ہم اضافیت اور کائنات

ہم اضافیت اور کائنات

فہرست

تمہید

فہیم کو خلائی خبروں سے بڑی دلچسبی تھی، اسے جب بھی موقع ملتا وہ اپنی فہامت وبلاغت کا استعمال کرتے ہوئے اس موضوع پر بحث کرتا، کیونکہ وہ چاند پر یا دیگر سیاروں پر انسان کی قدم رنجائی کو شک کی نگاہ سے دیکھا کرتا تھا، کیونکہ اس کے خیال میں اس کا مطلب تو یہ ہوا نا کہ وہ گویا آسمان پر چڑھ گیا!

ایک دن اس نے اخبار خریدا، اخبار کے صفحہ اول پر ہی ایک خلائی خبر شائع ہوئی تھی، خبر کے ساتھ ایک تصویر بھی تھی، جسے لے کر وہ پریشان تھا.. تصویر میں زمین چاند کے اوپر تھی، وہ یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہا تھا کہ زمین کیونکر چاند کے اوپر ہوسکتی ہے؟ اس نے پوری خبر پڑھی مگر اسے کوئی وجہ سمجھ نہیں آئی.. آخر کار اتفاق سے اس کی اپنے دوست مراد سے ملاقات ہوگئی تو اس نے چھوٹتے ہی سوال داغ دیا: کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ چاند پر خلابازوں نے زمین کی یہ تصویر کیسے اتاری ہے جس میں زمین آسمان پر ان کے سر کے اوپر نظر آرہی ہے؟..

مراد نے کہا: اصل میں جنہوں نے اخبار میں یہ تصویر لگائی ہے وہ بے وقوف ہیں کیونکہ انہوں نے تصویر کو الٹا چھاپا ہے اس لیے زمین چاند کے اوپر نظر آرہی ہے کیونکہ اگر یہ سیدھی ہوتی تو چاند زمین کے اوپر نظر آتا..!

فہیم نے جواب دیتے ہوئے کہا: لیکن میاں تصویر کے نیچے تحریر بالکل سیدھی ہے جس کا مطلب ہے کہ تصویر بھی سیدھی ہی ہے، بلکہ خلاباز نے تو زمین والوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ: زمین آسمان پر اس کے سر کے اوپر لٹکتی ہوئی کتنی سحر انگیز لگ رہی ہے..!!

مراد نے کہا: یار فہیم تم ابھی تک ان لوگوں کی باتوں پر یقین رکھتے ہو؟ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی انسان چاند پر پہنچ سکے..؟ مجھے تو یہ یہودی سازش لگ رہی ہے.. وہ ہمارے عقیدے کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، لیکن یہ ان کی بھول ہے، ہمارے عقیدے پہاڑوں کی طرح جمے ہوئے ہیں.. تم اس سب کی فکر مت کرو فہیم.

مگر فہیم کو مراد کی باتوں پر ابھی بھی شبہ ہے، چنانچہ مراد نے اس بار منطق کا استعمال کرتے ہوئے کہا: اگر تم کسی عمارت سے یا جہاز میں بیٹھ کر زمین کی طرف دیکھو گے تو وہ تمہیں اپنے نیچے نظر آئے گی.. فرض کرو کہ عمارت کی لفٹ تمہیں لے کر اوپر اٹھتے اٹھتے آسمان کے ستاروں تک پہنچ گئی.. اب اگر تم لفٹ سے زمین کی طرف دیکھو گے تو یقیناً وہ تمہارے نیچے ہوگی نا کہ اوپر جیسا کہ یہ لوگ دعوی کر رہے ہیں.. راکٹ کے ذریعے چاند پر جانا بالکل لفٹ کے ذریعے چاند پر جانے کی طرح ہے.. اب تو تمہیں یقین آگیا نا.؟

فہیم کہتا ہے: پوری طرح نہیں، میں سائنسدانوں پر اتنی آسانی سے شک نہیں کر سکتا، علم ایک الگ چیز ہے جس کے ساتھ تم اپنی منطق کے ذریعے نہیں کھیل سکتے، اس میں ضرور کوئی راز ہے.

ابھی وہ اسی موضوع پر بحث کر ہی رہے تھے کہ فہیم کی نظر ڈاکٹر عبد القدیر پر پڑتی ہے جو ان کی طرف ہی آرہا ہوتا ہے، فہیم جلدی سے ان کی طرف بڑھ کر انہیں اپنے اور مراد کے درمیان ہوئی گفتگو سے آگاہ کرتا ہے اور اس کی درست وجہ جاننا چاہتا ہے.

ڈاکٹر صاحب اس کی طرف مسکرا کر دیکھتے ہوئے کہتے ہیں: اصل میں اگر آپ چاند پر یا دیگر سیاروں پر چلے جائیں یا آسمان میں جتنی بھی بلندی پر پہنچ کر ستاروں کے درمیان گھومیں آپ کو کائنات میں اپنے نیچے کچھ نظر نہیں آئے گا.. آپ کو ہر چیز اپنے اوپر نظر آئے گی.. یعنی اگر کائنات کے کسی سیارے میں کوئی سمجھدار مخلوق ہوتی جو ہمیں اپنے سر کے اوپر نظر آتے ہیں تو انہیں بھی ہماری زمین اپنے سر کے اوپر نظر آتی نا کہ نیچے جیسا کہ آپ کو لگ رہا ہے.. یہاں ظاہر باطن سے مختلف ہے.. آپ دونوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اوپر نیچے کا معاملہ نسبتی ہے جس کا انحصار کائنات میں اس جگہ پر ہے جس میں آپ موجود ہیں.

فہیم اور مراد ایک دوسرے کی طرف ایسے دیکھتے ہیں جیسے ان کے پلے کچھ نا پڑا ہو، یہ دیکھتے ہوئے صاحب اپنی بات آگے بڑھاتے ہیں: بظاہر ہمیں زمین چپٹی نظر آتی ہے، آپ اس میں جتنا مرضی گھوم لیں آپ کو اس کی گولائی نظر نہیں آئے گی حالانکہ تمام تر ثبوت اس بات کے گواہ ہیں کہ زمین گول ہے نا کہ چپٹی.. مگر ہم فرض کرتے ہیں کہ زمین چپٹی ہے اس صورت میں ہمیں یہ کہنا ہوگا کہ آسمان چپٹی زمین کی چھت ہے جس میں ہمارے اوپر ستارے اور سیارے بکھرے ہوئے ہیں جس طرح کمرے کی چھت میں پنکھا.. اس صورت میں اوپر نیچے کا مفہوم ہوگا اور پھر آپ کے اندازے درست ٹھہریں گے.

مگر زمین گول ہے، یعنی یہ ایک گول بال (فٹ بال) کی طرح کھلی فضاء میں معلق ہے، اور اس کے گرد ہر سمت میں ستارے، سیارے اور چاند پھیلے ہوئے ہیں جو کہ خود بھی گول ہیں اور یہ سب اپنی اپنی فضاء میں گھوم رہے ہیں.. اور چونکہ ستارے اور سیارے بشمول زمین کے چپٹی سطح کی بجائے گول ہیں چنانچہ کوئی بھی مخلوق ان میں سے کسی پر بھی کھڑی ہوجائے تو اسے ایسا لگے گا کہ ہر چیز اس کے اوپر ہے نا کہ نیچے جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں.. مزید وضاحت کے لیے ہم اپنی زمین ہی کی مثال لیتے ہیں.. قطبِ شمالی میں کھڑا کوئی شخص یہ کہے گا کہ اس کا سر اوپر کی طرف ہے، جبکہ قطبِ جنوبی میں کھڑا دوسرا شخص پہلے والے کو یقین دلائے گا کہ اس کا (قطبِ جنوبی والے کا) سر اوپر ہے.. نا کہ قطبِ شمالی میں کھڑے شخص کی نسبت نیچے.. اصل میں دونوں ہی حق بجانب ہیں کیونکہ اوپر اور نیچے ایک نسبتی معاملہ ہے.. یہی معاملہ دیگر گول سیاروں پر بھی لاگو ہوگا.. اسے سمجھنے کے لیے آپ تصور کریں کہ ہم اس زمین پر بالکل اس طرح کھڑے ہیں جیسے کہ کسی بال پر ہر طرف سے عمودی کیل ٹھکے ہوئے ہوں.

اصل میں ان تینوں کی بحث کافی طویل ہے، بہرحال ہمیں کائنات کو اپنے ارد گرد کے زمینی نقطہ نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے.

یہ درست ہے کہ آپ اپنی زمین کی نسبت سے اوپر اور نیچے کا لفظ استعمال کر سکتے ہیں، آپ جب کہتے ہیں کہ کتاب میز کے اوپر ہے اور جوتے بیڈ کے نیچے ہیں تو آپ نے ان کے مقام کا تعین ان کے اوپر یا نیچے کسی چیز کی نسبت سے کیا ہوتا ہے.. مگر آپ اوپر کہہ کر خاموش نہیں ہوسکتے، یا نیچے کہہ کر خاموش نہیں ہو سکتے، کیونکہ جب تک آپ تعین نہیں کریں گے اوپر نیچے کا کوئی مطلب نہیں ہوگا.. اسی طرح دائیں اور بائیں کا کوئی معنی نہیں ہوگا اگر آپ زمین پر اپنے چلنے کی سمت کا تعین نہیں کریں گے، اور اپنے سیارے میں اپنے کھڑے ہونے کی جگہ نہیں بتائیں گے.

اگر کوئی سوال کرے کہ: واہگہ بارڈر آپ کے دائیں طرف ہے یا بائیں طرف اور پھر خاموش ہوجائے، تو ایسے سوال کا آپ کو کوئی مطلب نظر نہیں آئے گا، سوال کو زیادہ واضح ہونا چاہیے کیونکہ دائیں اور بائیں قابلِ تبدیلی نسبتی مسئلہ ہے.. یعنی اگر آپ شمال سے جنوب کی سمت سفر کر رہے ہوں تو واہگہ بارڈر آپ کے بائیں طرف ہوگا اور کراچی سے پشاور جاتے ہوئے یہ آپ کے دائیں طرف ہوجائے گا.

اگرچہ پاکستان میں سفر کرنے والے کے لیے یہ درست ہے تاہم بھارت میں سفر کرنے والے کسی مسافر کے لیے یہ درست نہیں ہوگا.. کیونکہ جنوب کی سمت سفر کرتے ہوئے واہگہ بارڈر اس کے دائیں طرف ہوگا جبکہ پاکستان میں جنوب کی سمت سفر کرنے والے کے لیے یہ بائیں طرف ہوگا..

چنانچہ دائیں مطلق نہیں ہے اور نا ہی بائیں.. بالکل اوپر نیچے، شمال و جنوب، مشرق اور مغرب کی طرح.. یہ سب نسبتی چیزیں ہیں..

سورج غروب ہوتے وقت جب ہم یہ کہتے ہیں کہ سورج غروب ہوگیا ہے (اصل میں زمین کے اپنے گرد چکر کی وجہ سے ہم غروب ہو رہے ہوتے ہیں) تو یہ صرف آپ کے موجودہ مقام اور نقطہ نظر سے درست ہے، مگر جو آپ کے لیے غروب ہے، وہ کسی اور کے لیے شروق ہوسکتا ہے.. اپنے سیارے کے جس حصہ میں آپ دن میں جی رہے ہوتے ہیں کوئی دوسرا گھپ اندھیرے میں ہوتا ہے.. ہر کوئی چیزوں کو اپنے ارد گرد کی نسبت سے دیکھتا ہے.

اگر آپ یہ قسم کھاتے ہیں کہ آپ کا وزن ساٹھ کلو گرام ہے تو آپ کی قسم جھوٹی ہے، ہاں اگر آپ بر وقت معاملے کو سمجھتے ہوئے اپنے وزن کو اپنے سیارے سے منسوب کردیں تو بات الگ ہے.. کبھی کبھی آپ کا کوئی وزن نہیں ہوتا اور کبھی آپ ٹنوں وزن کے حامل ہوتے ہیں.. اس کا انحصار اس جگہ پر ہے جہاں آپ اپنے میزان پر کھڑے ہیں..

اگر آپ اپنے ساتھ میزان لے کر خلاء میں چلے جائیں جہاں پر تجاذب معدوم ہوجاتا ہے تو آپ کا میزان آپ کا کوئی وزن ریکارڈ نہیں کرے گا، اگر آپ مریخ پر اپنا وزن کریں گے تو آپ کا وزن 22 کلو گرام ہوگا، مشتری پر 152 کلو گرام اور دوسرے بڑے اور ضخیم سیاروں پر آپ کا سینکڑوں ٹن وزن ہوسکتا ہے..!

چنانچہ آپ کا وزن نسبتی ہے جس کا انحصار اس بڑی کائنات میں آپ کے موجود ہونے کے مقام پر ہے جہاں تجاذب ہر جگہ مختلف ہوتا ہے.

آپ دفتر یا اپنے گھر میں اپنی کرسی پر بیٹھے ہیں، آپ کے گرد ہر چیز ساکن ہے، دیواریں، کرسیاں، برتن وغیرہ وغیرہ... لیکن حقیقت میں یہ سکون صرف ظاہری اور نسبتی ہے، کیونکہ پوری کائنات میں کوئی چیز ساکن نہیں ہے.. ہر چیز مسلسل حرکت میں ہے.. ذرے، لہریں، جاندار اور سمندر..

جس زمین پر آپ رہتے ہیں آپ کو ساکن لگتی ہے، آپ کو لگتا ہے کہ سورج مشرق و مغرب میں حرکت کر رہا ہے.. لیکن یہاں ظاہر حقیقت کی عکاسی نہیں کرتا.. کیونکہ دراصل زمین سورج کے گرد حرکت کر رہی ہے اور اپنے گرد 1000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہے جس سے دن اور رات کا تسلسل بنتا ہے، پھر سورج کے گرد مدار میں 66 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چکر لگاتی ہے جس سے چاروں موسم تشکیل پاتے ہیں، تو ہم میں سے کون یہ سب حرکتیں محسوس کرتا ہے؟

یقیناً کوئی نہیں، زمین کی رفتار انتہائی منظم ہے، فضاء میں اس کی دوڑ حیران کن حد تک سلیس ہے، ہم زمین کی یہ تمام حرکات تب تک محسوس نہیں کر پائیں گے جب تک یہ کبھی اچانک رک نہ جائے، تب ہم اپنے آپ کو خلاء میں تیزی سے اڑتا ہوا پائیں گے بالکل جس طرح کوئی تیزی سے چلتی گاڑی اچانک رک جاتی ہے اور اس میں بیٹھے لوگ اسی رفتار سے آگے کی طرف ایک زور دار جھٹکے سے بڑھتے ہیں.

سورج بھی 540 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنے نظام کے سیاروں کو ساتھ لیے کائنات میں دوڑا چلا جارہا ہے، حالانکہ ہم کوئی حرکت محسوس نہیں کرتے.. اور پھر سورج کے ساتھ ایک لاکھ ملین ستارے اور سیارے جو ہماری کہکشاں کا حصہ ہیں، ان ستاروں میں سے ہر ستارہ دوسروں کی نسبت اپنی کہکشاں میں ایک منظم رفتار سے حرکت میں ہے، اس لیے ہمیں اپنے ارد گرد ہر چیز ساکن نظر آتی ہے حالانکہ کائنات میں ثبات اور سکون نامی کوئی شئے نہیں ہے کہ:

ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں

ہماری کہکشاں کی طرح اربوں کھربوں کہکشائیں اور بھی ہیں جو اس عظیم کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں جس کی نہ ہمیں کوئی ابتدا نظر آتی ہے نہ انتہا.. ان کہکشاؤں میں سے ہر کہکشاں اپنے تمام ستاروں اور سیاروں کو اپنے ساتھ لیے ایک دوسرے سے ہزاروں میل فی سیکنڈ کے حساب سے دور جارہی ہیں.. مگر کہاں؟ .. خدا جانے..

چنانچہ کائنات ایک حرکتِ مسلسل میں ہے.. اس میں ہر چیز دوسرے کی نسبت حرکت میں ہے، اس پوری کائنات میں ہمیں کوئی ایک جگہ بھی سکون کی حالت میں نہیں مل سکتی جسے ہم غیر متحرک بنیاد بنا کر وہاں سے کائنات کا حقیقی مشاہدہ کر سکیں.

یہ وسیع فضاء جس میں لا محدود سیارے اور ستارے پھیلے ہوئے ہیں کوئی ساکن حدود نہیں رکھتی.. آپ اس میں ایسی کوئی چیز متعین نہیں کر سکتے جسے اوپر نیچے، دائیں بائیں، یا شمال وجنوب کہا جاسکے.. حالانکہ آپ یہ سب اپنی زمین پر متعین کر سکتے ہیں کیونکہ اس میں ابعاد، زمان ومکان محدود ہے.. اس میں جو بھی حرکت، رفتار یا واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں وہ اسی سے (زمین سے) منسوب ہیں اس لیے ہمیں ہر چیز معقول اور منطقی نظر آتی ہے.

* * *

واقعات کے سٹیج پر آئن سٹائن کی وضع کردہ نظریہ اضافیت نمودار ہوکر عجیب وغریب باتیں بتاتی ہے، عجیب اس لیے کہ اپنی زمینی زندگی میں ہم جن چیزوں کے عادی تھے یہ انہیں بدلنے کی کوشش کرتی ہے اور ہمارے دماغوں میں زمان، مکان، حرکت، مادہ، توانائی غرض کہ ہر چیز کا مفہوم بدلنے کی کوشش کرتی ہے.

دراصل نظریہ اضافیت ہمارے زمینی واقعات کا احاطہ نہیں کرتا، بلکہ یہ پوری کائنات کا احاطہ کرتا نظر آتا ہے، اور ہم پر اس کائنات کے راز آشکار کرتا ہے، مگر ہمارا دماغ اس کائنات کی حقیقت - جس کے ہم بہت ہی معمولی حصے میں رہتے ہیں - سمجھنے کے لیے تیار نہیں.

شاید آپ نے سنا ہوگا کہ پوری دنیا میں جو لوگ نظریہ اضافیت کو سمجھتے ہیں ان کی تعداد بارہ سے زیادہ نہیں (ایک اور قول میں تین !) .. اس قولِ شریف میں کافی مبالغہ ہے.. کیونکہ مسئلہ نظریے میں نہیں ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ نظریہ جن تعجب خیز امور کی پیشین گوئی کرتا ہے ہم انہیں ہضم نہیں کر پاتے.. نظریے نے ایسے امور کی پیشین گوئی کی ہے جنہیں "نا معقولات" کے زمرے میں شمار کیا جاسکتا ہے..

اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ نظریہ آئن سٹائن کے تخیل کی پرواز ہے، بلکہ اس کی اساس ٹھوس ریاضیاتی بنیادوں پر ہے جس میں آئن سٹائن نے اپنے ہم پیشہ و ہم مشرب سابقہ سائنسدانوں کی دریافتوں کو مدِ نظر رکھا ہے جیسے پوائن کارے، میکلسن اور مورلے، مینکوفسکی اور میکس پلانک.. وغیرہ، آئن سٹائن نے دوسروں سے خوب تر انداز میں اِس طرح اِس علمی ہیرے کو تراشا ہے کہ یہ فکرِ انسانی کے ماتھے کا روشن ستارہ بن گیا ہے، اور شاید ابھی آگے کی کئی نسلیں اس ہیرے کو مزید تراشیں گی اور ہمیں اُس حقیقت سے اور قریب کریں گی جس کی جستجو میں ہم ابھی تک پریشان ہیں.

نظریہ اضافیت دو مرحلوں میں ہمارے سامنے آیا، پہلی بار 1905ء میں جسے خصوصی یا محدود نظریہ اضافیت کا نام دیا گیا، اور پھر دوسرے مرحلے میں یہ 1916ء میں عمومی نظریہ اضافیت کے نام سے پیش کیا گیا، یعنی یہ زیادہ جامع اور شامل ہے .. ہم یہاں صرف خصوصی نظریہ اضافیت پر ہی بات کریں گے.

دراصل جس زبان میں یہ دونوں نظریات منظرِ عام پر لائے گئے بہت ہی خاص زبان ہے، اگر آپ اس پر ایک نظر ڈالیں گے تو آپ کو یہ بے معنی اور بے لذت سے رموز ہی نظر آئیں گے، مگر اربابِ علم کے لیے یہ بہت معنی رکھتے ہیں، یہ زبان کلام وبیان کی ضرورت باقی نہیں چھوڑتی.. یہ ہے ریاضیاتی مساواتوں کی زبان جو کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھانے کی حقیقی زبان ہے، جیسے خدا نے بنیاد رکھ کر باقی کام ریاضی دانوں کے لیے چھوڑ دیا ہو، یوں لگتا ہے جیسے پوری کائنات پر ریاضی کی مساواتوں کی حکمرانی ہے، یا شاید ایک ہی مساوات جسے دریافت کرنا باقی ہو..

ہمارے سیارے کے کھربوں دماغوں میں سے جو آئے اور چلے گئے صرف چند دماغ ایسے ہیں جو علم وفن پر اپنے گہرے نقوش چھوڑنے میں کامیاب رہے اور انسانیت کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا.. ان میں سے ایک اہم نام البرٹ آئن سٹائن کا بھی ہے، جدید سائنس کی شاید ہی کوئی کتاب ہو جو اس سائنسدان کے ذکر سے خالی ہو، بلکہ عہدِ جدید کا کوئی بھی علمی مصنف اس کے اور اس کے پیش کردہ نظریہ اضافیت کے ذکر کے بغیر کچھ لکھ ہی نہیں سکتا، یہ وہ مشہورِ زمانہ نظریہ ہے جس نے آکر ہماری زمین کی ہر جانی پہچانی اور منطقی چیزوں کو بدل کر رکھ دیا.

یہ نظریہ کہتا ہے کہ زمان (وقت) ایک "بُعد" ہے جو سکڑ سکتا ہے اور کبھی کبھی کچھ خاص حالات میں رک بھی سکتا ہے! .. نظریہ کے مطابق ماضی حال اور مستقبل ایک نسبتی مسئلہ ہے.. کہ جو آپ کے لیے آنے والا کل ہوگا وہ کسی کے لیے گزشتہ کل ہوسکتا ہے.. نظریہ کہتا ہے کہ ابعاد محدود نہیں ہیں بلکہ یہ سکڑ بھی سکتے ہیں. اور یہ کہ مادہ توانائی ہے اور توانائی مادہ ہے، یعنی یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، کبھی مادہ فنا ہوکر ایسی توانائی میں تبدیل ہوجاتا ہے جو حضرت سلیمان کے تمام جنوں سے زیادہ خوفناک ثابت ہوسکتا ہے.. اور یہ کہ کائنات کی ہر چیز نسبتی ہے سوائے روشنی کے، یہی وہ واحد شئے ہے جسے "ثبات" نصیب ہے اور جس کی رفتار کبھی بھی کسی بھی صورت میں تبدیل نہیں ہوسکتی، چنانچہ آئن سٹائن نے اسے اپنے ریاضیاتی مساواتوں کی بنیاد بنایا جس کے بطن سے نظریہ اضافیت نمودار ہوا.

تو پھر چلتے ہیں اضافیت کے سفر پر.

ایتھر کی موجوں پر

ایتھر (ETHER) کا خیال کافی عرصہ تک سائنسدانوں کے دماغ پر چھایا رہا اور ان کے درمیان وجۂ بحث بنا رہا حتی کہ بیسویں صدی کے شروع میں اسے دفن کردیا گیا، ایک چھوٹے سے تجربہ سے ایتھر کے خیال کی وجہ سمجھتے ہیں.

بیٹری سے چلنے والا کوئی لیمپ اور ایک گھنٹی شیشے کے ایک بند جار میں رکھ دیں.. گھنٹی بج رہی ہے اور لیمپ جل رہا ہے، چنانچہ آواز بھی آرہی ہے اور روشنی بھی.

