8۔ ماورائے ارض اور نا شناختہ طائر ی اشیاء (اڑن طشتریاں )

 
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
8۔ ماورائے ارض اور نا شناختہ طائر ی اشیاء (اڑن طشتریاں )
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
یا تو ہم کائنات میں اکیلے ہیں یا پھر ایسا نہیں ہیں۔
دونوں خیالات ہی ڈرا دینے والے ہیں۔

- آرتھر سی کلارک

ایک میلوں پر محیط جسیم خلائی جہاز پورے آسمان کو ڈھکتا ہوا لاس اینجیلس کی فضاء میں ابھرتا ہے۔ نتیجتاً پورا شہر اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے۔ پوری دنیا میں اہم شہروں کے گرد طشتری نما حصار بنا لئے جاتے ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں خوش باش تماشائی دوسرے سیارے سے آنے والے مہمانوں کو لاس اینجیلس میں خوش آمدید کہنے کو تیار رہتے ہیں اور اس مقصد کے لئے وہ اپنی اونچی عمارتوں کی چھتوں پر جمع ہو جاتے ہیں تا کہ وہ اپنے فلکی مہمانوں کے قریب جا سکیں۔

خاموشی سے لاس اینجیلس پر معلق رہنے کے کئی دن بعد خلائی جہاز کے درمیانی حصّہ کھلتا ہے جس میں سے ایک لیزر شعاعوں کے بوچھاڑ کو داغا جاتا ہے جو چشم زدن میں اونچی عمارتوں کو بھسم کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں تباہی کی وہ لہر پورے شہر میں پھیل جاتی ہے۔ اور چند ہی سیکنڈوں میں شہر کو جلے ہوئے پتھروں کے روڑوں میں تبدیل کر دیتی ہے۔ 

فلم انڈیپنڈنس ڈے (یوم آزادی ) میں دکھائی جانے والی خلائی مخلوق ہمارے اندر کے خوف کی نمائندگی کرتی ہے۔ فلم ای ٹی میں ہم اپنے خواب اور حسرتیں خلائی مخلوق میں ڈالتے ہیں۔ پوری تاریخ میں لوگ خلائی مخلوق کے خیالوں سے سحر انگیز رہے ہیں جو دوسری دنیا کے باسی ہوتے ہیں۔ ١٦١١ء سومنیم رسالے میں ، ماہر فلکیات جوہانس کیپلر نے اپنے وقت کی بہترین سائنسی علم کو استعمال کرتے ہوئے چاند تک کے سفر کے بارے میں پیش گوئی کی۔ اس کے خیال میں اس سفر کے دوران ہمارا واسطہ عجیب خلائی مخلوق ، پودوں اور جانوروں سے پڑ سکتا ہے۔ لیکن اکثر سائنس اور مذہب خلاء میں زندگی کے موجود ہونے کے تصوّر پر متصادم ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے نہایت ہی بھیانک نکلتے ہیں۔

چند برسوں پہلے ، ١٦٠٠ء میں ڈومنیکی راہب اور فلسفی "جرڈانو برونو"(Giordano Bruno) کو روم کی سڑکوں پر زندہ جلا دیا تھا۔ اس کی تذلیل کرنے کے لئے گرجا نے اس کو الٹا لٹکا دیا تھا اور جلانے سے پہلے اس کو برہنہ کر دیا تھا۔ برونو کس چیز پر یقین رکھتا تھا جس کی پاداش میں اس کو نشانہ عبرت بنا دیا تھا ؟ اس نے تو بس ایک سادہ سا سوال کر لیا تھا : کیا خلاء میں حیات کسی شکل میں موجود ہے؟ کوپرنیکس کی طرح وہ بھی اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے لیکن کوپرنیکس کے برعکس وہ اس بات پر بھی یقین رکھتا تھا کہ ہمارے جیسی انگنت مخلوق خلاء میں رہتی ہیں۔(بجائے اس بات کو سمجھا جاتا کہ ممکنہ طور پر ارب ہا صوفی، راہب ، گرجا اور یسوع مسیح خلاء میں موجود ہو سکتے ہیں ، گرجا والوں کے لئے یہ زیادہ آسان راستہ تھا کہ ایسی بات کرنے والے کسی بھی آدمی کو زندہ جلا کر جان چھڑا لی جائے۔)

