باب دوم - سیاروں کی دنیا

نوے کی دہائی کے وسط میں ، سیاروں کی دنیا بہت ہی چھوٹی  اور صرف نظام شمسی کے نو سیاروں پر مشتمل تھی ؛ پلوٹو کی سیاروی حیثیت کو ابھی تک کسی نے نہیں للکارا تھا ۔ اس چھوٹی سی دنیا کے باوجود  یہ سیارے جس قسم کے متنوع فیہ قسم کے ماحول رکھتے تھے اس کا ہم تصوّر بھی نہیں کر سکتے تھے۔ خلائی جہازوں کے بیڑوں پر نصب کیمرے نظام شمسی کی کھوج کرتے ہوئے ہم پر اجنبی دنیائیں آشکار کر تے ہوئے  ہمیں سیارہ شناسی سکھا رہے تھے۔ حیات کی تو بات ہی چھوڑ دیں ، ہم تو کائناتی پیمانے پربھی   اس وقت سیاروں کی اہمیت   ہی سے آگاہ نہیں تھے۔ دور حاضر میں پہلی دفعہ سائنس دان سیاروں اور حیات کو کائنات  اور اس کی تاریخ کا لازم و ملزوم حصّہ سمجھ کر دیکھ رہے ہیں ۔ اس کھوج میں ہم سے جو کچھ  بن پڑ رہا ہے وہ ہم کر رہے ہیں ۔

 

ہمارے نظام شمسی میں سیارے دو قسم کے گروہ کو بناتے ہیں  - گیسی دیو  اور ارضیاتی سیارے ۔ مشتری  اپنے نام اور جسمانی ساخت کے بل بوتے پر تمام سیاروں پر حکمرانی کر رہا ہے ۔ قدیمی لوگوں نے نہ جانے اس بات کو کیسے سمجھا تھا یہ اب تک ایک راز ہی ہے، کیونکہ سائنس دانوں کو اس کی کمیت اور حجم  کی تصدیق کرنے میں لگ بھگ ڈھائی ہزار برس کا عرصہ لگ گیا تھا ۔ چار سو برس پہلے پڈووا   (Padua)میں گلیلیو گلیلی  نے پہلی دفعہ اپنے  غیر معمولی بصری آلے یعنی کہ دوربین  کا استعمال کرتے ہوئے مشتری کی طرف دیکھا تھا ۔ گلیلیو  نے کونے نکلے ہوئے ستارے کے بجائے ایک سیارہ دیکھا تھا  جس کے گرد چار چاند گردش کر رہے تھے ۔ اس نے انہیں میڈیچین(Medicean)  ستارے کا نام دیا۔ یہ نام اس نے اپنے فلورینٹین کے مربی  میڈیچی  کے نام پر دیا تھا۔ اس وقت تک ستاروں اور سیاروں کے درمیان فرق واضح نہیں تھا ۔ اب ہم ان کو مشتری کےگلیلائی   مہتابوں  کے نام سے جانتے ہیں ؛ ان مہتابوں  کے مداروں نے ہمیں سیاروں کے جاذبی کھنچاؤ اور ان کی کمیت کو ناپنے میں مدد کی ہے ۔(یہاں میں نے لفظ کمیت کا استعمال کیا ہے ۔ کسی بھی جسم کی کمیت  اس میں موجود مواد (ایٹموں یا مادّے ) سے ناپی جاتی ہے ۔کمیت اور قوّت ثقل ایک دوسرے سے متصل ہیں :قوّت ثقل کی طاقت کا انحصار کمیت پر ہوتا ہے  - زیادہ ضخیم جسم قوی قوّت (یا کھنچاؤ )پیدا کرتا ہے ۔ عام بول چل میں ہم اکثر وزن یا بھاری کے الفاظ  کمیت یا ضخامت کے لئے استعمال کر لیتے ہیں ۔ یہ درست نہیں ہے اور اس کے استعمال سے پیچیدگی پیدا ہو سکتی ہے ، لہٰذا میں کمیت یا ضخامت کے لفظوں کا ہی استعمال کروں گا ۔ ) یہ ناپ تول آئزک نیوٹن کے قوّت ثقل کے قانون کی جیت تھی جو  ان نسل کے سائنس دانوں کے لئے رہنما تھی  جنہوں نے گلیلیو کی پیروی کی  تھی۔ اسی نے نوجوان ایما نیول کانٹ(Immanuel Kant) کو سیاروں کی تشکیل کے عمل کو سلجھانے میں مدد کی تھی۔ اس کے ذریعہ ہمیں معلوم ہوا کہ مشتری کی کمیت تین سو زمینوں یا  تمام سیاروں کی کل کمیت سے بھی دو گنی ہے ۔ مشتری واقعی میں ایک دیوہیکل سیارہ ہے  اس کے مد مقابل صرف  دور دراز واقع حلقوں والا سیارہ زحل ہے ۔

