تمہید

فہیم کو خلائی خبروں سے بڑی دلچسبی تھی، اسے جب بھی موقع ملتا وہ اپنی فہامت وبلاغت کا استعمال کرتے ہوئے اس موضوع پر بحث کرتا، کیونکہ وہ چاند پر یا دیگر سیاروں پر انسان کی قدم رنجائی کو شک کی نگاہ سے دیکھا کرتا تھا، کیونکہ اس کے خیال میں اس کا مطلب تو یہ ہوا نا کہ وہ گویا آسمان پر چڑھ گیا!

ایک دن اس نے اخبار خریدا، اخبار کے صفحہ اول پر ہی ایک خلائی خبر شائع ہوئی تھی، خبر کے ساتھ ایک تصویر بھی تھی، جسے لے کر وہ پریشان تھا.. تصویر میں زمین چاند کے اوپر تھی، وہ یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہا تھا کہ زمین کیونکر چاند کے اوپر ہوسکتی ہے؟ اس نے پوری خبر پڑھی مگر اسے کوئی وجہ سمجھ نہیں آئی.. آخر کار اتفاق سے اس کی اپنے دوست مراد سے ملاقات ہوگئی تو اس نے چھوٹتے ہی سوال داغ دیا: کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ چاند پر خلابازوں نے زمین کی یہ تصویر کیسے اتاری ہے جس میں زمین آسمان پر ان کے سر کے اوپر نظر آرہی ہے؟..

مراد نے کہا: اصل میں جنہوں نے اخبار میں یہ تصویر لگائی ہے وہ بے وقوف ہیں کیونکہ انہوں نے تصویر کو الٹا چھاپا ہے اس لیے زمین چاند کے اوپر نظر آرہی ہے کیونکہ اگر یہ سیدھی ہوتی تو چاند زمین کے اوپر نظر آتا..!

فہیم نے جواب دیتے ہوئے کہا: لیکن میاں تصویر کے نیچے تحریر بالکل سیدھی ہے جس کا مطلب ہے کہ تصویر بھی سیدھی ہی ہے، بلکہ خلاباز نے تو زمین والوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ: زمین آسمان پر اس کے سر کے اوپر لٹکتی ہوئی کتنی سحر انگیز لگ رہی ہے..!!

مراد نے کہا: یار فہیم تم ابھی تک ان لوگوں کی باتوں پر یقین رکھتے ہو؟ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی انسان چاند پر پہنچ سکے..؟ مجھے تو یہ یہودی سازش لگ رہی ہے.. وہ ہمارے عقیدے کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، لیکن یہ ان کی بھول ہے، ہمارے عقیدے پہاڑوں کی طرح جمے ہوئے ہیں.. تم اس سب کی فکر مت کرو فہیم.

مگر فہیم کو مراد کی باتوں پر ابھی بھی شبہ ہے، چنانچہ مراد نے اس بار منطق کا استعمال کرتے ہوئے کہا: اگر تم کسی عمارت سے یا جہاز میں بیٹھ کر زمین کی طرف دیکھو گے تو وہ تمہیں اپنے نیچے نظر آئے گی.. فرض کرو کہ عمارت کی لفٹ تمہیں لے کر اوپر اٹھتے اٹھتے آسمان کے ستاروں تک پہنچ گئی.. اب اگر تم لفٹ سے زمین کی طرف دیکھو گے تو یقیناً وہ تمہارے نیچے ہوگی نا کہ اوپر جیسا کہ یہ لوگ دعوی کر رہے ہیں.. راکٹ کے ذریعے چاند پر جانا بالکل لفٹ کے ذریعے چاند پر جانے کی طرح ہے.. اب تو تمہیں یقین آگیا نا.؟

فہیم کہتا ہے: پوری طرح نہیں، میں سائنسدانوں پر اتنی آسانی سے شک نہیں کر سکتا، علم ایک الگ چیز ہے جس کے ساتھ تم اپنی منطق کے ذریعے نہیں کھیل سکتے، اس میں ضرور کوئی راز ہے.