کچھ چار صدیوں سے زائد عرصے سے برونو سائنسی مورخین کا سائے کی طرح سے پیچھا کر رہا ہے۔ آج برونو ہر ہفتے اپنا انتقام لے رہا ہے۔ ہر دوسرے مہینے ایک نیا ماورائے شمس سیارہ کسی دوسرے ستارے کے گرد چکر لگاتا ہوا دریافت ہو رہا ہے۔ ابھی تک خلاء میں ڈھائی سو سے زیادہ سیارے دوسرے ستاروں کے گرد چکر لگاتے ہوئے دریافت ہو چکے ہیں۔ برونو کی ماورائے شمس سیاروں کی پیش گوئی درست ثابت ہو چکی ہے۔ لیکن ابھی ایک سوال کا جاننا باقی ہے۔ ہرچند ملکی وے کہکشاں میں ماورائے شمس سیارے موجود ہیں مگر ان میں سے کتنے ایسے ہیں جہاں زندگی موجود ہے ؟ اور اگر شعور کی حامل حیات خلاء میں موجود ہے تو سائنس اس کے بارے میں کیا کہتی ہے ؟

کسی خلائی مخلوق سے فرضی ٹاکرا معاشرے ، ہنگامے کے شوقین قاریوں اور فلم بینوں کو نسلوں سے متحیر کیے ہوئے ہے۔ سب سے مشہور واقع ٣٠ اکتوبر ١٩٣٨ء میں ہوا جب اورسن ویلز (Orson Welles)نے ہیلووین کی تفریح امریکی عوام سے کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ایچ جی ویلز کی وار آف دی ورلڈ سے بنیادی خیال لیا اور مختصر خبروں کو سی بی ایس قومی ریڈیو پر نشر کرنا شروع کر دیا۔ اس کھیل کو رقص و موسیقی کے پروگراموں کے درمیان میں نشر کیا گیا ، وقفے وقفے سے مریخیوں کا زمین پر حملہ اور اس کے بعد تہذیب کی تباہی کی کہانی بیان کی جاتی رہی۔ اس خبر کو سن کر کہ مریخ کی مشینیں گروور مل ، نیو جرسی میں اتر چکی ہیں اور وہاں پر انہوں نے موت کی شعاعوں کو شہروں کو تباہ کرنے اور دنیا کو فتح کرنے کے لئے داغنا شروع کر دیا ہے، لاکھوں امریکیوں میں کھلبلی مچ گئی۔( بعد میں اخباروں کے ذریعہ یہ بھی پتا چلا کہ شہر سے یکدم شہریوں کا انخلاء بھی ہونا شروع ہو گیا تھا۔ اس کی وجہ کچھ چشم دید گواہوں کے زہریلی گیس کو سونگھنے اور دور دراز میں روشنی کے جھماکے دیکھنے کے دعوے تھے ۔)

مریخ کی سحر انگیزی کے جادو نے اس وقت بھی سر چڑھ کر بولنا شروع کر دیا تھا جب ماہرین فلکیات نے مریخ پر ایک عجیب سا نشان دیکھا جو ایک جسیم "M" کی طرح دکھائی دیتا تھا اور میلوں دور تک پھیلا ہوا تھا۔ تبصرہ کاروں نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ ہو سکتا ہے کہ "M" کا مطلب "مریخ " ہی ہو۔ اور مریخی ، زمینی لوگوں کو اپنے وجود کی آگاہی سے امن پسندی کے ساتھ اس طرح سے روشناس کر وا رہے ہوں ، جس طرح سے چئیر لیڈر اپنی فٹ بال کی ٹیم کا نام میدان میں ہجے کرتی ہیں۔(دوسروں نے اس کا تاریک پہلو ایسے دیکھا کہ ان کے خیال میں "M" اصل میں "W" تھا اور "W" کا مطلب "وار "(جنگ ) تھا ۔ دوسرے الفاظوں میں مریخیوں نے زمین کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا ۔ یہ ہلچل اس وقت ختم ہو گئی جب وہ "M" ایسے غائب ہو گیا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ وہ نشان گرد کے طوفانوں کی وجہ سے پیدا ہوا تھا۔ جس نے پورے سیارے کو گھیر لیا تھا۔ صرف بڑے چار آتش فشاں اس سے ڈھکنے سے بچے رہ گئے تھے۔ ان چاروں آتش فشانوں کے دھانے کچھ "M" یا "W" جیسے دکھائی دیتے تھے۔