ایک وائکم پمپ سے شیشے کے جار میں سے ہوا خارج کرنا شروع کریں، جیسے جیسے شیشے کے جار میں ہوا کا دباؤ کم ہوتا جائے گا گھنٹی کی آواز بھی کم سے کم تر ہوتی جائے گی اور آخر کار بالکل ہی ختم ہوجائے گی (بشرطیکہ جار کے اندر ہوا کا کوئی وجود نہ رہے اور جار باہر کی ہوا کے دباؤ کی وجہ سے ٹوٹ نہ جائے) مگر روشنی بدستور آتی رہے گی جیسے اسے کوئی فرق ہی نہ پڑا ہو.. تو اس کا کیا مطلب ہوا؟

اس کا مطلب یہ ہے کہ ہوا ہی وہ ذریعہ ہے جو آواز کی لہروں کو منتقل کرتا ہے چنانچہ ہوا کے بغیر کوئی سماعت نہیں.. چاند پر آپ کا پڑوسی چاہے کتنی ہی زور سے آپ کو کیوں نہ بلائے آپ تک اس کی آواز کبھی نہیں پہنچے گی، کیونکہ چاند پر کوئی ہوا نہیں ہے جو آواز کی لہروں کو ہمارے کانوں تک منقل کر سکے (چاند اور خلاء میں خلاباز ریڈیو کی لہروں کے ذریعے ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہیں).

چنانچہ سائنسدانوں نے سوچا کہ اگر آواز کو منتقل کرنے کا ذریعہ ہوا ہے.. تو پھر روشنی کو منتقل کرنے کا بھی کوئی ذریعہ ہونا چاہیے، اس ذریعے کے بغیر روشنی ہم تک نہیں پہنچے گی اور کائنات ایک گھپ اندھیرے میں ڈوب جائے گی.

چنانچہ سائنسدانوں نے فرض کیا کہ یہ ایتھر ہے جو کائنات میں ہر جگہ پھیلا ہوا ہے حتی کہ خلاء میں بھی، مگر ہم اس کے وجود کو دریافت نہیں کر سکتے کیونکہ اس کی کوئی ایسی خوبیاں نہیں ہیں جو اسے ممتاز کر سکیں اور ہم پر اس کی حقیقت آشکار کر سکیں، اس کے با وجود روشنی کی منتقلی کے لیے اسے ہر جگہ موجود ہونا چاہیے.

یہی وہ خیال تھا جو سائنسدانوں کو سوجھا.. ہوا کے بغیر سماعت نہیں، اور ایتھر کے بغیر بصارت نہیں.. کہ دونوں کو منتقلی کے لیے کوئی ذریعہ چاہیے بالکل جیسے پانی کے بغیر موجیں نہیں، کیونکہ پانی ہی وہ ذریعہ ہے جس میں اس کی موجیں پھیلی ہوئی ہوتی ہیں کہ:

موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

سائنسدانوں نے اسے دریافت کرنے کے لیے تمام تر علمی طریقے استعمال کیے، مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا، کیونکہ اگر ایتھر کائنات کے خلاء میں پایا جاتا تو پھر کائنات میں وہی ایک "ساکن" چیز ہوتا.. یعنی ساکنِ مطلق جو کبھی کوئی حرکت نہ کرے.. تو اگر ایتھر ایسا ہی ہے تو اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ ہماری زمین اور کائنات کے دیگر تمام سیارے اور ستارے اسی کے اندر حرکت کر رہے ہیں اور اسے مضطرب کر رہے ہیں بالکل جیسے کوئی کشتی پانی کی سطح پر ہلچل مچا دیتی ہے.

مگر جب آپ پانی پر چلتی کسی کشتی میں بیٹھ کر کشتی کے اندر دیکھتے ہیں تو آپ یہ نہیں جان پاتے کہ کشتی حرکت (چل) کر رہی ہے یا نہیں، اس کے لیے آپ کو پانی کو دیکھنا ہوگا یا پانی میں کوئی ڈنڈا ڈبونا ہوگا اور جب آپ کو کشتی (یا ڈنڈے) کے راستے میں پانی ہٹتا ہوا نظر آئے گا تب آپ کو پتہ چلے گا کہ کشتی حرکت کر رہی ہے.

مگر فہیم کو کچھ تکلیف ہے، وہ کہتا ہے: ہمیں کیا پتہ کہ یہی درست ہے؟ .. کیا یہ ممکن نہیں کہ کشتی رکی ہوئی ہو اور پانی حرکت کر رہا ہو؟

دراصل دونوں باتیں درست ہیں.. یہ جاننے کے لیے کہ کشتی حرکت کر رہی ہے یا پانی، آپ کو کنارے پر کسی ساکن چیز کو دیکھنا ہوگا تاکہ آپ یہ جان سکیں کہ کشتی اس کی نسبت حرکت کر رہی ہے یا نہیں.

ایسی ہی باتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انیسویں صدی کے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ اگر ایتھر موجود ہے اور زمین اس کے اندر 66 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سورج کے گرد گردش کر رہی ہے تو اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ اس سے ایتھر میں لہریں پیدا ہوں گی بالکل جس طرح پانی کی سطح پر کشتی کے چلنے کی وجہ سے پانی میں لہریں پیدا ہوتی ہیں یا کوئی تیزی سے دوڑتی ہوئی گاڑی ہوا کو چیرتے ہوئے اس میں اضطراب پیدا کرتی ہے، مگر پانی یا ہوا کی موجوں کی طرح ہم یہ "ایتھری اضطراب" دریافت نہیں کر سکتے کیونکہ وہ زمین کی حرکت کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں کرتا اور زمین اس کے اندر سے ایسے گزر جاتی ہے جیسے بادِ نسیم درختوں سے!

سائنسدان ایتھر کو دریافت کر کے دراصل اس کی نسبت سے زمین (اور دیگر سیاروں) کی رفتار ناپنا چاہتے تھے، کیونکہ کائنات میں صرف وہی ایک ممکنہ ساکن شئے ہوسکتی تھی، یعنی سیاروں کی اس کے اندر حرکت سے اس میں کوئی حرکت پیدا نہیں ہوتی، چنانچہ زمین کی مطلق رفتار معلوم کرنے کے لیے اسے کسی ایسی شئے سے منسوب کرنا لازمی ہے جو مطلق ساکن ہو، اور چونکہ کائنات میں ہمیں کوئی ایک شئے بھی ساکن حالت میں نہیں مل سکتی، اس لیے زمین کی رفتار ہمیشہ متحرک چیزوں سے منسوب رہتی ہے، اور ساکن ایتھر ہی وہ واحد امید ہے جو اس میں زمین کی مطلق رفتار بتا سکتا ہے.. مگر .. اسے کس طرح دریافت کیا جائے؟

ہم تصور کرتے ہیں کہ زمین ایتھر میں اس طرح تیر رہی ہے جیسے مچھلی پانی میں تیرتی ہے، کسی خاص معینہ وقت میں مچھلی جو مسافت موجوں کے خلاف (برعکس) چلتے ہوئے طے کرے گی وہ اس مسافت سے کم ہوگی جو اسی وقت میں وہ موجوں کے ساتھ تیرتے ہوئے طے کرے گی.

ایسے ہی ایک تصور کو مدِ نظر رکھتے ہوئے امریکی سائنسدان میکلسن نے ایک حساس آلہ تیار کیا، اس آلے کا کام تھا ایتھر میں روشنی کی رفتار ناپنا جبکہ زمین اس کی طرف بڑھ رہی ہو، اور پھر تب ناپنا جب زمین اس سے دور جا رہی ہو، تو اگر ایتھر میں زمین کی حرکت کی وجہ سے کوئی ارتعاشی یا اضطرابی لہریں پیدا ہوتیں تو یقیناً اس میں (ایتھر میں) روشنی کے زمین کی طرف آنے اور جانے کی رفتار میں فرق ہوتا.

چلیے اسے ایک مثال سے واضح کرتے ہیں، روشنی کی رفتار 186 ہزار میل فی سیکنڈ ہے.. ہم فرض کرتے ہیں کہ زمین ایتھر میں ہزار میل فی سیکنڈ (در حقیقت اپنے مدار میں زمین کی رفتار 18.5 میل فی سیکنڈ ہے،ہم نے آسانی کے لیے فرض کیا ہے کہ زمین کی رفتار 1000 میل فی سیکنڈ ہے تاکہ عدد کا کوئی مطلب بن سکے) کی رفتار سے حرکت کر رہی ہے، اس صورت میں اہلِ زمین کے لیے روشنی کی رفتار 185 ہزار میل فی سینکڈ ہوگی جب ایتھر میں روشنی زمین کی حرکت کی سمت سفر کرے گی.. لیکن اگر روشنی زمین کی حرکت کے برعکس سفر کر رہی ہو تب اس کی رفتار 187 ہزار میل فی سیکنڈ ہوگی.

یہاں ہم زیادہ علمی تفصیل میں نہیں جانا چاہتے، ہمیں میکلسن اور بعد میں میکلسن اور مورلے کے تجربے کا نتیجہ ہی کافی ہے.. انہوں نے پایا کہ روشنی کی رفتار کبھی تبدیل نہیں ہوتی، اور نا ہی یہ ایتھر میں سفر کے دوران زمین کی حرکت سے متاثر ہوتی ہے.

جب 1887ء میں میکلسن اور مورلے نے اس نتیجے کا اعلان کیا تو علمی حلقے نہ صرف حیران رہ گئے بلکہ سائنسدانوں کے عقیدے بھی متزلزل ہوگئے.. تجربہ کئی بار دہرایا گیا، حتی کہ یہ اتنا حساس کردیا گیا کہ اگر زمین کی حرکت ایک میل فی سیکنڈ بھی ہوتی تب بھی تبدیلی دریافت کر لی جاتی.. حالانکہ زمین کی رفتار 18.5 میل فی سیکنڈ ہے.. اس کے با وجود نتیجہ ایک ہی رہا.. یعنی ایتھر میں روشنی کے آنے یا جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا.

یہاں تک ایتھر کا تصور اپنی تمام تر لہروں اور اضطرابات کے ساتھ زمیں بوس ہوجاتا ہے.. ساتھ ہی سائنسدان ایک اور ٹینشن میں پڑ جاتے ہیں.. صرف اس لیے نہیں کہ ایتھر کا کوئی وجود نہیں، بلکہ اس لیے بھی کہ میکلسن اور مورلے کے اس اہم تاریخی تجربے نے ایک اور عجیب حقیقت دریافت کر لی جو ہماری زندگی میں ہر منطقی چیزوں کے برخلاف تھی.. وہ یہ کہ کائنات میں ہر مشاہدہ کرنے والے کے لیے روشنی کی رفتار وہی رہتی ہے.. یہ اپنے چھوڑنے جانے کے مصدر کی حرکت سے کبھی متاثر نہیں ہوتی.. اس کی ہم اگلے باب میں وضاحت کریں گے.

ایتھر کے نظریے کو بچانے کے لیے دو سائنسدان اپنے اپنے طور پر سامنے آئے، یہ تھے لیڈن یونیورسٹی سے ہینڈرک لورینٹز اور ڈبلن یونیورسٹی سے فیٹزجیرلڈ، کچھ ریاضیاتی مساواتوں سے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ بہت زیادہ رفتار سے حرکت کرنے والی کوئی بھی شئے حرکت کی سمت میں سمٹنا شروع ہوجائے گی.. رفتار جتنی بڑھے گی.. وہ اتنا ہی سمٹے گی.. انہوں نے کہا کہ قلیل مقدار میں یہی سمٹاؤ میکلسن اور مورلے کے آلے کے ساتھ ہوا جس کی وجہ سے وہ ایتھر میں زمین کی حرکت کی وجہ سے روشنی کی رفتار کا فرق نہیں ناپ سکے (اس سمٹاؤ کی بعد میں وضاحت کی جائے گی).

جیسے ایک بار پھر ہم یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہوں کہ ایتھر موجود ہے اور روشنی کی رفتار حرکت سے متاثر ہوتی ہے.. یہاں ہم ایک متضاد بند راستے تک پہنچ جاتے ہیں..

کس پر یقین کریں؟ .. کیا میکلسن اور مولے پر یقین کریں جن کا تجربہ قطعی طور پر یہ ثابت کرتا ہے کہ روشنی کی رفتار کسی بھی صورت میں تبدیل نہیں ہوتی؟ .. یا فیٹزجیرلڈ اور ہینڈرک لورینٹز پر یقین کریں جنہوں نے اپنی مساواتوں سے ثابت کیا کہ چیزیں زیادہ رفتار پر سکڑنا شروع ہوجاتی ہیں؟

در حقیقت دونوں باتیں درست ہیں..! جیسے ہم معاملے کو مزید پیچدہ کر رہے ہوں.

انیسویں صدی تمام ہوتی ہے، اور کوئی اس تضاد کا عقدہ حل نہیں کر پاتا، اس کے پیچھے ایک بہت بڑا راز تھا جسے بیسویں صدی کے شروع میں صرف 26 سال کی عمر میں البرٹ آئن سٹائن نے دریافت کر ڈالا.

آئن سٹائن کی آمد سے پہلے مروجہ متضادات نظریات اور بحث پر ایک نظر ڈالنی ضروری تھی.. اضافیت کا تصور آئن سٹائن کی آمد سے پہلے ہی جانا پہچانا تھا.. جرمن طبیعات دان ہیرمن مینکوفسکی اس کی طرف اشارہ کر چکے تھے جو زیورخ یونیورسٹی میں آئن سٹائن کے استاد تھے اور شاگرد کو اس سے روشناس کرا چکے تھے، مگر استاد وہ دریافت نہ کر سکا جو اس کے شاگرد نے دریافت کر دکھایا تاہم اس کا سہرا استاد کی سوچ کو ہی جاتا ہے، آئن سٹائن نے استاد کو کریڈٹ دیتے ہوئے کہا تھا: "یہ امر افسوس ناک ہے کہ اضافیت کی پیدائش سے ایک دن پہلے ہی مینکوفسکی مر گئے".

آئن سٹائن کی شروعات

دوسروں نے جہاں اپنا کام ختم کیا آئن سٹائن نے وہیں سے ابتدا کی، اس نے میکلسن اور مورلے کی دریافت کو بنیاد بناکر بتایا کہ کائنات میں صرف روشنی کی رفتار ہی مطلق ہے.. یعنی کائنات میں ہر مشاہدہ کرنے والے کے لیے یہ ہمیشہ 186 ہزار میل فی سینکڈ سے ہی چلتی ہے، اور نا ہی یہ اپنے مصدر کی رفتار سے متاثر ہوتی ہے.. گویا یہی وہ کائناتی ساکن ہے جسے کبھی بدلا نہیں جاسکتا.

یہاں کوئی کہہ سکتا ہے کہ روشنی کی رفتار پانی یا شیشے میں سے گزرتے وقت سست پڑ جاتی ہے، تو پھر آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اس کی رفتار مطلق ہے؟

یہ درست ہے.. لیکن روشنی کی ایک عجیب صفت یا خوبی یہ بھی ہے کہ یہ اگر کسی چیز میں سے گزرتے وقت سست پڑ بھی جائے تو اس سے نکلتے ہی یہ اپنی اصل رفتار بحال کر لیتی ہے.. ہمارا مطلب یہ ہے کہ روشنی کی رفتار فضاء یا خلاء میں ہمیشہ مطلق رہتی ہے.. اور کائناتی فضاء اتنی بڑی ہے کہ جس کا تصور ہی محال ہے.

لیکن فہیم کے پیٹ میں ابھی بھی کافی تکلیف ہے، وہ کہتا ہے: آپ اور آپ جیسے بے وقوف ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ روشنی کی رفتار مطلق ہے، مگر میں - اپنے تجربے اور معلومات کی بنیاد پر - کہتا ہوں کہ روشنی 186 ہزار میل فی سینکڈ کی رفتار سے زیادہ یا کم پر سفر کر سکتی ہے..

فہیم ایک مثال دیتے ہوئے کہتا ہے: فرض کرتے ہیں کہ ایک ایٹمی راکٹ (جیسے اورین) پچاس ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے خلاء میں سفر کر رہا ہے، اور کائنات کے کسی مقام پر کوئی مشاہدہ کرنے والا اس کی یہ رفتار ناپتا ہے.. پھر ہم فرض کرتے ہیں کہ اس راکٹ کے اندر خلاباز نے راکٹ کے اڑنے کی سمت ایک ٹارچ جلائی ہے.. اس صورت میں روشنی راکٹ سے نکلتے ہوئے 186 ہزار میل فی سینکڈ کی رفتار سے سفر کرے گی، لیکن مشاہدہ کرنے والے کو کچھ اور نظر آئے گا.. چونکہ روشنی ایک ایسے راکٹ سے نکل رہی ہے جو پچاس ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کر رہا ہے چنانچہ مشاہدہ کار دو رفتاریں ریکارڈ کرے گا.. روشنی کی رفتار اور راکٹ کی رفتار.. اسے لگے گا کہ روشنی اس کی اور راکٹ کی رفتار سے سفر کر رہی ہے، یعنی وہ روشنی کی جو رفتار ریکارڈ کرے گا وہ کچھ یوں ہوگی:

186000 + 50000 = 236000 میل فی سیکنڈ.. تو اس پر آپ کیا فرمائیں گے؟

اور پھر اس پر آپ کیا کہیں گے کہ روشنی کی رفتار 186000 میل فی سیکنڈ سے کم بھی ہوسکتی ہے؟ فہیم ایک اور دلیل دیتا ہے: اگر روشنی راکٹ کے پیچھے سے چھوڑی جائے یعنی راکٹ کے سفر کی سمت کے برعکس.. اس صورت میں خلاء میں موجود مشاہدہ کار روشنی کی رفتار یوں ریکارڈ کرے گا:

186000 - 50000 = 136000 میل فی سیکنڈ.. یعنی ہمیں لازماً راکٹ کے آگے بڑھنے کی رفتار کو اس کے پیچھے سے نکلنے والی روشنی کی رفتار سے منفی کرنا ہوگا.

اگرچہ فہیم نے جو کچھ پیش کیا ہے وہ کافی معقول اور منطقی ہے، تاہم فہیم کو ہمارا جواب یہ ہے کہ فضاء میں روشنی کی رفتار ہر مشاہدہ کار کے لیے ایک ہی رہے گی، یعنی یہ 186000 میل فی سیکنڈ سے نا تو بڑھی گی اور نا ہی کم ہوگی چاہے اس کے مصدر کی رفتار اور روشنی کی سمت کچھ بھی ہو.

فہیم یقین دلاتا ہے کہ اتنی لمبی تو قصے کہانیوں میں بھی نہیں چھوڑی جاتی..!! پھر کہتا ہے: تو کیا اس کا مطلب ہے کہ ہم نے آنکھوں سے جو کچھ دیکھا اور اپنی آلات سے جو کچھ ریکارڈ کیا وہ غلط ہے، حالانکہ تمام تر علمی اور زمینی تجربات اور مشاہدات اس کی تائید کرتے ہیں؟

فہیم اپنا نقطۂ نظر واضح کرنے کے لیے ایک اور مثال دیتے ہوئے کہتا ہے: فرض کریں ایک ٹرین پچاس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر رہی ہے، اس میں ایک مجرم بھی ہے جس کے پاس ایک گن ہے جس سے وہ بوگی کے آخر میں بیٹھے ایک شخص پر فائرنگ کرتا ہے، گولیاں دو سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اس کی گن سے نکلتی ہیں اور اس آدمی کے سینے میں پیوست ہوکر اسے ہلاک کردیتی ہیں.. تو کیا پیچھے جاتی گولیوں کی رفتار آگے بڑھتی ٹرین کی رفتار سے متاثر ہوں گی؟

اصل میں یہاں فہیم کے سوال کا کوئی مطلب نہیں ہے، اسے زیادہ واضح ہونا چاہیے.. گولیوں کی رفتار کس کی نسبت سے؟ .. کیا ٹرین میں بیٹھے لوگوں کی نسبت سے یا باہر زمین پر کھڑے کسی شخص کی نسبت سے جو یہ واقعہ ریکارڈ کر رہا ہے؟

ٹرین کے سوار اور گولی چلانے والا بھی، سب ہی ٹرین میں گولیوں کی رفتار دو سو میل فی گھنٹہ ہی ریکارڈ کریں گے، اب چاہے گولیاں ٹرین کے چلنے کی سمت چلائی جائیں یا اس کے برعکس گولیوں کی رفتار ایک ہی رہے گی.. کیونکہ ٹرین کے جس میں ماحول میں لوگ زندگی گزار رہے ہیں، بالکل اس ماحول کی طرح ہے جس ماحول میں لوگ زمین پر زندگی گزارتے ہیں.. مطلب یہ ہے کہ اگر ٹرین خطِ مستقیم میں ایک خاص رفتار میں بغیر ہلے اور پٹری پر آواز کیے بغیر چلتی چلی جائے تو اس صورت میں ٹرین کے مسافروں کو اس کی حرکت محسوس ہی نہیں ہوگی، ما سوائے اگر وہ زمین کو یا زمین پر کسی ساکن چیز کو دیکھیں تب انہیں وہ ان کی نسبت حرکت کرتی ہوئی نظر آئے گی.. آپ اس ٹرین میں کرکٹ بھی کھیل سکتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح آپ زمین پر کھیلتے ہیں، مکھی بھی ٹرین کے ماحول میں بالکل اسی طرح اڑتی پھرے گی جس طرح وہ زمین کے ماحول میں اڑتی پھرتی ہے، اور اگر آپ اوپر کی طرف اچھل کر کچھ لمحوں کے لیے ٹرین کے فرش سے دور رہ سکیں تو ٹرین کا فرش آپ کے نیچے سے نہیں کھسکے گا.. آپ کو اس ٹرین میں ہر چیز بالکل سادہ اور منطقی نظر آئے گی کیونکہ ہر چیز نے ٹرین کی رفتار پکڑ لی ہوگی.. بالکل اسی طرح جس طرح ہم اپنے مدار میں تیزی سے سفر کرتی زمین کی رفتار پکڑ لیتے ہیں اور ہمیں اس کی حرکت محسوس ہی نہیں ہوتی، لیکن ٹرین سے باہر کھڑے کسی شخص کے لیے معاملہ مختلف ہے جو یہ واقعہ ریکارڈ کر رہا ہے.. کیونکہ ایک ٹرین ہے جو زمین کی یا اس کی نسبت پچاس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے حرکت کر رہی ہے، اور ٹرین میں، ٹرین کے سفر کی سمت کے برعکس دو سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلائی گئی مجرم کی گولی بھی ہے.. جسے جب ٹرین سے باہر زمین پر کھڑا شخص دیکھے گا تو اسے لگے گا کہ جیسے گولی نے اپنی کچھ رفتار کھو دی ہے، اور اگر وہ گولی کی رفتار ریکارڈ کر سکا تو وہ گولی کی رفتار 150 میل فی گھنٹہ ریکارڈ کرے گا، جبکہ اگر ٹرین میں گولی آگے کی طرف یعنی ٹرین کے سفر کی سمت چلائی جاتی تو زمین پر کھڑا شخص اس کی رفتار 250 میل فی گھنٹہ ریکارڈ کرتا، کیونکہ دونوں یعنی گولی اور ٹرین زمین کی نسبت آگے کی طرف دو سو میل گولی اور پچاس میل ٹرین کے لیے فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر رہی ہیں.. زمین پر کھڑے شخص کو یہ دونوں رفتاریں شامل کرنی ہوں گی.