ابھی وہ اسی موضوع پر بحث کر ہی رہے تھے کہ فہیم کی نظر ڈاکٹر عبد القدیر پر پڑتی ہے جو ان کی طرف ہی آرہا ہوتا ہے، فہیم جلدی سے ان کی طرف بڑھ کر انہیں اپنے اور مراد کے درمیان ہوئی گفتگو سے آگاہ کرتا ہے اور اس کی درست وجہ جاننا چاہتا ہے.

ڈاکٹر صاحب اس کی طرف مسکرا کر دیکھتے ہوئے کہتے ہیں: اصل میں اگر آپ چاند پر یا دیگر سیاروں پر چلے جائیں یا آسمان میں جتنی بھی بلندی پر پہنچ کر ستاروں کے درمیان گھومیں آپ کو کائنات میں اپنے نیچے کچھ نظر نہیں آئے گا.. آپ کو ہر چیز اپنے اوپر نظر آئے گی.. یعنی اگر کائنات کے کسی سیارے میں کوئی سمجھدار مخلوق ہوتی جو ہمیں اپنے سر کے اوپر نظر آتے ہیں تو انہیں بھی ہماری زمین اپنے سر کے اوپر نظر آتی نا کہ نیچے جیسا کہ آپ کو لگ رہا ہے.. یہاں ظاہر باطن سے مختلف ہے.. آپ دونوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اوپر نیچے کا معاملہ نسبتی ہے جس کا انحصار کائنات میں اس جگہ پر ہے جس میں آپ موجود ہیں.

فہیم اور مراد ایک دوسرے کی طرف ایسے دیکھتے ہیں جیسے ان کے پلے کچھ نا پڑا ہو، یہ دیکھتے ہوئے صاحب اپنی بات آگے بڑھاتے ہیں: بظاہر ہمیں زمین چپٹی نظر آتی ہے، آپ اس میں جتنا مرضی گھوم لیں آپ کو اس کی گولائی نظر نہیں آئے گی حالانکہ تمام تر ثبوت اس بات کے گواہ ہیں کہ زمین گول ہے نا کہ چپٹی.. مگر ہم فرض کرتے ہیں کہ زمین چپٹی ہے اس صورت میں ہمیں یہ کہنا ہوگا کہ آسمان چپٹی زمین کی چھت ہے جس میں ہمارے اوپر ستارے اور سیارے بکھرے ہوئے ہیں جس طرح کمرے کی چھت میں پنکھا.. اس صورت میں اوپر نیچے کا مفہوم ہوگا اور پھر آپ کے اندازے درست ٹھہریں گے.

مگر زمین گول ہے، یعنی یہ ایک گول بال (فٹ بال) کی طرح کھلی فضاء میں معلق ہے، اور اس کے گرد ہر سمت میں ستارے، سیارے اور چاند پھیلے ہوئے ہیں جو کہ خود بھی گول ہیں اور یہ سب اپنی اپنی فضاء میں گھوم رہے ہیں.. اور چونکہ ستارے اور سیارے بشمول زمین کے چپٹی سطح کی بجائے گول ہیں چنانچہ کوئی بھی مخلوق ان میں سے کسی پر بھی کھڑی ہوجائے تو اسے ایسا لگے گا کہ ہر چیز اس کے اوپر ہے نا کہ نیچے جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں.. مزید وضاحت کے لیے ہم اپنی زمین ہی کی مثال لیتے ہیں.. قطبِ شمالی میں کھڑا کوئی شخص یہ کہے گا کہ اس کا سر اوپر کی طرف ہے، جبکہ قطبِ جنوبی میں کھڑا دوسرا شخص پہلے والے کو یقین دلائے گا کہ اس کا (قطبِ جنوبی والے کا) سر اوپر ہے.. نا کہ قطبِ شمالی میں کھڑے شخص کی نسبت نیچے.. اصل میں دونوں ہی حق بجانب ہیں کیونکہ اوپر اور نیچے ایک نسبتی معاملہ ہے.. یہی معاملہ دیگر گول سیاروں پر بھی لاگو ہوگا.. اسے سمجھنے کے لیے آپ تصور کریں کہ ہم اس زمین پر بالکل اس طرح کھڑے ہیں جیسے کہ کسی بال پر ہر طرف سے عمودی کیل ٹھکے ہوئے ہوں.

