زمان کی اضافیت

ہم پہلے دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح تیز رفتاریں چیزوں کی حالت پر اثر انداز ہوتی ہیں، ان کی کمیت بڑھ جاتی ہے، یا وہ سمٹ یا سکڑ جاتی ہیں.. اسی طرح اب ہم کہتے ہیں کہ: تیز حرکت آپ کے وقت کو سست کردے گی!

اس پر بحث کرنے سے پہلے چلیے کچھ سوال اٹھاتے ہیں: ہم میں سے کون وقت کے معنی متعین کر سکتا ہے؟ .. اور اگر کر سکتا ہے تو کیا وقت کی کوئی ابتدا یا انتہاء ہے؟ .. اور اگر ہے تو یہ کیسے اور کہاں سے شروع ہوا اور کب ختم ہوگا؟ .. اور کیا وقت کا بہاؤ مطلق ہے یا نسبتی؟ .. یعنی کیا کائنات میں اسے دیکھنے والوں کے لیے یہ ساکن ہے جو نہیں بدلتا، یا یہ پھیلتا اور سکڑتا بھی ہے؟ .. اور ایسے ہی دیگر بہت سے پریشان کن سوال جن کا ہم کوئی قطعی جواب حاصل نہیں کر پاتے حالانکہ ہم سب ہی وقت کے گزرنے کو محسوس کرتے ہیں مگر اس کی حقیقت متعین کرنے سے قاصر رہتے ہیں.

زمان یا وقت پر فلاسفر، علماء اور ادیب ایک طویل عرصے سے بحث کرتے چلے آئے ہیں.. کوئی کہتا ہے کہ: وقت ایک بہتی نہر کی طرح ہے جو منظم طریقے سے اپنے منبع یا مصدر سے مخرج تک بہتا رہتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وقت کی ابتداء بھی ہے اور انتہاء بھی، تو اگر اس کی ابتداء ہے تو یہ کہاں سے آیا ہے؟ اور انتہاء ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب وقت نہیں ہوگا.. لیکن عقل یہ بات قبول نہیں کر سکتی، کیونکہ یہ تصور کرنا بہت مشکل ہے کہ کوئی لمحہ سابقہ لمحے کے بغیر آگیا، یا آنے والا کوئی ایسا لمحہ جس کے بعد کوئی لمحہ نہ ہو.

کوئی کہتا ہے کہ: جن واقعات سے ہم گزرتے ہیں وہی ہمیں وقت کے گزرنے کا احساس دلاتے ہیں.. ہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ یہ ماضی میں ہوا، اور یہ اب ہو رہا ہے، اور بہت کچھ مستقبل میں ہوگا.. تو کیا جن واقعات سے ہم گزرتے ہیں پہلے سے تیار یا مقدر ہیں؟ .. بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایسا ہی ہے، یعنی واقعات پہلے سے ہی مرتب اور منظم ہیں جن کے درمیان وقت کے متعین زمانے حائل ہیں، یا جیسا کہ کسی نے کہا ہے کہ: واقعات وقوع پذیر نہیں ہوتے، بلکہ ہم ان سے گزرتے ہیں!.

جیسے انسان (اس صورت میں) زندگی کے سفر کا کوئی سیاح ہے، اور وہ زبردستی یہاں وقت کی "ٹرین" پر سوار ہونے آیا ہے.. وہ راستوں میں کچھ سٹیشنوں (واقعات) سے گزرے گا جو جلد ہی غائب ہوجائیں گے، مگر وہ واقعی غائب نہیں ہوئے، یہ اب بھی وہاں ہیں.. ہوا صرف یہ ہے کہ ہم ان سے گزر گئے ہیں جس کی وجہ سے یہ آنکھوں سے اوجھل ہوگئے ہیں.. اور یہی.. اپنے واقعات کے ساتھ (یا سٹیشنوں کے ساتھ).. ماضی ہے جو کبھی گم یا ضائع نہیں ہوتا.

جس سٹیشن سے اس وقت ہم گزر رہے ہیں یہی اپنے تمام تر واقعات کے ساتھ حال ہے، ابھی وقت کی ٹرین کے سامنے بہت سارے سٹیشن ہیں، لازم ہے کہ وہ ان سے اور ہم سے گزرے، اور یہی اپنے واقعات کے ساتھ مستقبل ہے.. یہ ابھی وہاں ہے، لیکن ہم ابھی اس سے نہیں گزرے، مگر ہم اس سے گزریں گے جس سے مستقبل حال بن جائے گا اور پھر ایسا ماضی جو کہ وہ بھی ضائع نہیں ہوگا.

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ: وقت ایک ساکن چیز ہے جو حرکت نہیں کرتا، بلکہ ہم اس میں حرکت کرتے ہیں.. کچھ کا خیال ہے کہ وقت کا کوئی وجود نہیں، بلکہ جو چیزیں ہمارے احساسات ہم تک منتقل کر کے کسی صورت میں دکھاتے ہیں وہ حقیقی معنوں میں وجود ہی نہیں رکھتیں.. ایسے حضرات سے ہم کہتے ہیں: آپ کو مثلاً ثابت کرنا ہوگا کہ پانی کا کوئی وجود نہیں، اور پھر دریا میں کود جائیے، یا آگ محض ایک خیال ہے، تو خود کو جلا ڈالیے، یا ٹرین دھوکہ ہے، تو اس کے راستے میں کھڑے ہوجائیے، پھر اس کے بعد آپ کبھی ایسا فلسفہ نہیں جھاڑیں گے!

ان تمام تصورات پر ہم ایک بھی علمی دلیل کھڑی نہیں کر سکتے.. اس کے با وجود ہم اس موضوع پر علمی بحث کریں گے.. کائنات کی حرکت کا وقت سے گہرا تعلق ہے، ہمیں زمان ومکان میں ہر متحرک چیز کا مقام اور اس کا وقت متعین کرنا ہوگا.

زمان ومکان سے حرکت کے تعلق کی آسان مثال سفر کے ذرائع یعنی ٹرانسپورٹیشن ہے.. اگر ہم فرض کریں کہ اسی 80 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرنے والی ایک ٹرین جو بغیر رکے منظم رفتار سے کراچی سے ملتان کا سفر کرے، تو آپ وقت پر بھروسہ کر کے اس کے مکان (مقام) کا تعین کر سکتے ہیں، یا مکان پر بھروسہ کر کے وقت کا تعین کر سکتے ہیں.. مثلاً ہم کہہ سکتے ہیں کہ ڈیڑھ گھنٹے بعد ٹرین حیدر آباد سٹیشن سے گزرے گی، اور تین گھنٹے بعد روہڑی سے.. وغیرہ وغیرہ.