یہاں فہیم جیت کی خوشی سے ہاتھ ملتے ہوئے کہتا ہے: آپ کی سمجھ نہیں آتی! .. آپ نے ٹرین اور گولی کی جو صورتحال بیان کی ہے وہ اس حالت سے مختلف نہیں ہے جو میں نے راکٹ اور اس سے نکلتی روشنی کے حوالے سے بیان کی تھی، اور اس مشاہدہ کار کی جو خلاء میں اس واقعے کو ریکارڈ کرتا ہے.. میں نے ایک ہی سمت میں راکٹ کی رفتار کو روشنی کی رفتار میں شامل کردیا، بالکل جس طرح آپ نے زمین پر کھڑے شخص کی نسبت ایک ہی سمت میں گولی کی رفتار کو ٹرین کی رفتار میں شامل کردیا.. تو پھر اس بے معنی فلسفے کا کیا مطلب ہے؟

فہیم نے جو کچھ کہا ہے وہ قطعی درست اور منطقی ہے.. اس کے اندازے نپے تلے اور جانے پہچانے ہیں جنہیں ہم ہمیشہ زمین پر حرکات اور رفتاروں کو ناپنے میں استعمال کرتے ہیں.. بلکہ چاند کے سفر پر جاتے ایک راکٹ کے لیے بھی ہم یہی طریقہ استعمال کرتے ہیں.. اس کے با وجود کائنات میں کہیں سے بھی دیکھنے والے کے لیے روشنی کی رفتار پھر بھی ایک ہی رہے گی.. ہمیں اپنے زمینی حساب کتاب کو اپنی مرضی سے کائنات کے معاملات پر لاگو نہیں کرنا چاہیے، اگر ہم ایسا کریں گے تو کائنات کے بہت سے پیچیدہ رازوں سے کبھی پردہ نہیں اٹھا پائیں گے.

تو کیا ہم جس تضاد میں پڑ گئے ہیں اس کی کوئی تشریح ہے؟

در حقیقت کوئی تضاد ہے ہی نہیں.. حالانکہ تمام شواہد اس تضاد کی طرف ہی اشارہ کرتے ہیں.. دراصل ہم نے وقت (زمان) کے "سمٹاؤ" کو مدِ نظر نہیں رکھا.. اگر کائناتی مشاہدہ کار تیزی سے سفر کرتے ہوئے راکٹ کا وقت ریکارڈ کرتا تو اسے پتہ چلتا کہ راکٹ کا وقت اس کے وقت کی نسبت سے سست ہے، یہ ان بنیادی باتوں میں سے ایک ہے جس پر نظریہ اضافیت کھڑا ہے، یہ اس تضاد کا عقدہ حل کرتا ہے جس کے جال میں ہم روشنی کی رفتار کے حوالے سے انجانے میں پھنس گئے، اس پر ہم بر وقت بات کریں گے.

روشنی کی رفتار کا مستقل یا مطلق ہونا ان دو بنیادی مفروضوں میں سے ایک ہے جس پر نظریہ اضافیت کھڑا ہے، اس کے آنے سے پہلے جو نتائج تھے وہ وہی ہیں جو نظریہ اضافیت کے بارے میں جاننے سے پہلے فہیم کے ہیں.

دوسری عجیب بات جو نظریہ اضافیت ہمیں بتاتا ہے وہ یہ ہے کہ کائنات میں کوئی بھی شئے ایسی نہیں ہے جو روشنی کی رفتار سے زیادہ تیزی سے سفر کر سکے، اور نا ہی کوئی مخلوق یا مادی شئے کوئی ایسی خاص حالت ریکارڈ کر سکتی جس کے نتیجے میں اس نے روشنی سے زیادہ رفتار میں سفر کیا ہو.

یہاں فہیم کو پھر تھوڑی سی تکلیف ہوتی ہے، وہ کہتا ہے: ٹھیک ہے.. اگر سائنسدان ایک ایسا خلائی جہاز بنانے میں کامیاب ہوجائیں جو کئی مرحلوں پر مشتمل ہو اور ہر مرحلے میں اپنی رفتار بڑھاتا چلا جائے.. مثلاً پہلے مرحلے میں خلائی جہاز اپنے آگے کے مرحلوں کو دس میل فی سیکنڈ سے دھکیلتا ہے، پھر دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے جو اپنے آگے کے مرحلوں کو سو میل فی سیکنڈ کی رفتار سے دھکیلتا ہے، پھر تیسرا مرحلہ شروع ہو جو مثلاً ہزار میل فی سیکنڈ سے خلائی جہاز کو آگے بڑھائے اور اسی طرح رفتہ رفتہ ہم روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ کی رفتار حاصل کر لیں.. کیا اس میں کوئی قباحت ہے؟

بظاہر فہیم کا نقطہ نظر نظریاتی طور پر کافی معقول لگتا ہے، لیکن در حقیقت یہ عملی طور پر نا قابلِ عمل ہے بلکہ نظریاتی طور پر بھی.. کیونکہ خود فہیم یا پتھر یا خلائی جہاز یا ریت کا کوئی ذرہ یا کوئی بھی مادی شئے روشنی کی رفتار تک نہیں پہنچ سکتی کیونکہ کچھ بہت عجیب چیزیں وقوع پذیر ہونا شروع ہوجائیں گی جن پر بر وقت بات ہوگی.

مگر فہیم اپنی فہامت اور بلاغت سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں، وہ ہمیں ایک اور مثال دیتا ہے جسے ہم سب ہی اپنی زمینی زندگی میں آزماتے رہتے ہیں..

فہیم کہتا ہے: آپ جو عجیب وغریب باتیں ہمارے دماغ میں ٹھونسنا چاہتے ہیں وہ میں اس چھوٹی سی مثال سے رد کردوں گا.. فرض کریں کہ زید ایک ٹرین میں سوار ہے جو زمین یا زمین پر کھڑے کسی شخص کی نسبت اسی میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر رہی ہے.. دوسری متضاد سمت سے عبید بھی ایک ٹرین میں آرہا ہے جو زمین کی نسبت ایک سو بیس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر رہی ہے، تو سوال یہ ہے کہ عبید کی نسبت سے زید کی رفتار کیا ہے؟ .. متضاد سمت میں سفر کرنے والی دونوں ٹرینوں کی نسبت سے ہر کوئی دوسرے کی رفتار 200 میل فی گھنٹہ ریکارڈ کرے گا.. کیونکہ پہلا دوسرے کی نسبت 80 اور 120 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر رہا ہے چنانچہ ہمیں دونوں رفتاریں جمع کرنی ہوں گی..

تو آپ اس پر ہم سے متفق ہیں کیونکہ یہ ہم نے سکول میں پڑھا ہے.. تھوڑے سے استثناء کے ساتھ..

فی الوقت یہ چھوٹے موٹے استثناء ایک طرف رکھتے ہیں.. اور دونوں ٹرینوں کی حالت دو خلائی جہازوں پر لاگو کرتے ہیں، پہلا 80000 میل فی سیکنڈ سے سفر کر رہا ہے اور دوسرا اس کی طرف 120000 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے آرہا ہے، اس صورت میں ہر خلائی جہاز کی ایک دوسرے کی نسبت رفتار 200000 میل فی سیکنڈ ہوگی، اس طرح نسبتی رفتار روشنی کی رفتار سے کوئی 14000 میل زیادہ ہوگی.. اور آپ کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ ہم نے کوئی عجیب کام نہیں کیا ہے بلکہ ہائی سکولوں میں پڑھایا جانے والا ایک سیدھا سا ریاضیاتی مسئلہ لاگو کیا ہے.. اس پر آپ کیا فرمائیں گے؟

آپ کے درست حساب کتاب کے با وجود دونوں خلائی جہازوں کی ایک دوسرے کی نسبت رفتار 200 ہزار میل فی سیکنڈ نہیں ہوگی جیسا کہ ہم سب سمجھ رہے ہیں، بلکہ 155 ہزار میل فی سیکنڈ ہوگی اور یہ روشنی کی رفتار سے کم ہے!

اس پر فہیم ایک بار پھر کسمسا کر رہ جاتا ہے اور اسے نا ممکن قرار دیتا ہے کہ یہ ہمارے زمینی تجربے کے خلاف ہے، مگر جس تضاد میں ہم پڑے ہیں اس کی ایک وجہ تو زمان کا سست پڑنا ہے، اور دوسری وجہ اضافیت کی ایک مساوات ہے جو لازماً ہر رفتار کو روشنی کی رفتار سے منسوب کرتی ہے.

اگر آپ نے بڑی رفتاروں والا کلیہ لاگو کیا ہوتا جسے ہم روشنی کر رفتار سے منسوب کرتے ہیں تو آپ کو پتہ چلتا کہ عبید کی ٹرین کی نسبت سے زید کی ٹرین کی رفتار سو فیصد دو سو میل نہیں ہوگی، مساوات کہتی ہے کہ یہ نسبتی رفتار دو سو میل سے انچ کے دس لاکھویں حصے کے ایک حصے کے برابر کم ہے!

یہاں فہیم طنز کرتے ہوئے کہتا ہے: کیا یہ خردمندوں کی باتیں ہیں؟ .. اتنے کم فرق کو ہم کیسے ناپ سکتے ہیں؟

ہم فہیم کے اندازوں میں اس کے ساتھ ہیں، کیونکہ ہر زمینی رفتار چاہے وہ چاند یا مریخ پر جانے والے کسی خلائی جہاز کی ہی کیوں نہ ہو روشنی کی رفتار کے مقابلے میں کچھ نہیں.. زمین کی کششِ ثقل یا تجاذب سے بھاگنے کے لیے کسی خلائی جہاز کو کوئی سات میل فی سیکنڈ کی رفتار سے اڑنا ہوگا، اس کا موازنہ روشنی کر رفتار سے کریں جو 186 ہزار میل فی سیکنڈ ہے.. چونکہ ہم زمین پر بہت ہی سست رفتاریں استعمال کرتے ہیں اس لیے ہم کوئی غیر طبعی چیز نوٹ نہیں کرتے.. لیکن اگر یہی حساب کتاب ہم نے کائناتی تیز تر رفتاروں پر لاگو کیا تو ہم بہت سارے تضادات میں پڑ جائیں گے، ہم نے دیکھا کہ کس طرف فہیم بڑی آسانی سے اس غلطی کا شکار ہوگیا، اسے چاہیے تھا کہ وہ تیز رفتاروں سے متعلق اضافیت کی مساوات استعمال کرتا، یا اگر ہم فرض کرتے ہیں کہ ایک خلائی جہاز روشنی کی نوے فیصد 90% رفتار سے سفر کر رہا ہے، اور اس خلائی جہاز نے اپنے آگے کے حصے سے یا منہ سے ایک اور خلائی جہاز نکالا ہے جو کہ وہ بھی روشنی کی نوے فیصد 90% رفتار سے سفر کر رہا ہے.. اس وقت ہم شاید کہیں کہ: خلاء میں کسی مشاہدہ کار کی نسبت خلائی جہاز کی رفتار روشنی کی رفتار سے لازماً 1.8 مرتبہ زیادہ ہے.. اور یہ حساب کافی منطقی اور معقول ہے.. مگر سائنسدان کہتے ہیں کہ: اس خلائی جہاز کی رفتار روشنی کی رفتار کے 90% سے زیادہ کبھی نہیں بڑھے گی ناکہ روشنی کی 180% رفتار جیسا کہ ہم سمجھ رہے ہیں.

اگرچہ ہم جو کچھ جانتے ہیں اور نظریہ اضافیت جو کچھ کہتا ہے دونوں میں تضاد واضح ہے، تاہم اس تضاد کے راز سے ہم آگے چل کر پردہ اٹھائیں گے.. اب ہم وہ دوسرا مفروضہ پیش کریں گے جس پر آئن سٹائن نے نظریہ اضافیت کی بنیاد رکھی.

* * *

ہم نے آئن سٹائن کے اس پہلے مفروضے پر بات کی جسے اس نے میکلسن اور مورلے کے تجربے سے اخذ کیا اور کہا کہ روشنی کی رفتار ہمیشہ ایک ہی رہتی ہے.

دوسرا مفروضہ جو آئن سٹائن کا نصب العین رہا وہ یہ ہے کہ: کائنات کی ہر حرکت نسبتی ہے.. اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی کوئی بھی مخلوق کوئی بھی مطلق حرکت یا مطلق رفتار نہیں ناپ سکتی.. یعنی یہ رفتار کائنات کی دیگر تمام چیزوں کے مقابلے میں قابلِ تبدیلی نہ ہو یعنی ساکن یا ثابت ہو.. کائنات میں صرف روشنی کی رفتار کو ہی ثبات ہے.. ہم نے بتایا کہ کائنات میں ہر چیز ایک دوسرے کی نسبت زمان ومکان میں حرکت کر رہی ہے.

در حقیقت اضافیت کی "بو" آئن سٹائن کے آنے سے پہلے ہی سائنسدانوں کے درمیان پھیلنے لگی تھی، ایک طویل عرصہ پہلے نیوٹن اور گلیلیو نے حرکت کو موضوع بنایا، جو ریاضیاتی مساواتوں اور قوانین کی شکل میں آئیں اور آسمانی اجرام کی میکانیت اور ان کی ایک دوسرے کی نسبت حرکت کو مربوط کر گئیں، یہ مساواتیں زمین یا سورج یا دیگر ستاروں کی نسبت خلائی جہازوں کی حرکت کا حساب لگانے کے لیے اب بھی کارگر ہیں.. لیکن اگر انسان ایسے خلائی جہاز بنانے میں کامیاب ہوگیا جو روشنی کی رفتار کے آس پاس سفر کر سکیں تو اس وقت اسے اضافیت کی مساواتوں کا سہارا لینا پڑے گا کیونکہ دیگر مساواتیں اس ضمن میں کارگر نہیں ہوں گی.

در حقیقت ہماری زمین پر زمان ومکان اور حرکت کی اضافیت ہمیں قطعی کسی قسم کے مسائل کا شکار نہیں کرتی.. جب ہم کہتے کہ گاڑی پچاس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی ہے، جہاز ہزار میل، اور راکٹ سترہ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر رہا ہے تو اس میں ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ تمام رفتاریں اس زمین سے منسوب ہیں اور اسی سے وابستہ ہیں.. اس کے علاوہ کچھ نہیں.

آپ ٹرین یا گاڑی کی رفتار کا اندازہ ان ثابت یا ساکن چیزوں سے لگاتے ہیں جن سے آپ گزرتے ہیں یا جو آپ سے گزرتی ہیں، جیسے بجلی کے کھمبے، درخت، پیٹرول پمپ اور بذاتِ خود زمین.. ان سے گزرنا ہی آپ کو حرکت کا احساس دیتا ہے، مگر جہاز میں معاملہ کچھ مختلف ہے.. جب ہوائی جہاز بہت اونچائی پر چلا جاتا ہے تو جہاز کے مسافروں کو ایسا لگتا ہے جیسے یہ حرکت کر ہی نہیں رہا بلکہ زمین ہی اس کے نیچے آہستہ سے حرکت کر رہی ہے.

اس کا مطلب ہے اونچائی پر ہوا میں حرکت کا احساس اس احساس سے مختلف ہے جو زمین پر محسوس ہوتا ہے، کیونکہ ہوا میں کھمبے اور درخت نہیں ہیں اور نا ہی کوئی ایسی ثابت یا ساکن چیز ہے جو آپ کے پاس سے گزر کر آپ کو جہاز کی رفتار کا احساس دلائے.. آپ کو صرف بادل اور زمین انتہائی آہستگی سے حرکت کرتے نظر آتے ہیں.. زمین ہی ایک واحد چیز ہے جس سے آپ اپنی رفتار کو منسوب کر سکتے ہیں ایک ایسے احساس سے جو آپ کو زمین سے دور جانے پر کبھی کبھی دھوکہ دے دیتا ہے.

جس اضافیت کی ہم بات کر رہے ہیں وہ ان معاملات پر بحث نہیں کرتی جنہیں ہم اپنی زمین پر جانتے ہیں، بلکہ آئن سٹائن اپنی مساواتوں کے ذریعے کائنات کی مجموعی حرکت پر گھری نظر ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے اس کے رازوں تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے، وہ زمان ومکان، حرکت، مادہ، توانائی اور تجاذب کو ایک ایسے ریاضیاتی جال میں پرونا چاہتا ہے کہ شاید وہ کہیں کائنات کی حقیقت تک پہنچ سکے جو ایک واحد یونٹ ہے.

آپ زمین پر اپنے تمام تر احساسات کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں، لیکن وسیع تر خلاء میں زمان ومکان، حرکت وغیرہ کے تمام تر احساسات غائب ہوجاتے ہیں.

اگر فہیم زمین کی نسبت سے پچاس ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرنے والے کسی خلائی جہاز میں بیٹھ کر زمین سے دور نکل جائے تو کچھ ہی دنوں میں اپنے آپ کو ایک وسیع تر خلاء میں پائے گا جو زمین سے لاکھوں میل دور ہوگا، اس کے گرد ایسی کوئی چیز نہیں ہوگی جو اسے حرکت کا احساس دلائے چنانچہ اسے ایسا لگے گہ جیسے وہ قطعی حرکت نہیں کر رہا.. اب وہ چاہے کتنا ہی "فہیم" کیوں نہ بن جائے، وہ اوپر نیچے کے احساس کے معنی کھو دے گا (کس کی نسبت سے؟).. نا ہی اسے دائیں بائیں کا پتہ چلے گا اور نا ہی زمان ومکان کا.. کیونکہ خلاء کی کوئی حد نہیں ہے اور نا ہی سمتیں اور نا ہی زمان جیسا کہ ہماری زمین پر ہوتا ہے.. مثلاً زمین پر وقت کے احساس کی وجہ زمین کا اپنے محور کے گرد چکر ہے جس سے دن اور رات، گھنٹے اور مہینے بنتے ہیں وغیرہ..، اگر یہ حرکت نہ ہوتی تو ہماری زندگی میں زمان کے کوئی معنی نہ ہوتے.

فہیم اپنے ارد گرد نظر دوڑاتا ہے تو اسے تا حدِ نظر ستارے روشنی کے سے دھبوں کی طرح نظر آتے ہیں.. وہ اللہ سے آسانی کی دعا کرتا ہے کہ اچانک اسے شبانہ کا خلائی جہاز آہستہ آہستہ اس کے نزدیک آتا ہوا نظر آتا ہے، وہ سوچتا ہے: کیا میں رکا ہوا ہوں اور وہ دوڑ رہی ہے؟ .. شاید، یا کیا وہ اس سے زیادہ تیز رفتاری سے سفر کر رہی ہے؟ .. ہوسکتا ہے، یا کیا وہ رکی ہوئی ہے اور میں پیچھے کی طرف جا رہا ہوں.. کون جانتا ہے؟.

دراصل خلاء میں سب کچھ جائز ہے، خاص طور سے جبکہ کوئی ایسی "ساکن" چیز ان کے آس پاس نہیں ہے جو خلاء میں ان کی رفتار اور سمت متعین کر سکے.. وہ صرف اتنا جان سکتے ہیں کہ ان میں سے ایک دوسرے کی نسبت حرکت کر رہا ہے.. مگر ان میں سے کون رکا ہوا ہے اور کون حرکت کر رہا ہے یہ وہ جاننے سے قاصر رہیں گے، حالانکہ دونوں حرکت میں ہیں.. کیونکہ کائناتی فضاء میں حرکت کا کوئی مطلب نہیں ہے جیسا کہ ہماری زمین پر ہے.. ما سوائے اگر اسے آپ کسی دوسری چیز سے منسوب کریں.

دور کیوں جائیے کہ اس تجربے سے ہم اپنی زمین پر ہی گزرتے ہیں؟

کسی نہر کے اوپر بنے پل پر کھڑے ہوجائیے جس کے نیچے سے پانی کسی مخصوص رفتار میں بہہ رہا ہو، اور اسے غور سے دیکھنا شروع کیجیے، تھوڑی دیر میں آپ کو محسوس ہوگا کہ جیسے پانی رک گیا ہے اور پل حرکت کر رہا ہے.. لیکن آپ یہ خیال اپنے دماغ سے جھٹک دیں گے کیونکہ آپ کو پہلے ہی پتہ ہے کہ پل حرکت نہیں کر سکتا اور نہر کا بہتا پانی رک نہیں سکتا.

احساس کا یہ دھوکہ آپ اکثر ٹرین میں بیٹھے ہوئے بھی محسوس کرتے ہیں، آپ کی ٹرین کسی سٹیشن پر رکی ہوئی ہے، آپ کی ٹرین کے ساتھ ایک دوسری ٹرین کھڑی ہے، اگر وہ دوسری ٹرین سفر کا آغاز کرتے ہوئے آہستہ سے چلنا شروع کرے اور آپ اسے دیکھیں تو آپ کو لگے گا کہ جیسے آپ کی ٹرین حرکت کر رہی ہے اور دوسری ٹرین کھڑی ہے، اب حرکت میں کون ہے اس کا فیصلہ آپ تب تک نہیں کر سکتے جب تک آپ کسی ساکن چیز کو نہ دیکھ لیں جیسے پلیٹ فارم یا عمارتیں، ہمیں یقین ہے کہ جب بھی آپ کو ایسی کسی صورتحال کا سامنا ہوتا ہے تو آپ ایسا ہی کرتے ہیں.

خلاء میں فہیم اور شبانہ کا بھی یہی حال ہے.. ان کے قریب کوئی بھی ساکن چیز نہیں ہے (جیسا کہ سٹیشن میں ہے) جس سے وہ فیصلہ کر سکیں کہ ان میں سے رکا ہوا کون ہے اور حرکت میں کون ہے.. جب ہم کہتے ہیں کہ "رکا ہوا کون ہے" تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ان میں سے کوئی ایک بالکل بھی حرکت نہیں کر رہا، کوئی چیز ساکن نہیں ہوتی، ہر چیز حرکت میں ہوتی ہے چاہے ہمارے احساسات کو ایسا لگے کہ وہ ساکن ہے اور حرکت نہیں کر رہی، چنانچہ ہمیں ظاہر کو دیکھ کر کسی چیز پر فیصلہ نہیں کرنا چاہیے.

اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ خلاء میں حرکت اس وقت تک ظاہر نہیں ہوگی جب تک شبانہ کی رفتار فہیم کی رفتار سے مختلف نہیں ہوگی، اگر ان کی رفتار برابر ہوئی تو دونوں کو لگے گا کہ ان میں سے کوئی بھی حرکت نہیں کر رہا.. جب تک دور سے کوئی سیارہ ان کو قریب ہوتا ہوا نظر نہ آجائے اور وہ آہستہ آہستہ اس کے قریب ہوتے چلے جائیں، تب بھی انہیں یہ پتہ نہیں چلے گا کہ سیارہ ان کی طرف بڑھتا چلا آرہا ہے یا وہ اس کی طرف بڑھ رہے ہیں کیونکہ سب کچھ جائز ہے.

ستارے آسمان پر اپنے اپنے مقام پر آپ کو ساکن نظر آتے ہیں بلکہ ہر رات اسی مقام پر ہی نظر آتے ہیں.. لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ستارے حرکت نہیں کرتے.. بلکہ وہ اور ہم ایک دوسرے کی نسبت ایک منظم حرکت میں رہتے ہیں اس لیے ہمیں لگتا ہے کہ ہر چیز اپنی جگہ پر ہے.

اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہم کسی بھی طریقے سے مطلق حرکت کو نہیں ناپ سکتے ہیں اور نا ہی اسے ثابت کر سکتے ہیں، جب تک کہ اسے کسی ایسی ساکن چیز سے منسوب نہ کردیں جو قطعی حرکت نہ کرتی ہو.. اور چونکہ کائنات میں کوئی چیز ساکن نہیں ہے اور ہر کوئی ایک دوسرے کی نسبت حرکت میں ہے.. چنانچہ یہ کہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ ہر حرکت نسبتی ہے.

امید ہے کہ اب آپ کو ایتھر کا نظریہ اور سائنسدانوں کی اسے دریافت کرنے کی ناکام کوششوں کی وجہ سمجھ آگئی ہوگی، ممکنہ طور پر کائنات میں وہی ایک اکلوتی ساکن چیز ہوتی جسے بنیاد بناکر یا اس سے منسوب کر کے زمین کی سکون کی نسبت مطلق حرکت ناپی جاسکتی، مگر سائنسدانوں کی تمام تر کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئیں کیونکہ وہ شاید موجود ہی نہیں ہے.

انیسویں صدی کے بعض سائنسدانوں کے ذہن میں "قدرت کی سازش" کا خیال پنپنے لگا جو انہیں مطلق حرکت، مطلق معرفت، مطلق حقیقت یا کوئی بھی مطلق چیز دریافت کرنے سے روک رہی ہے!