اصل میں ان تینوں کی بحث کافی طویل ہے، بہرحال ہمیں کائنات کو اپنے ارد گرد کے زمینی نقطہ نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے.

یہ درست ہے کہ آپ اپنی زمین کی نسبت سے اوپر اور نیچے کا لفظ استعمال کر سکتے ہیں، آپ جب کہتے ہیں کہ کتاب میز کے اوپر ہے اور جوتے بیڈ کے نیچے ہیں تو آپ نے ان کے مقام کا تعین ان کے اوپر یا نیچے کسی چیز کی نسبت سے کیا ہوتا ہے.. مگر آپ اوپر کہہ کر خاموش نہیں ہوسکتے، یا نیچے کہہ کر خاموش نہیں ہو سکتے، کیونکہ جب تک آپ تعین نہیں کریں گے اوپر نیچے کا کوئی مطلب نہیں ہوگا.. اسی طرح دائیں اور بائیں کا کوئی معنی نہیں ہوگا اگر آپ زمین پر اپنے چلنے کی سمت کا تعین نہیں کریں گے، اور اپنے سیارے میں اپنے کھڑے ہونے کی جگہ نہیں بتائیں گے.

اگر کوئی سوال کرے کہ: واہگہ بارڈر آپ کے دائیں طرف ہے یا بائیں طرف اور پھر خاموش ہوجائے، تو ایسے سوال کا آپ کو کوئی مطلب نظر نہیں آئے گا، سوال کو زیادہ واضح ہونا چاہیے کیونکہ دائیں اور بائیں قابلِ تبدیلی نسبتی مسئلہ ہے.. یعنی اگر آپ شمال سے جنوب کی سمت سفر کر رہے ہوں تو واہگہ بارڈر آپ کے بائیں طرف ہوگا اور کراچی سے پشاور جاتے ہوئے یہ آپ کے دائیں طرف ہوجائے گا.

اگرچہ پاکستان میں سفر کرنے والے کے لیے یہ درست ہے تاہم بھارت میں سفر کرنے والے کسی مسافر کے لیے یہ درست نہیں ہوگا.. کیونکہ جنوب کی سمت سفر کرتے ہوئے واہگہ بارڈر اس کے دائیں طرف ہوگا جبکہ پاکستان میں جنوب کی سمت سفر کرنے والے کے لیے یہ بائیں طرف ہوگا..

چنانچہ دائیں مطلق نہیں ہے اور نا ہی بائیں.. بالکل اوپر نیچے، شمال و جنوب، مشرق اور مغرب کی طرح.. یہ سب نسبتی چیزیں ہیں..

سورج غروب ہوتے وقت جب ہم یہ کہتے ہیں کہ سورج غروب ہوگیا ہے (اصل میں زمین کے اپنے گرد چکر کی وجہ سے ہم غروب ہو رہے ہوتے ہیں) تو یہ صرف آپ کے موجودہ مقام اور نقطہ نظر سے درست ہے، مگر جو آپ کے لیے غروب ہے، وہ کسی اور کے لیے شروق ہوسکتا ہے.. اپنے سیارے کے جس حصہ میں آپ دن میں جی رہے ہوتے ہیں کوئی دوسرا گھپ اندھیرے میں ہوتا ہے.. ہر کوئی چیزوں کو اپنے ارد گرد کی نسبت سے دیکھتا ہے.