حیات کی کھوج کی سائنسی تحقیقات 

ماورائے ارض حیات کی ممکنہ کھوج کرنے والے سنجیدہ طبع سائنس دان کہتے ہیں کہ حیات جیسی کسی بھی چیز کے وجود کے بارے قطعیت کے ساتھ کہنا ناممکن ہے۔ اس بات سے قطع نظر ہم خلائی حیات کے بارے میں عمومی خیالات کا اظہار طبیعیات، کیمیا اور حیاتیات کو مد نظر رکھتے ہوئے کر سکتے ہیں۔

سب سے پہلے سائنس دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مائع پانی کی موجودگی کائنات میں حیات کی تخلیق کے لئے سب سے اہم چیز ہے۔" پانی کے پیچھے چلو " کا نعرہ اکثر فلکیات دان اس وقت لگاتے ہیں جب وہ حیات کے ثبوت خلاء میں تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔۔ مائع پانی ، دوسرے مائعوں کے برعکس کائناتی حل پذیر ہے اس میں حیران کر دینے والی مختلف کیمیائی چیزوں کو حل کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اس کی مثال ،مثالی ڈونگے کی سی ہے جس میں پیچیدہ تر سالمات بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پانی بھی ایک سادہ سالمہ ہے جو پوری کائنات میں پایا جاتا ہے ، جبکہ دوسرے مائع کافی نایاب ہیں۔

دوسرے ہم یہ بات بھی جانتے ہیں کہ کاربن ایک ایسا عنصر ہے جو حیات کی تخلیق میں استعمال ہوتا ہے کیونکہ اس میں چار بند ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس میں چار دوسرے ایٹموں کو باندھنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے جس کے نتیجے میں ناقابل یقین پیچیدہ ترین سالمات بن سکتے ہیں۔ مختصراً کاربن کی لمبی زنجیریں بنانا آسان ہے جو ہائیڈرو کاربن اور نامیاتی کیمیا کی بنیادی اساس ہوتی ہیں۔ دوسرے چار بندوں کی صلاحیت کے حامل عنصر اس قابل نہیں ہوتے کہ اتنی زرخیز قسم کی کیمیائی چیزوں کو بنا سکیں۔

سب سے زیادہ کاربن کی اہمیت اس مشہور زمانہ تجربے میں حاصل کی گئی جو "اسٹینلے ملر" (Stanley Miller)اور "ہیرالڈ یوری" (Herold Urey) نے ١٩٥٣ء میں کیا جس میں معلوم ہوا کہ ہو سکتا ہے کہ خود کار حیات قدرتی طور پر کاربن کی کیمیا کا ضمنی حاصل ہو۔ انہوں نے امونیا ، میتھین اور دوسرے زہریلے کیمیائی اجزاء کا محلول لیا جو ان کے مطابق نوزائیدہ زمین پر موجود تھے۔ اس کو انہوں نے ایک جار میں رکھا اور اس میں تھوڑی سی برقی رو گزاری اور اس کے بعد انتظار کرنے لگے۔ ایک ہفتے کے دوران ہی انہوں نے خود بخود امینو ایسڈ کے بننے کے ثبوت دیکھے۔ برقی رو نے امونیا اور کاربن میں موجود بندوں کو توڑ کر جوہروں کو از سر نو ترتیب دے کر پروٹین کے پیش رو امینو ایسڈ کو بنا دیا۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ حیات شاید خود سے پیدا ہو گئی ہو۔ امینو ایسڈ شہابیوں کے اندر اور خلائے بسیط میں گیس کے بادلوں میں بھی پائے گئے ہیں۔

تیسرے، حیات کی بنیادی اساس وہ سالمہ ہے جو خود کی نقل بنا لیتا ہے جس کو ڈی این اے کہتے ہیں۔ کیمیا میں خود کی نقل کرنے والے سالمات انتہائی نایاب ہیں۔ زمین پر پہلے ڈی این اے نے بننے میں شاید سمندروں کے اندر کروڑوں سال کا عرصہ لگایا ہوگا۔ غالباً اگر کسی نے ملر –یوری والا تجربہ دس لاکھ سال پہلے سمندر میں دہرایا ہو تو ڈی این اے کے سالمات خود سے بن سکتے تھے ۔زمین پر ان جگہوں کی ممکنہ امیدوار جہاں اوّلین ڈی این اے جیسے سالمات بنے ہوں گے وہ سمندر کی تہ میں آتش فشانی ریخیں ہو سکتی ہیں ، پودوں اور ضیائی تالیف کے عمل کو شروع ہونے سے پہلے ان ریخوں میں ہونے والی ہلچل توانائی کی معقول مقدار ابتدائی ڈی این اے کے سالموں اور خلیوں کو مہیا کر سکتی تھی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ڈی این اے کے ساتھ ساتھ کاربنی سالمات بھی خود کی نقل کر سکتے ہیں یا نہیں۔ لیکن کائنات میں ڈی این اے کی شباہت کے دوسرے خود کار نقلچی سالمات کی موجودگی کی امید کی جا سکتی ہے۔ 

