیات کے ان مسائل میں غور و فکر کرنا شروع کرتا جو اس کو عہد طفلی سے ہی پریشان کرتے تھے۔
اس کی غیر معمولی ذہانت کا راز کیا تھا ؟ شاید اس کی غیر معمولی ذہانت کی ایک بات یہ ہو سکتی تھی کہ وہ خالص ریاضی سوچ کے بجائے طبیعیاتی اشکال کی صورت میں سوچتا تھا (مثال کے طور پر حرکت کرتی ہوئی ریل ، اسراعی گھڑیاں اور کھینچی ہوئی ساخت )۔ آئن سٹائن نے ایک مرتبہ یہ بات کہی کہ جب تک کوئی نظریہ کسی بچے کو نہیں سمجھ میں آئے اس وقت تک وہ نظریہ بیکار ہے؛ یعنی کسی بھی نظریئے کو جسمانی تصویری شکل میں بیان کرنے ہی اس کی اصل روح ہوتی ہے ۔ بہت سارے طبیعیات دان ریاضی کی دبیز گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں اور کہیں کے نہیں رہتے۔ مگر اپنے پیش رو نیوٹن کی طرح آئن سٹائن بھی طبیعی تصاویر کا دیوانہ تھا اس کے لئے ریاضی اس کے بعد آتی تھی۔ نیوٹن کے لئے طبیعی تصویر چاند اور گرتا ہوا سیب تھی۔ کیا وہ قوّت جس نے سیب کو گرایا تھا اس قوّت کے برابر تھی جس نے چاند کو اس کے مدار میں ٹکا کر رکھا ہوا ہے ؟جب نیوٹن نے اس کا فیصلہ کیا تو اس کا جواب ہاں میں تھا۔ اس نے کائنات کے لئے ایک ریاضیاتی ڈھانچہ بنا دیا جس نے اچانک سے ہی فلک کے عظیم راز – فلکی اجسام کی اپنی حرکت کے قوانین کو ہم پر افشاں کیا۔
آئن سٹائن اور اضافیت
البرٹ آئن سٹائن نے اپنی مشہور زمانہ نظریہ اضافیت کو ١٩٠٥ء میں پیش کیا۔ اس نظریئے کے قلب میں موجود ایک ایسی تصویر تھی جس کو کوئی بچہ بھی سمجھ سکتا تھا۔ اس کا نظریہ اس خواب کی تعبیر تھا جو وہ ١٦ برس کی عمر سے دیکھ رہا تھا ، جب وہ ایک نتیجہ خیز سوال پوچھتا تھا : اس وقت کیا ہوگا جب آپ ایک دور میں روشنی کی رفتار کو پیچھے چھوڑ دیں گے؟ ایک نوجوان کے طور پر وہ یہ بات جانتا تھا کہ نیوٹن کی میکانیات زمین اور فلکی اجسام کی حرکت کو بیان کرتی ہے اور میکسویل کا نظریہ روشنی کی تشریح کرتا ہے۔ یہ دونوں نظریئے اس وقت طبیعیات کے دو ستون تھے۔
آئن سٹائن کی غیر معمولی ذہانت نے جان لیا تھا کہ یہ دونوں ستون ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کو گرنا ہوگا۔
نیوٹن کے مطابق روشنی کی شعاع کو شکست دی جا سکتی ہے کیونکہ روشنی کی رفتار میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ روشنی کی شعاع کو ضرور اس وقت ساکن رہنا چاہئے جب کوئی اس سے دوڑ لگائے۔ لیکن نوجوان آئن سٹائن نے اس بات کو جان لیا تھا کہ کسی نے بھی ایسی روشنی کی موج نہیں دیکھی ہے جو ساکن ہو یعنی جو منجمد موج کی طرح ہو۔ لہٰذا نیوٹن کا نظریہ اس بات کو صحیح طرح سے بیان کرنے سے قاصر تھا۔
آخر کار بطور طالبعلم زیورخ میں میکسویل کے نظریئے کو پڑھتے ہوئے آئن سٹائن نے اس سوال کا جواب حاصل کرلیا تھا۔ اس نے ایک ایسی چیز دریافت کر لی تھی جس کو میکسویل بھی نہیں جانتا تھا : روشنی کی رفتار مستقل ہے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی کتنی تیزی سے حرکت کرے۔ چاہئے آپ روشنی کی سمت میں دوڑیں یا اس کی مخالفت میں دوڑ لگائیں وہ دونوں صورتوں میں ایک ہی سمتی رفتار سے سفر کرے گی مگر اس کی یہ خاصیت عقل سے متصادم ہے۔ آئن سٹائن نے اپنے بچپن کے سوال کا جواب حاصل کرلیا تھا : کوئی بھی روشنی سے دوڑنے کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا اس بات سے کچھ فرق نہیں پڑے گا کہ وہ کتنی تیزی سے حرکت کر رہا ہے۔