اگر آپ یہ قسم کھاتے ہیں کہ آپ کا وزن ساٹھ کلو گرام ہے تو آپ کی قسم جھوٹی ہے، ہاں اگر آپ بر وقت معاملے کو سمجھتے ہوئے اپنے وزن کو اپنے سیارے سے منسوب کردیں تو بات الگ ہے.. کبھی کبھی آپ کا کوئی وزن نہیں ہوتا اور کبھی آپ ٹنوں وزن کے حامل ہوتے ہیں.. اس کا انحصار اس جگہ پر ہے جہاں آپ اپنے میزان پر کھڑے ہیں..

اگر آپ اپنے ساتھ میزان لے کر خلاء میں چلے جائیں جہاں پر تجاذب معدوم ہوجاتا ہے تو آپ کا میزان آپ کا کوئی وزن ریکارڈ نہیں کرے گا، اگر آپ مریخ پر اپنا وزن کریں گے تو آپ کا وزن 22 کلو گرام ہوگا، مشتری پر 152 کلو گرام اور دوسرے بڑے اور ضخیم سیاروں پر آپ کا سینکڑوں ٹن وزن ہوسکتا ہے..!

چنانچہ آپ کا وزن نسبتی ہے جس کا انحصار اس بڑی کائنات میں آپ کے موجود ہونے کے مقام پر ہے جہاں تجاذب ہر جگہ مختلف ہوتا ہے.

آپ دفتر یا اپنے گھر میں اپنی کرسی پر بیٹھے ہیں، آپ کے گرد ہر چیز ساکن ہے، دیواریں، کرسیاں، برتن وغیرہ وغیرہ... لیکن حقیقت میں یہ سکون صرف ظاہری اور نسبتی ہے، کیونکہ پوری کائنات میں کوئی چیز ساکن نہیں ہے.. ہر چیز مسلسل حرکت میں ہے.. ذرے، لہریں، جاندار اور سمندر..

جس زمین پر آپ رہتے ہیں آپ کو ساکن لگتی ہے، آپ کو لگتا ہے کہ سورج مشرق و مغرب میں حرکت کر رہا ہے.. لیکن یہاں ظاہر حقیقت کی عکاسی نہیں کرتا.. کیونکہ دراصل زمین سورج کے گرد حرکت کر رہی ہے اور اپنے گرد 1000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہے جس سے دن اور رات کا تسلسل بنتا ہے، پھر سورج کے گرد مدار میں 66 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چکر لگاتی ہے جس سے چاروں موسم تشکیل پاتے ہیں، تو ہم میں سے کون یہ سب حرکتیں محسوس کرتا ہے؟

یقیناً کوئی نہیں، زمین کی رفتار انتہائی منظم ہے، فضاء میں اس کی دوڑ حیران کن حد تک سلیس ہے، ہم زمین کی یہ تمام حرکات تب تک محسوس نہیں کر پائیں گے جب تک یہ کبھی اچانک رک نہ جائے، تب ہم اپنے آپ کو خلاء میں تیزی سے اڑتا ہوا پائیں گے بالکل جس طرح کوئی تیزی سے چلتی گاڑی اچانک رک جاتی ہے اور اس میں بیٹھے لوگ اسی رفتار سے آگے کی طرف ایک زور دار جھٹکے سے بڑھتے ہیں.

سورج بھی 540 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنے نظام کے سیاروں کو ساتھ لیے کائنات میں دوڑا چلا جارہا ہے، حالانکہ ہم کوئی حرکت محسوس نہیں کرتے.. اور پھر سورج کے ساتھ ایک لاکھ ملین ستارے اور سیارے جو ہماری کہکشاں کا حصہ ہیں، ان ستاروں میں سے ہر ستارہ دوسروں کی نسبت اپنی کہکشاں میں ایک منظم رفتار سے حرکت میں ہے، اس لیے ہمیں اپنے ارد گرد ہر چیز ساکن نظر آتی ہے حالانکہ کائنات میں ثبات اور سکون نامی کوئی شئے نہیں ہے کہ:

ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں

ہماری کہکشاں کی طرح اربوں کھربوں کہکشائیں اور بھی ہیں جو اس عظیم کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں جس کی نہ ہمیں کوئی ابتدا نظر آتی ہے نہ انتہا.. ان کہکشاؤں میں سے ہر کہکشاں اپنے تمام ستاروں اور سیاروں کو اپنے ساتھ لیے ایک دوسرے سے ہزاروں میل فی سیکنڈ کے حساب سے دور جارہی ہیں.. مگر کہاں؟ .. خدا جانے..

