ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
5۔ خیال رسانی یا خیال خوانی (Telepathy) - حصّہ اوّل
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
اگر پورے دن آپ کا سامنا کسی نئی چیز سے نہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کا دن بیکار گیا۔
- جان وہیلر (John Wheeler)
خلاف قیاس عمل کرنے والے ہی ناممکنات کو حاصل کریں گے۔
- ایم سی ایسچر(M.C Escher)
"اے ای وین ووگٹ " (E.A Van Vogt) کے ناول "سلان" (Slan) نے ہمارے خیال خوانی سے جڑے ڈر کو بہت ہی زبردست طریقے سے اپنا موضوع بنایا ہے۔
" جامی کراس"(Jommy Cross) اس ناول کا ہیرو ایک" سلان" ہوتا ہے جس کا تعلق ایک معدوم ہوتی ہوئی انتہائی ذہانت والی خیال خواں نسل سے ہوتا ہے۔
ناول میں اس کے والدین کو بے رحمی کے ساتھ غیض و غضب سے بھرے انسانوں کا وہ مجمع قتل کر دیتا ہے جو تمام خیال رسانوں سے اس لئے خوف کھاتا اور نفرت کرتا تھا کہ سلانوں کی یہ شاندار طاقت انسانوں کی ذاتی زندگی میں ان کے بے تکلف خیالات میں دخل در معقولات کر سکتی تھی۔ ناول میں انسان بے رحمی کے ساتھ سلان کا جانوروں کی طرح سے شکار کر تے ہیں ۔ سر میں سے نکلتی ہوئی بیل سوت کی وجہ سے سلان کو پہچانا بہت ہی آسان تھا۔ ناول کی کہانی کے دوران ، جامی دوسرے سلانوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتا ہے جو ممکنہ طور پر انسانوں کے اس بےرحم شکار سے تنگ آ کر خلاء میں فرار ہو گئے تھے۔
تاریخی طور پر دماغ شناسی اس قدر اہم رہی ہے کہ اکثر اس کا تعلق دیوتاؤں سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ کسی بھی دیوتا کی بنیادی طاقتوں میں سے ایک دماغ کو پڑھنا تھا تاکہ وہ ہماری دعاؤں کو سن کر قبول کر سکیں۔ دماغوں کو اپنی مرضی کے مطابق پڑھنے والا ایک خیال خواں آسانی کے ساتھ کرۂ ارض کا طاقتور ترین شخص بن سکتا ہے۔ ایک ایسا شخص کسی بھی وال اسٹریٹ بینکر کے دماغ میں داخل ہو کر یا اس کو حریف سے جبراً بلیک میل کرکے صاحب ثروت بھی بن سکتا ہے۔ اس کا وجود قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔ وہ بغیر کوشش کیے کسی بھی قوم کے حساس قومی راز چرا سکتا ہے۔ سلان کی طرح اس سے بھی ڈرا جائے گا اور ہو سکتا ہے کہ اس کو موت کے گھاٹ بھی اتار دیا جائے۔
ایک سچے خیال رساں کی زبردست طاقت مشہور زمانہ سلسلے "فاؤنڈیشن" از" آئزک ایسی موف"(Issac Asimov) میں دکھائی گئی ہے۔ اس کی اکثر تشہیر سائنس فکشن کی طلسماتی دنیا کی سب سے عظیم کہانی کے طور پر کی جاتی ہے۔ کہانی میں ایک کہکشانی سلطنت جو کئی ہزار سال سے حکومت کر رہی تھی اب اپنے زوال و بربادی کے قریب تھی۔ خفیہ سائنس دانوں کی ایک جماعت جس کا نام سیکنڈ فاؤنڈیشن تھا اس نے پیچیدہ مساوات کا استعمال کرتے ہوئے اندازہ لگایا کہ سلطنت کی تہذیب زوال پذیر ہو کر آخر کار ٣٠ ہزار سال کے گمنامی کے اندھیرے میں ڈوب جائے گی۔ سائنس دانوں نے مساوات کی بنیاد پر ایک مفصل منصوبہ بنایا۔ اس منصوبے کا مقصد تہذیب کے زوال کو چند ہزار سال تک محدود رکھنا تھا۔ لیکن پھر ایک ناگہانی مصیبت نازل ہو گئی۔ ان کی مفصل مساوات بھی ایک اندازہ لگانے سے چوک گئی تھی۔ اس ناگہانی آفت کے نتیجے میں ایک "تقلیبی"(Mutant) جو "خچر(Mule)" کہلایا پیدا ہو گیا۔ یہ تقلیبی خچر دور دراز سے بیٹھ کر بھی دماغوں کو اپنے قبضے میں کرنے کی صلاحیت کا حامل تھا ۔نتیجتاً اس کے پاس وہ طاقت و صلاحیت آ گئی تھی جس سے وہ کہکشانی سلطنت پر بھی قبضہ کرنے کے قابل ہو گیا تھا۔ اگر اس خیال خواں کو نہیں روکا جاتا تو کہکشاں کے مقدر میں ٣٠ ہزار سال کا انتشارو خلفشار لکھ دیا گیا تھا۔
اگرچہ سائنس فکشن خیال رسانی کی زبردست کہانیوں سے بھری ہوئی ہیں مگر حقیقت کچھ زیادہ ہی تلخ ہے۔ خیالات ذاتی اور غیر مرئی ہوتے ہیں ، لہٰذا اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صدیوں سے بہروپئے اور ٹھگ ہم میں موجود سادہ لوح افراد کو بے وقوف بناتے رہے ہیں۔ ایک سب سے آزمودہ ترکیب جو جادوگر اور دماغ پڑھنے ولے استعمال کرتے ہیں اس میں وہ اپنا ایک شریک کار سامعین میں گھسا دیتے ہیں۔ پھر اپنے اس شریک کار کا دماغ پڑھ کر وہ مجمع کو متاثر کرتے ہیں۔
کئی جادوگر اور دماغ پڑھنے والوں نے اپنا پیشہ مشہور زمانہ کرتب" ہیٹ ٹرک" سے شروع کیا۔ جس میں لوگ ذاتی پیغام ایک کاغذ کے ٹکڑے پر لکھ کر اس کو ٹوپی کے اندر ڈال دیتے تھے۔ اس کے بعد جادوگر سامعین کے پاس جا کر ان کو بتا تا ہے کہ انہوں نے کیا لکھا تھا جس سے ہر کوئی حیرت زدہ رہ جاتا تھا۔ اس میں مغالطے کی حد تک سادہ مگر فطین ترکیب استعمال کی جاتی تھی۔ (مزید تفصیلات کے لئے حواشی ملاحظہ کیجئے )
ایک اور مشہور خیال خوانی واقعے میں انسان کے بجائے ایک جانور کا استعمال کیا گیا تھا۔ اس ترکیب میں ایک حیرت انگیز گھوڑاجس کا نام "چالاک ہنز "(Clever Hans) تھا اس کو استعمال کیا گیا تھا۔ اس گھوڑے نے یورپین تماش بینوں کو ١٨٩٠ء میں حیرت کے سمندر میں غرق کر دیا تھا۔چالاک ہنز تماشائیوں کو حیرت و استعجاب میں ڈالنے کے لئے پیچیدہ ریاضی کے حسابات حل کرنے کے کارنامے سرانجام دے سکتا تھا۔ مثال کے طور پر اگر آپ چالاک ہنز سے ٤٨ کو ٦ سے تقسیم کرنے کا کہتے ، تو گھوڑا اپنے کھر کو آٹھ دفعہ زمین پر مارتا۔ چالاک ہنز حقیقت میں تقسیم، ضرب کسری جمع ، اور الفاظ کے ہجے بھی کر سکتا تھا بلکہ یہاں تک کہ وہ تو موسیقی کی طرزوں کو بھی پہچان سکتا تھا۔ چالاک ہنز کے مداحوں نے اس بات کا اعلان کر دیا تھا کہ یا تو وہ انسانوں سے بھی زیادہ ذہین تھا یا پھر وہ خیال رسانی کے ذریعہ لوگوں کے دماغ سے نتیجے نکال لیتا تھا۔