مگر نیوٹن میکانیات ایک سختی سے بند نظام تھا : جیسے کسی ڈھیلی رسی کو چرخی پر چڑھایا ہوا ہو، رسی کو ذرا سے کھینچا اور وہ پوری بکھر گئی ۔ یہی حال اس نظریئے کا تھا ۔ پورا نظریہ اس وقت بکھر جاتا ہے جب اس مفروضے کی بنیادوں میں تھوڑا سا بھی رد و بدل کیا جاتا۔ نیوٹن کے نظریئے میں وقت تمام کائنات میں ایک جیسا تھا۔ زمین پر ایک سیکنڈ ، زہرہ یا مریخ پر گزرے ہوئے ایک سیکنڈ کے جتنا ہی تھا۔ اسی طرح سے زمین پر لگی پیمائش کی لکڑی پلوٹو پر لگی پیمائش کی لکڑی جتنی ہی ہوگی۔ اس بات سے قطع نظر کہ کوئی شئے کتنی ہی تیز حرکت میں ہو اگر روشنی کی رفتار ہمیشہ ساکن رہے گی تو ہمیں اپنی مکان و زمان کی تفہیم میں کافی تبدیلی کرنا ہو گی۔ روشنی کی رفتار کو ساکن رکھنے کے لئے زمان و مکان میں عمیق خلل آ جائے گا۔
آئن سٹائن کے مطابق اگر آپ کسی تیز رفتار خلائی جہاز میں بیٹھے ہیں تو راکٹ کے اندر وقت کے گزرنے کی رفتار بہ نسبت ان لوگوں کے جو زمین پر موجود ہیں کم ہوگی۔ وقت کے مختلف گزرنے کی شرح اس بات پر منحصر ہوگی کہ آپ کتنا تیزی سے حرکت کرتے ہیں۔ مزید براں راکٹ کے اندر موجود خلاء بھی دب جائے گی جس کے نتیجے رفتار کی مناسبت سے ناپنے کی لکڑی بھی بدل جائے گی اور اس کے ساتھ ہی جہاز کی کمیت بھی بڑھ جائے گی۔ اگر ہم راکٹ کے اندر دوربین سے دیکھنے کے قابل ہوں تو ہم یہ بات دیکھ سکیں گے کہ راکٹ کے اندر موجود گھڑیاں آہستہ چل رہی ہیں لوگ آہستہ رفتار سے حرکت کر رہے ہیں اور لوگ ہمیں چپٹے نظر آئیں گے۔
حقیقت میں اگر راکٹ روشنی کی رفتار سے سفر کرے گا تو بظاہر ان کے لئے وقت تھم جائے گا اور راکٹ کی کمیت لامتناہی ہو جائے گی۔ (کیونکہ ان میں سے کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جو ہماری عقل عامہ میں سما سکے لہٰذا آئن سٹائن نے کہا کہ کوئی بھی چیز روشنی کی رفتار کو پار نہیں کر سکتی۔ (کیونکہ کوئی بھی جسم جتنی تیز حرکت کرے گا اتنا ہی اس کی کمیت بڑھ جائے گی ، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حرکی توانائی کمیت میں بدل جائے گی۔کمیت میں تبدیل ہوتی ہوئی توانائی کی درست مقدار بہت آسانی سے حاصل کی جا سکتی ہے اور اس کے بعد ہمیں وہ عہد ساز مساوات حاصل ہوئی جو صرف چند سطروں میں آسکتی ہے یعنی E = mc²)۔
جب سے آئن سٹائن نے اپنی مشہور زمانہ مساوات پیش کی ہے تب سے کروڑوں کی تعداد میں تجربات نے اس انقلابی خیال کی تصدیق کی ہے۔ مثال کے طور پر جی پی ایس نظام جو زمین پر موجود ہمارے محل وقوع کو چند فٹ کے فاصلے تک صحیح بتا سکتا ہے . اگر اس میں اضافیت کے حساب سے وقت کو درست نہیں کیا جائے تو یہ نظام صحیح طرح سے کام نہیں کرے گا۔(کیونکہ فوج بھی جی پی ایس نظام پر انحصار کرتی ہے لہٰذا پینٹاگون کے جنرلوں کو بھی طبیعیات کے اس حصّے کا بارے میں بتایا جاتا ہے جس کا تعلق آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت سے ہے۔)جی پی ایس میں موجود گھڑیاں حقیقت میں زمین سے اوپر مدار میں رہتے ہوئے ایسے ہی تبدیل ہوتی ہیں جیسے کہ آئن سٹائن نے پیش گوئی کی تھی۔
تصویری طور پر اس خیال کی سب سے بہترین شکل کسی جوہری اسراع گر میں ملتی ہے جہاں سائنس دان ذرّات کو روشنی کی رفتار کے قریب اسراع دیتے ہیں۔ سرن میں موجود جناتی اسراع گر جس کا نام " لارج ہیڈرون کولائیڈر" ہے جو جنیوا، سوئٹزرلینڈ کے باہر ی حصّے میں واقع ہے، اس میں پروٹون کو دسیوں کھربوں الیکٹران وولٹ پر اسراع دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ روشنی کی رفتار کے قریب حرکت کرتے ہیں۔
راکٹ میں بیٹھے ہوئے سائنس دان کے لیے ابھی تک روشنی کی حد کوئی مسئلہ نہیں ہوگی کیونکہ راکٹ مشکل سے ہی کچھ دس ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتا ہے۔ مگر اگلی ایک یا دو صدی میں جب راکٹ کے سائنس دان سنجیدگی کے ساتھ کھوجی دوسرے ستاروں کی طرف روانہ کریں گے (جو زمین سے ٤ برس نوری سال کے فاصلے پر موجود ہیں ) تو روشنی کی حد بتدریج مسئلہ بن جائے گی۔
جاری ہے۔۔۔۔۔