چنانچہ کائنات ایک حرکتِ مسلسل میں ہے.. اس میں ہر چیز دوسرے کی نسبت حرکت میں ہے، اس پوری کائنات میں ہمیں کوئی ایک جگہ بھی سکون کی حالت میں نہیں مل سکتی جسے ہم غیر متحرک بنیاد بنا کر وہاں سے کائنات کا حقیقی مشاہدہ کر سکیں.

یہ وسیع فضاء جس میں لا محدود سیارے اور ستارے پھیلے ہوئے ہیں کوئی ساکن حدود نہیں رکھتی.. آپ اس میں ایسی کوئی چیز متعین نہیں کر سکتے جسے اوپر نیچے، دائیں بائیں، یا شمال وجنوب کہا جاسکے.. حالانکہ آپ یہ سب اپنی زمین پر متعین کر سکتے ہیں کیونکہ اس میں ابعاد، زمان ومکان محدود ہے.. اس میں جو بھی حرکت، رفتار یا واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں وہ اسی سے (زمین سے) منسوب ہیں اس لیے ہمیں ہر چیز معقول اور منطقی نظر آتی ہے.

* * *

واقعات کے سٹیج پر آئن سٹائن کی وضع کردہ نظریہ اضافیت نمودار ہوکر عجیب وغریب باتیں بتاتی ہے، عجیب اس لیے کہ اپنی زمینی زندگی میں ہم جن چیزوں کے عادی تھے یہ انہیں بدلنے کی کوشش کرتی ہے اور ہمارے دماغوں میں زمان، مکان، حرکت، مادہ، توانائی غرض کہ ہر چیز کا مفہوم بدلنے کی کوشش کرتی ہے.

دراصل نظریہ اضافیت ہمارے زمینی واقعات کا احاطہ نہیں کرتا، بلکہ یہ پوری کائنات کا احاطہ کرتا نظر آتا ہے، اور ہم پر اس کائنات کے راز آشکار کرتا ہے، مگر ہمارا دماغ اس کائنات کی حقیقت - جس کے ہم بہت ہی معمولی حصے میں رہتے ہیں - سمجھنے کے لیے تیار نہیں.

شاید آپ نے سنا ہوگا کہ پوری دنیا میں جو لوگ نظریہ اضافیت کو سمجھتے ہیں ان کی تعداد بارہ سے زیادہ نہیں (ایک اور قول میں تین !) .. اس قولِ شریف میں کافی مبالغہ ہے.. کیونکہ مسئلہ نظریے میں نہیں ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ نظریہ جن تعجب خیز امور کی پیشین گوئی کرتا ہے ہم انہیں ہضم نہیں کر پاتے.. نظریے نے ایسے امور کی پیشین گوئی کی ہے جنہیں "نا معقولات" کے زمرے میں شمار کیا جاسکتا ہے..

اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ نظریہ آئن سٹائن کے تخیل کی پرواز ہے، بلکہ اس کی اساس ٹھوس ریاضیاتی بنیادوں پر ہے جس میں آئن سٹائن نے اپنے ہم پیشہ و ہم مشرب سابقہ سائنسدانوں کی دریافتوں کو مدِ نظر رکھا ہے جیسے پوائن کارے، میکلسن اور مورلے، مینکوفسکی اور میکس پلانک.. وغیرہ، آئن سٹائن نے دوسروں سے خوب تر انداز میں اِس طرح اِس علمی ہیرے کو تراشا ہے کہ یہ فکرِ انسانی کے ماتھے کا روشن ستارہ بن گیا ہے، اور شاید ابھی آگے کی کئی نسلیں اس ہیرے کو مزید تراشیں گی اور ہمیں اُس حقیقت سے اور قریب کریں گی جس کی جستجو میں ہم ابھی تک پریشان ہیں.