مگر چالاک ہنز کسی فطین ترکیب کا نتیجہ نہیں تھا۔ اس کی حساب لگانے کی شاندار صلاحیت نے اس کے تربیت کار کو بھی بے وقوف بنا دیا تھا۔ ١٩٠٤ء میں ممتاز ماہر نفسیات پروفیسر "سی اسٹرف" (C. Strumpf) اس گھوڑے کی جانچ کرنے کے لئے اپنے پاس لے کر آئے لیکن انہوں کسی بھی قسم کی چالاکی یا گھوڑے کو ہوتے ہوئے مخفی اشارے نہیں دیکھے۔ ان کے اس تجزیے سے عوام میں چالاک ہنز کی سحر انگیزی اور بڑھ گئی۔ تین سال کے بعد ، اسٹرف کے ایک شاگرد ماہر نفسیات "آسکر فاسٹ"(Oskar Pfungst) نے ایک اور با مشقت تجزیہ کیا اور آخر کار چالاک ہنز کے راز سے پردہ اٹھانے میں کامیاب ہو گیا۔ گھوڑا صرف اپنے تربیت کار کے چہرے کے انتہائی لطیف تاثرات کا مشاہدہ کرتا تھا۔ گھوڑا اس وقت تک اپنا کھر زمین پر مارتا رہتا تھا جب تک اس کا تربیت کار اپنے چہرے کے تاثرات کو ہلکا سا بدل نہیں دیتا تھا۔ تاثرات کے بدلتے ہی وہ اپنا کھر زمین پر مارنا روک دیتا تھا۔ چالاک گھوڑا نہ تو حساب کتاب کر سکتا تھا نہ ہی لوگوں کے دماغ کو پڑھ سکتا تھا۔ وہ تو صرف ایک انتہائی چالاک لوگوں کے چہرے کے تاثرات کا مشاہدہ کرنے والا تھا۔
تاریخ میں دوسرے خیال خواں جانوروں کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ تاریخ میں سب سے پہلے ١٥٩١ء میں انگلستان میں ایک گھوڑا جس کا نام موروکو تھا اس کا ذکر ملتا ہے۔ اس دور میں وہ گھوڑا بہت مشہور ہو گیا تھا اور اس نے اپنے مالک کی قسمت کھول دی تھی وہ تماشائیوں میں سے کسی بھی شخص کو پسند کرتا ، حرف تہجی کی طرف اشارہ ، اور پانسے پر موجود اعداد کو جمع بھی کر سکتا تھا۔ اس نے انگلینڈ میں ایک ایسی سنسنی پھیلا دی تھی کہ شیکسپیئر نے اس کو اپنے ڈرامے "لووز لیبرس لوسٹ " میں بطور "رقاص گھوڑے" کا کردار لکھ کر امر کر دیا۔
جواری بھی اکثر لوگوں کے دماغ کو کافی حد تک پڑھ لیا کرتے تھے۔ عام طور پر انسان جب بھی کوئی خوش ہونے والی چیز دیکھتا ہے تو اس کی آنکھ کی پتلی پھیل جاتی ہے۔ جبکہ اس کی آنکھ کی پتلیاں اس وقت سکڑ جاتی ہیں جب وہ کوئی ایسی چیز دیکھتا ہے جس کو وہ ناپسند کرتا ہو (آنکھ کی پتلیاں اس وقت بھی سکڑ جاتی ہیں جب وہ ریاضی کے پیچیدہ مسائل حل کر رہا ہوتا ہے )۔ جواری اپنے سامنے بیٹھے مخالفوں کے چہروں پر ان کی آنکھوں میں جھانک کر اس کے سکڑنے اور پھیلنے کا اندازہ لگاتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اکثر جواری رنگین نقاب لگاتے ہیں تاکہ وہ اپنی آنکھوں کے تاثرات کو چھپا سکیں۔ آنکھوں پر لیزر کی شعاع کو مار کر بھی اس کے منعکس ہونے کی جگہ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس طرح سے کافی صحت کے ساتھ یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ جس شخص پر لیزر کی شعاع ماری گئی ہے وہ کہاں دیکھ رہا ہے۔ منعکس ہوئے لیزر کے نقطہ کا تجزیہ کرکے اس بات کا معلوم کیا جا سکتا ہے کہ فاعل کس طرح سے تصویر کا معائنہ کر رہا ہے۔ ان دونوں ٹیکنالوجی کو ملا کر کسی چیز کا معائنہ کرتے ہوئے شخص کے جذباتی تاثرات اس کی بے خبری کی حالت میں معلوم کیے جا سکتے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