زمین کی اپنے گرد اور پھر سورج کے گرد گردش ہی ہمیں وقت کے گزرنے کا احساس دلاتی ہے، اگر یہ حرکت نا ہوتی، تو ہم وقت نامی کسی چڑیا کو نہ جانتے ہوتے.

وقت کا ناپ در حقیقت فضاء میں معینہ مقامات ہیں.. فجر، دوپہر یا غروب ما سوائے ہمارے اور سورج کے درمیان معینہ زاویوں کے اور کچھ نہیں.. یعنی زمین مکان میں حرکت کرتی ہے جس سے زمان ہوتا ہے.

آئن سٹائن سے پہلے سائنسدان وقت کو مطلق گردانتے تھے.. ایک ساکن چیز جو کبھی تبدیل نہیں ہوتی، اس کے علاوہ وہ اپنی ذات میں مستقل تھا اور ایک منظم بہاؤ رکھتا تھا، اور کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وقت سست یا تیز ہوتا ہے یا رک بھی سکتا ہے.

یہاں فہیم ایک بار پھر کود کر کہہ سکتا ہے کہ: مگر میں کبھی کبھی پریشانی کے عالم میں محسوس کرتا ہوں کہ وقت میرے لیے بہت سست ہوگیا ہے، اور خوشی کے لمحات میں تیزی سے گزرتا ہے.. کبھی ایک منٹ ایک گھنٹہ لگتا ہے، اور کبھی ایک گھنٹہ ایک منٹ کے برابر گزرتا ہے.. یعنی وقت ایک منظم طریقے سے نہیں گزرتا.

جیسے فہیم صاحب کائناتی زمان کو اپنے شعور اور احساس سے مربوط کرنا چاہتے ہوں، چنانچہ ان کی خوشی اور غمی کے لیے وہ تیز یا سست ہوتا ہو، دراصل ان کے یہ احساسات ایک نفسی چیز ہیں جو صرف انہی سے ہی مربوط ہیں، ان کا اس وقت سے کوئی تعلق نہیں جس کی ہم بات کر رہے ہیں.

آئن سٹائن نے جب زمان پر غور وخوض کیا تو زمان یا وقت کے متعلق ایک عجیب نتیجے پر پہنچا.. اس نے کہا کہ وقت ایک نسبتی چیز ہے، کائنات میں رفتار اور حرکت کے موضوع پر بحث کرتے ہوئے ہم جن تضادات میں پڑے تھے اس کی وجہ ہمارا انجانے میں ایک غلطی میں پڑنا تھا.. ہم نے وقت کو ایک ساکن اور ناقابلِ تبدیلی چیز سمجھ کر غلطی کی.. مگر درحقیقت یہ متغیر اور نسبتی ہے، اور یہ حرکت پر بھروسہ کرتا ہے، اور حرکت کے مطابق تبدیل ہوتا ہے.. یعنی کائنات میں ہر کسی کو چاہیے کہ وہ اپنے وقت کا حساب اپنی حرکت کے ماحول کے حساب سے کرے، تاکہ بہت سارے تضادات سے بچا جاسکے، ورنہ وہ کائناتی قوانین پر عدم توازن کا الزام لگائے گا، حالانکہ کائناتی قوانین ہر جگہ ایک ہیں، مگر وہ ہمیں غیر متوازن لگتے ہیں جس کی وجہ ہماری کم علمی ہے.

یعنی آپ - کائناتی سطح پر - یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ اور وہ ایک ہی لمحے میں ہوئے، حالانکہ آپ نے دونوں کو ایک ہی لمحے ہوتے دیکھا تھا، اس کے علاوہ آپ واقعے کے وقوع پذیر ہونے کے مقام (مکان) کا تعین بھی نہیں کر سکتے.. کیونکہ زمان متغیر ہے.. اور مکان بھی متغیر ہے.. کائنات میں کوئی چیز اپنی جگہ پر ساکن نہیں ہے.. کیونکہ اس میں ہر چیز حرکت میں ہے اور ایک دوسرے کی نسبت منظم رفتار سے اپنے مقامات بدلتی رہتی ہے.

اسی طرح آپ یہ یقین بھی نہیں دلا سکتے کہ یہ واقعہ اس واقعے سے پہلے واقع ہوا ہے، یا بعد میں اور پھر خاموش ہوجائیں، کیونکہ اس حالت میں آپ کی بات - ہمارے موضوع کے حساب سے - بے معنی ہے، ما سوائے اگر آپ اس ماحول کو اپنے ماحول سے متعین کردیں، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ کوئی دوسرا شخص اپنے ماحول کے حساب سے آپ کے برعکس دیکھے، کیونکہ آپ کا "پہلے" اس کے لیے "بعد" ہوسکتا ہے.

"یہاں" اور "وہاں" اور "گزشتہ کل" اور "کل" اور "اب" ایسے الفاظ ہیں جنہیں ہم صرف زمین پر اپنے ماحول کے حساب (نسبت) سے استعمال کرتے ہیں، یہ "لوکل" الفاظ ہم کائنات کے تمام ماحولوں کے لیے استعمال نہیں کر سکتے.. کیونکہ گزشتہ کل آنے والا کل ہوسکتا ہے، اور آنے والا کل گزشتہ کل بھی ہوسکتا ہے.. ہر کوئی اپنے ماحول کے حساب سے.

چلیے اسے ایک مثال سے واضح کرتے ہیں: فرض کرتے ہیں کہ فہیم اور شبانہ ایک فلکیات دان سے اس کی رصدگاہ میں ملنے جاتے ہیں تاکہ کائنات کے بارے میں اپنی معلومات میں اضافہ فرما سکیں، گفتگو کے دوران اچانک آسمان میں ایک ستارہ بڑے زور سے چمکتا ہے اور پھر پھٹ جاتا ہے، بالکل اسی وقت جب اس دھماکے کی تصویر ٹیلی سکوپ کے حساس کیمرے میں اترتی ہے شبانہ کو دل کا دورہ پڑتا ہے اور وہ اللہ کو پیاری ہوجاتی ہے.. تب فہیم ہاتھ سے ہاتھ ملتے ہوئے کہتا ہے: انا للہ و انا الیہ راجعون.. کیسا عجیب اتفاق ہے، ستارے کی زندگی کا خاتمہ بالکل اسی وقت ہوا جب شبانہ کی زندگی کا خاتمہ ہوا..!

