ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
9۔ نجمی خلائی جہاز (اسٹار شپس ) حصّہ اوّل
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
چاندپر کسی چیز کو پھینکنا ایک مہمل اور بیوقوفانہ مثال ہے اس بد طینت مہارت کے پیچھے سائنس دان چلیں گے ۔۔۔۔ یہ دعویٰ بنیادی طور پر نا ممکن لگ رہا ہے۔
- اے ڈبلیو بائیکرٹن(A.W.Bickerton)
بگمان غالب انسانیت کے ٹھاٹ باٹ کبھی بھی ختم نہیں ہوں گے۔ انسان ایک سے دوسرے سورج کی طرف ہجرت کریں گے جب وہ ختم ہو جائے گا۔
اور حیات ، ذہانت اور انسانیت کی معراج کا خاتمہ کبھی نہیں ہوگا وہ ہمیشہ ترقی کرے گی۔
- کونسٹنٹین ای ٹیولکوفسکی(Konstantin E. Tsiolkovsky) - بابائے راکٹ
مستقبل بعید میں ایک دن ضرور ایسا آئے گا جب وہ ہمارا زمین پر آخری دن ہوگا۔ آج سے ارب ہا سال گزرنے کے بعد آخر کار آسمان پر آگ برسنے لگے گی۔ سورج پھول کر زمین سے سوا نیزے کی دوری پر رہ کر اس کو جہنم بنا دے گا ۔ پورے آسمان پر صرف سورج ہی دکھائی دے گے اور آسمان میں موجود دوسری تمام چیزیں اس کے آگے ہیچ لگیں گی۔ زمین پر درجہ حرارت کے بڑھنے کے ساتھ ہی سمندر ابل کر بخارات بن کر اڑ جائیں گے اور اپنے پیچھے سوختہ اور تپتی ہوئی خشک زمین چھوڑ دیں گے۔ پہاڑ پگھل کر سیال میں بدل جائیں گے نتیجتاً جہاں کبھی شہر بسا کرتے ہوں گے ان جگہوں پر لاوا بہنے لگے گا۔
قوانین طبیعیات کی رو سے یہ ڈراؤنی وحشت ناک قیامت آنا ناگزیر ہے۔ آخر کار سورج زمین کو آگ کے شعلوں میں لپیٹ کر ختم کر دے گا۔ قوانین طبیعیات میں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔
یہ آفت و بربادی کا عمل اگلے ٥ ارب برسوں میں ہوگا۔ کائناتی وقت کے اس پیمانے پر انسانی تہذیب میں اتار چڑھاؤ کی لہریں انتہائی خفیف سی ہوں گی۔ ایک دن یا تو ہمیں زمین کو چھوڑنا ہوگا یا پھر موت کو گلے لگانا ہوگا۔ اگر ایسا ہے تو پھر انسانیت یا ہماری آنے والی نسلیں اس وقت زمین پر موجود نا قابل برداشت حالات سے کیسے نمٹیں گی؟
ریاضی دان اور فلاسفر "برٹرانڈرسل"(Bertrand Russell) نے ایک دفعہ ایسے نوحہ کیا " نہ تو کوئی آگ، نہ ہی کوئی جوانمردی ، نہ ہی تخیل کی پرواز و احساس ، حیات کو اس کی قبر دفن ہونے سے بچا سکتی ہے ، نسلوں کی محنت ، ریاضت ، کشف ، انسانیت کی تمام تر روشن و غیر معمولی اختراعی قوّت ان سب کا مقدر نظام شمسی کی وسیع موت کے نتیجے میں ہونے والی معدومیت میں دفن ہے ، اور انسانیت کی تمام کاوشوں کے مینار کو لازمی طور پر کائنات کی دھول میں کھنڈر بن کر دفن ہونا ہے۔۔۔۔"