 

 مشتری ایک گیسی دیو ہے  یہ بات ہم اس کی اوسط  کثافت کی بدولت جانتے ہیں ۔ اس کا نصف قطر زمین سے دس گنا زیادہ ہے  جس کی وجہ سے مشتری کا  حجم ایک ہزار گنا زیادہ بڑا ہے ۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ  مشتری کی کمیت زمین سے صرف تین سو گنا زیادہ ہے ،  اندازہ لگایا گیا کہ یہ لازمی طور پر ایسے مادّے سے بنا ہوگا جو ہماری چٹانی زمین سے ہلکے ہوں گے ۔ درحقیقت مشتری اور زحل زیادہ تر ہائیڈروجن اور ہیلیئم سے بنے ہیں  جو کائنات میں سب سے وافر مقدار میں موجود ہیں اور یہ سب سے ہلکے عنصر بھی ہیں ۔ یہ کافی حد تک سورج اور ستاروں جیسے مادّے سے بنے ہیں ۔(خاکہ نمبر 2.1 )۔

ہمارے نظام سیارگان کے  سب سے بڑے سیارے  ایک اور طرح سے سورج سے مماثلت رکھتے  ہیں   -  ان کی کوئی ٹھوس سطح  یا جغرافیہ  نہیں ہے۔ ہمیں آنکھوں سے دکھنے والے  کرۂ فضائی سے نیچے اترتے ہوئے صرف بادل اور بادل  ہی ہیں جو گہرائی میں جاتے ہوئے کثیف اور گرم تر ہوتے جاتے ہیں ۔ مشتری کے اندرون میں اکثر  ہائیڈروجن اور ہیلیئم اس فضائی دباؤ کو زمین کے مقابلے میں  دس لاکھ گنا زیادہ طور برداشت کرتے ہیں ۔ اس قدر زبردست دباؤ کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ جتنا بڑا سیارہ ہوگا اس کی کھینچنے کی طاقت بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ میرا وزن مشتری پر2.4 گنا زیادہ ہوگا ۔ اگر ہم سیارے کی گہرائی میں جانے کا جوکھم اس طرح اٹھائیں جس طرح سے سمندر میں ڈبکی مارتے ہیں  تو دباؤ بھی بڑھ جائے گا۔ اس بات میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہونی چاہئے کہ مشتری کے اندر چیزیں ہمارے قابو سے باہر ہو جائیں گی ۔یہاں ہائیڈروجن گیس دھاتی  مائع میں بدل جاتی ہے  ۔یہ برق کی موصل ہے  اسی لئے ہم اسے دھاتی مائع ہائیڈروجن کہتے ہیں؛  ورنہ تو  اس مادّے  کی شباہت  آپ کے بغل میں رکھے چراغ کے تانبے کی تاروں جیسی بالکل بھی نہیں ہے۔ اس طرح کے کسی بھی اجنبی مادّے کی خصوصیات کو تجربہ گاہ میں جانچنا ایک بڑا مسئلہ بنا رہتا ہے ۔ زمین پر اس کو آج سے دس سال پہلے بنا لیا گیا تھا ۔کمپیوٹر سے لگائے گئے تخمینا جات کی مدد سے  آج ہم مشتری اور زحل کے اندرون  میں پائے جانے والے مادّے کی خصوصیات  کو اعتماد کے ساتھ بیان کرنے کے لئے کافی حد تک جان چکے ہیں نتیجتاً ہم تپتے ہوئے مشتریوں مثلاً پگاسی ٥١ ب جیسے سیاروں کے اندرون کو بھی بیان کر سکتے ہیں ۔

 