اس کے بعد پھر کبھی فہیم کی اس فلکیات دان سے ملاقات ہوتی ہے تو وہ ان سے پوچھتا ہے کہ کیا وہ "علم نجوم" پر یقین رکھتے ہیں؟ فلکیات دان کہتا ہے کہ: آپ کو یہ سوال کرنے کی ضرورت کیوں پیش آگئی؟

فہیم: کیا آپ کو یاد ہے کہ شبانہ کی موت بالکل اسی وقت ہوئی تھی جس وقت وہ ستارہ آسمان میں پھٹ گیا تھا اور آپ کے آلات نےآسمان میں بالکل اسی جگہ اسے ریکارڈ کیا تھا؟

فلکیات دان: جی ہاں مجھے یاد ہے.. مگر اسی وقت اور آسمان میں اسی جگہ سے آپ کی کیا مراد ہے؟

فہیم: میرا سوال کافی واضح ہے.

فلکیات دان: اگر یہ بات ہے تو آپ کی سوچ غلط ہے.. نا تو ستارہ وہاں اپنی جگہ پر تھا، اور نہ ہی وہ اس وقت پھٹ کر ختم ہوا جب شبانہ کی موت ہوئی.. ستارہ اس کے مرنے کے 300 نوری سال پہلے مرا..!

فہیم (حیرت سے): آپ کے کہنے کا کیا مطلب ہے؟

فلکیات دان: میرا مطلب ہے کہ ہمیں کائناتی واقعات کو شبانہ کی موت یا ہماری زمین پر ہو رہے کسی دوسرے واقعے سے منسلک نہیں کرنا چاہیے.. آپ کہہ سکتے ہیں کہ شبانہ کی موت ٹھیک اسی وقت ہوئی جب آپ سگریٹ جلا رہے تھے، یا ٹھیک اسی وقت ہوئی جب بجلی کڑکی، یا جب کوئی راکٹ زمین سے چاند کے سفر پر نکلا.. کیونکہ یہ سب زمینی واقعات ہیں جو ایک ہی ماحول میں وقوع پذیر ہوتے ہیں اور ایک ہی زمینی وقت استعمال کرتے ہیں، جس کی وجہ ایک محدود فلک میں ہماری زمین کی حرکت ہے.. مگر جو ستارہ پھٹا وہ ہم سے 300 نوری سال دور تھا، اور اس کا ہم سے فاصلہ کوئی 1764000000000000 میل تھا، اس ستارے کے ساتھ کیا ہوا یہ ہم صرف اس کی روشنی کے ذریعے ہی جان سکتے ہیں جسے ہم تک پہنچنے میں 300 نوری سال لگے ہیں.. چنانچہ در حقیقت ہم ماضی بعید میں دیکھ رہے ہیں نا کہ وہ لمحہ جس میں شبانہ کی موت ہوئی.. یہاں "اب" کا مطلب ہے ماضی بعید.. اور اس کا برعکس بھی درست ہے.

فہیم: عکس بھی درست ہے.. اس کا کیا مطلب ہے؟

فلکیات دان: فرض کریں کہ ہمارا سورج پھٹ گیا ہے.. مگر ہمیں اس کی خبر آٹھ منٹ کے بعد ہوگی.. کیونکہ دھماکے کی خبر لانے والی روشنی 93 ملین میل کا سفر طے کر کے ہم تک پہنچے گی جو کہ سورج کی ہم سے دوری کی مسافت ہے (سورج کا ہم سے فاصلہ 8.3 نوری منٹ ہے)، مگر عطارد یہی واقعہ ہم سے پہلے دیکھے گا اور مریخ ہمارے بعد! (عطار ہمارے مقابلے میں سورج سے زیادہ نزدیک ہے اور مریخ ہمارے مقابلے میں سورج سے زیادہ دور ہے).

یا فرض کرتے ہیں کہ ایک ستارہ ہم سے ایک ہزار نوری سال دور ہے، اور اس ستارے کا ایک سیارہ بھی ہے جو اس کے گرد گردش کرتا ہے اور جس پر کوئی سمجھدار مخلوق رہتی ہے.. چنانچہ اگر ہمارا سورج 14 اگست 1947ء کو پھٹ جائے تو اس سیارے کی سمجھدار مخلوق یہ واقعہ 14 اگست 2947ء کو ہی ریکارڈ کر پائے گی.. یعنی ہمارے لیے اب یا کل کا مطلب ایک ایسا مستقبل ہے جس کی جڑیں تقریباً ایک ہزار سال تک پھیلی ہوئی ہیں، یا دس ہزار، ایک ملین یا شاید ایک بلین سال.. اور اس کا برعکس بھی درست ہے.

یہاں فہیم مسکراتے ہوئے کہتا ہے: تو مجھ پر اعتراض کیوں کیا جب میں نے آپ کو کہا کہ واقعہ اسی جگہ ہوا ہے؟

فلکیات دان: کیونکہ تمام اجرامِ فلکی منظم رفتار سے ایک دوسرے کی نسبت حرکت کرتے رہتے ہیں، اس لیے پوری کائنات میں کوئی چیز ساکن نہیں.. کیونکہ ان کی حرکت کے نتیجے میں ان کے مقامات ایک دوسرے کی نسبت بدلتے رہتے ہیں.. اگرچہ ہمیں معاملات کچھ اور لگتے ہیں.. چنانچہ وقت متغیر ہے، اور مکان یا مقام بھی متغیر ہے.. چنانچہ اس بنیاد پر کائنات میں ہر کسی کو چاہیے کہ وہ معاملات کو اپنے رہنے کے ماحول کے حساب سے ریکارڈ کرے، یعنی اپنے ماحول کے وقت، مقام اور حرکت کے حساب سے!

خیر فہیم اور فلکیات دان کی بحث کو چھوڑ کر ہم زمان کی اضافیت پر بات کرتے ہیں جس طرح کہ آئن سٹائن نے اسے اپنی مساوات کے ذریعے پیش کیا جو دماغ کی چولیں تک ہلا دیتی ہے.. کیونکہ سائنسدان زمان، حرکت اور فضاء (مکان یا کائنات) کو جس طرح دیکھتے ہیں وہ ہمیں ان ظاہری حقائق سے بہت دور لے جاتا ہے جو ہمیں منطقی اور معقول لگتی ہیں جن پر کسی صورت بحث نہیں کی جاسکتی!