دراصل جسے سائنسدان قدرت کی سازش سمجھ رہے تھے وہ قدرت کی مہربانی ہی تھی جسے سمجھنے کے لیے کسی مساوات کی ضرورت نہیں تھی، بلکہ سوچ کو ایک نئی جہت دینے کی ضرورت تھی، ان کی مثال ایک ایسے شخص سے دی جاسکتی ہے جو ایک ایسا آلہ بنانا چاہتا ہے جو اپنی حرکت کی طاقت سے پیدا کردہ توانائی سے تا قیامت چلتا رہے، اور جب وہ اس میں ناکام ہوجاتا ہے تو کہتا ہے کہ قدرت اس کے خلاف سازش کر کے اسے ایسا آلہ ایجاد کرنے سے روک رہی ہے، لیکن وہ بھول جاتا ہے کہ یہاں پر قدرت کے قوانین میں سے ایک قانون لاگو ہوتا ہے، توانائی کا قانون.. کیونکہ توانائی کی مدد کے بغیر حرکت پیدا نہیں کی جاسکتی چنانچہ یہاں سازش کا کوئی وجود نہیں.

آئن سٹائن آکر دماغوں پر چھائی اس مدھم تصویر کو واضح کرتا ہے اور انہیں بتاتا ہے کہ جسے وہ قدرت کی سازش سمجھ رہے تھے وہ دراصل قدرت کے قوانین کا ایک قانون ہے جو کہتا ہے "ہم کسی بھی تجربے سے کوئی بھی مطلق حرکت یا مطلق سکون ثابت نہیں کر سکتے" چنانچہ اس طرح نا تو ہم ایتھر کو دریافت کر سکتے ہیں اور نا ہی ہمیں اس کی ضرورت ہے.

آئن سٹائن نے نظریہ اضافیت کی مساواتیں دو بنیادی مفروضوں پر کھڑی کیں، حرکت کی اضافیت (نسبیت) اور روشنی کی رفتار جو کبھی تبدیل نہیں ہوتی، چنانچہ یہی رفتار اس کی ریاضیاتی عمارت کی بنیاد تھی کیونکہ یہی وہ اکلوتی مطلق اور ساکن چیز ہے.

تو جب ہم کہتے ہیں کہ حرکت نسبتی ہے تو اس کے پیچھے ایک گہرا ریاضیاتی مضمون ہے جو ایسی چیزیں واضح کرتا ہے جو ہم نے سوچی بھی نہیں ہوں گی.. مثلاً اگر فہیم اپنے ماحول میں (یا خلائی جہاز میں) شبانہ کے ماحول کی نسبت روشنی کی رفتار کے قریب سفر کرے تو اسے شبانہ کے ماحول میں عجیب چیزیں نظر آئیں گی.. ایسی چیزیں جو اگر وہ شبانہ کو بتا دے تو وہ اسے پاگل قرار دے گی، اسی طرح شبانہ کو بھی فہیم کے ماحول میں عجیب سی چیزیں نظر آئیں گی.. ہر کوئی دوسرے کی نسبت اپنی حرکت کے حساب سے، اسے ہم الگ باب میں بیان کریں گے.

رفتار اور سمٹاؤ

اضافیت کی ایک مساوات کی سب سے پہلی تعجب خیز حالت کو بیان کرنے کے لیے لازم ہے کہ ہم ایک "خیالی پلاؤ" پکائیں.. یعنی ایک تصوراتی سفر کریں، کیونکہ ریاضیاتی مساواتوں کی پیچیدگی سے بچنے کا یہی ایک اچھا اور آسان طریقہ ہے.

فرض کرتے ہیں کہ فہیم اور مراد دونوں ایک ایسے خلائی جہاز میں خلائی سفر پر نکل کھڑے ہوئے ہیں جس کی لمبائی (طول) بیس میٹر ہے، اس خلائی جہاز میں لمبائی، وقت اور مادے وغیرہ.. کو ناپنے کے کچھ ضروری آلات بھی موجود ہیں.. ساتھ ہی شبانہ اور فرزانہ بھی بالکل فہیم اور مراد کے خلائی جہاز سے مشابہت رکھتے ایک دوسرے خلائی جہاز میں خلائی سفر پر نکلی ہیں اور ان کے پاس بھی ہمارے زمینی معیار کے مطابق ناپنے کے وہی آلات موجود ہیں.

سب سے پہلے فہیم اور مراد کا خلائی جہاز سفر پر نکلتا ہے، اسے ایک منظم رفتار میں خطِ مستقیم پر چلنا چاہیے، یعنی بغیر مڑے یا رفتار کم یا زیادہ کیے.. کیونکہ یہی خصوصی نظریہ اضافیت کی شرط ہے.. یہی شرط شبانہ اور فرزانہ کے خلائی جہاز پر بھی لاگو ہوتی ہے.

اور کائناتی فضاء میں دونوں محترماؤں کا خلائی جہاز دونوں صاحبان کے خلائی جہاز سے 163 ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے آ ملتا ہے، یعنی روشنی کی تقریباً 90% فیصد رفتار سے.. اور جب فہیم شبانہ کے خلائی جہاز پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالتا ہے تو اسے شبانہ جہاز کے اگلے حصے میں لگے آئنہ کے سامنے کہڑی اپنا میک اپ ٹھیک کرتی نظر آتی ہے، جبکہ فرزانہ بیڈ پر لیٹی ہے اور اس کا سر جہاز کے سر کی طرف ہے، فہیم اپنی آنکھیں مسلتا ہے کیونکہ جو کچھ اسے نظر آرہا ہوتا ہے وہ انتہائی حیران کن ہے (یہاں ہم فرض کرتے ہیں کہ ہمارے یہ خلاباز "کائناتی آنکھیں" رکھتے ہیں جو طویل فاصلوں سے بھی بالکل ایسے دیکھ سکتے ہیں جیسے قریب کی کسی چیز کو دیکھتے ہیں) .. دونوں محترماؤں کے خلائی جہاز کی لمبائی پورے بیس میٹر تھی، لیکن اس جنونی رفتار میں اس کے پاس سے گزرتے ہوئے وہ سمٹ (یا سکڑ) کر صرف دس میٹر کا ہوگیا تھا، اور چونکہ وہ نظریہ اضافیت کے بارے میں کچھ نہیں جانتا چنانچہ اس کی "فہامت" جو کچھ وہ دیکھ رہا تھا اسے سمجھنے میں اس کے کسی کام نہیں آنے والی تھی.. اس نے مراد سے دیکھنے کے لیے کہا کہ شاید اسے نظر کا دھوکہ ہوا ہو، مراد نے دیکھتے ہی کہا: یا خدا.. یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں؟

مراد نے فہیم سے کہا کہ وہ شبانہ سے ریڈیو کے ذریعے رابطہ کر کے یہ دریافت کرے کہ ان دونوں کو کیا ہوا تھا، ممکنہ طور پر ان کے درمیان کچھ اس طرح کی گفتگو ہوئی ہوگی:

فہیم: ہیلو شبانہ .. کیا ہوا؟ .. مجھے تمہاری حالت بہت خراب نظر آرہی ہے؟

شبانہ (حیرت سے): یہ کیا کہہ رہے ہو؟ .. میں تو بالکل ٹھیک ہوں!

فہیم (ہنستے ہوئے): لیکن مجھے تمہاری ناک چپٹی اور چہرہ سکڑا ہوا نظر آرہا ہے.. تمہیں دیکھ کر ہنسی آرہی ہے.. تمہارا جسم بطخ کی طرح لگ رہا ہے جیسے..

شبانہ (بات کاٹتے ہوئے خود کو آئنہ میں دیکھتی ہے، اور جب اسے کچھ نظر نہیں آتا تو غصہ میں کہتی ہے): تم حسنِ نظر سے عاری انتہائی ذلیل آدمی ہو.. تم لوگ کبھی نہیں بدلوگے چاہے خلاء میں ہی کیوں نہ چلے آؤ!

مراد: تم فہیم کے ساتھ زیادتی کر رہی ہو شبانہ.. مجھے بھی تم ایسی ہی نظر آرہی ہو جیسا کہ فہیم نے بتایا ہے.

شبانہ (غصے سے): تم سب کمینے ہو.. اچھا یہ بتاؤ تمہیں فرزانہ کیسی نظر آرہی ہے؟

فہیم: بچی لگ رہی ہے.. اس کا لمبا قد سکڑ کر آدھا رہ گیا ہے.. اس کی لمبائی اور چوڑائی میں کوئی فرق نہیں رہا.. وہ بیڈ پر پڑی کوئی چھوٹی سی گڑیا لگ رہی ہے.. اور ہاں.. اس کا بیڈ بھی ایک میٹر کا لگ رہا ہے حالانکہ زمین پر اس کی لمبائی دو میٹر تھی.

شبانہ جلدی سے بیڈ کی لمبائی ناپتی ہے مگر وہ دو میٹر کا ہی ہوتا ہے.. وہ فرزانہ کی لمبائی ناپتی ہے مگر اسے اس کے قد میں کوئی کمی نظر نہیں آتی.. اس کے ارد گرد ہر چیز بالکل ٹھیک ہے، چنانچہ وہ ان دونوں سے بات کرتے ہوئے کہتی ہے: مجھے لگتا ہے تم دونوں پاگل ہوگئے ہو!

مراد: میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ جس سکیل سے تم نے فرزانہ اور اس کے بیڈ کا ناپ لیا ہے وہ بھی آدہا ہی رہ گیا ہے.. تمہارے پاس ہر چیز تقریباً آدھے حجم تک سکڑ گئی ہے.. تم بھی سکڑ کر چھوٹی ہوگئی ہو.. تمہارے سینے کے ابھار نے بھی اپنی رونق کھو دی ہے.. وہ بھی آدھے حجم تک سکڑ گئے ہیں، حتی کہ...

شبانہ (کاٹتے ہوئے): مراد تم بھی؟ .. لعنت ہو تم پر.. زمین پر اور خلاء میں بھی.

بہرحال.. شبانہ کسی بھی صورت میں دونوں حضرات کی باتوں پر کبھی یقین نہیں کرے گی.. اور شاید ہم بھی نہیں.. اب سوال یہ ہے کہ کیا شبانہ کے خلائی جہاز میں واقعی ہر چیز نصف حجم تک سکڑ گئی ہے؟ .. اصل میں اس سوال کا کوئی مطلب نہیں بنتا جب تک کہ ہم سوال زیادہ واضح نہ کریں.. سکڑ گئے کس کے لیے یا کس کی نسبت سے؟

شبانہ، فرزانہ یا ان کے گرد کسی چیز کی نسبت سے تو اسے کوئی غیر معمولی چیز نظر نہیں آئے گی، کیونکہ اس کے خلائی جہاز میں جو کچھ بھی اس کے ارد گرد ہے اپنی نسبت سے حرکت نہیں کر رہا ہے، اس لیے ہر چیز اس میں بالکل عام اور منطقی نظر آرہی ہے بالکل جیسے کہ زمین پر تھی، اور پھر اس جنونی رفتار میں حرکت کے با وجود اسے یہ احساس نہیں ہورہا ہے کہ وہ حرکت میں ہے، کیونکہ اس کے گرد قریب قریب خلاء میں کوئی ایسی ساکن چیز نہیں ہے جو اسے حرکت کا احساس دلائے، چاہے وہ دونوں حضرات کے خلائی جہاز کو ہی کیوں نہ دیکھے لے، وہ پائے گی کہ وہ دونوں اس کی نسبت سے روشنی کی 90% رفتار سے حرکت کر رہے ہیں، چنانچہ اسے دونوں حضرات کے خلائی جہاز میں ہر چیز نصف تک سکڑی ہوئی نظر آئے گی، حالانکہ دونوں حضرات کو اپنے ماحول میں کوئی غیر معمولی چیز یا تبدیلی نظر نہیں آرہی ہوگی.

اگر فہیم کا خلائی جہاز اسی رفتار سے سفر کرے جس رفتار سے شبانہ کا خلائی جہاز سفر کر رہا ہے یعنی روشنی کی 90% رفتار سے تو دونوں کو ایک دوسرے کے خلائی جہاز میں کوئی غیر معمولی تبدیلی نظر نہیں آئے گی، کیونکہ اس حالت میں دونوں کی نسبتی رفتار صفر ہوگی، اس لیے دونوں کو ایسا لگے گا کہ جیسے دوسرا اس کی نسبت سے رکا ہوا ہے.. لیکن اگر آپ خلاء میں کھڑے یہ واقعہ دیکھ رہے ہوتے اور دونوں خلائی جہاز آپ کے سامنے سے روشنی کی نوے فیصد 90% رفتار سے گزرتے تو آپ کو دونوں خلائی جہازوں میں ہر چیز نصف تک سکڑی ہوئی نظر آتی.

اس کی وجہ ایک ریاضیاتی مساوات ہے جسے فیٹزجیرلڈ اور لورنٹز نے اپنے اپنے طور پر بعض علمی مسائل کے حل کے طور پر پیش کیا، سمٹاؤ کی یہ حالت انہی دونوں سائنسدانوں سے منسوب ہو کر "فیٹزجیرلڈ - لورنٹز سمٹاؤ" کہلاتی ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ کوئی چیز جتنی تیزی سے حرکت کرے گی اتنا ہی سمٹے گی (کسی مشاہدہ کار کی نسب سے) .. یہ حقیقت اتنی آسانی سے ہضم ہونے والی نہیں اسی لیے کسی نے فیٹزجیرلڈ اور اس کی مساواتوں کا مذاق اڑاتے ہوئے ایک شعر لکھا ہے:

کہا جاتا ہے کہ فیسک نام کا ایک طاقتور لڑکا تھا

اس کے ہاتھ میں ایک تیز دھار لمبی تلوار تھی

جب وہ اسے ہوا میں پوری قوت سے گھماتا ہے

حرکت کا فیٹزجیرلڈ کا سمٹاؤ دخل انداز ہوتا ہے

اور نوجوان کی تلوار سمٹ کر تھالی بن جاتی ہے

فیٹزجیرلڈ نے یہ مساوات میکلسن اور مورلے کو دکھائی اور روشنی کی رفتار میں فرق نا پائے جانے میں ان کی ناکامی کی وجہ ان کے آلات میں زمین کی ایتھر میں گردشی رفتار (تقریباً 185 میل فی سیکنڈ) کی وجہ سے پیدا ہوئے سمٹاؤ کو قرار دیا.. یہ رفتار زمین پر ہر چیز کو سکیڑنے کے لیے کافی ہے.. مگر ہم زمین پر یہ سمٹاؤ محسوس کیوں نہیں کرتے؟

زمین جب حرکت کرتی ہے تو ہم بھی اس کے ساتھ ہی حرکت کرتے ہیں اور اس کی رفتار پکڑ لیتے ہیں.. اس لیے ہم اس سمٹاؤ کو نوٹ نہیں کر سکتے کیونکہ یہ انتہائی کم ہے اور پھر ناپنے کے تمام آلات بھی سکڑ کر رہ جاتے ہیں.. بالکل اسی طرح جس طرح شبانہ کو روشنی کی نوے فیصد (ہماری لیے یا زمین کے مقابلے میں) رفتار میں سفر کرنے کے باوجود اپنے ماحول میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی.

چلیے ایک اڑتے ہوئے جہاز کو لیتے ہیں جو زمین کی نسبت 750 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑتا چلا جارہا ہے اور سوال کرتے ہیں کہ: زمین پر سے اس جہاز کو دیکھتے ہوئے اس میں آپ کی نسبت سے کتنا سمٹاؤ واقع ہوا ہے؟

اگر آپ مساوات کو لاگو کریں تو آپ پائیں گے کہ جہاز (اور اس کے تمام سوار) کا سمٹاؤ انچ کے ایک ملین ملین حصے سے بھی کم ہے.. اور اگر آپ خلاء میں کھڑے ہوجائیں اور زمین کا سمٹاؤ ناپیں جو اپنے مدار میں 185 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کر رہی ہے تو آپ پائیں گے کہ اس کا قطر صرف 12 سینٹی میٹر تک سکڑا ہے (زمین کا قطر 12760 کلو میٹر ہے یا 1276000000 سینٹی میٹر ہے یعنی سو ملین حصوں کا ایک حصہ).

جو رفتاریں ہم زمین پر جانتے ہیں ان سے اتنا کم سمٹاؤ پیدا ہوتا ہے کہ ہم انہیں کسی بھی جدید آلے سے نہیں ناپ سکتے، ہماری آنکھوں کی تو خیر بات ہی کیا.. اگر ان رفتاروں کا روشنی کی رفتار سے موازنہ کیا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ یہ رفتاریں روشنی کی رفتار کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں چنانچہ ان کی وجہ سے پیدا سمٹاؤ بھی انتہائی کم ہوتا ہے.

سمٹاؤ تب ظاہر ہوتا ہے جب ہم روشنی کی رفتار کے قریب پہنچتے ہیں، اگر کوئی چیز روشنی کی نصف رفتار سے سفر کرے تو ساکن حالت کے مقابلے میں حرکت کی سمت اس کی لمبائی 15% تک سمٹ جائے گی، اگر اس کی رفتار روشنی کی 90% تک پہنچ جائے تو اس کی لمبائی نصف تک کم ہوجائے گی، اور جب وہ روشنی کی رفتار تک پہنچے گی تو وہ سو فیصد 100% تک سمٹ جائے گی یعنی وہ ہر دیکھنے والے کے لیے بالکل غائب ہوچکی ہوگی.

یہاں کوئی دوسرا فہیم کہہ سکتا ہے کہ: یہ سب بکواس ہے.. یہ کیسے ہوسکتا ہے جبکہ سائنسی قوانین کے مطابق ہم جانتے ہیں کہ کوئی چیز غائب یا فنا نہیں ہوسکتی؟ .. یہ نظریات رکھنے والے لوگ ہمیں بے وقوف نہیں بنا سکتے.

تو فہیم کو چاہیے کہ وہ اس کا برعکس ثابت کر کے دکھا دے، ہم بھی یہ سمٹاؤ ثابت نہیں کر سکتے کیونکہ ہم زمین پر اس طرح کے تجربات سے نہیں گزرے، اور نا ہی ہم ابھی تک ایسے راکٹ بنا سکے ہیں جو روشنی کی رفتار کے قریب سفر کر سکیں، ہمیں یہ کام مستقبل کی نسلوں کے لیے چھوڑنا ہوگا، شاید وہ ایسے راکٹ یا جہاز بنا سکیں، اس وقت وہ بتا سکیں گے کہ ہماری نسل کی مساواتیں درست تھیں یا نہیں، اس کے با وجود ہم فہیم سے کہتے ہیں کہ کوئی بھی مادی شئے چاہے وہ کوئی انتہائی چھوٹا ذرہ ہی کیوں نہ ہو روشنی کی رفتار سے سفر نہیں کر سکتا، کیونکہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو اس کے خلاف حائل ہوں گی جن پر ہم بعد میں بات کریں گے، چنانچہ وہ چیز مکمل طور پر غائب نہیں ہوگی.. وہ صرف تصور کی انتہائی حد تک سمٹ جائے گی، جیسے جیسے وہ روشنی کی رفتار کے قریب ہوگی.

سمٹاؤ کے اس تصور کو سمجھنے کے لیے ہم فرض کرتے ہیں کہ ایک سو میٹر لمبی ٹرین ہے جو سو میٹر ہی لمبے پلیٹ فارم پر اس طرح کھڑی ہے کہ اس کا انجن پلیٹ فارم کے شروع میں اور آخری بوگی پلیٹ فارم کے آخر میں ہے، یعنی ٹرین پلیٹ فارم کے بالکل برابر کھڑی ہے، اب اگر یہ ٹرین 140 ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے اس پلیٹ فارم کے سامنے سے گزرے اور اسی لمحے ہم ٹرین اور پلیٹ فارم کی تصویر اتار سکیں تو ہم دیکھیں گے کہ ٹرین پلیٹ فارم کے صرف 60 میٹر کے برابر ہے.. یعنی ہماری یہ عجیب ٹرین اپنی اصل لمبائی سے 40% تک سمٹ گئی ہے.. اس کے علاوہ ہمیں اس کے وہیل گول نہیں بلکہ ٹرین کی حرکت کی سمت سمٹاؤ کی وجہ سے بیضوی نظر آئیں گے، اور جب ہم ٹرین کے اندر بیٹھے لوگوں کو دیکھیں گے تو وہ ہمیں بالکل اس طرح نظر آئیں گے جس طرح شبانہ اور فرزانہ فہیم اور مراد کو نظر آرہی تھیں.

مگر ٹرین میں بیٹھے لوگوں کو پلیٹ فارم اور پلیٹ فارم پر کھڑے لوگ کس طرح نظر آئیں گے؟

انہیں لگے کا کہ سٹیشن، پلیٹ فارم اور اس پر کھڑے لوگ ان سے گزر رہے ہیں.. بالکل جس طرح کسی ٹرین میں بیٹھے ہوئے ہمیں درخت وغیرہ ہم سے گزرتے ہوئے نظر آتے ہیں، انہیں لگے گا کہ ہمارا پلیٹ فارم اپنی اصل لمبائی سے چالیس فیصد 40% تک سکڑ گیا ہے، اور اتنے ہی فیصد انہیں عمارتیں اور لوگ سکڑے ہوئے نظر آئیں گے.

پلیٹ فارم پر کھڑے لوگوں کو اپنے ارد گرد کوئی ایسی غیر معمولی بات نظر نہیں آئے گی، اور نا ہی اس عجیب ٹرین میں بیٹھے لوگ اپنی ٹرین کا سمٹاؤ نوٹ کر پائیں گے، اور نا ہی ٹرین میں کوئی اور چیز انہیں سمٹی ہوئی نظر آئے گی.. سمٹاؤ تب نظر آتا ہے جب کوئی چیز انتہائی جنونی رفتار میں کھڑے ہوئے لوگوں کے سامنے سے گزر جائے، اسی طرح اس عجیب ٹرین میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو لگے گا کہ وہ حرکت نہیں کر رہے بلکہ ان کے ارد گرد چیزیں حرکت کرتی ہوئی اس جنونی رفتار سے ان سے گزر رہی ہیں اور انہیں سمٹی ہوئی نظر آرہی ہیں!

رفتار اور وزن میں اضافہ

اس باب کے عنوان کو دیکھ کر شاید مراد صاحب کو غصہ آجائے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ حرکت کرنے یا دوڑنے سے وزن کم ہوتا ہے، مگر بڑھتا نہیں ہے.. تو پھر یہ غیر منطقی بات چہ معنی دارد؟

یہ درست ہے کہ جانداروں میں حرکت کے لیے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے، اور توانائی کے لیے ایندھن کی، اور ہمارا ایندھن شوگر اور فیٹس وغیرہ میں مضمر ہے، جو جل کر مطلوبہ کام میں صرف ہوجاتا ہے، اس لیے جسم کا وزن کم ہوجاتا ہے، جب تک کہ صاحبِ جسم نیا ایندھن خوراک کی شکل میں نہ لے.

لیکن اضافیت کی وہ مساوات جو اس باب کے عنوان کی بات کہتی ہے، اس کا جسمانی ورزش یا جانداروں کی حرکت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، ہمارا موضوع اس سے کہیں زیادہ گہرا ہے.. کوئی چیز جتنی تیزی سے حرکت کرے گی اس کی کمیت اتنی زیادہ ہوگی.

یہاں مراد اعتراض کرتے ہوئے کہہ سکتا ہے کہ: کیا یہاں دو باتوں میں تضاد نہیں ہے؟ .. آپ نے پہلے کہا کہ کوئی چیز جتنی زیادہ تیزی سے حرکت کرے گی اتنی زیادہ سمٹے گی اور جب وہ روشنی کی رفتار کو پہنچے گی تو غائب ہوجائے گی.. اب پھر ایک اور مساوات آکر یہ کہہ رہی ہے کہ: کوئی شئے جتنی زیادہ تیزی سے حرکت کرے گی اتنی ہی اس کی کمیت بڑھ جائے گی.. شاید اب یہ مساوات یہ بھی کہے گی کہ کسی چیز کی کمیت روشنی کی رفتار کے قریب پہنچنے تک بہت زیادہ بڑھ جائے گی، اور شاید روشنی کی رفتار تک پہنچنے تک اس کی کمیت لا متناہی ہوجائے.