لہٰذا ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ حیات کو مائع پانی ، ہائیڈرو کاربن کیمیائی اجزاء اور کچھ طرح کے خود کار نقلچی سالمات مثلاً ڈی این اے کی ضرورت ہوگی۔ ان جامع اصولوں کی کسوٹی کا استعمال کرتے ہوئے ہم اس طرح ایک اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کائنات میں ذہین مخلوق کی تعداد کیا ہوگی۔ ١٩٦١ء میں کارنیل یونیورسٹی کے ماہر فلکیات "فرینک ڈریک"(Frank Drake) وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے ایک خام تخمینہ لگایا تھا۔ اگر ہم ملکی وے کے ایک کھرب ستاروں سے شروع کریں تو ہم دیکھیں گے کہ اس کی معمولی تعداد ہمارے سورج جیسے ستاروں کی ہو گی۔ اس کے بعد ہم ان ستاروں کے گرد ماورائے نظام ہائے شمس تلاش کریں۔ با الخصوص ڈریک کی مساوات اس بات کا تخمینہ لگاتی ہے کہ کہکشاں میں کتنی تہذیبیں موجود ہونی چاہیں ۔ اس مقصد کے لئے وہ کوئی اعداد کو ضرب دیتے ہیں جس میں مندرجہ ذیل عوامل شامل ہیں :

· کس شرح سے ستارے کہکشاں میں پیدا ہو رہے ہیں ،
· کتنے ستاروں کے گرد سیارے موجود ہوں گے ،
· ہر ستارے کے گرد کتنے سیارے ایسے ہوں گے جہاں حیات کی جملہ شرائط موجود ہوں گی ،
· ان میں سے کتنے سیارے ایسے ہوں گے جہاں حیات نے جنم لیا ہوگا ،
· ان میں سی کتنی حیات ایسی ہوں گی جنہوں نے ذہانت حاصل کی ہوگی،
· اس میں سے کتنی ایسی حیات ہوں گی جو اس بات کی خواہش اور قابلیت رکھتی ہوں کہ وہ رابطہ کر سکیں، اور
· ایک تہذیب کی اندازاً کیا عمر ہوگی۔

معقول تخمینا جات لے کر اور متواتر احتمال کو ضرب دے کر ہم یہ نتیجہ آسانی سے اخذ کر سکتے ہیں کہ ١٠٠ سے لے کر ١٠ ہزار ایسے سیارے صرف ملکی وے کہکشاں میں موجود ہو سکتے ہیں جہاں حیات اپنا مسکن بنا سکتی ہے۔ اگر حیات کی ذہین قسم کی شکل ملکی وے میں یکساں طور پر پھیلی ہوئی ہو تو پھر ہم اس بات کی امید کر سکتے ہیں کہ ایسا کوئی سیارہ زمین سے صرف چند نوری برس کے فاصلے پر موجود ہوگا۔ ١٩٧٤ء میں کارل ساگاں نے صرف ملکی وے کہکشاں میں ہی ١٠ لاکھ تہذیبوں کے موجود ہونے کا اندازہ لگایا تھا۔

یہ قیاس ہی ان لوگوں کی مزید تائید کرتا ہے جو ماورائے ارض تہذیبوں کے ثبوتوں کے متلاشی ہیں۔ ذہین حیات کو پروان چڑھانے والے موافق سیاروں کے تخمینا جات کی بنیاد پر سائنس دان سنجیدگی کے ساتھ ایسے ریڈیائی اشاروں کی تلاش کر رہے ہیں جو کسی سیارے سے نشر ہو رہے ہوں ، یہ اشارے ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے اشاروں جیسی ہی ہوں گے جو ہماری زمین نے آج سے پچاس سال قبل نشر کرنے شروع کیے تھے۔ 

جاری ہے۔۔۔۔۔