ہر متحرک چیز اپنے ساتھ اپنا زمان یعنی وقت بھی لے جاتی ہے، اس سے ہمارا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنے ہاتھ میں گھڑی باندھے ہوئے ہے یا "الارم" ساتھ لیے ہوئے ہے، یا اس طرح کا کوئی آلہ جن سے ہم وقت کو اپنی زمین پر ناپتے ہیں اور جنہیں ہم نے اپنی مرضی سے بنا کر ان میں سیکنڈ، منٹ اور گھنٹے شامل کر کے اپنی روز مرہ زندگی کی مناسبت سے ہم آہنگ کر لیا ہے، بلکہ یہاں ہمارا مطلب کائناتی زمان ہے.. یعنی ہم اس زمان کو نہیں دیکھ سکتے، حالانکہ وہ چاروں ابعاد کا ایک بعد ہے.. اس کے با وجود کہ ہم "چار ابعادی" دنیا میں رہتے ہیں - جیسا کہ آئن سٹائن کے استاد مینکوفسکی کہتے ہیں - اور ان کے بعد آئن سٹائن جس نے استاد کے خیال کو ترقی دی.. اور اس کے با وجود کہ یہ عجیب دنیا موجود ہے، ہم صرف تین ابعاد میں ہی دیکھ سکتے ہیں، کیونکہ زمانی بعد ہم سے اوجھل ہے، اگر وہ ہمارے سامنے منکشف ہوجائے تو شاید ہم مستقبل کے واقعات کو وقوع پذیر ہونے سے پہلے دیکھنے کے قابل ہوجائیں.. مگر در حقیقت زمانی بعد اس طرح کا بعد نہیں ہے جنہیں ہم اپنی زندگی میں جانتے ہیں، بلکہ یہ چار ابعادی کائنات میں بطور چوتھے بعد کے کسی نہ کسی طرح بُنا ہوا ہے، اور اگر اس بعد کی رفتار بڑھ جائے تو یہ سکڑ بھی سکتا ہے.. خیر فی الوقت یہ سب رہنے دیتے ہیں اور زمان کی مساوات کی طرف واپس جاتے ہوئے اس کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں.

خلاء میں فہیم اور شبانہ کی حالت پر واپس آتے ہیں.. شبانہ فہیم کی نسبت روشنی کی نوے فیصد 90% رفتار سے سفر کر رہی ہے.. ہم نے دیکھا کہ کس طرح یہ رفتار لمبائیوں پر اثر انداز ہوکر انہیں سکیڑ دیتی ہے، اور کمیت پر اثر انداز ہوکر اسے بڑھا دیتی ہے.. تو کیا یہ رفتار وقت پر بھی اثر انداز ہوگی؟ اور اگر اثر کرتی ہے تو اسے کس طرح ناپا جائے جبکہ ہم اس کا بعد ہی نہیں جانتے؟

در حقیقت ہمارے پاس یہ تصور کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ فریقین کے پاس انتہائی دقیق گھڑیاں ہیں، کیونکہ یہ بہرحال کوئی معینہ زمانی دورانیے تو بتاتی ہی ہیں، ہم فرض کرتے ہیں کہ فہیم اس سے، اس جنونی رفتار میں گزرتی ہوئی شبانہ کی رفتار ناپ سکتا ہے جبکہ شبانہ بھی اس سے گزرتے ہوئے فہیم کی رفتار ناپ سکتی ہے کہ دونوں باتیں ہی نسبتی ہیں.

اگر فہیم شبانہ کے خلائی جہاز میں لگی گھڑی پر نظر ڈالے تو وہ دیکھے گا کہ شبانہ کی گھڑی کی سوئیاں اس کی گھڑی کے مطابق حرکت نہیں کر رہیں، جہاں فہیم کی گھڑی میں دو سیکنڈ گزرتے وہاں شبانہ کی گھڑی صرف ایک سیکنڈ آگے بڑھتی ہے.. اس کا مطلب یہ ہے کہ فہیم کا ایک گھنٹہ شبانہ کے آدھے گھنٹے کے برابر ہے، اسی طرح فہیم کی عمر کا ایک سال شبانہ کی عمر کے چھ ماہ کے برابر ہے.

فہیم کو لگتا ہے کہ کہیں کوئی گڑبڑ ضرور ہے، اس کے پاس موجود تمام گھڑیاں بالکل درست ہیں اور ایک ہی وقت بتا رہی ہیں، اس لیے ضرور شبانہ کی گھڑی میں کوئی خرابی ہے، چنانچہ وہ دور سے جو گفتگو کریں گے وہ کچھ یوں ہوسکتی ہے:

فہیم: شبانہ.. تمہارے ہاں ہر چیز میں گڑبڑ ہے.. وقت میں بھی!

شبانہ (حیرت سے): کیا مطلب؟ .. یہ بھی ضرور تمہارے ہی دماغ کی خرابی ہوگی.

فہیم: اس زمینی وضع داری کا شکریہ.. پھر بھی تمہاری گھڑی کا وقت میری گھڑی سے نہیں مل رہا حالانکہ زمین پر دونوں گھڑیاں بالکل ایک ہی وقت بتا رہی تھیں.. عجیب بات ہے.. تمہارے ہاں وقت بہت سست رو ہے!

شبانہ: میرے پاس تین گھڑیاں ہیں جو بالکل ایک ہی وقت بتا رہی ہیں.. ضرور تمہاری گھڑی میں کوئی خرابی ہوگی!

فہیم: ایسا نہیں ہوسکتا.. میری تمام گھڑیاں بالکل ٹھیک ہیں.. دیکھو.. یہ دیکھو میری گھڑیاں.

شبانہ: عجیب بات ہے؟ .. تم کہتے ہو کہ میرے ہاں وقت سست ہے، جبکہ تمہاری گھڑیاں دیکھ کر تو مجھے اپنے وقت کی نسبت تمہارا وقت سست لگ رہا ہے.. ضرور کوئی گڑبڑ ہے.

دراصل گڑبڑ حرکت میں ہے.. دو مختلف رفتاروں سے حرکت کرنے والوں کے درمیان وقت کا بہاؤ مختلف ہوتا ہے، مگر زمین پر ہم یہ نوٹ نہیں کر پاتے کیونکہ زمین پر کسی بھی چیز کی رفتار روشنی کی رفتار کے مقابلے میں بہت سست ہے.. زمین سے سات میل فی سیکنڈ کی رفتار (اب تک انسان کی انتہائی رفتار) سے چاند کے سفر پر نکلے خلائی جہاز کا وقت پورے دن میں سیکنڈ کے بیس ہزارویں حصے کے ایک حصے کے برابر سست ہوتا ہے.. یہ انتہائی کم زمانی دورانیہ ہے جسے ہم دقیق ترین گھڑیوں سے بھی نہیں ناپ سکتے.