بالکل مراد.. مساوات بالکل یہی کہتی ہے، مگر شاید آپ ایسا سمجھ نہ پائیں.. یہ کس طرح ممکن ہے کہ کوئی شئے روشنی کی رفتار تک پہنچتے پہنچتے سکڑ سکڑ کر غائب ہونے تک آجائے، اور پھر اسی وقت اس کی کمیت بھی بڑھ کر لا متناہی ہوجائے.. یعنی کائنات میں موجود تمام مادے سے کئی گنا زیادہ؟

یہ درست ہے کہ بظاہر اس بات میں ایک پاگل پن جھلکتا ہے، لیکن اسی میں کائنات کا ایک اہم راز پنہاں ہے.. مگر صبر سے کام لیجیے، ہر چیز کا وقت ہوتا ہے!

نیوٹن کے زمانے سے لے کر انیسویں صدی کے آخر تک یہ سمجھا جاتا رہا کہ کسی چیز کی کمیت کبھی تبدیل نہیں ہوتی، چاہے وہ سکون کی حالت میں ہو یا حرکت کی حالت میں، اگر لوہے کی کوئی بال خلاء میں ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر رہی ہو یا ساٹھ ہزار میل فی سیکنڈ، اس کی کمیت زمین پر ساکت حالت کے مقابلے میں تبدیل نہیں ہوگی.. مگر اضافیت نے آکر اس کے برعکس پیشین گوئی کی اور اس ضمن میں سائنسدانوں کے عقیدے کو ہلا کر رکھ دیا.

اس موضوع پر بات کرنے سے پہلے ہم ایک اہم بات واضح کرنا چاہیں گے.. ہم میں سے اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ کسی شئے کی کمیت اس کا وزن ہے، یا اس کا وزن اس کی کمیت کے مساوی ہے.. یہ تصور غلط ہے، کیونکہ سائنسدان کمیت کا تعین میزان سے نہیں کرتے جس طرح ہم اپنی روز مرہ زندگی میں کرتے ہیں (جیسے سبزی تول کر خریدنا)، بلکہ ان کی نظر میں کسی شئے کی کمیت حرکت کے خلاف اس کی مدافعت ہے.. کسی شئے کی کمیت جتنی زیادہ ہوگی، حرکت کے خلاف اس کی مدافعت اتنی ہی زیادہ ہوگی، اور اسے حرکت دینے یا دھکیلنے کے لیے زیادہ توانائی کی ضرورت ہوگی، عام فٹ بال کے حجم کی لوہے کی ایک بال کو دھکیلنے میں جو توانائی صرف ہوگی وہ اس توانائی سے زیادہ ہوگی جو اسی دھات کی بنی ہوئی ٹینس کے حجم کی بال کو دھکیلنے میں صرف ہوگی.

یہاں کوئی کہہ سکتا ہے کہ: بڑی بال چھوٹی بال سے زیادہ وزنی ہے.. یعنی اس کی کمیت زیادہ ہے.. تو فرق کیا ہے؟

وزن کششِ ثقل یا تجاذب کے فرق سے مختلف ہوسکتا ہے، مگر کسی شئے کی کمیت ہمیشہ ایک ہی رہتی ہے، کیونکہ وہ ایک محدود عدد کے ذروں پر مشتمل ہے جو کم یا زیادہ نہیں ہوسکتے.. جبکہ وزن کائنات کے مختلف مقامات میں مختلف ہوسکتا ہے، مگر شرط یہ ہے کہ اس کمیت کو تشکیل دینے والا مادہ ہر حال میں اتنا ہی رہے، اگر کمیت بڑھ جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کوئی دوسری کمیت اس کمیت میں شامل کردی گئی ہے، اور اس کمیت میں ایٹموں کی تعداد بڑھ گئی ہے، لیکن اس سب کی فکر مت کریں، کیونکہ ہم زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتے، چنانچہ تجاوز کرتے ہوئے ہم وزن کو کمیت کے مساوی قرار دے دیتے ہیں.

جب آئن سٹائن میدان میں آیا تو اس نے دیکھا کہ نیوٹن کے زمانے سے لے کر اس کے زمانے تک سائنسدانوں میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ جتنا ہم کسی شئے پر دھکیلنے کی قوت میں اضافہ کریں گے وہ اتنی ہی زیادہ تیز حرکت کرے گی اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ وہ روشنی کی رفتار سے حرکت کرنے لگے گی، اور تب بھی اس کی کمیت تبدیل نہیں ہوگی.

آئن سٹائن اپنی مساوات کی وساطت سے کہتا ہے کہ: نہیں.. دونوں نظریے غلط ہیں، نا کمیت اپنے حال پر رہے گی، اور نا ہی وہ شئے روشنی کی رفتار سے حرکت کر سکے گی.

تو ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟

اضافیت کی ایک مساوات نے کمیت اور حرکت کے تعلق کو واضح کیا ہے، اسے سمجھنے کے لیے ہم کچھ مثالیں دیتے ہیں.

اگر ہم خلاء میں سو کلو گرام کمیت کا مادہ سات میل فی سیکنڈ کی رفتار (زمین کے تجاذب سے بھاگ نکلنے کے لیے لازمی رفتار، خلاء میں راکٹ اسی رفتار سے چھوڑے جاتے ہیں) سے چھوڑیں تو اضافیت کی مساوات ہمیں یہ بتاتی ہے کہ یہ کمیت گرام کے دس ہزارویں حصے کے تین حصوں کے برابر بڑھ گئی ہے.. یا آواز کی رفتار سے اڑنے والے جنگی جہاز کی کمیت گرام کے ایک لاکھویں حصے کے ایک حصے کے برابر بڑھ گئی ہے! .. یہ اضافے اتنے کم ہیں کہ ہم انہیں نہیں ناپ سکتے.

لیکن جب مادہ روشنی کی رفتار کے قریب پہنچتا ہے تب معاملہ مختلف ہوتا ہے.. شبانہ کی ہی حالت لے لیں جو روشنی کی نوے فیصد 90% رفتار سے سفر کر رہی ہے.. تو اگر زمین پر اس کی کمیت 65 کلو گرام تھی، تو اس رفتار میں سفر کرنے کی وجہ سے ہمیں اس کی کمیت دگنی لگے گی (یعنی 130 کلو گرام ہوجائے گی)، مگر شبانہ کو اپنے آپ میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی کیونکہ وہ اپنے آپ کی نسبت حرکت نہیں کر رہی ہے، اس کے علاوہ اگر وہ اپنا ہینڈ بیگ اٹھا لے تو وہ اسے بھاری نہیں لگے گا جیسا کہ وہ ہمیں زمین پر نظر آتا ہے.. اس کے ماحول میں ہر چیز انتہائی منطقی لگ رہی ہے، بالکل جیسے وہ زمین پر رہ رہی ہو.. مگر روشنی کی نوے فیصد رفتار سے سفر کرتی ہم سے دور جاتی ہوئی شبانہ ہمیں زمین سے ایسی نہیں لگتی.. اس کے ہاں ہر چیز کی کمیت بڑھ گئی ہے.

یہاں کوئی سوال کر سکتا ہے کہ: اگر کمیت محدود تعداد کے ذروں یا ایٹمز پر مشتمل ہے تو کمیت میں یہ اضافہ کہاں سے آگیا؟

جواب یہ ہے کہ: کوئی بھی ساکن کمیت اپنے آپ حرکت نہیں کر سکتی.. آپ کو راستے میں پڑا ہوا پتھر نظر آتا ہے، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ لوگوں کو راستہ دینے کے لیے پتھر خود ہٹ گیا ہو.. آپ کو اسے اپنے پیر سے مارنا ہوگا، اس پر دھکیلنے کی قوت یا توانائی سے اثر انداز ہونا ہوگا، یہ قوت خرچ کی گئی توانائی ہے.. اور کمیت جتنی زیادہ ہوگی، اسے زیادہ توانائی کی ضرورت ہوگی، اس کے علاوہ رفتار کا اضافہ دھکیلنے کی مزید توانائیوں کی پیشین گوئی کرتا ہے.. اگر آپ کسی شئے کو تیز سے تیز تر دوڑنے کے لیے دھکیلیں، تو اس کے لیے لازم ہے کہ توانائی میں مسلسل اضافہ کیا جاتا رہے.. اور جب وہ شئے روشنی کی رفتار کے قریب پہنچے گی، تو اس کی کمیت بہت زیادہ بڑھ جائے گی، یعنی وہ دگنی سے تگنی پھر سینکڑوں، لاکھوں اور پھر کروڑوں گنا بڑھ جائے گی، اور جب وہ روشنی کی رفتار تک (فرض کرتے ہوئے) پہنچے گی تب تک اس کی کمیت لا متناہی ہوجائے گی، یعنی کائنات میں موجود تمام مادے سے زیادہ.. اور اس لا متناہی کمیت کو دھکیلنے کے لیے ہمیں لا متناہی توانائی کی ضرورت ہوگی، یعنی کائنات میں مجود تمام توانائیوں کا کئی گنا.. چنانچہ اگر آپ ریت کے ایک ذرے کو روشنی کی رفتار سے دوڑانا چاہتے ہیں تو آپ کو اتنی زیادہ توانائی کے حصول کا کوئی طریقہ بتانا ہوگا جو کہ یقیناً نا ممکن ہے.. مساواتوں کی زبان یہی کہتی ہے.

حتمی نتیجہ یہ ہے کہ ہم کبھی لا متناہی کمیت حاصل نہیں کر سکیں گے، کیونکہ ہم کبھی لا متناہی توانائی حاصل نہیں کر سکتے.. اور نا ہی کسی چیز کا نا چیز کی طرف سمٹاؤ.. کیونکہ ہم کسی بھی کمیت کو چاہے وہ کتنی ہی کم کیوں نہ ہو روشنی کی رفتار سے نہیں دھکیل سکتے.

ساکن (ظاہری) ماحول کی نسبت روشنی کی رفتار کے قریب سفر کرنے والے مادے کی کمیت میں اضافہ حرکت کا نتیجہ ہے، اور حرکت توانائی کی مختلف اشکال کی ایک شکل ہے، کمیت کو دھیکلنے والی اس عظیم توانائی نے ہی کمیت میں یہ اضافہ کیا ہے.. گویا توانائی کمیت کی صورت میں مجسم ہوکر اصل کمیت میں شامل ہوگئی ہو.. اس کا سیدھا سا مطلب یہ بھی ہے کہ کمیت توانائی ہے، اور توانائی کمیت ہے.. جیسے ہم کہہ رہے ہوں کہ "روح" مادے کی شکل میں مجسم ہوگئی ہو، مگر روح نا تو مادہ ہے اور نا ہی کمیت، اور نا ہی لوگوں کو دکھانے کے لیے اسے پکڑ کر پنجرے میں بند کیا جاسکتا ہے.. کیونکہ روح توانائی ہے، روشنی توانائی ہے، اور حرارت بھی توانائی ہے، آپ بارش کے پانی کی طرح روشنی کو کسی برتن میں جمع نہیں کر سکتے، نا ہی آپ فکری توانائی کا سامان کی طرح وزن کر سکتے ہیں، اور نا ہی حرکت کی اس توانائی کو جس سے ہم ساری زندگی حرکت کرتے ہیں رقم کی طرح بینک میں جمع کروا سکتے ہیں.. اور نا ہی حرارت کو سردیوں کے موسم میں سینکنے کے لیے محفوظ کیا جاسکتا ہے.

توانائی کی صورت کوئی بھی ہو اسے چھوا نہیں جاسکتا، صرف محسوس کیا جاسکتا ہے.. مثلاً ہم حرارت کی توانائی کو محسوس کرتے ہیں مگر وہ مجسم نہیں ہوسکتی، ہم آنکھوں کے ذریعے روشنی کی توانائی کو محسوس کرتے ہیں مگر وہ جمع نہیں کی جاسکتی.. تو پھر آخر میں دھکیلنے کی توانائی مجسم ہوکر کمیت بن جائے اس پر ہم کیسے یقین کر لیں؟.

اس کے باوجود مساوات بالکل یہی بات کہتی ہے.. تو کیا "دل کے خوش رکھنے کو" اس پیشین گوئی کی کوئی دلیل ہے؟

ایک سے زیادہ دلیل ہے.. سب سے پہلی یہ کہ وہ ایٹم جو ایٹمی ری ایکٹروں میں روشنی کی رفتار کے قریب دوڑتے ہیں ان کی کمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے.. ایٹمی سائنس دان اس حقیقت کا روز ہی سامنا کرتے ہیں، بلکہ ان کے لیے لازم ہے کہ وہ ان ایٹموں کی کمیت کے اضافے کا حساب لگانے کے لیے آئن سٹائن کی اس مساوات کا سہارا لیں تاکہ اس کی بنیاد پر ایٹمی ری ایکٹر بنائے جا سکیں، اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان کا انجام قاہرہ کے نبی العلاء پل بنانے والے انجینئر سے زیادہ مختلف نہیں ہوگا جس نے پل کے ڈیزائن میں درجہ حرارت سے پیدا ہونے والے سمٹاؤ اور پھیلاؤ کو مدِ نظر نہیں رکھا تھا. (کہا جاتا ہے کہ اس انجینئر نے خودکشی کر لی تھی، کیونکہ پل اس قاتلانہ غلطی کی وجہ سے ابھی تک ٹریفک کے لیے نہیں کھولا گیا، تاہم اس سنی سنائی کہانی کا مجھے کوئی با قاعدہ ثبوت نہیں ملا).

سائنسدانوں نے پایا ہے کہ پروٹون جب ایٹمی ری ایکٹروں میں 177 ہزار میل فی سیکنڈ (روشنی کی 95% رفتار) کی رفتار سے حرکت کرتے ہیں تو ان کی کمیت تین گنا بڑھ جاتی ہے! .. اس کے علاوہ سائنسدان الکٹرونوں کو روشنی کی رفتار کے قریب تیز کرنے میں کامیاب رہے جس سے ہر الیکٹرون کی کمیت 900 گنا بڑھ گئی!..

چنانچہ مساوات کی پیشین گوئی کی درستگی کا پہلا ثبوت ہمیں ایٹموں کی سطح پر ملا، ہم اور ثبوت بھی حاصل کر سکتے تھے، اگر ہم کسی پتھر، کار، ٹرین، یا راکٹ کی رفتار کو روشنی کی رفتار کے قریب لا سکتے، مگر آپ جانتے ہیں کہ حرکت کرتی کسی شئے کی کمیت جتنی بڑھے گی، اسے اتنی ہی توانائی کی ضرورت پڑے گی، چونکہ پروٹون کی کمیت گرام کے ایک لاکھ ملین ملین ملین حصے کے ایک حصے کے برابر ہے، چنانچہ اسے دھکیلنے کے لیے درکار توانائی ایٹمی ری ایکٹروں کی حد میں آتی ہے (روشنی کی رفتار میں نہیں بلکہ روشنی کی رفتار کے قریب) .. مگر ریت کا ایک ذرہ پروٹون سے کئی بلین بلین گنا بڑا ہے.. تو پھر کسی گاڑی یا راکٹ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

نظریہ اضافیت کی مساواتوں کی درستگی کا سب سے بڑا ثبوت آئن سٹائن کی شہرہ آفاق مساوات E = mc² (جہاں E توانائی m کمیت اور c روشنی کی رفتار کے لیے) ہے.. اس مساوات نے اس کائنات کے بہت سے راز افشاء کیے ہیں جس میں ہم رہتے ہیں.. اگرچہ ہم نے اس کے رموز مختصراً بیان کیے ہیں مگر یہ شاید ہمارے لیے کوئی معنی نہ رکھے، مگر ریاضی کے عجائبات سے با خبر لوگوں کے لیے اس میں بہت کچھ پنہاں ہے، بعض لوگ اس چھوٹی سی مساوات کو ایک ایسی پہیلی قرار دیتے ہیں جسے لاگو نہیں کیا جاسکتا.. مساوات میں تین محدود چیزیں ہیں: روشنی کی رفتار، توانائی اور کمیت (یا مادہ) .. اور یہ ایک عجیب ریاضیاتی جوڑ ہے.. کہ جب ہم توانائی اور مادے کی بات کر رہے ہیں تو پھر اس میں روشنی کی رفتار کا کیا عمل دخل ہے؟ .. شاید روشنی کی رفتار ہی وہ گمشدہ کڑی ہے جو توانائی اور مادے کو ایک ساتھ جوڑتی ہے، مگر یہ سب کیوں اور کیسے ہوا اس کا جواب شاید کسی کے پاس نہیں، ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ مساواتوں کی یہی زبان ہی ہمیں وہ راستہ دکھاتی ہے جس کی بنیاد پر ساری کائنات کھڑی ہے.

اس مساوات کے ذریعے ہم کسی بھی قسم کے ایک کلو گرام مادے کی توانائی کی مقدار معلوم کر سکتے ہیں چاہے وہ مادہ پتھر ہو، لوہا ہو، گوشت ہو یا کوئی مائع.. نتیجہ یہ ہے کہ کسی بھی قسم کے ایک کلو گرام مادے کی توانائی نو سو ہزار بلین بلین توانائی یونٹ ہے، اس عدد کو اگر ہم اپنی روز مرہ زندگی میں محسوس کرنا چاہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی بھی قسم کے مادے کا ایک کلو گرام اگر مکمل طور پر فنا ہوجائے اور اپنی مادی حالت کو چھوڑ کر موجی (موج یا لہر) حالت میں آجائے تو اس سے جو توانائی برآمد ہوگی وہ کچھ یوں ہوگی:

- یہ توانائی 22 ہزار ملین ٹن دھماکے دار مادے T.N.T کے برابر ہوگی!

- اس توانائی سے آپ اپنی گاڑی (بشرطیکہ آپ کے پاس ہو) پر دنیا کا چار لاکھ مرتبہ چکر لگا سکتے ہیں.. یعنی اگر آپ بغیر رکے 80 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتے رہیں تو 20 ہزار سال میں آپ 16 ہزار ملین کلو میٹر طے کریں گے.. اللہ آپ کی اور آپ کی گاڑی کی عمر دراز کرے!

اس فہرست میں اور بہت سی شماریات شامل کی جاسکتی ہیں جن سے مادے میں چھپی بے پناہ توانائی کا اندازہ ہوتا ہے.. مگر کیا کبھی ہم ان توانائیوں کو آزاد کر سکیں گے؟

یہاں وہ بحث پیش کرنی بے جا نہ ہوگی جو آئن سٹائن اور اس کی مذکورہ مساوات کا مذاق اڑانے والے کچھ لوگوں کے درمیان ہوئی تھی، ایک صاحب نے کہا: آپ دعوی کرتے کہ مٹھی بھر کوئلے میں جو توانائی ہے وہ تمام جرمن فوجیوں کے ہتھیاروں سے زیادہ ہے.. اگر یہ درست ہوتا - جیسا کہ آپ اپنی مساوات کے ذریعے دعوی کر رہے ہیں - تو پھر ہم اسے نوٹ (محسوس) کیوں نہیں کرتے؟

آئن سٹائن جواب دیتے ہیں: اگر کسی امیر آدمی کی تمام دولت کہیں دفن ہو اور کسی نے اسے ایک مارک بھی کبھی صرف کرتے نہ دیکھا ہو تو اس صورت میں کوئی بھی اس دولت کا اندازہ یا تخمینہ نہیں لگا سکے گا، یہی صورت مادے کی ہے.. جب تک وہ اپنی توانائی آزاد نہیں کرتی، تب تک اسے نوٹ یا محسوس نہیں کیا جاسکے گا.

ایک دوسرا سوال کرتا ہے: تو اس توانائی کو آزاد کرنے کے لیے آپ کیا مشورہ دیتے ہیں؟

آئن سٹائن: اسے آزاد کرنے کے امکانات کی میرے پاس کوئی دلیل یا تصور نہیں ہے.

ایک اور سوال: کیا اپنی لیبارٹری میں تجربات کے دوران آپ پہلے بھی کبھی مادے اور توانائی کے حوالے سے اس مساوات کے نتیجے پر پہنچے؟

تب حاضرین حیران رہ گئے جب انہوں نے کہا: میں کبھی لیبارٹری میں نہیں گیا، اور نا ہی کبھی کوئی ایک تجربہ ہی کیا ہے.. علمِ طبیعات دراصل ایک نظریاتی نظام کے علاوہ کچھ نہیں جو ہمیشہ ترقی اور ارتقاء کی حالت میں رہتا ہے، اور اس کی ترقی کا انحصار آزاد دریافتوں پر ہے.. چنانچہ مجھے اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ میں درست ہوں!

یہ مساوات ہمیں بتاتی ہے کہ کائنات میں قدرت کا کوئی سربستہ راز چھپا ہوا ہے اور ہمیں مادے اور توانائی کے حوالے سے اپنے مفہوم پر نظرِ ثانی کرنی ہوگی.. ایک عام عقیدہ یہ تھا کہ کائنات میں دو ہی بنیادی عناصر ہیں، مادہ اور توانائی.. مادہ ایک جامد اور محسوس چیز ہے اور کمیت کی تمام تر خوبیوں کا حامل ہے جسے ہم سب جانتے ہیں، مگر توانائی اس کے برعکس ہے.. یہ آزاد ہے اور نظر نہیں آتی مگر موجوں کی صورت میں سفر کرتی ہے اور اس کی کمیت نہیں ہے.

جبکہ مساوات کہتی ہے کہ: مادہ اور توانائی ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں.. جب مادہ فنا ہوتا ہے تو توانائی نمودار ہوجاتی ہے، اور اگر توانائی "مجسم" ہوجائے تو مادہ نمودار ہوجاتا ہے، گویا جو مادہ ہمیں اور ساری کائنات کو تشکیل دیتا ہے وہ جسیموں میں مقید کثیف توانائی ہے.. اور جسیمے ذرات تشکیل دیتے ہیں، اور ذرے مادہ.. مختصراً یہ کہ مادہ توانائی ہے، اور توانائی مادہ ہے، ان دونوں میں تفریق ایک وقتی حالت ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی طرف ہی لے جاتے ہیں.. یہ کوئی مشکل مساوات نہیں ہے، اس کا دایاں، بائیں کے مساوی ہے.. ایک طرف تونائی ہے، اور دوسری طرف مادہ، گویا قدرت ہمارے ساتھ لکا چھپی کھیل رہی ہو یا ہمیں مرغی اور انڈے کی پہیلی پیش کر رہی ہو.. پہلے کیا آیا تھا: انڈا یا مرغی؟ .. پہلے کیا نمودار ہوا: مادہ یا توانائی؟ .. پہلے سوال میں کچھ بے وقوفی جھلکتی ہے، اور دوسرے میں حقیقت کی تلاش جسے جب بھی انسان نے یہ سمجھا کہ وہ اس کے قریب پہنچ گیا ہے وہ سراب بن کر دھوکہ دے جاتی ہے، یا مختلف پیچیدہ شکلوں میں ظہور پذیر ہوکر اپنے پیچھے کائنات کی واحد مساوات چھپا دیتی ہے.

E = mc² صرف تین حروف جن کے جب راز کھلے تو جنت اور جہنم کے دروازے ایک ساتھ کھل گئے.. تعمیر اور تخریب، شر اور تباہی.. ہمارا انتخاب کیا ہوگا؟ .. اس کا انحصار انسان کی حکمت پر ہے.

ان تین حروف نے دوسری عالمی جنگ کا خاتمہ کیا، اور انہی سے جاپان کی عظیم قوم کے صبر کا امتحان لیا گیا، اس کے دو شہر نیست ونابود کردیے گئے اور اس نے خاموشی سے شکست تسلیم کر لی.

اس مساوات کے نمودار ہونے کے چالیس سال بعد انسان مادے کو توانائی کی صورت میں آزاد کر سکا، اس نے ذرے کا دل چیرا اور مادے کا بہت کم حصہ غائب ہوکر ایسی تباہ کن توانائی کی شکل میں سامنے آیا کہ جس کی تاریخ میں کہیں کوئی مثال نہیں ملتی، انسانیت ششدر رہ گئی.. ایٹمی بھوت آج بھی ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے کہ مغرب اور مشرق نے ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ لگا رکھی ہے، اگر ان ہتھیاروں کی توانائیاں غلطی سے بھی آزاد ہوگئیں تو کرہ ارض کے ہر انسان کے حصے میں 15 ٹن T.N.T شدید دھماکے دار مادہ آئے گا.. مگر اچھی بات یہ ہے کہ یہ ابھی تک قید ہے اور دعا کریں کہ یہ قید ہی رہے.