میرے لئے انگریزی ادب میں موجود یہ ٹکڑا سب سے زیادہ رلا دینے والا ہے۔ مگر رسل نے یہ ٹکڑا اس وقت لکھا تھا جب خلائی جہازوں کا بننا ناممکن سمجھا جاتا تھا۔ آج کے دور میں کسی دن زمین کو چھوڑ کر جانے کا خیال کوئی بہت زیادہ دور کی کوڑی نہیں ہے۔ کارل ساگاں نے ایک دفعہ کہا تھا ہمیں دو سیاروں کی انواع بننا چاہئے۔ زمین پر موجود حیات بہت زیادہ قیمتی ہے۔ اس نے کہا کہ کسی بھی بڑی تباہی آنے سے پہلے ہمیں کم از کم ایک اور سیارے پر پھیل کر اس کو آباد کرنا جانا چاہئے۔ زمین کائناتی نشانہ بازوں یعنی کہ سیارچوں، دم دار ستاروں اور زمین کے مدار کے قریب تیرتے ہوئے گرد و غبار کے ملبے کے عین نشانے پر ہے اور اس میں سے کسی سے بھی ہونے والا تصادم ہمیں مرحوم کر سکتا ہے۔
آنے والی عظیم تباہیاں
شاعر "رابرٹ فراسٹ" (Robert Frost)پوچھتا ہے کہ زمین کا انجام آگ سے ہوگا یا پھر برف سے۔ طبیعیات کے قوانین کا استعمال کرتے ہوئے ہم اس بات کی معقولیت کے ساتھ پیش بینی کر سکتے ہیں کہ کسی بھی قدرتی آفت کی صورت میں زمین کا کیا انجام ہوگا۔
ہزار برس کے پیمانے پر ، انسانی تہذیب کے لئے ایک خطرہ نئے برفانی دور کا ہے۔ آخری برفانی دور ١٠ ہزار سال پہلے ختم ہوا ہے ۔ آج سے ١٠ سے ٢٠ ہزار سال کے درمیان جب نیا برفانی دور آئے گا اس وقت زیادہ تر شمالی امریکہ آدھ میل برف سے ڈھک جائے گا۔ انسانی تہذیب اس چھوٹے سے "بین ثلجین"(Interglacial) زمانے میں حال میں ہی پروان چڑھی ہے۔ جب زمین غیر معمولی گرم تھی مگر یہ چکر ہمیشہ کے لئے نہیں رہے گا۔
لاکھوں سال گزرنے کے بعد بڑے شہابیے یا دم دار ستارے زمین سے ٹکرا کر بڑی تباہی پھیلا سکتے ہیں۔ آخری بڑے اجرام فلکی سے زمین کا تصادم آج سے ٦۔٥ کروڑ سال پہلے ہوا تھا جب ایک جسم جو ٦ میل چوڑا تھا آ کر میکسیکو کے جزیرہ نما یوکاتان سے ٹکرایا جس کے نتیجے میں ایک ١٨٠ میل قطر کا گڑھا بن گیا۔ اس تصادم سے پیدا ہونے والی تباہی نے وقت کے زمین پر حکمران ڈائنو سارس کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا تھا۔ مزید ایک تصادم کی امید اسی وقت کے پیمانے کو مد نظر رکھتے ہوئے کی جا رہی ہے۔
آج سے ارب ہا سال کے بعد سورج بتدریج پھیل کر زمین کو نگل جائے گا۔ حقیقت میں ہم نے اس بات کا اندازہ لگایا ہے کہ سورج اگلے ایک ارب سال میں ١٠ فیصد زیادہ گرم ہو جائے گا جس کے نتیجے میں زمین شدید گرم ہو جائے گی۔یہ زمین کو مکمل طور پر اگلے ٥ ارب برسوں میں اس وقت ختم کردے گا جب یہ ایک دیوہیکل سرخ دیو میں بدل جائے گا۔
آج سے دسیوں ارب سال بعد سورج اور ملکی وے کہکشاں دونوں ختم ہو جائیں گی۔ ہمارا سورج اپنا ایندھن جو ہائیڈروجن اور ہیلیئم کی شکل میں ہے پھونک دے گا اور پھر ایک سفید بونے کی صورت میں سکڑ کر بتدریج ٹھنڈا ہوتے ہوئے ایک کالا نیوکلیائی کچرے کا ڈھیر بن کر خلاء میں تیرتا رہے گا۔ آخر کار ملکی وے کہکشاں اپنی پڑوسی کہکشاں اینڈرومیڈا (مراة المسلسلہ )سے جا ٹکرائے گی۔ یہ کہکشاں ہماری کہکشاں سے کہیں زیادہ بڑی ہے۔ ملکی وے کے مرغولی بازوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے نتیجتاً ہمارا سورج خلاء کی بے کراں گہرائیوں میں دھکیل دیا جائے گا۔ دونوں کہکشاؤں کے مرکز میں موجود بلیک ہول ایک دوسرے سے ٹکرا کر ضم ہونے سے پہلے موت کا رقص شروع کر دیں گے۔
اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ انسانیت ایک دن نظام شمسی کی قید سے نکل کر کسی قریبی سیارے پر اپنی جان بچا کر بھاگ سکتی ہے تاکہ اپنے آپ کو ختم ہونے سے روکا جا سکے تو سوال یہ اٹھتا ہے :ہم وہاں کیسے جائیں گے ؟ سب سے قریبی ستارہ الف قنطورس ٤ نوری برس سے بھی زیادہ دور ہے۔ روایتی کیمیائی راکٹ جو موجودہ خلائی پروگراموں میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں مشکل سے ٤٠ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار کو چھو سکتے ہیں۔ اس رفتار سے صرف سب سے قریبی ستارے تک پہنچنے کے لئے ہی ٧٠ ہزار برس درکار ہوں گے۔
آج کے خلائی منصوبوں کی جانچ کریں تو یہ بات عیاں ہوگی کہ ہماری موجودہ قابلیت اور ایسے نجمی سفر کرنے والے خلائی جہازوں کو بنانے کی درکار قابلیت جو ہمیں کائنات میں سفر کا آغاز کرنے کے قابل بنا سکیں زمین آسمان کا فرق ہے۔
١٩٧٠ء کی دہائی میں چاند پر قد م رکھنے کے بعد سے ہم نے انسان بردار خلائی جہاز کو صرف ایک ایسے مدار میں بھیجا ہے جہاں موجود خلائی شٹل اور انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن زمین سے صرف ٣٠٠ میل دور پر تھے۔ ٢٠١٠ء سے ناسا نے شٹل پروگرام کو اس طرح ترتیب دیا ہوا ہے کہ اورائن خلائی جہاز کو بنانے کا آغاز کیا جائے گا۔ یہ جہاز خلاء نوردوں کو ٢٠٢٠ء تک ٥٠ سال کے وقفے کے بعد چاند پر لے جائے گا۔ اس منصوبے کا ایک مقصد چاند پر مستقل انسانی اڈہ بنانا ہے۔ اس کے بعد انسان بردار جہاز مریخ کی جانب روانہ کیا جائے گا۔
ظاہر سی بات ہے کہ اگر ہم ستاروں پر کمند ڈالنا چاہتے ہیں تو راکٹ کی ایک نئی قسم کو کھوجنا ہوگا۔ یا تو ہمیں بنیادی طور پر اپنے راکٹوں کی دھکیل کی قوّت کو بڑھانا ہوگا یا پھر راکٹوں کے کام کرنے کے وقت کو بڑھانا ہوگا۔ مثال کے طور پر ایک بڑے کیمیائی راکٹ میں کئی لاکھ پونڈ دھکیل پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے لیکن وہ صرف چند منٹ تک ہی ایندھن کو جلا پاتا ہے۔ اس کے برخلاف دوسرے راکٹ جیسا کہ برق پارے والا انجن ([Ion Engine]اس کے بارے میں ہم آگے بات کریں گے ) میں دھکیل کی کمزور قوّت پیدا ہوتی ہے خاص باٹ یہ ہے کہ وہ برسوں تک خلاء میں کام کر سکتا ہے۔ اور جب بات راکٹ کی ہو تو اس میں کچھوا ہمیشہ خرگوش سے جیت جاتا ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