یہاں کوئی پوچھ سکتا ہے کہ: یہاں کون سچ کہہ رہا ہے؟ .. کیا شبانہ کا وقت سست ہوا ہے یا فہیم کا؟

بظاہر یہ سوال کافی منطقی اور معقول معلوم ہوتا ہے مگر درحقیقت یہ ایک احمقانہ سوال ہے، بالکل اس طرح جیسے کوئی سوال کرے کہ: انسان حجم میں بڑا ہے یا چھوٹا؟ .. اس سوال کے جواب کا انحصار کسی دوسری شئے کی نسبت انسان کے حجم پر ہے.. ہم کہیں گے کہ کسی چیونٹی یا کاکروچ کی نسبت انسان کا حجم بہت بڑا ہے، مگر کسی ہاتھی یا ڈائناسار کی نسبت بہت چھوٹا ہے.

وقت کے بہاؤ کا انحصار نہ صرف سوال کرنے اور جواب دینے والے پر ہے، بلکہ ایک ماحول کی دوسرے ماحول کی نسبت حرکت پر بھی ہے.. جب فہیم شبانہ سے کہتا ہے کہ شبانہ کے ہاں اس کی نسبت وقت سست ہے، تو وہ درست کہہ رہا ہے، اور جب شبانہ بھی یہی بات کہتی ہے تو وہ بھی حق پر ہے! یہاں شاید ایک واضح تضاد نظر آرہا ہے مگر اس طرح سوچنے کی ہمارے پاس کوئی وجہ نہیں ہے.. ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ خلاء میں فہیم یہ نہیں جان سکتا کہ وہ حرکت میں ہے یا نہیں، کیونکہ اس کے گرد ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو اسے حرکت کا احساس دلائے.. اسی طرح شبانہ بھی یہ سمجھتی ہے کہ وہ حرکت نہیں کر رہی بلکہ فہیم حرکت کرتا ہوا اس سے اس رفتار میں گزر رہا ہے، اسی لیے دونوں کو اپنا اپنا وقت منطقی اور معقول لگتا ہے (کیونکہ دونوں ہی اپنے آپ کی نسبت حرکت نہیں کر رہے)، لیکن اگر آپ اپنے ماحول کی نسبت کسی حرکت کرتے ہوئے ماحول کا وقت ریکارڈ کریں تو معاملہ مختلف ہوگا.. اور چونکہ ہر حرکت نسبتی ہے، چنانچہ لازم ہے کہ ہر زمان (وقت) نسبتی ہونا چاہیے.. کیونکہ دونوں ایک دوسرے پر منحصر ہیں!

اگر فہیم اور شبانہ دونوں بالکل ایک ہی رفتار سے سفر کرتے تو وقت کے بھنور میں نہ پھنستے، کیونکہ اس حالت میں ان دونوں کی نسبتی رفتار صفر ہوتی، چنانچہ فہیم کو شبانہ کا وقت بالکل اپنے وقت کے مطابق لگتا، اسی طرح شبانہ کو بھی فہیم کا وقت اپنے وقت کے مطابق لگتا، یعنی دونوں وقت میں کوئی فرق محسوس نہ کرتے.

مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان دونوں کا وقت ہمارے زمینی وقت کے مطابق ہوگا، کیونکہ شبانہ (یا فہیم) ہم سے 163 ہزار میل فی سیکنڈ دور جا رہی ہے، اس پر کوئی الزام نہیں اگر وہ یہ کہے کہ زمین اس سے 163 ہزار میل فی سیکنڈ دور جا رہی ہے.. اس صورت میں لکم دینکم ولی دین.. یعنی اس کا وقت الگ اور ہمارا وقت الگ ہوگا.. اور چونکہ وہ ہم سے دور جاتے ہوئے حرکت کر رہی ہے اس لیے ہمیں اس کا وقت سست لگے گا، مگر وہ ہمیں یقین دلائے گی کہ اس کے وقت پر کوئی غبار نہیں اور وہ بالکل ٹھیک ہے.. بلکہ وہ ہمارے وقت کو سست قرار دے گی.. تو پھر دونوں "اوقات" میں کون سا وقت سست روی سے بہہ رہا ہے؟ .. ہمارا یا اس کا؟

ہم پھر کہیں گے کہ: چونکہ ہر حرکت نسبتی ہے، چنانچہ دونوں باتیں درست ہیں.. بالکل جیسے آپ کہیں کہ: کیا ملتان سے کراچی آتی ہوئی ٹرین کراچی سٹیشن کے قریب آرہی ہے یا کراچی کا سٹیشن اس کے قریب ہو رہا ہے؟ .. یہاں دونوں باتیں نسبتی ہیں، اور یہی بات وقت کے ساتھ صادق آتی ہے، کیونکہ اس کا انحصار اس ماحول پر ہے جس میں کھڑے ہوکر ہم اپنی نسبت دوسرے حرکت کرتے ہوئے ماحول کو دیکھتے ہیں.

دراصل مساوات کا مضمون یہ ہے کہ جو چیز جتنی تیزی سے حرکت کرے گی اس کا وقت اتنا ہی سست ہوگا (کسی ساکن ماحول کی نسبت).. یعنی اگر شبانہ روشنی کی رفتار کے قریب سفر کرنے لگے تو اس کی عمر اہلِ زمین کے مقابلے میں کئی گنا لمبی ہوجائے گی.. کیونکہ اس کے ماحول میں (جیسا کہ ہمیں اپنی زمین سے لگے گا) ہر چیز اس جنونی رفتار سے متاثر ہوگی.. لمبائیاں، کمیتیں، وقت، اور اس کے جسم میں ہوتا کیمیائی اور حیاتیاتی تعامل بھی.. حتی کہ وہ ذرے (ایٹم) جو اسے اور اس کے ماحول کو تشکیل دیتے ہیں سست پڑجائیں گے یعنی ان کی ایٹمی سرگرمی بھی سست پڑ جائے گی، مگر شبانہ اپنے ماحول میں کوئی غیر معمولی بات نوٹ نہیں کر سکتی (کیونکہ اس کے ماحول میں جو کچھ بھی ہے وہ اپنی نسبت حرکت نہیں کر رہا).. اسے لگے گا کہ اس کا وقت بالکل اسی طرح چل رہا ہے گویا وہ زمین پر ہی رہ رہی ہو، اگرچہ اہلِ زمین کو اس کے برعکس نظر آرہا ہوگا.