انسانیت کی بھلائی اسی میں ہے کہ مادے سے آزاد کی گئی توانائی کا استعمال انسانیت کی بھلائی اور اس کی ترقی کے لیے کیا جائے.

ازل سے جو روشنی کائنات کو منور کیے ہوئے ہے وہ کھربوں ستاروں کے بطن سے نکلتی ہے جو دراصل مادے کی توانائی میں تبدیلی کی وجہ سے ہی ہے.. ہمارا سورج جو اپنے گرد بے پناہ مقدار میں روشنی، حرارت اور شعاعیں پھیلا رہا ہے وہ اس عام ایندھن سے نہیں چلتا جو ہم استعمال کرتے ہیں، اگر ایسا ہوتا تو وہ کب کا بجھ چکا ہوتا، وہ اسی مساوات کی بنیاد پر ہی چلتا ہے.. مادے کا کچھ حصہ غائب ہوتا ہے جس کے نتیجے میں بے پناہ توانائیاں نمودار ہوتی ہیں جو کروڑوں سال اسی طرح چلتی رہیں گی.

مادے کی توانائی میں تبدیلی کی یہ ایک چھوٹی سی تصویر تھی جو مساوات کی درستگی کا ثبوت ہے.. مگر، کیا اس کے برعکس ہونے کی کوئی دلیل ہے.. یعنی توانائی کو مادے کی صورت میں مجسم کرنا؟

ایک سے زیادہ دلیل ہے.. ایٹمی ری ایکٹروں میں سائنسدان دن رات مادے کے ایسے جسیموں یا پارٹیکلز کے ساتھ وقت گزارتے ہیں جو روشنی کی رفتار کے قریب چھوٹتے ہیں، اور اگر اچانک کسی ہدف سے ٹکرا کر رک جائیں تو اپنی جس توانائی سے وہ دوڑ رہے ہوتے ہیں فنا یا ضائع نہیں ہوتی، بلکہ پارٹیکل اور اینٹی پارٹیکلز کی شکل میں نمودار ہوتے ہیں، مگر.. یہ اینٹی پارٹیکل کا کیا مطلب ہے؟

دراصل یہ ایک طویل موضوع ہے جس کی یہاں گنجائش نہیں، مختصراً یہ کہ سائنسدانوں نے مادے کے ہر پارٹیکل کا جو ہماری کائنات تشکیل دیتے ہیں رد یا اینٹی پارٹیکل دریافت کیا ہے، دونوں ہی توانائی کی ایک معینہ مقدار سے ظہور پذیر ہوتے ہیں جن کا حساب اسی مساوات (E = mc²) سے کیا جاسکتا ہے.. تاہم یہ رد جسیمے ہماری دنیا کے جسیموں کے ساتھ ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتے بالکل جس طرح برف جہنم میں گزارہ نہیں کر سکتی، یہ رد جسیمہ جیسے ہی ظاہر ہوتا ہے اپنے متضاد جسیمے سے اس کا ٹکرانا حتمی ہوتا ہے جس کی وجہ سے دونوں ہی ایک دوسرے کو مکمل فنا کردیتے ہیں، اور اپنی مجسم (مادی) حالت کو چھوڑ کر موجی حالت میں آجاتے ہیں.. یعنی توانائی بن کر کائنات میں روشنی کی رفتار سے نکل کھڑے ہوتے ہیں.. اس میں مساوات کی درستگی کا کھلا ثبوت ہے جسے لوگ پاگل پن یا ایک ایسی پہیلی قرار دیتے رہے جس کا کوئی مطلب نہیں ہے!

زمان کی اضافیت

ہم پہلے دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح تیز رفتاریں چیزوں کی حالت پر اثر انداز ہوتی ہیں، ان کی کمیت بڑھ جاتی ہے، یا وہ سمٹ یا سکڑ جاتی ہیں.. اسی طرح اب ہم کہتے ہیں کہ: تیز حرکت آپ کے وقت کو سست کردے گی!

اس پر بحث کرنے سے پہلے چلیے کچھ سوال اٹھاتے ہیں: ہم میں سے کون وقت کے معنی متعین کر سکتا ہے؟ .. اور اگر کر سکتا ہے تو کیا وقت کی کوئی ابتدا یا انتہاء ہے؟ .. اور اگر ہے تو یہ کیسے اور کہاں سے شروع ہوا اور کب ختم ہوگا؟ .. اور کیا وقت کا بہاؤ مطلق ہے یا نسبتی؟ .. یعنی کیا کائنات میں اسے دیکھنے والوں کے لیے یہ ساکن ہے جو نہیں بدلتا، یا یہ پھیلتا اور سکڑتا بھی ہے؟ .. اور ایسے ہی دیگر بہت سے پریشان کن سوال جن کا ہم کوئی قطعی جواب حاصل نہیں کر پاتے حالانکہ ہم سب ہی وقت کے گزرنے کو محسوس کرتے ہیں مگر اس کی حقیقت متعین کرنے سے قاصر رہتے ہیں.

زمان یا وقت پر فلاسفر، علماء اور ادیب ایک طویل عرصے سے بحث کرتے چلے آئے ہیں.. کوئی کہتا ہے کہ: وقت ایک بہتی نہر کی طرح ہے جو منظم طریقے سے اپنے منبع یا مصدر سے مخرج تک بہتا رہتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وقت کی ابتداء بھی ہے اور انتہاء بھی، تو اگر اس کی ابتداء ہے تو یہ کہاں سے آیا ہے؟ اور انتہاء ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب وقت نہیں ہوگا.. لیکن عقل یہ بات قبول نہیں کر سکتی، کیونکہ یہ تصور کرنا بہت مشکل ہے کہ کوئی لمحہ سابقہ لمحے کے بغیر آگیا، یا آنے والا کوئی ایسا لمحہ جس کے بعد کوئی لمحہ نہ ہو.

کوئی کہتا ہے کہ: جن واقعات سے ہم گزرتے ہیں وہی ہمیں وقت کے گزرنے کا احساس دلاتے ہیں.. ہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ یہ ماضی میں ہوا، اور یہ اب ہو رہا ہے، اور بہت کچھ مستقبل میں ہوگا.. تو کیا جن واقعات سے ہم گزرتے ہیں پہلے سے تیار یا مقدر ہیں؟ .. بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایسا ہی ہے، یعنی واقعات پہلے سے ہی مرتب اور منظم ہیں جن کے درمیان وقت کے متعین زمانے حائل ہیں، یا جیسا کہ کسی نے کہا ہے کہ: واقعات وقوع پذیر نہیں ہوتے، بلکہ ہم ان سے گزرتے ہیں!.

جیسے انسان (اس صورت میں) زندگی کے سفر کا کوئی سیاح ہے، اور وہ زبردستی یہاں وقت کی "ٹرین" پر سوار ہونے آیا ہے.. وہ راستوں میں کچھ سٹیشنوں (واقعات) سے گزرے گا جو جلد ہی غائب ہوجائیں گے، مگر وہ واقعی غائب نہیں ہوئے، یہ اب بھی وہاں ہیں.. ہوا صرف یہ ہے کہ ہم ان سے گزر گئے ہیں جس کی وجہ سے یہ آنکھوں سے اوجھل ہوگئے ہیں.. اور یہی.. اپنے واقعات کے ساتھ (یا سٹیشنوں کے ساتھ).. ماضی ہے جو کبھی گم یا ضائع نہیں ہوتا.

جس سٹیشن سے اس وقت ہم گزر رہے ہیں یہی اپنے تمام تر واقعات کے ساتھ حال ہے، ابھی وقت کی ٹرین کے سامنے بہت سارے سٹیشن ہیں، لازم ہے کہ وہ ان سے اور ہم سے گزرے، اور یہی اپنے واقعات کے ساتھ مستقبل ہے.. یہ ابھی وہاں ہے، لیکن ہم ابھی اس سے نہیں گزرے، مگر ہم اس سے گزریں گے جس سے مستقبل حال بن جائے گا اور پھر ایسا ماضی جو کہ وہ بھی ضائع نہیں ہوگا.

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ: وقت ایک ساکن چیز ہے جو حرکت نہیں کرتا، بلکہ ہم اس میں حرکت کرتے ہیں.. کچھ کا خیال ہے کہ وقت کا کوئی وجود نہیں، بلکہ جو چیزیں ہمارے احساسات ہم تک منتقل کر کے کسی صورت میں دکھاتے ہیں وہ حقیقی معنوں میں وجود ہی نہیں رکھتیں.. ایسے حضرات سے ہم کہتے ہیں: آپ کو مثلاً ثابت کرنا ہوگا کہ پانی کا کوئی وجود نہیں، اور پھر دریا میں کود جائیے، یا آگ محض ایک خیال ہے، تو خود کو جلا ڈالیے، یا ٹرین دھوکہ ہے، تو اس کے راستے میں کھڑے ہوجائیے، پھر اس کے بعد آپ کبھی ایسا فلسفہ نہیں جھاڑیں گے!

ان تمام تصورات پر ہم ایک بھی علمی دلیل کھڑی نہیں کر سکتے.. اس کے با وجود ہم اس موضوع پر علمی بحث کریں گے.. کائنات کی حرکت کا وقت سے گہرا تعلق ہے، ہمیں زمان ومکان میں ہر متحرک چیز کا مقام اور اس کا وقت متعین کرنا ہوگا.

زمان ومکان سے حرکت کے تعلق کی آسان مثال سفر کے ذرائع یعنی ٹرانسپورٹیشن ہے.. اگر ہم فرض کریں کہ اسی 80 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرنے والی ایک ٹرین جو بغیر رکے منظم رفتار سے کراچی سے ملتان کا سفر کرے، تو آپ وقت پر بھروسہ کر کے اس کے مکان (مقام) کا تعین کر سکتے ہیں، یا مکان پر بھروسہ کر کے وقت کا تعین کر سکتے ہیں.. مثلاً ہم کہہ سکتے ہیں کہ ڈیڑھ گھنٹے بعد ٹرین حیدر آباد سٹیشن سے گزرے گی، اور تین گھنٹے بعد روہڑی سے.. وغیرہ وغیرہ.

زمین کی اپنے گرد اور پھر سورج کے گرد گردش ہی ہمیں وقت کے گزرنے کا احساس دلاتی ہے، اگر یہ حرکت نا ہوتی، تو ہم وقت نامی کسی چڑیا کو نہ جانتے ہوتے.

وقت کا ناپ در حقیقت فضاء میں معینہ مقامات ہیں.. فجر، دوپہر یا غروب ما سوائے ہمارے اور سورج کے درمیان معینہ زاویوں کے اور کچھ نہیں.. یعنی زمین مکان میں حرکت کرتی ہے جس سے زمان ہوتا ہے.

آئن سٹائن سے پہلے سائنسدان وقت کو مطلق گردانتے تھے.. ایک ساکن چیز جو کبھی تبدیل نہیں ہوتی، اس کے علاوہ وہ اپنی ذات میں مستقل تھا اور ایک منظم بہاؤ رکھتا تھا، اور کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وقت سست یا تیز ہوتا ہے یا رک بھی سکتا ہے.

یہاں فہیم ایک بار پھر کود کر کہہ سکتا ہے کہ: مگر میں کبھی کبھی پریشانی کے عالم میں محسوس کرتا ہوں کہ وقت میرے لیے بہت سست ہوگیا ہے، اور خوشی کے لمحات میں تیزی سے گزرتا ہے.. کبھی ایک منٹ ایک گھنٹہ لگتا ہے، اور کبھی ایک گھنٹہ ایک منٹ کے برابر گزرتا ہے.. یعنی وقت ایک منظم طریقے سے نہیں گزرتا.

جیسے فہیم صاحب کائناتی زمان کو اپنے شعور اور احساس سے مربوط کرنا چاہتے ہوں، چنانچہ ان کی خوشی اور غمی کے لیے وہ تیز یا سست ہوتا ہو، دراصل ان کے یہ احساسات ایک نفسی چیز ہیں جو صرف انہی سے ہی مربوط ہیں، ان کا اس وقت سے کوئی تعلق نہیں جس کی ہم بات کر رہے ہیں.

آئن سٹائن نے جب زمان پر غور وخوض کیا تو زمان یا وقت کے متعلق ایک عجیب نتیجے پر پہنچا.. اس نے کہا کہ وقت ایک نسبتی چیز ہے، کائنات میں رفتار اور حرکت کے موضوع پر بحث کرتے ہوئے ہم جن تضادات میں پڑے تھے اس کی وجہ ہمارا انجانے میں ایک غلطی میں پڑنا تھا.. ہم نے وقت کو ایک ساکن اور ناقابلِ تبدیلی چیز سمجھ کر غلطی کی.. مگر درحقیقت یہ متغیر اور نسبتی ہے، اور یہ حرکت پر بھروسہ کرتا ہے، اور حرکت کے مطابق تبدیل ہوتا ہے.. یعنی کائنات میں ہر کسی کو چاہیے کہ وہ اپنے وقت کا حساب اپنی حرکت کے ماحول کے حساب سے کرے، تاکہ بہت سارے تضادات سے بچا جاسکے، ورنہ وہ کائناتی قوانین پر عدم توازن کا الزام لگائے گا، حالانکہ کائناتی قوانین ہر جگہ ایک ہیں، مگر وہ ہمیں غیر متوازن لگتے ہیں جس کی وجہ ہماری کم علمی ہے.

یعنی آپ - کائناتی سطح پر - یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ اور وہ ایک ہی لمحے میں ہوئے، حالانکہ آپ نے دونوں کو ایک ہی لمحے ہوتے دیکھا تھا، اس کے علاوہ آپ واقعے کے وقوع پذیر ہونے کے مقام (مکان) کا تعین بھی نہیں کر سکتے.. کیونکہ زمان متغیر ہے.. اور مکان بھی متغیر ہے.. کائنات میں کوئی چیز اپنی جگہ پر ساکن نہیں ہے.. کیونکہ اس میں ہر چیز حرکت میں ہے اور ایک دوسرے کی نسبت منظم رفتار سے اپنے مقامات بدلتی رہتی ہے.

اسی طرح آپ یہ یقین بھی نہیں دلا سکتے کہ یہ واقعہ اس واقعے سے پہلے واقع ہوا ہے، یا بعد میں اور پھر خاموش ہوجائیں، کیونکہ اس حالت میں آپ کی بات - ہمارے موضوع کے حساب سے - بے معنی ہے، ما سوائے اگر آپ اس ماحول کو اپنے ماحول سے متعین کردیں، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ کوئی دوسرا شخص اپنے ماحول کے حساب سے آپ کے برعکس دیکھے، کیونکہ آپ کا "پہلے" اس کے لیے "بعد" ہوسکتا ہے.

"یہاں" اور "وہاں" اور "گزشتہ کل" اور "کل" اور "اب" ایسے الفاظ ہیں جنہیں ہم صرف زمین پر اپنے ماحول کے حساب (نسبت) سے استعمال کرتے ہیں، یہ "لوکل" الفاظ ہم کائنات کے تمام ماحولوں کے لیے استعمال نہیں کر سکتے.. کیونکہ گزشتہ کل آنے والا کل ہوسکتا ہے، اور آنے والا کل گزشتہ کل بھی ہوسکتا ہے.. ہر کوئی اپنے ماحول کے حساب سے.

چلیے اسے ایک مثال سے واضح کرتے ہیں: فرض کرتے ہیں کہ فہیم اور شبانہ ایک فلکیات دان سے اس کی رصدگاہ میں ملنے جاتے ہیں تاکہ کائنات کے بارے میں اپنی معلومات میں اضافہ فرما سکیں، گفتگو کے دوران اچانک آسمان میں ایک ستارہ بڑے زور سے چمکتا ہے اور پھر پھٹ جاتا ہے، بالکل اسی وقت جب اس دھماکے کی تصویر ٹیلی سکوپ کے حساس کیمرے میں اترتی ہے شبانہ کو دل کا دورہ پڑتا ہے اور وہ اللہ کو پیاری ہوجاتی ہے.. تب فہیم ہاتھ سے ہاتھ ملتے ہوئے کہتا ہے: انا للہ و انا الیہ راجعون.. کیسا عجیب اتفاق ہے، ستارے کی زندگی کا خاتمہ بالکل اسی وقت ہوا جب شبانہ کی زندگی کا خاتمہ ہوا..!

اس کے بعد پھر کبھی فہیم کی اس فلکیات دان سے ملاقات ہوتی ہے تو وہ ان سے پوچھتا ہے کہ کیا وہ "علم نجوم" پر یقین رکھتے ہیں؟ فلکیات دان کہتا ہے کہ: آپ کو یہ سوال کرنے کی ضرورت کیوں پیش آگئی؟

فہیم: کیا آپ کو یاد ہے کہ شبانہ کی موت بالکل اسی وقت ہوئی تھی جس وقت وہ ستارہ آسمان میں پھٹ گیا تھا اور آپ کے آلات نےآسمان میں بالکل اسی جگہ اسے ریکارڈ کیا تھا؟

فلکیات دان: جی ہاں مجھے یاد ہے.. مگر اسی وقت اور آسمان میں اسی جگہ سے آپ کی کیا مراد ہے؟

فہیم: میرا سوال کافی واضح ہے.

فلکیات دان: اگر یہ بات ہے تو آپ کی سوچ غلط ہے.. نا تو ستارہ وہاں اپنی جگہ پر تھا، اور نہ ہی وہ اس وقت پھٹ کر ختم ہوا جب شبانہ کی موت ہوئی.. ستارہ اس کے مرنے کے 300 نوری سال پہلے مرا..!

فہیم (حیرت سے): آپ کے کہنے کا کیا مطلب ہے؟

فلکیات دان: میرا مطلب ہے کہ ہمیں کائناتی واقعات کو شبانہ کی موت یا ہماری زمین پر ہو رہے کسی دوسرے واقعے سے منسلک نہیں کرنا چاہیے.. آپ کہہ سکتے ہیں کہ شبانہ کی موت ٹھیک اسی وقت ہوئی جب آپ سگریٹ جلا رہے تھے، یا ٹھیک اسی وقت ہوئی جب بجلی کڑکی، یا جب کوئی راکٹ زمین سے چاند کے سفر پر نکلا.. کیونکہ یہ سب زمینی واقعات ہیں جو ایک ہی ماحول میں وقوع پذیر ہوتے ہیں اور ایک ہی زمینی وقت استعمال کرتے ہیں، جس کی وجہ ایک محدود فلک میں ہماری زمین کی حرکت ہے.. مگر جو ستارہ پھٹا وہ ہم سے 300 نوری سال دور تھا، اور اس کا ہم سے فاصلہ کوئی 1764000000000000 میل تھا، اس ستارے کے ساتھ کیا ہوا یہ ہم صرف اس کی روشنی کے ذریعے ہی جان سکتے ہیں جسے ہم تک پہنچنے میں 300 نوری سال لگے ہیں.. چنانچہ در حقیقت ہم ماضی بعید میں دیکھ رہے ہیں نا کہ وہ لمحہ جس میں شبانہ کی موت ہوئی.. یہاں "اب" کا مطلب ہے ماضی بعید.. اور اس کا برعکس بھی درست ہے.

فہیم: عکس بھی درست ہے.. اس کا کیا مطلب ہے؟

فلکیات دان: فرض کریں کہ ہمارا سورج پھٹ گیا ہے.. مگر ہمیں اس کی خبر آٹھ منٹ کے بعد ہوگی.. کیونکہ دھماکے کی خبر لانے والی روشنی 93 ملین میل کا سفر طے کر کے ہم تک پہنچے گی جو کہ سورج کی ہم سے دوری کی مسافت ہے (سورج کا ہم سے فاصلہ 8.3 نوری منٹ ہے)، مگر عطارد یہی واقعہ ہم سے پہلے دیکھے گا اور مریخ ہمارے بعد! (عطار ہمارے مقابلے میں سورج سے زیادہ نزدیک ہے اور مریخ ہمارے مقابلے میں سورج سے زیادہ دور ہے).

یا فرض کرتے ہیں کہ ایک ستارہ ہم سے ایک ہزار نوری سال دور ہے، اور اس ستارے کا ایک سیارہ بھی ہے جو اس کے گرد گردش کرتا ہے اور جس پر کوئی سمجھدار مخلوق رہتی ہے.. چنانچہ اگر ہمارا سورج 14 اگست 1947ء کو پھٹ جائے تو اس سیارے کی سمجھدار مخلوق یہ واقعہ 14 اگست 2947ء کو ہی ریکارڈ کر پائے گی.. یعنی ہمارے لیے اب یا کل کا مطلب ایک ایسا مستقبل ہے جس کی جڑیں تقریباً ایک ہزار سال تک پھیلی ہوئی ہیں، یا دس ہزار، ایک ملین یا شاید ایک بلین سال.. اور اس کا برعکس بھی درست ہے.

یہاں فہیم مسکراتے ہوئے کہتا ہے: تو مجھ پر اعتراض کیوں کیا جب میں نے آپ کو کہا کہ واقعہ اسی جگہ ہوا ہے؟

فلکیات دان: کیونکہ تمام اجرامِ فلکی منظم رفتار سے ایک دوسرے کی نسبت حرکت کرتے رہتے ہیں، اس لیے پوری کائنات میں کوئی چیز ساکن نہیں.. کیونکہ ان کی حرکت کے نتیجے میں ان کے مقامات ایک دوسرے کی نسبت بدلتے رہتے ہیں.. اگرچہ ہمیں معاملات کچھ اور لگتے ہیں.. چنانچہ وقت متغیر ہے، اور مکان یا مقام بھی متغیر ہے.. چنانچہ اس بنیاد پر کائنات میں ہر کسی کو چاہیے کہ وہ معاملات کو اپنے رہنے کے ماحول کے حساب سے ریکارڈ کرے، یعنی اپنے ماحول کے وقت، مقام اور حرکت کے حساب سے!

خیر فہیم اور فلکیات دان کی بحث کو چھوڑ کر ہم زمان کی اضافیت پر بات کرتے ہیں جس طرح کہ آئن سٹائن نے اسے اپنی مساوات کے ذریعے پیش کیا جو دماغ کی چولیں تک ہلا دیتی ہے.. کیونکہ سائنسدان زمان، حرکت اور فضاء (مکان یا کائنات) کو جس طرح دیکھتے ہیں وہ ہمیں ان ظاہری حقائق سے بہت دور لے جاتا ہے جو ہمیں منطقی اور معقول لگتی ہیں جن پر کسی صورت بحث نہیں کی جاسکتی!

ہر متحرک چیز اپنے ساتھ اپنا زمان یعنی وقت بھی لے جاتی ہے، اس سے ہمارا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنے ہاتھ میں گھڑی باندھے ہوئے ہے یا "الارم" ساتھ لیے ہوئے ہے، یا اس طرح کا کوئی آلہ جن سے ہم وقت کو اپنی زمین پر ناپتے ہیں اور جنہیں ہم نے اپنی مرضی سے بنا کر ان میں سیکنڈ، منٹ اور گھنٹے شامل کر کے اپنی روز مرہ زندگی کی مناسبت سے ہم آہنگ کر لیا ہے، بلکہ یہاں ہمارا مطلب کائناتی زمان ہے.. یعنی ہم اس زمان کو نہیں دیکھ سکتے، حالانکہ وہ چاروں ابعاد کا ایک بعد ہے.. اس کے با وجود کہ ہم "چار ابعادی" دنیا میں رہتے ہیں - جیسا کہ آئن سٹائن کے استاد مینکوفسکی کہتے ہیں - اور ان کے بعد آئن سٹائن جس نے استاد کے خیال کو ترقی دی.. اور اس کے با وجود کہ یہ عجیب دنیا موجود ہے، ہم صرف تین ابعاد میں ہی دیکھ سکتے ہیں، کیونکہ زمانی بعد ہم سے اوجھل ہے، اگر وہ ہمارے سامنے منکشف ہوجائے تو شاید ہم مستقبل کے واقعات کو وقوع پذیر ہونے سے پہلے دیکھنے کے قابل ہوجائیں.. مگر در حقیقت زمانی بعد اس طرح کا بعد نہیں ہے جنہیں ہم اپنی زندگی میں جانتے ہیں، بلکہ یہ چار ابعادی کائنات میں بطور چوتھے بعد کے کسی نہ کسی طرح بُنا ہوا ہے، اور اگر اس بعد کی رفتار بڑھ جائے تو یہ سکڑ بھی سکتا ہے.. خیر فی الوقت یہ سب رہنے دیتے ہیں اور زمان کی مساوات کی طرف واپس جاتے ہوئے اس کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں.