 مشتری اور زحل دونوں کا قلب چھوٹا ہے ( چھوٹا ان کی کے حجم کی مناسبت  سے ہے ، ورنہ  زمین کے لحاظ سے  وہ بہت بڑا ہے ) جو ایسے عناصر سے بنا ہوا ہے جو ہائیڈروجن ، ہیلیئم اور نیون  سے بھاری ہیں۔ کسی بھی سیارے کا قلب اس کی پیدائش اور شروع کے برسوں کے بعد بچ جانے والے مادّے سے ہی بنتا ہے ۔ سیاروں کی بہ  نسبت ستارے بغیر کسی قلب کے پیدا ہوتے ہیں اور اس کے بغیر بھی ایک لمبے عرصے تک جی سکتے ہیں ۔ بڑھتی عمر کے ساتھ ستاروں میں بھی قلب بننا شروع ہو جاتا ہے  کیونکہ ہلکے عنصر بھاری عناصر میں ڈھلتے ہوئے  اس کے  قلب میں جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں ۔ حیرت انگیز طور پر ، زحل کا قلب جو زمین کی کمیت کا پندرہ گنا ہے وہ مشتری کے قلب سے تین سے دس زمینی کمیت کے برابر  بڑا ہو سکتا ہے۔ کم از کم ہمارا اندازہ تو یہی ہے۔ مشتری اتنا بڑا ہے اور اس میں اتنی زیادہ  دھاتی ہائیڈروجن ہے  جو اس کے قلب کے بارے میں اندازہ لگانے میں مشکل کا سبب بنتی ہے۔ اگر اس کا قلب زحل سے چھوٹا  ہوا تو وہ پیدائشی چھوٹا ہوگا  یا پھر وہ وقت کے ساتھ بتدریج چھوٹا ہوتے ہوئے اوپری پرتوں کے ساتھ گھل مل گیا ہوگا ۔ اہم بات یہ ہے کہ مشتری اور زحل دونوں میں بھاری عناصر کی تعداد سورج میں موجود بھاری عناصر کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ سیاروں کی نسل سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔

     

یورینس اور نیپچون  کی کہانی مختلف ہے ۔ سورج کی طرح مشتری اور زحل دونوں زیادہ تر ہائیڈروجن اور ہیلیئم سے بنے ہیں ، یورینس اور نیپچون  کی کل کمیت میں صرف دس فیصد ہی  ہائیڈروجن اور ہیلیئم ہے  ،دونوں کی باقی مانندہ  کمیت میں  بہت زیادہ  آکسیجن ، کاربن اور نائٹروجن ؛ منجمد پانی ، امونیا اور کاربن ڈائی آکسائڈ کی صورت میں موجود ہے ۔ اگرچہ یہ دونوں دس سے بیس فیصد مشتری اور زحل سے کم ضخیم ہیں اس کے باوجود وہ زمین کے مقابلے میں دیوہیکل سیارے ہیں  اسی وجہ سے وہ برفیلی دیو کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔ پلوٹو بھی کافی حد تک یورینس اور نیپچون جیسا  ہی ہے بس  فرق صرف اتنا ہے کہ وہ بہت ہی چھوٹا ہے ۔

 

سورج سے کافی نزدیک ارضیاتی سیاروں کا علاقہ ہے  جہاں زمین (نیز  خاک ) اپنے حجم اور کمیت کی بدولت  عطارد ، زہرہ اور مریخ پر حکمرانی کر رہی ہے ۔ یہاں پر ہائیڈروجن-  کل کمیت کا صرف 0.1فیصد- یعنی نہ ہونے کے برابر ہے    جب کہ ہیلیئم تو مجازی طور پر ہے ہی نہیں ۔ ارضیاتی سیاروں پر زیادہ تر آکسیجن ، لوہا اور سلیکان  موجود ہے ، عطارد پر اگرچہ لوہے کا غلبہ ہے ۔ زیادہ تر لوہا سیاروں کے قلب میں موجود ہے ۔ سیاروں کی تشکیل کے دور میں لوہا (اور چند دوسری دھاتیں  جیسا کہ نکل  جو چٹانوں کا حصّہ نہیں بن سکتے تھے ) بڑے قطروں کی صورت میں سیارے کے قلب میں ٹپک گئے تھے ۔ ان کے برخلاف پانی کچھ تو چٹانوں میں پھنس گیا تھا جبکہ زیادہ تر غرق ہونے کے بجائے سطح پر ہی موجود رہا تھا ۔ اگر درجہ حرارت اور ماحولیاتی دباؤ درست ہو تو ارضیاتی سیاروں پر مائع پانی کے سمندر موجود ہوں گے۔

 