مگر.. کیا ہو اگر شبانہ خلاء میں روشنی کی رفتار سے نکل کھڑی ہو؟

اگر ایسا ہوجائے، اور مساوات کے قاعدے لاگو کیے جائیں، تو ہم پر اور کائنات میں ہر مشاہدہ کرنے والے پر انکشاف ہوگا کہ شبانہ کا جو وقت ہم ریکارڈ کر رہے ہیں وہ صفر ہے، یا دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ: شبانہ کا وقت رک گیا ہے اور وہ کبھی بوڑھی نہیں ہوگی، اس کی جوانی - جب تک کہ وہ روشنی کی رفتار میں سفر کر رہی ہے - ہمیشہ قائم رہے گی.

تو کیا یہ ممکن ہے؟

یقیناً نا ممکن ہے.. کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ شبانہ روشنی کی رفتار سے سفر کر سکے.. اور نا ہی کوئی بھی دوسری مادی شئے، چنانچہ وقت نہیں رکے گا، بلکہ انتہائی حد تک سست پڑجائے گا جب تک کہ وہ روشنی یا اس سے قریب رفتار میں سفر کرتی رہے گی.

چلیے ذرا معاملے کو کچھ اور واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں: اگر شبانہ (ہماری نسبت) منظم انداز میں روشنی کی نوے فیصد 90% رفتار سے سفر کرے تو ہمارے زمینی وقت کے حساب سے اس کا وقت پچاس فیصد 50% تک سست پڑجائے گا، اور اگر اس کی رفتار کچھ بڑھ جائے اور روشنی کی اٹھانوے فیصد 98% رفتار تک پہنچ جائے، تو ایک "شبانی" سال (شبانہ کی نسبت سے) زمین کے ساڑھے پانچ سالوں کے برابر ہوگا، اور اگر اسی تناسب سے اس کی رفتار بڑھتی ہی چلی جائے تو شبانہ کا ایک دن ہماری زمین کے سینکڑوں، ہزاروں یا شاید لاکھوں سالوں کے برابر ہوسکتا ہے.. اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ روشنی کی رفتار کے کتنا قریب پہنچتی ہے!

اس منظرنامہ کو ہم ایک اور دلچسب شکل میں بھی پیش کر سکتے ہیں.. وہ یوں کہ اگر ہم فرض کریں کہ شبانہ کی بدقسمتی سے فہیم کے ساتھ شادی ہوگئی، اور فہیم نے اپنی "فہامت" سے اسے اتنا تنگ کیا کہ وہ اسے اور اپنے دس سالہ بیٹے کو چھوڑ کر، ایک خلائی جہاز میں سوار ہوکر روشنی کی رفتار سے قریب رفتار میں کائناتی سفر پر نکل کھڑی ہوئی، اور قسم کھائی کہ وہ دو سال بعد ہی واپس آئے گی.. ایک سال جانے میں اور ایک سال واپس آنے میں، کہ شاید یہ سفر اس کے زمینی غم دور کر سکے.. اور پھر وقت بڑی آہستگی سے گزرتا ہے.. پھر اڑتی سی اک خبر پھیلتی ہے کہ شبانہ جو تیس سال کی عمر میں زمین چھوڑ کر گئی تھی، کچھ دنوں میں لوٹنے والی ہے.. اہلِ زمین - بشمول شبانہ کے رشتہ دار - اس کا استقبال کرنے جاتے ہیں، جب وہ اپنے خلائی جہاز سے اتر کر لوگوں کی بھیڑ پر نظر ڈالتی ہے، تو اسے اس بھیڑ میں کوئی بھی ایسا شخص نظر نہیں آتا جسے وہ جانتی ہو.. نا تو فہیم ہوتا ہے، نہ اس کا بیٹا اور نا ہی اس کا بھائی اور نا ہی اسے الوداع کرنے والوں میں سے کوئی اور اس کا استقبال کرنے آتا ہے.. شبانہ کا استقبال کرنے والے لوگ اسے بالکل اسی طرح جوان دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں.

بھیڑ میں سے ایک بوڑھا آگے بڑھ کر اسے گلے لگا کر اس کا استقبال کرتے ہوئے کہتا ہے: واپسی مبارک ہو دادی اماں! .. آپ کو دیکھنے کے لیے آنکھیں ترس گئی تھیں.. پورے سو سال تک آپ کی واپسی کا انتظار کرنا پڑا..!

شبانہ کو لگتا ہے کہ اس سے گلے ملنے والا یہ بوڑھا شاید سٹیا گیا ہے، وہ حیرت سے لوگوں کو دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہتی ہے: شکریہ دادا جی شکریہ..

یہاں لوگ فوراً معاملے کو سدھارنے کے لیے دخل اندازی کرتے ہوئے کہتے ہیں: یہ آپ کا پوتا ہے.. یہ آپ کے بیٹے کا بیٹا ہے جسے آپ دس سال کی عمر میں چھوڑ کر چلی گئیں تھیں.. آپ جنہیں جانتی تھیں انہیں مرے ہوئے سینکڑوں سال گزر گئے ہیں.. اور شبانہ بے ہوش ہوجاتی ہے، صدمہ سے اس کے دل کی دھڑکن رک جاتی ہے اور وہ مرجاتی ہے.. جیسے موت نے اسے آرام دیا ہو، کیونکہ وہ ایسے زمانے میں نہیں رہ سکتی جو اس کا نہیں، گویا اہلِ کہف کی کہانی دوسری شکل میں ایک بار پھر دہرا دی گئی ہو.

شاید آپ کو یہاں ان سائنس فکشن کہانیوں کی بو آرہی ہوگی جو زمان کی اضافیت پر مبنی ہیں (جیسے ٹائم مشین یا پلینٹ آف دی ایپس).. ان کہانیوں کے مصنفین سائنسی بنیادوں پر کہانی لکھتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کس طرح روشنی کی رفتار کے قریب سفر کرتے ہوئے خلابازوں کا وقت تھم جاتا ہے، اور پھر جب وہ کئی سالوں بعد اپنی زمین پر واپس آتے ہیں تو وہ پہچان ہی نہیں پاتے کہ یہ زمین ان کی اپنی ہی زمین ہے (کیونکہ اس میں ہر چیز بدل چکی ہوتی ہے).. یا وہ کسی دوسرے سیارے پر آگئے ہیں..