خلاء میں فہیم اور شبانہ کی حالت پر واپس آتے ہیں.. شبانہ فہیم کی نسبت روشنی کی نوے فیصد 90% رفتار سے سفر کر رہی ہے.. ہم نے دیکھا کہ کس طرح یہ رفتار لمبائیوں پر اثر انداز ہوکر انہیں سکیڑ دیتی ہے، اور کمیت پر اثر انداز ہوکر اسے بڑھا دیتی ہے.. تو کیا یہ رفتار وقت پر بھی اثر انداز ہوگی؟ اور اگر اثر کرتی ہے تو اسے کس طرح ناپا جائے جبکہ ہم اس کا بعد ہی نہیں جانتے؟

در حقیقت ہمارے پاس یہ تصور کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ فریقین کے پاس انتہائی دقیق گھڑیاں ہیں، کیونکہ یہ بہرحال کوئی معینہ زمانی دورانیے تو بتاتی ہی ہیں، ہم فرض کرتے ہیں کہ فہیم اس سے، اس جنونی رفتار میں گزرتی ہوئی شبانہ کی رفتار ناپ سکتا ہے جبکہ شبانہ بھی اس سے گزرتے ہوئے فہیم کی رفتار ناپ سکتی ہے کہ دونوں باتیں ہی نسبتی ہیں.

اگر فہیم شبانہ کے خلائی جہاز میں لگی گھڑی پر نظر ڈالے تو وہ دیکھے گا کہ شبانہ کی گھڑی کی سوئیاں اس کی گھڑی کے مطابق حرکت نہیں کر رہیں، جہاں فہیم کی گھڑی میں دو سیکنڈ گزرتے وہاں شبانہ کی گھڑی صرف ایک سیکنڈ آگے بڑھتی ہے.. اس کا مطلب یہ ہے کہ فہیم کا ایک گھنٹہ شبانہ کے آدھے گھنٹے کے برابر ہے، اسی طرح فہیم کی عمر کا ایک سال شبانہ کی عمر کے چھ ماہ کے برابر ہے.

فہیم کو لگتا ہے کہ کہیں کوئی گڑبڑ ضرور ہے، اس کے پاس موجود تمام گھڑیاں بالکل درست ہیں اور ایک ہی وقت بتا رہی ہیں، اس لیے ضرور شبانہ کی گھڑی میں کوئی خرابی ہے، چنانچہ وہ دور سے جو گفتگو کریں گے وہ کچھ یوں ہوسکتی ہے:

فہیم: شبانہ.. تمہارے ہاں ہر چیز میں گڑبڑ ہے.. وقت میں بھی!

شبانہ (حیرت سے): کیا مطلب؟ .. یہ بھی ضرور تمہارے ہی دماغ کی خرابی ہوگی.

فہیم: اس زمینی وضع داری کا شکریہ.. پھر بھی تمہاری گھڑی کا وقت میری گھڑی سے نہیں مل رہا حالانکہ زمین پر دونوں گھڑیاں بالکل ایک ہی وقت بتا رہی تھیں.. عجیب بات ہے.. تمہارے ہاں وقت بہت سست رو ہے!

شبانہ: میرے پاس تین گھڑیاں ہیں جو بالکل ایک ہی وقت بتا رہی ہیں.. ضرور تمہاری گھڑی میں کوئی خرابی ہوگی!

فہیم: ایسا نہیں ہوسکتا.. میری تمام گھڑیاں بالکل ٹھیک ہیں.. دیکھو.. یہ دیکھو میری گھڑیاں.

شبانہ: عجیب بات ہے؟ .. تم کہتے ہو کہ میرے ہاں وقت سست ہے، جبکہ تمہاری گھڑیاں دیکھ کر تو مجھے اپنے وقت کی نسبت تمہارا وقت سست لگ رہا ہے.. ضرور کوئی گڑبڑ ہے.

دراصل گڑبڑ حرکت میں ہے.. دو مختلف رفتاروں سے حرکت کرنے والوں کے درمیان وقت کا بہاؤ مختلف ہوتا ہے، مگر زمین پر ہم یہ نوٹ نہیں کر پاتے کیونکہ زمین پر کسی بھی چیز کی رفتار روشنی کی رفتار کے مقابلے میں بہت سست ہے.. زمین سے سات میل فی سیکنڈ کی رفتار (اب تک انسان کی انتہائی رفتار) سے چاند کے سفر پر نکلے خلائی جہاز کا وقت پورے دن میں سیکنڈ کے بیس ہزارویں حصے کے ایک حصے کے برابر سست ہوتا ہے.. یہ انتہائی کم زمانی دورانیہ ہے جسے ہم دقیق ترین گھڑیوں سے بھی نہیں ناپ سکتے.

یہاں کوئی پوچھ سکتا ہے کہ: یہاں کون سچ کہہ رہا ہے؟ .. کیا شبانہ کا وقت سست ہوا ہے یا فہیم کا؟

بظاہر یہ سوال کافی منطقی اور معقول معلوم ہوتا ہے مگر درحقیقت یہ ایک احمقانہ سوال ہے، بالکل اس طرح جیسے کوئی سوال کرے کہ: انسان حجم میں بڑا ہے یا چھوٹا؟ .. اس سوال کے جواب کا انحصار کسی دوسری شئے کی نسبت انسان کے حجم پر ہے.. ہم کہیں گے کہ کسی چیونٹی یا کاکروچ کی نسبت انسان کا حجم بہت بڑا ہے، مگر کسی ہاتھی یا ڈائناسار کی نسبت بہت چھوٹا ہے.

وقت کے بہاؤ کا انحصار نہ صرف سوال کرنے اور جواب دینے والے پر ہے، بلکہ ایک ماحول کی دوسرے ماحول کی نسبت حرکت پر بھی ہے.. جب فہیم شبانہ سے کہتا ہے کہ شبانہ کے ہاں اس کی نسبت وقت سست ہے، تو وہ درست کہہ رہا ہے، اور جب شبانہ بھی یہی بات کہتی ہے تو وہ بھی حق پر ہے! یہاں شاید ایک واضح تضاد نظر آرہا ہے مگر اس طرح سوچنے کی ہمارے پاس کوئی وجہ نہیں ہے.. ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ خلاء میں فہیم یہ نہیں جان سکتا کہ وہ حرکت میں ہے یا نہیں، کیونکہ اس کے گرد ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو اسے حرکت کا احساس دلائے.. اسی طرح شبانہ بھی یہ سمجھتی ہے کہ وہ حرکت نہیں کر رہی بلکہ فہیم حرکت کرتا ہوا اس سے اس رفتار میں گزر رہا ہے، اسی لیے دونوں کو اپنا اپنا وقت منطقی اور معقول لگتا ہے (کیونکہ دونوں ہی اپنے آپ کی نسبت حرکت نہیں کر رہے)، لیکن اگر آپ اپنے ماحول کی نسبت کسی حرکت کرتے ہوئے ماحول کا وقت ریکارڈ کریں تو معاملہ مختلف ہوگا.. اور چونکہ ہر حرکت نسبتی ہے، چنانچہ لازم ہے کہ ہر زمان (وقت) نسبتی ہونا چاہیے.. کیونکہ دونوں ایک دوسرے پر منحصر ہیں!

اگر فہیم اور شبانہ دونوں بالکل ایک ہی رفتار سے سفر کرتے تو وقت کے بھنور میں نہ پھنستے، کیونکہ اس حالت میں ان دونوں کی نسبتی رفتار صفر ہوتی، چنانچہ فہیم کو شبانہ کا وقت بالکل اپنے وقت کے مطابق لگتا، اسی طرح شبانہ کو بھی فہیم کا وقت اپنے وقت کے مطابق لگتا، یعنی دونوں وقت میں کوئی فرق محسوس نہ کرتے.

مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان دونوں کا وقت ہمارے زمینی وقت کے مطابق ہوگا، کیونکہ شبانہ (یا فہیم) ہم سے 163 ہزار میل فی سیکنڈ دور جا رہی ہے، اس پر کوئی الزام نہیں اگر وہ یہ کہے کہ زمین اس سے 163 ہزار میل فی سیکنڈ دور جا رہی ہے.. اس صورت میں لکم دینکم ولی دین.. یعنی اس کا وقت الگ اور ہمارا وقت الگ ہوگا.. اور چونکہ وہ ہم سے دور جاتے ہوئے حرکت کر رہی ہے اس لیے ہمیں اس کا وقت سست لگے گا، مگر وہ ہمیں یقین دلائے گی کہ اس کے وقت پر کوئی غبار نہیں اور وہ بالکل ٹھیک ہے.. بلکہ وہ ہمارے وقت کو سست قرار دے گی.. تو پھر دونوں "اوقات" میں کون سا وقت سست روی سے بہہ رہا ہے؟ .. ہمارا یا اس کا؟

ہم پھر کہیں گے کہ: چونکہ ہر حرکت نسبتی ہے، چنانچہ دونوں باتیں درست ہیں.. بالکل جیسے آپ کہیں کہ: کیا ملتان سے کراچی آتی ہوئی ٹرین کراچی سٹیشن کے قریب آرہی ہے یا کراچی کا سٹیشن اس کے قریب ہو رہا ہے؟ .. یہاں دونوں باتیں نسبتی ہیں، اور یہی بات وقت کے ساتھ صادق آتی ہے، کیونکہ اس کا انحصار اس ماحول پر ہے جس میں کھڑے ہوکر ہم اپنی نسبت دوسرے حرکت کرتے ہوئے ماحول کو دیکھتے ہیں.

دراصل مساوات کا مضمون یہ ہے کہ جو چیز جتنی تیزی سے حرکت کرے گی اس کا وقت اتنا ہی سست ہوگا (کسی ساکن ماحول کی نسبت).. یعنی اگر شبانہ روشنی کی رفتار کے قریب سفر کرنے لگے تو اس کی عمر اہلِ زمین کے مقابلے میں کئی گنا لمبی ہوجائے گی.. کیونکہ اس کے ماحول میں (جیسا کہ ہمیں اپنی زمین سے لگے گا) ہر چیز اس جنونی رفتار سے متاثر ہوگی.. لمبائیاں، کمیتیں، وقت، اور اس کے جسم میں ہوتا کیمیائی اور حیاتیاتی تعامل بھی.. حتی کہ وہ ذرے (ایٹم) جو اسے اور اس کے ماحول کو تشکیل دیتے ہیں سست پڑجائیں گے یعنی ان کی ایٹمی سرگرمی بھی سست پڑ جائے گی، مگر شبانہ اپنے ماحول میں کوئی غیر معمولی بات نوٹ نہیں کر سکتی (کیونکہ اس کے ماحول میں جو کچھ بھی ہے وہ اپنی نسبت حرکت نہیں کر رہا).. اسے لگے گا کہ اس کا وقت بالکل اسی طرح چل رہا ہے گویا وہ زمین پر ہی رہ رہی ہو، اگرچہ اہلِ زمین کو اس کے برعکس نظر آرہا ہوگا.

مگر.. کیا ہو اگر شبانہ خلاء میں روشنی کی رفتار سے نکل کھڑی ہو؟

اگر ایسا ہوجائے، اور مساوات کے قاعدے لاگو کیے جائیں، تو ہم پر اور کائنات میں ہر مشاہدہ کرنے والے پر انکشاف ہوگا کہ شبانہ کا جو وقت ہم ریکارڈ کر رہے ہیں وہ صفر ہے، یا دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ: شبانہ کا وقت رک گیا ہے اور وہ کبھی بوڑھی نہیں ہوگی، اس کی جوانی - جب تک کہ وہ روشنی کی رفتار میں سفر کر رہی ہے - ہمیشہ قائم رہے گی.

تو کیا یہ ممکن ہے؟

یقیناً نا ممکن ہے.. کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ شبانہ روشنی کی رفتار سے سفر کر سکے.. اور نا ہی کوئی بھی دوسری مادی شئے، چنانچہ وقت نہیں رکے گا، بلکہ انتہائی حد تک سست پڑجائے گا جب تک کہ وہ روشنی یا اس سے قریب رفتار میں سفر کرتی رہے گی.

چلیے ذرا معاملے کو کچھ اور واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں: اگر شبانہ (ہماری نسبت) منظم انداز میں روشنی کی نوے فیصد 90% رفتار سے سفر کرے تو ہمارے زمینی وقت کے حساب سے اس کا وقت پچاس فیصد 50% تک سست پڑجائے گا، اور اگر اس کی رفتار کچھ بڑھ جائے اور روشنی کی اٹھانوے فیصد 98% رفتار تک پہنچ جائے، تو ایک "شبانی" سال (شبانہ کی نسبت سے) زمین کے ساڑھے پانچ سالوں کے برابر ہوگا، اور اگر اسی تناسب سے اس کی رفتار بڑھتی ہی چلی جائے تو شبانہ کا ایک دن ہماری زمین کے سینکڑوں، ہزاروں یا شاید لاکھوں سالوں کے برابر ہوسکتا ہے.. اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ روشنی کی رفتار کے کتنا قریب پہنچتی ہے!

اس منظرنامہ کو ہم ایک اور دلچسب شکل میں بھی پیش کر سکتے ہیں.. وہ یوں کہ اگر ہم فرض کریں کہ شبانہ کی بدقسمتی سے فہیم کے ساتھ شادی ہوگئی، اور فہیم نے اپنی "فہامت" سے اسے اتنا تنگ کیا کہ وہ اسے اور اپنے دس سالہ بیٹے کو چھوڑ کر، ایک خلائی جہاز میں سوار ہوکر روشنی کی رفتار سے قریب رفتار میں کائناتی سفر پر نکل کھڑی ہوئی، اور قسم کھائی کہ وہ دو سال بعد ہی واپس آئے گی.. ایک سال جانے میں اور ایک سال واپس آنے میں، کہ شاید یہ سفر اس کے زمینی غم دور کر سکے.. اور پھر وقت بڑی آہستگی سے گزرتا ہے.. پھر اڑتی سی اک خبر پھیلتی ہے کہ شبانہ جو تیس سال کی عمر میں زمین چھوڑ کر گئی تھی، کچھ دنوں میں لوٹنے والی ہے.. اہلِ زمین - بشمول شبانہ کے رشتہ دار - اس کا استقبال کرنے جاتے ہیں، جب وہ اپنے خلائی جہاز سے اتر کر لوگوں کی بھیڑ پر نظر ڈالتی ہے، تو اسے اس بھیڑ میں کوئی بھی ایسا شخص نظر نہیں آتا جسے وہ جانتی ہو.. نا تو فہیم ہوتا ہے، نہ اس کا بیٹا اور نا ہی اس کا بھائی اور نا ہی اسے الوداع کرنے والوں میں سے کوئی اور اس کا استقبال کرنے آتا ہے.. شبانہ کا استقبال کرنے والے لوگ اسے بالکل اسی طرح جوان دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں.

بھیڑ میں سے ایک بوڑھا آگے بڑھ کر اسے گلے لگا کر اس کا استقبال کرتے ہوئے کہتا ہے: واپسی مبارک ہو دادی اماں! .. آپ کو دیکھنے کے لیے آنکھیں ترس گئی تھیں.. پورے سو سال تک آپ کی واپسی کا انتظار کرنا پڑا..!

شبانہ کو لگتا ہے کہ اس سے گلے ملنے والا یہ بوڑھا شاید سٹیا گیا ہے، وہ حیرت سے لوگوں کو دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہتی ہے: شکریہ دادا جی شکریہ..

یہاں لوگ فوراً معاملے کو سدھارنے کے لیے دخل اندازی کرتے ہوئے کہتے ہیں: یہ آپ کا پوتا ہے.. یہ آپ کے بیٹے کا بیٹا ہے جسے آپ دس سال کی عمر میں چھوڑ کر چلی گئیں تھیں.. آپ جنہیں جانتی تھیں انہیں مرے ہوئے سینکڑوں سال گزر گئے ہیں.. اور شبانہ بے ہوش ہوجاتی ہے، صدمہ سے اس کے دل کی دھڑکن رک جاتی ہے اور وہ مرجاتی ہے.. جیسے موت نے اسے آرام دیا ہو، کیونکہ وہ ایسے زمانے میں نہیں رہ سکتی جو اس کا نہیں، گویا اہلِ کہف کی کہانی دوسری شکل میں ایک بار پھر دہرا دی گئی ہو.

شاید آپ کو یہاں ان سائنس فکشن کہانیوں کی بو آرہی ہوگی جو زمان کی اضافیت پر مبنی ہیں (جیسے ٹائم مشین یا پلینٹ آف دی ایپس).. ان کہانیوں کے مصنفین سائنسی بنیادوں پر کہانی لکھتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کس طرح روشنی کی رفتار کے قریب سفر کرتے ہوئے خلابازوں کا وقت تھم جاتا ہے، اور پھر جب وہ کئی سالوں بعد اپنی زمین پر واپس آتے ہیں تو وہ پہچان ہی نہیں پاتے کہ یہ زمین ان کی اپنی ہی زمین ہے (کیونکہ اس میں ہر چیز بدل چکی ہوتی ہے).. یا وہ کسی دوسرے سیارے پر آگئے ہیں..

یہاں مراد آکر کہتا ہے کہ: آئیڈیا؟! .. اگر یہ معاملہ ہے، تو سائنسدان جلدی سے ایسے بڑے خلائی جہاز کیوں نہیں بناتے جن میں ہم ٹولیوں کی شکل میں سوار ہوکر روشنی سے قریب رفتار میں نکل کھڑے ہوں، اس طرح ہمارا وقت سست ہوجائے گا اور ہماری عمریں دراز ہوجائیں گی، ساتھ ہی ہم اس زمین سے بھی دور ہوجائیں کے جو ہمیں دن بہ دن بڑھاپے کی طرف گھسیٹے چلی جا رہی ہے؟

مراد جیسا چاہے سوچ سکتا ہے، مگر اسے سمجھنا چاہیے کہ ایسے خلائی جہاز بنانے ممکن نہیں، کیونکہ ان کا روشنی کی رفتار کے قریب ہی سفر کرنا تقریباً نا ممکن ہے، اس معاملے میں ہماری تمام تر زمینی ترقی ہمارا مداوا نہیں کرے گی.. اور پھر مراد کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ جو شخص روشنی کی رفتار سے یا اس رفتار کے قریب سفر کرے گا وہ اس زمین پر پھر کبھی واپس نہیں آسکے گا.. کیونکہ نظریہ اضافیت کی کچھ شرطیں ہیں جن کا پورا ہونا لازمی ہے، وقت تب ہی سست ہوگا اگر خلائی جہاز ایک منظم رفتار سے خطِ مستقیم پر سفر کرے.. اگر یہ شرطیں پوری نہ ہوئیں تو وقت کے سست ہونے کا موقع آپ کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور آپ کی زندگی زمین سے کہیں دور خلاء کی اتاہ گہرایوں می ہی کہیں ختم ہوجائے گی.

یہاں سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب درست بھی ہے؟ .. کیا کوئی ایسی ایک بھی مشاہداتی دلیل ہے جو ثابت کرے کہ رفتار کے بڑھنے سے وقت سست پڑجاتا ہے؟

جی ہاں.. اس بات کے بھی کئی مشاہداتی ثبوت موجود ہیں.. اس کا ثبوت سائنسدانوں کو ان کائناتی جسیموں میں ملا ہے جو ہماری زمین کی طرف انتہائی تیزی سے بڑھتے ہیں، جنہیں ہم کائناتی شعاعوں کا نام دیتے ہیں کیونکہ یہ شعاعیں کائنات کی اتاہ گہرائیوں سے ہماری طرف آتی ہیں.. ان جسیموں میں سے بعض ہمارے کرہ ہوائی کی اوپری تہہ سے ٹکرا کر تباہ ہوجاتے ہیں جن سے ایک اور جسیمے پیدا ہوکر تیزی سے زمین کی طرف بڑھتے ہیں.. جو بات سائنسدانوں کو ایک عرصہ تک پریشان کرتی رہی وہ یہ تھی کہ یہ جسیمے انتہائی کم عمر تھے.. ان میں سے بعض سیکنڈ کے دس لاکھویں حصے سے بھی کم زندہ رہ پاتے ہیں اور بعض اس سے بھی انتہائی کم.. چنانچہ کرہ ہوائی کی اوپری تہہ سے انہیں ہم تک پہنچنے کے لیے درکار وقت ان کی عمر سے کہیں زیادہ ہوتا ہے.. چنانچہ دلائل اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ ہماری زمین تک کبھی نہیں پہنچ پائیں گے، انہیں وہیں پیدا ہونا اور وہیں مرنا ہوگا.

جب سائنسدانوں نے زمان کی سست روی سے متعلق اضافیت کی مساوات استعمال کر کے ہماری زمین کی نسبت ان جسیموں کی رفتار ناپی تو انہوں نے پایا کہ ان کے لیے وقت سست پڑجاتا ہے اس لیے وہ زمین تک پہنچنے کے لیے زیادہ عرصہ زندہ رہتے ہیں کیونکہ ان کی رفتار روشنی کی رفتار کے قریب قریب ہی ہوتی ہے.

سائنسدان بھی ایٹمی ری ایکٹروں میں اس کا مشاہدہ کرتے ہیں، کوئی جسیمہ جتنا تیزی سے حرکت کرتا ہے وہ اس جسیمے سے زیادہ عرصہ زندہ رہتا ہے جو ساکن ہوتا ہے.. بالکل جس طرح نظریہ اضافیت پیشین گوئی کرتا ہے!

یہاں فہیم ہمیں ٹوکتے ہوئے کہتا ہے: ان ایٹمی دلیلوں سے ہمیں کیا لینا دینا؟ .. ہمیں تو اپنی ارد گرد کی دنیا سے ثبوت چاہیے.. ہم اپنی عمریں لمبی ہوتی دیکھنا چاہتے ہیں.. ہم چاہتے ہیں کہ وقت ہمارے لیے سست ہو نا کہ ایٹمی جسیموں کے لیے.

فہیم کو ہمارا جواب یہ ہے کہ: فی الوقت زمین پر ایسا کوئی انسان نہیں ہے کہ جو عمر کو دراز کرنے کا تجربہ کر سکے، ما سوائے اگر وہ ایک ایسا خلائی جہاز تیار کر سکے جو روشنی نما رفتار سے کائنات میں خطِ مستقیم پر سفر کر سکے مگر کبھی نا واپس آنے کے لیے.

مگر چونکہ ذرات کی حد تک اضافیت کی پیشین گوئیاں درست پائی گئی ہیں چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ شاید یہ کبھی خلیوں اور جاندار مخلوقات پر بھی صادق آسکیں.. اس کا انحصار آنے والی نسلوں کی نئی نئی دریافتوں پر ہے.. اس میں شک نہیں کہ آنے والی نسلیں اس نظریے کو ترقی دیں گی، جس طرح آئن سٹائن نے نیوٹن اور گلیلیو اور ان کے بعد دیگر بہت سے سائنسدانوں کے کام کو ترقی دی.