نظریہ اضافیت دو مرحلوں میں ہمارے سامنے آیا، پہلی بار 1905ء میں جسے خصوصی یا محدود نظریہ اضافیت کا نام دیا گیا، اور پھر دوسرے مرحلے میں یہ 1916ء میں عمومی نظریہ اضافیت کے نام سے پیش کیا گیا، یعنی یہ زیادہ جامع اور شامل ہے .. ہم یہاں صرف خصوصی نظریہ اضافیت پر ہی بات کریں گے.

دراصل جس زبان میں یہ دونوں نظریات منظرِ عام پر لائے گئے بہت ہی خاص زبان ہے، اگر آپ اس پر ایک نظر ڈالیں گے تو آپ کو یہ بے معنی اور بے لذت سے رموز ہی نظر آئیں گے، مگر اربابِ علم کے لیے یہ بہت معنی رکھتے ہیں، یہ زبان کلام وبیان کی ضرورت باقی نہیں چھوڑتی.. یہ ہے ریاضیاتی مساواتوں کی زبان جو کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھانے کی حقیقی زبان ہے، جیسے خدا نے بنیاد رکھ کر باقی کام ریاضی دانوں کے لیے چھوڑ دیا ہو، یوں لگتا ہے جیسے پوری کائنات پر ریاضی کی مساواتوں کی حکمرانی ہے، یا شاید ایک ہی مساوات جسے دریافت کرنا باقی ہو..

ہمارے سیارے کے کھربوں دماغوں میں سے جو آئے اور چلے گئے صرف چند دماغ ایسے ہیں جو علم وفن پر اپنے گہرے نقوش چھوڑنے میں کامیاب رہے اور انسانیت کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا.. ان میں سے ایک اہم نام البرٹ آئن سٹائن کا بھی ہے، جدید سائنس کی شاید ہی کوئی کتاب ہو جو اس سائنسدان کے ذکر سے خالی ہو، بلکہ عہدِ جدید کا کوئی بھی علمی مصنف اس کے اور اس کے پیش کردہ نظریہ اضافیت کے ذکر کے بغیر کچھ لکھ ہی نہیں سکتا، یہ وہ مشہورِ زمانہ نظریہ ہے جس نے آکر ہماری زمین کی ہر جانی پہچانی اور منطقی چیزوں کو بدل کر رکھ دیا.

یہ نظریہ کہتا ہے کہ زمان (وقت) ایک "بُعد" ہے جو سکڑ سکتا ہے اور کبھی کبھی کچھ خاص حالات میں رک بھی سکتا ہے! .. نظریہ کے مطابق ماضی حال اور مستقبل ایک نسبتی مسئلہ ہے.. کہ جو آپ کے لیے آنے والا کل ہوگا وہ کسی کے لیے گزشتہ کل ہوسکتا ہے.. نظریہ کہتا ہے کہ ابعاد محدود نہیں ہیں بلکہ یہ سکڑ بھی سکتے ہیں. اور یہ کہ مادہ توانائی ہے اور توانائی مادہ ہے، یعنی یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، کبھی مادہ فنا ہوکر ایسی توانائی میں تبدیل ہوجاتا ہے جو حضرت سلیمان کے تمام جنوں سے زیادہ خوفناک ثابت ہوسکتا ہے.. اور یہ کہ کائنات کی ہر چیز نسبتی ہے سوائے روشنی کے، یہی وہ واحد شئے ہے جسے "ثبات" نصیب ہے اور جس کی رفتار کبھی بھی کسی بھی صورت میں تبدیل نہیں ہوسکتی، چنانچہ آئن سٹائن نے اسے اپنے ریاضیاتی مساواتوں کی بنیاد بنایا جس کے بطن سے نظریہ اضافیت نمودار ہوا.

تو پھر چلتے ہیں اضافیت کے سفر پر.