یہاں مراد آکر کہتا ہے کہ: آئیڈیا؟! .. اگر یہ معاملہ ہے، تو سائنسدان جلدی سے ایسے بڑے خلائی جہاز کیوں نہیں بناتے جن میں ہم ٹولیوں کی شکل میں سوار ہوکر روشنی سے قریب رفتار میں نکل کھڑے ہوں، اس طرح ہمارا وقت سست ہوجائے گا اور ہماری عمریں دراز ہوجائیں گی، ساتھ ہی ہم اس زمین سے بھی دور ہوجائیں کے جو ہمیں دن بہ دن بڑھاپے کی طرف گھسیٹے چلی جا رہی ہے؟

مراد جیسا چاہے سوچ سکتا ہے، مگر اسے سمجھنا چاہیے کہ ایسے خلائی جہاز بنانے ممکن نہیں، کیونکہ ان کا روشنی کی رفتار کے قریب ہی سفر کرنا تقریباً نا ممکن ہے، اس معاملے میں ہماری تمام تر زمینی ترقی ہمارا مداوا نہیں کرے گی.. اور پھر مراد کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ جو شخص روشنی کی رفتار سے یا اس رفتار کے قریب سفر کرے گا وہ اس زمین پر پھر کبھی واپس نہیں آسکے گا.. کیونکہ نظریہ اضافیت کی کچھ شرطیں ہیں جن کا پورا ہونا لازمی ہے، وقت تب ہی سست ہوگا اگر خلائی جہاز ایک منظم رفتار سے خطِ مستقیم پر سفر کرے.. اگر یہ شرطیں پوری نہ ہوئیں تو وقت کے سست ہونے کا موقع آپ کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور آپ کی زندگی زمین سے کہیں دور خلاء کی اتاہ گہرایوں می ہی کہیں ختم ہوجائے گی.

یہاں سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب درست بھی ہے؟ .. کیا کوئی ایسی ایک بھی مشاہداتی دلیل ہے جو ثابت کرے کہ رفتار کے بڑھنے سے وقت سست پڑجاتا ہے؟

جی ہاں.. اس بات کے بھی کئی مشاہداتی ثبوت موجود ہیں.. اس کا ثبوت سائنسدانوں کو ان کائناتی جسیموں میں ملا ہے جو ہماری زمین کی طرف انتہائی تیزی سے بڑھتے ہیں، جنہیں ہم کائناتی شعاعوں کا نام دیتے ہیں کیونکہ یہ شعاعیں کائنات کی اتاہ گہرائیوں سے ہماری طرف آتی ہیں.. ان جسیموں میں سے بعض ہمارے کرہ ہوائی کی اوپری تہہ سے ٹکرا کر تباہ ہوجاتے ہیں جن سے ایک اور جسیمے پیدا ہوکر تیزی سے زمین کی طرف بڑھتے ہیں.. جو بات سائنسدانوں کو ایک عرصہ تک پریشان کرتی رہی وہ یہ تھی کہ یہ جسیمے انتہائی کم عمر تھے.. ان میں سے بعض سیکنڈ کے دس لاکھویں حصے سے بھی کم زندہ رہ پاتے ہیں اور بعض اس سے بھی انتہائی کم.. چنانچہ کرہ ہوائی کی اوپری تہہ سے انہیں ہم تک پہنچنے کے لیے درکار وقت ان کی عمر سے کہیں زیادہ ہوتا ہے.. چنانچہ دلائل اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ ہماری زمین تک کبھی نہیں پہنچ پائیں گے، انہیں وہیں پیدا ہونا اور وہیں مرنا ہوگا.

جب سائنسدانوں نے زمان کی سست روی سے متعلق اضافیت کی مساوات استعمال کر کے ہماری زمین کی نسبت ان جسیموں کی رفتار ناپی تو انہوں نے پایا کہ ان کے لیے وقت سست پڑجاتا ہے اس لیے وہ زمین تک پہنچنے کے لیے زیادہ عرصہ زندہ رہتے ہیں کیونکہ ان کی رفتار روشنی کی رفتار کے قریب قریب ہی ہوتی ہے.

سائنسدان بھی ایٹمی ری ایکٹروں میں اس کا مشاہدہ کرتے ہیں، کوئی جسیمہ جتنا تیزی سے حرکت کرتا ہے وہ اس جسیمے سے زیادہ عرصہ زندہ رہتا ہے جو ساکن ہوتا ہے.. بالکل جس طرح نظریہ اضافیت پیشین گوئی کرتا ہے!

یہاں فہیم ہمیں ٹوکتے ہوئے کہتا ہے: ان ایٹمی دلیلوں سے ہمیں کیا لینا دینا؟ .. ہمیں تو اپنی ارد گرد کی دنیا سے ثبوت چاہیے.. ہم اپنی عمریں لمبی ہوتی دیکھنا چاہتے ہیں.. ہم چاہتے ہیں کہ وقت ہمارے لیے سست ہو نا کہ ایٹمی جسیموں کے لیے.

فہیم کو ہمارا جواب یہ ہے کہ: فی الوقت زمین پر ایسا کوئی انسان نہیں ہے کہ جو عمر کو دراز کرنے کا تجربہ کر سکے، ما سوائے اگر وہ ایک ایسا خلائی جہاز تیار کر سکے جو روشنی نما رفتار سے کائنات میں خطِ مستقیم پر سفر کر سکے مگر کبھی نا واپس آنے کے لیے.

مگر چونکہ ذرات کی حد تک اضافیت کی پیشین گوئیاں درست پائی گئی ہیں چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ شاید یہ کبھی خلیوں اور جاندار مخلوقات پر بھی صادق آسکیں.. اس کا انحصار آنے والی نسلوں کی نئی نئی دریافتوں پر ہے.. اس میں شک نہیں کہ آنے والی نسلیں اس نظریے کو ترقی دیں گی، جس طرح آئن سٹائن نے نیوٹن اور گلیلیو اور ان کے بعد دیگر بہت سے سائنسدانوں کے کام کو ترقی دی.