اب ہمیں ان تضادات کی طرف واپس چلنا چاہیے جو حرکت اور رفتار پر بات کرتے ہوئے ہمیں درپیش رہیں، اور کس طرح ہم نے حرکت اور رفتار کے قوانین کا اطلاق کیا جیسا کہ ہم اپنی روز مرہ زندگی میں کرتے ہیں (یعنی رفتاریں جمع یا منفی کرتے ہیں).. مگر اضافیت کی مساواتوں نے بتایا کہ یہ بالکل درست نہیں، اور ان میں ایسی غلطیاں ہیں جو شاید ہمیں اپنی زمینی عادتوں کی وجہ سے نظر نا آئیں، مگر غلطی اس وقت بہت خطرناک ہوگی جب ہمارا واسطہ تیز تر کائناتی رفتاروں سے پڑے گا.. یہاں ایک چھوٹی سی مثال کافی ہوگی.. پہلے پیش کردہ سابقہ یاداشتوں کو ہم تازہ کرتے ہیں.. اور فرض کرتے ہیں کہ فہیم کا خلائی جہاز خلاء میں خراب ہوکر رک گیا ہے، شبانہ اپنے خلائی جہاز کے ساتھ اس کے پیچھے 180 ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے آئی اور اس کے پاس سے گزر گئی، اگلے ہی لمحے فہیم کے سامنے شبانہ کا خلائی جہاز 180 ہزار میل طے کرگیا، فہیم شبانہ کو روشنی کے ذریعے سگنل بھیجتا ہے جو شبانہ کے جہاز کے پیچھے 186 ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے نکل پڑتا ہے، اس وقت اگر شبانہ روشنی کے سگنل کے سامنے 180 ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے اسے اپنی طرف آتے ہوئے دیکھے تو اسے سگنل کی روشنی اپنے پیچھے چھ ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے آتی ہوئی نظر نہیں آئے گی، بلکہ وہ اپنی اصل رفتار یعنی 186 ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے اسے اپنی طرف آتی ہوئی نظر آئے گی، حالانکہ وہ روشنی کے سامنے 180 ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کر رہی ہے.

جو اضافیت کو نہیں جانتے ان کے لیے یہاں رفتاروں کو منفی کرنا ایک منقطی اور معقول بات ہے، اور یہی تضاد کا راز ہے.. حالانکہ اصل میں کوئی تضاد نہیں ہے.. کیونکہ ہم نے شبانہ کی نسبت وقت کی سست روی کو اپنے حساب میں شامل ہی نہیں کیا جیسا کہ فہیم کو یا ہمیں زمین سے نظر آرہا ہے.. کیونکہ شبانہ کے وقت کا ایک سیکنڈ ہمارے زمینی سیکنڈ کے طول سے مختلف ہے.. اس کے ہاں زمان کے پھیلاؤ اسے یہ احساس دلاتا ہے کہ روشنی اس کی طرف اپنی عمومی رفتار سے ہی بڑھ رہی ہے.. جتنا وہ اس کے سامنے تیزی سے دوڑے گی، اتنا ہی اس کا وقت سست ہوتا جائے گا، اور ہمیں اپنے حساب کتاب میں زمان کے پھیلاؤ (یا سمٹاؤ) کی کمی پوری کرنی ہوگی تب ہمیں کسی قسم کا کوئی تضاد نظر نہیں آئے گا.

ہم سیکنڈ کو ایک معینہ زمانی دورانیہ سمجھتے ہیں، مگر ہم اسے مسافت یا اپنے جانے پہچانے ابعاد میں سے کوئی بعد بھی تو سمجھ سکتے ہیں، ہم کہہ سکتے ہیں کہ 186 ہزار میل کی مسافت ایک نوری سیکنڈ کے مساوی ہے، یا چاند ہم سے 1.3 نوری سیکنڈ دور ہے، اور ہم سے سب سے نزدیک ستارہ (سورج کے بعد) 4.3 نوری سال دور ہے (تقریباً 26 ملین ملین میل).. جیسے یہاں زمان کائناتی ابعاد میں سے ہی ایک بعد ہو، جو پھیلتا اور سکڑتا بھی ہے، مگر ہم اسے سکڑتا نہیں دیکھ سکتے جیسے ہم چوہے کو بلی کے سامنے سکڑتا دیکھتے ہیں، یا جیسے کوئی نیا کپڑا دھلنے کے بعد سکڑ جاتا ہے.. اب اگر وہ ہمیں نظر نہیں آتا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ موجود نہیں.. اور اس کے موجود ہونے کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ ہمیں اس طرح نظر آئے جس طرح ہم وقت کو اپنی گھڑیوں میں دیکھتے ہیں.. حالانکہ ہم نے معاملات کو سہل بنانے کے لیے ان کا (گھڑیوں کا) استعمال ضرور کیا ہے.

ہم چاہے جتنا بھی اپنی زبان میں اس موضوع پر بحث کر لیں، ہمارے گھومنے کا دائرہ ہمیشہ کھوکلا ہی رہے گا.. ہم وقت کو اس طرح کبھی نہیں سمجھ پائیں گے جس طرح ریاضیاتی مساواتیں ہمیں سمجھانا چاہتی ہیں.. اور اگر ریاضیاتی مساواتیں تخیل کی پرواز ہوتیں، یا ان کی کوئی بنیاد ہی نہ ہوتی، تو ہم پر کبھی بھی کائنات کے حقیقی راز اس طرح آشکار نہ ہوتے جس طرح کہ وہ اصل میں ہیں، نا کہ جس طرح ہمارا دماغ انہیں دیکھنا چاہتا ہے!

ہم تضادات میں پڑتے ہیں، اور اس کی وجہ قدرت کے ان قوانین کو قرار دیتے ہیں جو ہر فریم (ماحول) میں الگ ہیں.. نقص نا تو قوانین میں ہے اور نا ہی اس خوبصورت نظام میں جس پر کائنات چل رہی ہے، نقص دراصل ہم میں ہے، ہم کائنات کی تشریح کرتے ہوئے زمانی بعد کو ہمارے محسوس کردہ تینوں ابعاد سے الگ کردیتے ہیں، یہ تینوں ابعاد وہ خالی جگہ بناتے ہیں جس میں کہ اجرامِ فلکی تیر رہے ہیں اور ہمیں اپنے سامنے کائنات اپنی تمام تر گھرائی، وسعت اور سمتوں میں نظر آتی ہے، مگر ہم زمانی بعد کو نہیں سمجھ پاتے یا چوتھا بعد جیسا کہ اسے کہا جاتا ہے، ہم اسے تین ابعاد میں شامل کر کے یہ نہیں کہتے کہ ہم ایک ایسی کائنات میں رہتے ہیں جو کہ چار ابعادی ہے، جو کسی نہ کسی طرح ایک دوسرے میں ڈھلے ہوئے ہیں.. مگر ہمیں وہ حقیقت میں ایک ساتھ اکٹھے نظر نہیں آتے.. اور اگر وہ ہمیں نظر آجائیں تو...

تو چلیے اس پر اگلے باب میں گفتگو کر کے اپنے موضوع کو ختم کرتے ہیں.

چار ابعادی عجیب کائنات!

اگر کسی ایسے شخص کو - جس کا ریاضیاتی سائنس سے کوئی تعلق نہ ہو - یہ بتا دیا جائے کہ کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو چار ابعادی صفت کی حامل ہیں تو اس کے بدن میں یقیناً جھرجھری سی دوڑ جائے گی، اس کے با وجود ہمیں اپنی زبان میں ایسا کوئی لفظ نہیں ملتا جس کے ذریعے ہم اسے بیان کر سکیں سوائے یہ کہنے کے کہ جس دنیا میں ہم رہتے ہیں وہ سوائے چار ابعادی زمان ومکان کی استمراری کے کچھ نہیں!

کائنات کو آئن سٹائن نے اسی طرح بیان کیا جیسا کہ اسے وہ اپنی ریاضیاتی مساواتوں میں نظر آتی تھی، اور جیسا کہ دیگر ریاضی دانوں کو نظر آتی ہے.. صرف اسی زبان سے - ریاضیاتی سائنس کی زبان - وہ ہمارے ارد گرد پھیلی ہوئی کائنات کی حقیقت سے قریب تر تصویر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے با وجود ہم عقل سے اس کا ادراک اور اپنے خیال سے اس کا تصور نہیں کر سکتے.

چار ابعادی کائنات سے آئن سٹائن کی کیا مراد تھی، اسے سمجھنے کے لیے ہم اپنے تخیل کے کچھ گھوڑے دوڑانے کی کوشش کرتے ہیں.. اور ایک ایسی مخلوقات کا تصور کرتے ہیں جو صرف ایک ابعادی کائنات میں رہتی ہے.. اس صورت میں ان مخلوقات کو اپنی دنیا اس طرح نظر نہیں آئے گی جس طرح کہ ہمیں اپنی دنیا نظر آتی ہے.. وہ جب حرکت کرتے ہیں تو گویا صراطِ مستقیم پر ہوتے ہیں، یعنی صرف خطِ مستقیم پر ہی حرکت کر سکتے ہیں.. انہیں نہیں معلوم کہ دائیں بائیں کس طرح جایا جائے، کیونکہ انہیں دائیں بائیں کے معنی کا ادراک ہی نہیں.. وہ صرف ایک ہی بعد جانتے ہیں یعنی وہ پتلی سی لائن جس کے اندر انہیں صرف آگے اور پیچھے حرکت کرنی ہے اور بس.. جس طرح چیونٹی ایک لمبی پتلی لائن میں چلتی ہے یا جس طرح سرکس کا وہ کھلاڑی جو رسی پر چلتا ہے جس میں وہ صرف آگے یا پیچھے ہی جاسکتا ہے.. اس ایک ابعادی کائنات کی مخلوق کچھ ایسی ہی ہوگی.. وہ اسی میں پیدا ہوئی اور اسی کی عادی ہوگئی اسی لیے اسے اس میں کوئی بھی غیر معمولی چیز نظر نہیں آتی.. ان کے لیے یہ ایک قطعی منطقی اور معقول دنیا ہے.. بالکل جس طرح ہم اپنی دنیا کو دیکھتے ہیں.

اور اب فرض کرتے ہیں کہ اس ایک ابعادی دنیا میں ایک ریاضیاتی سائنس دان آتا ہے اور اپنی کائنات پر ذرا گہرے انداز میں غور وفکر کرتا ہے اور اپنی ریاضیاتی مساواتوں سے ایک دوسرا بعد دریافت کرتا ہے جسے وہ “چوڑائی” کا نام دیتا ہے.. اور جب وہ اپنی دنیا کی مخلوقات میں اپنی دریافت کا اعلان کرتا ہے تو کوئی اعتراضاً اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے: تمہاری چوڑائی جائے بھاڑ میں، یہ فلسفہ اپنے پاس ہی رکھو، ہمیں تم پر یقین نہیں، تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے.

مگر کچھ سمجھدار لوگ اس سے اس معاملے پر بحث کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ: اس دوسرے بعد سے تمہارا کیا مطلب ہے جسے تم نے “چوڑائی” کا نام دیا ہے؟ .. تو جواباً وہ کہتا ہے کہ: اس کا مطلب ایک سطح یا رقبے کا وجود ہے جس میں ہم کسی بھی سمت میں گھوم سکتے ہیں.. تو وہ کہتے ہیں: یہ سطح اور سمت سے تمہاری کیا مراد ہے، ہمارا دماغ تو صرف یہی ایک واحد بعد ہی کا ادراک کر سکتا ہے جو کہ ہمارا مقدر ہے؟ .. تو وہ کہتا ہے: آپ لوگ میری مساوات کے ذریعے اس کا تصور کر سکتے ہیں، کیونکہ یہ واضح کرتی ہے کہ اگر خطِ مستقیم کی چوڑائی ہو تو وہ اس طرح پھیلتا چلا جائے گا کہ ایک سطح بنا لے گا.. جیسے؟ .. جیسے کیا؟.. (یقیناً یہ بات ہمارے لیے آسان ہے کیونکہ ہم مثلاً کہہ سکتے ہیں کہ اس کاغذ کی طرح کیونکہ اس کی لمبائی بھی ہے اور چوڑائی بھی).

اور پھر وہ سائنسدان خاموش ہوجاتا ہے، کیونکہ اسے اپنی دنیا میں کسی بھی “سطح دار” چیز کی کوئی بھی زندہ مثال نہیں ملتی.. اس میں صرف سیدھی لائنیں ہیں، وہاں کی مخلوقات نے ایک کے سوا کبھی کوئی دوسرا بعد دیکھا ہی نہیں، تب وہ سائنسدان کہے گا کہ: دراصل اسے سمجھانے کے لیے میں کوئی ایسا لفظ تلاش نہیں کر پارہا ہوں، میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ جو دنیا میں نے اپنی ریاضیاتی مساواتوں سے دریافت کی ہے وہ دو ابعاد میں طول و عرض (لمبائی اور چوڑائی) کی استمراری کے اور کچھ نہیں... اب وہ جتنی بھی تقریر کر لے کوئی بھی اس کا کبھی تصور نہیں کر سکے گا.. کیونکہ ان کے دماغ ایک بعد میں محدود ہیں.

اس کے بعد ہمیں چاہیے کہ ہم ایک ایسی مخلوقات کا تصور کریں جو دو ابعادی کائنات میں رہتی ہو، طول اور عرض.. یہ دو بعد ایک سطح دار رقبہ بناتے ہیں، اور ان میں یہ مخلوقات جس سمت میں چاہتی ہیں حرکت کرتی ہیں مگر وہ اوپر کی طرف کود (جمپ) نہیں سکتیں، اور نا ہی انہیں اپنی کائنات کی کوئی گہرائی نظر آتی ہے.. ان کا ادراک ان دونوں ابعاد میں محدود ہے.. ان کی دنیا میں اگر کوئی بال گرجائے، تو وہ انہیں اس طرح نظر نہیں آئے گی جس طرح وہ ہمیں اپنی دنیا میں نظر آتی ہے.. بلکہ وہ انہیں ایک دائرے کی طرح نظر آئے گی، بالکل اس طرح جس طرح اگر ہم زمین پر یا کسی سطح پر کوئی دائرہ بنائیں.. یعنی انہیں اپنی دنیا میں ہر چیز اس طرح نظر آئے گی جس طرح ہم اپنی دنیا میں کوئی سایہ دیکھتے ہیں، اور زمین پر سایہ کی نا تو کوئی اونچائی ہوتی ہے اور نا ہی گہرائی.. مختصراً یہ کہ یہ مخلوقات اوپر نیچے کا مطلب نہیں سمجھتیں، کیونکہ ان کے ادراک کا انحصار صرف دو متصل ابعاد پر ہی منحصر ہے.. طول اور عرض.

تب اگر ان میں کوئی ریاضی داں آکر یہ کہے کہ اس نے - اپنی مساواتوں کے ذریعے - ایک تیسرا بعد دریافت کیا ہے جس میں چیزیں مجسم نظر آتی ہیں.. تو لوگ حیرت سے سر ہلا کر کہیں گے کہ: مجسم چیزوں سے تمہاری کیا مراد ہے؟ .. تو وہ کہے گا: یعنی اس چیز کا ایک تیسرا بعد ہے جو اسے گہرائی دیتا ہے؟ .. تو لوگ کہیں گے کہ: تو گہرائی کا کیا مطلب ہے؟ .. تو وہ کہے گا کہ: یہ تیسرا بعد یا اونچائی ہے جس سے ہمیں کائنات میں خلاء (SPACE) نظر آئے گی جس میں چیزیں مجسم ہوسکیں گی.. جیسے.. جیسے کیا؟.. وہ سائنسدان - جو ایسی کائنات میں رہتا ہے جس کی مخلوقات صرف دو ابعاد ہی سمجھ سکتی ہیں - کچھ دیر خاموش ہوکر کہتا ہے: دراصل اسے سمجھانے کے لیے میں کوئی ایسا لفظ تلاش نہیں کر پارہا ہوں، میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ جو دنیا میں نے اپنی ریاضیاتی مساواتوں سے دریافت کی ہے وہ تین ابعاد میں طول و عرض اور گہرائی (لمبائی، چوڑائی اور اونچائی) کی استمراری کے اور کچھ نہیں.. وہ چاہے جتنا بھی تیسرے بعد یا گہرائی کا مطلب سمجھاتا رہے، اس کی دنیا کا کوئی بھی شخص تیسرے بعد کے وجود کا تصور نہیں کر سکے گا، کیونکہ ان کے دماغ صرف دو ابعاد کو ہی سمجھ سکتے ہیں.

اور اب ہم ایک تین ابعادی دنیا کی طرف آتے ہیں جس میں طول، عرض اور گہرائی موجود ہے، اس دنیا میں ہر چیز مجسم نظر آتی ہے.. پہاڑ، درخت، گھر، گاڑیاں، ہوائی جہاز، راکٹ ور ایک وسیع فضاء جسے اس دنیا کے لوگ اپنی آنکھوں اور دوربینوں سے کچھ نہ کچھ دریافت کرنے کی غرض سے تکتے ہی رہتے ہیں، انہیں اس کی گہرائی میں ہر سمت ستارے، سیارے اور کہکشائیں نظر آتی ہیں.. یہ ہماری دنیا ہے جس کا ہم ادراک رکھتے ہیں اور اپنے تمام تر احساسات سے اس میں رہتے ہیں، اور پھر ہمارے درمیان کچھ ریاضی دان نمودار ہوتے ہیں - جو اپنی ریاضیاتی مساواتوں سے - ہمیں ایک چوتھے بعد کے وجود کے بارے میں بتاتے ہیں جسے وہ زمانی بعد کا نام دیتے ہیں، اور جو ہمارے محسوس کردہ تین ابعاد میں کہیں سمایا ہوا ہے، تو ہم کہتے ہیں کہ: اس زمانی بعد کی حقیقت کیا ہے؟ تو وہ کہتے ہیں کہ: یہ سمٹتا یا پھیلتا ہے! .. تو ہم کہتے ہیں کہ: یہ کیسے ہوتا ہے؟ .. وہ جواب دیتے ہیں کہ: کیونکہ اس کا انحصار حرکت اور رفتار پر ہے؟.. تو ہم پوچھتے ہیں کہ: تو کیا ہم اسے دیکھ سکتے ہیں؟.. ان کا جواب آتا ہے کہ: صرف ریاضی کی مساواتوں کے ذریعے.. اس پر آئن سٹائن نے کہا تھا کہ: اس کے با وجود ہمیں اپنی زبان میں اسے بیان کرنے کے لیے کوئی لفظ نہیں ملتا، ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ: جس دنیا میں ہم رہتے ہیں وہ سوائے زمان ومکان میں چار ابعادی کی استمراری کے سوا کچھ نہیں.. بالکل اس سائنسدان کی طرح جو اپنی ایک ابعادی دنیا میں رہتا تھا اور اس نے اپنی قوم کو دو ابعادی دنیا کا مطلب سمجھانا چاہا.. یا پھر وہ سائنسدان جو دو ابعادی دنیا کا رہائشی تھا، اور اس نے اپنی قوم کی نظر میں گہرائی شامل کرنا چاہی (گہرائی جسے ہم مکان بھی کہہ سکتے ہیں.. کیونکہ ہم اس میں مجسم جگہ گھیرتے ہیں).

اس دنیا کا کوئی بھی انسان زمان ومکان میں جاری وساری چار ابعاد میں نہیں دیکھ سکتا.. کیونکہ ہمارا ادراک اس سے قاصر ہے، اور اگر ہمیں چاروں ابعاد کی حقیقت کا ادراک ہوجائے، تو شاید مستقبل اپنے تمام تر آنے والے واقعات، اور ماضی اپنی تمام تر فانی تصویروں کے ساتھ ہم پر منکشف ہوجائے.. پر خدا کا شکر ہے کہ اس نے اسے ہم سے چھپا رکھا ہے، ورنہ شاید ہماری مصیبت بہت بڑی ہوتی.. آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہوسکتا ہے، اللہ واقعی حلیم وستار ہے.. اور “اگر تم غیب کا علم رکھتے تو حال کا ہی انتخاب کرتے”.. اتنا ہی بہت ہے.. کیونکہ ہم جس چیز کا علم نہیں رکھتے اس پر بحث نہیں کرنا چاہتے.

ہمیں اب سوال اٹھانا چاہیے کہ: اگر ہم کائنات کو زمان ومکان میں دیکھیں.. تو کیا وہ ہمیں اپنی حقیقت میں نظر آئے گی؟ .. حقیقت یہ ہے کہ ہمیں حقیقت نا تو زمان میں اور نا ہی مکان میں ہی نظر آتی ہے.. ہمیں ستارے وہاں نظر نہیں آتے جہاں وہ دراصل ہوتے ہیں، بلکہ ہمیں ان کا ماضی نظر آتا ہے.. جب وہ وہاں سینکڑوں یا شاید ہزاروں سال پہلے موجود تھے.. کیونکہ ہمیں ان کے وجود کا تعین ان سے آتی روشنی سے ہی کرنا ہوتا ہے.. اور یہ روشنی ہم تک سینکڑوں یا کروڑوں نوری سالوں میں ہی پہنچ پاتی ہے.. یعنی ان کی روشنی جو اس وقت ہم تک پہنچ رہی ہے وہ دراصل ایک طویل عرصہ پہلے بھیجی گئی تھی، چنانچہ ہم اس وقت ان کے وجود اور مقام کا تعین نہیں کر سکتے، بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ وہ ایک طویل عرصہ پہلے کہاں اور کیسے تھے، کیونکہ وہ ہمیشہ زمان ومکان میں حرکت کرتے رہتے ہیں، اور چونکہ ہم چشمِ زدن میں زمان ومکان کو سمجھنے سے قاصر ہیں، اس لیے ہمیں کائنات میں ہر چیز اپنی حقیقت پر نظر آتی ہے، اس کی وجہ ہمارے قاصر دماغ، اور ہمارے حواس ہیں جو صرف تنگ حدود میں ہی دیکھتے اور سنتے ہیں.. بہرحال یہ ایک الگ طویل بحث ہے جس کی یہاں گنجائش نہیں.

تو یہ تھا خصوصی نظریہ اضافیت کا کچھ سطحی سا بیان، کیونکہ اس کا ریاضیاتی مطلب اس سے کہیں گہرا ہے جو بیان کیا گیا ہے، ہم قاری کو علمی بھول بھلیا میں دھکیلنا نہیں چاہتے تھے، اس میں کچھ میری کم علمی کا بھی دخل ہے، اسے کامیابی سے پیش کرنے کی میں صرف امید ہی کرسکتا ہوں.

یہ صفحات سمیٹنے سے پہلے یہ کہنا لازمی ہے کہ صرف اللہ کو ہی ہر چیز کے علم کا احاطہ ہے، اسے چشمِ زدن میں، شروع سے آخر تک اپنی بنائی ہوئی کائنات اپنی مطلق حقیقی حالت میں نظر آتی ہے، اس نے اس عظیم کائنات کے راز دریافت کرنے کے لیے ہمیں عقل دی ہے، شاید کبھی ہم حقیقت تک پہنچ سکیں.. یہاں کوئی کہہ سکتا ہے کہ حقیقت سے ہماری کیا مراد ہے جبکہ نظریہ اضافیت ہر چیز کو اضافیتی (یا نسبتی) ثابت کرتا ہے؟ .. اور اگر یہی بات ہے، تو کیا کبھی انسان مطلق حقیقت تک پہنچ سکے گا؟ .. اور اگر پہنچ گیا تو اس کا کیا مطلب ہوگا؟

اگر ہم فرض کریں کہ انسان نے مطلق حقیقت دریافت کر لی ہے، تب وہ اپنے خالق کے مرتبہ پر ہوگا، اور یہ ہو نہیں سکتا کہ کبھی مخلوق خالق کے مرتبہ پر پہنچ سکے، کیونکہ وہ کُل میں سے صرف ایک جزو ہے، اس لیے انسان جو بھی کچھ دریافت کرتا ہے وہ دراصل نسبتی حقیقت ہے نا کہ مطلق، کیونکہ مطلق صرف اللہ کے لیے ہے اور اس کے سوا سب کچھ نسبتی.

اور پھر کچھ بھی ہو، کائنات کے راز کبھی ختم نہیں ہوں گے.. کیونکہ یہ ایک سمندر ہے جس کا ہم نے ابھی صرف ایک قطرہ ہی حاصل کیا ہے.. اور اس ایک قطرے کو لے کر ہم اتنے پریشان ہیں.. کائنات کے متلاطم رازوں کے سامنے ہماری عقل ہمیشہ مبتلائے حیرت رہے گی.

ختم شدہ