ان مختلف نظر آنے والے سیاروں کے گروہ کو مد نظر رکھتے ہوئے سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب ایک ہی ذخیرے سے وجود میں آئے ہیں ۔ جدید کانٹ – لاپلاس (Kant-Laplace) کا نمونہ ہمیں یہ بات سکھاتا ہے کہ سیارے ستارے کے پیدا ہونے کے بعد بچ جانے والے مادّے سے بنتے ہیں  نتیجتاً ان  میں بھاری اور ہلکے عناصر اسی مقدار میں موجود ہونے چاہئیں۔ ہبل خلائی دوربین  اور زیریں سرخ  اشعاع والی اسپٹزر  خلائی دوربین سے حاصل ہونے والی تصاویر اس بات کی جانب اشارہ کر رہی ہیں کہ سیاروں کی تشکیل کرنے والی قرص صرف اپنے ستارے کی بہ  نسبت ایک فیصد ہی زیادہ ضخیم ہے  اور ہائیڈروجن اور ہیلیئم سے بھاری تمام عناصر  کی  کمیت اس قرص کی صرف دو فیصد سے بھی کم ہے ۔ لہٰذا چھوٹے سیاروں میں ہائیڈروجن اور ہیلیئم کیوں نہیں ہوتی ؟ ان کی کمیت کی وجہ سے ۔ ان دونوں ہلکی گیسوں کو  پکڑے رہنے کے لئے بہت بڑے سیاروی بیج کی ضرورت ہوتی ہے۔ چھوٹے سیارے جیسا کہ زمین اور پلوٹو  ان کو پکڑ کر نہیں رکھ سکتے اور درمیانی کمیت کے برفیلے دیو قرص سے اتنی دور  پیدا ہوتے ہیں کہ انہیں اپنی نشوونما میں کافی وقت لگتا ہے۔ جب  تک جب وہ اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ ہائیڈروجن اور ہیلیئم کو پکڑ  میں رکھ سکیں اس وقت تک کافی دیر ہو چکی ہوتی ہے اور ہائیڈروجن اور ہیلیئم منتشر ہو چکی ہوتی ہیں ۔

 

اب ہم اپنے سیاروں سے حاصل کردہ معلومات کو  بنیاد  بنا کر  دوسرے ستاروں کے گرد چکر لگانے والے دریافت شدہ سیاروں پراس کا  استعمال کر سکتے ہیں ۔ان سیاروں کے درمیان  ہم مشتری اور زحل کو دیکھ چکے ہیں، چھوٹے اور بڑے  قلب والے سیاروں کو بھی دیکھ لیا ہے ، جبکہ ہم نیپچون کو بھی جان چکے ہیں ۔ اور ہم نے سیاروں کی دنیا میں جتنی تنوع دیکھی ہے اس کا ہم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے تھے ۔ جس طرح سے ہم اپنی دریافت کرنے والی ٹیکنالوجی کو ترقی دے رہے ہیں  اور چھوٹے سیاروں کا مطالعہ اور مشاہدہ کر رہے ہیں ویسے ہمارے سامنے اور مزید حیرت کدے انتظار میں پلکیں بجھائے بیٹھے  ہیں ۔

 

کائنات میں موجود اجسام اور ساختوں کے درجات میں سیارے اس سلسلے میں نچلی سطح پر پائے جاتے ہیں جس کی شروعات کہکشاؤں کے جھرمٹ سے ہوتی ہوئی کہکشاؤں اور ستاروں کے درمیان چلتی ہے ۔ یہ تمام ساختیں  قوّت ثقل کی کھینچ کے زیر اثر اکٹھی اور ارتقاء پذیر  ہوتی ہیں اور ان کا وزن ہی ان کو آپس میں جوڑے رکھتا ہے ۔ ماسوائے سیاروں کے ان تمام ساختوں  میں ہائیڈروجن اور ہیلیئم کا غلبہ ہے۔ لہٰذا سیاروں نے اس یکسانیت کو توڑتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ وہ قوّت ثقل کے زیر اثر بننے والی دوسری تمام چیزوں سے کچھ بڑھ کر ہیں : وہ ان تمام عناصر سے پر ہیں  جس کی بنیادی کیمیا کو ضرورت ہوتی ہے ۔ ایک ایسے سیارے کا تصوّر کریں جو زمین سے تو  بڑا اور ضخیم ہو تاہم یورینس سے چھوٹا ہو ۔ کیا ایسے کسی سیارے پر گہرے سمندر اس کو پانی کا جہاں بنا رہے ہوں گے یا پھر وہ ایک خشک سیارہ ہوگا جس کے جسیم آتش فشاں اپنے  دھوئیں کو اس کی مہین فضاء میں اڑا رہے ہوں گے ؟ اسی چیز کی ہم تلاش کریں گے ۔ سب سے پہلے تو ہمیں خود انہیں  ڈھونڈنا ہے ۔