اب ہمیں ان تضادات کی طرف واپس چلنا چاہیے جو حرکت اور رفتار پر بات کرتے ہوئے ہمیں درپیش رہیں، اور کس طرح ہم نے حرکت اور رفتار کے قوانین کا اطلاق کیا جیسا کہ ہم اپنی روز مرہ زندگی میں کرتے ہیں (یعنی رفتاریں جمع یا منفی کرتے ہیں).. مگر اضافیت کی مساواتوں نے بتایا کہ یہ بالکل درست نہیں، اور ان میں ایسی غلطیاں ہیں جو شاید ہمیں اپنی زمینی عادتوں کی وجہ سے نظر نا آئیں، مگر غلطی اس وقت بہت خطرناک ہوگی جب ہمارا واسطہ تیز تر کائناتی رفتاروں سے پڑے گا.. یہاں ایک چھوٹی سی مثال کافی ہوگی.. پہلے پیش کردہ سابقہ یاداشتوں کو ہم تازہ کرتے ہیں.. اور فرض کرتے ہیں کہ فہیم کا خلائی جہاز خلاء میں خراب ہوکر رک گیا ہے، شبانہ اپنے خلائی جہاز کے ساتھ اس کے پیچھے 180 ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے آئی اور اس کے پاس سے گزر گئی، اگلے ہی لمحے فہیم کے سامنے شبانہ کا خلائی جہاز 180 ہزار میل طے کرگیا، فہیم شبانہ کو روشنی کے ذریعے سگنل بھیجتا ہے جو شبانہ کے جہاز کے پیچھے 186 ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے نکل پڑتا ہے، اس وقت اگر شبانہ روشنی کے سگنل کے سامنے 180 ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے اسے اپنی طرف آتے ہوئے دیکھے تو اسے سگنل کی روشنی اپنے پیچھے چھ ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے آتی ہوئی نظر نہیں آئے گی، بلکہ وہ اپنی اصل رفتار یعنی 186 ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے اسے اپنی طرف آتی ہوئی نظر آئے گی، حالانکہ وہ روشنی کے سامنے 180 ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کر رہی ہے.

جو اضافیت کو نہیں جانتے ان کے لیے یہاں رفتاروں کو منفی کرنا ایک منقطی اور معقول بات ہے، اور یہی تضاد کا راز ہے.. حالانکہ اصل میں کوئی تضاد نہیں ہے.. کیونکہ ہم نے شبانہ کی نسبت وقت کی سست روی کو اپنے حساب میں شامل ہی نہیں کیا جیسا کہ فہیم کو یا ہمیں زمین سے نظر آرہا ہے.. کیونکہ شبانہ کے وقت کا ایک سیکنڈ ہمارے زمینی سیکنڈ کے طول سے مختلف ہے.. اس کے ہاں زمان کے پھیلاؤ اسے یہ احساس دلاتا ہے کہ روشنی اس کی طرف اپنی عمومی رفتار سے ہی بڑھ رہی ہے.. جتنا وہ اس کے سامنے تیزی سے دوڑے گی، اتنا ہی اس کا وقت سست ہوتا جائے گا، اور ہمیں اپنے حساب کتاب میں زمان کے پھیلاؤ (یا سمٹاؤ) کی کمی پوری کرنی ہوگی تب ہمیں کسی قسم کا کوئی تضاد نظر نہیں آئے گا.

ہم سیکنڈ کو ایک معینہ زمانی دورانیہ سمجھتے ہیں، مگر ہم اسے مسافت یا اپنے جانے پہچانے ابعاد میں سے کوئی بعد بھی تو سمجھ سکتے ہیں، ہم کہہ سکتے ہیں کہ 186 ہزار میل کی مسافت ایک نوری سیکنڈ کے مساوی ہے، یا چاند ہم سے 1.3 نوری سیکنڈ دور ہے، اور ہم سے سب سے نزدیک ستارہ (سورج کے بعد) 4.3 نوری سال دور ہے (تقریباً 26 ملین ملین میل).. جیسے یہاں زمان کائناتی ابعاد میں سے ہی ایک بعد ہو، جو پھیلتا اور سکڑتا بھی ہے، مگر ہم اسے سکڑتا نہیں دیکھ سکتے جیسے ہم چوہے کو بلی کے سامنے سکڑتا دیکھتے ہیں، یا جیسے کوئی نیا کپڑا دھلنے کے بعد سکڑ جاتا ہے.. اب اگر وہ ہمیں نظر نہیں آتا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ موجود نہیں.. اور اس کے موجود ہونے کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ ہمیں اس طرح نظر آئے جس طرح ہم وقت کو اپنی گھڑیوں میں دیکھتے ہیں.. حالانکہ ہم نے معاملات کو سہل بنانے کے لیے ان کا (گھڑیوں کا) استعمال ضرور کیا ہے.

ہم چاہے جتنا بھی اپنی زبان میں اس موضوع پر بحث کر لیں، ہمارے گھومنے کا دائرہ ہمیشہ کھوکلا ہی رہے گا.. ہم وقت کو اس طرح کبھی نہیں سمجھ پائیں گے جس طرح ریاضیاتی مساواتیں ہمیں سمجھانا چاہتی ہیں.. اور اگر ریاضیاتی مساواتیں تخیل کی پرواز ہوتیں، یا ان کی کوئی بنیاد ہی نہ ہوتی، تو ہم پر کبھی بھی کائنات کے حقیقی راز اس طرح آشکار نہ ہوتے جس طرح کہ وہ اصل میں ہیں، نا کہ جس طرح ہمارا دماغ انہیں دیکھنا چاہتا ہے!

ہم تضادات میں پڑتے ہیں، اور اس کی وجہ قدرت کے ان قوانین کو قرار دیتے ہیں جو ہر فریم (ماحول) میں الگ ہیں.. نقص نا تو قوانین میں ہے اور نا ہی اس خوبصورت نظام میں جس پر کائنات چل رہی ہے، نقص دراصل ہم میں ہے، ہم کائنات کی تشریح کرتے ہوئے زمانی بعد کو ہمارے محسوس کردہ تینوں ابعاد سے الگ کردیتے ہیں، یہ تینوں ابعاد وہ خالی جگہ بناتے ہیں جس میں کہ اجرامِ فلکی تیر رہے ہیں اور ہمیں اپنے سامنے کائنات اپنی تمام تر گھرائی، وسعت اور سمتوں میں نظر آتی ہے، مگر ہم زمانی بعد کو نہیں سمجھ پاتے یا چوتھا بعد جیسا کہ اسے کہا جاتا ہے، ہم اسے تین ابعاد میں شامل کر کے یہ نہیں کہتے کہ ہم ایک ایسی کائنات میں رہتے ہیں جو کہ چار ابعادی ہے، جو کسی نہ کسی طرح ایک دوسرے میں ڈھلے ہوئے ہیں.. مگر ہمیں وہ حقیقت میں ایک ساتھ اکٹھے نظر نہیں آتے.. اور اگر وہ ہمیں نظر آجائیں تو...

تو چلیے اس پر اگلے باب میں گفتگو کر کے اپنے موضوع کو ختم کرتے ہیں.